خطبہ حجۃ الوداع روئے زمین پر انسانی حقوق کا اولین عالمی منشور ہے اس کی اہمیت بیان کریں؟

آج دنیا میں انسانی حقوق کے حوالہ سے اقوام متحدہ کا ہیومن رائٹس چارٹر بہت اہمیت رکھتا ہے۔   یہ چارٹر بہت سے ارتقائی مراحل سے گزر کر آج اس صورت میں دنیا کے سامنے موجود ہے۔ اگرچہ اس میں ابھی   بھی کچھ خامیاں ونقائص ہیں۔ لیکن یہ چارٹر دنیا کی اکثریت کو قابل قبول ہے۔

اگر غور کیا جائے تو  اس چارٹر کی بنیاد کیا ہے ۔ دنیا کو ان اصولوں پر پہنچنے میں مدد دینے  یا بنیاد فراہم کرنے میں کس کا کردار ہے؟ تو بلا شک و شبہ حضو ر ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع  اورمیثاق مدینہ اس سلسلے میں بہت اہمیت کےحامل ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ کریں  اس منشور (خطبہ حجة الوداع)  پر چلنے والے افراد وملکوں کی حالت بدل گئی۔تہذیب وتمدن نے نئے جلوے دیکھے اور ذہن وفکر کو نئی روشنی ملی۔اس الٰہی ونبوی منشور جس میں نہ صرف حقوق انسانی کا احترام ملحوظ ہے  بلکہ انسانی حقوق اپنی معراج پر ہیں  اوراس میں سیاست ومعاملات اور عبادات کے معیار کوبھی متعین وواضح کیا گیا ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے انسانیت کی رہنمائی کے یہ اصول چودہ سو سال پہلے ہمیں بڑی وضاحت کے ساتھ عطا فرمائے تھے۔ اور یہ اصول تمام  انسانوں کے حوالے سے تھے کسی علاقائی یا نسلی  یا مذہبی تعلق کے حوالے سے نہیں تھے۔ نسل، رنگ، وطن اور قومیت سے بالاتر ہو کر سب سے پہلے جس شخصیت نے دنیا کو خطاب کیا ہے  وہ  سیدنا نبی کریم محمدﷺ ہے۔

اس  جلیل القدر خطبہ میں آپ ﷺ  نے  ان تمام احکام کو بیان کردیا جن سے انسانیت ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتی اور نشان راہ متعین کرسکتی ہے۔اس میں ان چیزوں کی بھی نشان دہی کردی گئی ہے جن سے دنیا میں عروج وزوال اور انقلاب برپا ہوتاہے ۔

جب پیغمبر انسانیت نے اپنا خطبہ انقلاب ارشاد فرمایا تھا،اس وقت کی آباد دنیا بہرحال آج کل کی طرح وسیع نہ تھی۔امریکہ کے دونوں براعظم ہنوز گوشہٴ گمنامی میں تھے۔ آسٹریلیا دریافت نہ ہواتھا،افریقہ کے بڑے حصے پر آفتاب تمدن کی روشنی نہ پہنچ سکی تھی،ایشیا و یورپ کے انتہائی شمالی علاقے اجاڑ اور غیر آباد تھے۔ہاں البتہ عرب ،چین،ہندوستان، ایران،عراق، شام، مصر، ،یونان، وغیرہ میں اگرچہ تہذیب وتمدن کی روشنی موجود تھی،مگر کہیں تیز کہیں مدھم۔یعنی یہ ظاہر ہے کہ ہرجگہ نہ تہذیبی ترقی یکساں ہوئی تھی نہ سیاست،مذہب،اور اخلاق ومعاشرت کا حال ایک جیسا تھا۔

