قبل از ظہور اسلام مختلف اقوام میں رائج حجاب (پردہ ) کی کیفیت اور آزادی نسواں

 

 تاریخ عالم کا گہرا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ کسی بھی تہذیب یا تمدن کی ترقی کا دور شروع ہونے سے قبل اس کے ابتدائی دور میں عورت انتہائی مظلوم حالت میں ہوتی ہے ۔ مثلا قیدی ، کنیز یا پھر کسی اور ادنیٰ سے بے حیثیت طبقے کی طرح !اگر چہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے لیکن پھر بھی اکثر تاریخ میں یہ دور نظر آتا ہے ۔ شائید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ''تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے ''

 راقمہ کو یقین واثق ہے کہ جب بھی تاریخ کا طالبعلم یا محقق کسی مخصوص زاویہ سے تاریخ عالم کا مطالعہ کرے گا تو دوران مطالعہ وہ اس دور کو ضرور محسوس کرے گا اور یہ بھی محسوس کرے گا کہ یہ دور وتسلسل ہر ہر مرتبہ اپنے پس منظر میں عورت کی ایک ہی طرح کی درد ناک اور اذیت ناک کہانی پوشیدہ رکھتا ہے جس کی تشریح و توضیح مختلف محققین مختلف انداز و اطوار سے پیش کرتے ہیں ۔ جس کا خلاصہ بایں الفاظ بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر تہذیب و تمدن کے شروع سے آخرتک ہر ہر دور ، قوم اور ملک میں جب بھی نا پسندیدہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کا مرکزی ذمہ دار مرد ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کی حمایت میں عورت کے خلاف معاندانہ و نفرت انگیز نظریات و توہمات کی ایک ایک طویل کہانی ہوتی ہے اس لئے وہ ان ناپسندیدہ تبدیلیوں اور صورتحال کا سارا کا سارا بوجھ عورت پر ڈال دیتا ہے اور خود مادر پدر آزاد پاک و صاف ہو جاتا ہے ۔ یہ دور و تسلسل زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے راقمہ سمجھتی ہے کہ اس کی مر کزی وجہ عورت کا بلند اخلاقیات سے تہی د ا ماں ہو جانا ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی تہذیب اپنے با م عروج کو پہنچتی ہے تو نتیجتاً عورت آسمانی شرائع سے ناواقفیت یا رو گردانی کے باعث تمام اخلاقی ، سماجی ، مذہبی اور معاشرتی پابندیوں سے ا ۤزاد ہو جاتی ہے جس کے منطقی نتیجہ کے طور پر امراء حکمران اور معاشرے کے با اثر افراد تک اس کی جنسی گرفت میں آجاتے ہیں اور وہ اہم ترین قومی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہونے لگتی ہے ، اس صورتحال کے پیدا ہوتے ہی اس تہذیب و تمدن یا قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور جلد یا بدیر وہ تہذیب و تمدن یا قوم ہلاکت کو پہنچتی ہے اور نتیجتاً حکماء ، فلاسفہ اور دانشور تمام تر ذمہ داری عورت پر ڈال دیتے ہیں چنانچہ ایک مرتبہ پھر عورت تمام حقوق واختیارات سے محروم کر دی جاتی ہے اور اپنی پرانی غلامانہ حیثیت پر لوٹ جاتی ہے جس کے بعہ ایک مرتبہ پھر سے اس پر بد ترین قسم کے مظالم کا اک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

 انسان اور انسانیت دو اصناف کے مجموعہ کا نام ہے ۔

١۔ صنف قوی ۔ (مرد)

٢۔ صنف ضعیف۔ (عورت)

 انسانیت میں چونکہ صنف ضعیف عورت ہے جو کہ بدون مرد کے اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتی اس لئے وہ ہمیشہ سے مر د کی محتاج رہی ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرہ میں کوئی عورت مرد کی مدد کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتی لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عورت کے اس ضعف کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے مردوں نے عورتوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے کہ اسے بیچا گیا ، غلام بنایا گیا، زندہ در گور کیا گیا،مارا پیٹا گیا حتی کہ بسا اوقات قتل کر دیا گیا اور یوں عورت کو انتہائی ذلت و رسوائی سے دو چار کیا گیا ۔ ایسا اس لئے ہوا کہ مرد نے عورت کو اس کے مقام و مرتبے اور جائز حقوق و حیثیت سے محروم کر دیا جس کے نتیجہ میں نظام کائنات انتشار و اضطراب کا شکار ہوا، امن و سکون بھی برباد ہوا اور زندگی اک زحمت بن کر رہ گئی ۔

 تاریخی مطالعہ سے ہی یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ رب العالمین نے معاشرہ انسانیت میں مرد کو بذریعہ عورت اور عورت کو بذریعہ مرد عزت عطاء فرمائی ہے اگر زوجین رشتہ ازواج اور باہمی حقوق کا خیال رکھیں تو یقیناً زندگی رحمت بن جائے لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں گےا ور ایک دوسرے کے حقوق پائمال کریں گے تو زندگی بجائے رحمت کے زحمت اور معاشرے میں ذلت ورسوائی ان کا مقدر بن جائے گی۔

 مولوی سید اخلاق حسین رضوی نے ''لغات کشوری''میں لفظ عورت پر بحث کر تے ہوئے یوں تشریح کی ہے کہ

 

''عورت سے مراد مردوزن کی شرمگاہ ہے ۔وہ چیز جس چیز کے دیکھنے اور دکھانے سے شرم آئے اور عورت کو مجازی طور پر اس لئے عورت کہا گیا کہ اس کا سر سے پاؤں تک تمام جسم قابل پوشیدہ ہے۔''(١)

 آج کے اس پرفتن دور میں جبکہ عورت کو مساوات ، ترقی ، تعلیم اور آزادی وغیرہ جیسے پر فریب و دل نشین عنوانات کا سہارا لے کر گمراہ کیا جارہا ہے اور اس کی عفت و عصمت کی چادر( پردہ) سر عام تار تار کر کے عموما اور مذہب اسلام کے حوالہ سے خصوصا جو بیہودہ الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں اس سلسلہ میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں موجود اور سابقہ مذاہب وادیان کا اک تقابلی مطالعہ پیش کیا جائے تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ دنیا کے کس مذہب نے عورت کو کیا مقام دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوسکے کہ آیا پردہ صرف مذہب اسلام نے عورت کو دیاہے یا اس سے قبل دیگر مذاہب وادیان اور تہذیبوں میں بھی پر دہ کا رواج رہا ہے ۔آئندہ سطور میں راقمہ اسی پس منظر میں منتخب قدیم معاشروں اور مذاہب کا ایک جائزہ پیش کرے گی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ قبل از ظہور اسلام مختلف اقوام میں رائج پردہ کی کیا کیفیت رہی ہے ۔؟

راقمہ نے " قبل از ظہور اسلام مختلف اقوام میں رائج حجاب (پردہ ) کی کیفیت اور آزادی نسواں " کو چھ فصول پر تقسیم کیا ہے جن کی ترتیب کچھ اس طرح ہے ۔

فصل اول: قدیم مصر اور فلسطین میں پردے کا رواج :۔(یہودیت یا بنی اسرائیل)

فصل دوم:۔ قدیم ایرانیوں میں پردے کا رواج:

فصل سوم:۔ قدیم ہندوستان میں پردے کا رواج :۔

فصل چہارم :۔ قدیم یورپ یعنی یونانیوں اور رومیوں میں پردے کا رواج :۔

فصل پنجم :۔ قدیم عرب میں پردے کا رواج:۔

فصل ششم:۔ پردے کے اسباب اور اسلام میں پردہ کا فلسفہ

 آئندہ سطور میں راقمہ اسی ترتیب سے متذکرہ بالا قدیم معاشروں اور تہذیبوں کا جائزہ پیش کرے گی۔

 فصل اول

 قدیم مصر اور فلسطین میں پردہ کا رواج(یہودیت یا بنی اسرائیل)

 

 قدیم مصر اور مصری عورت کی تاریخ کے مطالعہ سے جو خاکہ ذہن میں آتا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ مصر میں آباد لوگ زمانہ قدیم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے یہودا کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں جو فلسطین کے ایک علاقہ بنام ''یہودیہ''میں آباد ہوئے ۔

چوہدری غلام رسول اس بابت تحقیق پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب بنام ''مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ''میں یوں تحریر کرتے ہیں۔

''فلسطین کے ایک علاقہ کا نام یہودیہ تھا اور اس علاقے میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یہودا اور بنیامین کی کی نسل آباد ہوئی تھی اور وہ یہودی کہلاتے تھے ''۔(٢)

 مصری عورت کے حوالہ سے کتب تواریخ میں دو طرح کی روایات دستیاب ہوتی ہیں ۔ایک روایت کی رو سے مصری عورت اپنے قدیم دور میں تمام حقوق کی حامل تھی جب کہ دوسری روایات اس کے بر عکس مصری عورت کو اپنے تمام تر حقوق سے تہی دا ماں گردانتی ہے ۔ راقمہ ذیل میں دونوں طرح کی روایات کو باالترتیب بیان کرے گی۔

 عصمت الدین کر کر اپنی کتاب بنام ''المرأۃ من خلال الایات القراٰنیۃ''میں مصری عورت کی عمدہ حالت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ :۔

 

''مصری تہذیب میں عورت کو چشم کشا مرتبہ اور ملکی قیاد ت تک حاصل تھی افراد اور مملکت میں اس کا حکم تک چلتا اور وہ قوانین اور شرعی امور چلایا کرتی تھی ۔ مصری معاشرہ میں عورت کی بڑی عزت تھی۔ ان لوگوں نے عورت کی تعظیم شان اور اسکی قد و منزلت میں اس کے نفوذ اور ذہانت کے اعتراف میں مختلف قسم کے مجسمے نصب کر رکھے تھے ''۔(٣)

 

 عمر رضا کحالہ اپنی کتاب بنام ''المرأۃ فی القدیم والحدیث''میں مصری عورت کی گھریلو زندگی اور امور خانہ داری میں عمدگی اور اوصاف حسنہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ۔

 

''مصری عورت اپنے شوہر سے بڑی محبت کیا کرتی تھی ۔ مصری معاشرے میں بیوی کے معنیٰ مطیع اور گھر کی نگران کے تھے ۔مناظر اور دلائل اس بات کو پختہ کرتے ہیں کہ اسی طرح یہ بیوی اپنے شوہر کا بڑا احترام کیا کرتی اسے احساس تھا کہ وہ اس کا سردار اورآقا ہے وہ جب دن بھر کام کر کے تھکا ہارا گھر لوٹتا تو اس کی بیوی گھر کی صفائی ستھرائی کر کے اس کا استقبال کر رہی ہوتی اور غروب کے وقت اس کا گھر روشن کر دیتی ، کھانا کھلاتے وقت اس کا ہاتھ خود دھلاتی اور یہ کھانا خود اپنے ہاتھوں سے پکایا کرتی تھی ''۔(٤)

 

 قدیم مصری تہذیب میں مصری عورت کو تمام تر حقوق حاصل ہونے اور اس کے مرد کے مساوی حیثیت رکھنے کو بیان کرتے ہوئے دیور انت دل ''قصۃ الخصارۃ''میں یوںتحریر کرتے ہیں ۔

 

''یہ (مصری تہذیب ) واحد تہذیب تھی جس میں مرکز شرعی بھی عورت کے سپرد کر دیاگیا تھا ،جس کا مملکت اور امت دونوں کو اعتراف تھا اور عورت کو خاندان اور مملکت میں وہ حقوق حاصل تھے جو مردوں کو حاصل حقوق کی طرح تھے ۔''(٥)

 

 مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ قدیم مصری تہذیب میں عورت کو اک ممتاز حیثیت حاصل تھی جس میں مصری عورت کو مرد سے اشتراک بھی حاصل تھا کہ عام زندگی میں مصری عورت کی اپنی ذمہ داریاں اور حقوق تھے۔ وہ ملکیت رکھ سکتی تھی، میراث میں حصہ حاصل کر سکتی تھی حتیٰ کہ مرکز شرعی تک کی مسؤلیت بھی اس کے ذمہ تھی ۔

 عبد اللہ مرعی اپنی کتاب بنام ''اسلام اور دیگر مذاہب و معاشروں میں عورت کے حقوق و مسائل '' میں مصری عورت کی مسؤلیت اور حقوق ملکیت و وراثت کے حاصل ہونے کی بابت''المرأۃ مرکز ھا واثر ھا فی التاریخ ''کے حوالہ سے یوں نقل کرتے ہیں ۔

 

''گزشتہ زمانہ میں ٢١٠٠؁ء قبل مسیح میں پتہ چلتا ہے کہ مصری عورت اس زمانہ میں بے شمار زمینوں کی مالک ہوا کرتی تھی جو غالبا اس کے نسبی طریق سے اسے وراثت میں ملتی تھی لہٰذا عورت اس طرح والدین کی اعانت میں شرعا (ذمہ دار) مسؤل گردانی جاتی تھی ''۔(٦)

 

 مندرجہ بالا حوالوں سے اگر چہ یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ مصری عورت کو آزادی حاصل تھی ، مصری معاشرہ میں اس کا کردار بھی نہایت اہم تھا اور مصری معاشرہ میں مصری عورت کو بے کار یا گری پڑی چیز تصور نہ کیا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود مر دکو عورت پر افضلیت حاصل تھی مثلا وراثت کے نظام میں عورت مرد کی غیر موجودگی میں ہی وراثت حاصل کر سکتی تھی اگر مرد موجود ہوتا تو مصری عورت وراثت سے محروم کر دی جاتی تھی۔ ١٥٥٠ ؁قبل مسیح میں مصر پر حکومت کرنے والی ملکہ '' ھتشوب ''مرد کے اسی تصور افضلیت کے باعث مردوں کے کپڑے پہننے پر مجبور تھی۔(٧)

 یہ ہیں وہ روایات جن کی روشنی میں مصری عورت اپنے معاشرہ میں تمام مروجہ حقوق کی حامل اور آزاد و حیثیت میں زندگی گزارتی نظر آتی ہے اب آئیے ان روایات پر نظر ڈالتے ہیں جو اس کے بر عکس مصری عورت کی ایک غلامانہ حیثیت اور حقیر حیثیت کی عکاسی کرتی ہیں ۔

 سید جلال الدین عمری اپنی کتاب بنام ''عورت اسلامی معاشرے میں ''عورت پر مرد کے حد سے بڑھے ہوئے تصرف کی تشریح ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں ۔

''یہودی شریعت میں عورت پر مرد کا تصرف اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اگر عورت منت بھی مان لے اور اپنے اوپر کوئی چیزفرض کر لے تو اس کا باپ اور شوہر یہ حق رکھتے ہیں کہ اسے اس سے منع کر دیں اگر وہ اسے منع کر دیتے ہیں تو اس عورت کا فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ عورت معذورٹھہرے گی اس لئے کہ اس کے باپ یا شوہر نے اسے وہ فرض ادا کرنے کی اجازت نہیں دی اور وہ دوسری شادی کے حق سے بھی محروم رکھی گئی تھی ''۔(٨)

 

 یہودیوں کی مقدس کتاب ''توریت'' میں زن اول حضرت حواء علیہا السلام کے متعلق مزکور ہے کہ جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کو جس قدر نعمتیں ،راحتیں اور آسائشیں حاصل تھیں ان سب کے چھن جانے کی واحد ترین ذمہ دار حضرت حوا ء علیہالسلام تھیں (معاذ اللہ) اس خطاء کی پاداش میں ہی ان کے لئے کئی سزائیں بھی مقرر ہوئیں ۔ملاحظہ کریں ۔

''آدم نے کہا اب یہ (حوائ)میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے ،اس سبب سے وہ ناری کہلائی گئی،کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ہے، اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنے جورو سے ملا رہے گا اور وہ یک تن ہوں گے ، اور یہ سچ ہے کہ خدانے کہا کہ باغ کے ہر درخت سے نہ کھانا ، عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں مگر اس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے ۔خدانے کہا اس سے نہ کھانا اور نہ اسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مر جاؤ۔تب سانپ نے عورت سے کہا تم ہر گز نہ مرو گے ، بلکہ خدا جانتا ہے جس دن اسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی طرح نیک و بد کے جاننے والے ہو گے اور عورت نے دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا، دیکھنے میں خوشنما اور عقل بخشنے میں خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے خصم (آدم ؑ ) کو بھی دیا اور اس نے بھی کھایا تب دونوں کی آنکھیں کھل گیئں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں ''۔(٩)

 اس شجر ممنوعہ کے کھالینے کی خطاء کے سر زد ہوجانے کے بعد اللہ رب العالمین اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان ہونے والی گفتگو کو توریت یوں بیان کرتی ہے ۔

''کیا تو نے اس درخت سے کھایا ،جس کی بابت تم کو میں نے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا ؟آدم نے کہا کہ اس عورت نے جسے تو نے میری ساتھی کر دیا تھا،مجھے اس درخت سے دیا اور میں نے کھایا۔ تب خدا وند خدا نے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا ؟عورت بولی کہ سانپ نے مجھے بہکایا تو میں نے اس کو کھالیا ۔ اس نے (خدانے )عورت سے کہا کہ تیرے حمل میں تیرے درد کو بہت بڑھاؤں گا اور تو درد سے بچہ جنے گی اور اپنے آدمی کی طرف تیرا شوق ہوگا۔ اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا اور آدم سے کہا کہ اس واسطے کہ تو نے اپنی جو رو کی بات سنی اور اس درخت سے کھایا جس کی بابت میں نے حکم دیا تھا کہ اسے مت کھانا، زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی اور تکلیف کے ساتھ اپنی عمر بھر اس کو کھائے گا ۔ا ور وہ تیرے لئے کانٹے ، کٹارے اگائے گی ا ور تو کھیت کی نباتات کھائے گا اور تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں پھر نہ جائے ۔''(١٠)

 سید سلیمان علی ندوی اپنی تصنیف ''سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ''میں یہودی مرد کی عورت پر حاکمیت اور عورت کی محکومیت کی بابت یوں تحریر کرتے ہیں ۔

''یہودیت میں عورت ایک بھائی کے مرنے کے بعد دوسرے بھائی کی ملکیت ہو جاتی تھی اور وہ جس طرح چاہتا تھا اس سے معاملہ کرتا تھا یہاں تک کہ عورت کی مرضی کو اس میں کوئی دخل بھی نہ تھا''۔(١١)

 یہودیت میں عورت کی تحقیر آمیزی اور کمزور حیثیت کو ''ڈاکٹر گستا ؤلی بان عہد نامہ قدیم ''کے حوالہ سے تحریر کرتے ہوئے اپنی کتاب ''تمدن عرب''میں یوں لکھتے ہیں ۔

''اللہ تعالیٰ کو جو محبوب ہے وہ اپنے آپ کو عورت سے بچائے گا ہزار آدمیوں میں سے کوئی ایک اللہ تعالی کو محبوب ہے لیکن پورے عالم کی عورتوں میں بھی کوئی ایک عورت بھی ایسی نہیں ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو ''۔(١٢)

 یہ ہیں وہ دوسری روایات جن کے مطالعہ سے پہلی روایات کے بر عکس مصری عورت ایک خستہ حال ، محکوم اور کمزور حیثیت میں نظر آتی ہے ۔ مندرجہ بالا اقتباسات اور حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیت نے عورت کو کوئی عزت اور مقام و مر تبہ نہیں دیا بلکہ اسے ناپاک اور حقیر قرار دیا ہے کہ وہ نرینہ اولاد کی موجودگی میں وراثت کی بھی حقدار نہیں ہے ، وہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے ، اسے بیٹوں کی بنبت کمتر درجہ حاصل ہے ، اس کے حقوق و فرائض سے متعلق یہودی مذہب میں کوئی قانون نہیں ہے ۔ مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجا نب ہوں گے کہ یہودیت میں یہودی مرد بمقابلہ یہودی عورت فطرتا و جبلتاً شریف النفس و الطبع ، صالح ، نیک سیرت اور با کردار ہوتا ہے جبکہ عورت فطرتا و تخلیقاً گنہگار ، عیار و مکار ، منبع المآثم اور مرد کی مصیبت وہلاکت کی داعیہ ہے ۔جیسا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں توریت کے اقتباسات میں مطالعہ کیا کہ نسل انسانی کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام سے جنت کی نعمتیں ، راحتیں ،آسائشیں اور سہولیات کی چھن جانے کی ذمہ دار زن اول حضرت حواء علیہا السلام کو قرار دیا جاتا ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ اس کی پاداش میں انہیں کئی سزاؤں کا حقدار بھی ٹھہرایا جاتا ہے ۔ جیسے حمل میں درد کی بڑھو تری ، مرد کی محکومیت اور حیض و نفاس میں تلویث وغیرہ۔

