قرآن میں پردے کا حکم اور آزادی نسواں کی کیفیت

 

 اجانب کی طرف سے اسلام کی بابت جو اوہام شائع ہوتے رہے ہیں ان میں سے ایک مشہور ترین یہ بھی ہے کہ عورت کے پردہ کا نظام اسلام کا وضع کردہ نظام ہے ۔اسلام سے قبل ایسے کسی نظام کا اثبات نہیں ہے نہ جزیرہ عرب میں نہ غیر عرب میں۔

 تحقیق نگار نے مقالہ ہذا ہی کے پہلے باب میں بالتفصیل اس بابت بحث درج کی ہے جس میں یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ مختلف الانواع مذہبی کتب اور کتب تواریخ کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ حجاب کا نظام اسلام کا نظام نہیں ہے بلکہ اسلام سے قبل دیگر ادیان و مذاہب اور معاشروں میں بھی رواج پذیر رہاہے۔اگرچہ اسلام نے اسے مزید وسعت ضرور دی ہے۔مثلا اصحاح،سفر تکوین،٢٤ میں مذکور ہے کہ

 

'' رفقہ نے اپنی نگاہیں اٹھائیں اور اسحاق کو دیکھا تو اونٹ سے اترگئی اور غلام سے پوچھنے لگیں یہ کوئی مرد ہے جو کھیت میں چلاآرہا ہے اور مجھے ملنا چاہتا ہے؟ غلام بولا :وہ میرا آقا ہے یہ سن کر رفقہ نے برقع اوڑھ لیا اور پردہ میں ہوگئی''۔(١ )

بولس رسول رسالہ ''کورنثوس اولی''میں حجاب کی بابت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

''نقاب عورتوں کے لیے باعث شرف و بزرگی ہے،اگر عورت اپنے بال بڑھائے تو یہ بھی اس کے لیے بزرگی کا باعث ہوگا کیونکہ بال برقع(حجاب )کا بدل ہیں''۔(٢ )

 معلوم ہوا کہ اسلام سے قبل بھی پردہ کا رواج رائج رہا ہے۔جب اسلام آیا تو حجاب پہلے سے موجود تھا البتہ اسلام نے اس میں مفید اور معقول اصلاحات کانفاذ ضرورکیا اور اسے ایک اخلاقی ادب آداب کے طورپر پیش کیا ۔جس میں مرد و عورت دونوں برابر پابند نظرآتے ہیں۔اسلام نے حجاب کے حوالہ سے مرد و عورت کے درمیان کوئی تفریق روانہیں رکھی۔حجاب کے حوالے سے دونوں پر واجب ہونے والے حقوق کو بیان کیا۔ ماسوائے جنسی فرق اور امتیاز کے جو زینت ،لباس اور معاشی مشاغل میں پایا جاتاہے ۔مثلا مؤمن مردوں سے اسلام اس حوالے سے مطالبہ کرتاہے کہ

''یغضوا من أبصار ھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم''

''وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ تزکیہ کا باعث ہے''۔(٣ )

 جب کہ عورتوں سے اسلام اس حوالے سے ان کی جنس اور معاشی مشاغل کے مطابق اس کے سا تھ ساتھ قدرے مختلف کچھ اور احکامات کا بھی مطالبہ کرتاہے۔

''وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ ............

اور وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو ان سے ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر چادریں ڈال لیا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اوربھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی عورتوں اور لونڈیوں غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جوعورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا )کسی پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں نہ ماریں کہ ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے''۔(٤ )

 مندرجہ بالا دونوں امثلہ میں ہم نے جانا کہ مردوں کو جس زینت سے روکا گیا ہے وہ ان کی مردانگی میں مخل ہونے والی ہے اور عورتوں کو جس زینت سے روکا جارہا ہے وہ ان کی نسوانیت میں خلل انداز ہونے والی ہے۔لیکن اس میں بھی ہم ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اسلام نے عورت کی سہولت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر حجابی احکامات لاگوکئے ہیں۔ مثلا اسے چیزوں کے پکڑنے کے لئے ہاتھوں کے استعمال کی لامحالہ ضرورت پڑتی رہتی ہے،اسی طرح کبھی کسی ضرورت کے تحت اپنا چہرہ کھلارکھنے کی نوبت آسکتی ہے مثلا گواہی دیتے وقت،عدالتی معاملات نبٹاتے وقت یا نکاح وغیرہ جیسی ضروریات کے وقت،اسی طرح اسے مجبور اً راستہ میں چلنا بھی پڑتاہے جس کے باعث اس کے پاؤں ظاہر ہونے کے امکانات بھی رہتے ہیں خصوصا ایسی ضرورتمند خواتین کے لئے جو اپنی بقاء کے لئے اور معاشی ضروریات کی تکمیل کے لئے محنت مزدوری کی محتاج ہوتی ہیں اور خود اپنا گزر بسر کرتی ہیں تو ایسی خواتین کی رعایت رکھتے ہوئے اسلام انہیں اس بات کی اجازت دیتاہے کہ ان کے ہاتھ کھلے رہیں یا چہرہ کھلا ہو یا ان کے پیر ظاہر ہوجائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔یہ وہ اصلاحات اور اخلاقی ادب و آداب ہیں جوا سلام حجاب کے باب میں اپنے پیروکاروں پر لاگو کرتاہے۔اس باب میں تحقیق نگار قرآنی آیات کے حوالے سے اس اسلامی حجاب پر مندرجہ ذیل عنوانات کی روشنی میں بحث پیش کرے گی۔

١۔ ازواج پیغمبر (ﷺ ) کا حجاب

٢۔ آزاد عورت کا حجاب

٣۔ لونڈی کا حجاب

٤۔ ذمی عورت کا حجاب

٥۔ مردوں کا حجاب

 

 قرآن پاک میں ازواج پیغمبر (ﷺ ) آزاد عورتوں اور مردوں کے حجاب کی بابت تو ہدایات صراحت کے ساتھ موجود ہیں لیکن لونڈی یا کنیز اور ذمی عورت کے حجاب کی بابت قرآن پاک میں کوئی صراحت دستیاب نہیں ہوتی اس لئے تحقیق نگار اس بابت مختلف کتب تواریخ و احادیث اور فقہ کی روشنی میں ابحاث درج کرے گی۔

 

 

 

 

 

١۔ ازواج پیغمبر (ﷺ ) کا حجاب

 

 مستند کتب تواریخ واحادیث اور سیرت کے حوالوں سے مندرجہ ذیل خواتین ازواج پیغمبر ﷺ میں شمار ہوتی ہیں۔

 

 ازواج پیغمبر (ﷺ )

 

١۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا

 

 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی کنیت ام ہند تھی۔(١ )آپ نبی علیہ السلام سے پندرہ برس بڑی تھیں۔(٢ )آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا مکہ مکرمہ کی ایک معزز،شریف دولتمند اور تاجر خاتون تھیں۔تجارت کے لئے آپ نے کئی ملاز م رکھے ہوئے تھے جو آپ کا مال تجارت لے جاکر خرید و فروخت کیاکرتے اور آپ انہیں اس کی اجرت دیا کرتیں۔تمام قریش کے اونٹوں پر جس قدر مال تجارت ہواکرتا اتنا مال تنہا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا ہوا کرتا (یعنی تمام قریش کا مشترکہ مال جس قدر تھا تن تنہا اتنا ہی آپ کامال تھا )۔

 نبی ﷺ مکہ میں امین کے لقب سے مشہور تھے لوگ آپ پر نہایت درجہ اعتماد اور اعتبار کیاکرتے تھے۔آپ کی اس صفت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جب آپ علیہ السلام پچیس برس کی عمر کو پہنچے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے آپ سے درخواست کی کہ میرے غلام میسرہ کے ساتھ میراتجارتی مال لے جاکر تجارت کریں معاوضہ جس قدر دیگر ملازمین یا شرکاء کوملتاہے آپ کو اس سے دوگنا زائد دیاجائے گا آپ علیہ السلام نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی درخواست منظور کرلی اور تجارت کرنے لگے۔کچھ عرصہ بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا آپ سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ ایک خاتون بنام نفیسہ کو درمیان میں وسیلہ بنا کر نبی علیہ السلام سے نکاح کی درخواست پیش کی جو آپ نے منظور فرمالی۔بعدہ جانبین کے بزرگوں نے معاملات طے کرتے ہوئے اس عقد کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا اور یوں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ازواج پیغمبر ﷺ میں سب سے اول شامل ہوگئیں۔(٥ )

 عقد نکاح کے طے پاتے وقت نبی علیہ السلام کی عمر مبارک پچیس برس اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی عمر مبارک مختلف روایات کے مطابق اٹھائیس یا چالیس سال تھی۔(٦ )

 نبی علیہ السلام نے تقریبا پانچ سو دراہم مہر پر یہ نکاح منعقد کیا اور آپ کی تمام ازواج کے مہر تقریبا اسی قدر متعین کئے گئے۔(٧ )آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا تمام خواتین میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئی تھیں۔(٨ )نبی علیہ السلام سے آپ کی سات اولادیں ہوئیں۔تین صاحبزادگان قاسم،عبداللہ ،طیب اور چارصاحبزادیان۔زینب ،رقیہ،ام کلثوم اور فاطمہ رضوان اللہ علیہم و علیہن اجمعین۔(٩ )

 حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے ہجرت سے تین سال قبل دس رمضان کو پینسٹھ سال کی عمر میں رحلت فرمائی ۔اس وقت تک نماز جنازہ کی فرضیت نہیں ہوئی تھی۔(١٠ )

 آپ کو مقام حجون میں دفنایا گیا۔نبی علیہ السلام بنفس نفیس آپ کی قبر میں اترے ۔نبی علیہ السلام کی تمام اولاد ماسوائے ابراہیم بن ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے ہی بطن مبارک سے تولد ہوئےں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنھا۔(١١ )

 

٢۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا

 

 آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا نام نامی اسم گرامی حضرت سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبدود بن نضر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی ہے۔آپ نبی علیہ کی دوسری زوجہ مطہرہ ہیں۔آ پ اور نبی علیہ السلام ایک ہی ننہیالی سلسلہ نسب سے منسلک ہیں۔دوسری ہجرت کے وقت آپ اپنے خاوند اور والدہ کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئی تھیں۔(١٢ )آپ کے خاوند کا ہجرت کے وقت وہیں انتقال ہوا جس کے بعد سن ١٠ نبوی میں نبی علیہ السلام نے آپ سے عقد کرلیا۔(١٣ ) ایک روایت کے مطابق نبی علیہ السلام نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاکے بعد تیسرا نکاح حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاسے کیاتھا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں انتقال فرمایا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنھا(١٤ )

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا

 

 آپ کا نام عائشہ بنت ابی بکر صدیق بن ابی قحافہ بن عامر بن عمر و بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب بن لوئی ہے۔ والدہ محترمہ کا نام ام رومان بنت عمیر بن عامر بن دہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ ہے،آپ رضی اللہ عنھا ہجرت سے تین سال قبل شوال ١٠ نبوی (ﷺ ) میں چھ سال کی عمر میں نبی علیہ السلام نے عقد نکاح منعقد فرمایا۔جب کہ رخصتی ہجرت کے آٹھویں مہینہ میں بعمر نو سال عمل میں آئی۔(١٥ )

