﴿ شخصیت کے مختلف پہلو

انسان کی زندگی میں کئی سارے مثبت اورمنفی پہلو ہوتے ہیں بعض اوقات مثبت پہلو منفی پہلوپر غالب ہوتے ہیں اورکبھی منفی پہلو مثبت پہلوؤں پرغالب آجاتے ہیں لیکن اس دنیا میں ایسےانسان بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی کامطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان کی زندگی میں منفی پہلوؤں کا سرے سے وجود نہیں ہے یا ان کے زندگی کے مثبت پہلوؤں نے منفی پہلوؤں کو چھپالیا ہے۔ ان ہی اشخاص میں سے ایک شخصیت ڈاکٹرمحمود احمد غازی رحمہ اللہ کی ہے۔

ڈاکٹرمحمود احمد غازی کی زندگی بڑی جدوجہد اورمصروفیت سے عبارت ہے کیونکہ علم کو آپ نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاتھا اوراس کی گہرائی میں اترگئے تھے اس لیے ذہن وقلب میں کبھی منفی پہلوکا خیال یاآیانہیں یا اس کودبالیاتھا۔ آپ کو جب بھی کسی نے پایاتوآپ ہمیشہ کسی نہ کسی سوچ میں ۔

بحیثیت مدرس:

تدریس کاپیشہ ایک عظیم پیشہ ہے خود رسول اللہ ﷺ نے

ڈاکٹرغازی اپنی عملی زندگی میں درس وتدریس سے وابستہ رہے ۔ عمل تدریس کاآغاز سترہ سال کی عمر میں مدرسہ فرقانیہ راولپنڈی سے کیا، جہاں آپ عربی کے استاد مقررہوئے علاوہ ازیں مدرسہ ملیہ اسلامیہ راولپنڈی میں درس وتدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے اوراسی دوران لاہور سے مولاناگلزار احمد مظاہری نے آپ کو علماء اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے عہدے کی پیشکش کی۔ غازی صاحب نے خود بتایا کہ وہ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کے درمیان افہام وتفہیم کے قائل ہیں مگر باوجود اس کے چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر یہ پیشکش قبول نہ کی۔ تب سے آپ اکی درس وتدریس کا مرکز راولپنڈی اوراسلام آباد ہی رہا۔؂[1]

مدرسہ ملیہ اسلامیہ میں تدریسی فرائض کی بجاآوری کے دوران آپ مختلف لائبریریوں سے مستفید ہوئے۔ مصری شاعر شیخ صاوی شعلان سے آپ کی ملاقات ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد کی لائبریری میں ہوئی۔ شیخ صاوی شعلان مصر کے مشہور شاعر ہیں ، اورحکومت پاکستان کی درخواست پر کلام اقبال کی تقریب کے لیے تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹرغازی کوکلام اقبال سے ذاتی دلچسپی تھی، لہذا مصری شاعر کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے۔ اس کام میں مشغولی کی وجہ سے مدرسہ ملیہ میں تدریس سے مستعفی ہوگئے ۔کلام اقبال پر تفصیلات جمع کرنے اورمطالعہ کی گہرائی نے آپ میں عربی زبان کا ذوق پیداکیا۔ عربی میں مہارت کے سبب ادارہ تحقیقات اسلامی میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی جسے آپ نے قبول کیااوریوں ادارہ میں خدمات سرانجام دینا شروع کیں ۔؂[2]

تدریس کے سلسلے میں ڈاکٹرصاحب اسلامی یونیورسٹی سے ایک طویل عرصہ تک منسلک رہے۔ اسلامی یونیورسٹی میں جب فیکلٹی آف شریعہ اینڈ لاء کا آغاز ہوا تو طلبہ کو پڑھانے کے لیے ایسے اساتذہ درکار تھے، جونصاب پر عبوررکھتے ہوں اوریونیورسٹی کے ماحول اورنظام سے بھی واقف ہوں ۔ اس مقصد کے لیے ادارہ تحقیقات اسلامی کے جن اسکالرز کاانتخاب کیا گیا، ان میں ڈاکٹرغازی بھی شامل تھے اسی دوران شریعہ اکیڈمی، اسلامی یونیورسٹی میں وکلاء اورججز کے لیے ایک تربیتی پروگرام کاآغاز ہوا۔ ڈاکٹرصاحب اس پروگرام کے بھی روح رواں تھے۔ آپ کے لیکچرز کا خصوصی انتظام کیاگیا۔ شریعہ اکیڈمی میں آپ کی شہرت کا سبب "الاحکام السلطانیۃ" کی تدریس تھی اس کے علاوہ دعوہ اکیڈمی جواسلامی یونیورسٹی کاایک ذیلی ادارہ ہے ،میں بھی درس وتدریس کی خدمات سرانجام دیں ۔

ڈاکٹرموصوف بنیادی طورپر اسلامی یونیورسٹی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ لیکن باقی جامعات کے طلبہ اوراساتذہ بھی آپ سے استفادہ کرتے۔ مختلف جامعات میں منعقد ہونے والے سیمینار اورورکشاپوں میں آپ شرکت کرتے ،اپنے علمی اورتحقیقی خطبات سے سامعین کوقیمتی معلومات فراہم کرتے۔ایم فل اورپی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے خصوصی خدمات سرانجام دیں ، پاکستانی جامعات میں سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے خاص لگاؤ تھا یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بھی رہے۔

٢٠٠٦ء میں آپ کی صدارت کی مدت مکمل ہوئی ۔ اسی دوران آپ کو قطریونیورسٹی کے شعبہ معارف اسلامیہ کی طرف سے کام کرنے کی پیشکش ہوئی جو آپ نے قبول کرلی اور یوں قطریونیورسٹی میں آپ کی خدمات کاآغاز ہوا۔ قطرمیں رہ کر ڈاکٹرغازی کواپنی خالص غذامیسر آئی، آپ معاشرتی مصروفیات سے آزاد ہوگئے،آپ کو خلوت ملی، تنہائی ملی، طلبہ اوراسکالرز ملے اوربہت وقیع لائبریری ملی۔ ڈاکٹرصاحب نے قطرکے قیام کوبہت مفید بنایا اوران اوقات ولمحات سے خوب استفادہ کیا، آپ بتاتے تھے کہ قطر میں ان کو نئی زندگی اوربہت سارے نئے جہات سامنے آئے؂[3] ،اسی طرح ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں تقریباً ٢ سال تدریسی خدمات سرانجام دیں ۔

تحقیق وتعارف

ڈاکٹرغازی صاحب بنیادی طورپربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسرتھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ اسلامی یونیورسٹی تک محدود نہ تھے بلکہ تمام جامعات میں علوم اسلامیہ کے طلبہ آپ ؒ سے مستفید ہوتے تھے۔آپ صحیح معنوں میں علوم اسلامیہ کے پروفیسرتھے۔ جس ادارہ اور جس یونیورسٹی سے آپ کولیکچر،سیمینار اورکانفرنس میں شرکت کی دعوت ملتی آپ فوراً تیار ہوجاتے۔ آپ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مطالبہ بالکل نہیں کرتے تھے۔ لیکچرز دینے کا معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ رہائش ،خوراک اورسفر کے ضمن میں کوئی تکلف ان کے ہاں نہیں تھا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا بہت خصوصی تعلق تھا۔ آپ اس کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبررہے۔تقریباً ہر سال ربیع الاول کے مہینہ میں سیرت کے موضوع پر لیکچردینے کے لیے آپ تشریف لاتے تھے۔ کلیہ عربی و علوم اسلامیہ کو پہلے دن سے آپؒ کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ کے لیے یونیورسٹی کیمپس میں مستقل بلاک کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس کے افتتاح کے لیے ڈاکٹرانوار حسین صدیقی نے ڈاکٹرغازی صاحب کو دعوت دی۔ ڈاکٹرغازی صاحبؒ نےبلاک کاافتتاح کیا اور اس موقع پر بہت پرمغز گفتگوفرمائی۔ آپؒ کہتے تھے کہ:

"یہ یونیورسٹی علامہ اقبال کی طرف منسوب ہے اورآپؒ کو علامہ اقبال سے قلبی اورجذباتی عقیدت ہے اس لیے یہاں آنے کواپنے لیے سعادت اورباعثِ فرحت سمجھتے ہیں ۔"

کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ میں جب بھی ایم فل اورپی ایچ ڈی پروگرام کی ورکشاپ ہوتی ہم آپ کو دعوت دیتے تو آپ اپنی دیگرمصروفیات چھوڑکرتشریف لاتے اورگھنٹوں طلبہ کے ساتھ بیٹھ کران کے خاکہائے تحقیق پر گفتگوفرماتے۔

ڈاکٹرغازی صاحبؒ"معارف اسلامی" کی مجلس مشاورت کے ممبررہے اورمحض ممبر نہیں رہے بلکہ بہت Active Memberرہے۔ "معارف" کا ہر عدد آپؒ بڑے التزام کے ساتھ پڑھتے تھے اوربتاتے تھے کہ انہوں نے "معارف" کے سارے مقالات پڑھ لیے ہیں ۔

کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ کے کئی اسکالرز نے ڈاکٹرغازی صاحب کی نگرانی میں ایم فل اورپی ایچ ڈی کے مقالات مرتب کیے۔ شاگردوں کے ساتھ آپ کارویہ غیرمعمولی مشفقانہ ہوتاتھا۔ Viva-Voce کے دوران زیربحث مقالہ کے تمام پہلوؤں کوبڑی تفصیل کے ساتھ اجاگر کرتے تھے اورطلبہ کو رہنمائی فراہم کرتے تھے۔ ایک موقع پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ایک اسکالر کے مناقشہ مین ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ اسکالر نے ڈاکٹرغازی صاحب کے اشراف میں مقالہ لکھاتھا۔ میں بیرونی ممتحن کی حیثیت سے تھا۔ جب مناقشہ مکمل ہوا توڈاکٹر صاحب نے ان تمام سوالات پر ایک ایک کرکے بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگوفرمائی جو اس اسکالر سے کیے گئے تھے اورفرمایا کہ:

"اسکالر میں ابھی اتنی پختگی نہیں آئی کہ موضوع کے سارے پہلوؤں کو سمجھ سکے البتہ اپنی سطح کے مطابق اس نے محنت کرلی ہے اورامید ہے کہ مستقبل میں مزید محنت کرے گا۔"

 