 مذکورہ تحقیق سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودی عورت کئی معاملات میں اپنی جداگانہ کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رکھتی ، اس کا وجود غیر ضروری ا ور نا اہلیت کا حامل ہے وہ اپنی شریعت میں مرد کے زیر اثر اور زیر تصرف ہے حتی کہ اپنے فرائض کی ا دائیگی تک میں یہودی عورت یہودی مرد کے تابع مہمل ہے۔ اگر مرد چاہے تو اسے اجازت دے اور اگر چاہے تو منع کر دے ۔ مرد کی طرف سے ممانعت کی صورت میں عورت اپنے فرائض تک سے سبکدو ش ہو جائے گی،مزید بر آں اسے دوسری شادی کی اجازت حاصل نہیں ہے ۔جیسے کہ ابھی ہم نے گزشتہ سطور میں سید جلال الدین عمری کے حوالہ سے ان کے اقتباس میں ملاحظہ کیا۔

 مندرجہ بالا اقتباسات، حوالہ جات اور تحقیق کے نتیجہ میں ہم یہ کہنے میں بھی حق بجا نب ہوں گے کہ یہودیت میں عورت ایک مجرم ، مجبور محض ، بے حیثیت و بے وقعت ، مرد کی لونڈی ،غلطیوں کا سر چشمہ ، خستہ حالت کا شکار اور اپنے ہر معاملہ میں مرد کے زیر تصرف اور زیر اثر ہے ۔ اب آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا یہودی عورت اپنی شریعت کی رو سے حجاب اور پر دہ کی بابت کیاکیفیت رکھتی ہے ،کیا وہ پردہ کرتی ہے یا نہیں ؟اور اگر کرتی ہے تو اس کے پردہ کی کیا کیفیت ہے ۔؟

 قدیم مصر اور مصری عورت کے حجاب و پردہ کی کیفیت اور جائزہ سے قبل میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ ہمیں قدیم مصری عورت کے پردہ کی کیفیت کا جائزہ لینے میں بھی اسی طرح دو طرح کی روایات دستیاب ہوتی ہیں جس طرح اس عورت کی معاشرتی حالت کی تحقیق کے دوران راقمہ نے مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیں ۔ جس میں ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک طرح کی روایات مصری عورت کو تمام مروجہ حقوق کی حامل ، آزاد اور ایک با عزت زندگی گزارنے والی عورت کے روپ میں پیش کرتی ہیں جبکہ اس کے بالمقابل دوسری روایات اس کے بر عکس مصری عورت کو ایک غلام تمام مروجہ حقوق سے عاری اور تحقیر آمیز زندگی گزارنے والی عورت ظاہر کرتی ہیں ۔راقمہ نے دوران تحقیق اس بات پر غور کیا تو اس نتیجہ پر پہنچی کہ مصری عورت کی بابت دو طرح کی روایات کا پایا جانا اور کسی ایک نتیجہ کا محقق و متعین نہ ہو سکنا دو وجوھات سے ہے ۔

(١) پہلی وجہ تو یہ کہ اس بابت ہمیں کوئی مصدقہ ذریعہ معلومات (قرآن و حدیث) کی صورت میں دستیاب نہیں ہوتا جس کے بیان اور توضیح پر ہم مکمل یقین رکھتے ہوئے کسی ایک بات کو ترجیح دیں ۔ بلکہ اس بابت ہمیں جو مآخذ دستیاب ہوتے ہیں وہ یا تو خود یہودی مذاہب کی کتب مقدسہ ۔(توریت، تالمود اور عہد نامہ عتیق قدیم) وغیرہ ہیں یا پھر دور حاضر اور بعد ازا سلام کے محققین کی کتب ہیں ۔ جہاںتک یہودیوں کی مقدس کتب مذکورہ کا تعلق ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ تمام کتب معہ توریت شریف کے تحریف شدہ ہیں۔جن میں ایک سے زائد مرتبہ مختلف مراحل میں تغیر و تبدل اور کاٹ چھانٹ کی گئی ہے ۔ اس لئے ان پرمکمل اعتماد کرتے ہوئے یقینا کسی ایک جانب کو ترجیح دی ہی نہیں جاسکتی اس لئے کہ وہ مآخذ جس سے ہم استفادہ کر کے کچھ خدوخال جوڑتے ہیں خود ہی ناقابل اعتماد ہے تو اس سے اخذ کردہ مواد پر ہم کس طرح اعتماد کر کے کسی ایک جانب کو ترجیح دے سکتے ہیں ۔ جبکہ بعد کے محققین کی کتب و غیرہ کا جہاںتک تعلق ہے تو ظاہر ہے وہ بھی اس بابت کوئی آسمانی علم با تحقیق تو پیش نہیں کرتے بلکہ وہ بھی انہی مآخذاور مفکرین کی افکار و آراء پیش کرتے ہیں جو کہ اپنے ماخذ کی طرح مکمل طور پر قابل اعتماد نہیں ہیں ۔ راقمہ کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے سورہ بقرہ کی آیۃ نمبر ٧٩ کا مطالعہ کافی ووافی ثبوت ہوگا۔ ملاحظہ کریں ۔ اللہ رب العالمین یہودیوں کی اس بد خصلتی (تحریف) کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔

''پس تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جو لکھتے ہیں اپنے ہاتھوں سے پھر وہ کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کو تھوڑی قیمت میں بیچ دیں ۔پس تباہی اور بر بادی ہے ان لوگوں کے لئے جو وہ اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں اور ہلاکت ہے ان کے لئے جو وہ کام کرتے ہیں ''(١٣)

(٢) دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ ساحلی مشرق و سطیٰ کا خطہ (قدیم مصر وغیر)پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں عیسائی اور یہودی دونوں کی مشترکہ آبادیوں پر مشتمل رہا ہے اگر چہ اس خطہ کی تاریخ عیسائیت کے آغاز سے بھی بہت پہلی شروع ہو جاتی ہے لیکن در حقیقت اس خطہ کے معاشرے اسقدر مختلف الانواع ثقافتوں کے وارث بنے کہ ان کا ایک ایسا جائزہ پیش کرنا جو جامع اور مانع ہو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ یہی دو وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر مکمل یقین سے کسی ایک جانب کو ترجیح نہیں دی جاسکتی ۔

 قدیم مصر میں بہت سی متنوع اورگونا گوں ثقافتوں کا دور دورہ رہا ہے مثلا باز نطینی ثقافت ، کلا سیکی یونانی ثقافت اور دیگر قدیم مصری ثقافتیں وغیرہ۔ ہمارا موضوع چونکہ قدیم مصری ثقافت سے متعلق ہے اس لئے راقمہ آئندہ سطور میں اسی کے پس منظر میں مصری عورت کے پردہ کی کیفیت کے کچھ نمایا ںخدو خال کا جائزہ پیش کرے گی ۔ جس میں دونوں طرح کی روایات درج کی جائیں گی۔ ایک روایت کی رو سے مصر کی عورتیں پردہ کی پابند نظر آتی ہیں جبکہ دوسری روایات مصری عورت کے بارے میں پردہ وغیرہ سے عاری اورتہی دامن نظر آتی ہے ۔ ان کے علاوہ بعض ایسی روایات بھی دستیاب ہوتی ہیں جن سے مصری عورت کے بارے میں یہ آگہی حاصل ہوتی ہے کہ مصری عورت بتدریج پر دہ کی طرف راجع ہوئی تھی جس میں اس معاشرہ کی اردگرد کی ثقافتوں نے مرکزی کر دار ادا کیا تھا مثلا بازنطینی معاشرہ اور کلاسیکی یونانی معاشرہ ۔

 قدیم مصری عورت کے پردہ کی کیفیت کے بارے میں یہود کی مذہبی کتب مثلا توریت، عہدنامہ عتیق قدیم اور دیگر مآخذ میں جو روایات دستیاب ہوتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی عورت ابتداء سے ہی پردہ کی پابند تھی ۔جس میں بعد کے اووار میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بتدریج کمی آتی گئی ۔ راقمہ کے اس دعویٰ کی صداقت توریت کی مندرجہ ذیل روایت سے بخوبی ہوتی ہے ۔ مولانا سید علی نقی نقوی طاب ثراہ اپنی تصنیف بنام ''اثبات پردہ ''میں اس بابت مندرجہ ذیل روایات تحریر کرتے ہیں ۔

'' بائبل کے عہد جدید میں حضرت یسوع مسیح کا یہ قول موجود ہے کہ ''تم سے کہا گیا تھا کہ عورتوں کو نہ دیکھو میں یہ کہتا ہوں کہ تم ان کے برقعوں پر بھی نظر نہ ڈالو''(١٤)

''اسحاق نکلے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے شام کے وقت۔ ادھر سے ایک قافلہ آتا ہوا نظر پڑا جس میں ربقہ تھیں انہوں نے ان کو دیکھ کر برقع لیا اور اس سے پردہ کر لیا''َ(١٥)

 مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت موسوی میں پردہ کا اس قدر اہتمام تھا کہ عورت پر تو در کنار عورت کے برقع پر بھی نگااہ ڈالنے سے روکا جاتا تھا، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت پردہ کے لئے برقع بھی اوڑھا کرتی تھی۔

 مرتضی مطہری اپنی کتاب بنام ''عورت پردے کی آغوش میں''یہودی عورت کے پردہ کے حوالہ سے ''دیورانت ول''کی تحریر کچھ اس طرح تحریر کرتے ہیں ۔ ٭

٭'' اگر زنی بہ نقض قانون یہودی پر داخت چنانکہ مثلاً بی آنکہ چیزی بر سر داشت بہ میان مروم می رفت و یادر شارع عام نخ می رشت یا باہر سنخنی ازمردان درد دل می کرد باصد ایش آنقدر بلند بود کہ چون در خانہ اش تکلم می نود ہمسائیگانش می توانستندسخنان اور ابشنوند در آن صورت مرد حق داشت بدون پر دافت مہربہ اور اطلاق دھد''۔(١٦)

''اگر کسی عورت سے یہودی قانون پردہ کی خلاف ورزی سرزد ہوتی ، مثلا وہ برہنہ سر لوگوں کے سامنے آتی یا شارع عام میں سوت کاتتی یا ہر قسم کے افراد سے اپنا دکھڑا کہتی یا اتنی بلند آواز میں گفتگو کرتی کہ پڑوسی اس کی آواز سن لیں تو اس کے مرد کو یہ حق تھا کہ وہ اس کا مہر ادا کئے بغیر اسے طلاق دے دے ''(١٧)٭

 

٭ نوٹ:۔

 کتاب ہذا چونکہ اردو میں ترجمہ ہو چکی ہے اس لئے آئندہ سطور میں راقمہ اس کتاب کے مترجمہ مواد سے اقتباسات پیش کرے گی۔

 مندرجہ بالا اقتباس یہودی قانون پردہ کی بابت یہ وضاحت کرتا ہے کہ یہودی قوانین کی رو سے عورت کا پردہ اسقدر سخت تھا کہ وہ عورت برہنہ سر نہیں رہ سکتی تھی، عام جگہوں پر روز مرہ کے کام نہیں کر سکتی تھی، اپنے دل کی بات ہر عام و خاص سے نہیں کر سکتی تھی اور بلند آواز میں گفتگو بھی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ تو وہ روایات ہوئیں جن میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہودی عورت پردہ کیا کرتی تھی جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب یہود میںاول تو پردہ تھاہی نہیں اور اگرکہیں ایسے واقعات یاروایات دستیاب ہوتی ہےں جن سے پردہ کا اثبات ہوتا ہے تو وہ عام یہودی عورت کی بابت نہیں بلکہ کسبی عورتوں (طوائفوں) کی بابت ہیں ۔

 سعود الحسن خان اپنی کتاب بنام ''عورتوں میں پردے کا ارتقائ''میں یہودی عورت اور پردہ کی بابت تحریر کرتے ہیں ۔

''بنی اسرائیل میں عصمت فروشی کی سخت ممانعت تھی، اس لئے ممکن ہے کہ اس گروہ کی عورتیں جو کہ عصمت فروش ہوں نقاب ڈال کر بیٹھ جاتی ہوں تاکہ کسبی ہونے کی پہچان ہو ،یا پھر پورے کنعان میں یہ رواج ہو بلا تفریق بنی اسرائیلی وغیر بنی اسرائیل کے شریعت موسوی میں اور اس کے بعد فقہ ورواجات یہود میں ہمیں کہیں پردہ کرنے کا حکم نہیں ملتا۔''(١٨)

 سعود الحسن خان کے مندرجہ بالا دعویٰ کی صداقت ماہر مصریات ''سی۔ جے ۔آئر''کے اس تحقیقی قول سے بھی ہوتی ہے جو وہ ''رامیس سوئم''کے حوالہ سے پیش کرتا ہے کہ۔

''مصر کی عورتیں جہاں چاہے جا سکتی ہیں اور انہیں رستہ پر کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا''(آئر اپنی ذاتی رائے پیش کرتے ہوئے کہتا ہے)شائید یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ ایک غیر شادی شدہ اور خواہاں عورت کے ساتھ مباشرت سماجی اور قانونی طور پر نسبتًا غیر جانبدارانہ معنی کی حال تھی۔ ۔۔ نئی مملکت میں جسم فروشی کے بارے میں حقیقی شہادت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ عورتیں نہ تو پردہ کرتی تھیں اور نہ انہیں علیحدگی میں رکھا جاتا تھا''۔وہ آزادانہ میل جول رکھ سکتی تھیں۔''(١٩)٭

خلاصہ بحث:

 قدیم مصری تہذیب قریب ٣١٠٠ ق م سے ٣٣٣ ق م تک کے عرصہ پر محیط رہی ہے اس تمام عرصہ کے دوران جیسا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں مطالعہ کیا مصری عورت کی حالت ، حیثیت اور پردہ وغیرہ کی بابت مختلف روایات ملتی ہیں جن میں سے ہم کسی ایک کو یقینی طور پر ترجیح نہیں دے سکتے جس کی دونوں وجوھات بھی آپ اور ہم گزشتہ سطور میں مطالعہ کر چکے ہیں لیکن یہ بات مکمل وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس تمام عرصہ میں مصری عورت کی حیثیت نقطہ انجماد پر منجمد نہیں رہی بلکہ ممکنہ طور پر گھٹتی بڑھتی رہی جس میں اس وقت کے مروجہ معاشروں میں مصری عورت کی حالت ہمیں قدرے بہتر نظر آتی ہے مثلا اسے مساوات حاصل ہے ، جائیداد کی ملکیت رکھ سکتی ہے ، انتظام اور تصرف رکھتی ہے ، جائیداد خرید و فروخت کر سکتی ہے ، اسی طرح ورثہ چھوڑنے منتقل کرنے ، عدالت میں شہادت دینے اور دیگر کئی معاملات میں براہ راست اور بغیر کسی واسطے کے عمل کرنے اور اثر انداز ہونے کا حق بھی حاصل ہے ۔راقمہ اپنی اس فصل کو ماہر مصریات ''ژان ور کوٹر'' کے اس اقتباس پر پایہ تکمیل کو پہنچاتی ہے جس میں وہ اپنے حالیہ قدیم مصری عورتوں کے تو سیعی مطالعہ میں اسی خلاصہ کوبطور صراحت لکھتا ہے ۔

'' اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ مصری لوگ ضف نازک کے بارے میں کبھی بھی کوئی تعصب نہیں رکھتے تھے۔خاص طور پر وسطی مملکت (٢٠٦٠۔١٧٨٥) قبل مسیح کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ کہتا ہے ۔''مرد اپنے آپ کو اصولاً اور لازما برتر نہیںسمجھتا تھا ، جنسوں کی برابری کا شعور مصری عقائید میں گہرائی تک پیوستہ ہے اور بلا شبہ یہی شعور تھا جس نے آنے والی صدیوں (نئی مملکت) میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی آزادی کو ممکن بنایا ''۔نئی مملکت (١٥٧٠۔٩٥٠۔قبل مسیح) کی ایک دستاویز کے متعلق وہ لکھتا ہے ''اس نسخے میں قانون کی نظر میں مردوں اور عورتوں کی برابری واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے ۔ قدیم تہذیبوں میں عورتوں کی حالت کے مقابلہ میں اس برابری کا سر چشمہ بلا شبہ مصر میں عورتوں کی مراعات یافتہ حیثیت کے بارے میں عام عقیدہ ہے اور یہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا زیادہ باریکی سے جائزہ لیا جائے ''۔(٢٠)


 

 فصل دوم

 قدیم ایرانیوں میں پردے کا رواج :

 

 قدیم ایرانی تہذیب کتب تواریخ میں بابلی ،آشوری اورسومری تہذیب کے نام سے جانی جاتی ہے یہ تہذیب دراصل میسوپوسٹیمی تہذیب کا حصہ رہی ہے میسوپوسٹیمی تہذیب کا دورانیہ کئی ہزارسال پر محیط ہے جس میں آریائی، سمیری ،عکادی، آشوری اوربابلی ثقافتوں کے ایک طویل سلسلہ کا عروج وزوال شامل ہے جو وقتا فوقتا ےکے بعد دیگرے قدرے تسلسل سے اس خط (فارس ) پرپھلتی پھولتی رہیں قدیم ایران کے حوالہ سے ہمیں اس تہذیب میں چار ادوار خصوصیت سے نظرآتے ہیں ۔

(١) ہیخامینی ۔

(٢) اشکانی ۔

(٣) ساسانی ۔

(٤) مزدکیت ۔

 ان ادوار میں ایرانی عورت کی پردہ کی کیفیات پر راقمہ بعد میں بحث پیش کرے گی۔ اس سے قبل اس خطہ میں عورت کی معاشرتی حالت پرنظر ڈالنا ضروری محسوس ہوتاہے۔اس لئے پہلے ہم عورت کی معاشرتی حالت کے بارے میں معلومات حاصل کریںگے۔

 قدیم ایرانی تہذیب کے حوالے سے ابھی تک محققین نے کوئی ایسا جامع ومانع جائزہ پیش نہیں کیا جسے سامنے رکھ کر ہم اس تہذیب کی عورت کے متعلق کوئی معلوماتی خاکہ تیار کر سکیں البتہ مختلف ادوار میں مختلف مصنفین ومحققین نے جزوی طور پر جو احوال اور کوائف درج کئے ہیں انہیں سامنے رکھ کر اس دور کی عورتوں کی جو معاشرتی کیفیت سامنے آتی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اکثر عورتوں نے بالخصوص غلام اورادنی طبقہ سے تعلق رکھنے والی عورتوں پرباقاعدہ قانونی اجازت کے تحت ظلم وجوررواکھاجاتاتھا۔

 قدیم ایرانی خطہ میں رسوم رواج کے باہمی تبادلے سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ اس خطہ میں بتدریج عورتوں کی حیثیت پست سے پست ترہوتی چلی گئی اور عورتوں کی طرف زیادہ منفی رویوں کو فروغ حاصل ہوا۔ بادشاہوں کے حالات زندگی بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پہلے ہزارسالہ دورکے وسط سے اسلامی فتوحات تک اس خطہ میں وقوع پذیر ہونے والی فتوحات کے سلسلے اور ثقافتی تبادلوں نے عورتوںکی حیثیت کو مزید سے مزید تر گھٹایااور ایسے رواجوں کو فروغ دیا جو انہیں مزید مائل بہ تنزل کرتے تھے اس خطہ میں باہمی ثقافتوں کے تبادلے نے ایک بہت بڑا کام یہ کیا کہ اس پورے خطہ میں عورت کے ایک ایسے تصور کی تو ثیق ہوئی جس نے عورت کی انسانیت ہی کو غرق آب کردیا اور اسے لازمی اور مکمل طور پر محض ایک جنسی اورتولیدی وجود میں ڈھال دیا دیورانت ول اس تہذیب میں عورت کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے یوں تحریر کرتاہے۔

''اس تہذیب میں عورت کا بہت براحال تھا اس سے بڑا توہین آمیز سلوک اور ظلم کیاجاتا تھا اس کی مظلومیت کی انتہا ء یہ تھی کہ مرد کو اختیار حاصل تھا جیسے چاہے عورت میں تصرف کرسکتاتھا مرد وہاں بااختیار سردار ہوتاتھا اور بعض جگہوں پر اسے بیوی کو قتل کرنے اسے اپنے قرضوں کی ادئیگی میں باندیوں کی طرح بیچنے کااختیار بھی تھا'' (٢١)۔

 لیلی احمد اپنی کتاب بنام'' عورت جنسی تفریق اور اسلام'' میں بحوالہ ھمورابی قدیم ایرانی تہذیب میں خو اتین کے مقام و مرتبہ پر بحث کرتے ہوئے یوں تحریر کرتی ہیں ۔

