میرزا ادیب

 

اسٹیج پر رات کے ابتدائی آثار ۔وسط میں ایک صوفہ جس میں ماں بیٹھی ہے۔

ماں کے ایک ہاتھ میں ایک لفافہ ہے اور وہ دو پٹے کے دامن سے آنسو خشک کررہی ہے۔

ہمسائی نزہت آتی ہے۔

دونوں عورتوں کے عام لباس میں ملبوس شلوار قمیص اور دوپٹہ۔ نزہت بائیں دروازے میں سے داخل ہوکرآگے بڑھ رہی ہے۔ ماں کو اس کے آنے کی خبر نہیں ہوتی وہ متواتر آنسو بہارہی ہے۔ نزہت ماں کے پاس آکر رک جاتی ہے۔

نزہت: خالہ جان!

ماں : کون ؟ نزہت ہے؟

نزہت: جی خالہ جان،

ماں: کیسے آئیں؟ بیٹھ جاؤ (نزہت ماں کے پہلو میں بیٹھ جاتی ہے)

نزہت: جی ویسے ہی۔ کوئی بات نہیں۔

ماں: نزہت کچھ چھپارہی ہو۔کچھ کہنا چاہتی تھٰیں مگر اب کہہ نہیں رہی۔کیابات ہے؟

نزہت: خالہ جان وہ۔۔۔۔خیر۔۔۔۔آپ روکیوں رہی ہیں؟

ماں: مجھے اپنا عمران یاد آگیا۔ تم آج اپنے بھائی کی سالگرہ کررہی ہوناً

نزہت: میں یہی پوچھنے آئی تھی کہ سالگرہ کا دعوت نامہ آپ کو مل گیا ہے یا نہیں۔

ماں: نہیں نزہت۔

نزہت: امی نے اگر مجھے دوبارہ بھیجا تو ۔۔۔

ماں: نہیں بھیجیں گی ۔ جاؤ نزہت : میری طرف سے تمہاری امی کو مبارک باد دینا۔ اللہ بچے کی عمردراز کرے۔خوش رہے سدا۔

نزہت آہستہ آہستہ اٹھتی ہے اور بائیں طرف جانے لگتی ہے۔ جب وہ دروازے میں سے نکل جاتی ہے  تو اسٹیج کی روشنی مدھم ہوجاتی ہے۔

ماں: یہ ہے دعوت نامہ ۔تمہیں اپنے بھائی کی سالگرہ بہت بہت مبارک۔میرا عمران زندہ ہوتا تو میں آج اس کی بھی سالگرہ مناتی ۔چھ سال تک باقاعدہ اس کی سالگرہ منائی۔ پچھلے سال ہی کا تو ذکر ہے کتنی دھوم دھام سے اس کی سالگرہ منائی تھی۔سارے عزیز رشتہ دار دعوت میں شامل ہوئے تھے۔ تمہیں یاد ہے نا نزہت۔

نزہت: یاد ہے خالہ جان۔

ماں:اس روز اور وہ آج ہی کا تودن تھا ۔

نزہت: جمعہ کا دن تھا۔مجھے معلوم ہے آپ کا عمران اورہمارا مقصود ایک ہی روز پیدا ہوئے تھے۔

ماں:اس روز ہم سارا دن مصروف  رہے تھے۔

نزہت:مصروف نہ رہتے تو سالگرہ اس قدر دھوم دھام سے کیوں  کرمنائی  جاتی!

ماں: سالگرہ کی تیاریوں میں خودبھی شریک رہاتھا۔

نزہت:ہربچے کو اپنی سالگرہ کا شوق ہوتا ہے۔

ماں:افسوس اپنی ساتویں سالگرہ منانی نصیب نہ ہوئی۔

نزہت: اللہ کو یہی منظور تھا خالہ جان! صبر کیجئے۔

ماں:کیسے صبر کروں۔

نزہت: انسان کو صبر کرنا ہی پڑتاہے۔زندگی اورموت اللہ کے اختیار میں ۃے۔

ماں: یہ دکھ دورنہیں ہوتا۔

نزہت:خالہ جان! چھوٹا منہ بڑی بات۔معاف کیجئے گا مگر یہ بات ضرور کہوں گی کہ دکھ درد انسان کے اپنے بس میں نہیں۔

ماں:نہیں انسان کے  بس میں یہ بات نہیں (ماں آنچل سے گالوں پر بہتے ہوئے آنسو) خشک کرتی ہے) جاؤ نزہت! تمہارے بھائی کی سالگرہ ہونے والی ہے ۔ مہمان آگئے ہیں!

نزہت:ابھی نہیں آئے۔

ماں:تم پوچھنے آئی ہوکہ میں آسکوں گی یا نہیں؟

نزہت:اگرآپ شامل ہوں تو یہ ہماری خوش قسمتی ہوگی۔

ماں: نہیں نزہت! میں تو کسی تقریب میں بھی شریک نہیں ہوتی۔وہاں جاؤ گی تمہارے بھائی کی سالگرہ میں تو عمران زیادہ یاد آئے گا۔اپنی امی سے میری طرف سے معذرت کردینا۔

نزہت:امی نے مجھے تاکید کی تھی کہ آپ کو ضرور لاؤں۔ اصرارکرکے لاؤں۔خالہ جان رونق میں آپ کا غم دور ہوجائے گا۔انشاء اللہ چلئے تیار ہوجائیے۔

ہلکی ہلکی موسیقی۔

ماں کو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا سر صوفے کے ساتھ لگ گیاہے اوراس کی آنکھیں بند ہوگئی ہیں۔

اسٹیج پر خاص مدھم روشنی ہے۔ فضا کے مخصوص تاثر کو قائم کرنے کے لئے موسیقی سے کام لیاجاتاہے۔

