صلہ رحمی

رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا صلہ رحمی کہلاتاہے۔ "صلۃ " عربی زبان میں کسی بھی قسم کی بھلائی اوراِحسان کرنے کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔(الزواجر عن اقتراف الكبائر ،ابن حجر الہيثمی ( ، ۲/۱۵۶)اور "رحم/ارحام" قرابت اور رشتہ داری کے لئے استعمال ہوتا ہے(لسان العرب، ابن منظور ، ۱/۱۴۷۹)۔

 ایک شخص کے تمام رشتہ دار خواہ  نسبی ہوں یا مصاہرت سے، قریبی ہوں یابعید کے ، ان تمام کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا،ان کے ساتھ رابطہ رکھنا، اتفاق و اتحاد سے رہنا، ان کے جملہ  حقوق کا خیال رکھنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ساتھ دینا،  ان پر احسان کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدست اور کمزور ہوں تو بقدراستطاعت ان سےمالی تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا،  وغیرہ صلہ رحمی کے زمرے میں آتاہے ۔

صلہ رحمی ایک انتہائی بلند پایہ  نیکی  ہے۔ یہ اللہ رب العزت  سے تعلق قائم کرنے کا انتہائی اہم اورآسان ذریعہ ہے۔ علامات ایمان  میں سے ایک علامت ہے۔ایمانی معاشرے کا دارومدار اس پر ہے۔ رشتوں کو جوڑنا  ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے جسے اللہ رب العزت  نے ہر مسلمان پر واجب  کیاہے ۔ اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض  عمل  ،بدترین گناہ اورحرام ہے ۔ایک حدیث قدسی  میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

قَالَ تَبَارَکَ وَتَعالٰی اَنَا اللّٰہُ وَاَنَا الرَّحْمانُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَہَا مِنْ اِسْمِیْ فَمَنْ وَصَلَہَا وَصَلْتُہ وَمَنْ قَطَعَ بَتَتُّہ۔(سنن ابی داؤد، :1694)

حضرت عبد الرحمن بن عوف﷜ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ میں اللہ ہوں ، میں رحمٰن  (صفتِ رحمت کے ساتھ متصف) ہوں میں نے رحم یعنی رشتہ ناطہ کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا( رشتہ ناطہ کے حقوق ادا کرے گا) تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا ( رشتے ناطے کے حقوق ادا نہیں کرے گا )میں بھی اس کو (اپنی رحمت  سے) جدا کردوں گا۔

 جس قدر قریبی  رشتہ ہو، اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے، اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ اور نحوست کا سبب ہے۔ جہاں رشتے ناطے ٹوٹتے ہیں وہاں سے رحمت خداوندی منقطع ہوجاتی ہے۔اور ایسا شخص حضور ﷺ کے فرمان کے بموجب  جنت میں بھی داخل نہیں ہوگا۔

لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ(صحيح البخاری:5984)

قاطع رحم جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

جنت سے محرومی کے ساتھ ساتھ ایک اور حدیث کے مطابق یہ وہ گناہ ہے جس کی سزا دنیا ہی میں دی جاتی ہے۔

ما مِن ذنبٍ أجدرُ أن يُعجِّلَ اللهُ لصاحبِه العقوبةَ في الدُّنيا مع ما يَدَّخرُ لهُ في الآخرةِ من البَغي وقطيعةِ الرَّحمِ)سنن ابن ماجة: 3413)

حضرت ابوبکرہ ﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : ظلم و زیادتی اور قطع رحمی جیسا کوئی اور ایسا گناہ نہیں جس کے ارتکاب  کرنے پر آخرت کے عذاب کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تیار کر رکھا ہے دنیا میں بھی سزا جلد ملتی ہو۔

صلہ رحمی کا حکم نہ   صرف دین اسلام میں  ہے بلکہ  سابقہ امتوں کا بھی اس  امر پرعمل رہا  ہے ۔یہ تمام انبیاء  علیہم السلام کی سنت مبارکہ  ہے ۔اس کی ایک اعلیٰ  مثال حضرت یوسف ﷤ کا اپنے بھائیوں کو باوجود ایذاد ینے کے معاف کرناہے ۔اوراس کی بلندترین سطح  فتح مکہ پر حضور ﷺ کا قریش مکہ کوتمام تر ایذارسانیوں کے باوجود عام معافی کا اعلان ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا : میں وہی کہوں گا جومیرے بھائی یوسف ﷤ نے اپنے بھائیوں سے کہاتھا:

لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ۔

قرآن کریم میں تو متعدد مقامات پر صلہ رحمی کاحکم دیاگیا  ہے۔ نیزاگرقرآن مجید کے عین وسط یعنی درمیان میں آنے والے لفظ پر غور کیا جائے  تو وہ  لفظ (ولیتلطف) ہے جس کے معنی  نرمی سے پیش آنا۔یہ لفظ سورہ کہف کی  انیسویں آیت کا ہے۔قرآن میں  یہ لفظ تھوڑا بڑا لکھا ہوا ہے۔ یہاں قرآن مجید کا عین درمیان یا وسط ہے۔قرآن کے بالکل وسط میں آنے والا یہ لفظ  ایک مسلمان  کی   مکمل زندگی کے لئے رہنما ہے کہ اے قرآن کے ماننے والے اپنی زندگی میں بھی نرمی و لطف کو اپناشعاربناتے ہوئےاپنی زندگی کو آسان اورخوشنما بنااوراپنی دنیا وآخرت کو سنوار۔کیونکہ اس نرمی کے نتیجے میں  صِلہ رحمی پیدا ہوتی ہے جس  کابہترین بدلہ  دنیا میں ہی ملنا شروع ہوجاتا ہے، اور جو آخرت میں ثواب ملے گا وہ اسکے علاوہ ہے، چنانچہ حضرت انس ﷜ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم   نے فرمایا :

من أحب أن یبسط له في رزقه وینسأ له في أثر فلیصل رحمه۔ (صحيح البخاري:5986)

حضرت انس بن مالک ﷜ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک  کرے۔اس  حدیث مبارکہ  کی روشنی میں اتنی بات یقینی ہے کہ وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی ایک یقینی سبب ہے ۔

مسلمان کیلئے صلہ رحمی واجب ہے خواہ  اس سے کوئی تعلقات ختم ہی کیوں نہ کرنا چاہے،اس سے بھی صلہ رحمی کرتے رہنے کا حکم ہے۔ صِلْ من قطعك (رواہ أحمد) اے عقبہ جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو۔ اسی حدیث کے آخر میں  آپ نے فرمایا:( یہ عمل کرنے سے) تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔(سبحان اللہ)

بلکہ حدیث مبارکہ میں صلہ رحمی کہا ہی اس امر کو گیا ہے کہ جو تم سے تعلق توڑے اس سےجوڑو۔بصورت دیگر وہ صلہ رحمی نہیں بلکہ ادلے کا بدلہ ہے۔

ليسَ الواصِلُ بالمُكافِئِ، ولَكِنِ الواصِلُ الذي إذا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وصَلَها(صحيح البخاري:5991)

 حضر ت عبداللہ بن عمرو﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشا د فر مایا : وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابری کا معاملہ کرے یعنی دوسرے کے اچھے برتاؤ کرنے پر اس سے اچھا برتاؤ کرے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جو دو سرے کے قطع رحمی کرنے پر بھی صلہ رحمی کرے ۔

نامساعد صورت میں  مسلمان کے لئے صلہ رحمی  کا اجر اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ اپنے لئے نیک اعمال ذخیرہ کرےاور صلہ رحمی کرتا رہے ، ویسے بھی یک طرفہ قطع تعلقی کرنے والے  سے اخلاص ،للہیت اورمحبت سے صلہ رحمی کرتے رہنے سے دلوں کی دوریاں ختم ہوہی جاتی ہیں، مخالفین کے دلوں سے نفرت ختم ہو جاتی ہے ۔اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ رشتے  جوہاتھوں سے چھوٹ گئے تھے  وہ پھر سے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں کھڑے ہوتے ہیں۔

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے(گلزار)

یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ انسانوں میں آپس میں اختلاف جھگڑا نزاع کا پیدا ہونا غیر معمولی  عمل نہیں بلکہ بشری تقاضہ ہے۔ اس لئے نزاع پیدا ہونا قابل مواخذہ نہیں، لیکن اگر اس کے نتیجے میں دلوں میں کینہ، رنجش، بغض،عناد،حسد،تکبر،سرکشی پیدا ہوجائے  تو ناقابل معافی جرم ہے۔  نزاع و اختلاف کے باوجود  اگرانسان عدل و احسان کا دامن نہ چھوڑے بلکہ اس کے بعد تو اس شخص سے مزید اچھے انداز سے پیش آئے تاکہ دلوں میں جنم لینے والی  کدورت و نفرت  ختم ہوجائے ۔