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ابھی زمانہ طفولیت ہی طے کررہی تھیں کہ آپ کے والدین اسلام لاچکے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے نکاح کا باعث یہ ہوا کہ نبی علیہ السلام نے آپ کو دومرتبہ خواب میں ملاحظہ فرمایا ۔آ پ نے دیکھا کہ کوئی شخص انہیں گود میں اٹھاکرکہتاہے کہ یہ آپ ﷺ کی زوجہ ہیں۔اور وہ ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ہیں۔آپ منہ کھول کر ملاحظہ فرماتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ہیں۔بحالت خواب ہی آپ یوں گویا ہوئے۔اگر یہ اللہ کی مرضی ہے تو ایسا ہوجائے گا۔(١٦ )

 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نہایت بلند پایہ عالمہ بھی تھیں۔مشہور تابعی محدث مسروق رحمہ اللہ آپ کا علمی مقام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

 

''قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں نے مشائخ اور اکابر صحابہ کو دیکھا کہ آپ سے فرائض کے مسائل پوچھا کرتے تھے''۔(١٧ )

 

 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا احادیث روایت کرنے والوں میں بھی سرفہرست شمارہوتی ہیں۔آپ کل دوہزار دوسودس احادیث روایت کرتی ہیں۔ابن حزم اندلسی آپ کی کثرت روایت کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں

 

''سات صحابہ کرام ایسے ہیں جنہوں نے قبیلہ مضر کے سب سے بہترانسان یعنی حضور ﷺ سے ایک ہزار سے زائد احادیث نقل کی ہیں۔جن میں حضرت ابوہریرہ ،سعد ،جابر،انس ،صدیقہ بنت صدیق(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ) ابن عباس اور ابن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔(١٨ )

 

 القصہ یہی خواب نبی علیہ السلام اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے نکاح کا باعث بنا کہ بعدہ آپ علیہ السلام نے اسی غیبی اشارہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیغام نکاح بھیجا جو قبول کیا گیا اور ہجرت سے دو سال قبل شوال کے مہینہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ کا نکاح نبی علیہ السلام سے منعقد کردیا۔اس نکاح کا مہر بھی پانچ سو درہم مقرر ہوا اور یہ نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی چھ سال کی عمر میں منعقد ہوا لیکن رخصتی ہنوز نہ کی گئی۔(١٩ )

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی رخصتی کی بابت کتب احادیث میں مذکور ہے کہ جب نبی علیہ السلام اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھانے زاد راہ تیارکیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ہنوز مکہ میں ہی تشریف فرما تھیں جو کچھ عرصہ بعد خود مدینہ منورہ تشریف لے گئیں اور بنوحارث بن خزرج کے علاقہ میں قیام پذیر ہوئیں۔مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد کچھ ہی عرصہ گزراہوگا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو بخار نے آلیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ایک ماہ تک اس بخار میں مبتلا رہیں جس کے باعث آپ کے تمام بال بھی جھڑگئے ۔(٢٠ )

 جو کہ صحتیاب ہوتے ہی دوبارہ بکثرت نکل آئے ۔صحتیابی کے کچھ عرصہ بعد شوال سنہ ١ ہجری میں ایک روز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھااپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل میں مشغول تھیں کہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا نے آپ کو ساتھ لیا اور ایک دوسری جگہ لے چلیں جہاں آپ رضی اللہ عنھا کا بناؤ سنگھار کیا گیا۔آپ کو تیار کیا گیا اور دلہن بناکر انصاری خواتین کی معیت میں صبح کے وقت آپ کو حضور علیہ السلام کی آمد پر آپ ﷺ کو سونپ دیاگیا۔اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی عمر مبارک نو سال کی تھی۔(١ )آپ رضی اللہ عنھا رخصتی کے بعد بھی اپنی ہمجولیوں کے ساتھ گڑیوں سے کھیلاکرتی تھیں۔(٢١ )آپ رضی اللہ عنہا بارہ سال نبی علیہ السلام کے عقد میں رہیں اور جب نبی علیہ السلام راہی دار آخرت ہوئے تو آپ رضی اللہ عنھا کی عمر مبارک اٹھارہ سال کی تھی۔(٢٢ )

 نبی علیہ السلام کے رحلت فرماچکنے کے بعد بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اڑتالیس سال مزید حیات رہیں اور سترہ رمضان المبارک سنہ ٥٨ ہجری بشب بدھ آپ رضی اللہ عنھا نے داعی اجل کو لبیک کہا۔اسی شب نماز وتر کے بعد آپ کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جنت البقیع میں ادا فرمائی اور وہیں دیگر ازواج کے ساتھ آپ کی تدفین عمل میں آئی۔آپ کو آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں نے قبرکے سپرد کیا جن کے نام یہ ہیں۔قاسم بن محمد،عبداللہ بن زبیر ،عروہ بن زبیر ،عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر رضوان اللہ علیہم اجمعین(٢٣ )

 

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا

 

 حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا خلیفہ اسلام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دوسری صاحبزادی ہیں۔آپ رضی اللہ عنھا نبوت سے پانچ سال قبل تعمیر کعبہ کے ایام میں تولد ہوئیں۔آپ رضی اللہ عنھا اپنے والد محترم کے ساتھ ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔آپ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح حضرت خنیس رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا جو جنگ بدر میں مہلک زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ کو داغ مفارقت دے گئے۔(رضی اللہ عنہ )(٢٤ )

 حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کی بابت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہایت درجہ فکرمند تھے کہ جواں سال صاحبزادی کے لئے بقیہ زندگی کون شخص بہتر رفیق حیات ہوسکے گا ۔اسی سلسلہ میں آپ نے حضرت ابوبکر وعثمان رضی اللہ عنہما سے تذکرہ کیا(حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول ﷺ کا بھی انتقال ہوچکا تھا )حضرت ابوبکر رضی اللہ اس بابت خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اظہار معذرت کرتے ہوئے فرمایا میں ابھی نکاح کرنے کا خواہشمند نہیں۔

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور تمام صورتحال گوش گزار فرمادی۔نبی علیہ السلام حال ہی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عقد فرماچکے تھے لیکن چونکہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی یہ سعادت حاصل ہونی تھی۔حضرت عمر اور آپ علیہ السلام کے تعلقات بھی ایسے نہ تھے کہ نوبت قرابت نہ آنے پاتی فلہذا آپ ﷺ جواب میں یوں گویا ہوئے۔

 

''حفصہ کا نکاح ایسے شخص سے نہ ہوجائے جو عثمان سے بہتر ہے اور عثمان کو ایسی بیوی نہ دی جائے جو حفصہ سے بہتر ہے''۔(٢٥ )

 

 اور آپ ﷺ نے بنفس نفیس حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کےلئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیام نکاح دے کر اپنے عقد میں لے لیا اور اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمادیا۔یہ سنہ ٣ ہجری میں ہوا۔(٢٦ )

 

 

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا

 

 آپ رضی اللہ عنہا کا نام نامی اسم گرامی ام سلمہ بنت ابوامیہ سہیل ہے(نام ہند تھا،ام سلمہ کنیت ہے )ابتداء اً آپ ابو سلمہ بن عبداللہ کے نکاح میں تھیں جن سے آپ کی دو اولادیں ایک صاحبزادہ اور ایک صاحبزادی تولد ہوئے جن کی تربیت نبی علیہ السلام نے فرمائی۔سنہ ٢ ہجری میں آپ رضی اللہ عنہا کی بیوگی کے بعد نبی علیہ السلام نے آپ سے نکاح فرمایا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے پہلے شوہر دونوں قدیم الاسلام صحابہ وصحابیات میں سے ہین جنہوں نے دونوں ہجرتوں میں بھی شرکت کی فضیلت حاصل کی۔(٢٧ )

 آپ رضی اللہ عنہا نے بہ مقتضائے محبت نبی علیہ السلام کا موئے مبارک اپنے پاس رکھا ہوا تھا جسے آپ بطور تبرک اپنے پاس رکھا کرتیں اور صحابہ میں سے کسی کو کوئی بیماری و تکلیف کے وقت ایک پیالہ بھر پانی میں ڈبوکردے دیاکرتیں جس سے شفا ہوجاتی۔(٢٨ )

 آپ رضی اللہ عنہا کے سن وفات میں کچھ اختلاف ہے ۔واقدی کہتے ہیں آپ رضی اللہ عنہا نے شوال سنہ ٥٩ ہجری میں وفات پائی،ابن حبان حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد سنہ ٦١ہجری کے قائل ہیں جب کہ ابو خیثمہ آپ کا سن وفات یزید بن معاویہ کے عہد خلافت کو بیان کرتے ہیں لیکن اس بابت صحیح تر قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سن وفات سنہ ٦٣ ہجری ہے۔جس سال واقعہ حیرہ پیش آیا۔(٢٩ )

 بوقت وفات آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ٨٤ سال تھی۔آپ کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ادا فرمائی۔(٣٠ )

 

 

 

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا

 

 آپ رضی اللہ عنہا کا نام نامی اسم گرامی رملہ بنت ابی سفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبدالشمس ہے۔ام حبیبہ آپ کی کنیت ہے،آپ کی والدہ محترمہ کا نام صفیہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حقیقی پھوپھی تھیں۔آپ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی ﷺ سے سترہ سال قبل تولد ہوئیں۔(٣١ )

 آپ رضی اللہ عنہا قدیم الاسلام اور مہاجرین حبشہ میں شامل ہیں۔ہجرت کے بعد آ پ کا شوہر عیسائی ہوگیا اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہوا۔

 آپ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبیداللہ بن جحش سے ہوا تھا جس سے ایک صاحبزادی حبیبہ تولد ہوئی۔انہی کے نام سے آپ کی کنیت ام حبیبہ ہوئی۔(٣٢)

 عدت گزارنے کے بعد نبی علیہ السلام نے سنہ ٦یا٧ ہجری میں آپ سے نکاح کا ارادہ فرمایا اور حضرت عمروبن امیہ ضمری کو پیغام نکاح کہہ کر نجاشی کے پاس بغرض نکاح بھیجا ۔نجاشی نے اپنی لونڈی ابرہہ کے ذریعے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھجوایا۔آپ رضی اللہ عنہا نے خالد بن سعید اموی کو اپنا وکیل مقرر کیا۔شام کے وقت نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں کو جمع کیا اور خود نکاح پڑھایا۔اس نکاح کا مہر نجاشی نے نبی علیہ السلام کی طرف سے چارسو دینار ادا کیا۔اس وقت حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی عمر ٣٦ یا ٣٧ سال تھی۔نکاح کے بعدآپ رضی اللہ عنہا جہاز میں بیٹھ کر روانہ ہوئیں اور مدینہ کی بندرگاہ پر اتریں ۔نبی علیہ السلام اس وقت خیبر میں تشریف فرماتھے۔(٣٣ )

 آپ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت تک حیات رہیں اور اسی دور خلافت میں سنہ ٢٢ ہجری میں آپ نے انتقال فرمایا۔بوقت وفات آپ کی عمر تہتربرس تھی۔(٣٤ )

