موضوع

تدوین ِحدیث اور اس کی تاریخ کا تحقیقی جائزہ

 

مقالہ نگار:حافظ اسد ڈاھری


تدوین سے مراد

٭…امام زہریؒ کے بارے میں علماء حدیث کہتے ہیں

أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْعِلْمَ ابْنُ شِہَابٍ الزُّھْرِیُّ۔

سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو جمع کیا وہ مشہور تابعی امام ابن شہاب الزہریؒ تھے۔ اس عبارت کے لفظ دَوَّنَ سے مستشرقین نے یہ غلط فہمی پھیلائی کہ احادیث کو ابن شہاب زہری ؒ نے خود تصنیف کیا۔حالانکہ یہ لفظ عربوں کے ہاں قدیم سے اسی معنی میں جانا بوجھا تھا۔ جو علماء نے دَوَّنَ کہہ کرلیا۔یوں یہ غلط فہمی پھیلا دی گئی کہ احادیث کو اس طرح تصنیف کیا گیا ہے جس طرح میز کو ہلا کر (Gospel Writers)نے اپنے اندازے سے انجیل صدیوں بعد لکھی۔ ظاہر ہے لفظ تدوین کا یہ غلط مفہوم ہے۔تغلیط وتحریف تو اہل کتاب کا خاصہ ہے۔ یہ انہی کی کرم فرمائی ہے کہ اپنی میراث پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد یہاں بھی انہوں نے نقب لگانے کی کوشش کی مگر إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ بھی ہے۔ علماء حدیث نے لفظ تصنیف اور تدوین کا لغوی معنی ومفہوم یہ پیش کیا:

تصنیف:

عربی زبان میں ایک کو دوسرے سے جدا کرنے کو کہتے ہیں۔نیز اس کاوش کو بھی تصنیف کہتے ہیں جس میں چیدہ چیدہ ذاتی معلومات کو اپنے الفاظ میں مرتب کرلیا جائے۔ یعنی یہ معلومات انسان اردگرد سے لے اور پھر انہیں اپنے الفاظ میں ڈھال کرایک جگہ جمع کرلے۔انگریزی میں اس کا معنی(To Compose, to Forge a lie) بھی لکھا ہے۔

تدوین:

ترتیب دینا۔ دیوان بھی اسی سے ہے جس کا معنی ہے : کتب و اشعار وقصائد کا مرتب مجموعہ یا جمع شدہ۔

عرب کہتے ہیں: دَوَّنَہُ أَیْ جَمَعَہُ۔ اس نے معلومات کو جمع ومرتب کردیا۔ اس میں جامع کے اپنے الفاظ نہیں ہوتے۔انگریزی میں اس کا معنی ( to make a selection of work, Collection)لکھا ہے۔

٭…عربی زبان میں لفظ تدوین باب تفعیل سے ہے جس میں ابتداء کرنا اور مأخذ بنانا کے معنی بھی آتے ہیں۔تدوین سے مراد ترتیب دینا اور رجسٹر تیارکرنا ہے۔ اس سے مراد جمع کرنا یا لکھنا نہیں ہے بلکہ تابعین نے صحابہ کرام کے لکھے مسودات حدیثیہ کو حاصل کیا۔ اور دیگر صحابہ سے سنی احادیث کا ان میں اضافہ کرکے ترتیب دے دیا یہی کام تبع تابعین نے تابعین کے لکھے صحف اورمسودات کو اپنی مسموعہ احادیث کے ساتھ مرتب کردیا۔

مراحل تدوین:

تدوین حدیث کے کل تین مراحل ہیں جواس تاریخ کو اپنے اندر سموتے ہیں کہ حدیث رسول کس طرح مرحلہ وار تاریخی اور تحقیقی معیارات سے گذر کر ہم تک پہنچی۔ اور امین وصادق علماء کے ذریعے پہنچی جن پر اعتبار کرناشاید اس اعتبار سے بدرجہا زیادہ بہتر ہے جو آج کے دور میں بدعملی ، جھوٹ ، منافقت اور کینہ وحسد میں ملوث جاہل ولاتعلق لوگوں پر کیا جاتا ہے۔ اس لئے تدوین حدیث کا یہ عظیم سفر اپنی بھرپور تاریخ رکھتا ہے جس سے ہر طالب علم کا آگاہ ہونا ضروری ہے:

پہلا مرحلہ

یہ عصرِ نبوی اور دورِ صحابہ کرام و تابعین ہے۔

دوسرا مرحلہ:

یہ دوسری وتیسری صدی ہجری کا زمانہ ہے۔ جو امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ خاص اور اصحاب خمسہ سے قبل کا ہے۔

تیسرامرحلہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا زمانہ اور ان کے بعد کا زمانہ ہے۔

پہلا مرحلہ

عصرِنبوی اور صحابہ و تابعین :

یہ سنہرا دور۔۔ جو پہلی صدی ہجری تک کا ہے۔ اس بحث وتحقیق کا محتاج تھا کہ حدیث کی روایت وحفظ کا اورآپﷺ اور صحابہ کرام کے مکتوبات کو جمع کرنے کا کتنا کام ہوا؟ تاریخ حدیث کا یہی مرحلہ ہے کہ اگر اس کے ڈانڈے رسول اللہ ﷺسے اور بعد کے محققین سے جڑتے ہیں تو پھر بات محقق ہوتی ہے کہ واقعی تدوین حدیث کا کام ہوا ہے اور اگر نہیں تو پھر (Gospel Writers ) انجیل کے مصنفین کی طرح یہ بھی چند ایسے مسودے ہیں جنہوں نے زمانہ بعد بیٹھ کرمحض ایسی مفروضہ باتیں لکھ دیں جن کا انہیں بھی یقین نہیں۔

٭… آپﷺ نے مختلف حکمرانوں کو جو خطوط بھیجے وہ تحریر شدہ تھے۔مصر کے شاہ مقوقس کو ایک خط لکھا جس میں اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ گذشتہ صدی ایک عیسائی گرجا میں رکھی گئی ایک قدیم کتاب کی جلد میں لگا ہوا آپ ﷺ کایہ خط ملا ہے جس کا انکشاف بھی مستشرقین نے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ بعینہ وہی نامہ مبارک ہے جو آپ ﷺ نے مقوقس کو لکھوایا تھا۔ کیونکہ اس کا عربی رسم الخط بھی آپ ﷺ کے دور کا ہے، مہر میں نام، اس کی ترتیب اور صورت بھی وہی ہے۔ اس کی تحریر بھی وہی ہے جو صحابہ وتابعین اور محدثین کی سند سے زبانی روایت ہوکر کتب حدیث میں درج ہوچکی ہے۔زبانی روایت میں احتیاط اور اہل افراد کے ذریعے احادیث کی روایت ہی حدیث کے صحیح ہونے اور الہی حفاظت کے انتظام ہونے کی کتنی بڑی سچی دلیل ہے۔

٭رسول اکرم ﷺ کے کئی ایسے صحیفے جو دعوتی اور فقہی مسائل پر مبنی خطوط ہیں وہ آپ ﷺ نے بادشاہوں ، حکمرانوں، قبائلی سرداروں، اپنے گورنرز، عمال اور قاضیوں کو لکھے۔ کئی تحریری معاہدے اور عہد وپیمان کئے اور لکھ کر دئے۔ بیشتر تحریریں ایسی لکھوائیں جن میں معافی نامے اور زمین کی ملکیت دینے کی تھیں۔ان میں کچھ دستیاب بھی ہوگئے جن کی فوٹو شائع ہوچکی ہیں۔ ایسے رجسٹر تیار کروائے جن میں عام مسلمانوں اور مجاہدین کے نام درج ہوں تاکہ ان میں غنائم اور اموال تقسیم ہو سکیں اور شہداء کا علم بھی ہو۔ اپنے سفراء کا رجسٹر بھی تیار کروایا۔ غلامی سے آزادی اور قرض وبار کے بوجھوں کی ضمانت کے نامے لکھوائے۔ خطبوں اور مختلف احادیث کی کتابت بھی کرائی۔ ان سب کا انکشاف گو پچھلی صدی عیسوی میں ہوا ہے جو محدثین کرام کی انتہائی محتاط زبانی روایت وثقاہت کے شواہد ہیں اور سبھی مرفوع احادیث ہیں۔ صحیفۂ صحیحہ، صحیفہ ٔصادقہ، مقوقس کو آپﷺ کا لکھا ہوا خط اور خلافت عثمانی کا لکھا ہوا قرآن یہ سب آج بھی موجود ہیں ۔

٭ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا لکھا صحیفۂ حدیث جس میں زکاۃ کے احکام تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کتاب الجہاد میں کیا ہے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا صحیفہ تو معروف ہی تھا جس میں زکاۃ، صدقات، دیت، حرمت ِمدینہ، خطبہ حجۃ الوداع اور اسلامی دستور کے اہم نکات تھے۔محمد بن الحنفیہ جو سیدنا علی رضی اللہ کے بیٹے ہیں ان کے پاس یہ صحیفہ تھا۔ پھر امام جعفرؒ کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر دیا۔[1]

٭ڈاکٹر مصطفی اعظمی کاکام Studies In Early Hadith Literatureبھی بہت اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے ۔مشہور مستشرق اے جے آربری کی زیر نگرانی یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ جس میں پچاس سے زائد صحابہ کرام اور ڈیڑھ سو سے زائد تابعین کرام کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حدیثی مواد کے ثبوت فراہم کئے ہیں۔

