شب براءت کو شب براءت کیوں کہا جاتاہے؟

یوں توتمام ایام ، ماہ  و سال بلکہ ہرگزرتا لمحہ فرد اور کائنات کےلئے بہت قیمتی ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ کیونکہ انفرادی طور پر اگردیکھاجائے تو کسی کوعلم نہیں کہ آنے والا لمحہ اسے میسر بھی آئے گا یا نہیں۔اس کی زندگی کی ساعتیں کتنی باقی ہیں۔  لیکن اس کے باوجود کچھ ماہ ،ایام  اورساعتیں زیادہ  اہمیت اورفضیلت والی ہیں۔ان میں نیکیوں کی طرف میلان بڑھ جاتاہے اوران کے اجرمیں کئی گنااضافہ ہوجاتاہے اورجو بھی دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ مقبول ہوتی ہیں۔ جس طرح بعض مقامات کودوسرے مقامات پرفضیلت و فوقیت حاصل ہے۔ویسے تو زمین پوری کی پوری اللہ رب العزت کی ہے جہاں چاہے کوئی عبادت کرے لیکن کچھ مقامات ایسے خاص ہوتے ہیں کہ وہاں خود بخود اندرونی طورپر انسان میں نیکیوں کا میلان بڑھ جاتاہے اوران مقامات پر نیکیوں کے اجر و ثواب  میں بھی کئی گنااضافہ ہوجاتاہےجیسا کہ مسجد الحرام اورمسجد نبوی وغیرہ۔اسی طرح کچھ دن اور مہینے دوسروں پربعض اعتبار سے فضیلت رکھتے ہیں ۔ایسا ہی ایک مہینہ  شعبان المعظم کا ہے۔اس مہینہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اسے رسول نے اپنا مہینہ قراردیا۔حضور سے نسبت کی وجہ سے یہ مہینہ دیگر مہینوں سے افضل قرار پائے گا۔ حدیث مبارکہ ہے: "شعبان میرا مہینہ ہے پس جس نے اس مہینے کی تعظیم کی اس نے میرے حکم کی تعظیم کی"۔(بیہقی)

اس ماہ  مبارک کی پندرھویں  رات کو شب براءت کہا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کی ترکیب ہے۔ شب کا معنی رات اور برات کا معنی نجات حاصل کرنا، بری ہونا ہے۔ عربی میں اسے لیلۃ البراءۃ کہا جاتا ہے۔ لیلۃ بمعنی رات جبکہ البراءۃ کا معنی نجات اور چھٹکارا کے ہیں۔ چونکہ یہ رات گناہوں سے چھٹکارے اور نجات پانے کی رات ہے بایں وجہ اسے شب براءت یا لیلۃ البراءت کہا جاتا ہے۔

شب براءت بھی ان خاص ایام کے قبیل سے تعلق رکھنے والی ایک اہم رات ہے، جس میں احساسِ زیاں کو اجاگر کرنا مقصود ہے ۔براءت کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ براءت کا معنیٰ ہے گناہوں سے نجات کی رات۔ گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے رب کے حضور گریہ و زاری ومناجات کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد اور نفسانی خواہشات کے خلاف جہاداکبر کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار،ندامت اور توبہ کی رات ہے۔ اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کاموجب بن سکتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

حٰم وَالْکِتٰبِ الْمُبِيْنِ اِنَّـآ اَنْزَلْنٰـهُ فِیْ لَيْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِيْنَ فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِيْمٍ(الدخان، 44: 1تا4)

حٰم ،اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔ بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کردیا جاتاہے۔

یُوْحِی اللّٰہُ اِلٰی مَلَکِ الْمَوْتِ یَقْبِضُ کُلَّ نَفْسٍ یُرِیْدُ قَبْضَھَا فِیْ تِلْکَ السَّنَۃِ ( الجامع الصغیر:۴۰۱۹)

عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ قَالَ : ((ھَلْ تَدْرِیْنَ مَا ھٰذِہِ اللَّـیْلُ؟یَعْنِیْ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ)) قَالَتْ مَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: ((فِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا اَنْ یُکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیْھَا تُرْفَعُ أَعْمَالُھُمْ وَفِیْھَا تُنْزَلُ أَرْزَاقُھُمْ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی؟ فَقَالَ : ((مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اِلاَّ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی)) ثَلَاثًا‘ قُلْتُ وَلَا أَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی ھَامَّتِہٖ فَقَالَ: ((وَلَا أَنَا اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ)) یَقُوْلُھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الصلاۃ‘ باب قیام شہر رمضان‘ فصل ثالث)

حضرت عائشہ ﷝سے مروی ہے، وہ نبی اکرم سے نقل کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: (اے عائشہ!) کیا تو جانتی ہے یہ کون سی رات ہے ؟ یعنی نصف شعبان کی رات۔‘‘ حضرت عائشہ ﷝نے پوچھا: اے اللہ کے رسول !اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟تو آپؐ نے فرمایا:’’اس رات اس سال پیدا ہونے والے اور مرنے والے ہر ابن آدم کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس رات میں اعمال بلند کیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا رزق نازل کیا جاتا ہے۔  پس حضرت عائشہ﷝ نے کہا: اے اللہ کے رسول !کیا کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہو گا؟ تو آپﷺ نے فرمایا:’’ کوئی بھی جنت میں اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہوگا۔‘‘ آپﷺ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی تو حضرت عائشہ﷝ نے کہا :اے اللہ کے رسول !کیا آپ بھی؟آپﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے فرمایا : ’’ہاں میں بھی‘ سوائے اس کے کہ مجھے اللہ کی رحمت ڈھانپ لے ۔‘‘ آپﷺ نے تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔

اللہ تعالیٰ( اس رات میں ) ملک الموت کی طرف وحی کرتے ہیں کہ وہ ہر اُس جان کو قبض کر لے جس کو اللہ تعالی ٰنے اس سال میں قبض کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ یَغْفِرُ اللّٰہُ مِنَ الذُّنُوْبِ اَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ(الجامع الصغیر:۶۵۴)

جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰــ’’ کلب‘‘ قبیلے کی بکریوں سے زیادہ گناہوں کو معاف کرتے ہیں ۔

جاراللہ ابو قاسم زمخشری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:نصف شعبان کی رات کے چار نام ہیں:

لیلۃ المبارکہ (برکت والی رات)

لیلۃ البراءۃ (نجات پانے کی رات)

لیلۃ الصک (پروانہ لکھے جانے والی رات)

لیلۃ الرحمۃ (رحمت والی رات)

اور کہا گیا ہے کہ اس کو شب برات اور شب صک اس لئے کہتے ہیں کہ بُندار یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں وہ پروانہ  ہوکہ جس سے ذمیوں سے پورا خراج لے کر ان کے لئے برات لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس رات کو اپنے بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔

مفسرین نے سورۃ الدخان کی آیت نمبر2 (انا انزلناه فی ليلة مبارکة) کی تفسیر میں نصف شعبان کی رات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:

اس رات ہرکام کا فیصلہ ہوتا ہے، عبادت کرنے کی فضیلت ہے، رحمت کا نزول ہوتا ہے،، شفاعت  کا اہتمام ہوتا ہے،اور بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔

(زمخشری، الکشاف، 4: 272 تا 273)

نبی اکرم ﷺ نے تیرہ شعبان کی رات کو اپنی امت کی بخشش کے بارے میں سوال کیا تو آپ کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر چودھویں رات کو دعا مانگی تو آپ کو دو تہائی امت عطا فرمائی گئی۔ پھر آپ ﷺنے پندرھویں شعبان کی رات کو دعا مانگی تو آپ کی تمام امت سوائے چند نافرمان اشخاص کے آپ کے سپرد کردی گئی۔(تفسیر الکشاف 4: 269، تفسیر سورة الدخان)