 

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا

 

 آپ رضی اللہ عنہا کا نام مبارک زینب بنت جحش بن ریاب بن یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کبیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ ہے۔آپ نبی علیہ السلام کی پھوپھی زاد بہن ہیں۔آپ کا پہلا نکاح حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ سے ہو ا تھا۔(٣٥ )جب حضرت زید سے طلاق ہوگئی تو نبی علیہ السلام نے بنفس نفیس بحکم الہی آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا۔سورہ احزاب کی آیہ مبارکہ ٣٧ اسی بابت نازل ہوئی ہے۔جس میں مذکور ہے ''اے محمد ﷺ ہم نے آپ کا نکاح ان سے کروادیا''۔

 بوقت نکاح آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ٣٦ برس تھی۔آپ رضی اللہ عنہا نے سنہ ٢٠ ھ میں بعمر باون سال وفات پائی۔(٣٦ )( رضی اللہ عنہا )

 

حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا

 

 آپ رضی اللہ عنہا کا نام زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبدمناف بن ہلال بن عامر بن صعصہ ہے۔آپ رضی اللہ عنہا زمانہ جاہلیت سے ہی رحمدل اورنرم دل واقع ہوئی تھیں۔اسلام لانے کے بعد اور زیادہ رحمدل ہوگئی تھیں۔فقراء ومساکین پر بکثرت صدقہ وخیرات کیاکرتیں۔اسی باعث آپ رضی اللہ عنہا کو ام المساکین (مسکینوں کی ماں ) کہاجانے لگا۔(٣٧ )

 آپ رضی اللہ عنہا کے تین نکاح ہوئے تھے۔آپ کا پہلا نکاح طفیل بن حارث بن مطلب بن عبدمناف سے ہوا جس سے کچھ عرصہ بعد ہی علیحدگی ہوگئی۔دوسرانکاح حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہا سے ہوا جنہوں نے غزوہ بدر میں شہادت پائی۔تیسرا نکاح نبی علیہ السلام کے ساتھ منعقد ہوا،حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا یہ تیسرا نکاح ہجرت کے تیسرے سال رمضان سنہ ٣ہجری میں منعقد ہوا۔اس نکاح کا مہر ایک روایت کے مطابق پانچ سو درہم(٣٨ ) اور دوسری روایت کے مطابق بارہ اوقیہ سونا یا چاندی مقرر ہوا۔(٣٩ )

 نکاح کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کچھ ہی عرصہ قریب آٹھ ماہ زندہ رہیں اور سنہ ٣ یا ٤ ہجری میں نبی علیہ السلام کی زندگی میںہی تیس سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ رضی اللہ عنہا۔آپ کی نماز جنازہ نبی علیہ السلام نے ادا فرمائی اور جنت البقیع میں آپ کی تدفین کی گئی۔(٤٠ )

 

حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا

 

 آپ رضی اللہ عنہا کا نام جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عائذ بن مالک بن خذیمہ بن سعد بن عمرو بن ربیعہ بن حارثہ بن عمرو خریقیاء ہے۔آپ قبیلہ خزاعہ کے خاندان بنومصطلق سے تعلق رکھتی ہیں۔آپ کے والد محترم حارث بن ابی ضرار بنومصطلق کے سردار تھے۔(٤١ )

 آپ رضی اللہ عنہاکا پہلا نکاح اپنے ہی قبیلہ میں ایک شخص بنام مسافع بن صفوان سے ہوا۔(٤٢ )آپ کے والد اور شوہر دونوں اسلام کے دشمن تھے۔ایک مرتبہ انہوں نے (حارث )مسلمانوں پر حملے کی تیاری بھی کی لیکن مسلمانوں کی جمعیت کے سامنے ہمت نہ کرسکے اور بھاگ کھڑے ہوئے ان کے بھاگتے ہی تمام جمعیت منتشر ہوگئی البتہ مریسیع کے مقامی آبادکاروں نے مسلمانوں کے مقابلے میں صف آرائی کرلی اور تیر اندازی کرنے لگے لیکن مسلمانوں کے حملہ آور ہوتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے ۔گیارہ آدمی مارے گئے چھ سو کے قریب گرفتار ہوئے۔مال غنیمت میں دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں حاصل ہوئیں۔انہی قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔(٤٣ )

 حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو حضرت ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ نے قید کیا تھا اور مکاتب(وہ غلام یا باندی جس کے مالک اور اس کے درمیان مخصوص رقم وغیرہ پر آزادی کا معاملہ طے ہوجائے ) بنادیاتھا۔حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ کا بدل کتابت ایک سو انیس ١١٩ اوقیہ سونا مقرر کیاتھا۔حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے نبی علیہ السلام سے اس سلسلے میں معاونت کی درخواست کی آپ علیہ السلام نے فرمایا ۔

 ''کیا تمھارے ساتھ اس سے بھی بہتر سلوک نہ کیا جائے کہ میں تمہارا بدل کتابت بھی اداکردوں اور تم سے نکاح بھی کرلوں''۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا برضا و رغبت راضی ہوگئیں۔آپ رضی اللہ عنہا کے ام المؤمنین بنتے ہی چونکہ آپ کا خاندان نبی علیہ السلام کے قاربت داروں میں شامل ہوگیا اس لئے تمام قیدی آزاد کردیئے گئے ۔(٤٤ )آپ رضی اللہ عنہا نے ٦٥ سال کی عمر میں سنہ ٥٠ ہجری میں وفات پائی (رضی اللہ عنہا )آپ کی نماز جنازہ مروان نے پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع میں مدفون کیا گیا۔(٤٥ )

 

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا

 

 آپ رضی اللہ عنہا کا نام نامی اسم گرامی صفیہ بنت حیی بن اخطب بن سعید بن عامر بن عبید بن کعب بن خزرج بن ابی حبیب بن نضیر بن مخام بن نیحوم ہے۔آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب حضرت ہارون علیہ السلام پر منتہی ہوتاہے۔آپ رضی اللہ عنہا غزوہ بنو نضیر میں قیدع ہوکرآئی تھیں۔(٤٦ )

 آپ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح ''سلام بن شکم قرظی''سے ہوا جس نے آپ کو طلاق دے دی تھی،بعدہ دوسرا نکاح ''کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق نضری''سے ہوا جو جنگ خیبر میں ماراگیا۔(٤٧ )

 آپ رضی اللہ عنہا کے نبی علیہ السلام کے عقد میں آنے کا باعث یہ ہواکہ حضور ﷺ کے ایک صحابی ''حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ'' نے نبی علیہ السلام سے ایک باندی کا تقاضہ کیا آپ علیہ السلام نے انہیں اجازت مرحمت فرمادی،انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو منتخب کیا۔حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا چونکہ بنو قریظہ اور بنونضیر کی سردارزادی تھیں اس لئے اس میں اختلاف ہوگیا اور اکثریت کی رائے یہ ٹھہری کہ انہیں نبی علیہ السلام اپنی ذات کے لئے مختص فرمادیں۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے انہیں آزاد کرکے اپنی ازواج میں شامل فرمالیا۔(٤٨ )حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال سنہ ٥٠ ہجری میں ہوا۔(٤٩ )رضی اللہ عنہا

 

حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا

 

 آپ رضی اللہ عنہا کا نام مبارک میمونہ بنت حارث بن بحیر بن محرم بن روبیہ عبداللہ بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن حفصہ بن قیس بن غیلان بن مضر ہے۔ابتداء ً آپ رضی اللہ عنہا حویطب بن عبدالعزی کے نکاح میں تھیں بعدہ ابی رہم بن عبدالعزی کے نکاح میں آئیں۔سنہ ٧ ہجری میں جب نبی علیہ السلام نے عمرہ ادافرمایا اس وقت تک یہ بیوہ ہوچکی تھیں۔چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے بابت نبی علیہ السلام سے مذاکرہ کیا تو آپ علیہ السلام نے انہیں بھی اپنی ازواج میں شامل فرمالیا۔بوقت نکاح ان کی عمر چھتیس سال اور نبی علیہ السلام کی عمر مبارک ٥٩ سال تھی۔(٥٠ )آپ رضی اللہ عنہا کی وفات سنہ ٥١ ہجری میں اسی(٨٠ ) سال کی عمر میں ہوئی(٥١ )(رضی اللہ عنہا )

 یہ ہیں وہ تمام محترم خواتین صحابیات رضوان اللہ علیہن اجمعین جو کتب احادیث وتواریخ کی رو سے نبی علیہ السلام کی ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین قرار پاتی ہیں۔جو تاحیات نبی علیہ السلام کی زوجیت میں رہیں اور اسی حالت میں انتقال فرمایا۔(رضوان اللہ علیہن اجمعین )

 

 

 

 

 ازواج پیغمبر (ﷺ ) کا حجاب

 

قرآن پاک کی جن آیات میں پردہ و حجاب سے متعلق احکامات بیان کئے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

 

قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ (30 ) وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ

 

''اے نبی !مومن مردوں سے کہئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔یہ ان کے لئے پاکیزگی کا طریقہ ہے۔یقینا اللہ جانتاہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت رکھیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے۔اور اوہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنی اوڑھنیون نے بکل مارلیا کریں اور اپنی زینت کوظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے :شوہر،باپ،خسر،بیٹے،سوتیلے بیٹے،بھائی،بھتیجے،بھانجے،اپنی عورتیں،اپنے غلام ،وہ مرد خدمتگار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے۔وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔اور وہ چلتے وقت اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہے اس کا اظہار ہو''۔(٥٢ )

 

یَا نِسَاء النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَیْْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً (32 ) وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی

 

''اے نبی کی بیبیو! تم کوئی عام عورتوں کی طرح تو ہو نہیں۔اگر تمہیں پرہیز گاری منظور ہے تو دبی زبان سے بات مت کرو کہ جس شخص کے دل میں کوئی خرابی ہے وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ کرلے۔بات سیدھی سادی طرح کرو اور اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو''۔(٥٣ )

 

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً

 

''اے نبی ﷺ !اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گے اور ستائی نہ جائیں گی۔''۔(٥٤ )

 

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَن یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْْرَ نَاظِرِیْنَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِیْ النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِیْ مِنکُمْ وَاللَّہُ لَا یَسْتَحْیِیْ مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ

 

''اے ایمان لانے والو! بلا اجازت پیغمبر ﷺ کے گھر میں داخل نہ ہونے کی کوشش کرو اور اگر وہ تمہیں دعوت پر بلائیں تو ایسے وقت نہ آؤ کہ کھانا ملنے کے منتظر رہو بلکہ عین وقت پر آؤ اور جیسے ہی کھاناکھاچکو فورا رخصت ہوجاؤ اور ادھر ادھر کی باتوں میں نہ لگ جایا کرو کیونکہ پیغمبر ﷺ کے لئے زحمت کا باعث بنتی ہیں۔ انہیں شرم محسوس ہوتی ہے کہ تمہیں چلے جانے کو کہیں لیکن اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔اور ثانیا جب تم ازواج رسول ﷺ سے کچھ لینا چاہو تو تمہیں چاہئے کہ گھر میں داخل ہوئے بغیر پس پردہ رہ کر ان سے طلب کرو۔یہ طریقہ تمہارے اور ان کے قلوب کی پاکیزگی کے لئے بہتر ہے''۔(٥٥ )

