مقصد ِصيام الہامی مذاہب کی روشنی میں

محمد شاہد خان(جامعہ علیمیہ اسلامیہ)

 

اللہ تعالی نے اس بے مثال کائنات کوتخلیق فرمایا اور انسان کو اپنا خلیفہ و نائب بنا کراس شاہ کار دنیا میں مبعوث فرمایا اور انسانی زندگی کے لیے ضابطہ حیات مقرر کیا کہ جس پرعمل پیرا ہوکر انسانیت نجات (salvation) حاصل کرتی ہے اور وہ خوشی واطمینان سے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اس مسلمان اور فرحت بخش زندگی کے لیے احکامات نازل فرمائے تا کہ ان کے ذریعے سے اپنے خالق و مالک اور رازق کا عرفان حاصل کرسکیں اور اللہ تعالی کی تمام تعلیمات اور ارشادات کا اصل الاصول مدعا حصول تقوی ہے۔ نماز کا اصل مقصدخشیت الہی کا حصول ہے ۔ زکوة کا مقصد مال خرچ کر کے قرب الہی حاصل کرنا ہے۔ روزے کا مقصد ومنشا تقوی و پرہیز گاری کی نعمت سے مستفیض ہونے کے ہیں ۔ روزے کے ذریعے اور وسیلے سے انسانی نفس کا تزکیہ وتصفیہ ہوتا ہے ۔ خواہشات نفسانی پر قابو پایا جاتا ہے۔ اخلاق رذیلہ  قبیحہ سے بچنے  کی قوت و طاقت پیدا ہوتی ہے اور یہ صلاحیت سخت محنت، ریاضت اور مجاہدے کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی نے رمضان المبارک کے پورے مہینے میں روزے فرض قرار دیے ہیں تا کہ اس پورے مہینے میں سخت محنت و مشقت سے روزے رکھ کر اپنے باطن کا تزکیہ کیا جائے اور تقوی ، پرہیز گاری اورللہیت  پیدا کی جائے ۔ اس پورے مہینے میں مشقت وریاضت کروائی جاتی ہے کہ جب اللہ کے بندے نے اللہ کے حکم پر حلال کو ترک کر دیا توو ہی اللہ کا بندہ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حرام کو بھی ترک کر دےگا۔لہذا مہینے بھر کی انتھک محنت اور جہد مسلسل پھراگلے گیارہ مہینوں میں کارفرما رہی ہے۔ اس طرح تخلیق کا مقصدحاصل ہو جاتا ہے کہ الله تعالی نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (سورة الذاريات:56)

 تر جمہ:"اور نہیں پیدا فرمایا ہم نے جن وانس مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں"۔

 روزے کے ذریعے سے انسان رب تعالی کے حضور سر تسلیم  خم کر دیتا ہے کہ تیرے حکم پر حلال پر عمل کرتا ہوں اور تیرے حکم پر حرام کو ترک کرتاہوں۔ا س تابعداری اور فرمانبرداری سے بندہ اللہ کا بندہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے روزے کی فرضیت کے بارے میں ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔  (سورة البقرة:183)

 ترجمہ "اے ایمان والوں فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے جیسے فرض کیے گئے تھے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے کہ کہیں تم پرہیز گار بن جاؤ"۔

یقیناً روزہ انتہائی سخت محنت اور مجاہدہ  کا تقاضہ کرتا ہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کو قابو میں رکھنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے لیکن رب تعالی نے مومنین کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے طور پر فرمایا کہ یہ روزے جوتم پر فرض قرار دیے گئے ہیں تو وہ تم سے پہلے لوگوں پربھی فرض قرار دیے گئے تھے تا کہ جب گزشتہ لوگوں نے عمل کیا ہے تو اس عمل کی  سختی  میں تھوڑی کمی واقع ہوجاتی ہے اور انسان باہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ کہ گزشتہ قوموں نے اس حکم  پر  عمل پیرا ہو کر اجر وثواب پایا۔