امام جلال الدین سیوطی ’’تفسیر در منثور‘‘ میں لکھتے ہیں کہ خطیب بغدادی اور ابن نجار نے حضرت عائشہ ﷝سے روایت کی ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ تمام شعبان کے روزے رکھ کر اس کو رمضان کے ساتھ ملادیتے تھے اور آپ کسی بھی ماہ کے تمام دنوں کے روزے نہ رکھتے تھے سوائے شعبان کے۔ میں نے عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ) شعبان کا مہینہ آپ کو بڑا پسند ہے کہ آپ اس کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔ اے عائشہ (رضی اللہ عنہا): کوئی نفس بھی پورے سال میں فوت نہیں ہوتا مگر اس کی اجل شعبان میں لکھ دی جاتی ہے۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ جب میری اجل لکھی جائے تو میں اللہ کی عبادت اور عمل صالح میں مصروف ہوں۔(تفسير درالمنثور، 6: 26)

ابن ابی شیبہ ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ ﷝سے روایت کی آپ فرماتی ہیں کہ:

میں نے نبی اکرم (ﷺ) کو ایک رات بستر استراحت پر نہ پایا تو میں آپ کی جستجو میں نکلی آپ کو بقیع میں اس طرح پایا کہ آپ کا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ کیا تمہیں اس کا خوف ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا۔ عرض کیا: مجھے یہ خوف نہیں ہے مگر میں نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ کسی اور زوجہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ (عزوجل) آسمان دنیا کی طرف پندرھویں شعبان کی شب کو (اپنی شان کے مطابق) نزول فرماتا ہے۔ پس قبیلہ ’’بنی کلب‘‘ کی بکریوں کے بالوں کی گنتی سے زیادہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو بخش دیتا ہے۔(جامع ترمذی، کتاب الصوم، باب ماجآء فی ليلة النصف من شعبان)

درج بالا تمام اقتباسات اور احادیث مبارکہ سے عیاں ہوتا ہے کہ شب برات بھٹکے ہوئے اور سرکش لوگوں کے لئے ایک دستک ہے جو آخرت کی زندگی کو بھول کر دنیاوی زندگی کے گورکھ دھندوں میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ رات ان کے لئے اپنے رب کی طرف بلاوہ، اور اسے منانے کی رات ہے۔ جب کوئی شخص کماحقہ اس رات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی یاد میں بسر کرتا ہے، تسبیح و تہلیل کرتا ہے، درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتا ہے، گناہوں سے معمور دامن ذکر الہٰی سے صاف کرتا ہے تو یہ رات اسکے لئے بہت سے انعام و اکرام لاتی ہے۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں، زندگی کے حالات بدل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس ایک عظیم رات کو اس میں کار فرما روح کے مطابق گزارنے کے ہی بدولت ممکن ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔

یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَآئُ وَ یُثْبِتُج وَ عِنْدَه اُمُّ الْکِتٰبِ(الرعد، 13: 39)

اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔

ہمیں شعبان کا مہینہ ہمیں وقت کی اہمیت کا بھی احساس دلاتا ہے۔کیونکہ حدیث مبارکہ میں آتاہے کہ اس مہینہ آئندہ سال دنیا سے رحلت کرجانے والے افراد کی فہرست تیارکی جاتی ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے۔

حضور اکرم کسی مہینے میں بھی شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھاکرتے تھے اور وہ اس لئے کہ اس مہینہ ،اس سال  میں مرنے والوں کی فہرست تیارکی جاتی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)

اب کون جانے کہ اس فہرست میں ہمارا نام بھی شامل کیاجاچکاہے یا نہیں۔اب جب یہ احساس ہم پر غالب ہوگا تو کسی بھی فرد کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ فراغت کے ساتھ بیٹھے ۔اس میں شک نہیں کہ دنیاوی زندگی فانی ہے ۔اسے ایک دن ختم ہوجاناہے ۔وہ آخری لمحہ خواہ ایک دن  بعد آئے یا ہزار سال کے بعد بہرحال اختتام لازم ہے۔ لیکن اگر اسی فانی زندگی کو  اللہ اور اس کے رسول   رب کی رضا جوئی کے لیے استعمال کیاجائے تو یہ فانی زندگی  ہی ہمیں جاودانی لمحات  اور ابدی نعمتوں سے نوازے گی۔

