عیدالفطر

لغوی اعتبار سے عید  کے معنی  لوٹ پلٹ کرآنے والاہے۔یوم  عید کو اسی مناسبت سے عیدکہتے ہیں کہ یہ ہر سال  خوشیوں کے ساتھ لوٹتی ہے۔ ہر سال عید کے موقع پر اللہ اپنے بندوں پر انعامات کا اعادہ فرماتا ہے کیونکہ انعامات کا اعادہ ہر سال ہوتاہے اس لئے اس روز کانام یوم عید ہوگیا اوریہ بھی لکھا ہے اہل لغت نے کہ عید کے روز کو یوم جائزہ کہا گیاہے اور یہ اہل ایمان کے لئے یوم جائزہ ہے ورنہ لغوی اعتبار سے تو یہ صرف لو ٹ پلٹ کے آنے والادن ہے۔

ایک عربی شعر  ہے:

لیس العید لمن لبس الجدید

ولکن العید لمن خاف الوعید

اس کا مفہوم ہے عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہنے بلکہ عید اس کی جو وعید سے ڈرگیا۔اور اسی شخص کے لئے جو اپنے رب سے ڈرگیا دوجنتیں ہیں۔ یہی پیغام  رمضان المبارک  بھی ہمیں دیتا ہے کہ اگراس ماہ مبارک میں جس نے عبادت واستغفارسے خود کوگناہوں سے پاک کرلیا وہ مبارک باد کا مستحق ہے  اسی کے لئے آج کا یہ  دن خوشیوں کا دن ہے۔

اور اس کے برعکس  ہو اوراگرتم نے ماہ رمضان میں کوشش نہیں کی اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنے کی تو تم نے کوشش نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ بخشوانے کی ہم نے کوشش نہیں کی اللہ سے اپنی مغفرت اوربخشش کا راستہ اختیارکرنے کی اورتم نے کوشش نہیں کی اللہ تعالیٰ سے جنت کے حصول کی تو پھر تمہارے لئے

عیدالفطر اسلامی تاریخ میں وہ دن ہے جب حضور اکرمﷺ میدان بدر سے کامیاب ہو کر واپس مدینہ تشریف لائے یہ مسلمانوں کی پہلی عید کا دن تھا اور اس دن مسلمانوں کی خوشیاں دوبالا تھیں ایک خوشی ماہ صیام کے آنے کی اوربخیروعافیت گزرنے کی اور دوسر ی خوشی اس ماہ مبارک میں بدر می
ں فتح مبین حاصل ہونے کی۔ حضرت انس﷜ فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم ﷺ مدینے طیبہ تشریف لائے ہجرت فرماکہ تو یہاں مدینے میں اسلام سے پہلے بھی لوگ تہوارمناتے تھے خوشی کا دن مناتے تھے ۔ سنن ابو داؤد میں ہے حضور مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو تہوار تھے۔ دو دن تھے جس میں یہ خوشی مناتے ،اچھل کود کرتے تھے اور اس خوشی میں اچھل کود ہی ہوتی تھی۔ حضور اکرم ﷺنے دریافت فرمایا کہ یہ کیسے دو دن ہیں جس میں یہاں کے لوگوں کی اچھل کود بڑھ گئی ہے ۔ جو مسلمان تھے اورمدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ یہ وہ دو دن ہیں کہ اسلام سے پہلے جب ہم جاہلیت میں تھے توان دنوں میں اچھل کود کرخوشی مناتے تھے۔ تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں ان سے بہتر دودن تمہیں عطاکردیئے ہیں ۔ خوشی منانے کے ان میں سے ایک یوم الضحیٰ یوم قربانی ہے اور دوسرا یوم الفطر ہے چنانچہ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے یہ دودن عطاہوئے کیونکہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا اللہ نے تمہارے یہ دودن ان دنوں کے ساتھ تبدیل کردیئے اورعید الفطر ہو یا عید الاضحی یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جاہلیت میں لوگ اچھل کود کرکے خوشی مناتے تھے آج بھی جو جاہل ہوتے ہیں وہ اچھل کود کوہی خوشی خیال کرتے ہیں اورجاہلیت کے بعد جب اسلام آیا تو اس نے یہ کہا یہ اچھلنا کودناخوشی نہیں ہے بلکہ خوشی یہ ہے کہ جب تمہیں اللہ کی طرف سے کوئی انعام ملے یا احسان یا کوئی اللہ کا فضل ہوجائے وہ فضل رزق کی صورت میں ہو وہ اولاد کی صورت میں ہو یا مال دولت کی صورت میں ہو وہ عزت و آبرو کی صور ت میں ہو وہ مرتبہ و مقام کی صورت میں ہو تو اس کی خوشی منانے کا طریقہ کیاہے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاؤ اچھل کود کرنے کے بجائے جھک جاؤ تو آج ہم اللہ کی بارگاہ میں جھکنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔

آپ دیکھیں کہ کتنا شاندارنظام ہے اسلام کاکہ رمضان کا اختتام ہوا رمضان میں جو عبادات ہوئیں جو اللہ کی برکتیں نازل ہوئیں ان پر اظہار مسرت کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکراداکرنے کے لئے اگلے ہی روز رمضان مبارک کے آخری دن کے اگلے روز پہلے کام جو مسلمان علی الصبح کرتے ہیں وہ کیا ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں جھکنے کے لئے عید گاہ میں آجاتے ہیں اورہمارے لئے خوشیاں بھی اللہ کی بارگاہ میں جھک کر ہیں اورغم بھی یہ ہے کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں اس وقت بھی جھک جاتے ہیں تو اللہ نے ہمیں دو مواقع کے لئے ایک ضابطہ ،طریقہ قاعدہ عطافرما دیا اب اگر کوئی اللہ کے طریقے کو چھوڑ کر چلے تو وہ اپنے معاملات کا خود ذمہ دار ہے اورآج کا دن یوم جائزہ ہے اورجائزہ کے معنی انعام کے ہوتے ہیں اورانعام کے لئے اللہ کی بارگاہ میں اہل ایمان ،مسلمان حاضر ہوتے ہیں اور وہ انعام وہ جائزہ جو اللہ کی طرف سے عطاکیا جاتا ہے وہ ان کی عبادات پر ہے۔ جوماہ صیام میں اہل ایمان نے اداکی اوراگرماہ صیام میں کوئی عبادت نہیں کی اورانعام لینے کے لئے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوجائے تو اللہ جو بخشنے والا ہے رحمن ہے ،رحیم ہے ،کریم ہے اس کی شان سے تو اس بات کی توقع ہے کہ وہ ایسے بندوں کو بھی بخش دے جو ماہ صیام میں عبادات نہ کرپائے ہوں اور نادم ہوں اور ندامت کے اللہ کی بارگاہ میں جھکنے کے لئے آئے ہوں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عید انھی لوگوں کی ہے جنھوں نے ماہِ صیام اللہ کی اطاعت اور اہل اللہ کی فرمانبرداری میں گزارا ہو ۔

وھب بن منبہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی تو وہ یکم شوال تھا یعنی عید الفطر کا دن ، چونکہ جنت میں اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمتیں رکھیں تو جنت کو اللہ تعالیٰ نے بڑا مرصع کیا ہے خوبصورت بنایا ہے سجایا ہے تو آج کے دن اللہ تعالیٰ سے وہ جنت مانگنے کی بھی ضرورت ہے جو جنت اہل ایمان کے لئے سجائی گئی ۔ حضرت ابن عباس ﷠فرماتے ہیں کہ رسول مقبول ؐ نے فرمایا کہ عید کی صبح فرشتے زمین پرپھیل جاتے ہیں اللہ کے حکم سے کیونکہ اللہ کا حکم ہوتاہے کہ زمین میں پھیل جاؤ اور وہ فرشتے زمیں میں پھیل کردیکھتے ہیں کہ اللہ کے بندے عید کی صبح کیا کررہے ہیں پھر وہ فرشتے روئے زمین کا جائزہ لینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتاہے کہ میرے فرشتوں تم نے میرے بندوں کو کس حال میں پایا ؟ تو وہ عرض کرتے ہیں کہ اے رب العالمین ہم گئے تو ہم نے دیکھا کہ وہ تیری بخشش اورمغفرت مانگ رہے ہیں اورایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ وہ فرشتے روئے زمین پر آکر اعلان بھی کرتے ہیں،ندابھی کرتے ہیں ، کہ اے اللہ کے بندوں! آج اللہ سے بخشش اورمغفرت مانگنے کا دن ہے آؤ اللہ کی بارگاہ میں بخشش اور مغفرت لینے کے لئے اورآؤ اللہ تعالیٰ سے ثواب اوراجر عظیم پانے کے لئے اور آؤ اللہ تعالیٰ سے ثواب اوراجر وجزا پانے کے لئے ان اعمال پر جو ماہ صیام میں تم نے انجام دیئے اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو بلاکرپوچھتے ہیں کہ بتاؤ ایسے مزدور کی اجرت جو اپناکام پوراکردے کیاہے؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں یارب العالمین جس مزدور نے اپنا کام پوراکردیا ہو اس کو اس کی پوری پوری اجرت ادا کی جانی چاہئے رب العالمین فرماتے ہیں کہ اے فرشتوں! گواہ ہوجاؤ میں نے ان تمام بندوں کوبخش دیا اوران کو اپنی بخشش اورمغفرت عطافرمادی بندے اگر آخرت مانگیں تو وہ بھی انہیں عطاکروں گااور دنیا میں اجرمانگیں اورکہیں کہ:

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ:٢٠١)تو وہ بھی ان کو دیا تو اس طرح اللہ تعالیٰ کافضل احسان عید الفطر کے موقع پر اہل ایمان پر ہوتا ہے اوراللہ فرماتاہے اے لوگوجوایمان لائے ،مجھے راضی کیا میں تم سے راضی ہوں فرشتے اس خوشخبری کو زمین میں سناتے پھرتے ہیں جس سے دلوں کے اندر خوشی کی ایک لہر اٹھتی ہے اورانسان عید کی خوشیاں اور مسرتیں محسوس کرتاہے اورجب فرشتے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ جو مزدور مزدوری پورے کرچکے ہوں ان کو ان کا پوراپورا اجر دے دیا جائے تو اللہ تعالیٰ بھی فرشتوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ اس مزدور کا اجرکیاہے جس نے اپنی مزدوری پوری کردی ہو اب جس نے مزدوری کی ہی نہیں ہو آپ نے اپنے گھر پر مزدور لگائے کام کے لئے اورآپ نے ان سے کہا کہ شام کو جب کام ختم ہوجائے تو آنا آکر اپنی مزدوری اوراجرت لے جانا ۔ شام کو لوگ آپ کے پاس اجرت لینے کے لئے آئے تو وہ ١٠ کے بجائے وہ سوتھے۔ توآپ حیران ہوں گے کہ میں نے تو ١٠ آدمی کو کام پر لگایاتھا یہ ١٠٠ آدمی کہاں سے آئے ۔ بھئی جن ١٠ آدمیوں نے کام کیاہے وہ ہاتھ کھڑے کرو اور سامنے آجاؤ وہ ١٠ آدمی ایک طرف ہوجائیں اورباقی ٩٠ ایک طرف کھڑے ہوں توآپ ان سے پوچھ سکتے ہیں نہ کہ تم کیسے آئے؟ وہ کہیں جناب کام تو انھوں نے کیا اورکام ختم کرنے کے بعد یہ منہ ہاتھ دھورہے تھے تو ہم نے سوچاکہ ہم بھی منہ ہاتھ دھو کہ ان کے ساتھ ہولیں تو ہم بھی اجرت لینے کے لئے آگئے ہیں تو آپ ٩٠ کو نہیں دیتے صرف ١٠ ہی کو دیتے ہیں چاہے انہوں نے کپڑے اچھے پہنے ہوں ،خوشبو لگارکھی ہو تو اجرت اور مزدوری توآدمی اس کو دیتاہے جس نے کام کیاہو اور اللہ نے فرمایا کہ جس مزدور نے کام پوراکردیا ہو تو فرشتوں بتاؤ اس کا اجر کیاہے؟ مگرہم اللہ سے اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ عمل کو دیکھاجائے تو ہم سب نکمے اورناکارہ ہیں ہم نے جو عمل کیا وہ کامل نہیں ناقص ہے اللہ کے فضل سے کرم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ جن لوگوں کو وہ آج بخشش اورمغفرت عطافرمائے گا تو ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے صدقے سے ہمیں