قرآن کریم کی تعلیمات اور حضور ﷺ کے اقوال وافعال اس بات پرعادل وشاہد ہیں کہ اسلام میں جبرو اکراہ کی گنجائش نہیں ۔دین کے معاملے میں ہر کوئی آزاد ہے۔ اس میں جو کچھ بھی بیان ہواہے وہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔اس پر فتن دور میں بھی جو کوئی اس پر عمل کرے گا تو عزت وبلندی کا مقام حاصل کرے گااور کبھی بھی کسی کے سامنے اور کہیں بھی ذلیل ورسوا نہ ہوگا۔آپ ﷺ نے اپنے اول اور آخری حج میں جو خطبہ دیا وہ احکام الٰہی کا خلاصہ اور نچوڑ ہے ،اورپوری انسانیت کی فطرت اور ضرورت کے عین مطابق ہے۔

یہ ایک عظیم الشان بین الاقوامی دستاویز ہے ،جس کی نہ صرف اپنے دور میں آگے یا پیچھے کی کوئی مثال نہیں ملتی،بلکہ آج بھی انسانیت کے پاس ایسا عظیم منشور حقوق موجود نہیں ہے ،جسے دینی تقدس کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے ایک عالمی جماعت یا امت کام کرنے کے لیے تیار کی گئی ہو۔اس کے بعض اجزاء جدید دور میں دوسروں کی دستاویزات میں بھی ملتے ہیں۔مگر ان کاغذی پھولوں میں عمل کی خوشبو کبھی پیدا نہ ہوسکی۔پھر حجة الوداع کے اساسی عقائد کے علاوہ بعض اہم اجزاء ایسے ہیں جن کی قدرو قیمت سے ہماری آج کی دنیا آشنا ہی نہیں۔(سید انسانیت ﷺ،نعیم صدیقی،ص:۲۰۸،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی،۱۹۹۷)

 

 

اس خطبہ نے انسانی دنیا پر جو اثرات ڈالے ہیں اور اس سے قوموں وملکوں کی حالت زار میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے  ایک سیرت نگار نے یہ بھی تحریر کیا ہے:

”خطبہ حجة الوداع نہایت ہی خوبی سے اس حقیقت کو اجاگر کردیتا ہے کہ اب تک کے دوتین ہزار سالہ دور تاریخ میں حضور پیغمبرآخرالزماں ﷺ وہ پہلی مبارک شخصیت ہیں جو ساری انسانیت کے لیے وسیع اور جامع پیغام لے کر آئے اور اس پیغام کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کیا ،اس پر مبنی ریاست قائم کی اور اسے دنیا کی تمام اقوام تک پہنچانے کے لیے شہدا ء علی الناس کی ایک جماعت قائم کردی۔“سید انسانیت ﷺ،نعیم صدیقی،ص:۲۰۸،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی،۱۹۹۷)

خطبۂ حجۃ الوداع: منشورِ انسانیت

آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے خطاب شرو ع کیا

اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کے نبیﷺ کی سنت ہے۔

انسانی مساوات :

لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے ہاں عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔

حرمت سود :

خبردار! جاہلیت کا ہر قسم کا سود اب ختم ہے ۔تمہارے لئے تمہارا اصل مال ہے ،نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی تم ظلم کا شکار ہو اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے!!

جاہلیت کے خون معاف :

سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلے خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا۔

ذاتی ذمہ داری :

یاد رکھو! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا) کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یا کوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیںکرتا (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا)

اطاعت امیر :

اگر کوئی حبشی غلام بھی تمہارا قائد بنا دیا جائے اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔

باہمی سلوک:

 خبردار! کسی مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسرے مسلمان کے لئے حلال نہیں جب تک وہ خود حلال نہ کرے اور اپنی خواہش سے نہ دے دے۔

بدکاری کا خاتمہ :

بچہ اس کا جس کے بستر پر تولد ہوا اور بدکار کے لئے پتھر ہیں۔

حفاظت نسب :

جس نے اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے کو باپ قرار دیا یا جس نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو آقا ظاہرکیا تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور عام انسانوں کی طرف سے لعنت ہے۔ اس سے (قیامت کے دن) کوئی بدلہ یا عوض قبول نہ ہوگا۔

قوم کی ہلاکت کے مرض کی نشاندہی :

لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی سے ہلاک ہوئیں۔

اہمیت علم :

