احادیث مبارکہ میں پردے کا حکم اور آزادی نسواں کی کیفیت:۔

 

 اللہ رب العالمین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔تاکہ آپ علیہ السلام تمام انسانوں کو ان کے پروردگار کے حکم کے عین مطابق اندھیروں سے روشنی کی طرف اور اور ضلالت و گمراہی سے ہدایت کی طرف تشکیل فرمادیں۔نیز اللہ رب العالمین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت کی حقیقت واضح کرنے کے لئے بھی مبعوث فرمایا ،جس کا اظہار صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اللہ کے اوامر کی مکمل اطاعت کی جائے اور منہیات سے مکمل اجتناب برتا جائے اور اس کے بلند وبالا احکامات کو اپنی ارذل ترین خواہشات وشہوات نفسانیہ پر مقدم رکھتے ہوئے اس کے حضور نہایت درجہ خاکساری اور تواضع برتی جائے۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد چونکہ مکارم اخلاق کی تکمیل بھی تھا۔اس لئے آپ علیہ السلام نے مختلف الانواع طریقہائے تعلیم کے ذریعے فضائل کی طرف دعوت دی ،رذائل اور برے اخلاق کو بیخ وبن سے اکھاڑا اور لوگوں کو ان رذائل سے بچنے کی ہر ممکن طریقے سے تلقین و تعلیم فرمائی۔جس کے باعث شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی اسلام ہر لحاظ سے مکمل اور کامل دستور کے طورپر ظہور میں آیا جسے اپنی تکمیل و ترتیب کے لئے مخلوق کی جانب سے کسی قسم کی کسی بھی کاوش کی کوئی بھی احتیاج باقی نہیں رہ گئی۔شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہی وجہ امتیاز اس بات کا بھی بیّن ثبوت اور واضح دلیل ہے کہ یہ شریعت اک دانا و باخبر رب کی جانب سے نازل کردہ شریعت ہے جو اپنے بندوں کی اصلاح کے طور طریقوں سے خوب خوب خبردار اورا ن کے لئے بے پایاں رحمت والاہے۔

 اللہ رب العالمین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جن اعلیٰ وبلند مرتبت اخلاقیات کے ساتھ مبعوث فرمایا ان میں سے ایک نہایت درجہ بلند مرتبت اور گرانقدر اخلاقی وصف ''حیا''ہے جسے نبی علیہ السلام نے مختلف مواقع پر ایمان کا جزء اور شاخ قرار دیاہے۔کوئی بھی ذی عقل فرد اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ عورت کا پر وقار رہنا اور ایسے عادات و اطوار کے ساتھ رہنا جو اسے شکوک و شبہات ،مشکوک مقامات اور فتنوں سے دوررکھنے والے ہیں ،اس حیا کا ہی حصہ ہیں جس کا عورت کو اسلامی شریعت اور اسلامی معاشرے میں حکم دیا گیاہے اور جس کا لازمی تقاضا اور خاصہ ہے کہ عورت اپنے چہرے اور جسم کے دیگر پر کشش مقامات کو ڈھانپ کر اور باپردہ رہے کہ یہ عورت کے لئے سب سے بڑا وقار ہے۔ جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ کرسکتی ہے۔

 اسلام نے عورت کو اک در مکنون (پوشیدہ موتی)کی طرح پوشیدہ رکھنے کی تعلیم دی ہے اور اوامر و نواہی کے ذریعے اس کی عفت و عصمت کی حفاظت کا مکمل انتظام بھی کیا ہے تاکہ بدنظر اوربد باطن انسانوں سے محفوظ رہنے کے لئے پردہ کے مضبوط دائرہ میں داخل ہوجائے لیکن نہ جانے تہذیب جدید کے (جو کہ درحقیقت بدتہذیبی کاملغوبہ ہے)دلدادوں کو کس سحرنے مسحور کررکھا ہے کہ بے پردگی کے نتائج بارہا سامنے آنے کے باوجود بے پردگی کی حمایت کرتے ہیں اور بے غیرتی کی دعوت دیتے ہیں ۔تحقیق نگار اک عورت ہونے کے باوجود اس معاملہ میں عورتوں سے زیادہ مردوں کوقصوروار گردانتی ہے ۔کیونکہ وہ مرد ہی ہے جواپنی بدباطنی کے باعث اسے آوارگی کے لوازمات کی طرف دعوت دیتاہے اور یہ ناقص العقل اسے اپنی ترقی کا حامی اور نسوانی حقوق دلانے کا داعی سمجھنے لگتی ہے اور جانے انجاے طوعا و کرھا اسی کو باور کرلیتی ہے جو بدباطن مرد اسے سمجھاتاہے۔صد افسوس ہے ان مردوں پر جو اپنی بہو ،بیٹیوں کی شرم و حیا کی غارت گری کو جانتے بوجھتے برداشت کرتے ہیں اور اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

 پردے کی اہمیت کے سلسلے میں قرآن پاک کی طرح کتب احادیث میں بھی وافر ذخیرہ موجود ہے ۔اس باب میں تحقیق نگار کا مقصود پردہ کی بابت چند احادیث کو پیش کرناہے جو پردے کے احکامات پر مبنی ہیں۔تحقیق نگار باب ہٰذا میں مختلف عنوانات کے تحت ان احادیث کو درج کرے گی جو پردہ کی بابت مختلف کتب احادیث میں مروی ہیں۔

 

 

 

احادیث مبارکہ میں عورتوں کوپردے کا حکم

 

'' ما روی عن ام سلمۃ انھا قالت :کنت عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وعندہ زوجتہ میمونۃ بنت الحارث فاقبل ابن ام مکتوم وکان اعمی وذلک بعد ان امرنا بالحجاب فدخل علینا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم احتجبا منہ فقلنا: یارسول اللہ ألیس ھو اعمی لایبصرنا؟ فقال (ص)افعمیا وان انتما الستما تبصرانہ؟''(١)

 

''حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضرتھیں کہ ایک نابینا صحابی ''حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ''تشریف لائے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے پردہ کرو ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟کیا تم ان کو دیکھ نہیں سکتی ؟''

 

 مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ جس طرح مردوں کے لئے عورتوں کا دیکھنا جائز نہیں اسی طرح جہاں تک ممکن ہوسکے عورتوں کو بھی مردوں کونہیں دیکھنا چاہئے۔حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا صحابی ہیں دوسری طرف امہات المؤمنین ہیں جن کی پاکدامنی مسلم ہے لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کرنے کا حکم فرمایا۔

 

عہد نبوت میں پردے کا اہتمام:۔

 