افسوس کا مقام ہے ہمارے معاشرے میں صلہ رحمی کو نیکی اور قطع رحمی کو گناہ نہیں سمجھا جارہا ۔ قطع رحمی بڑھتی جارہی ہے، اچھے دین دار لوگ بھی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے اور ان سے قطع تعلقی کرتے ہیں۔حالانکہ یہ ان کی دنیا اورآخرت کو برباد کردینےوالا عمل ہے۔ قاطع رحم کبھی اپنے بھائی کے لئے بھلائی،خیراورکامیابی کاطالب نہیں ہوسکتا جودین اسلام کا حسن اورپہچان ہے۔

نیز اگر معاشرتی سطح پر دیکھا جائے  تو معاشرے میں بگاڑ کا سب سے بڑاسبب کینہ ،عداوت،کدورت،نفرت اورانتقام کے جذبات ہیں۔ ان تمام منفی جذبات کا حامل شخص  اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرہ کو بھی نقصان پہنچاتاہے۔ اگر عقلی بنیادوں پر پرکھا جائے  تو دلوں میں بغض اورکدورت بہت سی اخلاقی برائیوں اور روحانی بیماریوں کوجنم دیتی ہے۔ اگر انسان کو علم ہوجائے کے انتقام کی آگ میں جلنے سے وہ اپنی صحت اورتوانائیوں کو کتنا برباد کررہا ہے تو وہ شاید کبھی انتقام کے بارے میں سوچے بھی نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں  اپنی ذہنی،جسمانی،روحانی  طاقتوں کو بھی ضائع کردیتا ہے۔وہ غیر ضروری بوجھ(غیرضروری خیالات،پراگندہ افکار، رنجش،کدورت،نفرت) کی گٹھڑی اپنے سرپراٹھائے گھومتا رہتا ہے۔ اس کی حفاظت کی خاطر اپنےقیمتی مال و متاع  صحت،ذہانت،راحت،سکون   وغیرہ خود اپنے ہاتھوں سے برباد کرلیتا ہے۔اور اس طرح ذہنوں  میں  زہریلے جذبات(بغض،عناد،دشمنی) رکھنے کی وجہ سے وہ  خود ہی اس زہر کاشکارہوجاتاہے۔ ۔ اور اشرف المخلوقات  ہونے کے باوجود عرش سے فرش  پرآگرتا ہے  اورمٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتاہے۔  بقول میر

اس کدورت کوہم سمجھتے ہیں

ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے

صلہ رحمی کی اہمیت  سمجھنے کے لئے ذیل میں ایک واقعہ پیش خدمت ہے  جب واقعہ افک میں سیدہ عائشہ ﷝کی براء ت کا اظہار قرآن مجید میں کردیا گیا تو اس وقت حضرت ابوبکر صدیق﷜ نے مسطح جن کی آپ کفالت کرتے تھے  ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھانے کا حضور ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ اخلاق کا کیا ہی بلند ترین مرتبہ کہ ایک شخص نے انتہائی نامناسب الزام بغیر کسی تحقیق کے لگادیا اس کے باوجود بھی حضور ﷺ نے  (جن کی محبوب ترین زوجہ تھیں ) حضرت ابوبکر﷜کو جن کی وہ لخت جگر تھی  اس کی کفالت سے  دست کش نہ ہونے دیا۔ بخاری شریف کی ایک طویل حدیث سے اقتباس  ملاحظہ ہو۔

قال ابو بكر الصديق: وكان ينفق على مسطح بن اثاثة لقرابته منه وفقره , والله لا انفق على مسطح شيئا ابدا بعد الذي قال لعائشة ما قال , فانزل الله: (وَلَا يَأْتَلِ أُوْلُواْ ٱلْفَضْلِ مِنكُمْ وَٱلسَّعَةِ أَن يُؤْتُوٓاْ أُوْلِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينَ وَٱلْمُهَٰجِرِينَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُواْ وَلْيَصْفَحُوٓاْ ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ) سورة النور آية 22 قال ابو بكر الصديق: بلى والله إني لاحب ان يغفر الله لي فرجع إلى مسطح النفقة التي كان ينفق عليه , وقال: والله لا انزعها منه ابدا(صحیح البخاری: 4141)