اے لوگو! علم حاصل کرو قبل اس کے کہ وہ قبض کرلیا جائے اور اٹھالیا جائے۔

خبردار! علم کے ختم ہوجانے کی ایک یہ بھی شکل ہے کہ اس کے جاننے والے ختم ہوجائیں (یہ بات آپﷺ نے تین دفعہ دہرائی)

احترام انسانیت :

عنقریب میں تمہیں خبر دوں گا کہ مسلمان کون ہے؟ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ سلامت رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے اموال اور جانیں محفوظ رہیں۔

دھوکہ دہی کی حوصلہ شکنی :

جس شخص نے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم سے ہتھیایا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔

باہمی اخوت :بے شک ہرمسلما ن دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

بڑے دشمن کی پہچان :

کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو اس (دجال) کے بارے میں نہ ڈرایا ہو۔ نوح ؑ اور اس کے بعد آنے والے نبیوں ؑ نے بھی اس کے بارے میں ڈرایا۔ وہ تم (امت محمدیہ کے زمانہ) میں ظاہر ہوگا اور یہ بات تم خوب جانتے ہو۔ اس کی حالت بھی تم سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی یہ بات تم پر مخفی ہے کہ تمہارا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تمہارے لئے پردہ میں ہیں۔ تمہارا ربّ کا نا نہیں جبکہ اس (دجال) کی دائیں آنکھ کانی ہے اور وہ آنکھ اس طرح ہے جس طرح پھولا ہو منقیٰ ہوتا ہے۔

حکمرانوں کی خیرخواہی :تین چیزیں ہیں جن پر مؤمن کا دل خیانت (تقصیر) نہیں کرتا۔ صرف اللہ کے لئے عمل کے اخلاص میں، مسلمانوں کے حکمرانوں کی خیر خواہی میں اور ان کی جماعت سے چمٹے رہنے میں۔

حق وراثت :

اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر وارث کے لئے ثابت کردہ حصہ مقرر کردیا ہے۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔

سچ کی تلقین :

خبردار! عنقریب تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا۔ جس نے بھی مجھ پرجھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔

حفاظت دین :

اپنے پروردگار کی عبادت کرو پانچوں وقت کی نماز پڑھو اور حج کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یہ سب کام خوشی سے سرانجام دو تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔

درس اتحاد :

اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا، لہٰذا دیکھو میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

شہادت اور تکمیل مشن :

اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ کرام ؓ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپﷺ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپﷺ نے انگشت ِشہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہے، اے اللہ گواہ رہے!!

جس کام کا آغاز آپ نے مکہ کے کوہ صفا سے کیاتھا اور شدید مجبوری کی بنا پر اللہ کے حکم سے نقل مکانی کیاتھا، اس کی تکمیل بھی وہیں آ کر ہوئی اور ٹھیک اسی مقام پر ہوئی ،جسے میدان عرفات کہا جاتا ہے۔یہیں آپ ﷺ نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا ،جسے ”حجة الوداع “ کہا جاتا ہے۔اس خطبہ کے بعد قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی جس میں تکمیل دین کی صراحت کی گئی ہے:

الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَم دیناً․“(المائدہ:۳)

آج ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔

 


 

خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں خواتین کے حقوق پر روشنی ڈالیں؟

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:

وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآءِ خَیْرًا، فَاِنَّهُنَّ عَوَانٍ لَکُمْ لَا یَمْلِکْنَ لِاَنْفُسِهِنَّ شَیْئًا، فَاتَّقُوا ﷲَ فِی النِّسَآءِ، فَاِنَّکُمْ اَخذْ تُمُوْهُنَّ بِاَمَانِ ﷲِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَهُنَّ بِکَلِمَاتِ ﷲِ۔اَلاَ! لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ اَنْ تُعْطِیَ مِنْ مَالِ زَوْجِهَا شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِہٖ. اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَآئِکُمْ حَقًّا، وَ لَهُنَّ عَلَیْکُمْ حَقًّا، لَکُمْ عَلَیْهِنَّ اَلَّا یُوْطِئْنَ فَرْشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَهُوْنَهٗ، وَ عَلَیْهِنَّ اَنْ لَّا یَاتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ، فَاِنْ فَعَلْنَ فَاِنَّ ﷲَ قَدْ اَذِنَ لَکُمْ اَنْ تَهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اَنْ تَضْرِبُوْا ضَرْبًا غَیْرَ مُبْرَحٍ، فَاِنِ انْتَهَیْنَ فَلَهُنَّ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْروْفِ۔

عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اِجازت کے بغیر کسی کو دے۔ دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں۔ عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو خدا کی جانب سے اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔

آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں دو کمزوروں کے بارے میں خاص وصیت کرتا ہوں کہ وہ خود تو اپنا حق وصول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس لیے تم ان کا ضرور خیال رکھنا۔ ایک یتیم اور دوسرا عورت۔ حضورﷺ کا یہ ارشاد جیسے اس سوسائٹی کے لیے بہت اہمیت رکھتا تھا ، ہماری آج کی سوسائٹی کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یتیم اور عورت آج بھی مظلوم اور بے بس ہیں۔ خواہ مشرق ہو یا مغرب اس کی ایک جھلک ان سطور میں ملاحظہ کریں۔

عورت کی مظلومیت

جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا فاتقوا اللّٰہ فی النساء کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ عورت کا مسئلہ بھی یہی ہے، اس زمانے میں بھی تھا اور آج بھی مختلف حوالوں سے ہے۔

مثلا آج بھی  عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ آج دو طرفہ ظلم ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں شاید دس فیصد عورتوں کو وراثت ملتی ہے جبکہ نوے فیصد کو سرے سے وراثت ملتی ہی نہیں۔اور تقریباً پچھتر فیصد عورتوں کو مہر نہیں ملتا۔

ہمارے معاشرے میں عورت کی جبری شادی کر دی جاتی ہے، جوان بچی کی اس کا باپ اس کی مرضی کے بغیر شادی کر رہا ہے اور وہ بیچاری بے بس ہے۔ اس بات کی شریعت قطعاً اجازت نہیں دیتی۔

 ہمارے معاشرے میں عورت باقاعدہ بکتی ہے، بعض علاقوں میں باپ اپنی بیٹی کی قیمت وصول کرتا ہے لیکن آپ کے بِل میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

ہمارے بعض جاگیردار علاقوں میں لڑکی کی قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے اور یہ بات قرآن کریم کی توہین بھی ہے کہ قرآن کریم سے شادی کے مقدس عنوان پر اپنی بیٹی کے حصے کی جائیداد اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔

 

مغرب میں عورت کے ساتھ دھوکہ

مغرب میں یہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو ہم نے برابر کے حقوق دیے ہیں۔

مغرب نے بیچاری عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا، عورت کے جو فطری فرائض ہیں وہ تو اسی کے کھاتے میں ہیں۔مرد یہ کام نہیں کر سکتا کہ یہ اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ قدرت کی تقسیم تو بالکل فطری ہے کہ گھر کا نظام عورت کی ذمہ داری ہے اور گھر کے باہر کے معاملات کا انتظام مرد کے سپرد ہے۔ یہ قدرت کی تقسیم کار ہے جس میں کوئی حقارت یا عظمت کا پہلو نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغرب نے عورت کو کارخانے اور دفتر میں لا کر اس کے حقوق میں اضافہ کیا یا فرائض میں؟ یعنی مغرب کے مرد نے عورت کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے کہ اس کی کسی ڈیوٹی کو شیئر کیے بغیر اسے اپنے ساتھ اپنی ڈیوٹی میں شامل کر لیا ہے۔ اس کی کسی نیچرل ڈیوٹی میں مرد نے شیئر نہیں کیا اور نہ ہی وہ کر سکتا ہے لیکن اپنی ڈیوٹی میں اسے ساتھ ملا لیا کہ ہمارے ساتھ مل کر کام بھی کرو۔ اور عورت بجائے اس بات کو سمجھنے کے کہ دونوں طرف کی ڈیوٹی میرے کھاتے میں پڑ گئی ہے، اس عنوان پر خوش ہے کہ ہمارے حقوق برابر ہوگئے ہیں۔