 

 قرآن پاک میں پردہ کی بابت مندرجہ بالا سورہ نور اور سورہ احزاب ہی کی آیات وارد ہوئی ہیں۔تحقیق نگار اس باب میں انہی آیات کی روشنی میں اپنے عنوانات پر سیر حاصل بحث پیش کرے گی۔بنیادی طور پر تو عمومی پردہ سے متعلق سورہ نو رہی کی آیات نازل ہوئی تھیں لیکن چونکہ سورہ احزاب میں ازواج پیغمبر ﷺ کی حجاب کی بابت چند آیات ایسی وارد ہوئیں ہیں جو اس موضوع کے ضمن میں ذکر کی جاسکتی ہیں۔جن میں سے کچھ تو عموما پاکدامنی اور پرہیز گاری سے متعلق ہیں جب کہ کچھ ازواج پیغمبر ﷺ کے باب میں ہیں۔لہذا تحقیق نگار موضوع کے مطابق ان ہی آیات پر بحث پیش کرے گی جو ازواج پیغمبر ﷺ سے متعلق ہیں۔

 اس بحث کو تحقیق نگار ان منفرد اور اچھوتے موضوعات تک محدود رکھے گی جن پر اب تک کچھ خاص توجہ نہیں کی گئی۔مثلا ازواج پیغمبر ﷺ کے حجاب کے حوالے سے کیا منفرد احکامات اور ہدایات جاری کی گئی ہیں جو اگرچہ دیگر مؤمنات کو بھی عمومیت میں شامل ہیں لیکن ان کا خصوصی خطاب ازواج کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔اسی طرح عام عورت اور مرد کو حجاب کے حوالے سے کیا کیا منفرد احکامات و ہدایات دی گئی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔اس تمام بحث کو تحقیق نگار آئندہ سطور میں بالترتیب پیش کرنے جارہی ہے۔

 سورہ احزاب آیات ٣٢،٣٣،٥٣ اور ٥٩ میں اللہ رب العالمین نے پردہ سے متعلق ازواج پیغمبر ﷺ کو خصوصا مخاطب کیا ہے جو اگرچہ عام عورتوں کو بھی عمومیت میں شامل ہے لیکن خصوصی مخاطب ازواج پیغمبر ﷺ ہیں۔البتہ مقصود یہ نہیں کہ خطاب کی پابند صرف ازواج پیغمبر ﷺ ہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ ان اصلاحات کو تمام گھرواں میں نافذ کیا جائے البتہ ازواج پیغمبر ﷺ کو خصوصا مخاطب کرنے کی غرض صر ف یہ ہے کہ جب ان اصلاحات کا نفاذ اور ابتداء نبوی گھرانے سے ہوگی تو تمام خواتین جو دیگر مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں خود بخود اس کی تقلید کریں گی کیونکہ نبوی گھرانہ دیگر گھرانوں کے لئے اک نمونہ کی حیثیت رکھتاہے۔(٥٦ )پردے کی آیات کے نزول کے اسباب کی بابت مختلف الانواع اقوال و آراء بیان کی جاتی ہیں۔

 حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا کہ حضرت اسماء بنت مرثد بنو حارثہ میں اپنے گھر میں ہوتی تھیںتھیں اور خواتین ان کے پاس بلاروک ٹوک آیا جایا کرتی تھیں۔کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ وہ بیٹھی ہوتیں اور اچانک مہمان در آتے کہ انہیں سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملتا کہ اپنے پازیب ،سینہ اور بال وغیرہ ڈھانپ لیتی یہ بات حضرت اسما کو بہت بری معلوم ہوتی اسی باعث اللہ رب العالمین نے یہ آیات نازل فرمائیں۔

 

''قل للمؤمنت یغضضن من ابصارھن''(٥٧ )

 

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی ﷺ میں عرض گذار ہوئے کہ آپ کے پاس چونکہ نیک اور فاجر ہر قسم کے لوگ آتے جاتے ہیں اگر آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دے دیں تو مناسب ہو۔چنانچہ اسی باعث آیہ حجاب نازل ہوئی۔(٥٨ )

 علامہ ابن کثیر بیان کرتے ہیں کہ پردے کی آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی علیہ السلام نے سنہ ٥ ہجری میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔

 مولانا شفیع عثمانی صاحب سبب نزول کی بابت تحریر کرتے ہیں کہ آیات حجاب کے نزول کے اسباب میں جو یہ تین واقعات (حضرت عمرو انس رضی اللہ عنہما )روایات حدیث میں مذکور ہیں ان میں کوئی تعارض نہیں،ہوسکتا ہے کہ تینو ں واقعات کا مجموعہ ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنا ہو۔(٥٩ )

 مولانا مودودی آیہ حجاب کے نزول کا سبب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش کو بیان کرتے ہیں۔(٦٠ )

 صاحب تفسیر نمونہ آیہ کو ازواج پیغمبر ﷺ کے ساتھ خاص گردانتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔

 

''یہاں پر جو نکتہ قال توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس آیہ میں حجاب سے مراد عام عورتوں کا پردہ نہیں ہے بلکہ اس پر ایک اضافی حکم ہے جو ازواج رسول کے ساتھ خاص ہے۔اور وہ یہ کہ لوگ اس بات کے پابند تھے کہ آنحضرت ﷺ کی خصوصی حرمت کے پیش نظر جب کبھی آپ کی بیویوں سے کوئی چیز لینا چاہیں تو پردے کے پیچھے سے لیا کریں اور ازواج رسول ﷺ پردے کے ساتھ بھی لوگوں کے سامنے نہ آیا کریں البتہ یہ حکم صرف ازواج رسول ﷺ سے مختص ہے اور عام عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں یعنی وہ اسلامی حجاب کے ساتھ عام لوگوں کے سامنے آسکتی ہیں''۔(٦١ )

 

 ان تمام تفسیری ماخذ و مصادر کی روشنی میں جو بات منتج وملخص ہوتی ہے وہ قدرے تفصیل طلب ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس بات پر امت کے علماء متفق ہیں کہ پردہ کے متعلق نازل ہونے والی پہلی آیہ سورہ احزاب کی آیہ ٥٣ ہے۔جو حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اور نبی علیہ السلام کے نکاح کے وقت نازل ہوئی جو کہ سنہ ٣ ہجری یا ٥ ہجری میں ہوا۔(٦٢ )

 

ستر وحجاب

 

پردہ کے باب میں دو باتیں مزید جان لینی ضروری معلوم ہوتی ہیں کہ ان کے جاننے پر پردہ کے تمام مسائل بخوبی سمجھ آسکتے ہیں۔

(١ ) ستر

(٢ ) حجاب

 یہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ستر ہمیشہ سے فرض ہے ۔چاہے جنت میں ممنوعہ درخت کھانے کے بعد حضرات آدم و حوا علیہما السلام کا پتوں سے سترکرنا ہو یا آج کے دور میں کپڑوں سے ان مخصوص اعضاء کا پوشیدہ رکھنا۔ ابتدائے آفرینش سے ہی فرض رہا ہے۔جہاں تک حجاب کا تعلق ہے کہ عورت اجنبی مرد سے پردہ کرے تو اس بابت اگرچہ پہلے بھی عمل درآمد ہوتارہاہے ۔ مثلا حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے واقعہ میں ہمیں پردہ نظر آتا ہے۔ لیکن عورتوں کو باقاعدہ پردہ میں رہنے کا حکم سنہ ٣ ہجری میں فرض کیا گیا۔فلہذا معلوم ہوا کہ ستر عورت اور حجاب دو الگ الگ مسئلے ہیں ۔ستر ہمیشہ سے فرض رہاہے جب کہ حجاب سنہ ٥ ہجری میں فرض ہوا ۔ستر مرد و عورت دونوں پر فرض ہے جب کہ حجاب صرف عورت پر۔(٦٣ )

 ان متذکرہ بالا آیات میں دو باتیں مزید قابل توجہ اور فہم ہیں۔ان آیات میں اللہ رب العالمین نے ازواج کے حوالے سے تین الفاظ خصوصا ذکر کئے ہیں جن کی تشریح اور تفہیم ضروری معلوم ہوتی ہے۔خطاب اگرچہ یہاں بھی خاص ازواج سے ہے لیکن تعمیم تمام خواتین کو مشتمل ہے۔

١۔ تبرج

٢۔ جلباب

٣۔ جاہلیت اولیٰ

 

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی

 

''اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت کے دور کی طرح خودنمائی اور خود آرائی کے لئے باہر نہ نکلاکرو''۔(٦٤ )

 

یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ

 

''وہ اپنی چادروں کو اپنے قریب کرلیاکریں''(٦٥ )

 

''تبرج''

 

 تبرج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے،ابھرنے اور کھل کر سامنے آجانے کے ہیں ۔تبرج کا لفظ جب عورت کے لئے استعمال ہوتو اس کے تین معنی ہوں گے۔

١۔ عورت اپنے چہرہ اور جسم کا حسن لوگوں کو دکھائے

٢۔ عورت اپنے لباس اور زیورات دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔

٣۔ عورت اپنی چال ڈھال سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔(٦٦ )

کتاب العین میں اس لفظ کی تشریح میں لکھا ہے کہ

 

''آنگاہ کہ زن زیبابھاتی گریبان و چہرہ را بنمایند ،گفتہ می شود،تبرج کردہ است''۔

 

''وہ عورت جو اپنے سینہ اور چہرہ کا حسن نمایاں کرے اسے کہا جاتاہے کہ اس نے تبرج کیا''(٦٧ )

 

مفسر قاسمی اس لفظ کی تشریح فرماتے ہیں۔

 

''تبختر و تکبر درراہ رفتن ،اظہار نمودن زینت،لباس نازک پوشیدن''۔

 

چال ڈھال میں ناز وانداز دکھانا۔حسن کی نمائش کرنا۔نازک لباس پہننا۔(٦٨ )

 

احمد مقری فیومی اس لفظ کی تشریح میں عورت کی جلوہ گری اور زیب و زینت کی نمائش کو دخیل گردانتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔

 

''تبرجت المرأۃ ،یعنی زن ،زیبائھا وزینتھائش رادر مقابل نامحرم ،آشکار سازد''

 

''عورت نے تبرج کا مظاہرہ کیا کا معنی ہے کہ عورت نے اپنی زیب وزینت کا اظہار نامحرم کے روبروکیا۔(٦٩ )

 

مفسر قرطبی تبرج کے معنی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:

''عورت کا اپنے مخفی حسن وجمال اور زیب و زینت کو ظاہر کرنا تبرج کہلاتاہے''۔(٧٠ )

 

 زبیدی نے تاج العروس میں اس بابت مختلف اقوال ذکرکرنے کے بعد گویا تمام کے تمام کو خودنمائی کے معنی میں بیان کیا ہے۔(٧١ )

ابن ابی نجیع کا قول اس بابت یہ منقول ہے کہ

 

''التبرج ھو التھتک وابراز المرئۃ محاسنھا للرجال واظھار زینتھا للأجانب''

 