بحیثیت منتظم:

ڈاکٹرغازی نے ١٩٩٤ء تا ٢٠٠٤ء اسلامی یونیورسٹی میں بطورنائب صدر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں ۔ مختلف امورمیں غیرمعمولی دلچسپی کے باعث نائب صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود تمام انتظامی امور آپ کی حسب منشاء طے پائے، ڈاکٹرحسین حامد حسان کے بعد ڈاکٹراحمد العسال یونیورسٹی کے قائم مقام صدر ہوئے لیکن اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث ملکی و غیرملکی دوروں پر ہوتے ، چنانچہ یونیورسٹی کے تمام معاملات عملاً آپ کے زیرنگرانی تھے۔

٢٠٠٤ء میں ڈاکٹرصاحب کو اسلامی یونیورسٹی کا صدر چناگیا، آپ نے اپنی شبانہ روز محنت سے یہ ثابت کیاکہ وہ واقعی اس عہدے کے لیے موزوں تھے، یونیورسٹی کے مالیاتی نظام کو شفاف بنایا اوراس میں بہتری کے لیے عملی اقدامات کیے، مختلف کلیات کو بہتر کیا، کلیہ شریعہ اینڈ لاء کے امور کو اپنی ذاتی نگرانی میں رکھا اورطلبہ کے لیے اسکالرشپ کاآغاز کیا اس کے علاوہ یونیورسٹی کی عمارت کی تکمیل میں آپ نے فعال کرداراداکیا۔

یونیورسٹی کے انتظام وانصرام میں امانت ودیانت اورتحمل مزاجی آپ کا خاصہ تھا۔انتظامی ومالیاتی امورمیں انتہائی احتیاط سے کام لیتے۔

٢٠٠٤ء میں ڈاکٹرغازی صاحب کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے بطورِ صدرمنتخب کرلیا۔ یہ وہ دورتھا جب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی مالیاتی بحران کاشکارتھی اور یونیورسٹی کے کئی یونٹس عملاً معطل ہوکررہ گئے گے۔ ڈاکٹرغازی صاحبؒ نے سب سے پہلے یونیورسٹی کے مالیاتی معاملات پر توجہ دی اورحکومتِ وقت کے ساتھ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے یونیورسٹی کے فنڈز میں معقول اضافہ کرایا۔ علاوہ ازیں بیرون ملک کے کئی اداروں کے ساتھ رابطہ کرکے یونیورسٹی کومالی طورپرمستحکم کردیا۔ آپ نے یونیورسٹی کے بنیادی کلیات پر توجہ دی۔ کلیہ شریعہ اینڈ لاء کے امورومعاملات کوخوددیکھا۔ اس کی فیکلٹی کوبڑھایا اوراقسام میں اضافہ کیا۔ کلیہ اصول الدین میں طلبہ کے لیے اسکالرشپ کااہتمام کیا اوربہت سارے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے کلیہ اصول الدین دوبارہ زندہ ہوگیا اورکلاسیں طلبہ سے بھرگئیں ۔ کلیہ عربی کے اقسام میں منطقی ترتیب کے مطابق اضافہ کیا۔ آپ کہاکرتے تھے کہ یہ تینوں کلیات اسلامی یونیورسٹی کی جان ہیں ۔ یہ کلیات مخدوم ہیں اورباقی کلیات خادم ہیں ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی عمارت ڈاکٹرغازی کی یادگار ہے۔ اس عمارت کی تعمیر پر آپ نے بہت خاص توجہ دی۔ آپ کہتے تھے کہ حالات کاکچھ پتہ نہیں چلتا۔ اس لیے عمارت کی تعمیر میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔جتنافنڈ دستیاب ہے اسے استعمال کرلینا چاہیے۔ فنڈز کے استعمال میں آپؒ اگرچہ حددرجہ محتاط تھے لیکن جہاں واقعی ضرورت ہوتی تھی وہاں خرچ کرتے تھے۔ جب آپ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے توہرسال اکیڈمی کے بجٹ سے ایک بڑی معقول رقم بچاتے تھے۔ آپؒ کا منصوبہ تھا کہ جب یہ فنڈ دس کروڑ تک پہنچ جائے تو اس کی بنیاد پر دعوۃ ٹرسٹ قائم کریں گے اوراس طرح دعوۃ اکیڈمی اپنے پروگراموں کے چلانے میں گورنمنٹ کے فنڈز کی محتاج نہیں رہے گی۔ اس منصوبہ کے تحت آپ نے مطلوبہ رقم کا سترفیصدحصہ جمع کرلیاتھا اوراگرآپ کودعوۃ اکیڈمی میں مزید دوسال رہنے کا موقع مل جاتا تودعوہ ٹرسٹ قائم ہوجاتا۔ لیکن ایسانہیں ہوسکا بعد میں وہ رقم یونیورسٹی کے دیگرمدات میں استعمال کی گئی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدرکی حیثیت سے آپؒ نے یونیورسٹی کے ظاہری اورمعنوی استحکام کے لیے کئی اقدامات کیے اوریونیورسٹی کے تشخص کونمایاں کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اب حالات ایسے نہ تھے کہ یونیورسٹی کا اصل تشخص کماحقہ برقراررہے۔ ٢٠٠٦ء میں آپ کے منصب کی مدت پوری ہوئی تو اس میں تمدید نہیں کی گئی۔

١٩٩١ء میں آپ کو دعوۃ اکیڈمی کے ساتھ ساتھ شریعہ اکیڈمی کے مدیر عام کی حیثیت سے فرائض سونپے گئے۔ اس اکیڈمی کے ساتھ آپ کا انسلاک اس کے آغاز ہی سے تھا۔ ڈاکٹرصاحبؒ نے شریعہ اکیڈمی میں کئی شعبے قائم کیے۔ اس کی لائبریری پر بطورِ خاص توجہ دی اورفقہ واصولِ فقہ کے علاوہ مروجہ قوانین سے متعلق Basic Sources اورمراجع سے اسے مزین کروایا۔ اکیڈمی سے مطبوعات کا سلسلہ جاری کرایا۔ آپؒ کی خواہش تھی کہ عربی میں جتنی بھی تفاسیرِ احکام ہیں ان کا مروجہ اردومیں ترجمہ کرایا جائے اوراکیڈمی کی طرف سے انہیں شائع کرایاجائے۔ اس ضمن میں امام ابوبکرجصاص کی "آیات الاحکام" اورامام قرطبی کی "الجامع لایات الاحکام" پر آپ کی خصوصی نظرتھی۔ اس مقصد کے لیے آپ نے فنڈز کا اہتمام کرلیاتھا اورکام کا آغاز بھی ہوگیاتھا لیکن بوجوہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ تفسیر قرطبی کی پہلی جلد بعد میں شریعہ اکیڈمی کی طرف سے چھپ گئی ہے۔ آیات الاحکام کاترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے لیکن جو خاکہ ڈاکٹرصاحب کے ذہن میں تھا اس کے مطابق یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔

١٩٩٤ء سے ٢٠٠٤ء تک ڈاکٹرغازی صاحب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر رہے۔ بظاہر آپ نائب صدر تھے لیکن حقیقی معنوں میں یونیورسٹی کے تمام امور آپؒ کے حسب منشاء جلتے تھے۔ اساتذہ اورطلبہ کے جتنے مسائل ہوتے تھے وہ آپ حل کرتے تھے اور آپ کا دفتر ہر وقت ایک جمگھٹے کا منظرپیش کرتاتھا۔ ڈاکٹرحسین حامد حسان کے بعد ڈاکٹر احمد العسال یونیورسٹی کے قائم مقام صدربنے۔ ڈاکٹرعسال مزاجا ًادارتی امور سے کوسوں دور تھے اوراکثر و بیشتر بیرون ملک رہتے تھے۔ اس لیے یونیورسٹی زیادہ تر ڈاکٹرغازی صاحب کے ذمہ رہتی تھی۔ ڈاکٹراحمد العسال (مرحوم) کے بعد جب ڈاکٹرحسن شافعی یونیورسٹی کے رئیس مقرر ہوئے توانہیں ڈاکٹر غازی صاحبؒ پرنہ صرف یہ کہ اعتماد تھا بلکہ سوفیصد انحصارتھا۔

١٩٩٩ء میں ڈاکٹر غازی صاحبؒ کی مصروفیات میں ایک اوراہم اضافہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد جب "قومی سلامتی کونسل" قائم کی تو آپ کو اس کونسل کا رکن منتخب کیا۔ اس کونسل کی چونکہ بہت اہم ذمہ داریاں تھیں اس لیے ڈاکٹر غازی صاحب انتہائی مصروف ہوگئے۔قومی سلامتی کونسل کے رکن ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹرصاحب نے بہت اہم اورمفید کام کیے۔ اب جب ہم اس وقت کی صورتِ ھال کاتجزیہ کرتے ہیں توہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹرغازی صاحبؒ نے کونسل کی رکنیت کیوں قبول کی تھی؟ قومی سلامتی کونسل کی رکنیت قبول کرکے آپؒ نے اس Vision کو استعمال کیا۔ جو اللہ جل شانہ نے آپ کو عطافرمایاتھا۔ بعض حضرات ڈاکٹرغازی صاحب پر اعتراض کرتے تھے کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے قائم کردہ قومی سلامتی کونسل کی رکنیت قبول کرکے جنرل موصوف کے ہاتھ مضبوط کیے۔ ڈاکٹر صاحب کہاکرتے تھے کہ جنرل پرویز کے ہاتھ ویسے مضبوط تھے ۔ انہیں ہمارے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم نے صورتِ حال کوبڑ ی تفصیل کے ساتھ دیکھ کر اس کونسل کی رکنیت اختیار کی تھی۔

٢٠٠٠ء میں جنرل پرویز مشرف نے امورِمملکت چلانے کے لیے وزراء پرمشتمل ایک کابینہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا توڈاکٹر غازی صاحب کو مذہبی امور کی وزارت کے لیے منتخب کرلیا۔ ڈاکٹرصاحب نے اگست ٢٠٠٠ء میں وزارتِ مذہبی امور کا قلم دان سنبھالا اوردو سال تک اس وزارت کے ساتھ منسلک رہے۔ وفاقی وزیرکی حیثیت سے ڈاکٹرغازی صاحب نے کئی اقدامات کیے۔ آپ کی خواہش تھی کہ زکوٰۃ کی وہ رقوم جو اربوں کی مقدار میں جمع ہیں انہیں Invest کیاجائے اوراس طریقے سے Invest کیاجائے کہ اس کا فائدہ ملک کے غریب طبقہ کوہو۔ اس مقصد کے لیے آپ نے بہت تفصیل کے ساتھ پلاننگ کی تھی۔ لیکن ہمارے ملک میں چونکہ مفید منصوبہ کے اجراء میں کئی اژدہا حائل ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر غازی صاحب کا واسطہ بھی بڑے بڑے اژدہاؤں سے پڑا اورانہیں اپنی پلاننگ پر عمل کرنے کی فرصت نہیں دی گئی۔