'' عن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ قال جاء ت امرأۃُ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقال لھا ام خلاد وھی منتقبۃ فسألت عن ابنھا وھو مقتول فقال لھا بعض اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم جئت تسألین عن ابنک وانت منتقبۃ فقالت ان ازر أ ابنی فلن أزرأ حیائی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابنک لہ اجر شہیدین؟ قالت ولم ذاک یارسول اللہ ؟فقال لانہ قتلہ اھل الکتاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''(٢)

 

''حضرت قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابیہ (ام خلاد)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کے متعلق پوچھنے کے لئے حاضر ہوئیں۔(جو غزوہ میں شہید ہوچکاتھا (رضی اللہ عنہ))چہرہ پر نقاب ڈالی ہوئیں تھیں۔ان کا یہ حال دیکھ کر (پردہ کا اہتمام)کسی صحابی نے کہا،تم اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے آئی ہو اور نقاب ڈالے ہوئے ہو؟حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا نے جواب دیا اگر میں نے اپنا بیٹاکھودیا ہے تو کیا اپنی حیا بھی کھودوں !؟ان کے بیٹے کے بارے میں نبی علیہ السلام نے جواب دیا کہ تمہارے بیٹے کے لئے دوشہیدوں کا ثواب ہے ۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)ایساکیوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔اسے اہل کتاب نے شہید کیا ہے''۔(٣)

 

 مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ پردے کا حکم عورت پر ہر حال میں لاگو ہوتاہے خواہ خوشی ہو یا غم کا موقعہ ہو ہر دو اوقات میں امتحان ہے کہ شریعت کے حکم کو کون پوراکرتاہے اور کون تنقیص میں مبتلاہوتاہے؟

 

''عن عائشۃ رضی اللہ عنہا فی قصۃ افک فی الحدیث الطویل فخرجت معہ بعد ما انزل الحجاب فلما اخذ وا برأس البعیر فانطلقوا بہ فرجعت الی المعسکر ومافیہ من داع ولامجیب قد انطلق الناس فتلفعت بجلبابی ثم اضطجعت فی مکانی اذ مر بی صفوان بن معطل السلمی وکان قد تخلف عن المعسکر لبعض حاجاتہ فلم یبت مع الناس فرایٰ سوادی فقابل حتی وقف علیٌّ فعرفنی حین رانی وکان قد راٰنی قبل ان یضرب الحجاب فاستیقظت باسترجاعہ حین عرفنی فخمرت وجھی بجلبابی''(٤)

 

''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ افک والی روایت میں فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نزول حجاب کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھی ۔جب انھوں نے اونٹ کھڑاکیا اور لے چلے اس کے بعد میں لشکر کی جگہ پر پہنچی اس وقت نہ کوئی آواز لگانے والاباقی تھا نہ کوئی جواب دینے والا۔ سب لوگ جاچکے تھے۔میں نے اپنی چادر اوڑھ لی اور اسی جگہ لیٹ گئی۔تھوڑی دیر بعد وہاں سے حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ گزرے وہ اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے لشکر کے پیچھے رہ گئے تھے اور انہوں نے رات دیگر لوگوں کے ساتھ نہیں گزاری تھی انہوں نے جب میرا دھندلا عکس دیکھا تو قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے کیونکہ وہ مجھے پردے کے حکم کے نزول سے پہلے بھی دیکھ چکے تھے ۔انہوں نے زور سے''انا للہ وانا الیہ راجعون''پڑھامیں ان کی آواز سن کر جاگ گئی اور فورا چادر سے اپنے چہرہ کوڈھانپ لیا''۔(٥)

 

 متذکرہ بالا حدیث مبارکہ سے ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین کا پردہ کا اہتمام واضح ہوتاہے کہ دوران سفر بھی ازواج مطہرات پردہ کے ساتھ ہودج میں رہتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ جب قافلہ کوچ کرنے لگا تو اہل قافلہ نے ام المؤمنین کو ہودج میں موجود سمجھ کر ہودج کو اونٹ پر رکھ دیا جب کہ ام المؤمنین بتقاضائے بشریت جنگل تشریف لے گئی تھیں۔

 حدیث متذکرہ بالا میں دو جملے بھی عہد نبوت میں پردے کے اہتمام کو خوب واضح کررہے ہیں۔''وکان قد راٰنی قبل ان یضرب الحجاب''یہ جملہ اس بات پر دال ہے کہ جن لوگوں نے بھی فرضیت حجاب سے قبل ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو ملاحظہ کیاتھا فرضیت حجاب کے بعد پھرکسی بھی غیر محرم نے انہیں نہیں ملاحظہ کیا۔'' فخمرت وجھی بجلبابی'' یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ فرضیت حجاب کے بعد صحابیات اور امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن اجمعین پردہ کا نہایت درجہ اہتمام کیاکرتی تھیں۔جس کا اندازہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کو دیکھ کرفوراحجاب کرلینے سے بخوبی ہوتاہے۔

 

''عن انس رضی اللہ عنہ یقول اقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین خیبر والمدینۃ ثلاثۃ لیال یبنی علیہ بصَفِیَّۃ بنت المسلمین الی ولیمتہ وماکان فیھا من خبز ولا لحم وماکان فیھا الا ان امر بلالا بالارظاع فبسطت فالقی علیھا التمر والاقط والسمن فقال المسلمون احدی امھات المؤمنین اوماملکت یمینہ فقالوا ان حجبھا فھی احدی امھات المؤمنین وان لم یحجبھا فھی مماملکت یمینہ فلماارتحل فطالھا خلفہ ومدالحجاب بینھا وبین الناس''۔(٦)

 

''حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے وقت)تین دن خیبر اور مدینہ کے درمیان قیام فرمایا تینوں دن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے نبی علیہ السلام کے ساتھ بسر کئے اور ولیمہ بھی وہیں ہوا ۔آپ علیہ السلام نے دسترخوان بچھانے کا حکم فرمایا جن پر کھجوریں ،پنیر اور گھی لاکررکھ دیا گیا پھر مجھے حکم فرمایا کہ لوگوں کو بلالاؤں ۔میں نے تمام حاضرین کو مدعو کردیا اور سب نے دعوت ولیمہ میں شرکت کی اور ماحضرتناول کیا۔اب لشکر میں جن لوگوں کو نکاح کا علم نہ تھا وہ اس شک میں تھے کہ آیانبی علیہ السلام نے نکاح فرمایا ہے یا حضرت صفیہ کو باندی بنالیاہے!پھر لوگوں نے خود ہی یہ طے کرلیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پردے میں رکھا تو ہم سمجھےں گے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں اور امہات المؤمنین ہیں وگرنہ بصورت دیگرہم سمجھیں گے کہ آپ علیہ السلام نے انہیں باندی بنالیا ہے ،چنانچہ جب آپ علیہ السلام نے کوچ فرمایا تو اپنی سواری پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے لئے ردیف میں بیٹھنے کی جگہ بنائی اور انہیں سوار کرکے ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیا''۔