''تبرج کہتے ہیں عورت کا اپنے حسن و جمال کی نمائش کرنا اور اپنی زیب و زینت کو اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر کرنا۔(٧٢ )

 

 ابن اثیر بھی تبرج کو خوآرائی اور خونمائی کے معنی میں لیتے ہیں اور حدیث مبارکہ

 

''کان یکرہ النساء عشر خصال منھا التبرج لغیر محلھا''میں اس کی صراحت بایں الفاظ کرتے ہیں۔

 

نبی علیہ السلام عورت کے لئے دس خصائل کوناپسند فرماتے تھے جن میں ایک تبرج غیر محل ہے''۔اس مقام پر ابن اثیر فرماتے ہیں کہ تبرج غیر محل کا مطلب ہے کہ اپنی زیب و زینت اور حسن و جمال غیر محرم کے سامنے ظاہر کرنا۔(٧٣ )

 

 آقائے مصطفوی اس بابت مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کا مادہ برج ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کا ظاہر کرنا یا ظاہر ہونا ۔لہذا ہر وہ عورت جو اپنی زیب و زینت کو نامحرموں کے سامنے ظاہر کرے گی وہ تبرج کرنے والی ہوگی۔(٧٤ )

 القصہ مندرجہ بالا تمام تحقیق و تفتیش کے نتیجہ میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تبرج کا اصل معنی خودنمائی ،خود آرائی اور غیر محرموں کے سامنے اپنی زیب و زینت کا اظہار کرناہے۔آیہ مبارکہ میں اس تبرج سے ازواج پیغمبر ﷺ کوخصوصا اور عام مؤمنات کو عموما منع کیا جارہا ہے ۔جیسے زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے پردہ بناؤ سنگھار دکھاتی پھراکرتی تھیں ایسے اب نہ کریں بلکہ پردہ میں بیٹھیں اور گھروں میں رہیں ۔اس آیہ مبارکہ میں گوکہ خصوصی مخاطب ازواج پیغمبر ﷺ ہیں لیکن سیاق و سباق میں اس کے متصل آئندہ اور سابقہ کئی احکامات عام ہیں اور دیگر مؤمنات کو بھی شامل ہےں۔مثلا فلا تخضعن بالقول،وقلن قولا معروفا،واقمن الصلوۃ واتین الزکوۃ ،وغیرہ ان تمام احکامات میں ازواج ا ور عام مومنات سب یکساں طورپر شامل ہیں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی آیہ میں موجود احکامات میں ایک حکم تو ہم خاص کردیں اور بقیہ احکامات کو عام رہنے دیں ! لہذا معلوم ہوا کہ اگرچہ خصوصی خطاب ازواج پیغمبر ﷺ کو ہے لیکن عمومیت میں تمام مؤمنات بھی شامل ہیں دیگر کئی احکامات کی طرح۔

 

الجاھلیۃ الاولیٰ:

 

 ان متذکرہ بالا آیات مبارکہ میں پردہ کے باب میں ایک لفظ ''جاہلیت اولیٰ''استعمال ہوا ہے۔''جاہلیت اولیٰ ''سے کیا مراد ہے؟

 

علامہ زمحشری رحمہ اللہ ''جاہلیت اولیٰ''کی تعیین کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ

 

''مراد از جاہلیت نخستین جاہلیت زمانی حضرت ابراہیم علیہ السلام است چراکہ زنہاں لباسی مزین بہ مروارید بہ تن کردہ ودرمحل رفت و آمد مردان حاضرمی شدند وجاہلیت دومی،جاہلیت زمان حضرت عیسی تا حضرت رسول ﷺ است!

البتہ احتمال دیگر ی نیز می دھد!

''ممکن است مراد از جاہلیت نخستین ،جاہلیت کفر قبل از اسلام باشد و جاہلیت دوم جاہلیت فسق و فجور در دورہ اسلام۔(٧٥ )

 

جاہلیت اولیٰ سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں موجود جاہلیت مراد ہے کہ جس وقت ان کی خواتین مزین بہ مروارید لباس زیب تن کرکے ایسے محلات میں آمد ورفت رکھاکرتی تھیں جہاں مردوں کی موجودگی رہاکرتی تھی اور دوسری جاہلیت کا زمانہ حضرت عیسی علیہ السلام تا حضرت محمد ﷺ کا زمانہ ہے۔البتہ دیگر احتما ل بھی ہوسکتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ زمانہ جاہلیت اولیٰ سے مراد قبل از اسلام کفر کی جاہلیت ہو اور جاہلیت دوم اسلام کے بعد کے دور میں فسق و فجور کی جاہلیت ہو۔

 

 

علامہ طباطبائی اس بابت مفید ترین مختصر تشریح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:

 

''الجاہلیۃ الاولیٰ الجاہلیۃ قبل البعثۃ''(٧٦ )

 

''زمانہ جاہلیت اولیٰ نبی علیہ السلام کی بعثت سے قبل کے زمانہ کو کہا جاتاہے''۔

 

 القصہ جاہلیت اولیٰ سے کوئی بھی زمانہ مراد ہو ازواج اور دیگر مؤمنات کو اس بات سے روکا جارہا ہے کہ جاہلیت اولیٰ کی طرح تبرج نہ کریں اگر تقویٰ اختیار کرنا چاہتی ہیں۔

 یہ خطاب بھی ازواج پیغمبر ﷺ کے ساتھ ساتھ دیگر مؤمنات کو بھی شامل ہے۔اگرچہ خصوصیت ازواج کے لئے ہے لیکن عمومیت دیگر مؤمنات کے لئے بھی ہے۔

 

 

الجلباب

 

خلیل بن احمد فراہیدی لکھتے ہیں :

 

''الجلباب ثوب اوسع من الخمار دون الرداء تغطی بہ المرأۃ رأسھا وصدرھا''(٧٧ )

 

''جلباب اس وسیع وعریض کپڑے کو کہاجاتاہے جو دوپٹہ سے بڑا اور چادر سے چھوٹا ہوتاہے خواتین اس کی مدد سے اپنا سر اور سینہ ڈھانپتی ہیں''۔

 

 ابن منظور نے بھی لسان العرب میں جلباب کے یہی معنی کئے ہیں(٧٨ )جلباب کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ یہ ایک ایسے پہناوے کو کہتے ہیں جو عباسے چھوٹا ہوتاہے خواتین اس کی مدد سے اپنا سرچھپاتی ہیں اور باقی بچ جانے والے سے سینہ ڈھانپ لیتی ہیں۔(٧٩ )

 

 

شیخ طبرسی جلباب کے بارے میں یہ تحریر کرتے ہیں کہ :

 

''الجلباب ،خمار المرأۃ الذی یغطی راسھا ووجھا اذاخرجت لحاجۃ''۔(٨٠ )

 

''جلباب عورت کی اس اوڑھنی کو کہا جاتا ہے جس سے عورت باہر نکلتے وقت اپنا چہرہ اور سر وغیرہ ڈھانپ لیتی ہے''۔

 

 القصہ واضح ہوا کہ جلباب اس پیراہن کوکہاجاتاہے جو عباسے چھوٹا ہوتاہے اور خواتین بیرون خانہ آمدورفت کے وقت اسے پردہ کے لئے استعمال کرتے ہوئے اپنا سر اور چہرہ وغیرہ ڈھانپ لیتی ہیں اور تمام بدن بھی ۔

 ازواج پیغمبر ﷺ کے باب میں پردہ کی بابت یہ تین الفاظ انوکھے ،اچھوتے استعمال کئے گئے ہیں جن کی تفصیل آپ نے ابھی مندرجہ بالا سطور میں ملاحظہ کی ۔ازواج کو اللہ رب العالمین نے دیگر احکامات کے ساتھ یہ احکامات بھی دیئے کہ وہ تبرج سے پرہیز کریں جاہلیت اولیٰ سے دور رہیں اور جلباب استعمال کیا کریں ان احکامات کا بھی بظاہر خصوصی خطاب اگرچہ ازواج پیغمبر ﷺ سے ہے لیکن عموما یہ احکام بھی دیگر تمام احکامات کی طرح عام مؤمنات کو بھی شامل ہیں۔تحقیق نگار نے چونکہ عنوانات علیحدہ علیحدہ مرتب کئے ہیں اس لئے ابحاث بھی علیحدہ ذکر کی جارہی ہیں وگرنہ پردہ کے تمام احکامات جس طرح ازواج پیغمبر ﷺ کے لئے ہیں بعینہ اسی طرح دیگر مومنات کے لئے بھی ہیں۔

 

 

٢۔ آزاد عورت کا حجاب

 

 قرآن پاک کی سورہ نور کی آیہ نمبر ٣١ میں اللہ رب العالمین نے آزاد خواتین کے حجاب کی بابت یوںہدایات جاری فرمائی ہیں۔اللہ رب العالمین فرماتے ہیں۔

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْْرِ أُوْلِیْ الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِن زِیْنَتِہِنَّ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ۔

 

'' اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینتوں کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگرجوآپ ہی ظاہر ہوجاتی ہوںاور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے:شوہر،باپ،خسر،بیٹوں،شوہر کے بیٹوں،بھائیوں،بھتیجوں،بھانجوں ،اپنی عورتوں، لونڈی ،غلاموں کے سوا نیز ان مردوں کے جو عورتوں کی خواہش نہیں رکھتے یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے جنسی امور سے واقفیت نہیں رکھتے کسی پر بھی اپنی زینت اور آرائش کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں اس طرح سے زمین پر نہ ماریں کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے ۔اور مؤمنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔

 

 قرآن پاک کی مندرجہ بالا آیہ مبارکہ میں آزاد عورت کے حجاب کی بابت ہدایات دی جارہی ہیں کہ آزاد عورت یعنی مومنات کو چاہئے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔اپنے بناؤ سنگھار کو دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دیں کہ مردوں کی دلچسپی کا سبب بنیں ۔اس کے ساتھ ہی دو استثناء ات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جن میں ایک عام مردوں سے متعلق ہے جب کہ دوسرا استثناء خاص مردوں کے لئے ہے۔

 آیہ متذکرہ بالا میں بھی چند الفاظ انوکھے الفاظ استعمال ہورہے ہیں جو دیگر آیات حجاب میں نہیں ہےں۔یہ الفاظ بھی اگر چہ خصوصا عام مؤمنات کے حوالے سے مذکور ہورہے ہیں لیکن عموما یہ تمام خواتین بشمول ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین کوبھی شامل ہیں۔

 

زینت

 

ابوالفتح جرجانی تفسیر شاہی میں زینت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

 

''زینت عبارتست از چیز ھابی کہ سبب تزیل و تجمل شود خواہ ظاہر باشد مثل جامد ھائی نفیس و خواہ باطن مثل خلخلا وانگشتری و حلقہ........... وبعض گفتہ اند کہ مراد مواقع زینت است بحذف مضاف واین خلاف ظاھرا ست واحتیاج نیست بدان''۔(٨١ )

 

 زینت ان اشیاء کو کہا جاتاہے جو تحسین وتزئین کا سبب بنتی ہیں خواہ ظاہری ہوں جیسے عمدہ کپڑے وغیرہ خواہ باطنی ہوں جیسے کنگن ،انگوٹھی اور بالیاں وغیرہ۔اور بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مواقع زینت مراد ہیں جب کہ یہ بات خلاف واقعہ معلوم ہوتی ہے''۔

علامہ زمحشری کہتے ہیں:

 

اینکہ زینت گفتہ شدہ ومواضع زینت گفتہ شدہ،بخاطر تاکید پر پوشش می باشد زیدا زینت روں مواضعی از بدن قرار می گیرد کہ جز برامی محارم،حق نظر کردنی بہ آن مواضع حلال نیست،وآن مواضع آرنج،ساق،بازو،گردن،سر،سینہ و گوش می باشد۔

نمایازن خود زینت مخفی شدہ نادانستہ شدد کہ نگاو وقتی بہ زینت حلال نہاشد چوں بہ جانگاھش جیسید نگاہ بہ خود جایگاہ درممنوعیت خواھد بوادر حرمت ثابت القدم...(٨٢ )

 

علامہ قرطبی زینت کی دو قسمیں بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:

 

''زینت بردوقسم است ۔خلقی ،اکتسابی۔زینت خلقی ،صورت زن است کہ اساس آراستگی است۔اما زینت اکتسابی عبارت ازآن چیزی است کہ زن در زیبانمودن خود مثل لباس زیور وآلات و بکامی گیرد...''