'' ھمورابی ١٧٢٥ق،مرد نے مرد کوعورت کے رھن رکھنے پر تین سال تک اختیار دے رکھاتھا بعد کے آشوری قانون نے مرد ہونہ عورت کے مارنے پیٹنے ان کے کان چھیدنے اور مروڑنے کی اجازت بھی دےدی تھی۔ قانونی طورپر عورت کوسزا دینے کے ضمن میں مردکو اختیار تھاکہ وہ بلاخوف و خطر اپنی بیوی کے بال نوچنے کان مروڑنے اور کاٹنے کابھی حق رکھتاتھا۔ شہری ریاستوں کے سارے دورانیہ میں طاقت اور اختیار کا سرچشمہ صرف اور صرف شوہر اور باپ کے پاس تھا۔ تیسرے ھزارسالہ دور کے وسط میں اس عہد کے نسخہ کے مطابق اگرکوئی عورت اپنے شوہر سے اختلاف رکھے توشوہرکو اجازت تھی کہ پکی اینٹوں سے عورت کے دانت توڑ دے''(٢٢) ۔

 قدیم ایرانی تہذیب میں مرد عورت کے نکاح کی بابت وضاحت بیان کرتے ہوئے دیورانت ول ''قصۃ الحضارۃ'' میں تحریر کرتے ہیں ۔

''جب لڑکیاں شادی کی عمرکو پہنچ جاتیں تو سال کے ایک مخصوص دن ان کو لیکر جمع ہوجاتے ہیں جہاں بے شمار مرد بھی ہوتے اور وہاں ایک دلال ان کی خوبیاں اور حلیہ بیان کرتا اور بولی لگتی پھر یکے بعد دیگرے لڑکیاں فروخت ہوتی چلی جاتیں سب سے پہلے سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی کے لئے بولی لگتی اور اسکی خوب گراں قیمت وصول کرنے کے بعد اس سے کم درجہ خوبصورت لڑکی کی بولی لگائی جاتی لیکن ان سب کواس شرط پر بیچاجاتاتھا کہ خرید ار اس سے شادی کرے گا''۔(٢٣)

 لیلے احمد قدیم ایرانی تہذیب کے ہیخامینی دور کی ایک نہایت مکروہ رسم اور ناپسندیدہ غیر اخلاقی حرکت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں ۔

 ہیخامینی

''ہیخامینی دور سے ایک اور چیز جو ابتدائی ساسانی دور تک چلی آتی وہ اپنے محرموں کے ساتھ شادی کا رواج تھا اس کے مطابق مرووزن کو اپنی بہن ماں بھائی بیٹی سے بھی نکاح کی اجازت تھی۔ ان سب کو نہ صرف روا بلکہ حقیقتا پارسائی اور بڑی خوبی کے کا م اور حتی کہ شیطانی قوتوں کے خلاف مؤثر سمجھا جاتاتھا۔(٢٤)

 قدیم ایرانی تہذیب میں شادی سے قبل عورت پر روارکھے جانے والا ایک ظلم اور بری عادت بیان کرتے ہوئے دیورانت ول تحریر کرتے ہیں ۔

''بابلی عورت کوایک عبادت گاہ ''زھرہ ''میں بیٹھ کر زندگی میں ایک مرتبہ وہاں کسی اجنبی شخص کے ساتھ بدکاری کرانا ضروری تھا ،، ، ،،،بے شمار عورتیں ''ہیکل زھرہ ''میں بیٹھ جاتیں اور ان کے سروں پر رسیوں کے تاج بڑے ہوتے اور عورتیں آتی جاتی رہتیں ہر سمت عورتیں ہی عورتیں ہوجاتیں پھراجنبی لوگ آتے ان کے درمیان سے گزرتے اور اپنی پسند کی عورت لے جاتے۔(٢٥)

 لیلے احمد قدیم ایرانی تہذیب میں ساسانی قانون کے تحت شادی شدہ مرد کی ایک بری خصلت کی بابت وضاحت کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ۔

''ایک مرد اپنی بیوی کواس کی مرضی کے بغیر کسی دوسرے مرد کو ادھار دے سکتا تھا اس معاملے کی شرائط باقاعدہ معاہدے میں درج کی جاتی تھیں یہ رسم خاص طور پر اس وقت مقبول ہوتی تھی جب ایک رنڈوا شادی کابار اٹھانے کے قابل نہیں ہوتاتھا لیکن اپنی جنسی ضروریات اور بچوں کی پرورش کے لئے اسے عورت درکار ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔بیوی کا عاریتا دیا جانا ساسانی قانون دانوں کی نظر میں ایک برادرانہ عمل تھا اپنی برادری کے ایک رکن سے اتحاد کا ایک ایسا عمل جس کو مذہبی فریضہ بھی مقدس مانتا تھا۔(٢٦)

 عمر رضا کحالہ اپنی تصنیف'' المراۃ فی القدیم والحدیث'' میں قدیم ایرانی تہذیب میں عورت کابنیادی حقوق سے تہی دامن ہونا بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ۔

''اور جب ہم اس کی بات کریں اس کے حقوق کی بات کریں توفارسی عورت مرد کے زیر اثراس کے ظلم کے پنجے میں تھی اسے اختیار حاصل تھا کہ چاہے تو اس کی موت کا فیصلہ صادر کردے یا زندگی کی نعمتیں رہنے دے یہ اس کی مرضی پر منحصر تھا۔مرد عورت کو گھریلو سامان اور اشیاء کی طرح استعمال کرتاتھا (٢٧)۔

 یہ ہے قدیم ایرانی تہذیب میں عورت کی معاشرتی حالت کاایک سرسری ساجائزہ جس میں یہ عورت بھی اپنے دور کی دیگر عورتوں کی طرح مظلومیت کی حالت میں نظرآتی ہے جسے خریدو فروخت بھی کیا جاتاہے، جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہے اور معاذاللہ اپنے بھائی اور بیٹوں کی بیوی تک بننا پڑتاہے اسے مرد اس کی مرضی کے بغیرکسی دوسرے مرد کو عاریتا ادھار بھی دے سکتاہے جو اس سے اپنی جنسی ضروریات اور بچوں کی پرورش کی خدمت حاصل کرتاہے۔ اخلاقی بے راہ روی کا یہ عالم ہے کہ ھر غیر شادی شدہ عورت کو شادی سے قبل ہی غیر مرد سے جنسی تعلق استوار کرنا لازم امر ہے۔ان تمام باتوں سے واضح ہوتاہے کہ اس تہذیب میں عورت کی کوئی عزت وتوقیر نہ تھی بلکہ اسے انسانیت کا درجہ ہی نہ ملا تھا کیونکہ اس قسم کی غیرانسانی حرکات وعادات انسانی معاشرہ میں کسی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتیں اب آئےے قدیم ایرانی عورت میں پردہ کی کیفیت کا جائزہ لیتے ہیں ۔

پردہ:۔

 لیلے احمد کے مطابق ٣٣٣ ق م میں جب سکندر نے ایران فتح کیا اس کے بعد پردہ کا رواج ہوا لیلے احمد ایل او ینہائم کے حوالہ سے رقم طراز ہیں ۔

 

''سکندر نے ٣٣٣ ق،م، میں ایران کے بادشاہ دار یوس کو شکست دینے کے بعد اپنے حرم کو بہت وسعت دی اس کے ہاتھ لگنے والا داریوس کا حرم بادشاہ کی ماں اور بیوی پر مشتمل تھا جو اپنے رتھوں میں علیحدہ سفر کرتی تھیں اور ان کے ساتھ گھڑسوار عورتوں کے دستے ہوتے تھے۔ پندرہ گاڑیاں بادشاہ کی اولاد ان کی آیاؤں اور خواجہ سراؤں کی اور داریوس کی ٣٦٥واشتاؤں سے بھری ہوئی دوسری گاڑیاں تھیں (اس وقت تک عورتوں کو علیحدہ رکھنے کی رسم رواج پاچکی تھی انکی سواری کی گاڑیاں باپردہ ہوتی تھیں)(٢٨)

 تاریخ تمدن کا مصنف ''دیورانت ول ''قدیم ایران میں پردہ کاسبب عورتوں کی ماہواری کے ایام میںمحبوسیت کے امتداد کو قرار دیتا ہے اس قدیم ایرانی دستور (ایام ماہواری کے درمیان عورتوں کی محبوسیت )کے بارے میں عمر رضا کحالہ احمدا حیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

''عورت کے طبعی ادوار، مثلا حیض ونفاس جو کہ معروف ہیں کہ عورت کو لاحق ہوتے ہیں فارسی تہذیب میں ایسی عورتیں گھروں سے دور جاکر چھوٹے چھوٹے خیموں میں جو شہریا قصبوں کے مضافات میں لگائے جاتے تھے جاکر رہتی تھی ان کے ساتھ کسی کو ملنا جلنا جائز نہ سمجھاجاتاتھا۔ ان خیموں کو عورت کی ماہواری کے دنوں میں رہنے کی جگہ سے پہچانا جاتاتھا حتی کہ ان خادموں کو جو انہیں کھانے پینے کی اشیا لے کر جاتے تھے انہیں تلقین کی جاتی تھی کہ وہ اپنے سر کو ڈھک کر اپنی کان اور ناک کو موٹے کپڑے سے لپیٹ کروہاں جائیں۔(٢٩)

 دیورانت ول کے مطابق یہ محبوسیت جو مندجہ بالا اقتباس میں گزری جو ماہواری کے ایام میں عورت کو اختیار کرنی پڑتی تھی اس کے امتداد سے قدیم ایرانی تہذیب میں پردہ کا رواج ہوا دیورانت ول اسی پر اکتقار نہیں کرتا بلکہ اس سے بڑھ کر پردے کو دیورانت ول قدیم ایرانی عورت کی حالت کی پستی اور محکومیت تصورکرتاہے اپنی تصنیف ''تاریخ تمدن ''میں وہ اس بابت جوتحریر کرتاہے اسے استاد شہید مرتضی مطہری اپنی کتاب بنام'' عورت پردے کی آغوش میں'' اس کے لفاظ میں یوں تحریر کرتے ہیں ۔

''زرتشت کے زمانے میں عورتوں کا بڑا اونچا مقام تھا اور وہ کھلے چہروں کے ساتھ بڑی آزادی سے لوگوں میں آمدو رفت کیا کرتی تھیں ۔۔۔۔داریوش کے بعد خاص طور پر سرمایہ دار طبقے میں عورت کا مقام پست ہوگیا۔ معاشی طور پر بد حال عورتوں کو چونکہ کام کاج کے سلسلے میں لوگوں کے درمیان آنا پڑتا تھا اس لئے انکی آزادی بر قرار رہی لیکن دوسری عورتوں کے بارے میں چونکہ ان پر مہینہ کے خاص دنوں میں گوشہ نشینی واجب قرار پاگئی تھی زندگی اس کی لپیٹ میں آگئی ۔۔۔۔ اونچے گھرانے کی عورت کو یہ جراء ت نہیںتھی کہ وہ پردہ کے بغیر گھرسے نکلیں ۔انہیں ہر گز کھلے بندوں مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ شادی شدہ عورتوں کویہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنے شوہروں کے سوا کسی مرد کو دیکھیں خواہ وہ مرد ان کا باپ یا بھائیء ہی کیوں نہ ہو۔ قدیم ایران کے آثارمیں ہم کسی عورت کے عمل و دخل کی کوئی صورت نہیں دیکھتے۔ کہیں بھی عورتوں کا تذکرہ نہیں ملتا''(٣٠)

 دیورانت ول قد یم ایرانی تہذیب میں زرتشتی دورحکومت میں قدیم ایرانی عورت کی آزادی اور حقوق کا تذکرہ کرتاہے جب کہ راقمہ کو ابھی تک دستیاب حقائق، اقتباسات اورحوالہ جات میں اس طرح کی کوئی شہادت دستیاب نہیں ہوئی ماسوا ایک تحریر کے جو لیلے احمدنے اپنی کتاب بنام'' عورت جنسی تفریق اور اسلام'' میں تحریر کی ہے یہ تحریر دیورانت ول کے اس دعوی کی تصدیق کرتی نظرآتی ہے لیلے احمد لکھتی ہے ۔

''اعلی طبقوں میں زرتشتی مذہب سب سے بڑا مذہب تھا یہ تو حیدپسند مذہب شائید حضرت مسیح علیہ السلام سے قبل ھزار سالہ دور سے موجود تھا ۔ساسانی دور میں زرتشتی مذہب کوطاقت اور اثر کے لحاظ سے بہت فروغ حاصل ہوااور واقعتا یہ ریاستی مذہب بن گیا جس نے اعلی طبقوں کے اندر مردوزن کے تعلقات سے متعلق قوانین مرتب کئے ''۔(٣١)

 سعودالحسن خان بھی اپنی کتاب بنام'' عورتوں میں پردے کا ارتقاء ''میں قدیم ایرانی عورت کے پردہ کے حوالے سے چار مخصوص عہدوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قدیم ایرا ن میں پردے کا اثبات کرتے ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ ایرانی نسل کے لوگ دراصل آریاؤں کی ایک شاخ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانیوں اور آریاؤں میں بہت سی اقدارر وروایات کا اشتراک پایاجاتاہے ۔ان کے قول کے مطابق قدیم ایران میں جو پردہ کا رواج ہے وہ بھی آریاؤں ہی کی قدرمشترک ہے ان کے قول کے مطابق ایران میں پردہ کے حوالے سے چار عہد خصوصیت رکھتے ہیں۔

(١) ہخامنشی عہد

(٢) ساسانی عہد

(٣) اشکانی عہد

(٤) مزدکیت

 ان عہود کا دورانیہ بالترتیب اس طرح ہے ہخامنشی عہد۔ ٨٠٠ ق م،تا ٤٠٠ق م۔،اشکانی عہد ۔٢٥٠ق م تا ٢٢٨ق م۔ ساسانی عہد ٢٢٨تا٢٣٧ء ۔جبکہ مزدکیت زرتشتی مذہب کے ساتھ ایک طرح کا مذہب تھا جو کہ ایرانی قوم میں زرتشتی عہدہی میں رواج پذیر رہا لیلٰے احمد اپنی تصنیف بنام'' عورت جنسی تفریق اور اسلام ''میں اس مذہب کے فروغ کی بابت یوں اظہارخیال کرتی ہیں ۔

'' ساسانی عہد کے دوران ایران میں ابھرنے والی مزدکی انقلابی تحریک کے مطالع سے ظاھر ہوتاہے کہ عورتوں کو کچھ صورتوں میں شے (چیز)بھی سمجھاجاتاتھا اور شائید شخص (انسان)بھی۔ مزوکیت ایک مذہبی تحریک تھی جو پانچویں صدی کے آخر اور چھٹی صدی کے شروع میں نمودار ہوئی۔ یہ عوامی اور مساوات پسند تحریک تھی ۔اس کی تعلیمات میں دولت کی مساوی تقسیم اور ان پابندیوں کو ختم کردینا شامل تھا جن کی وجہ سے عورتیں اوردولت مراعات یافتہ طبقوں کے ہاتھوں میں سمٹ گئی تھیں''۔(٣٢)

 سعود الحسن خان کے بقول مزدکیت زرتشتیت کی طرح ایک اور مذہب تھا جو کہ زرتشتیت کی طرح اھل فارس میں رواج پذیر ہوا۔ جس کے بانی مزدک کو نوشیرواں نے قتل کر ڈالا وہ ا س بابت یوں تحریر کرتے ہیں ۔

''اہل فارس میں ایک اور مذہب مزوکیت چلاجو کہ زرتشتیت کے علاوہ مذہب ہے اس کی رو سے انسانی مساوات کا خاتمہ زر ،زمین اور زن سے ہوا ہے مزوک نے ارسطوکی طرح عورت کے اشتراک کی دعوت دی ۔مزدک کونوشیروان نے قتل کر ڈالا '' (٣٣) ۔

 القصہ مزدکیت کے علاوہ دیگر تین عہود (ہیخنامنشی، اشکانی اور ساسانی )میں سعود الحسن خان قدیم ایران میں پردے کا اثبات کرتے ہوے مذکورہ کتاب میں بحوالہ ''تاریخ ایران وروایات تمدن ''یوں تحریرکرتے ہیں ۔

''ایرانی ایک ایسی قوم ہے کہ جس امراء غربائ(ماسوائے دیہاتیوں کے) دونوں ہی پردے کے پابند تھے ان کے ہاں نہ صرف زنان خانون، حرموں اور پالکیوں کا انتظام ہوتاتھا ........بلکہ باقاعدہ چہرہ پر جدید طرزکا نقاب اور برقع ہوتاتھا۔ امراء کی عورتیں پردہ ہی میں رہتی تھیں باہر نکلناہوتو عورتیں عماریوں پر نکلتیں جن پرپردے ہوتے تھے ۔ ان کے ہاں پردہ کا انتظام اتنا سخت تھا کہ ہمیں مجسموںاور تصویروں وغیرہ پر عورتوں کی شبیہ تک نظرنہیں آتی ۔لڑکیاں اپنے خونی رشتے کے مردوں سے بھی نہیں مل سکتی تھیں۔ پردہ قائم رکھنے کی خاطر ان کے ہاں ماں بہن اور بیٹی سے بھی نکاح جائز تھا۔ خانہ بدوش اور دیہاتی عورتوں میں البتہ پردہ نہ تھا''

 اشکانی عہد میں پردہ کاتذکرہ کرتے ہوئے سعود الحسن خان یوں تحریر کرتے ہیں۔

'' اس دور میں عورتوں کو امور سلطنت سے لاتعلق رکھاگیا ــــ،پردہ کی سختی اتنی زیادہ ہو گئی کہ خواجہ سراؤں کو بھی حرم اور زنان خانوں میں داخلے کی اجازت نہیں تھی ۔عوام میں بھی پردہ کا رواج تھا عورتوں کی عام حالت دیگر علقاہ جات میں عور ت کی مانند خراب بلکہ زیادہ خراب تھی ''۔

 ساسانی عہد میں پردہ کے حوالہ سے سعودالحسن خان یوں تحریر کرتے ہیں۔

''ساسانی سلطنت میں بھی عورتوں کی حالت خراب تھی۔ عورت کی حکمرانی کوبد فال تصور کیا جاتا تھا پردہ کی سختی تھی عام عورتیں بھی پردہ کرتی تھیں .......... فراعین مصر کی طرح شاھان ایران میں بھی حقیقی بہنوں اور بیٹیوں سے نکاح کرنا جائز تھا۔ مجوسی مذہب میں اسے جائز قرار دیا گیا تھا۔ بہمن نے اپنی بہن ہی سے شادی کی ۔ارتاخشار شیا نے یکے بعد دیگرے اپنی بہو بیٹیوں سے نکاح کیا''۔(٣٤)

خلاصہ بحث:۔

 مندرجہ بالا بحث و تحقیق، اقتباسات و حوالہ جات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ قدیم مصری عورت کی طرح قدیم ایرانی عورت بھی قبل از ظہور اسلام سے ہی حجاب (پردہ) کی پابند تھی ۔مندرجہ بالا سطور میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ قدیم ایران میں پردہ کی سختی کا یہ عالم تھا کہ شادی شدہ عورت اپنے سگے باپ اور بھائی تک سے بھی پردہ کیا کرتی تھی گویا یہ بھی نا محرم ہوں ۔

 فصل سوم

 قدیم ہندوستان میں پردے کا رواج :

 

 ہندوستان کی کوئی مستند تاریخ دستیاب نہیں ہوتی جس کے پیش نظر اس بابت کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکے کہ یہ مذہب ، کب اور کن بنیادوں پر قائم ہوا اور رواج پذیر رہا۔ البتہ چند شواھد ایسے دستیاب ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہب در اصل آریاؤں کی بر صغیر پاک و ہند آمد کے بعد رواج پذیر ہوا ۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد الرشید اپنی کتاب بنام ''ادیان و مذاہب کا تقابلی مطالعہ'' میں اس بابت یوں تحریر کرتے ہیں ۔

 

''آر یہ قوم اپنا مسلک و خزانہ لے کر ہندوستان آئے تھے اور ا ن کے مذہب کی بنیادیں ''ویدیں ''ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم قوموں کے عقیدے بھی ان میں شامل ہو گئے۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ ویدوں کے ابتدائی زمانہ میں یہ قوم توحید پر قائم تھی۔ آہستہ آہستہ عوام کی جہالت کی وجہ سے توحید کی جگہ شرک نے لے لی اور بعض غلط عقائید ورسوم راہ پاگئے اور یہ لوگ اپنے بانیوں کی مقدس تعلیم سے دور ہوگئے تھے۔ ان میں بت پرستی رواج پاگئی، ہندوؤں میں تری مورتی کا تصور یعنی'' بر ہما ، شودر اور وشنو'' اس طرح اور بھی کئی ویدی رسوم ہندو دھرم کا جزو لا ینفک بن گئی تھیں''۔(٣٥)