 

 متذکرہ بالا حدیث سے بھی عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فرضیت حجاب کے بعد پردہ کی اہمیت آشکارا ہوتی ہے کہ تمام صحابہ کرام کو یہ بات بحسن وخوبی مترشح تھی کہ آزاد عورت بدون پردہ کئے باہر نہیں نکل سکتی ۔اس لئے انہوں نے خود سے ہی امر مشکوک میں یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر آپ علیہ السلام نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو پردہ کرایا تو ہم سمجھیں گے کہ حضرت صفیہ ام المؤمنین بنائی جاچکی ہیں(رضی اللہ عنہا)وگرنہ بصورت دیگر لونڈی تصور کریں گے۔معلوم ہوا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پردہ کا اس قدر اہتمام اور رواج تھا کہ ان کے درمیان پردہ آزاد عورت اور لونڈی کے درمیان حد فاصل قرار پاچکا تھا۔یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بالاتفاق حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں خود ہی یہ طے کرلیا تھا کہ اگرنبی علیہ السلام نے آپ سے نکاح کیا ہوگا تو ایک آزاد عورت ہونے کے باعث ان کے لئے پردہ لازمہ ہوگا اور اگرباندی ہونگی تو پردہ کا لازمہ نہ ہوگا۔(٧)

 متذکرہ بالا حدیث مبارکہ میں دراصل حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا واقعہ مذکور ہے۔جو غزوہ خیبر کے موقع پر سنہ ٧ ھ میں منعقد ہواتھا ۔حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکے شوہر غزوہ خیبر میں قتل ہوگئے تھے اس لئے آپ علیہ السلام نے باہمی رضامندی سے انہیں آزاد کرکے ام المؤمنین ہونے کے شرف سے مشرف فرمادیاتھا۔(٨)

 

''وعن السائب قال دخلنا علی ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ فبینما نحن جلوس اذسمعنا تحت سریرۃ حرکۃ فنظرنا فاذا فیہ حیۃ فوثبت لاقتلھا وابو سعید یصلی فاشار الی بیت فی الدار فقال اتریٰ ھذا البیت فقلت نعم فقال کان فیہ فتیً منا حدیث عھد بعرس قال فخرجنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی الخندق فکان ذلک الفتی یستاذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بانصاف النھار فیرجع الیٰ اھلہ فاستأذنہ یومافقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خذ علیک سلاحک فانی اخشی علیک قریظۃ فاخذ الرجل سلاحہ ثم رجع فاذا امرئتہ بین البابین قائمۃ فاھوی الیھا باالرمح لیطعنھا بہ واصابتہ غیرۃ فقالت لہ اکفف علیک رمحک وادخل البیت حتی تنظر ماالذی اخرجنی فدخل فاذابحیۃ عظیمۃ منطویۃ علی الفراش فاھویٰ الیھا بالرمح فانتظمھا بہ ثم خرج فرکزہ فی الدار فاضطربت علیہ فمایدری ایھما کان اسرع موتا الحیۃ ام الفتی؟قال فجئنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وذکرنا ذلک لہ وقلنا ادع اللہ یحییہ فقال استغفروا لصاحبکم ثم قال ان لھذہ البیوت عوامر فاذا رأیتھم منھا شیأا فخرجوا علیھا ثلاثا فاذا ذھب والافاقتلوہ فانہ کافر وقال لھم اذھبو فادفنوا صاحبکم وفی روایۃ قال ان بالمدینۃ جنّاً قداسلم فاذا رأیتم منھم شیأا فأذنوہ ثلثۃ ایام فان بدالکم بعد ذلک فاقتلوہ فانھا ھو شیطان ''(٩)

 

''حضرت سائب ر حمہ اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوئے ،ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمیں ان کی چارپائی کے نیچے کچھ حرکت کی آواز سنائی دی۔ہم نے دیکھا تو وہ سانپ تھا ۔میں اسے مارنے کے لئے بڑھا تو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ نماز پڑھ رہے تھے)مجھے اشارہ سے روک دیا اور بیٹھنے کو کہا۔لہذامیں بیٹھ گیا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے گھر کے اندر کمرہ کی طرف اشارہ کیا ور فرمایا کیا تم اس کمرے کو دیکھ رہے ہو؟میں نے عرض کیا جی ہاں۔فرمایااس کمرے میں ایک جوان آدمی رہتاتھا جو ہمارے ہی قبیلہ (خدری)سے تھا اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق کے لئے گئے (وہ نوجوان بھی ہمارے ساتھ تھا)آدھا دن گزرنے کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر وہ جوان اپنے گھر آجاتا۔ایک دن حسب معمول اس نے گھر جانے کی اجازت مانگی تو نبی علیہ السلام نے ہتھیار ساتھ لے جانے کو کہااور فرمایا مجھے ڈر ہے کہ کہیں بنوقریظہ کے قبیلہ والے تمہاری جان لے لیں۔یہ سن کر اس نے شخص نے اپناہتھیار لے لیا اور گھر کی طرف روانہ ہوا۔اچانک اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی دروازہ کے درمیان کھڑی ہے اسے یہ ماجرادیکھ کر غیرت آئی اور عورت کو مارنے کے لئے نیزہ بڑھایا۔اس کی بیوی بولی نیزہ کو روکئے اور گھر میں ملاحظہ کیجئے کہ مجھے کس چیز نے باہر نکلنے پر مجبور کردیا۔چنانچہ اس نے گھر میں دیکھا تو بستر پر ایک بڑا سانپ نظرآیا انہوں نے فورا اسے نیزے میں پرودیا اور گھر سے نکل کر نیزہ صحن میں گاڑدیا۔سانپ نے بھی تڑپ کر حملہ کردیااور اس شخص کی اور سانپ کی وہیں موت واقع ہوگئی۔یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کس کی موت پہلے واقع ہوئی۔ہم نے نبی علیہ السلام سے یہ تمام واقعہ بیان کیا ور دعا کی درخواست کی تاکہ وہ دوبارہ زندہ ہوجائے۔نبی علیہ السلام نے فرمایا تم لوگ اس کے لئے دعائے مغفرت کرو۔ان گھروں میں سانپ بھی رہنے والے ہیں۔(اور ان کی شکل وصورت میں جنات بھی ہوتے ہیں)اس لئے لازم ہے کہ جب تم انہیں دیکھو توتین مرتبہ اس کو مارنے کا اعلان کرو اگر وہ چلاجائے تو ٹھیک ہے وگرنہ تو مارڈالوکیونکہ وہ کافر جن ہوگا۔جو سانپ کی شکل میں ظاہر ہوا ۔پھر آپ علیہ السلام اس کی تدفین کا فرمایا''۔