 اسلام نے مکمل عائلی قوانین اور عورتوں کے حقوق بیان فرمائیں ہیں جس کا کسی اور دین  یا ازم میں کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ چند نکات درج ذیل میں  بیان کئے جاتے ہیں۔

الله تعالی ہر چیز کاخالق ومالک ہے اور ہر چیز کی طبیعت اور فطرت سے بخوبی آگاہ ہے-اسی لیے اس نے ہر چیز کی طبیعت کے موافق اس کا دائرہ کار متعین کیا ہے-اسلام نے عورت کا جو دائرہ کار مقرر کیا ہے اس میں اگرچہ جتنے بھی شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، وہ نہ صرف اس کے صحیح  مقام کو متعین کرتے ہیں بلکہ اس کو ایک باعزت شخصیت کے روپ میں پیش کرتے ہیں –اسلام نے عورت کے حقوق  وفرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے عورت کے پردے کے احکام،معاملات وغیرہ واضح اندازمیں پیش کیے ہیں-

اسلام نے عورت کو وہ بلند مقام دیا ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب نے نہیں دیا ہے۔دنیا کے مختلف مذاہب اورقوانین کی تعلیمات کا مقابلہ اگر اسلام کے اس  منفرد وممتازکردارسے  کیا جائے، جو اسلام نے عورت کے وقار واعتبار کی بحالی، ا نسانی سماج میں اسے مناسب مقام دلانے، ظالم قوانین، غیر منصفانہ رسم و رواج اور مردوں کی خود پرستی، خود غرضی اور تکبر سے اسے نجات دلانے کے سلسلہ میں انجام دیا ہے، تو معترضین کی آنکھیں کھل جائیں گی۔

 ایک پڑھے لکھےاورحقیقت پسند انسان کو اعتراف و احترام میں سر جھکا دینا پڑیگا۔اسلام میں مسلمان عورت کا مقام بلند اور مؤثر کردار ہے،اور اسے بےشمار  حقوق سے نوازا گیا ہے۔اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا۔ ذلت کے بجائے عزت ورفعت سےسرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ عورتوں کے بارے میں اسلام کے احکام نہایت واضح ہیں۔

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے، اسی طرح انسانیت کی تکوین میں عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے۔

 اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’ولی الامر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔

عورت کی تذلیل کرنے والے زمانۂ جاہلیت کے قدیم رسم و رواج کواسلام نے  باطل کرکے عورت کو عزت بخشی۔

اب ہم ان حقوق کا جائزہ لیتے ہیں جو اسلام نے عورت کو مختلف حیثیتوں میں عطا کیے :

 عورت کے اِنفرادی حقوق

 عصمت و عفت کا حق

اسلام نے قانون کے نفاذ میں بھی عورت کے اس حق کو مستحضر رکھا۔ خلفائے راشدین کا طرز عمل ایسے اقدامات پر مشتمل تھا جن سے نہ صرف عورت کے حق عصمت کو مجروح کرنے والے عوامل کا تدارک ہوا بلکہ عورت کی عصمت و عفت کا تحفظ بھی یقینی ہوا۔

ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔(کنز العمال، 5 : 411)

 عزت اور رازداری کا حق

معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ(القرآن، النور، 24 : 27، 28)

’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کروo اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہےo‘‘

 تعلیم و تربیت کا حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کی۔ اسلامی معاشرے میں یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی شخص لڑکی کو لڑکے سے کم درجہ دے کر اس کی تعلیم و تربیت نظرانداز کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

الرجل تکون له الامة فيعلمها فيحسن تعليمها و يودبها فيحسن ادبها ثم يعتقها فيتزوجها فله اجران.