ڈاکٹرصاحب ١٩٨٨ء کے بعد مسلسل انتظام و انصرام کے امورسے بھی منسلک رہے ۔ انتظامی معاملات میں آپؒ حددرجہ محتاط رہتے تھے۔ آپؒ نے ہمیں کئی بار بتایا کہ انتظامی امورمیں وہ دواصولوں کوپیش نظر رکھتے ہیں ۔ ایک امانت ودیانت اوردوسراتحمل وبرداشت۔

امانت و دیانت کے لحاظ سے آپ ضرب المثل تھے۔ تحمل وبرداشت کاملکہ بھی آپ کا غضب کاتھا۔ ایک مرتبہ اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ نے آپ کے دفترکا محاصرہ کرلیا اور صبح سے شام تک آپ کے دفتر کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹرغازی ؒ صاحب سکوت اورخاموسی کے ساتھ دفتر میں بیٹھے رہے۔ عشاء کے بعد جب طلبہ نے محاصرہ اٹھایا تو آپؒ دفتر سے نکل آئے۔ پورادن یونیورسٹی کی انتظامیہ کو نہیں بتایا ۔ حالانکہ ان دوں آپ نائب رئیس تھے اورصاحبِ اختیار تھے۔ ہمیں اس واقعہ کاعلم ہوا توبہت دکھ ہوا۔

غازی صاحب بنیادی طورپر یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اورپروفیسر کے ساتھ طلبہ کا یہ سلوک بہت ناپسندیدہ تھا۔ ہم نے آپؒ کے دفترجاکر ملاقات کی اوراس واقعہ پر افسوس کا اظہارکیا۔ دورانِ گفتگو ہمارے ایک ساتھی نے کہا:

"ڈاکٹر صاحب !آپ کم از کم حافظ بشیر صاحب کو اطلاع کردیتے وہ آجاتے اوران طلبہ کو سمجھا کراٹھادیتے۔"

ڈاکٹرغازی صاحب نے فرمایا:

"مسئلہ طلبہ کانہیں تھا۔ مسئلہ ان حضرات کا تھا جو ان طلبہ کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ اگرمیں مزاحمت کا راستہ اختیار کرتاتو ان کا مقصد پورا ہوجاتا۔ اخبارات میں سرخیاں لگ جاتیں یونیورسٹی کا Image خراب ہوتا اورمجھے بھی سرخیوں کازینت بنایاجاتا۔ فرمایا:

میں توفائدہ میں رہا ۔ وہ لوگ باہر بیٹھے رہے میں اندربیٹھ کر اپنا کام کرتارہا۔ پڑھتا رہا۔ لکھتا رہا۔ عبادت کرتارہا۔میرا رویہ مثبت رہا ان کا منفی رہا۔ اب سارے لوگ ان کوبرابھلا کہتے ہیں ۔ جولوگ ان طلبہ کی Back پر تھے وہ اپنے مقصد میں ناکام رہ گئے۔"

حکومتی عہدہ وذمہ داریاں :

٢٠٠٦ء میں جب ڈاکٹر غازی صاحب کی مدت صدارت پوری ہوگئی تو آپ کو کلیہ معارفِ اسلامیہ قطر کی طرف سے Offer آئی۔ آپ مزاجاً اسلام آباد کوچھوڑکرنہیں جاناچاہتے تھے۔ یہاں کے کئی اداروں کے ساتھ آپ کا دیرینہ انسلاک اوروابستگی تھی۔ لیکن قسمت میں چونکہ قطرکا سفر اور وہاں کا قیام لکھاہواتھا اس لیے آپؒ نے بالآخر کلیہ معارفِ اسلامیہ کی Offer کو Accept کرلیا اور اسلام آباد کوخیرآباد کہہ دیا قطرمیں رہ کرڈاکٹرغازی صاحبؒ کو اپنی خالص غذامیسر آئی، آپ معاشرتی مصروفیات سے آزاد ہوگئے،آپ کو خلوت ملی، تنہائی ملی، طلبہ اوراسکالرز ملے اوربہت وقیع لائبریری ملی۔ ڈاکٹرصاحب نے قطرکے قیام کوبہت مفید بنایا اوران اوقات ولمحات سے خوب استفادہ کیا، آپ بتاتے تھے کہ قطر میں ان کو نئی زندگی اوربہت سارے نئے جہات سامنے آئے ۔

٢٠١٠ء کے اوائل میں آپ پاکستان تشریف لائے۔ یہاں اگرچہ آپؒ کی ذاتی مصروفیات تھیں لین اس کے باوجود کئی جامعات نے جب آپؒ کو دعوت دی تو آپ ان کے پروگراموں میں شریک ہوئے۔ جب قطر واپس جانے کی تیاریوں میں تھے تووفاقی شرعی عدالت میں بطورِ جج آپ کا تقرر کیاگیا۔ اب آپؒ کے سامنے دوChoices تھے۔ یا توقطرواپس جاکر بہت ساری مراعات ،مفادات اورتسہیلات کے ساتھ زندگی گزاریں یا اسلام آباد میں رہ کر اپنے گھرمیں عام معمول کی زندگی گزاریں ۔ ڈاکٹرصاحب نے اپنے ملک کی خدمت کو ترجیح دیتے ہوئے کلیہ معارفِ اسلامیہ ،قطرکی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اوروفاقی شرعی عدالت کو بطور جج Join کیا۔ ڈاکٹرغازی صاحب ؒ اس سے پہلے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ کے جج رہ چکے تھے اوراسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہے تھے ان اداروں کی ساری ترتیب وترکیب اورتخطیط میں آپ شامل رہے تھے۔ وفاقی شرعی عدالت میں بطورجج آنے کے بعد آپؒ کی خواہش تھی کہ اب محض تحقیق کے مجال تک اپنے آپ کو محدودرکھیں اوروہ بہت سارے منصوبے جو آپ کے ذہن میں تھےان پر کام کریں ۔

ماہرتعلیم:

دینی مدارس کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی ایک ذاتی سوچ تھی۔ آپؒ کی یہ سوچ دینی مدارس اورکلیات و جامعات کے ساتھ ایک طویل عرصہ کے انسلاک کی پیداوارتھی۔ آپؒ چاہتے تھے کہ دینی مدارس کے نظام پر نظرثانی کی جائے اورنصاب میں ترمیم وتخفیف کی جائے۔ دینی مدارس کی تعداد میں منطقی ترتیب پیداکی جائے۔ ہر صوبے میں ایک مرکزی جامعہ ہو اور باقی مدارس اس کے ساتھ منسلک ہوں ۔ تمام مدارس میں دورہ حدیث تک درجات نہ ہوں بلکہ بعض مدارس میں ابتدائی درجات ہوں ۔ بعض متوسطہ اورمحض ان مدارس میں موقوف علیہ اوردورہ حدیث کا درجہ ہو۔ جن کے پاس قابل اساتذہ اورمناسب وسائل موجود ہوں ۔

٢٠٠١ء میں جب ڈاکٹر غازی صاحبؒ مدرسہ تعلیم الاسلام (تبلیغی کالج) کراچی کی تقریبات میں ہمارے ساتھ تشریف لے گئے تو وہاں کے علماء اورمہتممین مدارس کے سامنے آپؒ نے اپنامنصوبہ بڑی تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ کی خواہش تھی کہ وزارتِ مذہبی امور کا فنڈادھر ادھر خرچ ہونے کے بجائے دینی مدارس کی Up gradation پر خرچ ہو۔ لیکن یہ منصوبہ بھی بہت ساری حائل رکاوٹوں کی بناء پر کامیاب نہ ہوسکا۔

بحیثیت فقیہ:

دین اسلام کسی ایک ملک، قوم یا زمانے کے لیے مخصوص نہیں ۔ اسلام تمام انسانیت کا دین ہے اور قرآن کریم انسانیت کے اسی دین کا ترجمان ہے۔ قرآن کی تعلیم عالمگیر اورہمہ گیر ہے۔ جتنی کہ خود انسانیت ہے۔ مشیت ایزدی کاظہورانسانیت کے تقاضوں کی صورت میں ہی ہوتاہے۔ قرآن چونکہ انسانیت کے انہی تقاضوں کا آئینہ دار ہے۔ اس لیے وہ خدا کا قانون ہے۔

دین اسلام کی اس آفاقیت کوبرقرار رکھنے کے لیے علماء محققین اورفقہاء نے اہم کردار اداکیا ہے اوراب بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ بدلتے ہوئے دورکے تقاضوں کے مطابق فقہ کی تدوین کی جائے تاکہ عصری تقاضوں کے مطابق معاشرے کی تشکیل کی جائے اورمسلمانوں کی مجموعی ترقی کا سامان ہوسکے۔ فقہ کیا ہے؟ فقہ نے عرب کے رسم و رواج پر کیا اثر چھوڑا ؟ عہد نبوی ﷺ میں فقہ کی کیا حیثیت رہی ؟ فقہ کے بنیادی ماخذ کون سے ہیں ؟ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

لغوی تعریف:

"لفظ فقہ عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا لغوی مادہ ف۔ق۔ھ ہے۔ اس مادہ کے معنی موضوع لہ یہ ہیں ۔ سمجھ بوجھ اورکسی متکلم کے معنی مقصود کی تہہ تک پہنچ کر بات کوپوری طرح سمجھ لینا۔ کسی لفظ کے معنی موضوع لہ سے ہٹاکر یا ترقی دے کر اسے معنی مجاز ، استعارہ یا معنی منقول عرفی اور معنی منقول فنی میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔ اس وقت اس کے معنی مقصود وہی ہوتے ہیں جس کے لیے یہ لفظ استعمال کیاگیاہو۔"؂[4]