 عماد الحسن آزاد اس بابت اپنی تصنیف''اسلام کے کارہائے نمایاں '' میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں ۔

'' آریاؤں کی ہندوستان آمد سے قبل ''مراواڑی'' نسل کے لوگ یہاں آباد تھے جب آریاؤں نے ١٧٠٠ ق ۔ م ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت ہندومت کا آغاز ہوا جن کی تہذیب کے نشانات موئن جوڈارو، ہڑپہ اور ٹیکسلا وغیرہ میں کھدائی سے برآمد ہوئے تقریبا ٥٠٠ ق۔م میں ویدوں کی تصنیف عمل میں آئی''۔(٣٦)

 احمد عبد اللہ المسدوسی اس بابت ہندو مذہب کے بنیادی عقائید کے ابہام پر اپنی کتاب ''مذاہب عالم ایک معاشرتی و سیاسی جائزہ '' میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں ۔

''یہ کہنا مشکل ہے کہ کن بنیادی عقائید پر یقین رکھنا ہندو مذہب کے ماننے والے کے لئے ضروری ہے ۔ کیونکہ اس میں کسی الہامی مذہب کی طرح کسی پیغامبر یا کتاب کا وجود نہیں ہے ۔ اس لئے کوئی معین عقیدہ بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی ہستی موجود ہے۔''(٣٧)

 مندرجہ بالا شواھد کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ہندو مت ہندوستان کا ایک قدیم مذہب ہے جو بعض روایات کے مطابق آج سے قریب دو، تین یا چار ہزار سال قبل آریاؤں کی ہندوستان آمد کے ساتھ وارد ہوا اور یہاں کے باشندوں کو اپنے اندر سمو لیا اور خود یہاں کے رسوم و رواج کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ ہمیں مندرجہ بالا شواہد کی روشنی میں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس مذہب کو ہندوستان میں پھیلانے اور عام کرنے میں اگر چہ کسی مذہبی رھنما یامقدس کتاب کانام نظر نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ مذہب ہندوستان کا ایک بڑا مذہب رہا ہے اور دنیا کے بڑے مذاہب میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دیگر قدیم مذاہب کی طرح اس مذہب میں صنف نازک کا کوئی اہم مقام و مرتبہ ہمیں نظر نہیں آتا۔

 ہندو عورت کی کسمپرسی کی حالت ، تحقیر آمیز زندگی اور ادنی مقام و مرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے ایک ہندو مؤرخ ''راما شنکر تر پاٹھی''''قدیم ہندوستان کی تاریخ ''میں یوں تحریر کرتا ہے۔

''عورتوں کا درجہ سماج میں ہر حیثیت سے اونچا نہیں تھا۔۔۔۔عورت باپ کی جائیداد کی وارث ہوسکتی تھی نہ اپنی کسی ذاتی جائیداد کی مالک بن سکتی تھی۔ اگر وہ تھوڑا بہت کچھ کماتی تو وہ باپ یا شوہر کے حق کے اندر واگزاشت ہو جاتا۔ لڑکی کی ولادت بد نصیبی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔''(٣٨)

 قدیم ہندوستان میں مذہبی مقامات کے تقدس کی پائمالی اور بڑھے ہوئے اورحد درجہ بڑھے ہوئے جنسی بے راہ روی کے رجحانات کو قلمبند کرتے ہوئے ایس ۔ ایم شاھد تحریر کرتے ہیں ۔

'' قدیم ہندوؤں میں بھی عصمت فروشی کو فروغ حاصل ہوا ۔ مندروں میں سینکڑوں نوجوان دیو داسیاں پر وہتوں اوریا تریوںکی تسکین ہوس کیا کرتی تھیں پروہتوں نے لوگوں کو اس بات کا یقین دلا رکھا تھا کہ جو شخص اپنی بیٹی دیو تا کی بھینٹ چڑھائے گاوہ انعام میں ہوگا چنانچہ راجے اور امراء بھی اپنی بیٹیاں مندروں کے لئے وقف کر دیتے تھے ''۔(٣٩)

 ہندو محقق ۔ پی ۔ ایچ گپتا۔ ہندو مذہبی قوانین کی مستند ترین کتاب ''منوسمرتی''کے حوالہ سے بیوہ عورت کی کسمپرسی بیان کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے ۔

'' جب عورت کا شوہر مر جائے تو کندا اور پھل کھا کر اپنے جسم کو کمزور کر دے۔ لیکن اسے کسی دوسرے مرد کا نام تک نہیں لینا چاہئے۔کیونکہ دوسرا شوہر کرنے سے سنا تن دھرم برباد ہو جائے گا''۔ ''رامائن عہد میں عورت کو حصول جنت کا حق حاصل نہیں تھا''(٤٠)۔

 سیدعلی عباس جلا لپوری ہندوستانی معاشرہ میں عورتوں پر روارکھے جانے والے مظالم اور اس کی بے وقعتی بیان کرتے ہوئے اپنی تالیف ''رسوم اقوام '' میں یوں تحریر کرتے ہیں ۔

''جنوبی ہند کے گونڈ اور ماریا قبائل فصلیں بوتے وقت جوان لڑکی کو قربان کر دیا کرتے تھے۔ اس لڑکی کو کھمبے سے باند ھ دیا جاتااور قبیلے کا سردار باری باری اس پر خنجر کے وار کر کے اس کا بہتا ہوا خون کھیتوں میں چھڑکتے تھے''۔(٤١)

 محمد مجیب اپنی کتاب ''تاریخ تمدن ہند''میں ہندوستانی تمدن کے حوالہ سے برہنوں کا مشہور مقولہ لڑکا اور لڑکی کی سماجی حیثیت کے اعتبار سے نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ :

''برہنوں کے دور کا یہ مقولہ تھا کہ لڑکی اپنے ساتھ مصیبتیں لاتی ہے اور لڑکا ساتویں آسمان کا نور ہے''۔(٤٢)

 چوہدری غلام رسول ہندو تاریخ کے مطالعہ کے بعد حاصل شدہ حقائق کی روشنی میں جس نتیجہ پر پہنچے اسے بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب بنام''مذہب عالم کا تقابلی مطالعہ''میں تحریر کرتے ہیں ۔(یہ رائے ایک ہندو وکیل ''بھگت رام''کی ہے)

''جس طرح درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح قوموں کے تمدن اور تہذیب پر ان کے رسم و رواج کا اثر ہے ۔ ہندو دھرم میں مردوں کے حقوق نہایت احتیاط کے ساتھ تمام معاملات میں محفوظ کر دئیے گئے ہیں مگر ایک افسوس ناک امریہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کی گئی ۔نہایت رنجیدہ بات ہے کہ قدیم ہندو دھرم کی بنا پر عورت کو جائیداد سمجھا گیا ہے یا ایک ایسی ہستی جو مرد سے عقل اور اخلاق کی بناء پر نہایت کم درجہ ہے ۔ اس لئے ہندو شاستروں کا زور عورت کے فرائض پر ہے حقوق پر نہیں ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہندو سوسائٹی میں عورت کا کوئی حصہ نہیں ۔ عورت کی پیدائش سے لے کر وفات تک تمام اعمال زندگی ، مشکلات اور مصائب بلکہ زندگی کے معمولی مقتضیات کھانے ۔پینے ،جاگنے سونے ، غسل کرنے اور باہر کے معمولی کاروبار میں بھی اسے مرد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اسے عورت کے لئے خدا بنادیا گیا ہے ''۔(٤٣)

 مندرجہ بالا اقتباسات و حوالہ جات چند امثلہ ہیں جو راقمہ نے ہندومت کی تاریخ کا ایک سر سری سا خاکہ بیان کرنے کی غرض سے نظر قرطاس کی ہیں ورنہ ڈھونڈھنے پر ایسی بے شمار امثلہ تعلیمات مزید دستیاب ہوسکتی ہیں ۔اب راقمہ اپنے اصل موضوع (قدیم ہندوستان میں پردے کا رواج ) کی طرف آتی ہے۔ اس بارے میں جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بھی نہایت درجہ سخت اور شدید قسم کا پردہ رائج تھا لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ قدیم ہندوستان میں رائج یہ پردہ اسلام سے پہلے بھی رائج تھا یا نہیں اس بابت دو طرح کی روایات دستیاب ہوتی ہیں ۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں قدیم دور میں پردہ کا رواج نہ تھا بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد پردہ کا رواج ہوا۔

 استاد شہید مرتضی مطہری اپنی کتاب ''عورت پردے کی آغوش میں''میں اس بابت دو شہادتیں ایسی پیش کرتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ ہندوستان میں پردہ مسلمانوں کی آمد کے بعد رواج پذیر ہوا لیکن اس کے بعد اپنی رائے میں قدیم دور سے ہندوستان میں پردہ کو رواج پذیر مانتے ہیں ۔

 استاد شہید مرتضی مطہری اس بابت پہلی شہادت کے طور پر ''ویل ڈیورینٹ''کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں کہ ''تاریخ تمدن کی دوسری جلد میں ''ویل ڈیورینٹ''کی گفتگو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل ہند کا پردہ مسلمان ایرانیوں کے ذریعے ہندوستان میں

رائج ہوا'' (ص٢٦) جبکہ دوسری شہادت کے طور پر ''نہرو''کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔ ''افسوس کہ یہ غیر مرغوب رسم (پردہ ) آہستہ آہستہ اسلامی معاشرے کی ایک خصوصیت بن گئی اور ہندوستان نے بھی مسلمانوں کے یہاں آنے پر اسے ان سے سیکھ لیا''۔(ص٢٦)

 مندرجہ بالا دونوں شہادتوں کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کا پردہ مسلمانوں کے ذریعے اس سر زمین میں وارد ہوا ہے۔

 کچھ آگے چل کر استاد مطہری اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔

''نہرو کے خیال کے مطابق ہندوستان کا پردہ مسلمانوں کے ذریعے اس سر زمین میں وارد ہوا ہے لیکن اگر ہم ریاضت اور ترک لذت کے رجحان کو پردے کے ظہور کا سبب جانیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہندوستان نے قدیم ترین ایام سے پردہ کو اپنا یا ہے۔ کیونکہ وہ ریاضت اور مادی لذتوں سے نفرت کے تصور کا ایک قدیم مرکز واقع ہوا ہے ''۔(٤٤)

 استاد مطہری کے اس دعویٰ کی صداقت ہمیں سعود الحسن خان کے اس جائزہ سے بھی میسر آتی ہے جو انہوں نے قدیم ہندوستان میں پردہ کے حوالہ سے اپنی کتاب بنام ''عورتوں میں پردہ کا ارتقاء ''میں پیش کیا ہے ۔ راقمہ ذیل میں اس کے کچھ اقتباسات پیش کرے گی بعدہ اس بابت انکی اپنی رائے تحریر کرے گی۔

 سعود الحسن خان نے یہ جائزہ قدیم ہندوستان کے دو عہدوںکے پس منظر میں پیش کیا ہے۔

١)۔ ویدک عہد۔ (٢٥٠٠ ق۔م۔ ١٤٠٠ ق۔م۔)

٢)۔ پرانوی عہد ۔(٢٠٠۔م۔ سے ١٢٠٠ئ)

١)۔ ویدک عہد۔ (٢٥٠٠ ق۔م۔ ١٤٠٠ ق۔م۔)

 ''آریاؤں کے ویدک عہد (٢٥٠٠ ق۔م۔ ١٤٠٠ ق۔م۔)میں بھی عورتیں پردہ کرتیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دور میں امراء ، برہمنوں اور سرمایہ داروں وغیرہ میں پردہ کا رواج کثرت سے تھا اور بعد ازاں آہستہ آہستہ اس عہد کے خاتمہ پر یہ عوام میں بھی کثرت سے پھیلنے لگا۔ پردہ کا نظام ''راجہ رام چندر''کے دور میں بھی تھا۔ رامائن میں ہے کہ ''جب رام نے لکشمن سے کہا کہ ''سیتا''کو مجمع میں لاؤ تو لکشمن اور باقی بہت لوگ حیران ہوئے ۔ اس پر رام چندر نے وضاحت کی کہ بیاہ اور قربانی کے موقعوں پر عورت کا سر عام آنا قابل اعتراض نہ ہے ''۔۔۔۔۔۔''شاہی اور امیر گھرانوں میں عورتوں کے آنے جانے کے لئے پردہ دار پالکیاں ہوتی تھیں تاکہ ان کو کوئی نیچ آدمی نہ دیکھے ۔جب راجہ نیمی شادی کرنے چلا تو اس کے ساتھ اسکے حرم کی عورتیں بھی چلیں مگروہ سب پردہ دار پالکیوں میں تھیں ''۔

٢)۔ پرانوی عہد ۔(٢٠٠ ١۔م۔ سے ١٢٠٠ئ)

''اس دور میں بھی عورتیں پردہ کرتی تھیں اور پردہ کی بہت سختی ہوگئی۔ اس دور کے اواخر میں عام عورتیں بھی پردہ کی غلامی میں چلی گئیں ۔ جو مسلمان گیارہویں اور بارہویں صدی میں داخل ہوئے تھے وہ بھی چونکہ ''پردہ زدہ '' تھے اس لئے ان کے اثر سے بھی پردے کی سختی زیادہ ہو گئی تھی۔ عورتوں کے لئے الگ زنان خانے قائم تھے ''۔(٤٥)

 

 سعود الحسن خان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ قدیم ہندوستان میں پردہ کا رواج تھا جو کہ آریاؤں کی ہندوستان آمد کے ساتھ ہی رواج پذیر ہوا تھا ۔اگر چہ اس وقت اس میں عمومیت نہیں تھی لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں عمومیت اور سختی پیدا ہوتی گئی۔ ملاحظہ کریں ۔

''کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پردہ مسلمانوں کی آمد سے شروع ہوا حالانکہ یہ بات غلط ہے ۔ ہندوستان میں پردہ آریاؤں کے ساتھ آیا تھا ۔ حالانکہ اس وقت یہ عام نہیں تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ عام اور سخت ہوتا چلا گیا ''۔(٤٦)

خلاصہ بحث:۔

 مندرجہ بالا حقائق و شواھد کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ گزشتہ دونوں قدیم تہذیبوں کی طرح قدیم ہندوستانی تہذیب میں بھی پردہ کا رواج تھا جو آریاؤں کی ہندوستان آمدسے رائج ہوا اور قدیم عہود ''ویدک اور پرانوی عہود ''کے طویل دورانئے کے دوران بھی جاری رہا۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد اس میں مزید شدت اور سختی پیدا ہوئی چونکہ پرانوی عہد کے خاتمے میں مسلمانوں کا عروج ہوا اس لئے ہندو مسلم دونوں ہی ایک دوسرے سے متاثر ہوئے اگر ہندوؤں نے مسلمانوں سے پردہ کی شدت اور سختی لی تو مسلمانوں نے بھی اپنے پردہ کے رواج میں توثیق حاصل کی۔

 

 

 

 

 


 

 فصل چہارم

 قدیم یورپ یعنی یو نانیوں اور رومیوں میں پردے کا رواج:۔

 

 کتب تواریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم تہذیبوں میں سب سے شاندار نظر اّنے والی تہذیبوں میں ےونانی اور رومی تہذیبیں تھیں۔ جو یکے بعد دیگرے رواج پذیر ہوئیں اور ےکے بعد دیگرے فنا پذیر بھی ہوگئیں ۔ ان دونوں معاشروں اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں کافی مماثلت نظر آتی ہے ۔ مثلا یونانی تہذیبیں اپنے تمدن اور ارتقائی دور میں عورت کو معاشرتی طور پر ایک بلند تر حیثیت دیتی تھی جسمیں یونانی عورت گھریلورشتہ داریوں سے بھرے پرے ایک گھر کی خود مختار مالک کل ہوا کرتی تھی، گھریلو تمام ذمہ داریاں اور فرائض کی انجام دہی اس کا واحد مقصد اور محدود فریضہ تھا ۔ ان گھریلو تمام ذمہ داریاں اور فرائض کی انجام دہی اس کا واحد مقصد اور محدود فریضہ تھا۔ ان گھریلو امور ،فرائض کی انجام دہی میں وہ پوری طرح با اختیار و با اقتدار تھی۔عورت کی عصمت و عفت ایک قیمتی متاع مقصود ہوتی تھی ۔ معاشرہ میں با عصمت و عفت خواتین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مرد و عورت کے اختلاط کا واحد شریفانہ طریقہ نکاح تھا۔ شہوت پرستی اور جنسی بے راہ روی کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ہوا یوں کہ مرور زمانہ کے ساتھ رفتہ رفتہ بتدریج یونانی باشندے جنسی بے راہ روی اور شہوت پرستی کا شکار ہوتے ہوگئے ۔ یہ بری صفت اسقدر بڑھی کہ ان کے فن مصوری میں عریاں مجسمہ سازی ہونے لگی جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور اس مائل بہ تباہی قوم کو مزید جنسی بے راہ رو اور شہوت پرست بنادیا۔ نو بت بایں جار سید کہ ان کے دل و دماغ سے شہوت پرستی اور جنسی بے راہ روی کی معیوبیت کا تصور تک مٹ گیا۔ نکاح کا تصور ایک غیر ضروری رسم سمجھا جانے لگا۔ مرد و عورت کا بدون نکاح کے آپسی تعلق کوئی عیب نہ رہا ۔ عصمتیں سر بازار نیلام ہونے لگیں ۔ معاشرہ کے عوام و خواص سب کا مر جع و ماویٰ قحبہ خانہ بن گیا۔ طوائفیں مجالس و محافل میں صدر نیشنی کرنے لگیں اور سیاسیات میں دخیل ہونے لگیں حتی کہ اجتماعی و قومی نوعیت کے مسائل میں طوائفوں کی آراء پر عمل کیا جانے لگا۔ شہوت پرستی ا ور شہوانی جذبات اس قدر اشتعال انگیز ہوئے کہ جنسی خواہش کی تسکین کے فطری عمل اور راستہ سے متجاوز ہو کر غیر فطری عمل اور راستہ اختیار کیا جانے لگا (لواطت) اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شاندار تہذیب اپنی ہی موت ایسی مری کہ آج تک اس کا کوئی نام لیوا بھی نظر نہیں آتا۔ قریب قریب یہی نشیب و فراز ، دور و تسلسل اور اتار چڑھاؤ رو می تہذیب میں نظر آتا ہے ۔

 رومی تہذیب کے تمدنی ارتقائی دور کا جو معاشرتی نقشہ نظر آتا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ رومی تہذیب میں بھی عورت خاندانی نظام کا حصہ تھی ۔ اس کی عصمت و عفت کو ایک قیمتی متاع اور شرافت کا معیار سمجھا جاتا تھا۔ مرد خاندان کا سر براہ تھا جسے اپنے کنبہ پر مکمل مالکانہ حقوق حاصل تھے۔ وہ ان کی بابت جو چاہے فیصلہ کر سکتا تھا۔ عورت اور مرد کا آپسی تعلق قائم کرنے کا واحد ترین ذریعہ نکاح تھا۔ شہوت پرستی اور جنسی بے راہ روی کو نہایت درجہ معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ایسے خراب اخلاق کے حامل لوگوں کو رومی معاشرہ میں اچھی نظر سے نہ دیکھا جاتا تھا۔ لیکن مرور زمانہ اور تاریخی دور و تسلسل کا پہیہ گھوما اور اس تہذیب کی بنیادیں بھی کھو کلی ہوناشروع ہو گئیں طریقہ واردات وہی مروجہ تھا۔ شہوت پرستی کا دور دورہ ہونے لگا۔ حیاء رخصت ہونے لگی۔ عورت مرد کی اقتدار کی باگ چھڑانے لگی۔ ایسے قوانین مرتب ہونے لگے جن کی روسے عورت باپ اور شوہر تک کے اقتدار سے آزاد ہو گئی۔ عورت اور مرد کا غیر نکاحی تعلق غیر معیوب ہوگیا۔ زنا عام ہوگیا۔ جوانی دیوانی کی آوارگی حق بجانب ٹھہری۔ نتیجۃًشہوت پرستی کا دور دورہ ہوا۔عریانیت و بے حیائی کے مظاہرے سر عام ہونے لگے۔ گھروں کو مزین کرنے کے لئے نندگی و فحش تصاویر آویزاں کی جانے لگیں عوام و خواص میں ایسا ادب مروج ومقبول ہونے لگا جس میں فحاشی و بے حیائی بھری ہو ۔ با لاٰخر قدرت کا فیصلہ صادر ہوا اور یہ تہذیب بھی اپنے منطقی انجا کو پہنچی ۔آج صرف کتب تواریخ کے چند صفحات میں اس کا دھند لا ساعکس ہی نظر آتا ہے ۔