’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم ہو۔ اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔ پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘(. بخاری)

یعنی ایک اجر تو اس بات کا کہ اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اچھے آداب سکھائے اور دوسرا اجر اس امر کا کہ اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کر لیا اور اس طرح اس کا درجہ بلند کیا۔

حسنِ سلوک کا حق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معاملات میں عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک کی تلقین فرمائی :

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله قال : المرأة کالضلع ان اقمتها کسرتها وان استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عورت پسلی کی مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔‘‘

 ملکیت اور جائیداد کا حق

اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔ وہ نہ صرف خود کماسکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ.( القرآن، النساء، 4 : 32)

’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘


 

خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں  ابلاغ و تبلیغ کی اہمیت پرروشنی ڈالیں؟

خطبہ  حجۃ الوداع کے آخر میں آپﷺ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچادیا ہے؟تو تمام حاضرین نے اقرار کیا کہ بے شک آپ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچادیا ہے۔ حاضرین کے اقرار پرآپﷺ نے اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے فرمایا: اے اللہ، تو گواہ رہنا۔ اس کے بعد آپﷺ نے دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری ہمیشہ کے لیے امتِ محمدیہ ﷺ کو سونپتے ہوئے اس  موقع پر یہ فرمایا کہ

الا لیبلغ الشاھد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعی لہ من بعض من سمعہ۔ (بخاری)

سنو، جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنہوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں۔

اوربعض روایات میں ہے: حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ

ایھا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ھذا بمکانی ھذا فرحم اللہ من سمع مقالتی الیوم فوعاھا فرب حامل فقہ ولا فقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ۔ (دارمی)

اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں۔ پس اللہ اس شخص پر رحمت کرے جس نے آج کے دن میری باتیں سنیں اور انہیں یاد کیا، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سمجھ داری کی باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن انہیں ان کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ اور بہت سے لوگ سمجھ داری کی باتوں کو یاد کر کے ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔

رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حجۃ الوداع کے دن جو ذمہ داری سونپی تھی، اس ذمہ داری کو انہوں نے ا خلاص اور تندہی کے ساتھ ادا کیا اور زندگی کے آخری لمحات میں بھی ان کواگر کوئی فکر تھی تو یہی تھی کہ وہ دین کی کوئی بات دوسروں تک پہنچا سکیں۔دعوت وتبلیغ کے مشن سے یہی وہ لگن تھی جس کی بدولت عہدِ صحابہ ؓمیں اسلام بڑی تیزی اور کثرت کے ساتھ پھیلا۔اب ہر دور کے علماء وصلحاء کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام کی دعوت کو عام کریں۔

 کیونکہ اسلام دعوت اور اجتماعیت کا دین ہے، اسے دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کے ذمے ہے۔ دین کی کوئی بات علم اور سمجھ میں آئے اسے آگے پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، خود عمل کر کے مطمئن ہو جانا کافی نہیں ہے۔ اور اس کا سب سے پہلا اور بنیادی دائرہ گھر کا ہے۔ قرآن کریم نے اس کا پہلا دائرہ یہ بیان فرمایا کہ

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (تحریم:6)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں‘‘۔

ختم نبوت کا اعلان

نبی کریم نے اس موقع پر ایک اعلان یہ فرمایا کہ

ایھا الناس لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بھا انفسکم واطیعوا ولاۃ امرکم تدخلوا جنۃ ربکم۔ (مسند الشامیین)

’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں۔ پس اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘

میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد قیامت تک کوئی نہیں آئے گا۔ اور تم انبیا کی امت میں سے آخری امت ہو ، تمہارے بعد اب کوئی امت نہیں ہوگی۔ رسول اللہﷺ نے اس کو بنیادی عقیدہ قرار دیا۔ عقیدۂ ختم نبوت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد قیامت تک کسی پر نئی وحی ، نئی نبوت نہیں آئے گی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی یہ اعلان فرمایا گیا اور دیگر بہت سے ارشادات میں نبی کریمﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ میرے بعد قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ اور تکمیل دین کا معنی ہی یہ ہے۔ فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے تمہارے لیے دین مکمل کر دیا اور تمہارے لیے نعمت تمام کر دی۔ اس کے بعد اب کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی، اور وہی وحی قیامت تک حجت ہے۔