"فقہ جس کے لغوی معنی سمجھ اوردریافت کرنے کے ہیں لیکن دین اسلام میں اس علم کو کہتے ہیں جس یں زمانے اورحالات کے اعتبار سے اموردنیاوی، یعنی مناکحات ،معاملات اورعقوبات سے بحث کی جاتی ہے۔ گویا فقہ ایک ایساعلم ہے جو انسان کے اعمال وافعال کی آزادی کی وسعت اورحدود سے بحث کرتاہے۔ یعنی بالفاظ دیگرقانون کامترادف ہے۔

اس کے لغوی معنی مسطرکے ہیں ۔ لیکن اصطلاحاً "باہمی سلوک اورروابط کے مجموعہ اقدار" کا نام قانون ہے۔"؂[5]

فقہ کے معنی پہ اظہار خیال کرتے ہوئے غلام احمد پرویز لکھتے ہیں کہ:

"غوروفکر کرنا یاکسی چیز کو سمجھ لینا ہیں عام طورپر اس لفظ کا استعمال اس قسم کے غوروفکر کے لیے ہوتاہے جس میں انسان محسوس مشاہدات سے مجرد حقائق کے متعلق کسی نتیجہ پرپہنچے۔ قرآن کریم میں علم و عقل ،غوروفکر اورتفقہ کی بڑی تاکید آئی ہے۔۔۔۔اب ہمارے ہاں فقہ کا لفظ اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتاہے اوراس سے مراد ہوتی ہے وہ احکام شریعت جن پر کسی خاص امام کے پیروعمل پیراہوتے ہیں ۔ یہ احکام ان ائمہ کے مرتب کردہ ہوتے ہیں ۔ ان پر عمل کرنے والوں کے تفقہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا وہ ان پر تقلیداً عمل کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اس قسم کی فقہ کا کوئی ذکرنہیں ۔"؂[6]

قرآن حکیم میں لفظ فقہ ثلاثی مجرد کے مختلف صیغوں میں باربار اورباب تفعل میں بھی ایک بارموجود ہے ۔جملہ بیس بارآیاہے۔ جس کی کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں ۔

فَمَالِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا؂[7]

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ؂[8]

بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا؂[9]

قرآن مجید میں یہ مادہ جہاں کہیں آیاہے اپنے اصل معنی موضوع لہ کے لیے آیاہے۔ کہیں مجاز،استعارہ یا منقول الیہ معنی کے لیے نہیں آیا ہے۔ ہر جگہ اس کے ایک ہی معنی مقصود ہیں ۔ یعنی بات کو اچھی طرح سمجھنا اوربات کی تہہ کو پہنچ کر معنی مقصود کواچھی طرح سمجھ لینا۔

اصطلاحی تعریف:

علوم اسلامیہ کی اصطلاح میں علم الفقہ کہتے ہیں اس فن کو جس میں کسی صورت واقعہ پر اللہ و رسول کے حکم یا اس سے مستفاد کسی حکم شرعی کوبیان کرکے اس کی تطبیق صورت واقعہ پر کی جاتی ہے اورجو عالم یہ خدمت انجام دیتاہے اسے اصطلاحا ًفقیہ کہاجاتاہے۔

فقہ کی اصطلاحی تعریف کتب فقہ میں کچھ یوں نقل کی گئی ہے کہ:

"المصطلح فعرفوہ بالعلم الاحکام الشرعیۃ الفرعیۃ العلمیۃ من حیث استنباطھا من ادلتھا التفصیلیۃ"؂[10]

"اصطلاح میں فقہ کہتے ہیں احکام شرعیہ ،فرعیہ،عملیہ کے سمجھنے اورجاننے کوباعتبار اس کے استنباط کے ادلہ تفصیلیہ سے۔"

فقہ کی کتابوں میں ایسے بہت سارے احکامات ملتے ہیں ، جن کے لیے کوئی صریح حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا ،اورنہ سنت رسول میں کوئی حکم ملتاہے۔ اس وقت ایک فقیہ پوری دیانتداری سے اس کی سعی بلیغ کرتا ہے کہ صحابہ﷢ کا اس سلسلہ میں کوئی تعامل مل جائے اورانفرادی عمل نہ ہو، بلکہ اجماعی عمل قیاس ہمیشہ کسی ایسے واقعہ اورحکم پر کیاجاتاہے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو۔ اس طرح ہر فقیہ کی یہ مخلصانہ اوردیانتدارنہ کوشش ہوتی ہے کہ اللہ ورسول کاکوئی حکم نہ ٹوٹے ،اورصورت واقعہ جو پیش آئی ہے اس کا کوئی حل کتاب اللہ و سنت رسول اللہﷺ کے بموجب نکل آئے۔

ذیل میں فقہ اسلامی کے مختلف ادوار پر تفصیل پیش خدمت ہے۔

عہد نبوی ﷺ میں فقہ:

دین کی سمجھ بوجھ پیداکرنے اورمعاشرے کی ہر طرح کی رہنمائی وحی کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دورمیں فرمائی۔قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے:

وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ؂[11]

ترجمہ: اوروہ کتاب اورحکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔

آپ ﷺ نے ایک معلم کی حیثیت سے معاشرے کی زندگی کے جملہ مسائل میں رہنمائی فرمائی۔ اسی مقصد کے لیے آپ ﷺ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے ساتھ ہی ایک ادارہ صفہ کے نام سے قائم کیا تاکہ دین کے مختلف شعبہ جات کے حوالے سے تعلیم وتربیت کااہتمام کیاجائے۔

"صفہ مسجد نبوی کا ایک مشہور تعلیمی ادارہ تھا۔ اگرچہ اس ادارے کا ایک استعمال یہ بھی تھا کہ نومسلموں میں جن لوگوں کے رہنے سہنے کا نظم نہ تھا ان کی وہ سکونت گاہ تھی۔ لیکن اس سے زیادہ جو کام اس ادارہ سے عہد نبوت میں لیاجاتاتھا وہ زیادہ تر دین کے مختلف شعبوں کی تعلیم وتعلم ہی کا کام تھا ،روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ عہد نبوت کی اس تعلیم گاہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد بیک وقت کبھی کبھی اسی پچاسی تک پہنچ جاتی تھی۔"؂[12]

اسی ادارے سے جہاں معاشرے کے عام افراد کوبنیادی دینی تعلیمات سے بہرہ مند کیاجاتاتھا وہاں "مختلف رجحانات اورفطری مناسبتوں کااندازہ کرکے مخصصین کی ایک جماعت بھی صحابہ میں آنحضرت ﷺ نے تیارکی تھی۔"؂[13]

"فقہ اسلامی کا دور اول عہد رسالت اورعہد صحابہ ﷢ پر مشتمل ہے۔اس دور کے ابتدائی حصے میں خود صاحب وحی علیہ الصلوٰۃ والسلام موجود تھے، قرآن مجید نازل ہورہاتھا۔ جیسے جیسے ضرورت پیش آتی رہی ۔لوگ صورت واقعہ کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کرتے تھے۔ اورآپ یاتووحی الٰہی سے یاخود اپنے اجتہاد سے حکم دے دیاکرتے تھے، جیسا کہ ہم قرآن مجید کی سورۃ مجادلۃ میں اوردوسری سورتوں میں فقہی احکام پاتے ہیں ، یا صحیح احادیث مرفوعہ میں رسول اللہ ﷺ کے فتاویٰ دیکھتے ہیں ۔

اس دور میں فقہ کے دو ہی ماخذ تھے ایک کتاب اللہ اوردوسرا قول، فعل یا اجازت رسول اللہﷺ جسے سنت رسول کہاجاتاہے۔ کیونکہ صحابہ کرام ﷢ اگرکسی صورت حال میں کوئی فتویٰ دیتے تھے تو صرف اس صورت میں دیتے تھے جب کہ خود رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرمانہ ہوتے تھے اوراس پر مزید اطاعت یہ تھی کہ جب وہ اس کے بعد حضور ﷺ کے سامنے حاضر ہوتے تو اپنے فتویٰ کی تصحیح واصلاح رسول اللہ ﷺ سے کرالیتے تھے۔"؂[14]

اس دورمیں جوبھی مسائل سامنے آتے تھے اور واقعات پیش آتے تھے ان کے حوالے سے خود رسول اللہ ﷺ فیصلہ فرمادیتے تھے۔ شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں :

"زماں آنحضرت ﷺ مردماں درہہ انواع علوم چشم برجال آنحضرت ﷺ وگوش برآواز دے می واشتند ہر چہ پیش می آمداز مصالح جہاد بدنہ وعقد جزیہ واحکام فقیہ وعلوم زہدیہ ہہ ازاں حضرت ﷺ استفسار نودن۔"؂[15]

ترجمہ: آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہرقسم کے علم کے متعلق لوگوں کی نگاہیں آنحضرت ﷺ کے جمال مبارک پر جمی ہوئی تھیں ان کے کان حضور ﷺ کی آواز پر لگے ہوئے تھے جہاد کی مصلحتوں صلح وجزیہ کا معاہدہ ،فقہی احکام ،زہد کے متعلق علوم وغیرہ کے متعلق جو باتیں بھی پیش آتی تھیں سب کے متعلق آنحضرت ﷺ سے دریافت کرلیتے تھے۔

"رسول ﷺ پر آیات احکام یعنی فقہی آیتیں اکثر ان واقعات کے جواب میں نازل ہوتی تھیں جواسلامی سوسائٹی میں پیدا ہوجایاکرتے تھے ۔ یہی واقعات ہیں جن کو اسباب نزول کے لفظ سے تعبیر کیاجاتاہے۔"؂[16]

محمد عربی ﷺ نے مکے میں اپنے رب کے حکم کوعلی الاعلان بیان کیا۔ قرآن کریم کانصف سے زائد حصہ ہجرت مدینہ سے قبل مکی دورہی میں آپ ﷺپر نازل ہوا اورجتنا قرآنی حصہ مکے میں نازل ہوا وہ فقہی قانون سازی پر زیادہ مبنی نہ تھا کیونکہ نزول قرآن کا اولین مقصود دعوت الی اللہ ،توحید الٰہی اوران مختلف معبود ان باطلہ کا ابطال تھا جن کی لوگ اسلام سے قبل عبادت کیاکرتے تھے ۔ قیام آخرت پر دلائل پیش کرنا اوردعوت الی اللہ کی راہ میں پیش آنے والے مصائب ومشکلات برداشت کرنے کے لیے سابق انبیاء ومرسلین کے مختلف واقعات کے ذریعے رسول اکرم ﷺ کوتسلی دینا ہے۔ جہاں تک تفصیلی قوانین کامعاملہ ہے تو اس کابہت بڑا حصہ مدنی سورتوں میں نازل ہوا جومجموعی طورپرقرآن کے تہائی حصہ سے کچھ زائد ہے۔"شیخ حضری کے مطابق قرآن کا مکی حصہ تقریباً٣٠/١٩ اورمدنی حصہ ٣٠/١١ ہے"۔؂[17]