 مندرجہ بالا سطور میں راقمہ نے فصل ہٰذا کے عنوان میں معنون دونوں تہذیبوں کا مختصر سا جائزہ پیش کیا ہے جس سے ہمیں ان دونوں تہذیبوں کے خدو خال بھی سمجھ آتے ہیں اور وجوہ واسباب عروج وزوال بھی جو قریب قریب یکساں نوعیت کے ہی حامل ہیں آئندہ سطور میں راقمہ ان تہذیبوں میں عورت کے مقام و مرتبہ پر مؤرخین و مفکرین کی آراء و اقتباسات کی روشنی میں ایک جائزہ پیش کرنے جا رہی ہے جس کے بعد ہمیں اس سے مزید آگہی حاصل ہو سکے گی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان دونوں تہذیبوں کے عروج و زوال کے اسباب میں جس طرح مما ثلت پائی جاتی ہے ضروری نہیں کہ وہی مماثلت ان تہذیبوں میں عورت کے حقوق اور مقام و مرتبہ میں پائی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ ان تہذیبوں کے خطہ جات میں اکثریتی طور پر مسیحیت کا غلبہ پایا جاتا ہے لیکن شاذ شاذبت پرستی و دیو تا پرستی کی جھلکیں بھی نظر آتی ہیں ۔ جسے یونان میں ''کام دیوی' 'نامی ایک دیوی کو بھی معبود سمجھا جاتا تھا اور اس کی عبادت کی جاتی تھی۔ گو کہ مسیحیت کی آمد کے بعد ان خطوں میں زیادہ تر مسیحیت (عیسائیت)ہی کو رواج ہوا۔ آئندہ سطور میں راقمہ اسی پس منظر

میں بحث و تحقیق پیش کرے گی ۔ اس کے بعد ان خطوں میں پردہ کے رواج کا ایک جائزہ لیا جائے گا۔

 مندرجہ بالا تہذیبوں کے اخلاقی انحطاط اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے زوال کے بعد اس خطہ کے انحطاط کے علا ج کے لئے اللہ رب العالمین نے اس خطہ میں دین مسیحیت کی داغ بیل ڈالی۔دینِ مسیحیت نے اپنے ابتدائی دور میں نہایت درجہ عمدہ خدمات بھی سر انجام دیں مثلاً۔ فواحشات کی روک تھام کی گئی۔ جنسی بے راہ روی کا سد باب کیا گیا۔ لوگوں میں عمدہ اخلاق کو رواج دیا گیا لیکن عورت کے حوالہ سے عیسائیت کا نقطہ نظر یہودیت کے مماثل نظر آتا ہے ۔ جس میں عورت مظلوم ، حقیر اور تمام حقوق سے تہی دامن نظر آتی ہے ۔ گو یا عیسائیت ویہودیت میں عورت ایک ہی بندھن میں بندھی ہوئی مجبور محض تھی۔ سید ابو الاعلی مودودی اپنی کتاب پردہ میں یہودیت و عیسائیت اور یونان میں عورت کی حیثیت میں مماثلت بیان کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں ۔

''جیسے کہ یونانی خرافات میں خیالی عورت ''پانڈورا'' کو تمام مصائب کا موجب قرار دیا گیا ہے ۔ اسی طرح عیسائیت و یہودیت میں بھی عورت کو تمام تر گناہوں کا ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے۔ ان کے اس روئیے نے یہودی و عیسائی معاشرے کے ا خلاق ، قانون معاشرت اور خاندان غرض یہ کہ ہر چیز کو متاثر کیا ہے۔ مسیحی شریعت کی رو سے عورت مکمل طور پر مرد کے قابو میں تھی۔ طلاق وخلع کی بھی اسے اجازت نہ تھی۔ زوجین (میاں بیوی) میں خواہ کتنی ہی نا چاقی کیوں نہ ہو وہ زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور تھے۔ بعض انتہائی حالات میں انہیں صرف علیحدگی کا حق تھا لیکن نکاح ثانی کا حق پھر بھی دونوں کو حاصل نہ تھا ۔اور یہ پہلی صورت سے بھی بد تر تھی۔ اس لئے کہ علیحدگی کے بعد بدکاری یا تجرد کے علاوہ تیسرا کوئی بھی راستہ نہ تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوی کو اور بیوی کے مرنے کے بعد شوہر کے نکاح ثانی کو مسیحی علماء شہوت کی بندگی اور ہوس زنی کا نام دے کر اسے مہذب زنا کاری قرار دیتے تھے ۔''(٤٧)

 ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ''تاریخ اور عورت''میں یہودیت و عیسائیت کے حوالہ سے مرد عورت کے تعلق کی وضاحت بیان کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں ۔

''دونوں مذاہب (یہودیت و عیسائیت) نے مر دو عورت کے تعلق کو صرف اس حد تک جائز قرار دیا ہے کہ اس کے ذریعے بچے پیدا کئے جائیں ۔ ان نظریات کا نتیجہ تھا کہ عورت سماج میں اول تو گناہ کی علامت بن کر ابھری۔دوسرا اس کا کام صرف یہ تھا کہ وہ بچے پیدا کرے اس کو کسی بھی حیثیت سے یہ حق نہ تھا کہ وہ مرد کے ساتھ مل کر خوشی و غم میں شریک ہو اور اپنی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھ سکے ''۔(٤٨)

 ڈاکٹر ثمر مبارک علی اپنی کتاب ''تاریخ اور عورت''میں عیسائیوں کی مذہبی تعلیمات کے حوالہ سے یہ راز آشکار کرتے ہیں کہ عیسائیت میں مرد نے عورت سے لا تعلق کو اپنی روحانی ترقی و پائیداری کے لئے ضروری سمجھ لیا تھا۔

''عیسائی مذہب اور اس کی تعلیمات کے مطابق عورت مرد کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے چرچ نے یہ بتایا کہ عورت نے بچے پیدا کرنے کی اہلیت تو پائی ہے لیکن وہ اسکی تربیت کرنے کی اہل نہیں ہے۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی تربیت باپ کے ذمہ ہے اور وہ اس دوران کہ جب باپ بچوں کی تربیت کرے تو انہیں ماں سے دور رکھے ''۔(٤٩)

 عبد اللہ مرعی اپنی کتاب بنام ''اسلام و دیگر معاشروں میں عورت کے حقوق و مسائل''میں ''رائے ستراتشی ''کے حوالہ سے عظیم یونانی مفکر''ارسطو''کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ عظیم یونانی فلسفی ''ارسطو'' کہتا ہے کہ عورت کو کسی قسم کا استدلال عقلی دیا ہی

نہیں گیا جسے کچھ شمار کیا جائے گویا ارسطو عورت کو ''محجورین'' (کسی قسم کا فعل نہ کرنے کا پابند) شمار کیا کرتے تھے۔

 

 ''عورت پر لازم تھا کہ وہ اپنے شوہر کی تابعد ار رہے حتی کہ اولاد کی زندگی کے بارے میں بھی مرد جب چاہتا عورت سے اسکی اولاد چھین کر پہاڑوں میں چھوڑآتا جہاں وہ روتی چیختی رہتی اور ماں کے جگر کو چھلنی کرتی رہتی اس حال میں اس کی موت واقع ہو جاتی مگر ماں کو اختیار نہ تھا کہ وہ اپنی بیٹی کے لئے لب کشائی بھی کر سکے کیونکہ اس کی کوئی حیثیت نہ تھی بلکہ اسے توزندگی بہلانے کا ایک کھلونا سمجھا جاتا تھا۔''(٥٠)

 

 عبد الواحد وافی اپنی کتاب ''المرأۃ فی الاسلام ''میں قدیم یونانی عورت کے احوال پر بحث کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں ۔

 

''لڑکیوں کے اولیاء کے اختیارات کی کوئی حد نہ تھی ولی کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ لڑکی کی اجازت کے بغیراس کا نکاح کرادے۔ اسی طرح ھر معاملہ جو ولی کی رضامندی کے بغیر ہوا ہو وہ لغو شمار ہوتا تھا۔ باپ کے اختیارات اس سے بھی زیادہ تھے۔ اسے اختیار تھا کہ وہ اپنی وصیت میں بیٹی کا سسرال متعین کردے اور پھر لڑکی کو وہیں شادی کرنی ہوتی ۔ باپ کے مر جانے پر اسے وراثت نہیں ملتی تھی اگر اس کے بھائی موجود ہوتے ۔ اور اگر موجود نہ ہوتے تو اسے وراثت سے تعلق تو ہوتا لیکن حقیقی وارث وہ نہ ہوتی بلکہ اسے اپنے باپ کے قریبی اور سب سے بڑے وارث سے شادی کرنی پڑتی اس کی اولاد اس کے دادا کی اولاد کہلاتی (یعنی نسب لڑکی کے دادا سے جوڑا جاتا اور اسے وراثت منتقل کر دی جاتی۔ اس لڑکی کو نہیں ملتی تھی ۔''(٥١)

 

 فرانسی مستشرق عالم ''ڈاکٹر گستاؤ لی بان''تمدن عرب ''میں عورتوں کے حوالہ سے ہندو مت کی تعلیمات و روایات سے موازانہ کرتے ہوئے عیسائیت کے طرز عمل کی بابت یوں تحریر کرتا ہے ۔

 

''کتاب مقدس بھی اس سے کم سخت نہیں ، اس میں بھی لکھا ہے کہ ''عورت موت سے زیادہ تلخ ہے ''عہد قدیم کے وعظ باب میں لکھا ہے کہ '' جو کوئی خدا کا پیارا ہے وہ اپنے کو عورت سے بچائے گا ''۔ ہزاروں آدمیوں میں میں نے ایک خدا کا پیارا پا یا ہے ۔ لیکن تمام عالم کی عورتوں میں ایک عورت بھی اس میں نہیں پائی جو خدا کی پیاری ہوئی ہو ''۔(٥٢)

 

 سید امیر علی اپنی کتاب ''روح اسلام ''میں عیسائیت کے صاحب الرائے حضرات و علماء ''ٹرٹلین ''اور ''لیکی''وغیرہ کے اقوال یوں درج کرتے ہیں ۔

 

عورت شیطان کا دروازہ ہے ،آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کھلانے والی ہے ، قانون الٰہی کی خلاف ورزی کرانے والی اور انسان کو بگاڑنے والی ہے ''

''میں نے عورتوں میں عصمت تلاش کی لیکن ان میں عصمت کو نہ پایا''۔

 

''عورت ایک ناگزیرشر، ایک قدرتی دام تحریص، ایک فتنہ دل فریب ، ایک برق نشیمن ، ایک سحر مہلک اور ایک بنی ٹھنی آفت ہوتی ہے ۔''(٥٣)

 

 سید جلال الدین انصر عمری اپنی کتاب ''عورت اسلامی معاشرے میں''میں بحوالہ بائبل مروی حضرت آدم و حواء علیہما السلام

کے واقعہ کو مبالغہ آمیز قرار دیتے ہوئے اسے عورت کی فطرت اور شخصیت کو مسخ کئے جانے کے مترادف قرار دیا ہے ۔ اس بابت ٹرٹلین کی عیسائی عقیدہ کی وضاحت یوں تحریر کرتے ہیں ۔

 

''عورتو !تم کو معلوم نہیں تم میں سے ہر ایک حواء ہے۔ خدا کا فتویٰ جو تمہاری جنس پر تھا وہ اب بھی موجود ہے تو پھر جرم بھی تم میں موجود ہوگا۔ تم تو شیطان کا دروازہ ہو ۔ تم نے ہی آسمان سے خدا کی تصویر یعنی مرد کو ضائع کیا ہے ''۔(٥٤)

 

 مندرجہ بالا اقتباسات و حوالہ جات اور افکار و آراء کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ قدیم یونانی و روم (عیسائیت) میں عورت کا مرتبہ نہایت درجہ پست اور حقیر تھا ۔اسے کوئی مقام حاصل نہ تھا۔ اسے گمراہ ، خباثتوں کا مجموعہ ، فتنہ بردار، شرانگیز، شیطان ، شیطان ،کا دروازہ ،خدا کی نافرمان ،مرد کو بگاڑنے والی ، انسانیت کی پہلی مجرم ،ناگزیرشر، برق نشیمن اور مہلک سحر و غیرہ کے حقیر القابات سے یاد کیا گیا عورت سے دور رہنے کو اللہ کی خوشنودی اور حضرت مسیح ؑ کی اطاعت قرار دیا گیا جس سے ثابت ہوا کہ عیسائی معاشرہ میں بھی عورت کی حیثیت نہایت درجہ کمزور اور مصائب سے بھر پور رہی ہے۔ آئندہ سطور میں راقمہ پردہ کے حوالہ سے جائزہ پیش کرے گی۔

 

پردہ:۔

 عیسائیت چونکہ زیادہ تر یو نانیوں اور رومیوں میں رواج پذیر ہوئی اس لئے جس طرح یونانیوں اور رومیوں نے عیسائیت کے عقائید و اثرات قبول کئے بعینہٖ اس طرح عیسائیت نے بھی یونانی و رومی ثقافتوں سے اثر اندازی حاصل کی۔ عیسائیت چونکہ اپنے ابتدائی دور میں یہودیت ہی کا ایک فرقہ متصور ہوئی تھی ،اسے الگ سے کوئی مذہب نہیں سمجھا جاتا تھا الایہ کہ عیسائیت میں یہودیت کی طرح کی سختی نہ تھی بس اسی باعث عیسائیت یہودیت کی بنسبت غیر بنی اسرائیل میں بہت جلد پھیلتی گئی خاص کر روم و یونان اور دیگر مغربی ممالک میں اسے بہت پذیرائی ملی جس کے باعث اس خطہ میں اسے بہت جلد عروج حاصل ہوگیا۔

 عیسائیت نے اپنے ابتدائی ارتقائی دور میں اس خطہ کی ثقافتوں ،تہذیبوں رسوم و رواج اور عام عقائید سے کوئی تعرض نہ کیا بلکہ ان کے اکثر عقائید ، رسوم و رواج اور عادات واطوار کو اپنے مذہبی اصولوں کے مطابق ڈھال کر مذہب کا جزء بنالیا ۔ چنانچہ اس کی واضح مثال ہم عیسائیت میں عورتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا نارواسلوک کی صورت میں ملاحظہ کر سکتے ہیں جو عیسائیت میں یونانی اور رومی ثقافتوں ے میل جول کے باعث ہی در آیا تھا۔

 سعود الحسن خان اپنی کتاب ''عورتوں میں پردے کا ارتقاء ''میں اہل یونان وروم کے پردہ کی بابت اظہار خیال کرتے ہوئے یونانی مؤرخین و مفکرین کی آراء و افکار کی روشنی اپنے تحقیقی جائزہ کویوں پیش کرتے ہیں ۔

 

''اہل یونان اپنی بیاہتا عورتوں کو پردے میں رکھتے تھے۔انہیں پڑھا یا لکھا یا نہیں جاتا تھا ، صرف مرد ہی فن تربیت اور علم حاصل کرتے تھے ۔ یونانی مؤرخ ''تھکی دیدس '' کہتا ہے ۔

''شریف عورتوں کو پردہ میں رہنا چاہئے ''

 یونانی خطیب ''ڈی سیتھینز'' کہتا ہے ۔

 

''ہمارے ہاں لطف اندوز ہونے کے لئے کسبیاں ہیں ۔ صحت کو بحال رکھنے کے لئے لونڈیاں اور اولاد پیدا کرنے کے لئے بیویاں ہیں ''۔

 

''یونانی لڑکی پر اس کے والدین کی سخت نگرانی ہوتی تھی، اگر کبھی کبھار وہ کسی مذہبی تیوہار پر یا مندر میں جنازہ پر گھر سے باہر نکلتی تو کوئی بوڑھی عورت لازمی ساتھ ہوتی تاکہ اس کی نگرانی کر سکے ۔۔۔۔۔وہ بلا اجازت تو گھر سے باہر نکل ہی نہ سکتی تھی ۔۔۔۔۔عورتوں کو گھروں کے زنان خانے تک محدود رہنا پڑتا تھا''۔

''گو کہ یونانی عورت سے رو می عورتوں کی حالت بہتر تھی۔ مگر پھر بھی وہ کھیلوں ، تھیٹروں اور عدالتوں میں صرف اپنے شوہر کے ساتھ ہی جاسکتی تھی۔ عورتوں کی تعلیم پر بھی پابندی تھی۔گو کہ بعد ازاں ٤٨٦ء تا ٧٦٨ء کے مابین عورتوں کی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی مگر اب وہ محض ایک بیوی ، خاوند کی دوست اور گھر کی رکھوالی کرنے والی تھی۔ البتہ سما ج میں باہر نکلنے کی آزادی اسے مل گئی تھی''۔(٥٥)

 

 سید ابو الاعلیٰ مودودی یونان میں پردہ کی بابت صراحت کرتے ہوئے اپنی کتاب بنام''پردہ''میں یوں تحریر کرتے ہیں ۔

 

''شریف یونانیوں کے ہاں پردے کا رواج تھا۔ ان کے گھروں میں زنانخانے مردان خانوں سے الگ ہوتے تھے ۔ ان کی عورتیں مخلوط محفلوں میں شریک نہ ہوتی تھیں۔ نہ منظر عام پر نمایاں کی جاتی تھیں ۔نکاح کے ذریعہ سے کسی ایک مرد کے ساتھ وابستہ ہونا عورت کے لئے شرافت کا مرتبہ تھا اوراس کی عزت تھی اور بیسوا ( ہر جائی) بن کر رہنا اس کے لئے ذلت کا موجب سمجھا جاتا تھا ۔ یہ اس زمانے کا حال تھا جب یونانی قوم خوب طاقتور تھی اور پورے زور کے ساتھ عروج و ترقی کی طرف جا رہی تھی''۔(٥٦)

 

 مولانا سید علی نقی النقوی اہل یونان میں پردہ کا اثبات کرتے ہوئے اپنی کتاب ''اثبات پردہ ''میں یوں تحریر کرتے ہیں ۔

 

''یونان کی قدیم عورتیں اپنے چہرہ کو ایسی نقاب سے چھپاتی تھیں جو جزائر کرس رامر جرس سے آتی تھیں اور پردہ کے معاملہ میں بہت انہماک رکھتی تھیں یہانتک کہ گھروں کی ما مائیں بھی نکلتی

تھیں تو چہرہ پر نقاب ڈال لیتی تھیں ۔ اس کے علاوہ ان میں ایک اس طرح کا پردہ بھی رائج تھا جس سے قدو قامت کی شکل و مقدار معلوم نہیں ہوتی تھی''۔(٥٧)

 

 عصر حاضر کے محقق ''محمد انور بن اختر''اپنی کتاب بنام ''پردہ اور جدید ریسرچ''میں رومی عورتوں کے پردہ کی سختی بیان کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں ۔

 

''رومیوں کی عورتیں بھی اسی طرح کام کاج پسند کرتی تھیں جس طرح مرد پسند کرتے ہیں اور وہ اپنے گھروں میں کام کرتی رہتی تھیں ، ان کے شوہر اور باپ و بھائی صرف میدان جنگ میں سر فروشی کرتے تھے ، خانہ داری کے کاموں سے فراغت پانے کے بعد عورتوں کے اہم کام یہ تھے کہ وہ سوت کات تیں اور اون کو صاف کرکے اس کے کپڑے بناتیں رومی عورتیں سخت پردہ کیا کرتی تھیں ، یہانتک کہ ان میں جو عورت دایہ گری کا کام کرتی تھی، وہ اپنے گھر سے نکلتے وقت بھاری نقاب سے اپنا چہرہ چھپا لیتی اور اس کے اوپر ایک موٹی چادر اوڑھتی جو ایڑی تک لٹکتی رہتی، پھر اس چادر پر بھی ایک عبا اوڑھی جاتی جس کے سبب اس کی شکل کا نظر آنا تو کیا ،اس کے جسم کی بناوٹ کا بھی پتہ لگنا مشکل ہوتا تھا''۔(٥٨)

 

 سید ابو الاعلیٰ مودودی اپنی کتاب ''پردہ''میں رومی تہذیب کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں ۔

 

''رومی جمہوریت کے زمانہ عروج میں یونان کی طرح پردہ کا رواج تو نہ تھا مگر عورت اور جو ان نسل کو خاندانی نظام میں کس کر رکھا گیا تھا ۔عصمت و عفت، خصوصاً عورت کے معاملہ میں ایک

قیمتی چیز تھی اور اس کو معیار شرافت سمجھا جاتا تھا، اخلاق کا معیار کافی بلند تھا۔ ۔۔۔ عورت اور مرد کے تعلق کی جائز اور شریفانہ صورت نکاح کے سوا کوئی نہ تھی ایک عورت اسی وقت عزت کی مستحق ہوسکتی تھی جبکہ وہ ایک خاندان کی ماں ہو''۔(٥٩)

 