اللہ تعالی نے گزشتہ قوموں پر بھی روزے فرض کیے تھے ۔ اس کا مدعا اور منشاپر ہیز گاری اور پاکبازی کی نعمت سے سرفراز کرنا تھا۔ اگر ہم الہامی مذہب (Revealed Religion) میں عیسائیت اور یہودیت کی مقدس کتاب (Holy Bible) کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس مقدس کتاب میں بھی  روزے کا حکم ملتا ہے۔

16 Moreover when ye fast, be not, as the hypocrites, a sad countenance: for they disfigure their faces that they may appear unto men to fast. Verily I say unto you, They have their reward. 17 But thou, when thou fastest, anoint thine head, and wash thy face; 18 That thou appear not unto men to fast, but unto thy Father which is in secret: and thy Father, which seeth in secret, shall reward thee openly.  (Matthew, 6:16-18, kjv, printed in united states of America. 1984, 1977 by Elm hill press.)

ترجمہ: اور جب تم روزہ رکھو تو ریا کاروں کی طرح اپنی صورت اداس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ  بگاڑتے ہیں تا کہ لوگ ان کو روزہ دار جانیں ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پاچکے۔ بلکہ جب تو روزہ رکھے تو اپنے سر میں تیل ڈال اور منہ دھونا کہ آدی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے ۔ اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔( کتاب مقدس، ،باب6، آیت18-16 مطبوعہ: بائبل سوسائٹی ، لاہور 1993)

37 And she was a widow of about fourscore and four years, which departed not from the temple, but served God with fastings and prayers night and day. (Luke: 2:37, kjv )

ترجمہ: وہ چوراسی برس سے بیوہ تھی اور ہیکل سے جدا نہ ہوتی تھی بلکہ رات دن روزوں اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ عبادت کیا کرتی تھی ۔ (کتاب مقدس، لوقا ، باب 2، آیت 37 مطبوعہ :بائبل سوسائٹی، لاہور 1993)

2 As they ministered to the Lord, and fasted, the Holy Ghost said, Separate me Barnabas and Saul for the work whereunto I have called them.3 And when they had fasted and prayed, and laid their hands on them, they sent them away ( the acts of the apostles:13:2-3, kjv)

جب وہ خداوند کی عبادت کر رہے تھے ، روزے رکھ رہے تھے تو روح القدس نے کہا میرے لئے برنباس اور ساؤل کو اس کام کے واسطے مخصوص کردو جس کے واسطے میں نے ان کو بلا یا تب انہوں نے روزہ رکھ کر اور دعا کر کے ان پر ہاتھ رکھ کر انہیں رخصت کیا۔(کتاب مقدس، اعمال، باب 13، آیت 3-2 ، مطبوعہ :بائبل سوسائٹی، لاہور1993)

5 Is it such a fast that I have chosen? a day for a man to afflict his soul? is it to bow down his head as a bulrush, and to spread sackcloth and ashes under him?

wilt thou call this a fast, and an acceptable day to the Lord?6 is not this the fast that I have chosen? to loose the bands of wickedness, to undo the heavy burdens, and to let the oppressed go free, and that ye break every yoke? (isaiah:58:5-6,kjv )

ترجمہ: کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھ کو پسند ہے ؟ ایسا دن کہ اس میں آدی اپنی جان کو دکھ دے اور اپنے سر کو جھاؤ کی طرح جھکائے اور اپنے اپنے  نیچے ٹاٹ اور راکھ بچھائے؟ کیا تو اس کو روزہ اور ایسادن کہے گا جو خداوند کا مقبول ہو؟ کیادہ روزہ جو میں چاہتا ہوں  یہ نہیں  کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اور جوئے کے بندھن کھو لیں اور مظلوموں کو آزاد کر یں بلکہ ہر ایک جوے کو توڑ ڈالیں ۔  ( کتاب مقدس ،یسعیاہ، باب 8، آیت6-5مطبوع: بائبل سوسائٹی، لاہور1993)