شب برات ہمارے احوال کو بدل دیتی ہے۔ اگر انسان احسن طور پر اس کے لوازمات پورے کرے تو یہ رات گناہوں کے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر انسان اپنے رب کے حضور ندامت اشک کے آنسو بہائے ، اپنے صغائر و کبائر گناہوں کے لئے معافی کا خواست گار بنے تو اس وقت بدحالی، خوشحالی اور تنگی، آسانی میں بدل جاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے ایک بے حد گناہگار شخص نے صرف توبہ کا ارادہ کیا، ابھی مکمل طور پر توبہ نہ کی، مگر نیت و ارادہ کے سبب تقدیر بدل دی گئی اور جنت میں پہنچایا گیا۔ اگر آج حضور ﷺ کی افضل امت کا ایک گناہگار اور سرکش شخص توبہ کرے تو کیا اس کی تقدیر نہیں بدل سکتی؟ بالخصوص شب برات کا تو اور افضل مقام ہے۔ شب برات ہمیں اس عمل کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ اس رات محاسبہ نفس، توبہ، تجدید عہد کے ذریعے دنیاوی و اخروی فلاح کا ساماں تیارکریں۔ 

شب برأت کے حوالے سے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے معمولات پر روشنی ڈالئے؟

امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ﷝ سے طویل حدیث مبارکہ بیان کی:

حضور نبی اکرم ﷺ رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ﷝ بیان کرتی ہیں: میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے گئی تو میں نے آپ ﷺ کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں، عورتوں اور شہداء کے لیے استغفار کرتے پایا، پس میں واپس آگئی۔ رسول اﷲ ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے تمام صورتحال بیان کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی جبریل میرے پاس آئے اور کہا: آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا (جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں)۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نماز میں کھڑے ہو گئے۔ قیام کے بعد حضور ﷺ نے ایک طویل سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مجھے گمان ہوا کہ حالت سجدہ میں آپ ﷺ کا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہو گئی اور میں نے آپ ﷺ کے تلوؤں کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی۔ اس پر مجھے خوشی ہوئی۔ اس وقت حالت سجدہ میں حضور ﷺ یہ دعا پڑھ رہے تھے:

أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْهُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآءً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ(بيهقی، شعب الايمان، 3/ 383-385)

اے اللہ میں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ چاہتا ہوں اور تیرے کرم کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں کماحقہ تیری تعریف نہیں بیان کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔

صبح جب حضرت عائشہ نے حضور ﷺ سے ان دعاؤں کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! یہ دعائیں خود بھی یاد کر لو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ مجھے جبریل نے ( رب کی طرف سے) یہ کلمات سکھائے ہیں اور انہیں حالت سجدہ میں بار بار پڑھنے کو کہا ہے۔

شبِ برأت اور صحابہ کرام کے معمولات

شبِ برأت ایک انتہائی فضیلت و بزرگی والی رات ہے۔ اس رات کے متعلق تقریباً دس جلیل القدر صحابۂ کرام: (1) حضرت ابوبکر، (2) حضرت علی المرتضیٰ، (3) حضرت عائشہ صدیقہ، (4) حضرت معاذ بن جبل، (5) حضرت ابوہریرہ، (6) حضرت عوف بن مالک، (7) حضرت ابو موسیٰ اشعری، (8) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص، (9) حضرت ابو ثعلبہ الخشنی، (10) حضرت عثمان بن ابی العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی احادیث مبارکہ ہیں۔

حضرت طاؤوس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی ﷠سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:

میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں: ایک حصے میں اپنے نانا جان ( ﷺ) پر درود شریف پڑھتا ہوں دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور تیسرے حصے میں نماز پڑھتا ہوں۔

ایک حصہ میں اپنے نانا جان پر درود شریف پڑھتا ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں کرتا ہوں کہ اس نے حکم دیا:

يا يها الذين امنوا صلو عليه وسلموا تسليما( الاحزاب، 33: 56)

اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب بھیجا کرو۔

رات کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ اس نے حکم فرمایا:

وما کان الله معذبهم وهم يستغفرون.( الانفال، 8: 33)

اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا کہ وہ (اس سے)مغفرت طلب کررہے ہوں۔

اور رات کے تیسرے حصہ میں نماز پڑھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے:

واسجد واقترب.( العلق، 96: 19)