 

 حدیث متذکرہ بالا میں جملہ''فاذا امرئتہ بین البابین قائمۃ فاھوی الیھا باالرمح لیطعنھا بہ'' صحابی اپنی زوجہ کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر اس قدر غصہ ہوئے کہ نیزہ مارنے کو بڑھے ۔عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک پردہ کی مسلمہ اہمیت کو خوب اجاگر کرتاہے صحابہ کے نزدیک پردہ کی اہمیت اور شدت کا یہ عالم تھا کہ عورت کا بلاوجہ گھر سے باہر نکلنا بدترین جرم متصور ہوتاتھا۔اسی وجہ سے صحابی مذکور کو اس بات پر غصہ آیا کہ ان کی زوجہ دروازہ کے باہر کیوں کھڑی ہے۔اگر زوجہ فورا وجہ نہ بیان کرتی تو عین ممکن تھا کہ صحابی کم ازکم زخمی ضرور کرہی دیتے۔

 

احادیث میں مردوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم:۔

 

''وعن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما قال کان الفضل ردیف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فجائت امرأۃ من خثعم فجعل الفضل ینظر الیھا وتنظر الیہ فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصرف وجہ الفضل الی الشق الآخر فقالت ان فریضۃ اللہ ادرکت ابی شیخا کبیرا لایثبت علی الراحلۃ افاَغُجُّ عنہ؟قال نعم وذلک فی حجۃ الوداع''۔(١٠)

 

''حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک سفر میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر ردیف تھے کہ قبیلہ بنی خثعم کی ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔فضل بن عباس اسے دیکھنے لگے وہ عورت بھی انہیں دیکھنے لگی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہر ہ دوسری طرف پھیر دیا''۔

 

متذکرہ بالا حدیث مبارکہ میں نبی علیہ السلام کی جانب سے بالفعل مردوں کو نظریں بچانے کا حکم دیاجارہاہے۔

 

''وعن جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ قال سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن نظر الفجائۃ فامر نی ان اصرف بصری''۔(١١)

 

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اچانک اگرنامحرم پرنظر پڑجائے تو اس کے بارے میں کیاارشاد ہے ۔اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ اپنی نظرکو پھیرلو''۔

 

 مطلب یہ ہے کہ اگرا چانک بلاارادہ نامحرم پرنظرپڑجائے تو فورا اس نظرکو پھیرلینا چاہئے۔ٹکٹکی باند ھ کر دیکھنا یادوبارہ ارادتا دیکھنا جائز نہیں ہے(١٢)

 

''وعن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ایاکم والجلوس بالطرقات فقالوا یارسول اللہ مالنا من مجالسنا بد نتحدث فیھا قال فاذا ابیتم الا المجلس فاعطواالطریق حقہ قالوا وماحق الطریق یارسول اللہ قال غض البصر وکف الاذیٰ ورد السلم والامر بالمعروف والنھی عن المنکر''۔(١٣)

 

''حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ راستوں میں مت بیٹھاکرو ۔صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بغیر تو چارہ نہیں کہ ہم راستہ میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگرتم کو راستوں میں بیٹھنا ہی ضروری ہے تو راستہ کا حق ادا کیاکرو۔صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! راستے کا کیا حق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نظرنیچی رکھنا۔گزرنے والوں کو تکلیف دینے سے باز رہنا ۔سلام کا جواب دینا اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری باتوں سے روکنا''۔

 

 مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے حقوق ارشاد فرمائے ہیں ۔جن میں سے پہلے ''غض بصر'' یعنی نگاہیں پست رکھنا اور نامحرموں پر نگاہ ڈالنے سے نظربچاکر رکھنا مذکور ہے۔معلوم ہوا کہ راستے میں اگر کوئی کسی وجہ سے کھڑا ہے یا بیٹھا ہے یا راستے سے گزررہاہے تو نامحرموں پر نظر ڈالنے سے بچنے کا اہتمام ضروری ہے۔(١٤)

 

نماز کی حالت میں عورت کا پردہ

 

''عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال صلوۃ المرأۃ فی بیتھا افضل من صلوتھا فی حجرتھا وصلوتھا فی مخدعھا افضل من صلوتھا فی بیتھا''۔(١٥)

 

''حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت کا اپنے گھر کی اندرونی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا گھر کی نماز سے افضل ہے اور اندرون خانہ نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے''۔

 

 قابل غور مقام ہے کہ نبی علیہ السلام اپنے زمانہ میں خواتین کی بابت نماز جیسی عبادت کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں کہ عورت کے لئے نماز جیسی اہم عبادت بھی گھر میں اور سب سے اندرونی کمرہ میں اداکرنا افضل ہے۔جب کہ ایسے مبارک ارادہ پر اگر اجازت عامہ ہوتوبھی ظاہر ہے خواتین مکمل پردہ کے ساتھ نکلتیں اور پھر وہ خیرالقرون کا زمانہ تھا صحابی اور صحابیات رضوان اللہ علیہم وعلیہن اجمعین جیسے پاک طینت اور پاک مقدس انسان تھے ۔اس کے باوجود نبی علیہ السلام نے متذکرہ بالا نصیحت فرمائی۔اس کے بالمقابل آج کے دور میں جو کہ فتنوں کا دور ہے ،بے دینی کاماحول ہے انسان خواہشات کا پجاری ،نفس خوف خدا سے عاری ہے ،نظرکو برائی سے بچانے کی پرواہ نہیں ہے تو ایسی صورت میں خواتین کا بے پردگی اختیار کرنا کیا نتائج دکھلاسکتاہے؟

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بالغ عورت کی نماز بغیر دوپٹہ کے قبول نہیں ہوتی۔(١٦)

 نماز کی درستگی کی شرائط میں ستر عورت بھی داخل ہے جس کی تفصیل تحقیق نگار گزشتہ ابواب میں بیان کرچکی ہے ۔اختصار ا تکرار کرنا مناسب معلوم ہوتاہے کہ مقام کچھ تشریح کا متقاضی ہے۔مرد کے لئے ستر ناف سے لے کر گھٹنوں کے خم تک کا حصہ ہے لیکن عورت کے لئے چہرہ ،ٹخنوں سے نیچے دونوں پاؤں اور دونوں گٹوں تک دونوں ہاتھوں کے علاوہ تمام جسم کا ڈھانکنا فرض ہے۔دوپٹہ کی خصوصیت سے تخصیص اس لئے کی جارہی ہے کہ خدانخواستہ بے دھیانی میں دوپٹہ کے سرک جانے کا احتمال موجود رہتاہے اس لئے خصوصیت سے دوپٹہ کا ذکر فرمایا کہ بالغ عورت کی نماز بغیر دوپٹہ کے قبول نہ ہوگی۔(١٧)