دین کی بات دوسروں تک پہنچانا

جناب نبی کریمﷺ نے ہمیں ہدایات دی ہیں، ہمیں اپنی معاشرتی، انفرادی، اجتماعی زندگیاں گزارنے کے اصول بتائے ہیں، طریقے سمجھائے ہیں، سلیقے سکھائے ہیں۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے ایک بات یہ بتائی کہ میں جو کچھ تم سے کہہ رہا ہوں، یہ تم تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ انہیں ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں ہیں۔

قرآن و سنت کی پناہ گاہ

اس پر نبی کریمﷺ نے ایک اصولی بات فرمائی۔ میں نے اب تک حجۃ الوداع کے موقع پر آپﷺ کے ارشادات بارے میں جو گفتگو کی ہے، اس کا خلاصہ اس ایک جملہ میں آگیا ہے۔ حضورﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں ہمیں دیگر بہت سی نصیحتیں اور تلقینات فرمائیں، وہاں یہ فرمایا کہ

یا ایھا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ ﷺ۔ (مستدرک حاکم)

’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر ﷺ کی سنت۔‘‘

دعوتِ دین کا مفہوم:

دعوتِ دین کا مطلب ہے کہ اللہ عزوجل نے گناہ نیکی اور خیرو بھلائی کی جو چیزیں بتلائی ہیں ان کے بارے نوع انسانی کو آگاہ کرنا، برُے کاموں سے بچنے کی تلقین کرنا اور نیکی کا حکم دینا۔دعوتِ اسلام کا مطلب ہوا آنحضرتﷺکا پیغام اور اسلام کی دعوت تمام نوعِ انسانی تک پہنچانا جسے عام الفاظ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے جب سب سے پہلی دعوت دی تو یہ کہہ کر مخاطب ہوئے کہ

    یا ایھا النّاس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا۔ (مسند احمد، رقم ۱۵۴۴۸)

اے لوگو ! کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، تم کامیاب ہو جاؤ گے۔

دعوتِ دین کی اہمیت

دینِ اسلام کی دعوت دینا یقینا بہت اہم ذمہ داری ہے اور اس سے وابستہ اہل ایمان کثیر فضائل وامتیازات کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی سے دین کی بقا ہے۔ اسی سے امتِ مسلمہ کا قرار ہے اور اسی سے عظمتِ رفتہ کا حصول ممکن ہو سکتا ہے۔

دعوتِ دین ہی کے ذریعہ لوگوں کو اخلاقِ حسنہ کا پیکر بنایا جاسکتا ہے، اسی کے ذریعہ سے فتنہ وفساد کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے اور اس کی بدولت دنیا کو امن کا سکون و گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ اجتماعی و انفرادی معاملات کی درستگی اسی دعوت پر منحصر ہے۔ اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی امور کی اصلاح و بہتری بھی اسی طریق سے ممکن ہے۔ دعوتِ دین کی ضرورت و اہمیت بارے ذیل میں چند امور کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

ربانی عمل:

اس عظیم عمل کی اہمیت کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دعوت دینا ربانی عمل ہے۔ خود پرورگار عالم نے اپنی مخلوق کو حصول جنت کی دعوت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(یونس)

اللہ تمہیں سلامتی والے گھر کی دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق سے نوازتا ہے۔

قرآن کریم مکمل کا مکمل اللہ عزوجل کی طرف سے حصول جنت کا دعوت نامہ ہے اور یہ تمام کا تمام حصول جنت کے بارے آگہی پر مشتمل ہے۔

شیوہ پیغمبری:

دعوت الی اللہ نوعِ انسانی میں سے اللہ عزوجل کی سب سے معزز ہستیوں انبیاء ورسل کا راستہ ہے۔ تمام انبیائے کرام نے یہی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ(النحل)