جب اللہ  رب العزت نے میری برات کے لیے (سورۃ النور میں) یہ آیتیں نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق ﷜(جو مسطح بن اثاثہ کے اخراجات ‘ ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھاتے تھے) نے کہا: اللہ کی قسم! مسطح نے جب عائشہ کے متعلق اس طرح کی بہتان تراشی میں حصہ لیا تو میں اس پر اب کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی«ولا يأتل أولو الفضل منكم‏» یعنی  (اور تم میں فضیلت والے اور (مالی) گنجائش والے یہ قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتے داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (مال) نہ دیں گے اور انہیں چاہیے کہ معاف کردیں اور دَرگزرکریں ، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش فرمادے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے)۔ (کیونکہ مسطح ﷜یا دوسرے مومنین کی اس میں شرکت محض غلط فہمی کی بنا پر تھی)۔ چنانچہ ابوبکر صدیق ﷜نے کہا کہ اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کہنے پر معاف کر دے اور مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ‘ اسے پھر دینے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم! اب اس وظیفہ کو میں کبھی بند نہیں کروں گا۔

اس حدیث مبارکہ سے ہمیں علم ہوتاہے کہ  بعض اوقات انسان کے لئے رشتہ نبھانا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔لیکن اس صورت میں بھی اگر وہ اس شخص کے لئے بھلائی کا کوئی کام کرسکتا ہے تو وہ ضرور کرے ۔ ہاں اگر  اس شخص سے میل ملاقات رکھنے کے نتیجہ میں فساد وبگاڑ کا اندیشہ ہوتو ایسی صورت میں اس شخص سے مصلحتاً  اجتناب برتنے  میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن دلوں میں نفرتیں نہیں ہونی چاہئے ۔نیز سلام کرنا اور اس کا جواب دینا یہ  صلہ رحمی کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔اسے  کسی بھی صورت میں ترک نہیں کیاجاسکتا ۔

صلہ رحمی  قرآن مجید کی روشنی میں :۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صلہ رحمی کا حکم دیاگیاہے۔ ذیل میں چند آیات قرآنیہ بطور استشھاد پیش کی جارہی ہیں۔

1.     فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔( الروم: 38)

قرابت والے کو مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو ۔ یہ بات ان لوگوں کےلئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے۔

2.     وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا   (  الإسراء: 26)

اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو۔

3.     وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا  (النساء: 1)

نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔

4.     وَاِذأَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ   (البقرة: 83)

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرو گے، لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے، نماز کو قائم کرو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے۔

5.     إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَی(النحل:90)

 اور اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا۔

6.      وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (الرعد:21)

اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں۔

صلہ رحمی احادیث مبارکہ کی روشنی میں :۔

احادیث نبویہ ﷺ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ صلہ رحمی کی تاکید اور قطع رحمی کی وعید میں وارد ہے جس سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔یہا ںصرف چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔

 صلہ رحمی رزق میں کشادگی اور عمر میں برکت  کا باعث:

جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں فراوانی اور اس کی عمر میں برکت عطا کردی جائے تو وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔(بخاری)

صلہ رحمی ایمان کی علامت:

فرمان نبوی ہے ’’جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور روز ِآخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ جوڑے‘‘۔(بخاری)

صلہ رحمی جنت میں داخل کرنے والا عمل:

ایک صحابی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ایسا عمل بتلائیں جو جنت میں داخل کردے ،فرمایا ’’اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ ادا کرنا ، اور رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ ملانا ‘‘۔(بخاری)

صلہ رحمی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مددگار مقررہونا:

ایک آدمی نبی اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا :" میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں ، میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ہوں ، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : اگر تو ایسے ہی ہے جیسے تو بتا رہا ہے تو انھیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رہو گے ۔ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مدد گار مقرر رہے گا "۔ ( صحیح مسلم ) ۔ 

قطع رحمی نیک اعمال کے  ضائع ہوجانے کا موجب:

بے شک آدم کے بیٹوں کے اعمال ہر جمعرات کی رات اللہ کے دربار میں پیش کیے جاتے ہیں مگر رشتہ کاٹنے والے کے اعمال کو ضائع کردیا جاتا ہے ۔(مسند احمد)

قطع رحمی مبغوض ترین عمل :

ایک صحابی نے اللہ کے رسول سے پوچھا کے کون سا عمل اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ ہے ، فرمایا :اللہ کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری کو توڑ نا ، اور پھر برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا ۔( مسند ابو یعلی)

قطع رحمی  پردنیا میں سزا ملنا:

بغاوت اورقطع رحمی ایسے گناہ ہیں کی جن کی سزا اللہ تعالیٰ آ خرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی دے دیتے ہیں ۔(احمد)

قطع رحمی سے جنت کا حرام ہوجانا :

جو رشتہ داری کو توڑتا ہے اللہ عز و جل اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے ۔(احمد)

اللہ رب العزت ہمیں  دین کی فقہ عطا فرمائے اور صحیح معانی میں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post