 

 جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے متعلق یہ حکم دیا کہ وہ بھی عید گاہ کو جائیں تو وہ کہنے لگیں:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

''لتلبسھا صاحبتھا من جلبابھا''(١٨)

 

''جس کے پاس اپنی چادر نہ ہو تو اسے کوئی دوسری بہن چادر دے دے''۔

 

 یہ حدیث واضح طورپر بتارہی ہے کہ صحابیات میں چادر کے بغیر نکلنے کا معمول نہ تھا بلکہ چادر پاس نہ ہونے کی صورت میں باہر نکلنے کو وہ ممکن ہی نہ سمجھتی تھیں۔اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نماز عید کے لئے عید گاہ جانے کا حکم دیا تو انھوں نے اس امر،یعنی چادر نہ ہونے کا عذر کیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ یہ مشکل اس طرح حل ہوسکتی ہے کہ ایسی عورت کوکوئی دوسری مسلمان بہن اپنی چادر مستعار دے دے۔

 گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عید گاہ تک بھی جائیں،حالانکہ وہاں جانے کا حکم مرد وعورت سب کو ہے۔جب ایک ایسے کام کے لئے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو چادر اوڑھے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تو ایسے امور کے لئے بغیر چادر اوڑھے گھر سے باہر آنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے جن کا شریعت میں حکم دیاگیا ہے نہ ان کی کوئی ضرورت ہے ،بالخصوص جب مقصد صرف بازاروں میں گھومنا پھرنا،مردوں کے ساتھ میل جول اور تماش بینی ہو جس میں کوئی فائدہ نہیں۔

 

 علاوہ ازیں چادر اوڑھنے کا حکم بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا مکمل باپردہ رہنا ضروری ہے۔

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

 

کن نساء المؤمنات یشھد ن مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ الفجر متلفعات بمروطھن ثم ینقلبن الی بیوتھن حین یقضین الصلوۃ لایعرفھن احد من الغلس''۔(١٩)

 

''مومن عورتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز اداکرنے کے لئے چادروں میں لپٹی ہوئی آتیں۔پھر نماز کے بعد وہ اپنے گھروں کوواپس ہوئیں تو اندھیرے کے سبب انھیں کوئی پہچان نہ سکتا۔''(٢٠)

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مزید فرمایا:

 

''عورتوںکے جو اطوار ہم نے دیکھے ہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے تو انھیں مسجد میں آنے سے اسی طرح منع کردیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کومنع کردیاتھا''۔(٢١)

 

 تقریبا اسی قسم کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔

 یہ حدیث پردے کے وجوب پر دو طریقوں سے دلالت کرتی ہے۔

 پردہ کرنا اور اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا صحابیات رضی اللہ عنہن کے معمول میں سے تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زمانہ تمام زمانوں سے بہتر اور للہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ منزلت رکھتاہے۔وہ اخلاق و آداب میں بلند ،ایمان میں کامل اور اعمال میں زیادہ صالح تھے۔وہی قابل اتباع نمونہ ہیںکہ خود ان کو اور ان کی بطریق احسن پیروی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی نوید سنائی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

 

'' وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ''

 

''جن لوگوں نے سبقت کی(سب سے پہلے ایمان لائے )مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے نیکی اور اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی،اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ تعالیٰ پر خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔یہ بڑی کامیابی ہے''۔(٢٢)

 

 جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مبارک عہد میں عورتوں کا طریقہ یہ تھا (جو اوپر ذکر کیا گیا)تو ہمارے لئے کس طرح مستحسن ہوسکتاہے کہ اس طریقے سے ہٹ جائیں جس پر چلنے ہی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاحصول ممکن ہے۔خصوصا جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایاہے:

 

'' وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْراً ''

 

''اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے گا تو جدھر وہ چلتاہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن)ہم اے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے''(٢٣)

 

 ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جن کا علم و فہم ،اللہ کے بندوں کی خیرخواہی کا جذبہ اور دینی بصیرت تعارف کی محتاج نہیں ،فرماتے ہیں:

 

''اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے وہ اعمال و اطوار دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھے ہیں تو انھیں مساجد میں آنے سے قطعی طور پر منع کردیتے ''(٢٤)

 

''عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو ترکنا ھذاالباب لساء قال نافع فلم یدخل منہ ابن عمر حتی مات'' (٢٥)

 

''حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس دروازہ کو خواتین کے لئے مخصوص کردیا جائے تو اچھاہو۔(تاکہ عورتوں اور مردوں کا اختلاط نہ ہو)حضرت نافع رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ پھر حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی وفات تک اس دروازے سے کبھی داخل نہ ہوئے۔''

 

 مندرجہ بالا حدیث مبارکہ نبی علیہ السلام کے مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو روکنے کے لئے نہایت درجہ اہتمام کوظاہر کرتی ہے ۔ونیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جانب سے بھی عورتوں کے اختلاط سے بچنے کے حد درجہ اہتمام کو ظاہر کرتی ہے۔(٢٦)

 

عورت کا عورت اور مرد کا مرد سے پردہ:۔

 

''عن الحسن مرسلا قال بلغنی ان رسول اللہ ﷺقال لعن اللہ الناظر والمنظور الیہ''۔(٢٧)

 

''حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ سے مرسلا روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا مجھے معتبر ذریعے سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے''۔

 

 حدیث متذکرہ بالا میں بطور قاعدہ کلیہ کے ہر حرام نظر کو لعنت کا مستحق بیان کیا جارہاہے۔یعنی جو کوئی بھی مرد و عورت برضا و رغبت اپنے اختیار سے کسی بھی مرد و عورت کے سامنے اپنے مستور حصے کھولے گا جن کا کھولنا جائز نہیں تو دیکھنے اور دکھانے والے دونوں لعنت کے مستحق ٹھہریں گے خواہ یہ دیکھنا دکھانا بازار اور میلے وغیرہ میں ہویا دروازے کھڑکی سے ہو یا شادی بیاہ کے موقعہ پر بیہودہ ولغو رسومات میں ۔سب احوال میں دیکھنے والے اور دکھانے والے دونوں مستحق لعنت ٹھہریں گے ۔اسی طرح اگر کسی عورت نے دوسری عورت کو ناف سے گھٹنوں کے خم تک کا حصہ مکمل یا ادھورا دکھایا یا کسی مرد نے دوسرے مرد کو دکھایا تو بھی دیکھنے اور دکھانے والے دونوں مستحق لعنت ٹھہریں گے۔اسی طرح اگر کسی عورت نے اپنے محرم کے سامنے پیٹ ،پیٹھ ،ران یا گھٹنا وغیرہ کھولا تب بھی دونوں نے لعنت کے استحقاق کا کام کیا اور مرد و عورت دونوں لعنت کے مستحق ٹھہرے۔(٢٨)