٭یوں اس نسل کے مجموعہ ہائے حدیث مرتب ہوگئے جن میں صحیفہ ہمام بن منبہ ، صحیفہ معمر بن راشدجسے ان کے شاگرد امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں جمع کیا اور وہ مسند احمد میں بھی آگیا ہے۔کے علاوہ بے شمار تابعین کے لاتعداد مجموعوں کی دنیا کی مختلف لائبریریوں میں موجودگی ایک حقیقت ہے جن میں کچھ شائع ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ کا صحیفہ ہمام بن منبہ کی تحقیق پر قیمتی نوٹ اور الْوَثَائِقُ السِّیَاسِیَّۃُ میں آپ ﷺ کے خطوط، معاہدات ، اور خلفاء اربعہ کے معاہدات وغیرہ کا تذکرہ اہل ایمان کے یقین کے لئے کافی ہیں۔وہ لکھتے ہیں: صحیفہ ہمام کے نودستیاب مخطوطوں سے خود اس کا بھی یقین ہوجاتا ہے کہ امام احمد ؒبن حنبل نے پوری علمی دیانت سے صحیفہ ہمام کے متعلق اپنی معلومات محفوظ کی ہیں انہیں کیا خبر تھی کہ ان کی وفات کے ساڑھے گیارہ سو سال بعد ان کی لکھی حدیث کی توثیق اس طرح ہوگی۔ اگر انہوں نے صحیفہ ہمام کی حد تک جعل سازی نہیں کی تو اپنی مسند کے باقی اجزاء میں بھی عمداً کوئی ایسی بددیانتی نہیں کی ہوگی۔[2] اسی طرح امام اوزاعی، سفیان ثوری، ابن وردان کے صحف حدیثیہ بھی قابل ذکر ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور مجموعہ امام مالک ؒ کی موطأ ہے جو دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ہی جمع کرلیا گیا تھا۔

٭الحمد للہ ہمارے دور کی چند ممتاز شخصیات نے اس موضوع پر علمی و تحقیقی کام پیش کرکے ایسے توہمات کو یقین میں بدل دیا ہے ان میں ایک راہنماکوشش ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی کی ہے جنہوں نے (Hadith Literature)کتاب لکھی اور مستشرقین کے سوالات واعتراضات کا بہت محققانہ جواب دیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے مجموعۃ الوثائق السیاسیہ لکھ کر اور صحیفہ ہمام بن منبہ کو ایڈٹ کرکے علم کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور خطوط ِنبوی ودیگر تحریری معاہدات ورسائل کو شائع کرکے روایت وحفاظت ِحدیث کے ایسے ٹھوس دلائل فراہم کردئے کہ شر اپنا منہ دیکھتا رہ گیا۔

٭ ان معاصر مسلم علماء کی ان کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ استشراق اپنی تمام تر محرف تحقیق اور تنقید کے اپنا منہ دیکھتا رہ گیا۔کیونکہ ان کے نام نہاد سوالات اور تحقیقات ان علماء کے انکشافات کے بعد اپنی قدر کھو بیٹھے اور حدیث رسول ایک بار پھر توانا ہوگئی اور اس کی خدمات میں اضافہ ہوگیا۔

تابعین:

ہر وہ شخص جو صحابی ٔرسول کو حالت ایمان میں ملا ہوخواہ عرفی صحبت نہ ہی ہو۔نیز حالت ایمان میں ہی وہ فوت ہوا ہو۔اسے تابعی کہتے ہیں۔ائمہ حدیث اس آیت میں لفظ اتبعوہم کا مصداق اسی نسل کے مسلمانوں کو ہی سمجھتے ہیں۔

وَالسَّابِقُوْنَ الْأوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانِ۔

پہلے سبقت لے جانے والے مہاجرین وانصار اور وہ لوگ جنہوں نے بڑی خوش دلی سے ان کی اتباع کی۔[3]

یہ نسل براہ راست صحبت ِصحابہ سے مستفید ہوئی جسے روایت حدیث میں خاص اہمیت حاصل ہے ۔ا س نسل کی ذمہ داریاں نئی تھیں۔ مختلف گروہ اور فتنے نیز ان کے دعاۃ پھر ان کی تدلیس وتلبیس سبھی حدیث کی مزید حفاظت کے متقاضی تھے۔تابعین نے نوواردوں کی پھیلائی گرد وغبار کو جھاڑا اوران کی بدبودار تحریروں کا جواب دیا۔ کیونکہ یہ ان کے شاگرد تھے جنہوں نے بہترین زمانہ پایا۔ صحابہ کرام کے بعد انہی کا درجہ اسی لئے توہے۔تابعین نے ان احادیث کو جمع کیا جو انہوں نے صحابۂ رسول سے سنی تھیں نیز ان کے فتاوی کو بھی ان مجموعوں میں شامل کیا۔یوں اپنے لئے مجموعے مرتب کئے۔ ڈیڑھ سو سے زائد تابعین کے ذاتی مجموعہ ہائے حدیث کا انکشاف ہوچکا ہے۔ اس نسل میں چونکہ کچھ ایسے بھی پائے گئے جو عقل کے مارے اور گروہی سیاست ونفرت کا شکار تھے اس لئے ان کی روایت محدثین کھنگالتے اور نقد وتبصرہ کے بعد اس پر اپنا فیصلہ صاد کرتے ہیں۔

تابعین کا زمانہ ۱۵۰ھ تک ہے۔اولین تابعی جو فوت ہوئے وہ ابوزید معمر بن راشد ہیں جنہیں سن (۳۰ھ) تیس ہجری میں خراسان میں شہید کردیا گیا تھا۔اور آخری تابعی خلف بن خلیفہ ہیں جن کی وفات (۱۸۱ھ) ایک سو اکیاسی ہجری میں ہوئی۔

٭گو اس زمانہ میں اسناد طویل ہوگئی تھی مگر پھر بھی اس نسل میں ثقات وغیر ثقات کی تمیز کا شعور بیدار تھا۔علماء حدیث نے ایک آوازۂ حق بلند کیااور ببانگ ِدہل کہا:

إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ۔

یہ علم( سنت وحدیث ) ایک دین ہے آنکھیں کھول کر دیکھا کرو کہ تم یہ دین کس سے سیکھ رہے ہو۔[4]

یہ آواز محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی تھی جس کا بلند ہونا تھا کہ دفاع ِسنت کے تیار دستے پوری ہمت سے آگے بڑھے اور کذاب ومفتری لوگوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے اور ان کی تلبیس وتدلیس کو رسوا کرنے میدان میں اتر آئے۔علم اسناد وجود میں آگیا جس کے ذریعے حدیث اور سند دونوں کی حفاظت شروع ہوگئی ۔

مخضرم تابعین:

یہ وہ لوگ ہیں جو زمانۂ رسالت میں پیدا ہوئے مسلمان بھی تھے مگر رسول اکرم ﷺ کی زیارت نہ کرسکے۔ سبط ابن العجمی نے ایسے چالیس مخضرم تابعین کے نام گنوائے ہیں۔

فقہائے مدینہ:

یہ مدینہ کے وہ سات فقہاء ہیں جنہیں علمی وفقہی اعتبار سے دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔ ان میں:

1.      داماد سید نا ابوہریرہؓ امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ(۱۵۔۹۴ھ)

2.      امام قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق(۳۷۔۹۹ھ)

3.      امام عروۃ بن زبیر(۹۴ھ)

4.      خارجہ بن زید بن ثابت(۲۹۔۹۹ھ)

5.      سلیمان بن یسار (۳۴۔۱۰۷ھ)

6.      عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود ہذلی(۹۸ھ)

7.      ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف(۹۴ھ)

8.      سالم بن عبد اللہ بن عمر(۱۰ھ) یا بعض کے نزدیک،ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام مخزومی(۹۴ھ)۔

ثقاہت ِتابعی:

محدثین کرام نے قبول روایت کے لئے تابعی کا ثقہ ہونا ضروری قرار دیا ہے۔جیسے امام اعمشؒ کو طبقۂ تابعین میں امام مسلم ؒنے لکھا ہے کیونکہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حرم پاک میں مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا تھا گو ان کا سماع ثابت نہیں مگر لقاء اور حفظ وثقاہت امام مسلم ؒکے نزدیک مسلّم ہے۔

طبقات تابعین:

امام حاکمؒ نے ان علماء کے پندرہ طبقات لکھے ہیں مگر دیگر علماء نے انہیں تین میں جمع کردیا ہے۔

طبقہ اولی:

یہ وہ کبار تابعین ہیں جنہوں نے کبار صحابہ سے روایت کی اور علم رسول حاصل کیا۔جیسے سعید بن المسیب اور فقہاء سبعہ شامل ہیں۔

طبقہ ثانیہ:

تابعین کا یہ درمیانہ طبقہ ہے جیسے حسن بصری اور ابن سیرین وغیرہ جنہوں نے بعض صحابہ سے روایات کیں اور کچھ دوسرے صحابہ نے انہیں احادیث لکھ کربھیجیں۔

طبقہ ثالثہ:

یہ صغار تابعین کا طبقہ ہے جنہوں نے صغار صحابہ سے احادیث روایت کیں۔ ایسے تابعین نے انہیں کم سنی میں ہی پایا ۔

٭…امام احمد اور اہل مدینہ کے نزدیک سب سے افضل تابعی امام سعید ؒبن المسیب ہیں۔ اہل کوفہ اویسؒ قرنی کو خیر التابعین کہتے ہیں اور اہل بصرہ حسن بصری کو۔فرق صرف یہ ہے کہ امام احمد ؒ علم وروایت حدیث میں سعید بن المسیب کو افضل قراردے رہے ہیں اور اہل کوفہ صلاح وزہد میں۔

فائدہ:
تابعین کی معرفت کا فائدہ یہ ہے کہ: ہم مرسل روایت کو متصل روایت سے ممیز کرسکتے ہیں۔اور اس نسل کے فقہاء تابعین کے منہج ِفقہ اور فتاوی واجتہاد کو بھی بخوبی جان سکتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ:

عصرِ بنو امیہ:

اسلامی سلطنت کا دائرہ کار جب وسیع ہوا اور ملک وسلطنتیں فتح ہوئیں ، صحابۂ رسول علمِ نبوی کی میراث بانٹنے انہی علاقوں میں جا آباد ہوئے ۔مغرب ومشرق کا فرق یا سیاسی ومعاشرتی ارتقاء ان پر اثر انداز نہ ہوسکا۔خود عادل تھے اس لئے یہ خیرات بھی انہوں نے صرف ان میں بانٹی جو صدق، امانت، دیانت اور ثقاہت میں اعلیٰ درجے پر تھے۔ جن کی اکثریت خلیفۂ راشد کی ہدایت پر یہ کام کر رہی تھی اور کچھ اپنی دعوتی دل چسپی سے بھی شغف رکھے رہی۔ ہر خلیفۂ وقت نے زیادہ اہم امور نمٹانے میں وقت گذارا۔ اس لئے کہ دینی امور نمٹانے کے لئے صحابۂ رسول تا حال حیات تھے۔ گوحدیث رسول کو ان ادوار میں خلافتی سرپرستی تو حاصل نہ ہوسکی مگر ایسا بھی نہیں ہوا کہ کسی حکمران یا خلیفہ کے لئے حدیث گھڑی گئی ہو۔دیگر فتنوں کے سر اٹھانے کی وجہ سے توجہ قرآن کے جمع کرنے اور فتنوں کو دبانے میں رہی۔خوارج اور علویوں کے فتنے بھی تدوین حدیث کے کام میں رکاوٹ بنے رہے۔ تا آنکہ وہ وقت آیا جب اللہ تعالیٰ نے خلافت عمر ثانی کے مختصر عہد میں یہ عظیم الشان کام لے لیا۔

 

خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی تدوینی کوشش

سیدنا عمر بن عبد العزیز علم حدیث میں گو امام زہری ؒ سے کم نہیں تھے مگر خلافتی امور کے ہمراہ وہ تدوین حدیث کے امور کو بھی درد دل سے نمٹانا چاہتے تھے۔ سیدنا عمرؓ فاروق کے اصرار پر قرآن جمع ہوا اور عمربن عبد العزیزؒ کے اصرار پر احادیث۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عمروں سے دین کی دو اہم بنیادوں کا عظیم الشان کام لیا۔

٭…سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنی سلطنت کے عمال وعلماء کو جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاسداران حکومت کو اہل علم حضرات کی ہر اس کوشش کی حمایت ومدد کرنے کا احساس دلاتے ہیں جو سنت ِرسول کی ترویج واشاعت کا باعث بن سکتی ہے۔ عکرمہؒ بن عمار کہتے ہیں: میں نے جناب عمر بن عبد العزیز ؒ کا خط سنا جس میں انہوں نے فرمایا تھا:

أَمَّا بَعْدُ! فَآمُرُوْا أَہْلَ الْعِلْمِ أَنْ یَنْتَشِرُوْا فِیْ مَسَاجِدِہِمْ، فَإِنَّ السُّنَّۃَ کَادَتْ قَدْأُمِیْتَتْ۔ 

اہل علم کو حکم دو کہ وہ اپنے علاقوں کی مساجد میں پھیل جائیں اور علم حدیث کو پڑھائیں اس لئے کہ سنت کہیں ختم نہ ہوجائے۔
علماء کو انہوں نے نصیحت کی:

وَلْیَفْشُوا الْعِلْمَ، وَلْیَجْلِسُوْا حَتّٰی یَعْلَمَ مَنْ لاَ یَعْلَمُ، فَإِنَّ الْعِلْمَ لاَ یَہْلِکُ حَتّٰی یَکُوْنَ سِرًّ ا۔

علم حدیث کو علماء پھیلائیں، اور وہ اس غرض کے لئے مجلسیں برپا کریں تاکہ جو علم نہیں رکھتا اسے علم ہوجائے کیونکہ علم ختم ہی تب ہوتا ہے جب وہ ایک راز بن جائے۔[5]

٭… انہوں نے علماء کے لئے بیت المال سے ایک مشاہرہ مقرر فرمایا جو ان کی ذاتی ضروریات کو پورا کرسکے تاکہ وہ معاش کی فکر سے آزاد ہو کرعلم پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف ہوں۔والیٔ حمص کو انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا:

مُرْ لِأَہْلِ الصَّلاَحِ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ مَا یَقِیْتُہُمْ لِئَلاَّ یُشْغِلُہُمْ شَیْئٌ عَنْ تِلاَوَۃِ الْقُرْآنِ، وَمَا حَمَلُوْا مِنَ الْحَدِیْثِ۔
بیت المال کے اہل خیر حضرات کو حکم دو کہ وہ ان علماء کواتنا دیں کہ اپنا گذارہ کرلیں تاکہ کوئی چیز بھی انہیں تلاوت قرآن سے اور حدیث کی راہ میں اٹھائی جانے والی مشقتوں سے نہ روک سکے۔[6]

٭… سیدنا عمر بن عبد العزیزؒ کی شاندار اور نمایاں ترین خدمت سنت یہ ہے کہ انہوں نے مملکت کے چاروں طرف حدیث کو جمع کرنے اور مدون کرنے کے بارے میں یہ سرکاری حکم بھیجا
اُنْظُرُوْا حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَأَجْمِعُوْہُ۔ 

حدیث ِرسول ﷺ تلاش کرو اور اسے جمع کرو۔[7]

٭… اہلِ مدینہ کو انہوں نے لکھا

اُنْظُرُوْا حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَإِنِّی خِفْتُ دُرُوْسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَ الْعُلَمَائِ۔ 

مدینہ والو! حدیث کو تلاش کرو، مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔[8]

٭…مدینہ کے گورنر جناب ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم (م:۱۱۷ھ) کو لکھا

اُکْتُبْ إِلَیَّ بِمَا ثَبَتَ عِنْدَکَ مِنَ الْحَدِیْثِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَبِحَدِیْثِ عُمْرَۃَ، فَإِنِّیْ خَشِیْتُ دُرُوْسَ الْعِلْمِ وَذَہَابَہُ۔
مجھے وہ احادیث رسول لکھ بھیجئے جو آپ کے نزدیک مصدقہ ہوں اور سیدہ عمرۃ کی احادیث بھی لکھ بھیجئے کیونکہ میں علم کے مٹ جانے اور اس کے ختم ہوجانے کا خوف رکھتا ہوں۔[9]

 

ایک اور روایت میں ہے :
مجھے عمرۃ بنت عبدالرحمن (خالہ ابوبکربن حزم)(م: ۱۱۷ھ)اور القاسم بن محمد(م: ۳۷۔۹۹ھ) کی احادیث لکھ کر بھجوائیے۔سو انہوں نے لکھ کر بھجوادیں۔[10]

یہ عمرۃ، سیدہ عائشہ ام مؤمنین کی سب سے بڑی شاگردہ تھیں۔ام مؤمنین سے عمرۃ کی روایات کا سرمایہ ابوبکر بن حزم کے پاس محفوظ تھا۔اس لئے ابوبکر کو سیدنا عمر بن عبد العزیز نے بطور خاص اس کا حکم دیا۔ ایک اور روایت میں ہے:

مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے ختم ہوجانے کا غم ہے۔ کوئی شے بھی قبول نہ کی جائے سوائے حدیث ِرسول کے۔ 

٭…ان خطوط کے بعد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے امام ابن شہابؒ الزہری کو حکم دیا کہ وہ ان گورنرز سے احادیث کو اکٹھا کرکے ایک دیوان کی شکل دیں۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے ان تمام تحریروں کو یکجا لکھ کر یہ کام عین ۱۰۰ھ میں کر دکھایا۔یہ پہلی تصنیف تھی جو باقاعدہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز کی ہدایت اور نگرانی میں اہل اسلام کو نصیب ہوئی۔اور جس کے نسخے لکھوا کر سلطنت کے مختلف گورنرز کو بھیجے گئے۔ 

معاونین:
جن ذمہ دار اہل علم کو اس منصوبے کا اہل سمجھا گیا ۔ اس میں شامل حضرات کی یہ ٹیم ابوبکر بن محمد، القاسم بن محمد اور ابن شہاب زہری پر مشتمل تھی۔جن کی صلاحیت واہلیت کو وقت کے علماء نے چیلنج نہیں کیا بلکہ انہیں اس کا اہل سمجھا اورعلماء وفضلاء نے عزت وتکریم دی۔علمی رعب ودبدبے کے علاوہ ان کی علم دوستی ہی تھی جو رب کریم نے عام افراد معاشرہ کے قلوب میں محبت کی صورت میں پیدا کردی تھی۔

ابوبکر بن محمدبن عمرو بن حزم:

ان کے بارے میں صحابی ٔرسول سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:میں نے ابوبکرؒ بن محمد جیسا صاحب مروئت اور مکمل انسان نہیں دیکھا۔ مدینہ کے وہ کیا والی بنے کہ قضاء اور موسم حج کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔عمرۃؒبنت عبد الرحمن کے بھانجے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے انہی کے دادا محترم سیدنا عمرو ؓبن حزم کو ۔۔ یمن کے گورنر۔۔ خط لکھا تھا جس میں سنن، فرائض اور دیگر احکام شامل تھے۔ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ نے اس قیمتی دستاویز کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان کے نام اکیس دیگر فرامین نبوی ﷺ بھی ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے فراہم کئے۔ جنہیں ابن طولونؒ نے اپنی کتاب إعلام السائلین عن کتب سید المرسلین میں بطور ضمیمہ کے شامل کردیا تھا اور جو اب چھپ چکی ہے۔

القاسمؒ بن محمد بن ابی بکر (م: ۳۷۔۹۹ھ) مدینہ کے چیدہ فقہاء سبعہ میں سے تھے۔ اپنے دور کے ایک سربرآوردہ عالم وامام تھے۔اپنی پھوپھی محترمہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے علم حاصل کیا۔