مکی اورمدنی سورتوں کے درمیان مفسرین نے طرز بیان معانی اورمضامین کے اعتبار سے مختلف وجوہ فرق بیان کی ہیں ۔ "مکہ مکرمہ میں جو آیات نازل ہوئیں ہیں ان میں بیشتر میں کلیات دین کی تفصیل ہے توحید ونبوت،حشر ونشر،جزاء وسزا،انذار وتبشیر،اورتذکیر وتحذیر سے متعلق مضامین بیان کیے گئے ہیں ۔ جگہ جگہ حق تعالیٰ کی عظمت و ہیبت اوراس کے قہر وعذاب کی اہمیت بیان کی گئی ۔اوراہل جہنم کے احوال سنائے گئے۔باربارعبرت ونصیحت کے انداز میں خدا اورخداکے پیغمبروں اورآخرت پرایمان لانے کے لیے حکم دیاگیا،اورباربارغوروفکر کی دعوت دی گئی کہ یہ لوگ خود اپنی عقل اوربصیرت سے حق کو سمجھ سکیں ۔بت پرستی کی مذمت اوردلائل توحید ایسے عبرت آموز طریقہ سے بیان کیے کہ ادنیٰ سمجھ رکھنے والے پر بھی یہ بات ظاہر ہوجائے کہ اپنے ہاتھوں سے گھڑے ہوئے بتوں کی عبادت کرنایقیناً انسان کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ حقائق معنویہ کوکثرت سے امثال کے رنگ میں اس بیان فرمایاگیا کہ وہ معنوی حقیقت اورباطنی امر مشاہد ومحسوس ہوکرنظروں کے سامنے نمایاں ہوجائے۔ پھر ان تمام امور کے لیے تعبیر بھی ایسی اختیارکی گئی کہ ہر ہر کلمہ اورہر ہر ترکیب اپنے انداز سے دنیا کے مایہ ناز فصحاء وبلغاء اورشعراء وخطباء کومقابلہ سے عاجزکررہی تھی۔ اس لیے کہ ان آیات میں بالخصوص خطاب اہل مکہ کو تھا اور وہ اپنی شاعری اورفصاحت وبلاغت پر اس قدرنازاں تھے کہ اپنے قصائد بیت اللہ کی دیواروں پر ہل من مبارز (ہے کوئی مقابلہ کرنے والا) کے اعلان کے ساتھ لٹکایاکرتے۔ اس کے بالمقابل مدنی آیات میں مضامین نہایت سہل تعبیر اورواضح انداز میں بیان کیے گئے کیونکہ آیات مدنی میں اصل مخاطب اہل کتاب تھے اس وجہ سے حقائق کو بسط وتفصیل اوردلائل کے رنگ میں پیش کیاگیا اور بہت سی آیات میں ان کومناظرہ کی دعوت دی گئی۔ ان کے حسد و عناد ،غروروتکبر تلبیس بین الحق والباطل ،کتمان حق اورتحریف آیات اللہ کو ظاہر کیاگیا۔ تورات وانجیل کے لیے مؤید ہونابیان کیاگیا۔ اورتمام کتب سماویہ کااصول دین میں اتفاق ظاہرکرتے ہوئے اہل کتاب کو ایمان باللہ والرسول کی دعوت دی گئی۔ اور یہ کہ تورات وانجیل پر ایمان رکھنے کا مقتضیٰ رسول آخرالزمان پر ایمان لانا اورقرآن کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ آیات مدینہ کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ ان میں عبادات ومعاملات سے متعلق احکام عملیہ حلال و حرام کے مسائل کثرت سے ذکرکیے گئے ۔ غزوات وغنائم احکام خراج وجزیہ کے مسائل اوراس کے مصارف ،اصول مملکت کی تحقیق وتوضیح کی گئی۔"؂[18]

فقہی احکام کی ایک کثیرتعداد اپنی قانون سازی میں ان واقعات سے متعلق تھی جو وقوع پذیر ہوچکے تھے، یا ان سوالات سے متعلق تھی جو صحابہ کرام ﷢ آنحضور ﷺ سے پوچھتے تھے۔ جب مسلمان آپ ﷺ سے مختلف امور ومعاملات کے حوالے سے رجوع کرتے جو ان سے مخفی ہوتے تھے ،تو آپ ﷺ کبھی تو اپنی رائے کے مطابق ان کی رہنمائی کرتے اورکبھی وحی الٰہی کا انتظار کرتے۔ وحی الٰہی بعض معاملات میں آپﷺ کی رائے سے برعکس ہوتی جیسا کہ اسیران بدر کے معاملے میں ہوا کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر ﷜ کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے مشرکین سے فدیہ قبول کرلیا اوران کے قتل کرنے کے بارے میں حضرت عمر﷜ کی رائے کوقبول نہ کیاتو اس کے بعد یہ ارشاد الٰہی نازل ہوا:

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآَخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ؂[19]

ترجمہ: کسی نبی کے لیے یہ زیبانہیں ہے کہ اس پاس قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں دشمنوں کواچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اوراللہ غالب اورحکیم ہے۔ اگراللہ کانوشتہ پہلے نہ لکھا جاچکاہوتا توجوکچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کوبڑی سزادی جاتی۔

ماخذ فقہ

فقہ کے عام طور پہ چارماخذ بیان کیے جاتے ہیں :

      قرآن حکیم

      سنت رسول ﷺ

      اجماع

      قیاس

شریعت کے حوالے سے جتنی بھی قانون سازی کی جاتی ہے ان ہی دوبنیادی ماخذین کومدنظررکھاجاتاہے اورپھر اس کے بعد اجماع ،قیاس،اجتہاد،استحسان کی جتنی صورتیں سامنے آتی ہیں وہ حالات وزمانہ کی تبدیلی کے ساتھ جو مسائل سامنے آتے ہیں انہیں حل کیاجاتاہے۔ لیکن قیاس ،اجتہاداوراستحسان کی جوبھی نوعیتیں ہیں ان کے لیے بنیادی دوماخذ قرآن وسنت ہی سے براہ راست یاکسی اوردلیل کے ذریعے استدلال کیاجاتاہے۔ عموماً فقہاء کے ہاں قرآن، حدیث ،قیاس،اجماع چاروں احکام کو مستقل ماخذ تسلیم کیاجاتاہے لیکن اس کے بارے میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ:

"اصل ماخذ قرآن مجید ہے۔ حدیث قیاس اور اجماع قرآن کریم ہی سے ماخوذ اورمستنبط ہیں اورہر ایک کا اپنااپنامقام ہے۔"؂[20]

ذیل میں فقہ کابنیادی اوراولین ماخذ قرآن حکیم کی تفصیل پیش خدمت ہے:

قرآن مجید:

قرآن حکیم فقہ کا اولین اوربنیادی ماخذہے۔"قرآن" اصل میں لفظ قراۃ یعنی پڑھنا سے مشتق ہے ۔ لہذا قرآن کالغوی مطلب قراءت کرنا بنتاہے۔ اس کی تعریف ایک ایسی کتاب کے طورپرکی جاسکتی ہے جس میں خدا کاکلام موجود ہے جو رسول ﷺ پر عربی زبان میں نازل اورتواتر کے ساتھ منقول ہے۔ یہ حضرت محمدﷺ کے نبی ہونے کا ثبوت،مسلمانوں کے مستند ترین رہنما کتاب اورذریعہ کا اولین ماخذ ہے۔ اس پر علماء کا اتفاق ہے اورکچھ کے خیال میں تو یہ واحد ماخذ ہے اورباقی تمام ماخذ قرآن کی توضیح ہی کرتے ہیں ۔ اس تعریف میں اشارۃً مذکورقرآنی صفات کو مختصرا ً پانچ نکات میں پیش کیاجاسکتا ہے ۔یا باتخصیص طورپر حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا،اسے تحریر میں لایاگیا، یہ متواتر ہے، یہ خداکالاثانی کلام ہے اوراسے صلوٰۃ میں پڑھاجاتاہے۔"؂[21]

قرآن حکیم کا نزول سورۃ العلق کی اس آیت سے ہوا:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ؂[22]

ترجمہ:"پڑھو اپنے رب کے نام سے۔"

اورقرآن حکیم کا اختتام سورۃ المائدۃ کی درج ذیل آیت سے ہوتاہے:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ؂[23]

ترجمہ:"آج میں پوراکرچکاتمہارے لیے دین تمہارا اورپوراکیا تم پر میں نے احسان اورپسند کیا میں نے تمہارے واسطے دین اسلام کودین۔"

 

مرحلہ وارنزول قرآن کی حکمت:

قرآن بتدریج تھوڑاتھوڑا سانازل ہوا ۔ پہلے نزول کے بارے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے:

بَلْ هُوَ قُرْآَنٌ مَجِيدٌ ۔ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ۔؂[24]

ترجمہ:"کوئی نہیں یہ قرآن ہے بڑی شان کا لکھا ہوالوح محفوظ میں ۔"

دوسرے نزول کے بارے ارشاد ربانی ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ؂[25]

ترجمہ: "ہم نے اس کو اتارا شب قدرمیں ۔"

دوسرے مقام پہ فرمایا:

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ؂[26]

ترجمہ: " ہم نے اس کو اتارا ایک برکت کی رات میں ۔"

مذکورہ دونوں آیات یہ وضاحت کرتی ہیں کہ وحی کا دوسرامرحلہ ایک ہی رات میں تکمیل پذیرہوا۔ جو رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں سے ایک بیان کی جاتی ہے ۔

"قرآن حکیم آخری تین مراحل میں ہی تھوڑاتھوڑا کرکرے نوع انسانی پر نازل ہوا یہ عمل تئیس برس پر محیط تھا۔"؂[27]