 

 یہ ہیں وہ مختلف تعبیرات جو زینت کے باب میں مختلف مفسرین کرام نے تحریر کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لئے زینت کا چھپانا لازم ہے خواہ اکتسابی زینت ہو مثلا کپڑے ،زیورات وغیرہ یا طبعی زینت جو حضرات زینت کو صرف اکتسابی زینت تک محدود کردیتے ہیں وہ حضرات دعوی بلادلیل کے مرتکب ہوتے ہیں جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ زینت میں اکتسابی اور طبعی دونوں طرح کی زینت شامل ہے اور یہ آیہ مبارکہ عورتوں کو پابند کررہی ہے کہ اپنی زینت پوشیدہ رکھیں نامحرموں کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں تاکہ عورت اور مرد دونوںکو تحفظ حاصل ہو ۔عورت کو بحیثیت منظور کے اور مرد کو بحیثیت ناظر کے۔یعنی نہ مرد غیرمحرم کو دیکھنے کا مرتکب ہو اورنہ عورت دیکھے جانے کی۔

 

 

خمار

 

 اصحاب لغت کہتے ہیں کہ خمار اس کپڑے کو کہاجاتاہے جس سے خواتین اپنے سر وغیرہ ڈھانپتی ہیں۔خلیل بن احمد فراہیدی برتن پوش کا معنی مراد لیتے ہیں۔

 

''خمرتہاما غشی المخمور من الخمار''

خمر تہا کا معنی ہوتاہے وہ چیز جس نے مخمور کو ڈھانپ رکھا ہو خمار سے''(٨٣ )

 

 راغب اصفہان بھی اصلا اسے ان اشیاء پر محمول کرتے ہیں جن سے اشیاء کو ڈھکا جاتا ہے۔لکھتے ہیں''خمار اس چیز کو کہا جاتاہے جس سے کسی چیز کو ڈھک دیا جائے۔لیکن عرف عام میں اس کو مختص کردیا گیا اس کپڑے کے ساتھ جس سے عورت اپنے سر کو ڈھانپ لیتی ہے اس کی جمع ''خُمُرٌ'' آتی ہے۔اگر کہا جائے ''اختمرت المرأۃ''تو اس کا معنی ہوگا عورت نے خود کو چھپا لیا۔(٨٤ )

 آقائے مصطفوی کہتے ہیں خمر وخمار کا معنی چھپانا ہے۔شراب کو بھی ''خمر ''ا س لئے کہا جاتاہے کہ ظاہری و باطنی حواس چھپادیتی ہے۔عورت کے سر ڈھانپنے والے کپڑے کو بھی اس لئے ''خمار''کہتے ہیں کہ اس سے عورتوں کے سر ڈھک جاتے ہیں۔''(٨٥ )

 

جیب

 

جیب گردن کے طوق کو کہا جاتاہے۔تاج العروس میں لکھا ہے کہ:

 

''جیب القمیص:طوق و گریبان لباس راگویند''۔(٨٦ )

 

احمد مقری فیومی کہتے ہیں ''جیب القمیص''اس کپڑے کو کہتے ہیں جو گردن میں حائل کیا جاتاہے۔(٨٧ )

 جیب کا معنی دل اور سینہ بھی کیا جاتا ہے او اس میں کوئی اشکال کی بات بھی نظرنہیں آتی کیونکہ جو کپڑا جیب کہلاتا ہے وہ سینہ کو ہی ڈھانپنے کے کام آتاہے ۔اس لئے کنایۃ سینہ کو جیب سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔(٨٨ )

 

''وکنی عن الصدور بالجیوب لانھا ملبوسۃ علیھا''(٨٩ )

 

 یہ ہیں وہ انوکھے الفاظ جو آزاد عورت کے حجاب کی بابت قرآن پاک میں وارد ہوئے ہیں۔جس میں اسے پابند کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھے،اپنی زینت کا اظہار نہ کرے ،اپنی اوڑھنی گریبان پر ڈالے رکھے وغیر ہ وغیرہ۔پردہ کی بابت عام عورتوں میں ان کی حیثیت کے اعتبار سے کچھ فرق پایا جاتاہے ۔عام عورتوں کو ہم دوقسموں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

١۔ آزاد عورت

٢۔ غلام عورت

 

آزاد عورت

 

 اسلامی ادارہ جات میں پردہ اک ایسا ادارہ ہے جو اخلاق عالیہ پر براہ راست اثر انداز ہوتاہے اور اس کا دیگر مذاہب سماویہ (یہودیت،نصرانیت )وغیرہ سے بھی کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ ان مذاہب میں خود حجاب کی تاکید و توثیق پائی جاتی ہے ۔جیسے کہ تحقیق نگار نے مقالہ ہذا کے باب اول میں مفصلا ذکر کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہودی و نصرانی عورتوں کو بھی پردہ کا حکم دیاکرتے تھے۔(٩٠ )

 شریعت اسلامیہ میں چونکہ اللہ رب العالمین نے آزاد خواتین پر حجاب لازم قرار دیا ہے تاکہ ان کا شرف و احترام ظاہر ہو اس لئے لونڈیوں کو حجاب سے منع کیا جائے گا تاکہ آزاد عورت لونڈی سے نمایاں طورپر پہچانی جاسکے بمصداق قول باری تعالیٰ کے:

 

''ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ ''

 

یہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں''(٩١ )

 

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ آزاد عورتوں کے اسی شرف و احترام کی بقا کی خاطر باندیوں اور لونڈیوں کو جلباب (بڑی چادر )پہننے سے منع فرمایا کرتے تھے۔(٩٢ )

 آپ لونڈیوںکو اس بات کی قطعی اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ آزاد عورتوں سے مشابہت پیداکریں۔ایسا آپ اس لئے کرتے تھے تاکہ آزاد عورتوں کا شرف واحترام برقرار رہے اور شرفاء و رذیل لوگوں میں اختلاط پیدانہ ہوسکے اور بد کردار لوگ آزاد عورتوں سے غیرپسندیدہ طریق کار پر تعرض بھی نہ کریں جیسے کہ لونڈیوں سے کیا جاتا تھا۔کیونکہ زمانہ جاہلیت اور ابتداء اسلام میں بدکردارلوگ باندیوں اور لونڈیوں سے تعرض کیا کرتے تھے جب کہ آزاد عورتیں بد کردار نہیں ہواکرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ مختلف مواقع پر ہمیں نظرآتا ہے کہ باندیوں کو آزاد عورتوں کی مشابہت سے روکا جاتا رہا ہے ۔مثلا حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی باندی عقیلہ کو جلباب پہننے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ماراتھا۔(٩٣ )

 مدینہ منورہ میں ملکہ نامی ایک عورت رہا کرتی تھی جسے ''سرور''کہا جاتا تھا اسے بھی آپ نے جلباب پہننے سے منع کردیاتھا۔(٩٤ )

 آل انس کی ایک باندی کوآپ رضی اللہ عنہ نے نقاب اوڑھنے پر ماراتھا اور اس سے کہا تھا کہ اپنا سر کھلا رکھ اور آزاد عورتوں سے مشابہت پیدانہ کر۔(٩٥ )

 القصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ باندیوں کو برقع اور نقاب پہننے سے بھی منع کیاکرتے تھے اور انہیں بن سنور کر باہر نکلنے کی اجازت بھی نہ دیتے تھے تاکہ فتنہ پیدانہ ہو۔

 آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں کسی باندی کو نقاب نہیں پہننے دیا ۔آپ کا قول ہے کہ نقاب آزاد عورتوں کے لئے ہے۔(٩٦ )

 ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے ایک باندی نکلی جس نے خوب زیب و زینت کا سامان کررکھا تھا اور جلباب اوڑھے ہوئی تھی،حضرت عمر ان کے گھر گئے اور پوچھا کہ یہ کون تھی ،اہل خانہ نے بتایا کہ ہماری باندی تھی،یافلان خاندان والوں کی باندی تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ اس طرح زیب و زینت کے ساتھ اپنی باندیوں کوباہر بھیجتے ہوتاکہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں۔(٩٧ )

 القصہ پردہ کی مشروعیت چونکہ آزاد عورتوں کے لئے ہوئی ہے اس کا اہتمام بھی آزاد عورتیں کریں گی۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آزاد عورت کے پردہ کی حدود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

 

''آزاد عورت اجنبی مردوں یعنی غیر محرموں سے سوائے چہرہ اور دونوں ہتھیلیوں کے اپنا سار ا جسم پردے میں رکھے گی''۔(٩٨ )

 

 وہ اپنا سینہ اور گریبان سورہ احزاب آیہ ٥٩ پر عمل کرتے ہوئے مستوررکھے گی اور اپنی پیشانی و سر بھی ڈھانپے رکھے گی۔(٩٩،١٠٠ )

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آزاد عورت اجنبی مرد کے سامنے اپنے چہرے اور ہتھیلیاں چھوڑ کر باقی تمام جسم پوشیدہ رکھے گی۔(١٠١ )

 آپ رضی اللہ عنہ سورہ نور آیہ ٣١ کی تفسیر کرتے ہوئے اس بابت فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت اپنا چہرہ دونوں ہتھیلیاں اور ان میں لگی ہوئی مہندی اور آنکھوں میں لگا ہو ا سرمہ ظاہر کرسکتی ہے۔(١٠٢ )

 

٣۔ لونڈی کا حجاب

 