 

جہاد پر خواتین کو جانے کے بارے میں حکم

 

 حضرت ربیعہ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو کہ ایک محدثہ تھیں اور متعدد روایات کی راویہ بھی ہیں ایک مرتبہ نبی علیہ السلام کے پاس دیگر خواتین کے ہمراہ حاضر تھیں کہ دیگر خواتین نے آپ کو جہاد پر جانے کی اجازت کے حصول کی ذمہ داری دے دی ۔آپ نے نبی علیہ السلام سے فرمایا:

 

''انا نرید ان نخرج معک فی وجھک حذا فتداوی الجرحی ویعین المسلمین بما استطعنا''۔

 

'' ہماری خواہش ہے کہ ہمیں بھی میدان کارزار میں جانے کی اجازت مرحمت ہوتاکہ ہم بھی بقدر استطاعت مرہم پٹی اور مدد وغیرہ میں شامل ہوجائیں''(٢٩)

 

 مندرجہ بالا روایت کی تائید امام صادق یاامام باقر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ نبی علیہ السلام خواتین کو غزوات میں ساتھ لے جایاکرتے تھے جوزخمیوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں البتہ انہیں فئی میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔

 

''وا ن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج بالنساء فی الحرب یداوی الجرحیٰ ولم یقسم لھن من الفیء شیأا'' (٣٠)

 

'' عن انس رضی اللہ عنہ قال جئن النساء الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلن یا رسول اللہ ذھب الرجال بالفضل والجھاد فی سبیل اللہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین فی سبیل اللہ''۔

''حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ خواتین نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ! مرد جہاد وغیرہ کی ساری فضیلتیں لے گئے اب آپ ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے ہم مجاہدین کی فضیلت حاصل کرلیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو عورت اپنے گھر میں پاکدامن اور پردہ کے ساتھ بیٹھی رہے گی وہ جہاد کی فضیلت حاصل کرے گی''۔(٣٢)

 

 

 

عورت کا بغیر محرم کے حج کرنے کا بیان:۔

 

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہرگز کوئی مرد کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے اور ہرگز کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔یہ سن کر ایک صحابی بولے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)فلاں فلاں غزوہ میں میرا نام لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کو نکل چکی ہے۔(لہذا میں کیا کروں)ان کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔(٣٣)

متذکرہ بالا حدیث مبارکہ میں دو باتوں کی ممانعت کی جارہی ہے ۔

(١) کوئی مرد کسی بھی نامحرم عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔

(٢) کوئی عورت بغیر محرم کے ہرگز سفر نہ کرے۔

 ہمارا مقصد دوسری بات سے ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے خواہ خاص سفر ہو یا عام سفر۔احتیاط کا تقاضا تو یہی ہے کہ عورت مطلق سفر بغیرمحرم کے نہ کرے لیکن چونکہ اس میں تنگی اور دقت کا اندیشہ ہے اس لئے دیگر احادیث میں سفر کی مقدار بھی مذکور ہے۔ اس مقدار کے برابریا اس سے زیادہ مسافت ہو تو بغیر محرم یا شوہر کے عورت کو سفر میں جانا سخت منع ہے۔علماء کا اتفاق ہے کہ جس سفر میں عورت کو بغیر محرم اور شوہر وغیرہ جانے کی ممانعت ہے وہ تین دن اور اس سے زیادہ کا سفر ہے۔جس کی مسافت تین منزلوں کے اعتبار سے ٤٨ میل بنتی ہے ۔اس سے کم کا سفر ہوتوبغیر محرم کے جانے کا عورت کو اختیار ہے جب کہ امام ابوحنیفہ و امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ ایک دن کی مسافت کے لئے بھی بغیر محرم یا شوہر کے سفر میں نکلنے کو مکروہ قراردیتے ہیں۔(٣٤)

 امام مالک و شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سفر حج میں عورت کے ساتھ محرم کا ہونا واجب نہیں ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ واجب قرار دیتے ہیں(٣٥)۔

 امام ابو حنیفہ ان دو احادیث کو ملحوظ رکھتے ہیں جو ابن عباس اور ابن عمر ،ابی ہریرہ اور ابو سعید رضوان اللہ علیہم اجعمین سے مروی ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا

 

''لاتسافر المرأۃ الا مع محرم أو زوج''۔(٣٦)

 

''عورت اپنے محرم یا زوج کے بغیر سفر نہ کرے''۔

 

''لا تحل لمراأۃ تؤمن باللہ ورسولہ والیوم الاخر ان تسافر الا مع ذی محرم''۔(٣٧)

 

''جو عورت اللہ اور رسول اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ ذی محرم کے بغیر سفر کرے''۔

 

عورت کو خوشبو لگا کر نکلنے کی کراہت:۔

 

''وعن ابی موسی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال کل عین زانیۃ والمرأۃ اذاستعطرت فمرت بالمجلس فھی کذا و کذا یعنی زانیۃ''۔(٣٨)

 

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت کو دیکھنے والی ہر آنکھ زناکار ہے اور کوئی عورت جب عطر لگا کر (مردوں)کی مجلس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔

 

 حدیث مبارکہ میں اول تو یہ قاعدہ کلیہ بیان فرمادیا گیا کہ بدنظری کرنے والی ہر آنکھ زناکار ہے۔یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے۔دونوں میں سے جو بھی بدنظری کا مرتکب ہوگا وہ زناکار کہلائے گا۔اگرچہ اصل زنا سب کو معلوم ہے کہ شرمگاہوں کے ملاپ کو کہتے ہیں لیکن چونکہ عورت کا خوشبو لگاکر گزرنا زناکا ایک داعیہ ہے اس لئے اس داعیہ کو بھی زنا سے ہی تعبیر کیا گیا۔عورت کو اگر کہیں جانا ہو تو اسے پردے کا لحاظ کرکے مردوں سے بچتے ہوئے راستوں کے کناروں سے گزرتے ہوئے جانا چاہئے نہ کہ خوشبو سے معطر و مزین ہوکر اگرچہ برقعہ کے اندر ہی ہو شریعت کے نزدیک یہ اتنی بری بات ہے کہ اسے زنا قرار دیاگیاہے۔

 

خنثیٰ مشکل سے عورت کا پردہ

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

 

''لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال''(٣٩)

 

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں''۔

 

 اس حدیث کی رو سے مردوں کے لئے عورتوں کی اور عورتوں کے لئے مردوں کی مشابہت ممنوع اور حرام ہے۔اور یہ مشابہت عام ہے ،لباس میں ہو یا چال ڈھال میں ،زیب وزینت کے انداز میں ہو یا طرز گفتگو میں ،شکل و صورت میں ہو یا عادات و اطوار میں،ان سب باتوں میںایک دوسرے کی نقالی اور مشابہت اختیا ر کرنا ناجائز ہے۔

اس اعتبار سے مردوں کے لئے حسب ذیل چیزیں حرام ہوں گی۔

 ٭ عورتوں کا سا لباس پہننا۔وہ وضع و ہیئت کے اعتبار سے ہو یا مخصوص صفت کے اعتبار سے جیسے چمکیلا اور بھڑکیلا لباس وغیرہ۔

 ٭ ان رنگوں کا استعمال جو اپنے اپنے علاقوں کے اعتبار سے عورتوں کے لئے مخصوص ہوں۔

 ٭ چال ڈھال میں عورتوں کا سا انداز اختیار کرنا۔

 ٭ گفتگو میں نسوانی انداز اپنانا۔

 ٭ شکل وصورت عورتوں کی طرح بنانا۔(جیسے ڈاڑھی منڈا کر اس جرم کا ارتکاب کیاجاتاہے)۔

 ٭ عورتوں کی سی زیب و زینت اختیار کرناجیسے آج کل بہت سے نوجوان سونے کی چین اپنے گلوں میں ڈالے پھرتے ہیں ،یا سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں یا کانوں میں بالیاں لٹکالیتے ہیں ، یاعورتوں کی طرح میک اپ اور سولہ سنگھار کرتے ہیں۔

 

مخنث اور اس کا حکم

 

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ جو مرد قدرتی طور پر مردانہ خصائص اور جذبات سے محروم تھے جن کوعربی میں مخنث اور اردو میں ہیجڑہ کہا جاتاہے ۔ان کو بھی آپ نے اپنے گھروں میں آنے سے منع فرمادیاتھا۔جیسے زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے کہ آپ کی موجودگی میں حضرت ام سلمہ کے بھائی سے بعض عورتوں کے وصف کا تذکرہ کیا،آپ نے اس کی باتیں سن کر فرمایا:

 

''لا یدخلن ھولاء علیکن''۔(٤٠)

 

''یہ لوگ تمھارے پاس نہ آیا کریں''۔

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،وہ بیان کرتے ہیں:

 

''لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم المخنثین من الرجال ،والمترجلات من النساء وقال :أخرجوھم من بیوتکم''(٤١)

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورت بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ان عورتوں پر بھی جو مرد بننے کی کوشش کرتی ہیں اور آپ نے فرمایا :تم ان کو اپنے گھروں سے نکال دو''۔

 

 مخنث ،اس کو کہا جاتاہے جو حرکات و سکنات اور گفتگو میں پیدائشی طور پر عورتوں کے مشابہ ہو۔اس کو ہم اردو میں ہیجڑا کہتے ہیں۔بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ ایسے لوگ چونکہ پیدائشی طورپر ایسے ہوتے ہیں اس لئے وہ قابل ملامت نہیں ،کیونکہ وہ عورتوں کی مشابہت اپنے ارادے سے اختیار نہیں کرتے ،بلکہ خَلْقَتاً ان کے اندر یہ چیزہوتی ہے۔دوسرے علماء کی رائے یہ ہے کہ بلاشبہ یہ مشابہت پیدائشی ہے لیکن ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ ایک تو وہ اس کا علاج کروائے ۔دوسرے خود بھی کوشش کرکے زنانہ صفات اور انداز سے اپنے آپ کو بچائے اور مردانہ انداز اور صفات اپنے اندر پیداکرے ،گفتگو میں بھی ،چال ڈھال میں بھی اور حرکات و سکنات میں بھی۔

 

 علاج معالجہ اور مردانہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کے باوجود اگر وہ عورتوں کی مشابہت کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ،تو پھر یقینا وہ عنداللہ مجرم نہیں ہوگا،بشرطیکہ اس کی زندگی صالحیت اور تقوی کی آئینہ دار رہی ہوگی۔بصورت دیگر اس کو تشابہ بالنساء کے جرم سے بری قرار دینا مشکل ہے۔حدیث مبارکہ میں اس مخنث کو گھر میں داخل ہونے سے روکنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی باتوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگالیا کہ یہ اگرچہ پیدائشی طورپر مخنث ہے لیکن اس نے اپنی اصلاح کی کوشش نہیں کی۔علاوہ ازیں اس کے اندر عورتوں کی طرف بھی رغبت ہے جب کہ اس کو گھروں کے اندر آنے کی اجازت اس لئے ملی ہوئی تھی کہ اسے ان چیزوں سے بے رغبت خیال کیا جاتاتھا۔

 

 یہ ہیں وہ چند احادیث و روایات جو پردہ کے بابت تحقیق نگار نے مختلف کتب احادیث سے درج کی ہیں ۔ڈھونڈنے پر ان کے علاوہ بھی بہت سی احادیث مزید بھی دستیاب ہوسکتی ہیں مثلا شفیع عثمانی صاحب نے ستر (٧٠)احادیث تخریخ کی ہیں۔مولنا عاشق الٰہی اور حسین صدیقی صاحب نے چالیس چالیس(٤٠،٤٠) احادیث درج کی ہیں۔

 

 ڈاکٹر فتحیہ فتاحی زادہ نے بیانوے (٩٢)احادیث درج کی ہیں وغیرہ وغیرہ۔لیکن ان سب کا مقصد چونکہ تمام احادیث کا احصاء نہیں رہا اس لئے تحقیق نگار کا مقصد بھی پردہ کی بابت مروی احادیث کا احصاء نہیں ہے بلکہ فقط پردہ کا اثبات ہے۔اس لئے تحقیق نگار نے بھی طوالت سے محترز رہتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول پر اکتفاء کیا ہے اور جتنی احادیث درج کی ہیں ان سے بخوبی اپنے مقصد کو حاصل کیا ہے۔اسلام کے بنیادی اور اساسی احکام چونکہ قرآن و حدیث اور ائمہ اطہار کے اقوال وافکار ات کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں اس لئے تحقیق نگار نے ضروری سمجھا کہ ان تینوں مراجع کو مستقلا علیحدہ علیحدہ ابواب کے عنوانات کے تحت درج کیا جائے تاکہ تینوں مراجع بحسن وخوبی سمجھ آجائیں اور اقوال وا ۤراء اور افکار و نظریات کا اختلاط بھی نہ پیداہو جو کہ عموما ابہام کا باعث ہوتاہے۔بایں وجہ تحقیق نگار نے ان تینوں مراجع پر مستقلا عنوانات قائم کرکے علیحدہ علیحدہ معنون کیا وگرنہ یکجا بھی جمع کئے جاسکتے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