 محمد انور بن اختر عیسائیت میں پردہ کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے بائبل کے اقتباس پیش کرتے ہیں جس سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیت میں بھی پردہ کا رواج تھا۔ اور عورتیں باقاعدہ پردہ کے لئے برقع کا استعمال کیا کرتی تھیں ۔

تم سے کہا گیا تھا کہ عورتوں کو نہ دیکھو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ تم ان کے برقعوں پر بھی نظر نہ ڈالو۔۔۔۔۔عورت کو چاہئے کہ اپنے سر پر عزت کا پردہ رکھے ۔۔۔۔ کیا عورت کو زیبا ہے کہ وہ بے پردہ خدا سے دعا کرے۔۔۔۔ اسے بال پردہ کے لئے دئیے گئے ہیں''۔(٦٠)

خلاصہ بحث:۔

 مندرجہ بالا تحقیق ، اقتباسات اور حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ دیگر قدیم تہذیبوں کی طرح عیسائیت، یونان اور روم کی قدیم تہذیبوں میں بھی عورت مظلومیت کی حامل تھی۔ جسے شیطان کا دروازہ ۔شجر ممنوعہ کی طرف لیجانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی، خدا کی تصویر(مرد) کو غارت کرنے والی، اک ناگزیر برائی۔ پیدائشی وسوسہ ، مرغوب آفت، خانگی خطرہ، غارتگر دلربا اور ایک آراستہ ومزین مصیبت قرار دیا جایا کرتا تھا۔ اس کے باوجود ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس تہذیب میں بھی قبل از اسلام سے ہی پردہ کا رواج رہا ہے ۔ نہ صرف رواج رہا ہے بلکہ اس میں اسقدر سختی رہی ہے کہ دائیاں بھی گھروں سے باپردہ ہو کر نکلا کرتی تھیں ۔ پردہ کی سختی کا یہ عالم تھا کہ پہلے تو بھاری نقاب سے چہرہ چھپا یا جاتا پھر سر سے پاؤں تک ایک موٹی چادر اوڑھی جاتی پھر اس چادر پر مزید عبا پہنا جاتا۔ اس سخت ترین پردہ سے عورت کی شکل نظر آنا تو در کنار اس کے جسم کی ساخت کا بھی پتہ لگنا مشکل ہو جاتا تھا۔

 

 

 

 

 

 

 فصل پنجم

 

 قدیم عرب میں پردے کا رواج:۔

 

 اس موقعہ پر راقمہ قدیم عرب یعنی بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل (زمانہ جاہلیت) کے حوالہ سے عورت کے متعلق احوال نظر قرطاس کرے گی کہ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ جس زمانہ اور دور میں اسلام نے انسانیت کو اللہ رب العالمین کی طرف سے آخری پیغام ہدایت پہنچایا اس زمانہ اور دور میں عورت کا مقام و مرتبہ کیا تھا ۔ اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا تھا ۔ وہ پردہ کر تی تھی یا نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

 اسلام سے قبل کے عرب میں جہالت ، قدیم رسوم و رواج اور مذہب سے دوری کے باعث ایسی ایسی معاشرتی و اخلاقی برائیاں پائی جاتی تھیں جو انسانیت کے لئے شرمناک حد تک باعث شرم قرار دی جاسکتی ہیں ۔ مثلا لڑکیوں کو ایک سماجی لعنت سمجھا جاتا تھا ، ایک موروثی جائیداد متصور ہوتی تھی، اس کی حیثیت ایک بے وقعت سامان کی سی تھی، بسا اوقات لڑکی پیدا ہوتے ہی ماردی جاتی تھی (زندہ در گور)وغیرہ وغیرہ ۔ الغرض ظہور اسلام سے قبل عرب معاشرہ میں بھی عورت کے حوالہ سے کسی اچھے مقام و مرتبہ کا تصور محال تھا۔ عورت ایک حقیر اور قابل نفرت چیز تھی۔ اگر اس کا کوئی مصرف تھا تو وہ صرف یہ کہ وہ مرد کی جنسی خواہشات کی تسکین کا سامان کرے ۔ اس کے کھانے پینے کا انتظام تیار رکھے اور بو قت ضرورت اس کی تمام جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل میں سر گرداں رہے ۔

 قرآن و حدیث اور کتب تواریخ سے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہور اسلام سے قبل عرب خطہ میں لڑکی کی ولادت ہی کو بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی کی پیدائش اس قدر شرمناک بات سمجھی جاتی تھی کہ وہ گھرانہ جہاں لڑکی پیدا ہوتی خاص کر باپ منہ چھپاتا پھرتا ۔ لڑکی کی پیدائش گو یا منہ کا لاہونے کے مترادف تھی۔ اس سلسلہ میں حاصل ہونے والی معلومات اور حاصل مطالعہ کو راقمہ بالترتیب قرآن ، حدیث اور تاریخ کی روشنی میں رقم کرے گی۔

 سورہ نساء آیات ١٩ و ٢٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مردوں کی نظر میں عورت کی حیثیت ایک مال وا سباب اورموروثی جائیداد کی طرح سی تھی۔یہی وجہ تھی کہ باپ کے انتقال پر جب جائیداد وغیرہ تقسیم ہوا کرتی تو دیگر مال و اسباب کے ساتھ ساتھ میت کی بیوی بھی بیٹے وغیرہ کی ملکیت میں آجایا کرتی اور وہ اس سے اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے بالجبر نکاح کر لیتا ۔ اللہ رب العالمین سورہ نساء آیات ١٩ و٢٢میں اس مکروہ و ممنوع فعل سے منع کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں ۔

 یٰآ یُّھَا اللَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوْا لنِّسَۤا ءَ کَرْھًا ''

 ''اے ایمان والو ! تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم ان عورتوں کو زبر دستی میراث میں لے لو ''۔(٦١)

 وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآئُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ، اِنَّہ، کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقْتًا ط وَسَۤا ءَ سَبِیْلًا''۔

 ''اور نکاح میں نہ لاؤ ان عورتوں کو جن سے تمہارے باپ نے نکاح کیا، مگر جو پہلے ہو چکا ۔یہ بے حیائی ، غضب کا کام اور برا چلن ہے ''۔(٦٢)

 سورہ انعام آیات١٣٧ء ١٤٠، ١٥١، سورہ نحل آیات ٥٨و٥٩ اور سورۃ بنی اسرائیل آیۃ ٣١ میں اللہ رب العالمین اولاد کشی کی ممانعت کی بابت یوں اورشاد فرماتے ہیں ۔

 ''وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ شُرَکَائُھُمْ''

 ''اور اسی طرح بہت سے مشرکین کی نگاہ میں ۔ ان کے شریکوں نے ، اولاد کے قتل کو مزین کر دیا''۔(٦٣)

 ''قَدْ خَسِرَاللَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَھُمْ سَفَھاً م بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَھُمُ اللّٰہُ افْتِرَآ ا عَلَی اللّٰہِ ۔ قَدْ ضَلَُوْا وَمَا کَا نُوْا مُھْتَدِیْنَ''۔

 ''بے شک خراب ہوئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے بغیر سمجھے قتل کیا اور اللہ پر بہتان باندھ کر اس رزق کو حرام ٹھہرا لیا۔ جو اللہ نے انہیں دیا۔ بے شک وہ گمراہ ہوگئے،اور سیدھی راہ پر نہ آئے ''۔(٦٤)

 ''وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَکُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ ''

 ''اور اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو۔ ہم تم کو بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی ''۔(٦٥)

 ''وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالأُنثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدّاً وَہُوَ کَظِیْمٌ(58یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوء ِ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلَی ہُونٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ أَلاَ سَاء مَا یَحْکُمُونَ''

 ''جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غم کے مارے چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹتا رہتا ہے۔بیٹی کی خبر کی عار سے قوم سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ آیا اس کو اس ذلت میں رہنے دے، یا مٹی میں گاڑ دے۔ سنو! کتنا بڑا ہے وہ فیصلہ جو یہ کرتے ہیں''۔(٦٦)

 ''وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُم إنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْأاً کَبِیْراً''

 ''اور اپنی اولاد کو فقرو فاقہ کے اندیشے سے قتل مت کرو، ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی ۔ ان کا قتل بڑی غلطی تھی۔''(٦٧)

سورہ ممتحنہ آیت بارہ میں اللہ رب العالمین نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے آنے والی خواتین کی بیعت کی قبولیت کے لئے بھی یہ شرط رکھی کہ وہ آئندہ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔

 '' یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَاء کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلَی أَن لَّا یُشْرِکْنَ بِاللَّہِ شَیْْأاً وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ''

 ''اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جب تمہارے پاس مؤمن عورتیں آئیں اس پر بیعت کریں کہ وہ نہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک کریں گی، نہ چوری کریں گی، نہ بد کاری کریں گی، نہ اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کو قتل کریں گی۔۔۔۔ تو تم انہیں بیعت کر لو''۔(٦٨)

 زمانہ جاہلیت میں عورت کی تصویر کشی کرتے ہوئے قرآن پاک بیان کرتا ہے کہ ظہور اسلام سے قبل عورت مظلوم ، ستائی ہوئی اور تکلیف زدہ تھی۔ اہل معاشرہ عورتوں سے نفرت کرتے اور اپنے لئے تو بیٹیان ناپسند کرتے تھے اور اللہ کے لئے بیٹیوں کا اثبات کرتے تھے ۔(قبیلہ بنوخزاعہ اور بنو کنا نہ کی بابت قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے۔)ہر قسم کی اچھائی ، بڑائی اور فضیلت مردوں کےلئے خاص تھی، عورتوں کا اس میں کوئی حصہ نہ تھا حتی کہ مختلف اشیاء کی تقسیم میں بھی یہ تفریق بر قرار رہتی تھی کہ مر د اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے ۔ عورت کا اس قدر استحصال کیا جاتا تھا کہ کھانے پینے کی اشیاء میں بھی یہ تفریق روا رکھی جاتی کہ کچھ چیزیں صرف مرد کھا پی سکتے ہیں عورتوں کے لئے حرام ہیں جبکہ کچھ چیزوں میں مرد و عورت دونوں شریک ہیں ۔ مثلا دودھ صرف مرد پیا کرتے تھے عورتوں کے لئے دودھ پینا حرام شمار ہوتا تھا۔جانور سے پیدا ہونے والا نر بچہ صرف مرد کے لئے حلال تھا عورت اسے نہیں کھا سکتی تھی۔ الایہ کہ کسی جانور سے مردہ بچہ پیدا ہو تو عورت کو اس میں سے کھانا نصیب ہوتا تھا کیونکہ وہ مر د و عورت دونوں کے لئے مشترکہ حلال تھا وغیرہ وغیرہ لغویات واھیات کی ممانعت کرتے ہوئے اللہ ربا لعالمین سورۃ انعام آیات ١٣٩، سورہ نحل آیات ٥٧و٦٢ اور سورہ زخرف آیۃ ١٩ میں یوں ارشاد فرماتے ہیں ۔

 ''وَقَالُواْ مَا فِیْ بُطُونِ ہَـذِہِ الأَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَی أَزْوَاجِنَا وَإِن یَکُن مَّیْْتَۃً فَہُمْ فِیْہِ شُرَکَاءُ سَیَجْزِیْہِمْ وَصْفَہُمْ إِنَّہُ حِکِیْمٌ عَلِیْمٌ''

 ''وہ کہتے کہ جو ان جانوروں کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر (پیدا ہونے والا)جانور مرا ہوا ہو تو وہ سب اس میں شریک ہوں گے۔ عنقریب خدا ان کو ان کے ڈھکو سلوں کی سزا دے گا۔ بے شک وہ حکمت والا خبر دار ہے ''۔(٦٩)(٧٠)

 ''وَیَجْعَلُونَ لِلّٰہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہُ وَلَہُم مَّا یَشْتَہُونَ''

 ''اور یہ لوگ تو خدا کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں (اور)وہ ان سے پاک ہے اور ان کے اپنے لئے وہ جو وہ چاہیں ''۔

 ''وَیَجْعَلُونَ لِلّٰہِ مَا یَکْرَہُونَ ''

 ''اور وہ بناتے ہیں اللہ کے لئے وہ جسے وہ خود نا پسند کرتے ہیں''(٧١)

 قبل از ظہور اسلام عربی معاشرہ میں اخلاقی بے راہ روی بھی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی۔ زنا کا عام رواج تھا ۔ بہت سے لوگ اسی مقصد سے عورتوں کو خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ اسے زنا پر مجبور کیا کرتے تھے تاکہ اس سے حاصل شدہ کمائی سے منفعت حاصل کر یں۔ رئیس المنافقین ''عبد اللہ بن ابی بن سنول''نے اسی مقصد سے اپنی باندیاں رکھی ہوئی تھیں ان سے زنا کر وایا کرتا اور آمدن سے اپنی دولت میں اضافہ اور معاشرہ میں اپنی بڑائی اور فخر کیا کرتا تھا''۔ ایک مر د کئی کئی شادیاں کرتا تھاگویا بیویوں کی زیادہ تعداد معاشرہ میں بڑائی اور فخر کا ذریعہ تھی۔ اللہ رب العالمین نے سورہ نساء آیۃ ٣اور سورہ نور آیۃ ٣٣ میں اس کی ممانعت میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔

 ''وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِیْ الْیَتَامَی فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُوا''

 ''اگر تم کو اس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کر لودو دو عورتوں سے تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے ۔ پس اگر تم کو احتمال ہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر بس کرویا جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے''۔(٧٢)

 ''وَلَا تُکْرِہُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَاء إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّناً لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ''

 ''اور اپنی باندیوں کو بد کاری پر مجبور نہ کرو (خصوصا) جب وہ پاکدامن رہنا چاہیں کہ تم دینوی زندگی کا سامان کماؤ''۔(٧٣)

 مسندد ارمی میں زمانہ جاہلیت کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک صحابی کی روایت درج ہے جس میں وہ صحابی رضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام کے رو برو اپنے زمانہ جاہلیت کے دوران زندہ در گوری کے واقعہ کی بابت سوال کرتے ہیں ۔ جس کے جواب میں نبی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔اللہ رب العالمین نے جاہلیت کے اعمال کو معاف کر دیا ہے ، اب از سر نو اعمال کرو۔

''ان رجلا اتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال ، یار سول اللّٰہ !اننا اہل جاہلیت وعبادۃ اوثان ، فکنا نقتل الا ولاد ، وکانت عندی ابنۃ لی، فلما اجابت وکانت مسرورۃ بد عائی اذادعوتھا فد عو تھا یوما، فاتبعتنی ، فمررت، حتی اتیت بئرا من اہلی غیر بعید، فاخذت بیدھا فردیتھا فی البئر وکان اٰخر عہدی بھا ان تقول : یا ابتاہ ابتاہ ! فبکی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی وکف دمع عینیہ ، فقال لہ رجل من جلساء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم احزنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال ! کف، فانہ یسأل عمہ قال لہ : اعد علی حدیثک فا عا دفبکی حتی وکف الدمع من عینیہ علی لحیتہ ، ثم قال لہ : ان اللّٰہ قد وضع عن الجاہلیۃ ما عمدوا فاستانف عملک''

''ایک صحابی نبی علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور یوں گویا ہوئے :

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم زمانہ جاہلیت میں بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے اپنی اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے (زندہ در گوری)انہی دنوں کی بات ہے میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے مانوس بھی بہت زیادہ تھی ،میں اسے آواز دیتا تو دوڑی چلی آتی۔ ایک مرتبہ میں نے اسے ساتھ لیا اور اپنے کنویں پر چلا آیا جو قریب ہی تھا۔ کنویں پر پہنچتے ہی میں نے اسے ہاتھوں سے پکڑ کر کنویں میں دھکیل دیا۔ اس کی آخری آوازیں جو میں نے سنیں وہ ابا جان ، اباجان تھیں ،یہ واقعہ سنتے ہی نبی علیہ السلام رو پڑے آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ ماجرا دیکھ کر ایک اور صحابی ان صحابی سے بولے ۔آپ نے تو بنی علیہ السلام کو غمگین ہی کر دیا۔ آپ علیہ السلام نے انہیں خاموش رہنے کا کہا اور فرمایا۔ یہ اپنی سرگزشت کی بابت سوال کر رہا ہے ۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابی سے دوبارہ واقعہ سنانے کو کہا چنانچہ انہوں نے دوبارہ تمام واقعہ نبی علیہ السلام کے گوش گزار کیا تو دوبارہ آپ علیہ السلام آبدیدہ ہوئے اور اسقدر روئے کہ آنسوؤں سے ڈاڑھی مبارک تر بتر ہوگئی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ رب العالمین نے جاہلیت کے اعمال کو معاف کر دیا ہے (ان پر کچھ مواخذہ نہیں ہوگا)اب از سر نو اعمال کرو۔''(٧٤)

 زمانہ جاہلیت میں اخلاقی بے راہ روی بھی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوتی تھی حتی کہ نکاح جو کہ ایک شریفانہ طریقہ ہوتا ہے مردو عورت کے جائز ملن کا اسے بھی غیر اخلاقی بنادیا گیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بابت اپنی صحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ

(١) ''جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں رائج تھیں۔

(٢) عام طریقہ نکاح۔

 مرد اچھی ، خوبصورت یا ذھین اولاد حاصل کرنے کے لئے اپنی بیوی کو دوسرے مرد کے حوالہ کر دیتا جو اس سے مستفید ہوتا رہتا حتی کہ وہ حاملہ ہوجاتی۔

(٣) دس کے قریب افراد کسی مخصوص عورت کے پاس آمد و رفت کیا کرتے اور اس سے جنس خواہش پوری کرتے رہتے حتی کہ وہ حاملہ ہوجاتی۔ وضع حمل کے بعد وہ سب کو بلاتی اور بچہ کو کسی ایک کی طرف منسوب کر دیتی۔ وہ عورت جس کا نام چاہتی لیتی اور بچہ اس کا مان لیا جاتا۔

(٤) قحبہ خانہ میں موجود عورتیں اپنے دروازے پر مخصوص جھنڈے لگا دیا کرتیں جو ا نکی علامت ہوا کرتے ہر مرد ان سے مستفید ہوا کرتا۔ وضع حمل کے بعد کسی قیافہ شناس سے مدد لیتے ہوئے بچہ مشابہت رکھنے والے مرد کے حوالہ کر دیا جاتا۔ پھر بچہ اس کا ہوجاتا اوروہ انکار بھی نہ کر سکتا ۔(٧٥)

 مشہور مفسر علامہ حسین بن مسعود فراء بغویؒ اپنی تفسیر بنام ''معالم التنزیل''میں زمانہ جاہلیت میں رائج قبیح رسم(زندہ در گوری)کی دو اہم وجوھات بیان کرتے ہوئے یوں رقم کرتے ہیں ۔

 

'' وذلک ان مضر وخزاعۃ وتمیما کانوا ید فنون البنات احیاء خوفا من الفقر علیھن ، وطمع غیر الاکفاء فیہن ، وکان الرجل من العرب اذا ولدت لہ بنت ، وارادان یستحییھا البسھاجبۃ من الصوف، أو الشعر،وترکھا ترعٰی لہ الأبل والغنم فی البادیۃ ، واذا ارادان یقتلھا تر کھاحتی اذا کانت سدا سیۃ قال لامھا :زینِّھا حتی أذھب بھا إلی احمائھا، وقد حفرلھا بئرافی الصحراء ، فاذا بلغ بھا البئر قال لھا، انظری إلیٰ ہذہ البئر، فیدفعھا من خلفھا إلی البئر ثم یھیل علی رأسھا التراب حتی یسوّی البئر با الارض''۔

 

''قبیلہ مضر ،بنو خزاعہ اور بنوتمیم فقر کے اندیشہ اور غیر کفو کے لوگوں کی طرف سے ان لڑکیوں کی بابت نکاح کی خواہش کے خیال سے انہیں زندہ ہی دفن کر دیا کرتے تھے۔ عرب میں بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ ان کے ہاں جب لڑکی کی پیدائش ہوتی اور وہ اس کو زندہ رکھنا چاہتے تو اس کو بھیڑ بکری کے بال کا لباس پہنا کر جنگل میں اونٹ بکریاںچرانے پر لگا دیتے اور اگر زندہ رکھنے کا ارادہ نہ ہوتا تو اس کو چھ برس کی عمر تک چھوڑ دیتے پھر ماں سے کہتے کہ اس کا بناؤ سنگھار کر دو۔ ہم اسے اس کے ماموں کے پاس لے جائیں گے جب کہ پہلے سے جنگل میں کنواں کھود چکے ہوتے جب اس کو لے کر کنویں پر پہنچتے تو کنویں کے اندر جھانکنے کو کہتے ، وہ جیسے ہی کنویں میں جھانکتی فورا پیچھے سے اس کو کنویں میں دھکیل کر مٹی سے برابر کر دیتے ''