 لونڈی اور ذمی عورت کے حجاب کی بابت چونکہ قرآن پاک میں تصریحات نہیں ہیں اس لئے کتب احادیث و فقہ کی رو سے ان کے حجاب پر نظر ڈالی جائے گی۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لونڈی چونکہ گھر کے اندر و باہر کے کام کاج کے لئے رکھی جاتی ہے ،اسے کثر ت سے گھر کے اندر و باہر کے کاموں کی تکمیل اور حوائج و ضروریات کے لئے آنا جانا پڑتاہے اس لئے آمد ورفت کی کثرت اور کام کی زیادتی کی بناء پر اسلامی شریعت نے اس پر پردہ کے التزام میں قدرے رعایت رکھی ہے تاکہ کام کاج میں بھی ہرج نہ آنے پائے اور اسے بھی تکلیف نہ ہو بلکہ قدرے سہولت حاصل رہے۔اسلئے جس قدر پردے کا التزام آزاد عورت کرتی ہے اس قدر التزام لونڈی نہیں کرے گی بلکہ اس کے لئے جائز ہے کہ کام کاج کرتے وقت عادتا جسم کے جو حصے کھلے رہتے ہیں وہ کھلے رہنے دے ۔مثلا سینہ کا اوپری حصہ اور بازو وغیرہ۔(١٠٣ )

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لونڈی کے لئے صرف ناف سے گھٹنے تک کا حصہ ڈھانپنا ضروری ہے۔

 مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لونڈی کی بابت استفسارکیا کہ آیا لونڈی ایک کپڑے میں باہر نکل سکتی ہے ؟ آپ نے کہا ہاں نکل سکتی ہے۔مزید استفسار پر آپ نے فرمایا''اس زمانہ میں (ابتدائی زمانہ میں )لوگوں میں تنگدستی تھی اس لئے لونڈیاں ایک ازار میں بھی رہا کرتی تھیں''۔(١٠٤ )

 

٤۔ ذمی عورت کا حجاب

 

 ذمی ان غیر مسلموں کو کہا جاتا ہے جو قدیم آسمانی مذاہب کے پیر و اور اسلامی حکومت کی پناہ میں معاہدے کے تحت رہتے ہیں۔

 اہل ذمہ کی بابت سکونی امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے اہل ذمہ کی حجاب کی بابت فرمایا:

 

''لاحرمۃ لنساء اہل الذمۃ ان ینظر الی شعورھن وایدیھن''

 

''اہل ذمہ خواتین کے بالوں اور ہاتھوں کو دیکھنا حرام نہیں ہے''۔(١٠٥ )

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہل ذمہ کی بابت نقول ہے کہ

 

''لابأس بالنظر الی رء و س النساء من اھل الذمۃ''

 

''اہل ذمہ خواتین کے سروں کو دیکھنا جائز ہے''۔(١٠٦ )

 

 القصہ اسلامی فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اہل ذمہ خواتین کو دیکھنا جائز ہے اور اس قدر حصہ دیکھنا جائز ہے جو عادتا خواتین کھلا رکھتی ہیں۔

امام خمینی کہتے ہیں۔

 

''اہل ذمہ خواتین بلکہ مطلق کافرات کو دیکھنا بدون تلذذ کے جب کہ حرام میں واقع ہونے کاخوف نہ ہو جائز ہے البتہ احتیاطا انہی مواقع تک محدود رہنا چاہئے جو وہ عادتا مکشوف رکھتی ہیں''۔(١٠٧ )

 

٥۔ مردوں کا حجاب

 

مردوں کے حجاب کی بابت قرآن پاک میں صر ف سورہ نور کی آیہ نمبر ٣٠ میں احکامات دیئے گئے ہیں۔

 

'' قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ َ ''

 

''اے رسول اللہ ( ﷺ )ان مؤمنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں''۔

 

آیہ مبارکہ میں مردوں کو دو ہدایات دی جارہی ہیں۔

١۔ آنکھوں کی حفاظت

٢۔ شرمگاہ کی حفاظت

 یہ دو ہدایات مردوں کے حجاب کی بابت قرآن پاک میں مذکور ہیں۔اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اس قسم کے احکامات نوع بشر کی بہتری کے لئے آئے ہیں ۔عورت ہو یا مرد،اسلامی قوانین کسی امتیاز کی بناپر یا مرد و عورت کے اختلاف کی بنیاد پر استوار نہیں ہوئے ہیں ۔اگر ایساہوتا تو تمام واجبات عورت کے لئے ہوتے اور مرد بری الذمہ ہوتا۔جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح عورت کو پردہ کی بابت مختلف احکامات غض بصر،حفاظت فرج،اخفائے زینت ،چال میں آہستگی،کلام میں سختی،گھروں میں ٹھہرنا ، تبرج جاہلیت سے پرہیز ،گھونگٹ لٹکانے وغیرہ کے احکامات دیئے جارہے ہیں اسی طرح مرد کوبھی پابند کیا جارہاہے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اسلام میں مرد وعورت کے مابین امتیاز نہیں برتا جاتابلکہ ہر دو اجناس کو ان کے اپنے دائرہ عمل میں مخصوص قوانین کے ذریعے پابند کردیاجاتاہے جس کی پابندی کرتے ہوئے دونوں اجناس اپنی زندگیوں کو خوشگوار انداز میں گزارسکتے ہیں۔

 مندرجہ بالا تمام تحقیق کے نتیجے میں تحقیق نگار اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ قرآن پاک میں وارد پردہ کی بابت تمام آیات کا لب لباب اور خلاصہ یہ نکلتاہے کہ مرد وعورت کے باب میں دو چیزیں شریعت نے اس طرح بیان کی ہیں کہ انہیں علیحدہ علیحدہ سمجھا جانا چاہئے۔

١۔ ستر

٢۔ حجاب

١۔ ستر

 ستر مرد و عورت کے اس حصہ و بدن کو کہتے ہیں جسے ہر ایک سے چھپانا شرعا بھی فرض ہے اور عقلا و طبعا بھی۔اور یہ وہ فریضہ ہے جو ابتدائے آفرینش سے ہی فرض رہا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی شرائع میں فرض رہا ہے۔جس کی قدامت اور فرضیت کا اندازہ وثبوت اس بات سے ہی معلوم کیا جاسکتاہے کہ جنت میں جب حضرت آدم و حوا علیہما السلام کے بدن سے شجر ممنوعہ استعمال کرلینے کے سبب جنتی لباس اتر گیا اور کشف ستر ہوا تو اس موقع پر بھی دونوں حضرات نے کشف ستر کو جائز نہ سمجھا بلکہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنا ستر عورت کیا اور مخصوص حصہ بدن کو ڈھانپ لیا۔جسے قرآن یوں بیا ن کرتاہے۔

 

فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْء َاتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْْہِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّۃِ(١٠٨ )

 

 یہ حکم تو ستر عورت کا تھا جو ابتدائے آفرینش سے ہی تمام شریعتوں میں فرض رہاہے ۔جس میں مرد وعورت دونوں برابر ہیں دونوں کے لئے خلوت ہو یاجلوت کسی بھی حال میں بلاضرورت شرعی و طبعی کشف عورت کی اجازت نہیں ہے۔

 

٢۔ حجاب

 

 حجاب کہتے ہیں عورتوں کے اجنبی مردوں سے پردہ کرنے کو۔جہاں تک حجاب کا تعلق ہے تو اس مسئلہ میں بھی ہم تمام شریعتوں میں دیکھتے ہیں کہ کم از کم بلا جھجک اور روک ٹوک کے کسی بھی شریعت میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نظرنہیں آتا ۔مثلا حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے قصہ مذکورہ فی القرآن میں دیکھ لےں ۔دونوں صاحبزادیاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتفاقیہ مسافرانہ گزر کے موقع پر پوچھے گئے سوال پر جواب دیتے ہوئے اپنے ایک طرف کھڑے رہنے اور جانوروںکوپانی نہ پلانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے دوباتیں کہتی ہیں ۔

١۔ مردوں کا ہجوم ہونا

٢۔ والد کا بوڑھا اور ضعیف ہونا

 جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس زمانہ میں بھی عورتوں اور مردوں کا بلا حجاب اختلاط پسندیدہ امر نہ تھا۔اگرچہ عورتوں کو باقاعدہ پردہ میں رہنے کا حکم نہیں تھا جو کہ ابتداء اسلام تک بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں کو باقاعدہ پردہ کا حکم سنہ ٣ ہجری یا ٥ ہجری میں دیاگیا جس کی تمام تفصیلات مندرجہ بالا سطور میں بیان کی جاچکیں ۔نیز مندرجہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ ستر عورت کے اور حجاب کے الگ الگ مسئلے ہیں ۔ستر عورت تو ہمیشہ فرض رہاہے جب کہ حجاب کی فرضیت سنہ ٥ ہجری ہوئی ہے۔ستر کا چھپانا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے جب کہ حجاب صرف عورتوں پر فرض ہے۔ستر خلوت و جلوت ہر حالت میں فرض ہے جب کہ حجاب صرف اجنبی کی موجودگی میں فرض ہے۔

 قرآن پاک میں وارد پردہ کی بابت تمام آیات کی تحقیق و تدقیق کے بعد تحقیق نگار اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ان آیات متذکرہ بالا میں خواتین کے حجاب کی بابت دو مواقع کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف احکامات دیئے گئے ہیں۔

١۔ جب عورت گھر میں ہو تو اس بابت ایک حکم

٢۔ جب عورت گھر سے باہر جائے تو اس بابت دوسرا حکم

 یعنی ہم عورت کے حجاب کو قرآن کی رو سے دو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔پہلی نوعیت کے احکامات کو ہم عورت کے لئے''حجاب فی البیت''(گھر کا حجاب''اور دوسری نوعیت کے احکامات کو ہم عورت کے لئے ''حجاب فی الخارج''(باہر کا حجاب )سے تعبیر کرتے ہیں۔

 

١۔ حجاب فی البیت

 

 حجاب فی البیت وہ حجاب ہے جو دراصل مطلوب شریعت ہے یعنی عورتیں اپنا سر اپا اور اپنی حرکات و سکنات کو مردوں کی نظروں سے مستور رکھیں ۔چاہے یہ مستوریت گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے ہو یا خیمہ جات اور معلق پردوں کے ذریعے۔

 

٢۔ حجاب فی الخارج

 

 حجاب فی الخارج کی دونوں صورتیں بناء بر ضرورت اور قدر ضرورت ہیں۔اسلامی شریعت چونکہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں ہر امرپیش آمدہ کی بابت تمام ضروریات کی مکمل رعایت رکھی جاتی ہے۔اس لئے حجاب کے معاملہ میں بھی چونکہ ظاہر بات ہے کہ بعض ایسی ضروریات کا پیش آجانا ناگزیر ہے جس میں کسی وقت عورتوں کو گھر سے نکلنا پڑے تو اس صورت اور ضرورت کے لئے ''حجاب فی الخارج''کے احکامات دیئے گئے ہیں۔جس میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ خواتین کو علیحدہ سے خصوصی انتظامات کرنے کے بعد گھر سے باہر جانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔مثلا یہ کہ ایسی چادر میں خواتین سر سے پاؤں تک برقع یا لمبی چادر کے ذریعے اپنے تمام بدن کو چھپا کر نکلیں۔خوشبو نہ لگائے ہو، بجنے والا زیور نہ پہنے ہو، راستہ کے کنارے پر چلے اور مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔

یہ حجاب فی الخار ج کا ایک حکم ہوا جبکہ دوسرا حکم اور تفصیل حجاب فی الخارج کی ذرا مختلف فیہ ہے جس کی بابت تفصیلی بحث تحقیق نگار اپنے مقالہ ہذا کے فقہی باب میں رقم کرچکی ہے کہ عورت باہر جاتے وقت سر سے پیر تک تمام بدن مستور رکھے مگر چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی ہوں تو کچھ ہرج نہیں لیکن یہ آزادی فتنہ کا خطرہ نہ ہونے سے مشروط ہے۔(تفصیلی بحث فقہی باب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ )

واللہ اعلم بالصواب

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

باب دوم

مصادر ومراجع

 

(١ ) اصحاح ،سفر تکوین ۔٢٤

(٢ ) عباس محمود العقاد،المرأۃ فی القرآن،دار الکتاب العربی بیروت،لبنان،طبعہ ثانیہ،١٩٦٧ئ،ص ٨٨

(٣ ) القرآن ،٢٤:٣٠

(٤ ) القرآن ،٢٤:٣١

(٥ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣٠

(٦ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣٠

(٧ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣١،٣٢

(٨ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣٠

(٩ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣٠

(١٠ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣٠

(١١ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣٠

(١٢ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٣٠

(١٣ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،ج/١،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص ٦٩

(١٤ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٧٦

(١٥ ) مسند احمد بن حنبل ،قاہرہ،دار الحدیث ،ج/١٨،ص٥٤٠

(١٦ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٨١

(١٧ ) محمد بن عبداللہ بخاری ،صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب تزویج النبی ﷺ ،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی

(١٨ ) محمد بن سعد،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٨٠،٨١

(١٩ ) ابن حزم اندلسی ،جوامع السیرۃ النبویہ ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت،ص ٢٧٥،٢٧٦

(٢٠ ) محمد بن عبداللہ ،صحیح البخاری،کتاب النکاح ،باب تزویج الصغار من الکبار

(٢١ ) محمد بن عبداللہ ،صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء ،باب ہجرۃ النبی وباب تزویج النبی ﷺ عن عائشۃ۔

(٢٢ ) محمد بن عبداللہ ،صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء ،باب ہجرۃ النبی وباب تزویج النبی ﷺ عن عائشۃ۔

(٢٣ ) مسعود احمد،بی ایس سی،تاریخ الاسلام والمسلمین،مسجد المسلمین ،کوثر نیازی کالونی،ص ٦٢٩

(٢٤ ) بدر الدین،ڈاکٹر،مقالہ پی ،ایچ ڈی،٢٠٠٥،ص١١١

(٢٥ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ٨١

(٢٦ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١٠٩

(٢٧ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١١٠

(٢٨ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١٠٩،١١٠

(٢٩ ) مبارک پوری،قاضی اطہر،بنات اسلام کی دینی و علمی خدمات،صدف پبلشرز،کراچی،ص ٧٤

(٣٠ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١١٦

(٣١ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،ج/١،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص ٧٥

(٣٢ ) مفتی انتظام اللہ شہابی،خواتین اسلام،کراچی،مدینہ پبلشنگ ،ص ٧٠ تا ٧٥

(٣٣ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١٢٩

(٣٤ ) سعید و عبدالسلام ندوی،سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات،مکتبہ حقانیہ،ملتان،ص ٨٦

(٣٥ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،ج/١،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص ٨٠

(٣٦ ) سعید و عبدالسلام ندوی،سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات،مکتبہ حقانیہ،ملتان،ص٨٢

(٣٧ ) القرآن،:٣٧

(٣٨ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،حصہ اول،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص ٧٨

(٣٩ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،حصہ اول،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص٧٧، ٧٨

(٤٠ ) عمر رضا کحالہ،اعلام النساء ،موسسۃ الرسالۃ بیروت،ج/٢،ص٦٥

(٤١ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١٥٤

(٤٢ ) عمر رضا کحالہ،اعلام النساء ،موسسۃ الرسالۃ بیروت،ج/٢،ص٦٥

(٤٣ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١٥٤

(٤٤ ) سعید و عبدالسلام ندوی،سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات،مکتبہ حقانیہ،ملتان،ص٨٢

(٤٥ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١٥٦

(٤٦ ) سعید و عبدالسلام ندوی،سیر صحابیات مع اسوہ صحابیات،مکتبہ حقانیہ،ملتان،ص٨٢

(٤٧ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،حصہ اول،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص٧٩

(٤٨ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،حصہ اول،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص٨٠

(٤٩ ) ابن حنبل ،امام احمد،المسند،القاہرہ،١٩٩٥ئ،دار الحدیث،ج/١٨،ص ٣٤٦

(٥٠ ) محمد بن سعد ،طبقات ابن سعد،مترجم،راغب رحمانی ،نفیس اکیڈمی،ج/٨،ص ١٦١

(٥١ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،حصہ اول،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص٨٢

(٥٢ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،حصہ اول،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص٨٣

(٥٣ ) محمد یامین قریشی،جدید اسلامی انسائکلوپیڈیا،حصہ اول،فضلی سنز لمیٹڈ،اردو بازار کراچی،ص٨٢

(٥٤ ) ابن حنبل ،امام احمد،المسند،القاہرہ،١٩٩٥ئ،دار الحدیث،ج/١٨،ص ٣٤٢

(٥٥ ) القرآن: ٢٤:٣٠،٣١

(٥٦ ) القرآن: ٣٣:٣٢،٣٣

(٥٧ ) القرآن: ٣٣:٥٩

(٥٨ ) القرآن: ٣٣:٥٣

(٥٩ ) وہبہ زحیلی،تفسیر التفسیر،طبع اول،دمشق،داالفکر،ج/٢٢،ص١٢

(٦٠ ) ابی الفداء اسماعیل ابن کثیر،تفسیر ابن کثیر ،بیروتج/٣،ص٢٩٤

(٦١ ) ابن حجر،فتح الباری،ج/٨،ص٣٨٧

(٦٢ ) تفسیر ابن کثیر،اردو،احزاب، آیہ ٥٣و ٥٤،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی۔

(٦٣ ) مفتی شفیع عثمانی،معارف القرآن،ج/٧،الاحزاب،آیہ ٥٣،ص٢٠٢

(٦٤ ) ابو الاعلیٰ مودودی،تفہیم القرآن،ج/٤،ص١٢١،ادارہ ترجمان القرآن،لاہور

(٦٥ ) تفسیر نمونہ،ج/١٧،ص٣٣٣

(٦٦ ) مفتی شفیع عثمانی،معارف القرآن،ج٧،٣٣:٥٣،٢١٠

(٦٧ ) مفتی شفیع عثمانی،معارف القرآن،ج٧،٣٣:٥٣،٢١٢۔٢١٣

(٦٨ ) القرآن٣٣:٣٢و٣٣

(٦٩ ) القرآن ٣٣:٥٣

(٧٠ ) شمیمہ محسن،عورت قرآن کی نظر میں ،البدر پبلی کیشنز١٩٨٣ئ،ص٥٢

(٧١ ) خلیل بن احمد فراہیدی،کتاب العین،طبع اول،قم،دارالہجرہ،١٤٠٥ھ،ج/٦،ص١١٥

(٧٢ ) محمد جمال الدین،قاسمی،محاسن التاویل،طبع دوم،بیروت،دارالفکر،١٣٩٨ھ،ج/١٣،ص٣٤٩

(٧٣ ) احمد مقری فیومی،مصباح المنیر ،طبع ٨،قاہرہ،١٩٢٨ئ،ج/١،ص٤٢

(٧٤ ) ابو عبداللہ محمد بن قرطبی،تفسیر الجامع لاحکام القرآن،داراحیاالتراث العربی،بیروت،١٩٦٧ئ،ج/١٤،ص١٨٠

(٧٥ ) محمد مرتضٰی حسینی زبیدی،تاج العروس،دارالہدایہ،،١٣٨٦ھ،ج/٥،ص ٦١٧،٦١٨

(٧٦ ) بصائر،ج/٣٢،ص٢١٧ بحوالہ حجاب،ص١٧٢

(٧٧ ) ابن اثیر،النہایہ ،دار احیاء التراث الاسلامی،بیروت،ج/١،ص١١٣

(٧٨ ) احسن مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن،تہران،١٣٦٠ھ،ج/١،ص٢٢٧

(٧٩ ) محمد زمحشری،تفسیر کشاف،طبع سوم،دار الکتاب العربی،بیروت،١٤٠٧ھ،ج/٣،ص٥٣٧

(٨٠ ) طباطبائی،تفسیر النیران،ج/١٦،ص٣٠٩،بحوالہ حجاب ص١٧٣

(٨١ ) خلیل بن احمد فراہیدی،کتاب العین،طبع اول،قم،دارالہجرہ،١٤٠٥ھ،ج/٦،ص١٣٢

(٨٢ ) محمد بن منظور،لسان العرب،داراحیاء التراث العربی،بیروت،١٤٠٨ھ،ج/٢،ص٣١٧

(٨٣ ) فخر الدین طربحی،مجمع البحرین،مکتبہ تضریہ،تہران،١٣٩٥،١٣٨١ق،ج/٢،ص٢٣

(٨٤ ) مجمع البیان،بحوالہ،حجاب،ص٢٨

(٨٥ ) القرآن ٢٤:٣١

(٨٦ ) ابو الفتح جرجانی،تفسیر شاھی،انتشارات نوید،تہران،١٣٦٢ھ،ج/٧٢،ص٣٦٠

(٨٧ ) محمد زمحشری،تفسیر کشاف،طبع سوم،دار الکتاب العربی،بیروت،١٤٠٧ھ،ج/٣،ص٢٣٠

(٨٨ ) ابو عبداللہ محمد بن قرطبی،تفسیر الجامع لاحکام القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،١٩٦٧ئ،ج/١٢،ص٢٢٦

(٨٩ ) مصنف عبدالرزاق،ج/٦،ص٥٤

(٩٠ ) القرآن ٣٣:٥٩

(٩١ ) مصنف عبدالرزاق،ج/٣،ص١٣٥

(٩٢ ) ابن قدامہ ،المغنی،ج/٧،ص٤٨٩

(٩٣ ) سنن بیہقی ،ج/٦،ص ١٤٦

(٩٤ ) مصنف عبدالرزاق،ج/٥،ص٥٢٩

(٩٥ ) مصنف ابن ابی شیبہ ،ج/١،ص٢٢٢

(٩٦،٩٧ )تنویر المقیاس ،ص٣٥٧،احکام القرآن ،ج/٣،ص٣٧٢

(٩٨ ) ابن حزم ،المحلی،ج/٣،ص٢٢٢ وابن ابی شیبہ ،ج/٢،ص٢٢٢

(٩٩ ) ابن کثیر ،عماد الدین،تفسیر ابن کثیر ،ج/٣،ص ٢٨٣،واحکام القرآن،ج/٣،ص ٣٧٢

(١٠٠ ) تفسیر طبری،ج/١٨،ص٩٣ و احکام القرآن ،ج/٣ ،ص٢٧٢

(١٠١ ) سعید بن منصور ،سنن سعید بن منصور،ج/٢،ص٧٥ تا ١٨٧

(١٠٢ ) وسائل الشیعہ،ج/٣،ص٢٦

(١٠٣ ) وسائل الشیعہ،ج/٣،ص٢٦

(١٠٤ ) امام خمینی ،تحریر الوسیلۃ،دارالکتب العلمیہ،ج/٢،٢٤٤

(١٠٥ ) القرآن،٢٤:٣٠اااااااا

(١٠٨ ) القرآن،٧:٢٢

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post