بھی بخش دے گا اور معاف کردے گا تو اس امید کے ساتھ آج اللہ کی بارگاہ میں حاضرہیں اور اللہ کے حبیب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نماز فطر اداکرنے ،جائزہ پانے ،انعام خاص پانے بخشش پانے اللہ سے اس کی جنت مانگنے کے لئے اللہ کے گھر میں اس کی بارگاہ میں ہم سب شامل اورحاضر ہیں حضرت علی﷜ عید کے روز اپنے سامنے خشک روٹی اوروہ بھی بھوسی کی رکھ کر بیٹھے تھے ایک سائل آیا اورا س نے کہا اے علی آج عید کا دن ہے اور عید کے دن لوگ اچھے پکوان تیارکرتے ہیں اورآپ اپنے سامنے بھوسی کی خشک روٹی رکھ کر بیٹھے ہیں توکیابات ہے آپ عید کے پکوان عید کی خوشیاں آپ کے یہاں کیوں نظرنہیں آرہیں تو آپ نے فرمایا عید اس کی جس کا عمل مقبول ہو گیا مجھے نہیں پتا کہ میراعمل اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہواہے یانہیں ۔ جس علی مرتضیٰ﷜ جیسے جلیل القدر صحابی کی عاجزی وانکساری کا یہ عالم ہے توہماشما۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا فیض اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں ماہ صیام میسر فرمایا اور اس ماہ صیام میں اس نے ہم میں سے جس کو جتنی ہمت اور توفیق دی اور جس جس نے جتنی کوشش کرلی اوراللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اس ماہ ساعتوں کو غنیمت جانا وہ اتنا ہی خوش نصیب ہے۔ امتوں کی عیدوں کا تذکرہ قرآن میں ہے ایک ملت ابراہیمی کی عید کا ذکر اورملت ابراہیم کی عید وہ ہے جو حضرت ابراہیم نے یہ کہا کہ ''جب وہ موقعہ آیا کہ آپ بت خانے میں داخل ہوگئے قوم جو حضرت ابراہیم﷤ کے دور میں تھی وہ اپنے تہوار میں شرکت کے لئے جارہے تھے ان سے کہا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں تو انہوں نے کہا میری طبعیت ذراٹھیک نہیں ہے اور آپ ﷤رک گئے اورآپ نے بت خانے میں جاکر تمام بتوں کو توڑناشروع کردیا اور پھر ایک کلہاڑا ایک بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا تو جب قوم کے لوگ واپس آئے اپنے تہوار سے تو جو مکالمہ اورگفتگو ہوئی وہ تمام قرآن پاک میں بیان کی گئی ہے تو وہ ایک عید ہے حضرت ابراہیم کے دور کے لوگوں کی جس عید کا ذکر قرآن پاک میں بیان کیاگیاہے ۔

