استقبال رمضان

رمضان کامہینہ ہم پر سایہ فگن اورجلوہ افروز ہونے والا ہے۔ یہ ماہ عظیم نیکیوں کاموسم برسات اور خیر وبرکت سمیٹنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ہم پر روزے فرض ہیں ، اس کی راتوں میں قیام تطوع(نفلی عبادت)ہے۔اس مہینے میں نوافل کا اجر فرائض کے برابر اور فرائض ستر گناہ زیادہ اجر و ثواب کے حامل ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح ماہ صیام میں قرآن پاک کی تلاوت کا اجر عام دنوں میں کی گئی تلاوت کے اجر سے زیادہ اور عمرے کا ثواب حج کے برابر لکھا جاتاہے۔ بہرحال یہ اللہ کی رحمتیں لوٹنے والا مہینہ ہے دن ہو یارات اللہ کی طرف سے گویا خزانوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ۔ روزہ رکھ کر ، رات میں قیام کر کے ، قرآن کی تلاوت کر کے اور اعتکاف کے ذریعے رحمتیں لُوٹیں ۔اس مبارک مہمان کی ہم جتنی تواضع اور خاطر داری کریں گے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر اور مفید ثابت ہوگا۔ کیونکہ اس عظیم مہمان کی حقیقی معنوں میں عزت و احترام اللہ کے رسول اور اصحاب رسول کرتے تھے۔ اس کا باضابطہ استقبال کرتے تھے۔ اس کی آمد پر اللہ کے رسول نے اس ماہ کی اہمیت پرایک مرتبہ جامع خطبہ فرمایا تھا جس کو حضرت سلمان فارسی ؓ نے روایت کیا ہے۔

آپﷺ نے فرمایا: اے لوگو! ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے،(یہ) مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات (ایسی ہے جو) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس ماہ میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (نمازِ تراویح کی صورت میں ) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے۔ جو(خوش نصیب) اس مہینے میں اللہ کی رضا کے لئے کوئی نفلی عبادت انجام دے گا، تواُسے دوسرے مہینوں کے(اسی نوع کے) فرض کے برابر اجر ملے گااور جو اس مہینے میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا، تو اسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) سترفرائض کے برابر اجر ملے گا۔

 اس خطبے میں چند قابل ذکر پہلو یہ ہیں:

۱- اس ماہ مبارک میں شب قدر ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔

۲- اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ جو نفل ادا کرے گا اس کو فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔

۳- یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔

۴- یہ ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ ہے۔

اس خطبے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رمضان کی آمد کے موقعے پر اللہ کے رسول خود بھی ذہنی و عملی طور پر تیار رہتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی تیار کرتے تھے اور انہیں رمضان میں با مقصد اور بھر پور عملی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے تھے۔

اللہ کے رسول ماہ رمضان کے علاوہ ماہ شعبان میں بھی کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے نہیں دیکھا کہ آ پ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفل روزے رکھتے ہوں۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ماہ شعبان، رمضان المبارک سے قریب تر مہینہ ہے۔ لہٰذا ذہنی اور جسمانی طور سے بھی تیاری کے لیے موزوں اور مناسب مہینہ ہے۔

اللہ کے رسول شعبان کی تاریخیں بڑے اہتمام کے ساتھ یاد رکھتے تھے کیوں کہ اس عظیم مہینے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیائے انسانیت کے لیے زندگی گزارنے کا لائحہ عمل قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے عظیم ترین نعمت اور معجزہ ہے۔ انسان کی فکر و عمل اور شخصی ارتقاء کے لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف النوع عبادات مقرر کیں جن میں روزوں کو کافی اہمیت حاصل ہے۔

حضورنبی کریم ﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے کہ اس کے پانے کی دعا اکثر کیا کرتے تھے۔ اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔

 حضور ﷺ کا دعا فرمانا

حضور نبی کریم ﷺ ماہ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے۔

کان رسول اﷲ ﷺ اذا دخل رجب قال: اللهم بارک لنافی رجب و شعبان و بلغنا رمضان.(المعجم الاوسط‘رقم حدیث: 3951)

حضرت انس بن مالک ﷜سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔

رمضان المبارک کا چاند دیکھنے پر خصوصی دعا

حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر خصوصی دعا فرمایا کرتے تھے:

کان اذا رای هلال رمضان قال: هلال رشد و خیر‘ هلال رشد و خیر امنت بالذی خلقک.( مصنف ابن ابی شیبه‘رقم حدیث: 9798)

جب حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے‘ یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔

 رمضان المبارک کو خوش آمدید کہنا

حضور نبی کریم ﷺ اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال کرتے۔

حضور نبی کریم ﷺ نے سوالیہ انداز کے ذریعے صحابہ کرام سے رمضان المبارک کے استقبال کے بارے میں پوچھ کر اس مہینے کی برکت کو مزید واضح کیا۔

جب رمضان المبارک ک مہینہ آتا تو حضور ﷺ صحابہ کرام سے دریافت کرتے:

ما تستقیلون؟ ماذا یستقبلکم؟ (ثلاث مرات)(الترغیب والترهیب‘2: 105)

تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے۔(یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے)

اس پر حضرت عمر ﷜نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

ان الله یغفر فی اول لیلة من شهر رمضان اهل لکل هذه القبلة.(الترغیب والترهیب‘ 2: 105)

تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو جس کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کردیا جاتا ہے۔

 رمضان اور شعبان میں روزوں کا اتصال

حضور نبی کریم ﷺ ماہ شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھ کر ماہ رمضان کی تیاری اور استقبال کیا کرتے تھے۔

عن عائشة قالت: کان أکثر صیامه سوی رمضان فی شعبان.(سنن النسائی،رقم حدیث: 2179)

حضرت عائشہ ﷝بیان فرماتی ہیں کہ: حضور نبی کریم ﷺ رمضان کے علاوہ صرف ماہ شعبان میں ہی کثرت کے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے۔(اکثر اوقات حضور نبی کریم ﷺ شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیتے تھے۔)

قابل غور نکتہ:

استقبالِ رمضان دراصل ایک وجدانی، روحانی اور باطنی کیفیت کانام ہے۔پس لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو نظریاتی اور عملی طور پر رمضان المبارک کی اِن بے حساب نعمتوں اور اجروثواب کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے آمادہ کریں، بلکہ دوسروں کو بھی راغب کریں تاکہ ایک اجتماعی کیفیت پیداہو اور روزہ ورمضان المبارک کی بدنی ومالی عبادات ہمیں بار معلوم نہ ہوں بلکہ اُن سے روحانی راحت نصیب ہو۔

یہ ایسا(مقدّس) مہینہ ہے کہ اس کا پہلاعشرہ نزولِ رحمت کاسبب ہے اور اس کا درمیانی عشرہ مغفرت کے لیے ہے اور اس کاآخری عشرہ نارِجہنم سے نجات کے لیے ہے اور جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت لوگوں(یعنی خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گااور اسے نارِجہنم سے رہائی عطا فرمادے گا ،(شُعَبُ الایمان لِلبَیہقی :3608)۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post