5 Speak unto all the people of the land, and to the priests, saying, When ye fasted and mourned in the fifth and seventh month, even those seventy years, did ye at all fast unto me, even to me? (zechariah:7:5,kjv)11

ترجمہ : کہ ملت کے سب لوگوں اور کاہنوں سے کہہ  کہ جب تم نے پانچویں اور ساتویں مہینے میں ان ستر برس تک روزہ رکھا اور ماتم کیا تو کیا کبھی میرے لیے خاص میرے لیے روزہ رکھا تھا؟ ( کتاب مقدس، زکریاہ، باب 7 آیت 5 مطبوع: بائبل سوسائی، لاہور 1993)

21 Then I proclaimed a fast there, at the river of Ahava, that we might afflict ourselves before our God, to seek of him a right way for us, and for our little ones, and for all our substance 22 For I was ashamed to require of the king a band of soldiers and horsemen to help us against the enemy in the way: because we had spoken unto the king, saying, The hand of our God is upon all them for good that seek him; but his power and his wrath is against all them that forsake him.23 So we fasted and besought our God for this: and he was intreated of us. (ezra:8:21-23,kjv)

ترجمہ: تب میں نے اہاوا کے در یاپرروزہ کی منادی کرائی تا کہ ہم اپنے خدا کے حضور اس  سے اپنے اور اپنے بال بچوں اور اپنے مال کے لیے سیدھی راہ طلب کرنے کوفروتن بنیں ۔ کیونکہ میں نے شرم کے باعث بادشاہ سے سپاہیوں کے جھتے اور سواروں کے لیے درخواست نہ کی تھی تا کہ وہ راہ میں دشمن کے مقابلے میں ہماری مدد کریں کیونکہ ہم نے بادشاہ سے کہا تھا کہ ہمارے خدا کا ہاتھ بھلائی کے لیے ان سب کے ساتھ ہے جو اس کے طالب ہیں اور اس کا زور اور قہران سب کے خلاف ہے جو اسے ترک کرتے ہیں سوتم نے روزہ رکھ کر اس بات کے لیے اپنے خدا سے منت کی ہے اور اس نے ہماری سنی ۔ ( کتاب مقدس، از راه، باب 8، آیت 23-21 مطبوعہ: بائبل سوسائی ، لاہور 1993)

 مذکورہ بالا کتاب مقدس کی تمام آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ گذشتہ امتوں پر بھی روزے کا حکم تھا اور اہل کتاب روزہ رکھا کرتے تھے ۔ الغرض روزے کا مقصد اطاعت الہی اور خوشنودی رب ہے اور الله تعالی کی تعلیمات و ہدایات پرعمل پیرا ہو کر ہی تقوی و پرہیز گاری کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہو یا جا سکتا ہے ۔ اگر خشیت الہی اور خوف خداپیدانہ ہو تو اس کا واضح مطلب ہے کہ روزے کے اصل مقصد سے محروم ہیں ۔ اگر کوئی روزے رکھ کر ہی جھوٹ ،لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، بدنظری اور بدعنوانی (Corruption) میں ملوث ہے تو اس کو بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے۔

 عن ابي هريرة قال قال رسول اللہ ﷺ: مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ۔( صحیح  البخاری ، محمد بن اسماعیل ابوعبداللہ البخاری (المتوفي 256ھ) کتاب الصوم، باب من لم یدع  قول الزور والعمل به في الصوم ، ج 3،  حدیث 1903 (تحقیق محمد زبیر  بن ناصر  )، مطبوعہ: دار طوق النجاۃ ، 1422ھ)

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: جو جھوٹ بولنا اور اس پرعمل کرنا ترک نہیں کرتا تو اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے کھانے پینے کو چھوڑ دے۔

الغرض روزے کا بنیادی مقصداللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے حصول میں ہے اور یہ تقوی اور پاکبازی کی نعمت سے ملتا ہے۔لہذا رب تعالی نے اپنے بندوں کو حکم فرمایا کہ روزہ رکھو تا کہ اس کی برکت سے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔یہی مقصدِ صیام ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post