ہم نے ہر امت میں پیغمبر بھیجے کہ لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔

تمام انبیاء ورسل میں سے اولوالعزم پیغمبر حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمد مصطفیﷺ بھی یہی اہم فریضہ ادا کرتے رہے۔ نبیِ کریم رسولِ معظم جناب رسالت مآبe بھی اسی عظیم مشن کی تکمیل وتبلیغ پر گامزن رہے، جس کی گواہی قرآن کریم یوں سے دیتا ہے۔قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ(یوسف)

آپ کہہ دیجئے کہ میری راہ یہی ہے، میں تمہیں اللہ کی دعوت دیتا ہوں۔

بہترین قول وعمل:

دعوتِ دین دینے والے باعمل داعی کی بات سب سے اچھی اور افضل ہوتی جس کی ضمانت اللہ عزوجل نے اس طرح سے دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(فصلت)

اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام قرطبی نے امام حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت ہر اس مسلمان کو شامل ہے جو دعوت دین کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

بہترین امت کا اعزاز:

سابقہ امتوں میں صرف پیغمبر ہی پیغام ربانی لوگوں تک پہنچانے کے پابند ہوا کرتے تھے، دینِ اسلام کیونکہ آخری الہامی دین ہے اس لیے آنحضرتe کے بعد تبلیغ دین کی ذمہ داری امتِ مسلمہ کے کندھوں پر ڈالی گئی اور یہی چیز وجہ فضیلت اور بہترین امت ہونے کا سبب قرار دی گئی۔ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(آل عمران)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں آنحضرت سے مروی ہے کہ تم ہی اللہ عزوجل کے ہاں سب سے بہتر اور سب سے بڑھ کر قابل تکریم ہو۔(سنن الترمذی)

امت میں سے جو بھی ایمان لانے کے ساتھ ساتھ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ سرانجام دے گا وہ اس فضیلت کا حامل ہوگا اور خیر امت کا فرد ہوگا۔

نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ:

جس کی دعوت پر کوئی بھی نیکی کا عمل شروع کرتا ہے تو دونوں ثواب میں برابر ہیں اور یوں جتنے بھی اس کی دعوت پر نیک عمل سرانجام دیں گے سب کا اسے بھی اجرو ثواب ملتا رہے گا، داعی اعظم جناب محمد رسول اللہe کا فرمان ذی شان ہے۔

مَنْ دَلَّ عَلَی خَیْرٍ فَلَہُ مِثْلُ أَجْرِفَاعِلِہِ(مسلم )

جو بھی بھلائی کی رہنمائی کرتا ہے اسے بھی عمل کرنے والے کی طرح ثواب ملتا ہے۔

اسی طرح سے آنحضرت کا فرمان ہے:

مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْأجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مِنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِھِمْ شَیْأً(صحیح مسلم)

جو بھی کسی کو ہدایت کی دعوت دیتا ہے اسے بھی ہدایت اختیار کرنے والوں کے برابر ثواب ملتا ہے اور کسی کے ثواب میں کمی بھی نہیں ہوتی۔

جو بھی امتی اس فریضہ کو ادا کرے گا وہ خیر الناس میں بھی شمار ہوگا اور اس کی وجہ سے عمل کرنے والوں کے برابر اسے اجرو ثواب سے بھی ملتا رہے گا اور یوں نیکیوں کا سلسلہ آگے سے آگے تا قیامت جاری رہے گا۔

فلاح و کامیابی کا راستہ:

دعوتِ دین کے مشن پر گامزن مسلمان دنیا وآخرت میں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے جس کی ضمانت خود رب رحمان دیتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(آل عمران)

 

تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضروری ہونے چاہیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

کوئی آیت یاحدیث آگے کسی کو سنانا بھی دعوت دین ہی کا ایک انداز ہے اور ایسا کرنے والے بھی اس دعائے نبوی کے حقدار ہیں۔ جس مسلمان کی زندگی ہی دین کی نشرو اشاعت کے لیے وقف ہے اس کے تو کیا ہی کہنے۔وباللہ التوفیق

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post