حضرت محمدﷺ اورصحابہ کرام ﷢ نے خود قرآن زبانی یاد کیا اس امر نے اس میں سہولت پیداکی کہ قرآن تئیس برس کے دوران مخصوص واقعات کے حوالے سے تھوڑاتھوڑا کرکے نازل ہوا۔ قرآن خود مرحلہ بہ مرحلہ نزول کی منطق ان الفاظ میں واضح کرتاہے:

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآَنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا؂[28]

ترجمہ:"اورکہنے لگے وہ لوگ جو منکر ہیں کیوں نہ اترااس پر قرآن سارایک جگہ ہوکر۔ اسی طرح اتارا تاکہ ثبت رکھیں ہم اس سے تیرادل اورپڑھ سنایا ہم نے اس کو ٹھہرٹھہر کر۔"

"قرآن حکیم کی ١١٤ سورتیں چھوٹی بڑی ٦٢٣٥ آیات ہیں ۔ سب سے چھوٹی سورۃ الکوثر اورسب سے لمبی سورۃ البقرۃ ٢٨٦ آیات پر مشتمل ہے۔ہر سورت کا الگ عنوان ہے۔ طویل ترین سورتیں شروع میں اورچھوٹی آخرمیں ہیں ۔ ہر سورت کے اندرآیات کی اورخود سورتوں کی ترتیب دوبارہ دی گئی اورانجام کار محمد ﷺ نے اپنی عمرمبارک کے آخری برس میں اسے حتمی صورت دی۔ اس ترتیب کے مطابق قرآن کا آغاز سورۃ الفاتحۃ اوراختتام سورۃ الناس پر ہوتاہے۔"؂[29]

دوسرے مقام پہ ارشاد فرمایا:

وَقُرْآَنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا ؂[30]

ترجمہ: اورپڑھنے کاوظیفہ کیاہم نے جداجدا پڑھے تو اس کو لوگوں پرٹھہرٹھہر کراوراس کو ہم نے اتارتے اتارتے اتارا۔"

قرآن حکیم کے مرحلہ وارنزول کافائدہ اہل ایمان کو یہ ہوا کہ انہوں نے اسے ازبر کردیا اور ایک مسلسل روحانی بالیدگی اورمضبوطی کے حوالے سے تربیت کاعمل بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ مرحلہ وارنزول کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ" اس عہد کے عربوں کی وسیع پیمانہ پہ ناخواندگی کے پیش نظر اگرساراقرآن ایک ہی بارمیں نازل ہوجاتا تو وہ اسے سمجھنا مشکل پاتے۔" ؂[31]

قرآنی نزول کی ترتیب احکامات اس وقت کے حالات وضرویات کے مطابق تھی۔

"ابتداء میں ساری توجہ چھوٹے عقائد اور توہمات کی تردید پرمرکوز ہے۔ یہ اسلام سکھانے کے اگلے مرحلے کی تیاری تھی جس کا تعلق اساسی عقیدے اوراسلام کے نظام اقدار سے تھا، پھراصول ہائے عبادت بتائے گئے جن کے ذریعہ معاملات کے قواعد کی بھرپور توضیح ہوگئی لیکن یہ تدریج کے نظری پہلو کا محض ایک وسیع تربیان ہے۔۔۔۔قرآن کا ایک خاصہ بڑا حصہ ان سوالات کے جواب میں نازل ہوا جو لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے وقتاً فوقتاً پوچھے اوران واقعات کے حوالے سے بھی جو زمانہ وحی کے دوران پیش آئے۔ تدریج نے مسلمانوں اورحتی کہ رسول اللہ ﷺکی رہنمائی کا موقعہ فراہم کیا۔آخرمیں نسخ کا موضوع آتاہے یعنی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے کسی سابقہ حکم کو منسوخ کرکے نیاحکم آنا۔ یہ امر بھی قرآن کے مرحلہ بہ مرحلہ نزول کے ساتھ منسلک ہے۔ چنانچہ لوگوں کی زندگیوں سے مربوط معاملات کے حوالے سے قرآنی قانون سازی یک دم نافذ نہ ہوئی۔ یہ ٹکڑوں میں نازل ہوئی تاکہ کوئی مشکل نہ پیش آئے۔" ؂[32]

شراب کے استعمال پہ پابندی قانون سازی کے بتدریج قرآنی طریقہ کار کی دلچسپ مثال پیش کرتی اور قانون سازی کے وظیفے اورفطرت کی جانب سے قرآن کے رویئے پہ روشنی ڈالتی ہے۔ اس حوالے سے قرآن حکیم کی درج ذیل ملاحظہ فرمائیں :

"يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا" ؂[33]

ترجمہ: تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اورجوئے کا،کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اورفائدے بھی ہیں لوگوں کو اوران کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدہ سے۔

"اس زمانے میں شراب نشے میں پڑنے کی اجازت تھی۔" ؂[34]

اس کے بعد شراب نوشی پہ مکمل طورپہ پابندی عائد کردی گئی اورانہیں شیطان کا کام قرار دیاگیا اس حوالے سے ارشاد خداوندی ہوا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" ؂[35]

ترجمہ:اے ایمان والو شراب اورجوا اوربت اورپانسے ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔

علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کا سار متن متواتر ہے یعنی ہمہ گیر طورپرقبول شدہ شہادت کے ذریعہ اس کی معتبریت ثابت شدہ ہے۔ یہ نسل درنسل حافظے اورتحریری صورت میں بھی موجود رہا ہے۔ چنانچہ

"قرآن کی مختلف قراء توں کی معتبریت ثابت کرنے کے لیے تواتر سے کم کوئی بھی شہادت قبول نہیں کی جاتی۔" ؂[36]

سنت نبوی ﷺ

سنت یا حدیث کو فقہ کا دوسرا ماخذ تسلیم کیاجاتاہے۔"سنۃ کا لفظی مطلب راستہ یا اچھی طرح چلاہو راستہ ہے ، لیکن یہ اصطلاح مروج دستور یا طے شدہ طرز عمل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ سنۃ یا سنت کوئی اچھی یا بری مثال بھی ہوسکتی ہے۔ اورکوئی فرد یا فرقہ یا برادری کوئی سنت قائم کرسکتی ہے۔ قبل از اسلام عرب میں عرب لوگ برادری کے قدیم اورجاری دساتیر کے لیے سنت کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جو انہیں اپنے اجداد سے ورثے میں ملی تھی۔ لہذا کہاجاتاہے کہ عرب کے قبل از اسلام ہرقبیلے کی اپنی اپنی سنت تھی جسے وہ اپنی شناخت اورتفاخر کی بنیاد سمجھتے تھے۔" ؂[37]

سنت کا متضاد بدعت ہے ، جس سے مراد سابقہ مثال اورماضی سے تعلق کانہ ہونا ہے۔ قرآن میں لفظ سنت اوراس کی جمع سنن متعدد موقعوں پر استعمال ہوا ہے۔(کل سولہ مرتبہ) ان تمام مثالوں میں سنت سے مراد کوئی جانا ماناطرز عمل یا دستور ہے۔"؂[38]

قرآن حکیم کی درج ذیل آیات جن میں لفظ سنت کا استعمال ہواہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

" سُنَّۃُ الْاَوَّلِین"؂[39]

ترجمہ: ان پر رسم پہلوں کی۔

" لِسُنَّۃِ اللّٰہ" ؂[40]

ترجمہ: اللہ کی رسم۔

" سُنَن" ؂[41]

ترجمہ: روایات ،انداز ہائے حیات۔

"سولہ جگہوں پہ سنۃ اللہ آیاہے۔" ؂[42]

"علمائے حدیث کی نظرمیں آنحضرت ﷺ سے روایت کردہ تمام باتیں ، آپ ﷺ کے افعال ،اقوال اورپسندیدہ باتیں سب سنت ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کے خدوخال اوراوصاف بیان کرنے والی تمام روایات بھی سنت کہلاتی ہیں ۔ تاہم فقہ کے علماء مؤخرالذکر کوسنت شمار نہیں کرتے۔" ؂[43]

قرآن حکیم میں سنت النبی کی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی ۔ لیکن اس کے متبادل طورپر"اسوہ حسنہ" کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ قرآن کی آیت ملاحظہ فرمائیں :

"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ "؂[44]

ترجمہ: رسول کا اسوہ حسنہ تمہارے لیے نمونہ ہے۔

"قرآن کے بعد سنت شریعت کا دوسرا مرکزی ماخذ ہونے کے ناطے مجتہد کو قرآن وسنت کی فوقیت کے درمیان ترجیح کاخیال رکھنا لازمی ہے۔چنانچہ کسی مخصوص مسئلے کا حل تلاش کرتے وقت فقیہ کو صرف سنۃ کی طرف رجوع کرنا چاہئے جب وہ قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے میں ناکام ہوجائے۔ اگرقرآن میں متن واضح ہوتواس پر ہی عمل کرناچاہئے۔اور اسے سنت کی کسی بھی متضاد مثال پر اولیت دینا ہوگی۔ سنت پر قرآن کی اولیت جزا اس امر کانتیجہ ہے کہ ساراقرآن وحی ظاہر پر مشتمل ہے۔" ؂[45]

فقہ کے دوسرے ماخذ یعنی حدیث کے متعلق اہل علم میں اختلافات موجود ہیں ۔

"کچھ لوگ اسے اس معنی میں دین کا ماخذ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے ہم پلہ ہے اوراسے وحی غیرمتلو ،مثلہ معہ ، جیسی اصطلاحات سے یادکرتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک کا روشن خیال طبقہ جسے متجدد دین کا گروہ کہاجائے توزیادہ مناسب ہوگا ۔ حدیث کی دینی حیثیت کا منکر ہے وہ اسے محض تاریخ کی حیثیت دیتاہے۔" ؂[46]

اجماع امت:

اجماع فقہ اسلامی کا تیسراماخذ ہے۔

"اسلام کے قانونی تصورات میں سب سے زیادہ اہم ہے۔" ؂[47]

"اجماع عربی لفظ اجمع کا Verbal Noun ہے جس کے دومطلب ہیں :تعین کرنا اورکسی چیز پر متفق ہونا، اول الذکر کی ایک مثال اجمع فلاں علی کذا ہے، یعنی فلاں فلاں نے فلاں کا فیصلہ کیا۔ اجمع کا یہ استعمال قرآن وحدیث دونوں میں ملتاہے۔ مؤخرالذکر کا مطلب "مکمل اتفاق رائے" ہے اس لیے کہاجاتاہے ۔ اجمع القوم علی کذا ، یعنی لوگ فلاں فلاں پر متفق الرائے ہوگئے۔ اجماع کا دوسرامطلب عموماً اول الذکر کو بھی اپنے اندرشامل کرلیتاہے۔ لہذا جب بھی کسی چیز پر اتفاق رائے موجود ہوتواس پر فیصلہ بھی موجود ہوگا۔ فیصلہ واحد یا کئی افراد بھی کرسکتے ہیں ۔ جب کہ متفقہ فیصلہ صرف متعدد افراد کے ذریعے ہوسکتاہے۔" ؂[48]