ہم چند لمحے ماں کی بند آنکھیں دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ اٹھتی ہے ۔ادھر ادھر دیکھتی ہے۔ اورایک طرف قدم اٹھانے لگتی ہے۔

اسٹیج کے دائیں حصے میں کچھ لڑکے۔

اگرممکن ہوتو ان کے کرتے اورپاجامے سبزرنگ میں رنگے ہوئے ہوں ہرلڑکے کے ہاتھ میں جلتا ہوا ایک دیا ہو۔

ماں ایک ایسی جگہ کھڑی ہے جہاں وہ ناظرین اورلڑکوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ لڑکوں سے الگ ہٹ کر کھڑی ہے۔ لڑکے دائیں طرف سے آتے ہوئے بائیں طرف جائیں گے۔

وقفہ

سارے لڑکے دائیں دروازے سے نکل گئے ہیں۔

ماں وہیں کھڑی ہے۔

ادھر سے ایک لڑکا آتاہے ۔اس کے ہاتھ میں بھی دیا ہے مگر یہ دیا بجھا ہوا ہے۔اور وہ بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھارہاہے ہے۔

ماں اسے پہچان کر بڑی تیزی سے اس کی طرف جاتی ہے۔

ماں :عمران! میرے بچے میری جان مجھے چھوڑکر کہاآگئے ہو!

عمران رک جاتاہے۔

(عمران کوئی جواب نہیں دیتا۔ ماں کو دیکھنے لگتاہے)

بیٹا: میں تیری جدائی میں بے قرار رہتی ہوں اوراشکوں کے ہارپروتی رہتی ہوں۔

(عمران اب کے بھی کوئی بات نہیں کہتا)

تم نے تو بیٹا اپنی ماں کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کی کیاتمہیں اپنی ماں کی بے قراری کا کوئی خیال نہیں ہے!

عمران منہ پھیرلیتاہے اورجب بولتاہے تو رک رک کربولتاہے۔

عمران: امی

ماں: میرے بچے۔میرے لعل۔

عمران: آپ کو میری جدائی رلاتی ہے مگر امی آپ میرے لئے جو آنسو بہاتی رہتی ہیں  تو یہ اچھا نہیں کرتی۔

(عمران خاموش ہوجاتاہے)

ماں : چپ کیوں ہوگئے بیٹا

(عمران منہ پھیرکرماں کو دیکھتاہے)

عمران:امی

ماں:عمران

عمران: آپ میرے ہاتھ میں یہ دیا دیکھ رہی ہیں نا۔

ماں: دیکھ رہی ہوں میرے بچے۔

عمران: آپ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ جلتا کیوں نہیں ۔امی۔اسے آپ کے آنسوؤں نے بجھادیا ہے۔

(اسٹیج پر ایک دم اندھیرا چھاجاتاہے ۔اورجب لائٹ واپس آتی ہے تو ہم ماں کو صوفے پر دیکھتے ہیں۔

اس کا سر صوفے کی دیوار سے لگا ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ ایک وہ اٹھ بیٹھتی ہے اورپریشان سی ادھر ادھر دیکھتی ہے۔

(نزہت آتی ہے)

نزہت: خالہ جان۔ وہی ہوا نا۔امی نے کہا ہےکہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ رونق میں آپ کا جی بہل جائے گا۔

(ماں کوئی جواب نہیں دیتی)

نزہت: خالہ جان

ماں :نزہت میں اب اپنے عمران کی جدائی میں رونا دھونا بند کردوں گی اب میں کبھی نہیں روؤں گی اورتمہارے بھائی کی سالگرہ میں ضرور شامل ہوں گی۔

نزہت: (خوش ہوکر) خالہ جان!

ماں: تم بیٹھو!ابھی تیارہوجاتی ہوں۔

(نزہت ماں کو مسرت انگیز نظروں سے دیکھ رہی ہے کہ پردہ گرتاہے)

اب یہاں نظم پیش خدمت ہے

 بانگ درا (ماخو ذ بچوں کے ليے)

ایک ماں جس کے کم سن بچے کا انتقال  ہوگیا تھا وہ اپنا خواب بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ رات کو سوتے ہوئے وہ کیا دیکھتی ہوں جس سے  اس کے اندر بے چینی بڑھ گئی ۔

 

میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب

بڑھا اور جس سے مرا اضطراب

 

یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں

اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں

 

لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال

قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال

 

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی

تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی

 

زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے

دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے

 

وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں

خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں

 

اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر

مجھے اس جماعت میں آیا نظر

 

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا

دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا

 

کہا میں نے پہچان کر میری جاں

مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں

 

جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار

پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار

 

نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی

گئے چھوڑ اچھی وفا تم نے کی

 

جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب

دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب

 

رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری

نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری

 

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا

دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا

 

سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟

ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے!

 

اس نظم میں بچوں اور بڑوں سب کے لئے پیغام ہےجس کا وقت آگیا اسے اس دنیا سے جانا ہے، کسی عزیز کا انتقال اس کے لواحقین کے لیئے واقعی بہت بڑ ا سانحہ ہوتا ہے، جس پہ گزرتی ہے صرف وہی جانتا ہے کہ کسی عزیز کے اس دنیا سے چلے جانے کا کتنا دکھ ہوتا ہے، انسان جذباتی ہے ایسے موقعوں پر رونا آہی جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب جانے والے کے لیئے صرف رونا ہی جاری رکھا جائے بلکہ اس کے ایصالِ ثواب کے لیئے نیک اعمال کیئے جائیں تاکہ اس کے ہاتھ کا دیا روشن رہے

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post