 

 دوسری وجہ کی بابت علامہ بغوی فرماتے ہیں کہ ۔

''وذلک ان اہل الجاہلیۃ کانو یئدون بنا تھم خشیۃ الفاقۃ فنھوا عنہ واخبروا ان رز قھم ورزق اولادھم علی ا للّٰہ تعالیٰ ''

''زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی لڑکیوں کو فقر وفاقہ کے ڈر سے بھی زندہ دفن کر دیا کرتے تھے تو اللہ رب العالمین نے انہیں اس حرکت سے منع فرمایا اور یہ وضاحت کی کہ ان کے اور ان کی اولاد کے رزق کی ذمہ داری اللہ پر ہے ۔(٧٦)

 رشید احمد اپنی کتاب ''تاریخ مذاہب ''میں عربوں کی دختر کشی کی وجہ بیان کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں ۔

 

''عرب جنگجو قوم تھی اس لئے اولاد نرینہ کی پیدائش پر خوشیاں مناتے تھے مگر بیٹی کی پیدائش کو وہ بہت برا سمجھتے تھے اور اکثر قبیلے ان کو پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کرد یتے تھے۔ اس کی وجہ غلط غیرت تھی کہ دوسروں سے اس کی شادی کرنا پڑے گی اور ان کو یہ خیال بھی ستاتا رہتا تھا کہ دوران جنگ کہیں ان کی عورتیں دشمنوں کے قبضہ میں نہ آجائیں ۔یہ لوگ بڑے قما رباز اور شراب خور تھے۔ ان باتوں پر عرب کے لوگ فخر کیا کرتے تھے''۔(٧٧)

 

 مشہور مستشرق عالم ''ڈاکٹر گستاؤلی بان''بنی تمیم کے سردار ''قیس''اور نبی علیہ السلام کے درمیان ہونے والی گفتگو اپنی کتاب ''تمدن عرب''میں نقل کرتے ہیں ۔ جس سے اس بابت مزید تصریح ہوتی ہے کہ عرب زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں سے کس قدر نفرت کرتے تھے۔

 

''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بچی کو اپنے زانوں پر بٹائے کچھ کھلا رہے تھے تو قیس نے آپ علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کس جانور کا بچہ ہے جسے آپ کھلا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ میرا بچہ ہے تو قیس نے کہا میری بہت سے لڑکیاں تھیں لیکن میں نے ان کو زندہ دفن کر دیا اور کسی کو بھی نہ کھلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اے قیس معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے تیرے دل میں کسی قسم کی محبت انسانی پیدا نہیں کی ہے ۔ اولاد کی محبت تو ایک نعمت ہے کہ جو انسان کو دی گئی ہے اور تو اس سے محروم ہے ۔(٧٨)

 

 مندرجہ بالا حقائق و شواھد کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ گزشتہ از منہ قدیم کی دیگر تہذیبوں کی طرح قدیم عربی تہذیب میں بھی عورت کی حالت نہایت درجہ خستہ تھی بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ اس تہذیب میں عورت کی حالت دیگر گزشتہ تہذیبوں کے مقابلہ میں مزید خراب تر تھی تو یہ مبالغہ نہ ہو گا ۔ کیونکہ ہم نے ملاحظہ کیا کہ عرب میں عورت پر اس قدر ظلم روا رکھا گیا کہ پیدا ہوتے ہی اسے مار دیاجاتا ۔ یہ ظلم سوائے جاہلیت کے عرب معاشرہ کے ہمیں کسی اور تہذیب میں اس قدر صراحت سے نظر آ نہیں آتا۔ کیونکہ دیگر تہذیبوں میں انہی سطور میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ اگر چہ بہت ظلم روا رکھا جاتا تھا، تحقیر کی جاتی تھی اس کے حقوق دبائے جاتے تھے لیکن یہ ہم نے کہیں نہیں دیکھا کہ اس کا اس طرح معاشرتی استحصال کیا جاتا ہو کہ پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دی جاتی ہو وہ بھی اس خوف سے کہ اسے کھانا کھلانا ہوگا یا اس کی شادی کسی غیر مرد سے کرنا پڑے گی۔ القصہ مندرجہ بالا تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا کہ قبل از اسلام کے جاہلی معاشرہ میں عورت کی حیثیت کچھ بھی نہ تھی۔ وہ ایک سماجی لعنت ، بے وقت سامان موروثی جائیداد ، سراپا نحوست اور مرجانے کے قابل تھی۔ آئندہ سطور میں راقمہ اس معاشرہ میں پردہ کے رواج یا عدم رواج پر گفتگو پیش کرے گی۔

پردہ:۔

 اگر ہم قدیم عرب کے جاہلی معاشرہ کا پردہ کے حوالہ سے جائز ہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس وقت کے قدیم عربی معاشرہ میں تین اقسام کے لوگ پائے جاتے تھے ۔

١۔ یہودی

٢۔ عیسائی

٣۔ مشرکین

 ان میں سے پہلے دو پر تو گزشتہ فصل میں خاطر خواہ معلومات حاصل کر چکے ہیں ۔ جہاں تک تیسرے طبقہ (مشرکین) کا تعلق ہے تو اس بابت دیگر چیدہ چیدہ ماٰخذ و معلومات کے ساتھ ہمیں واحد ذریعہ معلومات جو دستیاب ہوتا ہے وہ ہیں اس دور کے شعراء کے کلام۔

 قدیم عربی شعراء کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں پردہ کا رواج تھا۔ قدیم اشعار میں ہمیں عورت کے حجاب کی بابت تین چار الفاظ بکثرت دستیاب ہوتے ہیں جو ان کی پردہ نشینی پر دلالت کرتے ہیں ۔

١۔ قنع

٢۔ نصیف

٣۔ برقع

 ذیل میں راقمہ اس بابت دستیاب کچھ اشعار پیش کر رہی ہے جن سے مزید وضاحت ہو سکے گی۔

 زمانہ جاہلیت کا ایک شاعر امراء القیس بن حجر کندی۔ اپنے اور اپنی محبوباؤں کے وصال کی کیفیت اور احوال بیان کرتے ہوئے اپنی بہادری ، چالاکی کے ساتھ جو اشعار منظوماً پیش کرتا ہے ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں بھی عرب کے رواج میں مرد و عورت کا آزادانہ میل جول نہیں ہوا کرتا تھا اور اسے معیوب سمجھا جاتا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ عورتوں کی باقاعدہ حفاظت کی جاتی تھی جیسے کہ امراء القیس کے آئند اشعار میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ جب وہ اپنی محبو باؤں سے ملاقات کیا کرتا تو نہایت چالاکی، ہوشیاری سے اسے رہنا پڑتا تھا۔ جس میں اسے قتل کر دئیے جانے کا بھی اندیشہ رہتا تھا۔ اور عورتیں پردہ نشین بھی رہا کرتی تھیں۔

''وبیضۃ خدر لا یرام خبائھا

تمتعت من لھو بھا غیر معجل

تجاوزت احراسا الیھا ومعشوا

علی حرا صالو یسرون مقتلی

 ''اور بہت سی ایسی پردہ نشین عورتیں ہیں جن کے خیمہ کی طرف کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا لیکن میں نے بہت بہت دیر تک ان کی دل لگی سے فائدہ اٹھایا ہے ''۔

 ''ایسے نگہبانوں اور قبیلہ سے بچ کر میں ان تک جا پہنچا جو میرے متعلق اس کے خواہشمند تھے کہ کاش وہ پوشیدہ طور سے مجھے قتل کر ڈالیں ۔

 یہی شاعر اپنے قصیدے کے آخر میں اپنے شکار کے احوال بیان کرتے ہوئے شکار کے لئے ایسے کنا یہ استعمال کرتا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قدیم عرب کی عورتیں باقاعدہ چادریں اور وہ بھی دراز دامن لمبی لمبی چادریں اوڑھا کرتی تھیں۔ اس شعر میں شاعر شکار کو دراز دامن چادر اوڑھی دو شیزہ سے تشبیہ دیتا ہے ۔

''فعنّ لنا سرب کان نعاجہ

عذاری دوار فی ملاء مذیلی

 ''ہمارے سامنے ایک ایسا ریوڑا آیا جس کی نیل گائیں گویا دراز دامن چادروں میں ملبوس دوار کی دو شیزہ عورتیں ہیں ''۔

 ایک اور جاہلیت کا شاعر ''طرفہ بن عبد بکری''اپنے اشعار میں اپنی محبوبہ کے کوچ کرنے اور اپنے احباب کا تذکرہ کرتا ہے جن میں اس کی ایک دوست کوئی ''رقاصہ''بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں دوران سفر بھی عورتوں کے لئے پردہ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ یہ شاعر اپنی محبوبہ کے کوچ کی کیفیت یہ بیان کرتا ہے کہ وہ جس اونٹ پر سوار محو سفر ہے وہ ہو ددج والا کجاوے دارا اونٹ ہیں ۔اگلے شعر میں یہ شاعر اپنی جس رقاصہ دوست کا ذکر کرتا ہے اس کی نظر کشی سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں اس وقت بھی بدن کے اعضاء کو خواتین چھپایا کرتی تھیں کیونکہ صرف گر یبان کی وسعت ہی رقاصہ کی بدنی خوبصورتی کے لئے بیان کرتا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف گریبان کو وسیع بھی شریف عورتیں نہ رکھتی تھیں بلکہ یہ رقاصاؤں اور طوائفوں کا وطیرہ تھا۔

''کان حدوج المالکیۃ غدوۃ

خلا یا سفین با النواصف من ود

 ''جس صبح محبوبہ (مالکیہ) کوچ کر رہی تھی اس کے اونٹوں کے حودج کے کجاوے وادی ود کے وسیع و عریض اطراف میں گویا وسعت میں بڑی بڑی کشتیاں لگ رہے تھے ''۔

 

''ندا مای بیض کا النجوم وقینۃ

تر وح علینا بین بر دو مجسد

''رحیب قطاب الجیب منھارفیقۃ

بجس الندامٰی بضۃ المجرد''۔

 ''میرے دوست واحباب ستاروں کی طرح سفید(خوش اخلاق دوست)ہیں اور ایک گانے والی ہے جو سر شام دھاریدار چادر اور زعفرانی کپڑوں میں ملبوس ہوکر ہمارے پاس آتی ہے ''

 ''اس رقاصہ کا گریبان کا چاک وسیع ہے دوستوں کی چھیڑ چھاڑ کے وقت نرم خو ہے اس کے بدن کا کپڑوں سے عریان رہنے والا حصہ نرم و نازک ہے''۔

 زمانہ جاہلیت کا ایک اور جاہلی شاعر ''زھیر بن ابی سلمی مزنی''کافی عرصہ بعد اپنے محبوب کی وادی میں جاتا ہے جہاں سے اسکی محبوبہ مع قبیلہ ہجرت کر چکی ہے اور یہ چشم تصور میں اس کو بوقت کوچ جس انداز سے دیکھتا ہے وہ بھی اس تہذیب میں پردہ کے رواج کو آشکار کرتی ہے۔

 

''تبصر خلیلی ہل ثرٰی من ظعائن

تحملن بالعلیاء من فوق جرثم

علون بانماط عتاق وکلّۃ

وراد حواشیھا مشاکھۃ الدم''

 ''اے میرے دوست ! نظر جما کر دیکھ کیا تو ان ہو دج نشین عورتوں کو دیکھتا ہے جو جرثم سے اوپر بلند مقام میں اونٹوں پر سوار ہو کر جارہی ہیں ''۔

 ''ان ہودج نشین عورتوں نے ہودجوں کے اوپر اونی عمدہ کپڑے اور ایک ایسا باریک پردہ بھی ڈال رکھا ہے جس کے اطراف و کنارہ خون کی طرح سرخ رنگ کے ہے ''۔(اسقدر اہتمام یقینا عورت پردہ ہی کے لئے کیا کرتی ہوگی۔)

 لبید بن ربیعہ عامری جاہلیت میں عورت کی سفری کیفیت اور اس دوران بھی پردہ کی سختی کی بابت یوں اشعار پیش کرتا ہے ۔

''شاقتک ظعن الحیی حین تحملوا

فتکنسوا قطنا تصرخیا مھا

من کل محفوف یظل عصیۃ

زوج علیہ کِلُّۃ وکرامھا

 ''تجھ کو قبیلہ کی ہو دج نشین عورتوں نے اس وقت اور زیادہ مشتاق بنادیا جبکہ وہ روانگی کے لئے سوار ہوئیں اور وہ نئے ہودجوں میں داخل ہوئیں ۔ اس حال میں کہ ان کے خیموں کی لکڑیاں نئی ہونے کی وجہ سے چر چرار ہی تھیں ''۔

 ''جن ہودجوں میں وہ عورتیں جا بیٹھیں ان میں سے ہر ہو دج کپڑوں میں پوشیدہ تھا جس کی لکڑیوں پر ایک دبیز پردہ ،اس پر ایک اور باریک پردہ اور اس پر ایک سرخ منقش کپڑا ڈالا ہوا تھا''۔ (یقینا اسقدر اہتمام زمانہ جاہلیت میں عرب عورتوں میں پردہ کے رواج پر ہی دلالت کرتا ہے ۔)

 عنترہ بن شداد عبسی نامی جاہلی شاعر کے اشعار میں ایک شعرا ایسا دستیاب ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرہ میں عورتیں صرف پردہ ہی نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ باقاعدہ آج کل کے دور میں پردہ کے لئے مروج برقع بھی استعمال کیا کرتی تھی۔ وہ اپنی محبوبہ سے فراق کی حالت میں وصال کی تمنا لئے یوں مخاطب کرتا ہے ۔

'' ان تغد فی دو نی القناع فا ننی

طب با خذ الفار س المستلئم''

 ''اے محبوبہ ! اگر تو مجھ سے برقع میں بھی چھپے گی تو بے فائدہ ہوگا اس لئے کہ میں تو وہ ہوں جو زرہ بند شہ سوار کو بھی پکڑ لینے میں مہارت تامہ رکھتا ہوں''۔(٧٩)

 مندرجہ بالا سطور میں راقمہ نے جاہلی معاشرہ کے خدو خال سے متعارف ہونے کے اہم ترین ذریعے جاہلی شعراء کے اشعار میں سے چند منتخب وہ اشعار رقم کئے ہیں جو ہمیں اس تہذیب میں پردہ کے رواج اور فروغ کا واضح پتہ دیتے ہیں ۔ ہم نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ ان اشعار میں نظر آنے والی عورت سفر و حضر دونوں حالتوں میں باپردہ نظر آتی ہے۔ آئندہ سطور میں راقمہ مولانا سید علی نقی نقوی کا حاصل مطالعہ اور پردہ کے حوالہ سے قدیم جاہلی عرب معاشرہ کا ایک جائزہ پیش کر رہی ہے جس سے راقمہ کے مندرجہ بالا دعوٰی کی مزید صراحت سے وضاحت اور تصدیق ہوتی ہے۔ ملحوظ رہے کہ اس بابت جائزہ کے لئے مولانا بھی اس مأخذ (جاہلی عربی اشعار)کی طرف رجوع ہوتے ہیں جس طرف راقمہ کی مراجعت رہی ہے۔

 مولانا کہتے ہیں ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ زمانہ جاہلیت میں ملک عرب کی تاریخ اور اس کے تمدن و معاشرت جاننے کا بہت بڑا ذریعہ اس کے اشعار ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ''الشعر دیوان العرب''یعنی اشعار قوم عرب کا دفتری خزانہ ہیں چونکہ ان میں تصنع کا پتہ نہیں تھا۔ وہ زیادہ تر فطری اور واقعاتی شاعری کرتے تھے۔ اس لئے ان کی شاعری ان کی زندگی کے متعلق معلومات کا آئینہ ہے ۔ اشعار عرب کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے یہاں پردہ موجود تھا اور اصحاب عزت اور ممتاز گھرانوں میں چہرہ کا چھپانا ضروری سمجھا جاتا تھا''۔(٨٠)

 اس مندرجہ بالا تمہید کے بعد مولانا عرب شعراء کے کلام سے مختلف اشعار استشہادًا پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کے مروجہ لباسوں میں ایک لباس ''مقتع''ہوا کرتا تھا جس سے چہرہ کا بھی پردہ ہوا کرتا تھا۔ دوسرا 'نصیف''ہوا کرتا تھا جو ''مقتع''کا ہی دوسرا نصف حصہ ہوا کرتا تھا۔ تیسرا ''برقع''تھا۔

 مولانا کے پیش کردہ اشعار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے جاہل معاشرہ میں پردے کا عمومی رواج تھا۔ حتی کہ پردہ شرافت و حرمت کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔ مزید یہ کہ بے پر دگی اس وقت کنیزوں کا خاصہ تھی جو چہرہ کھول کر باہر نکل جایا کرتی تھیں۔ اس بابت مولانا جن شعراء کے کلام سے استفادہ و استشہاد کیا ہے ان میں 'عنترہ بن شدادعبسی '' ''نابغہ زیبانی'' ابو النجم عجلی ''حماسی'' ''ربیع بن زیاد'' ''ابن دینہ اور ''امراء القیس'' شامل ہیں ۔

خلاصہ بحث:۔

 مندرجہ بالا تمام حقائق وشواہد ، اسناد وحوالہ جات اور استشہادات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جاہلیت کے عرب معاشرہ میں عرب عورت میں پردہ کا خوب رواج تھا اور نہ صرف یہ بلکہ پردہ شرافت کا معیار بھی سمجھا جاتا تھا۔

 القصہ یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچی کہ دیگر تمام مذکورہ تہذیبوں میں بھی قبل از ظہور اسلام سے ہی پردہ کا رواج ہوا کرتا تھا ہاں البتہ اسلام نے اس رجحان کو اور رواج کو قوی تر بنانے کے اسباب ضرور فراہم کئے جس کا اندازہ ہمیں اسلامی تعلیمات میں پردہ کی پابندی کے حوالہ سے دی جانے والی تعلیمات سے بخوبی ہو جاتا ہے ۔

 

 

 

 

 

 فصل ششم

 

 پردے کے اسباب اور اسلام میں پردہ کا فلسفہ :۔

 

 مندرجہ بالا فصول میں تاریخی معلومات واستشہادات کی روشنی میں ہم نے معلوم کیا کہ ظہور اسلام سے قبل پائی جانے والی تقریباً تمام اقوام میں پردے کا رواج رہا ہے ۔ اور نہ صرف یہ کہ پردہ کا رواج رہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہم نے یہ بھی جانا کہ ان کا قانون پردے کے اسلامی قانون سے زیادہ سخت اور شدید مشاہدہ میں آتا ہے۔ مثلا قوم یہود کا دستور پردہ اور قدیم ایران میں دستور پردہ وغیرہ کے اول الذکر میں دستور پردہ کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو اس کا خاوند بدون ادائیگی مہر کے طلاق بھی دے سکتا تھا ۔ اسی طرح ایرانی پردے میں شدت کا یہ عالم تھا کہ باپ اور بھائی تک سے نامحرموں کی طرح شادی شدہ عورت پردہ کیا کرتی تھی۔ مندرجہ بالا فصول میں بیان کردہ تفصیلات سے مسلم الثبوت طور پر یہ بات معلوم ہو چکی کہ اسلام سے قبل بھی دنیا میں پردے کا وجود رہا ہے اور اسلام پردہ کا موجد نہیں ہے البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسلامی پردے اور غیر اسلامی پردے کے حدود و قیود میں اشتراک پایا جاتا ہے یا نہیں ؟ یا جو علت ، سبب اور فلسفہ اسلام کے اعتبار سے پردہ کو واجب قرار دیتا ہے کیا وہی علت ، سبب اور فلسفہ غیر اسلامی پردے میں بھی پایا جاتا ہے یا پھر اس میں اختلاف ہے ۔ا ۤئندہ سطور میں راقمہ اسی حوالہ سے گفتگو پیش کرے گی ۔

 

پردے کے اسباب :۔

 

 پردے کے ظہور، آغاز اور رواج کی بابت ہمیں جو اسباب دستیاب ہوتے ہیں ان میں سر فہرست یہ ہیں ۔

١۔ بردہ فروشی

٢۔ جسم فروشی۔

٣۔ تعلیم و تبلیغ

٤۔ غلبہ و مغلوبیت

٥۔ عورت کے مخصوص ایام ۔ (ایام ماہواری)

٦۔ ترک دنیا۔ (رھبانیت)

٧۔ عدم تحفظ۔

٨۔ سکون نفس

٩۔ خاندانی روابط اور معاشرہ میں استحکام

١٠۔ عورت کا احترام۔

 

١۔ بردہ فروشی:۔

 