"اجماع کی تعریف کسی بھی دورکی (آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد) امت مسلمہ کے مجتہدی کے کسی بھی معاملے میں متفقہ فیصلے کے طورپرکی جاتی ہے۔ اس تعریف میں مجتہدین کا ذکر عام لوگوں کے اتفاق رائے کو اجماع کے دائرے سے خارج کردیتا ہے۔ اسی طرح"کسی بھی دورکے مجہتدین" سے مراد وہ دورہے جس میں متعدد مجتہدین اکھٹے ہوئے ہوں ۔ چنانچہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک یا زائدمجتہدین واقعے کے بعد دستیاب ہوئے ہوں ۔ تعریف میں "کسی بھی معاملے میں " سے مراد یہ ہے کہ اجماع کا اطلاق تمام شرعی ،عقلی اور عرفی و لغوی معاملات پرہوتاہے۔" ؂[49]

اجماع صرف آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد ہی واقع ہوسکا۔ کیونکہ آپ ﷺ کی زندگی میں شریعت پر آپ ﷺ ہی واحد اعلی ترین سند تھے، چنانچہ دوسروں کا اتفاق یا اختلاف کوئی اثرنہیں ڈالتاتھا۔

"ہر امکانی اعتبارسے اجماع پہلی بار مدینہ میں صحابہ﷢ کے درمیان واقع ہوا۔ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ﷢ پیش آنے والے مسائل پر آپس میں صلاح ومشورہ کیاکرتے تے۔ اوران کا اجتماعی اتفاق رائے امت نے قبول کیا۔ صحابہ کرام ﷢ کے بعد یہ قائدانہ کردار تابعین کومل گیا اورپھرتبع تابعین کو ، مؤخرالذکر جب کسی نکتے پر اختلاف کاشکارہوئے تو صحابہ کرام ﷢ اورتابعین کے خیالات وطرز عمل سے رجوع کیا۔ اس طرح نظریہ اجماع ترقی کے لیے ایک زرخیز زمین بن گئی۔اجماع کاجوہر خیالات کی فطری نشوونما میں ہے۔ اس کا آغاز انفرادی فقہاء کے ذاتی اجتہاد سے اور اختتام خاص مدت کے لیے مخصوص رائے کی ہمہ گیرقبولیت پر ہوتاہے۔ اتفاق رائے پیداہوجانے تک اختلافات کو برداشت کیاجاتاہے اوراس دوران امت پر کوئی خیالات زبردستی لاگوکرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔" ؂[50]

اس تصور پر صدرالاسلام میں نظری اعتبار سے خوب خوب بحثیں ہوتی رہیں ۔ لیکن عملاً اس کی حیثیت ایک خیال سے آگے نہیں بڑھی ۔

"ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ممالک اسلامیہ میں یہ تصور ایک مستقل ادارہ کی صورت اختیار کرلیتا۔ شاید اس لیے کہ خلیفہ چہارم کے بعد جب اسلام میں مطلق العنانی ملوکیت نے سراٹھایا تو یہ اس کے مفاد کے خلاف تھا کہ اجماع کو ایک مستقل تشریعی ادارے کی شکل دی جاتی۔ اموی اورعباسی خلفاء کا فائدہ اسی میں ہی تھا کہ اجتہاد کا حق بحیثیت افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے۔ اس کی بجائے کہ اس کے لیے ایک مستقل مجلس قائم ہو۔" ؂[51]

شریعت کی نشوونما میں اجماع ایک اہم کردار ادارکرتاہے ، فقہ کا موجودہ مجموعہ اجتہاد اوراجماع کے طویل عمل کی پیدوار ہے۔ چونکہ اجماع امت کی زندگی میں خیالات کے فطری ارتقاء اورقبولیت کومنعکس کرتاہے، اس لیے اجماع کابنیادی نظریہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوسکتا۔ یہ خیال کہ اجماع کا سلسلہ تبع تابعین کے بعد سے رک گیاتھا، شاید اجتہاد کا دربند کرنے کی غرض سے پیداہوا۔ چونکہ اجماع کا منبع اجتہاد میں ہے ، لہذا اجتہاد کا دروازہ بند ہونے سے اجماع کاسلسلہ بھی ختم تصورکرلیاگیا۔

"قرآن وسنت کے برعکس اجماع الوحی الہام میں براہ راست شریک نہیں ۔ ایک عقیدے اورشریعت کے ثبوت کی حیثیت میں اجماع بنیادی طورپرایک منطقی ثبوت ہے۔ اجماع کی تھیوری اس نکتے پر واضح نہیں ہے کہ اجماع کودیئے گئے اعلیٰ رتبے کی نوعیت کا تقاضہ ہے کہ صرف ایک مطلق اورہمہ گیر اتفاق رائے ہی مانا جائے گا۔ البتہ اجماع کے منطقی مواد پر مطلق اتفاق رائے حاصل کرنا مشکل ثابت ہوا ہے۔" ؂[52]

وقوع پذیری کے انداز کی بنیاد پر اجماع کی دواقسام تمیز کی گئی ہیں :

الاجماع الصریح:جس میں ہر ایک مجتہد اپنی رائے بول کر یا اشارے سے دیتاہے۔

الاجماع السکوتی: جس میں کسی مخصوص دور کے کچھ مجتہدین کسی واقعے کے حوالے سے واضح رائے دیتے ہیں جب کہ بقیہ خاموش رہتے ہیں ۔" ؂[53]

اجماع کی سند:

اجماع کی سند کی تعریف شرعی ثبوت کے طورپر کی جاتی ہے جس پر مجتہدین نے اپنے اجماعی اصول کی بنیا دکی حیثیت میں انحصار کیاہو، اجماع کے لیے سند ضروری ہے کیونکہ

"سند کے بغیر یہ محض رائے بن کر رہ جائے گا۔ علماء کی اکثریت کے مطابق اجماع کی بنیاد متن کی کسی اتھارٹی یا اجتہاد میں ہونی چاہئے۔ علامہ الامدی نے نشاندہی کی ہے کہ امت کا کسی ایسی چیز پر متفق ہونا خلاف قیاس ہے۔ جس کی ماخذوں کوئی بنیاد موجود نہی ہو۔ علماء اس بارے میں متفق ہیں کہ اجماع کی بنیاد قرآن یا سنت پر ہوسکتی ہے۔" ؂[54]

قیاس:

قیاس فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ ہے۔ اس کامطلب"قانون سازی میں مماثلتوں کی بناء پر استدلال سے کام لیاجائے۔" ؂[55]

قیاس کا لغوی مطلب "ناپنا یا لمبائی،وزن یا کسی چیز کے معیار کااندازہ لگاناہے، اسی لیے ترازو کو مقیاس کہتے ہیں ۔ چنانچہ عربی جملے"قامۃ الثوب بالاذراع" کا مطلب ہے:کپڑا گز سے ناپاگیا۔ قیاس کا مطلب موازنہ بھی ہے۔دوچیزوں کے درمیان برابری یا مشابہت بتانے کے نکتہ نظرسے ۔ چنانچہ "زید یقاس علی خالد عقلہ ونسبہ۔" کا مطلب ہے کہ زید ذہانت اورنسب میں خالد کے ساتھ موازنہ رکھتاہے۔ لہذا قیاس دوچیزوں کے درمیان برابری یا قریبی مشابہت کا پتہ دیتاہے ، جن میں سے ایک کسوٹی بناکر دوسری کوپرکھاجاتاہے۔

تکنیکی لحاظ سے قیاس کا مطلب کسی شرعی اصول کو اصل سے نئی صورت میں لانا ہے، کیونکہ مؤخر الذکر کی علت بھی سابق الذکر والی ہے۔ اصل صورت ایک مخصوص متن سے منضبط ہوتی ہے، اورلگتاہے کہ قیاس نئی صورت پر بھی وہی حکم نافذ کرے گا۔

اصل اورنئی صورت میں علۃ مشترک ہونے کی وجہ سے ہی قیاس کا اطلاق یاجواز ہے۔ قیاس سے رجوع اسی صورت میں جائز ہے جب نئی صورت کا حل قرآن ،سنت یا قطعی اجماع میں نہ ملتاہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں قیاس سے رجوع کرنا بے کارہوگا جب کوئی پہلے سے موجود قانون نئی صورت کا حل پیش کرسکتاہو۔ نصوص اوراجماع کے دائرے سے باہر معاملات میں ہی قیاس کی مدد سے ان ماخذوں سے قانون مستنبط کیاجاسکتا ہے۔" ؂[56]

فقہاء کے ہاں لفظ قیاس کبھی کبھی ایک عام اصول کے معنوں میں بھی استعمال ہواہے۔ چنانچہ آپ کو اکثر ایسے بیانات ملتے ہیں کہ فلاں فلاں حکم ثابت شدہ قیاس کے متضاد ہے۔

 

خدمات سیرت

سیرت نگاری درحقیقت اس عقیدت اورمحبت کااظہار ہے جومسلمانوں کواپنے آقا حضرت محمدﷺ کی ذات گرامی اورآپ ﷺکی تعلیمات سے ہے۔ ؂[57]

سیرت نگاری کا آغاز پہلی صدی ہجری میں ہوا۔ حضور اکرم ﷺ کے غزوات کے بارے میں تفصیلات پر مشتمل تالیفات کوابتدائی دورمیں "سیر" یا "سیرت" کا عنوان دیاجاتا تھا اورجن کتب میں ایسا مواد شامل ہوتاہے وہ "مغازی" کے نام سے مشہور تھیں ۔

"مغازی" پر باقاعدہ پہلی تصنیف محمد اسحاق طلبی کی ہے جو ایک تابعی ہیں ۔ یہ کام دوسری صدی میں ہوا۔ اس کے بعد"سیرت ابن ہشام" کے نام سے ایک جامع کتاب امام محمد بن عبدالمالک المعروف ابن ہشام کی ہے۔؂[58]