باب سوم

 

مصادر ومراجع

 

(١) ابن حنبل ،امام احمد،المسند،دارالحدیث،ج/١٨،احادیث ام سلمہ ؓ رسائل الشیعہ ،/١٤،ص ١٧٢

(٢) سجستانی ،سلیمان بن ابی اشعث ،ابو داؤد،ج/١،کتاب الجہاد ،باب فضل قتال الروم،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی،

 ص ٣٢٦

(٣) اثبات الستور لذوات الخدور،ص٥،بحوالہ،محمد شفیع عثمانیؒ، احکام القرآن،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ،ج/٣،ص ٤٤٤

(٤) القشیری ،مسلم بن حجاج،صحیح مسلم،کتاب التوبۃ،اصح المطابع،کراچی

(٥) السیریۃ الحلبیۃ،ج/٢،ص٨٢،بحوالہ احکام القرآن،ج/٣،ص٤٥١

(٦) بخاری ،محمد بن عبداللہ ،صحیح البخاری،اصح المطابع،ج/٢،ص٦٠٦

(٧) صدیقی ،محمد حسین ،شرعی پردہ کیوں اور کیسے؟زمزم پبلشرز،٢٠٠٥ئ،ص ٤٣

(٨) بلند شہری،عاشق الٰہی ،مولانا،شرعی پردہ،تحسین پبلشرز،ص٣٠،٣١

(٩) مسلم شریف،بحوالہ شرعی پردہ کیوں اور کیسے؟محمد حسین صدیقی،زمزم پبلشرز،٢٠٠٥ئ،ص ٤٥

(١٠) بخاری ،محمد بن عبداللہ ،صحیح البخاری،کتاب الحج،اصح المطابع،

(١١) القشیری ،مسلم بن حجاج،صحیح مسلم،اصح المطابع،کراچی

(١٢) صدیقی ،محمد حسین ،شرعی پردہ کیوں اور کیسے؟زمزم پبلشرز،٢٠٠٥ئ،ص ٤٣

(١٣) متفق علیہ

(١٤) بلند شہری،عاشق الٰہی ،مولانا،شرعی پردہ،تحسین پبلشرز،ص١٠٨،١٠٩

(١٥) عبدالکریم زیدان ،المفصل فی احکام المرأۃ،موسسۃ الرسالہ، بیروت،ج/١،ص٢١٣

(١٦) ابی عیسیٰ ترمذی،سنن ترمذی،کتاب الصلوٰۃ،باب صلوۃ المرأۃ،قدیمی کتب خانہ،آرام باغ کراچی،

(١٧) بلند شہری،عاشق الٰہی ،مولانا،شرعی پردہ،تحسین پبلشرز،ص١٢١،١٢٢

(١٨) صحیح البخاری ،الصلوٰۃ،باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب ،حدیث ٣٥١

(١٩) صحیح البخاری،مواقیت الصلوٰۃ،باب وقت الفجر،حدیث ٥٧٨

(٢٠) صحیح البخاری،الاذان،باب انتظار الناس قیام الامام العالم ،حدیث ٨٦٩

 وصحیح مسلم، الصلوۃ،باب خروج النساء الی المساجد ،حدیث،٤٤٥

(٢١) القرآن:٩:١٠٠

(٢٢) القرآن:٤:١١٥

(٢٣) یہ قول حضرت عائشہ ؓ کا ہے جس طرح گزشتہ صفحات میں اس کی تخریج کردی گئی ہے۔جہاں تک ابن مسعود کے قول کا تعلق ہے تو بایں الفاظ تو نہیں مل سکا،البتہ مصنف ابن ابی شیبہ (٢/١٥٨)میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے بعض ایسے اقوال منقول ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ عورت کے لئے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔(عثمان منیب)

(٢٤) محمد بن عبداللہ ،صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء ،باب ہجرۃ النبی وباب تزویج النبی صلی اللہ علیہ وسلم عائشۃ۔

(٢٥) سجستانی ،سلیمان بن ابی اشعث ،ابو داؤد،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی،ص ٣٢٦

(٢٦) صدیقی ،محمد حسین ،شرعی پردہ کیوں اور کیسے؟زمزم پبلشرز،٢٠٠٥ئ،ص ٥٩

(٢٧) بیہقی،بحوالہ شرعی پردہ کیوں اور کیسے،ص ٣٣

(٢٨) بلند شہری،عاشق الٰہی ،مولانا،شرعی پردہ،تحسین پبلشرز،ص٧٢،٧٣

(٢٩) اسد الغابۃ،ج/٧،ص٦٧٤،طبقات الکبریٰ،ج/١٨،ص٢١٤

(٣٠) وسائل الشیعہ،ج/١١،ج/٦،ص٨٦

(٣١) شیخ حیدرحسن خان،رسالۃ الحجاب فی الاسلام،ص١٤،بحوالہ مسند بزار،ص ١٤

(٣٢) صدیقی ،محمد حسین ،شرعی پردہ کیوں اور کیسے؟زمزم پبلشرز،٢٠٠٥ئ،ص ٣٩

(٣٣) متفق علیہ ،بحوالہ شرعی پردہ،تحسین پبلشرز،ص ٨٥،٨٦

(٣٤) بلند شہری،عاشق الٰہی ،مولانا،شرعی پردہ،تحسین پبلشرز،ص٨٧

(٣٥) مرغینانی،الھدایۃ،ج/١،ص٩٧،بدایۃ المجتھد،(١۔٣٢٢)

(٣٦) حاشیۃ النتف فی الفتاویٰ،بغداد،١٩٧٦ئ،ج/١،ص٢٠٣

(٣٧) بدایۃ المجتھد،بحوالہ فقہ الائمۃ الاربعۃ،ص٤٨٠

(٣٨) ابو القاسم پائندہ،نہج الفصاحۃ،سازمان انتشارات جاویدان،تہران،١٣٦١ھ،ج/١٧٧،ص٣٦

(٣٩) صحیح البخاری،اللباس،باب المتشبھن بالنسائ۔۔۔،حدیث ٥٨٨٥

(٤٠) صحیح البخاری،اللباس،باب اخراج المتشبھن بالنساء من البیوت،حدیث ٥٨٨٧

(٤١) صحیح البخاری،اللباس،باب المتشبھن بالنسائ۔۔۔،حدیث ٥٨٨٦

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post