امام ابن شہابؒ زہری(م: ۱۲۴ھ) یہ زہری ؒ کون ہیں ؟ اورتمہیں کیا معلوم کہ زہریؒ کون ہیں؟ اس ٹیم کے روح رواں ممبر جن سے سلاطین بھی مرعوب رہتے تھے۔ جنہوں نے احادیث رسول کو جمع کیا اور لکھا بھی۔ ائمہ حفاظ میں سے ہیں۔صرف اسی راتوں میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ فرماتے ہیں:

مَا اسْتَعَدْتُّ حَدِیْثاً قَطُّ، ولاَ شَکَکْتُ فِیْ حَدِیْثٍ قَطُّ، إِلاَّ حَدِیْثاً وَاحِداً، فَسَأَلْتُ صَاحِبِیْ فَإِذَا ہُوَ کَمَا حَفِظْتُ۔

میں نے کبھی کسی حدیث کی تیاری نہیں کی اور نہ ہی کسی حدیث کے بارے میں مشکوک ہوا، سوائے ایک حدیث کے ۔ میں نے اس کے بارے اپنے ساتھی سے پوچھا تو وہ ویسے ہی تھی جیسے مجھے یاد تھی۔

مَااسْتَوْدَعْتُ قَلْبِیْ شَیْئاً ۔۔قَطُّ۔۔فَنَسِیْتُہُ۔

ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے کوئی شے اپنے دل کے سپرد کی اور میں اسے بھول گیاہوں۔

اثنائے طلب ِعلم انہوں نے احادیث ِرسول اور آثار ِصحابہ کو یا دکیا اورلکھا ۔فرمایا کرتے: میں نے دو لاکھ احادیث اپنے ہاتھ سے لکھیں۔دس برس ممتاز فقیہ اور تابعی کبیر سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی صحبت میں گذارے۔حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے معاصرین میں عالی مقام رکھتے تھے۔صالح ؒبن کیسان کہتے ہیں:

کُنْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ أَنَا وَالزُّہْرِیُّ، فَنَکْتُبُ السُّنَنَ فَکَتَبْنَا مَا جَائَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ: تَعَاَلَ نَکْتُبُ مَا جَائَ عَنِ الصَّحَابَۃِ۔ قَالَ: فَکَتَبَ وَلَمْ أَکْتُبْ فَأَنْجَحَ وَضَیَّعْتُ۔

میں اور زہری طالب علم تھے ہم سنن لکھا کرتے اور جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے مروی تھا اسے بھی لکھا۔ پھر زہریؒ نے کہا: آؤ اب ہم وہ لکھیں جو صحابۂ رسول سے مروی ہے۔ صالح کہتے ہیں: انہوں نے لکھا اور میں نے اسے نہ لکھا۔ وہ کامیاب رہے اور میں ضائع ہوگیا۔
امام ابوبکر الہذلیؒ کہتے ہیں:

قَدْ جَالَسْتُ الْحَسَنَ وَابْنَ سِیْرِیْنَ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَداً أَعْلَمَ مِنْہ یَعْنِی الزُّہْرِیَّ۔

میں حسن بصری اور ابن سیرین کی صحبت میں بیٹھا مگر ان میں کسی کو ابن شہاب سے بڑھ کر علم حدیث میں نہ پایا۔[11]

امام اللیثؒ بن سعد فقیہ ِمصرفرماتے ہیں:

مَا رَأَیْتُ عَالِماً قَطُّ یُحَدِّثُ أَجْمَعَ مِنِ ابْنِ شِہَابٍ، وَلاَ أَکْثَرَ عِلْماً مِنْہُ۔ لَوْ سَمِعْتَ ابْنَ شِہَابٍ یُحَدِّثُ فِی التَّرْغِیْبِ لَقُلْتَ لاَ یُحْسِنُ إِلاَّ ہٰذَا وَإِنْ حَدَّثَ عَنِ الْعَرَبِ وَالْأَنْسَابِ قُلْتَ: لاَ یُحْسِنُ إِلاَّ ہٰذَا، وَإِنْ حَدَّثَ عَنِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ کَانَ حَدِیْثُہُ نَوْعاً جَامِعًا۔

میں نے کسی عالم کو نہیں دیکھا جو ابن شہاب سے بڑھ کر حدیث کو جامع انداز سے پیش کرتا ہو او ر نہ ہی ان سے بڑھ کر کسی اورکو عالم دیکھا۔اگر تم ابن شہاب سے احادیث ترغیب سنو تو تم ضرور یہ کہو کہ یہی ہیں جو اسے جچتے ہیں۔ اور اگر عربوں اور ان کے انساب کے بارے میں وہ کلام کریں تو تم یہی کہو کہ یہی اس کا حق ادا کرسکتے ہیں اور اگر وہ قرآن و سنت پیش کریں تو ان کی گفتگو جامع نوعیت کی ہوتی۔ [12]

یہی امام اللیثؒ، جعفرؒ بن ربیعہ کی وساطت سے فرماتے ہیں: میں نے عراکؒ بن مالک سے کہا:

مَنْ أَفْقَہُ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ؟ قَالَ: أَمَّا أَعْلَمُہُمْ بِقَضَایَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَقَضَایَا أَبِیْ بَکْرٍ، وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، وَأَفْقَہَہُمْ فِقْہاً، وَأَعْلَمَہُمْ بِمَا مَضَی مِنْ أَمْرِ النَّاسِ فَسَعِیْدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ، وَأَمَّا أَغْزَرَہُمْ حَدِیْثًا فَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ وَلَا تَشَأُ أَنْ تُفَجِّرَ مِنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بَحْرًا إِلاَّ فَجَّرْتُہُ۔ قَالَ عِرَاکٌ: وَأَعْلَمُہُمْ جَمِیْعاً عِنْدِیْ مُحَمَّدُ بْنُ شِہَابٍ، لِأَنَّہُ جَمَعَ عِلْمَہُمْ إِلٰی عِلْمِہِ۔

اہل مدینہ میں اب کون بڑا فقیہ ہے؟ انہوں نے کہا: رہا یہ کہ کون رسول اکرم ﷺ ، ابو بکر صدیق، اور عمر وعثمان کے فیصلہ جات کے بارے میں سب سے زیادہ آگاہ ہے اور یہ بھی کہ ماضی قریب کے واقعات کا بڑا عالم کون؟ تو وہ سعید بن المسیب ہیں حدیث کا گہرا علم رکھنے والے عروہ بن زبیر۔ اور تم عبید اللہ بن عبد اللہ کے بارے چاہو کہ اس سمند کو میں پھاڑوں تو تم واقعی اسے پھاڑوگے۔ عراک کہتے ہیں اور ان تمام کے مقابلے میں میرے نزدیک سب سے بڑے عالم ابن شہاب زہری ہیں جنہوں نے ان تمام حضرات کا علم اپنے علم میں جمع کرلیا تھا۔ [13]

امام مکحولؒ انہیں یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:

مَا بَقِیَ عَلٰی ظَہْرِہَا أَحَدٌ أَعْلَمَ بِسُنَّۃٍ مَاضِیَۃٍ مِنَ الزُّہْرِیِّ۔

زمین کی پشت پر سنت ماضیہ کا عالم اب زہریؒ سے بڑھ کر کوئی باقی نہیں رہا۔

مشہور تابعی عمرو بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں:

مَا رَأَیْتُ أَنَصَّ لِلْحَدِیْثِ مِنَ الزُّہْرِیِّ، وَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا، اَلدِّیْنَارُ وَالدِّرْہَمُ أَہْوَنُ عَلَیْہِ مِنْہُ۔ مَا کَانَ الدَّنَانِیْرُ وَالدَّرَاہِمُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِمَنْزِلَۃِ الْبَعْرِ۔

زہری سے بڑھ کر میں نے کسی کو نصِ حدیث کا خیال کرنے والا نہیں پایا اور دینار ودرہم کو غیر اہم سمجھنے والا ان سے بڑھ کر میں نے کسی کو نہیں پایا۔ ان کے نزدیک تودینار ودرہم جانور کی مینگنی کی حیثیت رکھتے تھے۔ 

سیدنا عمربن عبد العزیز ؒنے علماء کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:

عَلَیْکُمْ بِابْنِ شِہَابٍ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَجِدُوْنَ أَحَداً أَعْلَمُ بِالسُّنَّۃِ الْمَاضِیَۃِ مِنْہُ۔

ابن شہابؒ سے فائدہ اٹھاؤ تم ان سے بڑھ کر سنت ِماضیہ کا عالم کسی کو بھی نہ پاؤ گے۔ [14]

ان خطوط کے اثرات:

خلیفۂ راشد کے ان بے بہا خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا مقصددین اسلام کے اصل مآخذ کی حفاظت اور شعائر کا احیاء ہے۔ علم حدیث کے بقاء کی فکر لئے اس خلیفہ محترم نے سرمایہ ٔ حدیث کو جمع کرنے کا کام سرانجام دیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے{ثم إن علینا بیانہ} پھر اس قرآن کے بیان کی ذمہ داری ہم پر ہے ۔ کے ذریعے اسے دوام بخش دیا۔اس خدمت سے قبل یہی علم ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مساجد ہی اس کی تعلیم وتعلّم کا مرکز تھیں۔ اس منتشر علم کو سمیٹنا مقامی امراء کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لئے خلیفۂ وقت نے خصوصی توجہ دے کر علماء واصدقاء میں یہ تڑپ پیدا کردی کہ اس سرمایۂ حیات کو واقعتاً جمع کیا جائے۔جونہی انہیں خلیفۂ راشد جناب عمر بن عبد العزیز ؒ کا خط ملا انہوں نے اس کا عملی نفاذ کرڈالا۔ فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بِجَمْعِ السُّنَنِ، فَکَتَبْنَاہَا دَفْتَرًا دَفْتَرًا، فَبَعَثَ إِلَی کُلِّ أَرْضٍ لَہُ عَلَیْہَا سُلْطَانٌدََفْتَرًا ۔
ہمیں عمر بن عبد العزیز نے سنن واحادیث کو جمع کرنے کا حکم دیاتو ہم نے ان کی کئی نقلیں تیار کیں پھر جہاں جہاں ان کی حکومت تھی وہاں ہر جگہ ایک ایک مجموعہ بھیجا۔[15]