سیرت نگاری کافن چوتھی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری تک عروج پر رہا اور عربی زبان میں بے شمار اورعربی زبان میں بے شمار کتب منظرعام پرآئیں ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ مختلف ناموں سے مثلاً مغازی، شمائل، خصائص،خطبات نبوی،بعثت،واعلام نبوت کے نام سے نظم ونثر کی صورت میں جاری رہا۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں کسی شخصیت کے بارے میں اتنا نہیں لکھا گیا جتنا سرکار مدینہ ﷺ کی شان میں صرف مسلمانوں نے ہی نہیں غیرمسلم مصنفین نے بھی لکھا۔ قرآن کریم کا یہ دعویٰ اس پہلو کی نشاندہی کرتاہے:

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ؂[59]

اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کسی اورنبی نے نہیں آنا لہذا آپﷺ کی تعلیمات کوقیامت تک باقی رکھنا مقصود تھا اوردوسری بات کہ آپ ﷺ کسی مخصوص علاقہ گروہ یا کسی محدود وقت کے لیے نبی نہ تھے بلکہ آپ ﷺ کی بعثت کے بارے میں ارشاد ہے:

تصانیف:

تدریس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غازی صاحب کا تعلق قلم و قرطاس کے ساتھ برابر قائم رہا۔ ادارہ تحقیقات اسلامی کا عربی مجلہ"الدراسات الاسلامیہ" ١٩٨١ء سے آپ کے زیرادارت چھپتارہا۔ اس مجلہ نے آپ کی ادارت کے دورمیں نمایاں ترقی کی۔ ١٩٨٧ء تک آپ مسلسل اس کے مدیر رہے۔ آپ نے مدیر کی حیثیت سے "الدراسات الاسلامیہ" کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا۔ عربی زبان کے ساتھ فطری اورقلبی لگاؤ کی بناپر آپ ہر ایک مقالہ کو خود پڑھتے تھے اورتفصیل کے ساتھ ایڈٹ کرتے تھے۔ شروع میں " کلمہ العدد" کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے۔ ان ادارتی نوٹوں کوپڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر غازی صاح کو اس دورمیں عربی محاورہ کے استعمال پر کتنا عبور حاصل تھا۔

 ١٩٨٤ءمیں آپ کو"فکرونظر" کی ادارت کی ذمہ داری ملی۔ "فکرونظر" ادارہ تحقیقات اسلامی کے آرگن کی حیثیت سے مشہور ہے۔ شروع شروع میں اس میں ہر نوع کے مقالات چھپتے تھے۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے اسے باقاعدہ Stream Line کیا۔ اس کے معیار پربھرپورتوجہ دی۔ جس کی وجہ سے "فکر ونظر نے تحقیقی مجلات کی صف میں ایک نمایاں حیثیت اختیار کرلی۔

١٩٨٨ء میں جب دعوۃ اکیڈمی کے اندرونی امور اورمعاملات میں پیچیدگی اورتناؤ پیداہوا اوراس تناؤ نے بالآخر گھمبیر شکل اختیارکرلی تویونیورسٹی کی انتظامیہ نے دعوۃ اکیڈمی کے مدیر عام کی حیثیت سے ڈاکٹرغازی کا انتخاب کیا۔مجھ اب تک وہ دن یاد ہے جب ڈاکٹرغازی صاحب بہت سادگی کے ساتھ دعوۃ اکیڈمی کے دفتر واقع کراچی کمپنی تشریف لائے۔ ہم لوگوں نے آپ کا استقبال کیا آپ سیدھے آڈیٹوریم تشریف لے گئے۔ دعوۃ اکیڈمی کے تمام رفقاء کوجمع کیا گیا۔ آپ نے بہت جچے تلے انداز میں خطاب کیا اوربتایا کہ دعوۃ اکیڈمی کے تقریباً تمام پروگراموں سے انہیں پوری طرح واقفیت حاصل ہے۔ وہ کوشش کریں گے کہ دعوۃ اکیڈمی کو مزید Promotion ملے اوراس کی Projection قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہو۔ بعد میں ڈاکٹرغازی صاحب نے مدیر عام کے دفترمیں بیٹھ کرہمارے ساتھ خصوصی نشست کی اس نشست میں آپ نے بتایا کہ بنیادی طورپر آپ کا تعلق کتاب اورقلم و قرطاس سے ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے آپ کو فائلوں کے ڈھیر کی طرف بھیجاہے اورکہنے لگے کہ آپؒ حسبِ معمول قلم و قرطاس کے ساتھ اپنے تعلق کو برقراررکھیں گے۔ ڈاکٹرغازی صاحب نے جب دعوۃ اکیڈمی کے مدیر عام کی حیثیت سے قلم دان سنبھالا تواس وقت دعوۃ اکیڈمی میں تین شعبے کام کررہے تھے۔ ایک شعبہ تربیت ائمہ دوسرا شعبہ اسلامی خط وکتابت کورسز اورتیسرا شعبہ میڈیا۔آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ تربیتی پروگراموں کوبڑھایا مثلاً آرمی آفیسرز کے لیے تربیتی پروگرام شروع ہوا۔ اساتذۃ کے لیے ورکشاپس کا سلسلہ شروع ہوا۔ اہل صحافت کے لیے مختصر دورانیے کے پروگرام منعقد ہونا شروع ہوئے۔ بچوں کے ادب کا شعبہ قائم ہوا۔ بین الاقوامی تربیت ائمہ کے پروگرام کاآغاز ہوا۔ دعوۃ اسٹڈی سینٹرقائم کیاگیا۔ "دعوہ" کے نام سے اردو میگزین اور Da’wah Highlights کے نام سے انگریزی میگزین کااجراء ہوا۔ دعوتی پروگراموں کا سلسلہ بین الاقوامی سطح تک بڑھایا گیا۔ امریکہ ،برطانیہ،جرمنی کے علاوہ افریقہ اور یورپ کے کئی ممالک میں دعوتی پروگراموں کا انعقاد پورے تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔



؂[1] ۔

؂[2] ۔

؂[3] ۔

؂[4] ۔ عبید اللہ بن الحسین الکرخی،امام ،اصول الکرخی،مترجم عبدالرحیم اشرف بلوچ،اسلام آباد،ادارہ تحقیقات اسلامی ، ١٤٠٢ھ،ص٣

؂[5] ۔ تنزیل الرحمن،مجموعہ قوانین اسلام، جلد٣،ص٨٣٤،اسلام آباد ١٩٦٩ء

؂[6] ۔ پرویز،تبویب القرآن،لاہور،طلوع اسلام،١٩٧٧ء،ص١١٠٤

؂[7] ۔ القرآن:٤،٧٨

؂[8] ۔ القرآن:٩،١٢٢

؂[9] ۔ القرآن:٤٨،١٥

؂[10] ۔

؂[11] ۔ القرآن:٢،١٢٩

؂[12] ۔ مناظراحسن گیلانی،مولانا، مقدمہ تدوین فقہ، مکتبہ رشیدیہ،کراچی،١٩٧٦،ص٩٣ تا ٩٤

؂[13] ۔ ایضاً:ص٩٤

؂[14] ۔ عبیداللہ بن الحسین الکرخی،امام،اصول الکرخی،(مترجم:عبدالرحیم اشرف بلوچ)،محولہ بالا،ص٦

؂[15] ۔ الدسوقی،ڈاکٹر ،امام محمد بن حسن شیبانی اوران کی فقہی خدمات، اسلام آباد،ادارہ تحقیقات اسلامی، ٢٠٠٥ء،ص١٨٧

؂[16] ۔ محمدالخضری،علامہ ،تاریخ فقہ اسلامی،محولہ بالا،ص١٢

؂[17] ۔ خضری،امام،تاریخ التشریع الاسلامی،قاہرہ،١٩٣٠ء،ص٨

؂[18] ۔ محمدمالک،مولانا،التحریر فی اصول التفسیر،کراچی،قرآن محل،س ن ،٣٥ تا٣٦

؂[19] ۔ القرآن:٨،٦٧

؂[20] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،دوست ایسوسی ایٹس، ١٩٦٦ء،ص٨٣

؂[21] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) ،ص ٢٩، نگارشات ،لاہور،٢٠٠٩ء

؂[22] ۔ القرآن:٩٦:١

؂[23] ۔ القرآن:٥:٣

؂[24] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٠

؂[25] ۔ القرآن:٩٧:١

؂[26] ۔ القرآن:٤٤:٣

؂[27] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٠

؂[28] ۔ القرآن:٢٥:٣٢

؂[29] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٠

؂[30] ۔ القرآن:١٧:١٠٦

؂[31] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٢

؂[32] ۔ ایضاً:ص٣٢ تا ٣٣

؂[33] ۔ القرآن:٢:٢١٩

؂[34] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٣

؂[35] ۔ القرآن:٥:٩٠ تا٩١

؂[36] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٣٣

؂[37] ۔ سرور، پروفیسر،ارمغان شاہ ولی اللہ،لاہور،سندھ ساگراکیڈمی،١٩٩٧ء،ص ٣٦ تا٥٧

؂[38] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٦٣

؂[39] ۔ ایضاً،ص٦٣

؂[40] ۔ القرآن:١٨:٥٥

؂[41] ۔ القرآن:٤٨:٢٣

؂[42] ۔ القرآن:٣:١٣٧

؂[43] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٦٣

؂[44] ۔ ایضاً:ص٦٣ تا٦٤

؂[45] ۔ القرآن:٣٣:٢١

؂[46] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،محولہ بالا،ص٦٣

؂[47] ۔ ایضاً،ص٢٩

؂[48] ۔ ایضا،ص٢٠٤ تا ٢٠٥

؂[49] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٢٠٤ تا٢٠٥

؂[50] ۔ ایضاً،ص٢٠٦

؂[51] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،محولہ بالا،ص٢٩ تا٣٠

؂[52] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٢٠٣

؂[53] ۔ ایضاً،ص٢٢١

؂[54] ۔ ایضاً،ص٢٤

؂[55] ۔ قمر احمد عثمانی، مذہبی جماعتوں کا فکری جائزہ ،لاہور،محولہ بالا،ص٣٤

؂[56] ۔ کمالی ،محمد ہاشمی،اسلامی فقہ کا انسائیکلوپیڈیا(مترجم:یاسرجواد) محولہ بالا،ص ٢٣٣

 

؂[57] ۔

؂[58] ۔

؂[59] ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post