 معلوم تاریخ ہمیں اپنی معلومات میں غلاموں اور کنیزوں کی معلومات فراہم کرتی ہے ، جو تجارت اور دولت کمانے کی غرض سے خریدو فروخت ہوا کرتے تھے ۔ عام غلاموں اور کنیزوں سے در کنار بعض افراد یا گروہ تجارت اور دولت میں اضافہ کی غرض سے بچوں اور نو عمر لڑکیوں کو بھی اغواء کر کے صاحب استعداد اور ضرورت مند لوگوں کے ہاتھ فروخت کر دیا کرتے تھے۔ اس بردہ فروش سے متاثر ہو کر لوگ اپنی بچیوںکو بچانے کے لئے گھروں میں مقید رکھنے لگے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ یہی اہتمام بعدہ مروجہ سی جوں میں پردہ کے عنوان سے معنون ہونے لگا۔

 

٢۔ جسم فروشی:۔

 

 معلوم تاریخ پردہ کے اسباب میں ایک سبب ''جسم فروشی''کی بابت بھی ہمیں آگہی دیتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل از ظہور اسلام سے رائج پردہ عام طور پر کسبی عورتیں کیا کرتی تھیں ۔ جو جنسی عمل کے دوران بھی اپنے چہروں کو چھپائے رکھتی تھیں ۔

 

٣۔ تعلیم و تبلیغ:۔

 

 زمانہ قبل از ظہور اسلام میں رائج پردہ کے اسباب میں ایک سبب تعلیم و تبلیغ بھی رہا ہے ۔ جس سے متاثر ہو کر پڑوسی متاثرین میں پردہ سرایت کرتا گیا۔

 

٤۔ غلبہ و مغلوبیت:۔

 

 اسباب پردہ میں ایک سبب غلبہ و مغلوبیت بھی بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ جس میں غالب اقوام مغلوب قوموں پر اپنے ثقافت اثرات مرتب کرتیں اور مغلوب قومیں غالب اقوام کی اتباع میں ان کی سماجی ، معاشرتی اور مذہبی رسوم کو اپنانے لگتیں ۔

 

٥۔ عورت کے مخصوص ایام (ایام ماہواری)

 

 بعض افراد کے نظرئیے کے مطابق عورتوں کے پردہ اور گوشہ نشینی کا سبب ان کے ماہواری کے مخصوص ایام ہیں ۔ جن میں عورت کسی گندگی و غلاظت کی طرح قبل از ظہور اسلام کسی گوشہ میں محبوس پڑی رہتی اور عام افراد اس سے معاشرتی مقاطعہ کر لیتے ۔ ان افراد کے مطابق عورت کی اس محبوسیت کے امتداد نے بعدہ پرد ہ کی صورت اختیار کر لی۔

 

٦۔ ترک دنیا۔

 

 معلوم تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رھبانیت پسند اور تارک دنیا افراد اپنے ارد گرد کے ماحول کو مکمل طور پر زھدوریاضت سے ہم آہنگ کرنے کے لئے دنیوی لذتوں سے کنار ہ کش ہوجایا کرتے تھے۔ ترک دنیا پردہ کا سبب اسی وجہ سے ہے کہ چونکہ عورت بھی ایک دنیوی لذت کے حصول کا اہم ذریعہ ہے جسے ''جنسی تسکین''کہتے ہیں ۔ جو مرد و عورت کے ایک ساتھ گھل مل کر رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ جبکہ ایسے افراد دیگر لذتوں کے ساتھ ساتھ عورتوں سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لیتے تھے جو بعدہ مرد و عورت کے درمیان حجاب کے قائل ہو چکے اور انہوں نے ہی اپنے ماحول اور معاشرہ میں پردہ کو رواج دیا۔

 

٧۔ عدم تحفظ:۔

 

 پردہ کے اسباب میں ایک سبب''عدم تحفظ''بھی ہے جسے زمانہ قبل از ظہور اسلام کے پردہ کا ایک اہم سبب گردانا جاتا ہے ۔ جس طرح خزانوں کی حفاظت کے لئے انہیں زمینوں میں دفینوں کی صورت میں دبا دیا جایا کرتا تھا۔ اسی طرح عورتوں کو بھی حفاظت کے نکتہ نظر کے تحت لوگ گھروں میں پابند کر دیا کرتے تھے تاکہ وہ اہل ہوس کی نگاہوں سے اور کسی اور کی ملکیت بننے سے محفوظ رہیں۔

 

 

اسلام میں پردہ کا فلسفہ:۔

 یہ وہ اسباب ہیں جو غیر اسلامی پردہ کے اسباب شمار کئے جاتے ہیں ۔ ہم گزشتہ ادوار کے ان اسباب اور اس کے نتیجے میں عورت کی پردہ نشینی کے منکر نہیں ہیں ۔لامحالہ ایسا ہوسکتا ہے کہ از منہ ماضیہ کے پردے اور اس کے متعلق تصورات کی شدت انہی تاریخی واقعات کا نتیجہ ہو لیکن ہم یہ اقرار بھی نہیں کرتے کہ اسلام میں بھی پردے کا یہی فلسفہ رہا ہے ۔ کیونکہ اسلام ہمیں پردہ کا جو فلسفہ بیان کرتا ہے وہ آخر الذکر تین اسباب میں خلاصۃً پوشیدہ ہے۔ یعنی ، سکون نفس،خاندانی روابط اور معاشرہ میں استحکام اور عورت کا احترام۔

 

٨۔٩۔١٠۔ سکون نفس ۔ خاندانی روابط و معاشرہ میں استحکام اور عورت کا احترام۔

 

 یہ تین باتیں اسلامی پردہ کا فلسفہ ہیں ۔مرد و عورت کے درمیان بے پردگی اور بے لگام آزادی نفسانی خواہشات اور ہیجانات میں اضافے کا باعث ہوتی ہے ۔ اسلام مرد و عورت کے اس فطری جذبہ کی تسکین کے لئے اور اس میں توازن پیدا کرنے کے لئے مرد و عورت دونوں پر ایک مشترکہ فرض عائید کرتا ہے جو کہ اس جذبہ کی معروف طریقہ سے تسکین بھی کرتا ہے اور خواشہات و ہیجانات میں اضافے سے بھی باز رکھتا ہے ۔

 ''قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ ''

 '' وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ ''(٨١)

 '' ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْ ذَیْنَ''۔(٨٢)

 یہ ہے وہ فلسفہ جو اسلام اپنے متبعین کو پردہ کے حوالہ سے پیش کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد بے شک ہر انسان سکون نفس بھی حاصل کر سکتا ہے ، خاندان و معاشرہ کو مستحکم بھی کر سکتا ہے اور عورت کے احترام کو بھی ملحوظ رکھا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ جب نامحرم مرد و عورت ایک دوسرے پر نظر نہ کریں گے، ہوسناک نگاہوں کا تبادلہ نہ ہوگا،لذت اندوزی کے قصد سے آنکھیں چار نہ ہوں نگی ، عورتیں اپنے بدنوں کو بے گانے مردوں سے چھپائے رکھیں گی، اجتماعات وغیرہ میں جلوہ نمائی اور دلربائی نہ کریں گی اور کسی طرح بھی ایسا عمل بجا نہ لائیں گی جو غیر مردوں کے لئے توجہ یا تحریک کا باعث ہو تو لازمی طور پر نتیجتاً مرد و عورت دونوں ہی جنسی تسکین کے لئے از دواجی زندگی کے دائرہ کار اور گھریلو فضا میں جنسی لذت اندوزی کی طرف رجوع ہوں گے جس سے نہ صرف یہ کہ میاں بیوی کے رشتوں کو استحکام اور سکون نفس میسر آئے گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ معاشرہ بھی مستحکم ہوتا جائے گا۔ یہ ہے وہ فلسفہ جو اسلام پردہ کے حوالہ سے تمام انسانیت کے لئے پیش کرتا ہے ،جس پر عمل پیرا ہو کر تمام انسانیت ان تمام دکھڑوں سے نجات حاصل کر سکتی ہے جن میں عمل نہ کرنے کی پاداش میں مبتلا ہے ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

فصل اول

(١) رضوی، سیدتصدق حسین ۔مولوی، لغات کشوری، ص٣٢٩، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،سن ندارد۔

(٢) غلام رسول ، چودھری، مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ ، ص ٣٣٥، علمی کتب خانہ لاہور، س۔ن۔

(٣) عصمت الدین کر کر ، المرأۃ من خلال ایات القرآنیۃ،

(٤) عمر رضا کحالہ ، المرأۃ فی القدیم والحدیث ،ج/١،ص١٢٤۔

(٥) دیورانت ول ، قصۃ الحضارۃ ،ج/٢،ص٣٢۔

(٦) عبد اللّٰہ مرعی ، حقوق و قضا یا المرأۃ فی عالمنا المعاصر، مترجمہ مفتی ثناء اللہ محمود ،ص ٣٠،دارالاشاعت کراچی، ٢٠٠١ ؁ئ۔

(٧) اسلام و دیگر مذاہب و معاشروں میں عورت کے حقوق و مسائل ۔ص ٣١۔

(٨) جلال الدین انصر عمری، سید ،عورت اسلامی معاشرے میں ، ص٣١،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور۔س۔س۔

(٩) توریت،کتاب پیدائش ، باب ٣،٤،مطبوعہ برٹش اینڈ خازن بائبل سو سائٹی، لاہور١٩٢٧ ؁ئ۔

(١٠) توریت، کتاب پیدائش، باب ٣،مطبوعہ برٹش اینڈ خازن بائبل سو سائٹی، لاہور، ١٩٢٧ ؁ئ۔

(١١) سلیمان علی ندوی، سید ، سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ص ١٥١،مطبع معارف اعظم گڑھ، انڈیا ، س ن۔

(١٢) گستاؤ لی بان ،ڈاکٹر، تمدن عرب، ص ٤٥٩ ،المترجمہ،مقبول اکیڈمی، لاہور، س،ن۔

(١٣) القرآن ،سورۃ بقرہ ،آیۃ ،٧٩)

(١٤) نقوی، علی مفتی، سید، مولانا، اثبات پردہ، امامیہ مشن لکھنؤ،١٩٩٦ ؁ئ۔ ص١٢۔

(١٥) توریت، باب ٢٤ ، سفر پیدائش، مطبوعہ برٹش اینڈ خازن سوسائٹی، لاہور، ١٩٢٧ ؁ئ۔

(١٦) استاد شہید مرتضی مطہری، مسئلہ حجاب ،انتشار ات صدرا، ١٤٣٠ھ،ص٢٠۔

(١٧) مرتضی مطہری، عورت پردے کی آغوش میں ،ص٧،٨ ۔دارالشفافۃ الاسلامیۃ ، ١٤١٢ھ،١٩٩٢ئ۔

(١٨) سعود الحسن خان، عورتوں میں پردے کا ارتقائ، ص٣٧،ڈان بکس ، لاہور، س۔ن۔

(١٩) لیلے احمد،عورت جنسی تفریق اور اسلام، ص ٥٢، دستاویز مطبوعات مشعل، لاہور۔س۔ن۔٭

٭ Women And Gender in islam , Leila Ahmed

 وومن اینڈ جینڈر، ان اسلام مترجمہ:خلیل احمد،

(٢٠) لیلیٰ احمد، عورت جنسی تفریق اور اسلام ، ص٥١،دستاویز مطبوعات مشعل لاہور، س ۔ن۔

 

فصل دوم

(٢١) دیو رانت ول،قصۃ الحضارۃ، ج/٢،ص٣٢، س،ن۔

(٢٢) لیلیٰ احمد ، عورت جنسی تفریق اور اسلام ، مطبوعہ مشعل لاہور، ١٩٩٥ئ۔ص٢٧۔

(٢٣) دیو رانت ول،قصۃ الحضارۃ، ج/٢،ص٢٣٤،البابلین۔

(٢٤) لیلیٰ احمد ، عورت جنسی تفریق اور اسلام ، مطبوعہ مشعل لاہور، ١٩٩٥ئ۔ص٣٦۔

(٢٥) دیو رانت ول،قصۃ الحضارۃ، ج/٢،البابلین۔ص٢٢٩و٢٣٠،

(٢٦) لیلیٰ احمد ، عورت جنسی تفریق اور اسلام ، مطبوعہ دستاویز مشعل لاہور، ١٩٩٥ئ۔ص٣٦و٣٧۔

(٢٧) عمر رضا کحالۃ ، المراۃ فی القدیم والحدیث، باب المرأۃ فی فارس،ص١٣٢۔

(٢٨) لیلیٰ احمد ، عورت جنسی تفریق اور اسلام ، مطبوعہ دستاویز مشعل لاہور، ١٩٩٥ئ۔ص٣٣و٣٤۔

(٢٩) عبد اللہ مرعی ،حقوق و قضاء المرأۃ فی عالمنا المعاصر،مترجمہ مفتی ثناء اللہ محمود۔ ص٣٨،دارالاشاعت، ٢٠٠١ئ؁۔

(٣٠) استاد شہید مرتضی مطہری، عورت پردے کی آغوش میں ،ص٨و٩،دارالشفافۃ الاسلامیہ پاکستان ، ١٩٩٦ئ؁۔

(٣١) لیلیٰ احمد ، عورت جنسی تفریق اور اسلام ، مطبوعہ دستاویز مشعل لاہور، ١٩٩٥ئ۔ص٣٦۔

(٣٢) لیلیٰ احمد ، عورت جنسی تفریق اور اسلام ، مطبوعہ دستاویز مشعل لاہور، ١٩٩٥ئ۔ص٣٨۔

(٣٣) سعود الحسن خان ،عورتوں میں پردے کا ارتقاء ، ڈان بکس ، لاہور، ص٤٦، س،ن۔

(٣٤) سعود الحسن خان ،عورتوں میں پردے کا ارتقاء ، ڈان بکس ، لاہور، ص٤٣تا٤٥،سنہ ندارد۔

 

فصل سوم

(٣٥) عبدالرشید، ڈاکٹر، پروفیسر، اویان مذاہب کا تقابلی مطالعہ ۔ص٣١، طاہر سنز کراچی ٢٠٠٤ئ،

(٣٦) آزاد، عمادالحسن اسلام کے کارہائے نمایاں ۔ص٤١،٤٢مکتبہ جامع لمیٹڈ دہلی ،س،ن۔

(٣٧) المسد وسی، احمد عبدااللہ، مذاہب عالم ایک معاشر تی وسیاسی جائزہ ،ص٣١٥،و٣١مکتبہ خدام ملت کراچی ۔س،ن۔

(٣٨) راماشنکرترپاٹھی، قدیم ہندوستان کی تاریخ، مطبوعہ ترقی اردو بیورو،دھلی ۔١٩٩٦ئ،ص٥٨۔

(٣٩) ایس ایم شاہد تعارف مذاہب عالم ۔ص٢٣٠،بک پیلس لاہور ۔س،ن۔

(٤٠) پی ایچ گپتا رامائن ایک مطالعہ ۔ص٦٤ مطبوعہ وشووجے پرکاش دہلی اتھروید ٦٠،٦،١٤۔

(٤١) جلالپوری علی عباس ،سید ، رسوم اقوام مطبوعہ جہلم ١٩٩٣ء ،ص٥٧ ۔

(٤٢) غلام رسول ،چوہدری، مذاہب عالم کاتقابلی مطالعہ ۔ص١٦١،علمی کتب خانہ لاہور ،١٩٨٠ئ۔

(٤٣) محمد مجیب ،تاریخ تمدن ھند ،پروگر یسیوبکس اردوبازار لاہور ۔١٩٨٦ئ،ص٥٧۔

(٤٤) استاد، شہید مرتضی مطہری، عورت پردے کی آغوش میں ۔ص١٥،١٦دارالشفا فۃ لاسلامیۃ پاکستان ١٤١٦ئ،١٩٩٦۔

(٤٥) سعودالحسن خان، عورتوں میں پردے کا ارتقائ، ڈان بکس لاہور ۔ص٣٩،٤٢،س،ن۔

(٤٦) سعودالحسن خان، عورتوں میں پردے کا ارتقاء ڈان بکس لاہور ۔ص٣٩،س،ن۔

 

فصل چہارم

(٤٧) ثمرمبارک علی، ڈاکٹر تاریخ اور عورت، فکشن ہاؤس لاہور ۔س،ن،ص٢٧،٢٨۔

(٤٨) مبارک علی، ڈاکٹر، تاریخ اورعورت ،ص٥١،فکشن ہاؤس لاہور ۔س،ن۔

(٤٩) مودودی، ابوالاعلی، سید، پردہ ۔ص١٥،اسلامک پبلی کیشنز لاہور ،س،ن۔

(٥٠) علی عبد الواحد وافی ، المرأۃ فی الاسلام ،ص١٨۔

(٥١) عبداللہ مرعی ،اسلام اور دیگر مذاہب ومعاشر وں میں عورت کے حقوق ومسائل، ۔ص٣٩،دارلاشاعت ٢٠٠١ ء ؁۔

(٥٢) امیر علی سید، روح اسلام ،ص٣٩٥،ادراہ ثقافۃاسلامیہ لاہور ١٩٩٦ئ۔

(٥٣) گستاؤلی بان، ڈاکٹر ،تمدن عر ب، مترجمہ مولوسید علی بلگرامی۔،ص٣٧٣،مقبول اکیڈمی لاہور ١٩٩٦ئ؁۔

(٥٤) جلال الدین انصر عمری،سید، عورت اسلامی معاشرہ میں ،ص٣١، اسلامک پبلیکیشنز لاہور ،س،ن۔

(٥٥) سعود الحسن خان، عورتوں میں پردے کاارتقاء ،ص٣٣و٣٤ ڈان بکس لاہور ،س،ن۔

(٥٦) علی نقی النقوی مولانا، سید اثبات پردہ ،ص ١٢، امانیہ مشن لکھنؤ ،١٩٩٦ئ؁۔

(٥٧) مودودی، ابوالاعلی، سید، پردہ ،ص١٥،اسلامک پبلی کیشنز لاہور ١٩٩٨ئ؁۔

(٥٨) محمد انور بن اختر ،پردہ اور جدید ریسرچ ،ص٩١،ادارہ اشاعت اسلام ،٢٠٠٧ئ۔

(٥٩) مودودی ابوالاعلی سید، پردہ ،ص١٧و١٨،اسلامک پبلی کیشنز لاہور ١٩٩٨ئ۔

(٦٠) محمد انوربن اختر، پردہ اور جدیدریسرچ ،ادارہ اشاعت اسلام ،٢٠٠٧ئ،ص٨٤۔

 

فصل پنجم

(٦١) القرآن النساء آیۃ ١٩۔

(٦٢) القرآن النساء ،آیۃ٢٢۔

(٦٣) القرآن ،الانعام آیۃ ،١٤٠۔

(٦٤) القرآن ،الانعام آیۃ ،١٣٧۔

(٦٥) القرآن الانعام ،آیۃ ١٥١۔

(٦٦) القرآن النحل ،آیات ٥٨و٥٩۔

(٦٧) القرآن بنی اسرائیل ،آیۃ ٣١

ٍ(٦٨) القرآن الممتحنہ ،آیۃ١٢۔

(٦٩) القرآن الانعام ،آیۃ ١٣٩۔

(٧٠) القرآن النحل ،آیۃ ٥٧۔

(٧١) القرآن النحل ،آیۃ ٦٢۔

(٧٢) القرآن النساء ،آیۃ ٣۔

(٧٣) القرآن النور ،آیۃ٣٣۔

(٧٤) امام دارمی، مسند دارمی، ص٣،باب ماکان علیہ الناس قبل بعث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔

(٧٥) محمد بن اسماعیل ،بخاری ،صحیح بخاری کتاب النکاح باب من قال لانکاح الالولی ۔قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی ۔

(٧٦)بغوی حسین بن مسعود فراء علامہ، معالم التنزیل ،جلد ،٣،ص٣٤٣،٤٩٤،الاسرائ، سورۃ النحل دارالفکر سیرت ،١٤٠٥ھ ،١٩٨٥ئ۔

(٧٧) رشید احمد، تاریخ مذاہب ،ص٦٩٤،قلات پبلشرز، مستونگ کوئٹہ ١٩٦٤ئ۔

(٧٨) گستاؤلی بان ،ڈاکٹر تمدن عرب، مترجمہ ،مولوی سید علی بلگرامی،ص٣٧٤،مفید عام آگرہ ١٩٩٦ئ۔

(٧٩) السبع المعلقات،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی ص، ٦،٧ ،١٤،١٨،٢٧،٣٨،٤٨و٤٩،٧٨۔

(٨٠) علی نقی نقوی، مولانا، اثبات، پردہ ،ص١٤تا٢١امامیہ مشن، لکھنؤ، ١٩٩٦ ئ۔

 

فصل ششم

(٨١) القرآن، سورہ نور، آیات۔٣٠ و٣١۔

(٨٢) القرآن، سورہ احزاب،آیت۔٥٩۔

 

 


 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post