٭…خلیفۂ راشد نے یہ عظیم تاریخی کارنامہ سرانجام دینے کی مہم امام زہریؒ کے سپرد کی۔ کیوں؟ خلیفۂ راشد کا یہ انتخاب ان پر کس قسم کا اعتماد ظاہر کرتا ہے؟ کیا ان کی نظر میں دوسرے علماء وفضلاء نہیں تھے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ علمِ حدیث پر گہری نظر ہونے کی بناء پر خودخلیفہ کومعاصرین میں کوئی ایسا نظرنہ آیا جو اس دقیق فن میں اپنی پوری مہارت وبصیرت وقف کرکے حدیث کو جمع کرسکے اور جس کے حافظہ پر اعتماد کیا جاسکے۔یہی معنی ہے مورخین اور علماء کے اس قول کا:أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْعِلْمَ ابْنُ شِہَابٍ ۔

سب سے پہلے جس نے علم(حدیث) کو مدون کیا وہ ابن شہاب زہریؒؒتھے۔ یعنی سرکاری طور پر ذمہ دار حکمرانوں کی طرف سے جس نے سب سے پہلے علم حدیث کو مدون کیا وہ آپ ہی تھے۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ آپ نے احادیث کیوں لکھیں؟ تو جواب میں انہوں نے یہ فرمایا:

إِنَّ ہٰؤُلاَئِ الْأُمَرَائُ أَکْرَہُونَا عَلَی کِتَابَۃِ الأَحَادِیْثِ ۔ 

کہ ان امراء نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم احادیث کو لکھیں ۔ یعنی جمع کرکے اسے مرتب کردیں۔

مستشرقین کی عیاری

امام مرحوم کے اس قول میں انہوں نے لفظ کِتَابَۃِالأَحَادِیْثِ کا استعمال کیا جسے مستشرقین نے بڑی عیاری سے تحریف کرکے اس کا معنی بگاڑ دیا

إِنَّ ہٰؤُلاَئِ الأُمَرَائُ أَکْرَہُونَا عَلَی کِتَابَۃِ الأَحَادِیثِ۔کوکِتَابَۃِ أَحَادِیثبغیر الف لام کے لکھ کر اس کا معنی یہ کردیاکہ ان امراء نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم احادیث کو گھڑیں۔اور یوں امام محترم پر فرد جرم عائد کردی گئی کہ یہی صاحب ہیں جنہوں نے احادیث کو اپنی طرف سے لکھ دیا۔یہی تو وہ صفائی ہے جسے ہمارا دانش ور سمجھ نہ سکا اور اپنی دانش کو غیروں کے حوالے کرکے اپنی دانش کا ماتم کروا رہا ہے۔[16]

٭…علماء نے سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکی اس کوشش کو تدوین حدیث کی اولین کوشش قرار دیاہے اور اس عبارت کو اپنے ہاں بار بار لکھا ہے
تدوین حدیث کی ابتداء پہلی صدی ہجری کے اختتام پر سیدنا عمربن عبد العزیز ؒکے عہد ِمبارک میں ہوئی۔ مسلم تاریخ میں دو دَو ربہت اہم ہیں کہ جن میں دین کے بنیادی مصادر کی تدوین سرکاری سطح پر ہوئی اور اہل لوگوں کی طرف سے ہوئی۔سرکار نے بھی مسلمان ہونے کا فرض نبھایا ،کوئی جرم کیا نہ ہی کسی پر زبردستی کی۔ہمارے لئے ایسی حکومت ان حکومتوں سے صدہا اعتبار سے بہتر اور قابل فخر ہے جو اسلام کا نام لے مگر خدمت دین سے بدکے۔
ان کے بعدپہلے عباسی خلیفہ منصورنے امام مالک علیہ الرحمہ سے استدعا کی کہ حدیث رسول پر ایک ایسی معتدل کتاب لکھیں جس میں مسائل کو احسن طریقے پر پیش کیا گیا ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے موطأ لکھ ڈالی۔

ہارون الرشید ۔۔ جن کے بارے میں مورخین اور اہل علم کی رائے ہے اگر وہ خلیفہ نہ بنتے تو ایک بہت بڑے صاحب علم ہوتے۔۔نے خود امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر موطأ کاسماع کیا اور موطأ کو دستور مملکت بنانے کی درخواست کی۔ جو امام مالکؒ نے بہت اچھی توجیہ بیان کرکے رد کردی۔ ہارون الرشیدکے دونوں شاہزادے امین اور مامون بھی امام مالک ؒکے شاگرد رہے۔گویا یہ سرکاری سرپرستی حدیث رسول کو حاصل رہی۔ اور بلاشبہ ایسے حکمران خوش قسمت ہیں جنہوں نے حب اسلامی سے سرشار ایسے دینی اور علمی کاموں کی سرپر ستی کی۔اور اپنا نام اسلام کے محسنوں میں شمار کراگئے۔

٭… یورپ اور عیسائی دنیا کی حکومتیں تقریباً ہر دور میں اپنے سکالرز کوحکومتی مراعات دیتی رہیں جن کی کوشش یہ رہی کہ کسی طرح ان کے سکالرز بائیبل کا ایک صحیح متفقہ نسخہ تیار کرسکیں مگر افسوس ان کی ہر نئی تحقیق ، پہلی تحقیق کی نفی کرتی رہی۔ان یورپین سرکاری سرپرستی کو نہ مستشرق نے معیوب سمجھا اور نہ ہی ان سے متأثر حضرات نے۔ بس اعتراض یا تکلیف ہے تو صرف یہی کہ مسلم حکمرانوں نے یہ کام کیوں کردکھایا؟ آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے مسلم حکمران ایسی دینی خدمات سے غافل نہیں۔اور نہ ہی ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔بے شمار ایسے ادارے ہیں جو حدیثی خدمات کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کررہے ہیں۔

اتباع تابعین اور متنوع تصنیفات

یہ دور بڑا بابرکت ثابت ہوا کیونکہ روافض، خوارج اور معتزلہ کی بدعتوں کا شور بھی اس عہد میں خوب اٹھا۔ خلیفہ عمر ؒبن عبد العزیز کی تدوینی سرپرستی نے اہل علم میں ہلچل مچا دی تھی۔ اس لئے دوسری صدی کے آغاز سے ہی بے شمار خدام حدیث(Custodians) آگے بڑھے ۔ جنہوں نے اپنے مشائخ سے سنی احادیث کو ضبط کیا۔ ان کے اقوال وفتاوی کو بھی جمع کیا۔ حدیثی کتب لکھی ۔ ان میں جدت پیدا کی اور ہر قسم کے آثار ، فتاوی و احادیث کو بلالحاظ مرتب کرڈالا۔جو درج ذیل ہیں:

کتب السنن مصنفات وجوامع موطآت مسانید کتب مغازی وسیر کتب التفاسیر کتب السنن

ان کتب میں روایات کو فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا تھا جیسے: ایمان، طہارت، صلاۃ وزکوۃ وغیرہ۔ مگر ان میں موقوف ومنقطع بکثرت تھیں۔ ایسی کتب کی تعداد مصنفات اور جوامع کے مقابل میں بہت کم تھی۔ مثلاً:

 کتاب السنن از عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج البصری(م:۱۵۰ھ)، اصلاً رومی اور قریش کے موالی بھی تھے۔فقیہ حرم مکہ تھے اور اپنے زمانہ کے امام اہل حجاز۔ اولاً انہوں نے حدیث میں ابواب پر مبنی کتاب الجامع کے علاوہ، السنن، الصلاۃ اور التفسیر لکھیں۔جن میں صحابہ و تابعین کے اقوال وفتاوی کے علاوہ احادیث ِرسول بھی تھیں۔[17] ۔امام ذہبیؒ انہیں ثقہ وثبت کہتے ہیں اور مدلس بھی۔[18]

 محمد بن عبد الرحمن بن مغیرہ(م: ۱۵۶ھ) جو ابن ابی ذئب کے نام سے مشہور تھے انہوں نے المُوَطَّأ اور السنن نام کی دو کتب لکھیں۔یہ موطأ امام مالک کی موطأ سے پہلے متداول تھی۔

 سعید بن ابی عروبۃ مہران عدوی(م:۱۵۶ھ) نے بصرہ میں ہی علمِ حدیث کو عام کیا۔خود حافظ ِحدیث تھے اور بصرہ میں امامت کے درجہ پر فائز۔ ان کی کتب میں السنن اور التفسیر کے علاوہ ایک حدیثی جزء بھی تھا۔

 زائدہ بن قدامہ (م: ۱۶۱ھ) نے السنن، الزہد، التفسیر، القراء ات اور المناقب پر کتب لکھیں۔

 حماد بن سلمۃ(م:۱۶۸ھ) کا حدیثی جزء السنن اسی عرصہ کا ہے۔آپ راوی ٔحدیث بھی ہیں۔ بصرہ کے مفتی اورنحوکے عالم تھے۔ ثقاہت ودیانت میں اپنی مثال آپ تھے۔ اہل بدعت کے بارے میں بڑے سخت تھے۔بے شمار تصانیف بھی لکھیں۔