دوسری عید وہ ہے جو حضرت موسیٰ ﷤کی امت کی عید ہے اور جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

 قَالَ مَوْعِدُكُمْ یَوْمُ الزِّیْنَةِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى(۵۹)ہ۔

موسیٰ نے فرمایا: تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کرلئے جائیں ۔

 تمہارے لئے دن مقرر ہے زینت کا اورزینت کا دن کونسا جب جادوگروں سے مقابلہ ہوا اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے اس میں فتح عطاکی وہ دن حضرت موسیٰ کی امت کے لئے عید کا دن قرارپایا ۔ تیسری عید جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے وہ حضرت عیسیٰ کی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا۔

قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ ٱللَّهُمَّ رَبَّنَآ أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ ٱلسَّمَآءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَءَاخِرِنَا وَءَايَةً مِّنكَ ۖ وَٱرْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ ٱلرَّٰزِقِينَ(المائدۃ :114)

''اے اللہ ہم کو آسمان سے دسترخوان نازل فرما اوروہ ایسادسترخوان ہو جو ہمارے لئے خوشی کاباعث بنے عید ہو ہم سب کے لئے مسرت اور خوشی کا لانے والا ہو اور تیری طرف سے ایک معجزہ ہو۔ تو وہ دن دسترخوان نازل ہونے کا دن تھا وہ ملت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے عید کا دن تھا یہ قرآن حکیم نے بتایا اورچوتھی عید وہ ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا''قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا'' کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو پاک صاف کرلیا جس نے تزکیہئ نفس کرلیا اورجس نے تقویٰ اورپرہیز گاری کو اختیار کرلیا تو آج کادن متقین کے لیے عید کا دن ہے بعض حضرت یہ خیال کرتے ہیں کہ عید کے موقع پرفرض کریں اگرجانوں کا ضیاع ہوگیا یاکوئی ایکسیڈنٹ ہوگیا یاکوئی بم دھماکہ ہو گیا کئی مسلمان شہادتوں کے مرحلے سے گزرگئے تو آج کا نوجوان آج کا مسلمان کہتا ہے ہماری کونسی عید ہے؟ تو بات یہ ہے کہ عید کا تعلق ان سے نہیں یہ معاملات تو پہلے بھی ہوتے رہے اور میں نے یہ عرض کیا ہے کہ پہلے ہی عید مسلمانوں کی وہ ہے کہ عید آنے والی ہے رمضان المبارک کا مہینہ ہے اورحضورﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بدر کی طرف تشریف لے جارہے ہیں اور١٧ رمضان المبارک کو بدر کا واقعہ پیش آیاجس میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی کفار اس کے مقابلے میں بہت زیادہ تھے مگر اس کے باوجود مسلمان مظفر و منظور ہوئے اللہ نے ان کی مدد فرمائی وہ واپس لوٹے اور بہت سے شہید بھی ہوئے ۔ کچھ مسلمانوں نے شہادتیں بھی پائیں ۔ غزوہ بدر میں لوگ زخمی بھی ہوئے مگر اس کے باوجود کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہماری کیسی عید ہے؟ ہمارے لوگ تو وہاں شہید ہوگئے ان کا انتقال ہوگیا بلکہ اہل مدینہ نے اس سال عید منائی اورخوشی کے ساتھ منائی کہ دہری خوشیاں تھیں اور شہادت کو بھی اس وقت تو خوشی میں شمارکیاجاتا تھا آج شہادت کی موت کو لوگ غم تصور کرتے ہی تو یہ ان کی بھول ہے اس لئے کہ شہادت کا درجہ مل جانا بھی ایک نعمت ہے اللہ کی۔ سوجن کے ہاں شہادت ہوئی تھیں انھوں نے بھی خوشیاں منائیں کہ ایک تو اللہ نے انہیں ان کے عزیزوں کو شہادت کا رتبہ دیا اوردوسرا اللہ نے انہیں عید کا دن نصیب کیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ نے غزوہ بدر میں نصرت عطافرمائی پھر فتح مکہ بھی رمضان میں ہوا اور اس میں بھی کئی مسلمان زخمی ہوئے کئی شہید بھی ہوئے اس لئے کہ حضرت خالد بن ولید کا جو دستہ تھا اس کا مقابلہ مکہ مکرمہ میں قریش کے ساتھ ہوا باقی جتنے بھی لوگ تھے وہ امن وعافیت کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اس سال بھی مسلمانوں نے عید منائی اورخوشیوں کے ساتھ منائی آج بھی مسلمان زخمی ہیں اورزخموں سے نڈھال ہیں اور چُور ہیں لیکن اس وقت بھی ان حالات سے قطعی دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں جب تک قوم قربانیاں پیش نہیں کرتی اس وقت تک ترقی رکی رہتی ہے اورمسلم قوم جب قربانیاں پیش کرتی ہے اسے عروج حاصل ہوتاہے اورترقی کے بام عروج پر پہنچ جاتی ہے آج بھی اگرہم جسمانی ،مالی کوئی نقصان پہنچتا ہے یا کسی حادثہ  یا ناگہانی آفت کے نتیجے میں  ہمارے عزیز و اقارب زخمی یا شہید ہوجاتے ہیں تب بھی اللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہوکر ہمیں یوم  عید کو یوم تشکرمنانا  چاہئے اوراللہ کی بارگاہ میں دعاکرنی ہے کہ اللہ ہمیں صبر جمیل عطا  اورہمیں اپنے محبوب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post