 ابوخازم ہشیم بن بشیر سلَمی(م:۱۸۳ھ) نے عطاء بن ابی رباح اور سعید بن المسیب کے علمِ حدیث کو جمع کرکے اہلِ واسط کو اپنی علمی تصنیف ِحدیث السنن فی الفقہ اور المغازی کا تحفہ پیش کیا۔بغداد میں مقیم ہوئے اور بطور محدثِ بغداد مشہور ہوئے۔امام احمدؒ فرماتے ہیں: میں ہشیم کے ساتھ چار پانچ سال رہا مگر ان کے رعب اور دبدبے کے باعث اس عرصہ میں صرف دو مرتبہ ہی سوال کرسکا۔حدیث پڑھاتے دوران بکثرت تسبیح پڑھتے اور لا إلہ إلا اللہ کو ذرا مد سے پڑھا کرتے تھے۔

مصنفات اور جوامع

یہ ان کتب کے نام ہیں جن میں سنن کی ترتیب پر روایات مرتب ہوئیں یا جو سنن کے حکم میں آتی ہیں یا جن روایات کا تعلق سنن سے ہو۔یہ بھی بے شمار کتب ہیں جو ان دو صدیوں میں لکھی گئیں۔مصنفین میں:

 ابو عروۃمعمر بن راشد الازدی(م:۱۵۳ھ)،بصرہ سے تھے وہیں مشہور ہوئے مگر سکونت یمن میں اختیار کرلی۔ انہوں نے واپس بصرہ آنے کا ارادہ کیا تو اہل صنعاء نے ان کے علمی مقام ومرتبے کے پیش نظر انہیں واپس نہ جانے دیا۔ ایک یمنی نے اس موقع پرکہا:قَیِّدُوْہُ وَزَوِّجُوْہُ۔ اسے قید کرلو اور اس کا نکاح کردو۔یمنیوں کی اس ترکیب سے پھر معمر نے وہیں سکونت اختیار کرلی۔ یمن میں اپنے حدیثی صحیفۃ کو بھی نمایاں کرچکے تھے۔ علماء رجال کے نزدیک :أَوَّلُ مَنْ صَنَّفَ بِالْیَمَنِ۔سب سے پہلے مصنف ہیں جنہوں نے یمن میں الجامع نام کی کتاب حدیث لکھی۔امام ذہبیؒ نے انہیں أَوْعِیَۃُ الْعِلْمِ لکھا ہے۔ بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔اس کتاب کا ایک نسخہ مکتبۂ فیض اللہ میں اور دوسرا انقرہ کے قومی مکتبہ میں موجود ہے۔ شاید اللہ کا کوئی بندہ کسی وقت اسے تحقیق کرکے شائع کردے۔[19]

 امام عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعی(م:۱۵۷ھ) بلادِ شام کے بلا شرکت ِغیرے امام ، فقیہ اور محقق عالم تھے۔ بعلبک میں پیدا ہوئے، بقاع میں پرورش پائی، دمشق میں عمر کا بیشتر حصہ گذارا۔ بنو عباس کا انقلاب آنے پر بیروت آگئے اور وہیں فوت ہوئے۔ان کی حدیثی تصنیف الجامع ہے۔

 سفیان بن سعید الثوری(م:۱۶۱ھ) ابوعبد اللہ کنیت رکھتے تھے۔ شیخ الاسلام، سید العلماء العالمین اور امام الحفاظ جیسے القاب علماء وقت نے انہیں دئے۔ امام و مجتہد کے درجے پر فائزتھے۔ان کے شاگردوںمیں ابن المبارک اور یحییٰ بن سعید القطان جیسے نامور ائمہ تھے۔منصور نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح عہدۂ قضاء قبول کرلیں مگر یہ بچتے رہے۔ آخر میں بصرہ منتقل ہوگئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔کوفہ میں الجامع نام کی کتابِ حدیث لکھ چکے تھے۔ان کی مزید کتب التفسیر، الجامع الکبیر، الجامع الصغیر، الفرائض اور الاعتقاد نام کی تھیں۔[20]

 مصنف از امام وکیع بن الجراح الرؤاسی(م: ۱۹۷ھ)، ابوسفیان الکوفی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ اعور تھے۔ انہوں نے ابن عبد اللہ البجلی، جریر بن حازم، حماد بن سلمہ، سفیانین سے روایت کی اور ان سے امام احمد بن حنبل، اسحق بن راہویہ، خلیفہ بن الخیاط، عبد اللہ بن المبارک، محمد بن الصباح الدولابی وغیرہ نے روایت کی۔امام احمدؒ بن حنبل انہیں اوعیۃ العلم قرار دیتے۔ فقاہت حدیث کے ساتھ اپنے حافظہ اور اتقان میں بھی لاثانی تھے۔رقائق وزہد کے مستند عالم تھے۔ امام یحییٰؒ بن معین انہیں عراق کا ثبت وثقہ عالم تسلیم کرتے۔ جب یہ لڑکے تھے توامام سفیانؒ بن عیینہ انہیں رؤاسی کہہ کر پکارتے اور بلا کر فرماتے: مجھے احادیث سناؤ جو تم نے سنی ہیں۔ تو یہ ان کے پاس بیٹھ کر سند کے ساتھ احادیث سناتے اور امام سفیانؒ ان کے حفظ پر تعجب کا اظہار کرتے۔ خود کہا کرتے: میں نے پندرہ سال کسی کتاب کو نہیں دیکھا بس حافظے پر اعتماد کیا ۔امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد یہ ان کی مسندتدریس پر بیٹھے۔عبد الرزاق الصنعانی کہتے ہیں: میں نے ثوری، ابن عیینہ، معمر، مالک اور دیگر علماء کو دیکھا مگر میری آنکھوں نے وکیع جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا۔ علی بن خشرم کہتے ہیں: میں نے انہیں عرض کی کہ حفظ کی کوئی دوائی بتائیں۔ فرمانے لگے اگر میں بتاؤں تو اس کا استعمال کروگے۔ انہوں نے کہا : ضرور۔ فرمانے لگےتَرْکُ الْمَعَاصِیْ۔ بہترین حافظے کی دوا گناہ چھوڑنا ہے۔الجامع ان کی تصنیف ہے۔ عاشوراء کے روز ان کا انتقال ہوا۔[21]

 جامع سفیان بن عیینہ(م: ۱۹۸ھ)، ان کی کنیت ابوعمران الہلالی تھے ، کوفی اور مکی بھی کہلاتے ہیں۔ائمہ اسلام اور حفاظ حدیث وسنت میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔[22]

موطآت:
یہ کتب السنن کی طرز پر لکھی گئیں۔فقہی احکام کے علاوہ ان میں فتاوی، واقوال اور استنباطات ِصحابہ وتابعین وتبع تابعین بھی درج ہوئے۔ تصحیح وتضعیف ِحدیث کا معیار ابھی قائم نہیں ہوا تھا اس لئے تدوین ِاحادیث وآثار پر ہی ان کتب کی زیادہ تر توجہ رہی۔اس لئے ان کتب میں مراسیل، منقطعات، اور بلاغات کے علاوہ موقوف ومقطوع روایات بھی ہیں۔

موطأ
امام مالک بن انس (م: ۱۷۹ھ) جوامام دار الہجرہ اور عالم المدینہ بھی کہلاتے ہیں۔ائمہ اربعہ میں سب سے بڑے امام ہیں کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ان کی شاگردی حاصل ہے۔مالکی حضرات انہی کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ موطأ میں امام مالکؒ نے اہل حجاز کی قوی احادیث کو درج کرنے کا التزام کیااور فتاوی صحابہ اور تابعین بھی شامل کردیئے اور ساتھ ہی اپنا نکتۂ نظر بھی پیش کیا۔اسی کتاب کو خلیفہ ہارون الرشید نے ایک آئینی حیثیت یوں دینا چاہی کہ اسی کے مطابق تمام علماء وفقہاء فتوی دیا کریں مگر امام محترم نے بڑی عاجزی سے فرمایا: یہ صرف میرا علم ہے جبکہ عالم اسلام میں علماء کی خاصی تعداد ہے ان کے علم سے بھی مستفید ہونا چاہئے۔موطأ کو یہ پذیرائی بھی مل چکی تھی کہ تقریباً سن ۱۳۰ھ میں اندلس پہنچ چکی تھی۔ انہی کے معاصر محمدبن عبد الرحمن بن ابی ذئب (م:۱۵۸ھ) نے بھی اپنی موطأ لکھی۔

 

مسانید
غالباًسب سے قدیم مسند ، امام عبد اللہ بن المبارک تمیمی(م:۱۸۱ھ) کی ہے جنہوں نے خراسان کی سرزمین کو اپنی حدیثی کتب سے نوازا۔ابوعبد الرحمن کنیت رکھتے تھے۔ بہت سی تصانیف لکھیں جن میں المسند، الزہد اور الجہاد نامی کتابیں ہیں۔اپنی تمام عمر سفر حج، جہاد اور تجارت کرتے کرتے گذار دی۔حدیث کے حافظ، فقیہ وقت اور عربی لغت کے علاوہ تاریخی واقعات کے زبردست عالم تھے۔ شجاعت وسخاوت میں بھی لاثانی۔ خراسان میں ہی ان کا انتقال ہوا۔

 مسند حافظ ابوداؤد طیالسی (م: ۲۰۳ھ)کی بھی قدیم ترین کتاب ہے۔گیارہ اجزاء پر مشتمل یہ کتاب ایک ضخیم جلد میں چھپ چکی ہے۔ مسند کو جمع کرنے کی کوشش ان کی ذاتی نہیں بلکہ بعض حفاظ خراسان نے اس میں ان روایات کو بطور خاص جمع ومرتب کردیا جو ان سے یونس بن حبیب نے سنی تھیں۔یہی اس مسند کے راوی ہیں جو علمی اعتبار سے ایک ثقہ اور نیکی وبزرگی میں بہت ہی آگے تھے۔[23]

مغازی وسیر کی کتب:

یہ وہ کتب ہیں جن میں سیرت نبوی کے مختلف پہلو جن کا تعلق جہاد، غنائم، امان او رجزیہ سے ہو۔یا جنگ وصلح اور ان کے معاہدات سے یاحاصل شدہ مال غنیمت، قیدی اور غلاموں سے ہو یادوسری قوموں کے ساتھ گفتگو ومعاہدات سے ہو۔ان کتب کو ہم تاریخی اعتبار سے چار اہم طبقوں میں مرتب کرسکتے ہیں:

پہلا طبقہ:

مغازی اور سیر پر اولین کام عروہ بن زبیر(م:۹۴ھ) اور ابان بن عثمان(م: ۱۰۵ھ) کا ہے۔ابن سعد نے لکھا ہے: ابان بن عثمان کی ایک کتاب سیر کے موضوع پر تھی۔ابن سعد نے مغیرہ بن عبد الرحمن کے حالات میں انہیں ثقہ اور قلیل الحدیث لکھا اور یہ بیان کیا کہ مغیرہ نے مغازی ٔرسول اللہ ﷺ کی روایات ابان بن عثمان سے حاصل کی ہیں۔

دوسرا طبقہ

اس کے نمایاں مولفین میں عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم الانصاری(۱۳۵ھ) ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے والے وفود کی تفصیلات روایت کی ہیں۔وفاتِ نبی ﷺ کے ساتھ ہی جن مختلف قبائل نے ارتداد کا اعلان کیا ان کی تفاصیل بھی فراہم کی ہیں۔ آپ ﷺ کے غزوات کا ذکر بھی مرتب تاریخی صورت میں پیش کیا۔ اسی طبقہ کے ایک اور مصنف عاصم بن عمر بن قتادہ (م: ۱۲۰ھ)ہیں جو ابن اسحق کے استاذ بھی ہیں۔ اس علم میں رسوخ کی وجہ سے خلیفۂ راشد عمر بن عبد العزیز نے انہیں اجازت دی کہ دمشق کی جامع مسجد میں عوام کو مغازیٔ رسول اور مناقبِ صحابہ بیان کیا کریں۔ اسی طبقے میں ایک اور جری عالم ومحدث وقت امام ابن شہاب الزہری(م: ۱۲۴ھ) کا نام بھی ہے جنہوں نے مغازی وسیر میں خوب مہارت حاصل کی اور روایات بیان کیں۔

تیسرا طبقہ : 
موسیٰ بن عقبہ بن ابی عیاش مدنی (م:۱۴۱ھ)جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ان کا نام مغازی وسیر کے علماء میں سرفہرست ہے۔امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے ان کی مغازی کو صحیح ترین مغازی قرار دیاہے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے: مغازی میں ان کی کتاب سے بڑھ کر کوئی اور کتاب صحیح نہیں اگرچہ وہ مختصر ہے اور ان روایات سے بالکل خالی جو دوسری کتب میں ملتی ہیں۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: موسیٰ بن عقبہ کی مغازی کو لازم پکڑو اس لئے کہ وہ ثقہ عالم ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی موسیٰ بن عقبہ کی مغازی سے استفادہ کیا اور اپنی صحیح میں غزوہ خندق، غزوہ بنی المصطلق اور غزوہ طائف کے حالات روایت کئے ہیں۔ اسی طبقہ کے ایک اور راویٔ غزوات، محمد بن اسحق بن یسار مطلبی(م:۱۵۱ھ) ہیں جو امام زہریؒ کے شاگرد ہیں اور ان سے بہت مستفید ہوئے ہیں۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے اپنے بیٹے مہدی کے لئے ان سے درخواست کی کہ ایک کتاب سیرۃ نبوی پر تحریر کریں۔چنانچہ انہوں نے یہ کتاب لکھی۔جسے ان کے شاگرد زیاد البکائی اور ان سے ابن ہشام روایت کرتے ہیں۔یہ کتاب مفقود سمجھی گئی مگر مصر میں اس کے چند اوراق مل گئے۔ اورجس کا بڑا حصہ بعد میں یورپین لائبریریز میں ہی دریافت ہوگیا جسے ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے تحقیق کرکے فاس کے معہد دراسات سے سن ۱۹۸۹ھ میں شائع کردیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن ؒاسحق کی کتاب سے بھی الجامع میں جابجا اقتباسات پیش کئے ہیں۔

اسی طبقہ کے ایک اور عالم ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن الحارث الفزاری(م: ۱۸۶ھ) نے بھی السیر نام کی کتاب لکھی۔اسی طرح ابوخازم ہشیم بن بشیر سلمی نے بھی المغازی پر کتاب لکھی۔

ابن ہشام بھی اسی طبقہ کے نمایاں ترین عالم ہیں۔عراق کے شہر بصرہ میں ان کی پرورش ہوئی۔مصر گئے تو دیگر علماء کے علاوہ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ملاقات ہوئی۔وہیں رہ کر السیرۃ النبویۃ کتاب لکھی۔جس کی وجہ ابن اسحق کی کتاب بنی جسے انہوں نے سنوارا اور سیرت سے متعلق بہت سی غیر متعلق باتوں کو حذف کیا یا جہاں شک تھا جیسے بہت سے اشعارو انساب وغیرہ کا ذکر نہیں کیا۔ہاں چند اہم باتوں کا اضافہ ضرور کیا ۔اس کتاب کے بے شمار مخطوطے ہیں جن میں قدیم ترین نسخہ وہ ہے جو چھٹی صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔

جرمن مستشرق وستنفلڈ پہلے فرد ہیں جنہوں نے یہ کتاب سن ۱۸۶۰ء میں دو جلدوں میں شائع کرائی۔عبارت مشکل ہونے کی وجہ سے انہیں مزید ایک جلد بطور ملحق کے اضافہ کرنا پڑی جس میں بہت سی وضاحتیں، حاشئے اور فہارس وغیرہ ہیں۔ یہ کتاب امام سہیلی ؒکے نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے دوبارہ طبع بھی ہوئی۔ سہیلی کا یہ وہ خاص مخطوطہ ہے جسے انہوں نے اپنے شیخ ابن العربی سے حاصل کیا تھا۔ اس کتاب کی طباعت مسلسل ہوتی رہی۔مگر اس کی انتہائی عمدہ ودقیق طباعت استاذ محمد مصطفی السقا اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق ہے۔

چوتھا طبقہ

یہ وہ مصنف ہیں جنہوں نے سیر اور مغازی پر تصنیفات پیش کیں اور جو امام بخاری ؒکے معاصرین میں سے ہیں۔ان میں نمایاں ترین نام ابن سعد (م: ۲۳۰ھ) کا ہے ۔ طبقات کا پہلا حصہ السیرۃ النبویہ اور مغازیٔ رسول پر مشتمل دو جلدوں میں ہے اوربقیہ حصہ میں صحابہ وتابعین اور علماء معاصرین تک کے تراجم ہیں۔ کتاب مطبوع ہے۔

اس طبقہ کے ایک اہم عالم ابن ابی خیثمہ (م: ۲۷۹ھ) بھی ہیں۔ان کی کتاب بھی طبقات میں مرتب کتاب ہے۔ ان رواۃ کے تراجم ہیں جو ان کے زمانہ تک کے ہیں۔اپنی اس کتاب میں تاریخ اور السیر کو بھی انہوں نے داخل کردیا ہے مگر بھرپور نقد اورعلل الحدیث کی وضاحت کے ساتھ۔ ان کا منہج بھی ابن سعد کے طبقات جیسا منہج ہے یہ کتاب بھی مطبوع ہے۔

اس طبقہ کے ایک اور اہم عالم خلیفہ بن خیاط العصفری (م: ۲۴۰ھ)ہیں۔ ان کی کتاب التاریخ جو سن وار مرتب ہے اور کتاب الطبقات بھی مطبوع ہوگئی ہے۔ خلیفہؒ بن خیاط، امام بخاری ؒکے شیخ ہیں اوران سے اپنی صحیح میں روایت کرتے ہیں۔

کتب التفاسیر:

یہ وہ کتب ہیں جو تفسیر قرآن میں آثار کو بھی جگہ دیتی ہیں۔ چند اہم تفسیری کتب جو دوسری وتیسری صدی ہجری میں لکھی گئیں ان کے نام یہ ہیں:

۱۔ تفسیر مجاہد بن جبر (م: ۱۰۱ھ)، تفسیر ابن جریج، تفسیرسعید بن ابی عروبۃ اور تفسیر زائدہ بن قدامہ۔ تفسیر سفیان الثوری (م:۱۶۱ھ) اس تفسیرمیں تمام آیات کی تفسیر تو نہیں ہاں اسلاف کی تفسیری روایات اس میں ضرور موجودہیں جو تقریباً ۴۹سورتوں کی ہیں جن کی آخری سورۃ الطور ہے۔ ڈاکٹر امتیاز عرشی نے اس کی تحقیق کی اور رامپور ہندسے شائع کرایا۔ بعد میں یہ کتاب دار الکتب العلمیۃ بیروت سے سن ۱۴۰۳ھ میں طبع ہوئی۔

خصوصیات

ان کتب کی خصوصیات یہ تھیں:

٭صحابہ کرام کی روایت کردہ مسند ومرفوع احادیث ان میں آگئیں۔

٭صحابہ کرام کے فتاوی اور استنباطات بھی ان میں جگہ پاگئے۔

٭کبار تابعین کی مسند مرفوع روایات بھی ان کتب میں شامل ہوگئیں۔

٭ان کے فتوی ، اقوال اور استنباطات بھی ان کتب میں لکھ دئے گئے۔

٭ان روایات میں تصحیح وتضعیف کا اصول نہ اپنایا گیا۔ محض جمع وتدوین مواد مقصد تھا تاکہ اس کام کے بعد اس کی تصحیح وتضعیف کی طرف توجہ دی جائے۔یہی وہ زمانہ ہے جس میں نقد حدیث شروع ہوئی۔اور اگلی وپچھلی کتب حدیث کے درمیان ایک Comparative Study کا آغاز ہوا۔۔جسے پڑھ کر وہ تمام ابہام وشکوک دور ہوسکتے ہیں جن کا اسیر آج کا متأثر طبقہ ہے۔تاکہ کتب سنت کے علمی وتحقیقی مناہج اور محدثین کرام کے تنقیدی اسلوب کی روشنی میں یہ موضوع سمجھا جائے۔

 

تبصرہ
اسلامی مملکت میں پھیلے علماء کی کتب اور روایات اس طرح ان مجموعوں میں جمع ہوگئیں جو تحریری اور زبانی طور پربالآخر جمع وتدوین کے مراحل میں داخل ہوگئیں۔ گو ان سب روایات کا سلسلہ اوپر رسول ﷺ یاصحابی تک ایک ہی ہوجاتاہے اور یوں اوپر جاتے جاتے احادیث کی تعداد سمٹتی جاتی ہے۔مگرجس راوی نے بھی حدیث روایت کی اس کے بے شمار فوائد ہوئے۔ مثلاً: اس علاقے میں پھیلی روایات اور ان کی اسانید کا علم ہوا۔ علماء حدیث کی علمی سرگرمیوں سے آگاہی ہوئی۔ صحیح وضعیف اور موضوع احادیث بھی قید تحریر میں آگئیں جن میں تمیز کرنا آسان ہوگیا۔ہر راوی کے بارے میں علماء حدیث نے اپنی آنکھوں دیکھی یا کانوں سنی حقیقت بھی لکھی۔ جس سے علماء کو مزید غورو خوض کا موقع ملا اور بتدریج اصطلاحات ِحدیث متداول ہونے لگیں۔روافض ، معتزلہ، خوارج، ناصبی، قدری اور زنادقہ کی روایات اور اس میں پروئی سوچ کا علم ہوا۔ان فرقہ پرستوں نے بھی اپنی کتب ِحدیث لکھیں مگر محدثین انہیں خاطر میں نہ لائے جیسے کوئی مستشرق یا منکر ِکتاب، حدیث لکھے تو مسلمان اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے یا قرآن کریم کے تراجم قادیانی یا یہودی وعیسائی لکھیں تو مسلمان ان پر اعتماد نہیں کرتے۔

٭ احادیث کا جمع کرنا بلا شبہ بڑا علمی کام تھا۔مگر ان میں صحیح وضعیف کا معیار قائم کرنا اس سے بڑا علمی اور مشکل کام تھا۔کیونکہ رواۃ حدیث کے حالات اور ان کی ذہنی استعداد ، نیز ان کی عادات واطوار معلوم کرنا محدثین نے ضروری جانا تاکہ ہر راوی کی روایت کو علم واصول کی بنیاد پر قبول یا رد کیا جائے۔آپ ﷺ نے اس تاکید کے ساتھ یہ دعا دی تھی کہ جو میری احادیث غور سے سنے، انہیں بخوبی یاد کرے، پھر انہیں آگے پہنچائے اللہ تعالیٰ اسے تروتازہ رکھے۔ یہی رسول اللہ ﷺ کی سند تھی کہ میری احادیث کا پھیلاؤ اہل علم کے ہاتھوں ہو تاکہ امت کو یکساں سلیقۂ تعلیم مل جائے۔ قرآن کریم کو بھی آخرلکھنے یا لکھوانے کی کوئی سند الہی تو نہ تھی مگر اسے بھی مسلمانوں نے اپنی فراست سے کتابی شکل دی۔ اگر قرآن کریم کو مسلمانوں کی انفرادی کوشش کے نتیجے میں قبول کیا جاسکتا ہے کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے تو پھر ذہن میں یہ شک کیوں آئے کہ احادیث زبانی طور پر منتقل جب ہوئی ہوں گی تو کیا معلوم راوی کے الفاظ وہ نہ ہوں جو اس کے استاذ کے تھے؟ کیا یہی شک قرآن کریم کے بارے میں نہیں کیاجاسکتا؟ مزید وضاحت آگے بھی آرہی ہے۔ صحابہ کرام نے بھی آیات کے رد وقبول کا دارومدار اپنی ذاتی بصیرت کو بنایا تھا جو سب انفرادی کوششیں ہی تھیں اور جنہیں اللہ ورسول نے کوئی سند عطا نہیں کی ہوئی تھی۔

 ٭دین ایسی چیز نہیں جو بے عمل ، بدکردار یا جاہل لوگوں کے ذریعے مسلمانوں کو منتقل ہوا ہو۔ الحمد للہ ہر دور میں سینکڑوں علماء، فقہاء، محدثین اور مفسرین اس کے محافظ رہے ہیں۔ ایک لمبی قطار ہے صحابۂ رسول کی، تابعین کی اور تبع تابعین کی۔ جسے پیارے رسول نے خیر القرون سے یاد فرمایا ہے۔اس منتقلی کا اپنے آپ سے یا اپنے دور سے تقابل مت کیجئے۔ہمارے دور میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو بات کو مروڑ کر لکھ دیتے ہیں، غلط سمجھتے ہیں، تحریف کرتے ہیں جھوٹ بولتے اور لکھتے اور اپنا چھوٹاقد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن وسیرت ِرسول سے اور اہلِ دین سے بغض ، کینہ وعناد ان کے دل میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ میڈیا پر بیٹھے جنگ لڑتے ہیں اور اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ حقیقت نظر آنے لگتا ہے۔ کیا یہ سب حقیقت ہے؟ یا جھوٹ سچ کا کوئی معیار ہے؟ محدثین کرام نے نااہل لوگوں کو ہی چلتا کیا ہے اور جن کرداروں کو پیش کیا ہے کیا ان کی سوانح حیات میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟

٭ الحمد للہ صحابہ کرام نے اور ان کے بعد کی نسلوں نے رسول اکرم ﷺ کی قولی احادیث کو لفظ بہ لفظ یاد کیا ہے۔ رہیں فعلی اور تقریری احادیث، جو ذخیرہ ٔحدیث میں تقریباً پچھتر فی صد ہیں انہیں ظاہر ہے صحابہ کرام نے اپنے الفاظ دینا تھے۔ان میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ محض سمجھنے کی ضرورت ہے۔

 ٭ حدیث کے بارے میں معترضانہ گفتگو کرنے سے بہترہے کہ عیسائیوں کی انجیل پر یہ لوگ لکھ ڈالتے جسے کم از کم خدمت دین تو کہا جاسکتا۔ عیسائی حضرات نے اپنی بائیبل کے ساتھ جو کچھ کیا آج یہ انہی کے اندر کے سوالات ہیں:

: Who wrote the Bible? یا What Did Jesus really Say? مگر پھر بھی انہوں نے سینٹ پال کے خطوط کو جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پہ اٹھ جانے کے برسہا برس بعد لکھے تھے۔Holy قرار دیا اور بائیبل کا حصہ بنادیا۔مگر حیرت ہے کہ اس آگاہی کے باوجود بھی عیسائی مشنریز اس کی اندھی قائل ہیں اور اپنے اداروں، جامعات ، سکولوں اور عبادت گاہوں میں کئے گئے کاموں پر مفتخر ہیں۔ کیا ہم مسلمانوں نے ایسا سلوک اپنے دین کے ساتھ کیا؟ لینن ، مارکس اور ماؤ کے ملحدانہ نظریات تو الحمد للہ بڑی ذلت کے ساتھ رخصت ودفن ہوگئے ۔اس کے بعد چاہئے تویہ تھا کہ یہ لوگ توبہ وانابت الی اللہ کرتے مگر مقام حیرت ہے کہ اب بھی جھوٹے سہاروں پر جینے میں انہیں مزہ آتا ہے۔مرعوبیت کی حد یہ ہے کہ اپنے دینی شعائر پر دوسروں کے سامنے یہ لوگ جھینپتے ہیں اوران کی تقلید کرتے ہوئے دین اسلام کے معترض بن جاتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حواشی

 



[1]    صحیح بخاری: ۱۱۱

[2]    صحیفہ ہمام    بن منبہ اردو ترجمہ از بیکن بکس، ص:۵۸

[3]     التوبۃ:۱۰۰

[4]     العلل از امام احمد: ۴۱۹۹

[5]     فتح الباری۱؍۷۶

[6]     شرف اصحاب الحدیث:۶۴

[7]     فتح الباری۱؍۲۰۴

[8]    سنن دارمی  ؍۱۲۶

[9]     الطبقات الکبری لابن سعد ۲؍۱۳۴

[10]     مقدمۃ کتاب الجرح والتعدیل:۲۱

[11]     تہذیب الکمال۲۶؍۴۳۷

[12]     تہذیب الکمال۲۶؍۴۳۶

[13]     تہذیب الکمال ۲۶؍ ۴۳۵

[14]     الإرشاد فی معرفۃ علماء الحدیث از خلیلی ۱؍۱۸۹

[15]     جامع بیان العلم ۱؍۷۶

[16]     مقدمہ السُّنَّۃُ وَمَکَانَتُہَا فِی التَّشْرِیْعِ الِإسلاَمِی از مصطفی سباعی

[17]    صحائف الصحابۃ: ۲۳۹، استاذ احمد عبد الرحمن الصویان، تہذیب التہذیب ۶؍ ۴۰۲

[18]    تذکرۃ الحفاظ ۱؍۱۶۹

[19]     طبقات ابن سعد۵؍۳۹۷، تذکرۃ الحفاظ ۱؍۱۹۰  

[20]     التاریخ الکبیر ۲؍۲؍۹۲، تہذیب التہذیب ۴؍۱۱۱

[21]     طبقات ابن سعد ۵؍۵۲۰، التاریخ الکبیر ۸؍۲۶۱۵، میزان الاعتدال ۴؍ ۹۳۵۵

[22]     طبقات ابن سعد ۵؍۳۶۴، تاریخ بغداد ۹؍۱۷۴

[23]     عقد الجوہر الثمین از القاسمی:۳۰۸  

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post