اور (اے حبیب مکرم ﷺ!) آپ سربسجود رہئے اور (ہم سے مزید) قریب ہوتے جایئے۔

میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لیے کیا ثواب ہوگا۔ آپ نے فرمایا: میں نے حضرت علی سے سنا اور انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا:اسے مقربین لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

فاما ان کان من المقربين.( الواقعه، 56: 88)

پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقربین میں سے تھا۔

(سخاوی، القول البديع، باب الصلاة عليه فی شعبان: 207)

حضرت عبد اﷲ بن عمر ﷠فرماتے ہیں:

خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَةُ الْعِيْدِ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ.(بيهقی، شعب الايمان، 3/ 342)

پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز ﷜کا معمول

حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز ﷜ایک مرتبہ شعبان المعظم کی پندرھویں شب عبادت میں مصروف تھے۔ سر اٹھایا تو ایک سبز پرچہ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا:

هذه براءة من النار من الملک العزيز لعبده عمر بن عبدالعزيز.( تفسير روح البيان، ج8، ص402)

ملک و غالب اللہ جل جلالہ کی طرف سے یہ جہنم کی آگ سے برات نامہ ہے جو اس کے بندے عمر بن عبدالعزیز کو عطا ہوا ہے۔

مندرجہ بالا روایات سے یہ بات ظاہرہوجاتی ہے کہ نصف شعبان المعظم کی یہ مقدس شب ہمارے لئے اللہ سبحانہ کی طرف سے رحمتوں، برکتوں اور بخششوں کی  پروانہ لے کر آتی ہے۔ اس رات اکیلے عبادت کرنا اور اجتماعی طور پر عبادت کرنا دونوں ہی طریقے ائمہ سے ثابت ہیں۔ اس رات جاگنا، عبادت کرنا چونکہ مستحب عمل ہے، لہٰذا ہماری رائے کے مطابق اسے انسانی طبیعت اور مزاج پر چھوڑنا چاہیے، جس طریقہ میں کسی کی طبیعت اور مزاج کیف و سرور اور روحانی حلاوت محسوس کرے اسے چاہیے کہ وہ وہی طریقہ اختیار کرے۔ کیوں کہ اس رات کا اصل مقصود تزکیہ و تصفیہ قلب ہے۔ سو جسے جس طریقہ میں حلاوت ایمانی نصیب ہو اسے اسی پر عمل کر لینا چاہیے۔ بعض لوگوں کی طبیعت خلوت پسند ہوتی ہے اور انہیں تنہائی میں عبادت اور گریہ زاری کرنے سے حلاوت و سکون اور ذہنی یکسوئی ملتی ہے، سو وہ اس طریقہ کو اختیار کرلیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

وہ کون سے لوگ ہیں جن کی بخشش اورمغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔اس رات میں کیا کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو اس بابرکت رات بھی اس کرم سے محروم رہتے ہیں؟

بعض لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اسی مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت ودعا میں مشغول ہونے کے بجائے مزید لہو ولعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی اور پٹاخے اور دیگر نا جائز امور میں مبتلا ہوکر وہ اس مبارک رات کا تقدس پامال کرتے ہیں ۔ذیل میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان افراد کا تذکرہ ہے جواپنی سرکشی وعصیان کی روش کی وجہ سے  اس عظیم رات کی خیروبرکات سے محروم رہتے ہیں۔

عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ : ((أَتَانِیْ جِبْرَئِیْلُ فَقَالَ ھٰذِہٖ لَــیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلّٰہِ فِیْھَا عُتَقَائُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُوْرِ غَنَمِ بَنِی کَلْبٍ وَلَا یَنْظُرُ اللّٰہُ فِیْھَا اِلٰی مُشْرِکٍ وَلَا اِلٰی شَاحِنٍ وَلَا اِلٰی قَاطِعِ رَحِمٍ وَلَا اِلٰی مُسْبِلٍ وَلَا اِلٰی عَاقٍّ لِوَالِدَیْہِ وَلَا اِلٰی مُدْمِنِ خَمْرٍ(الترغیب و الترھیب: ۶۲۰)

حضرت عائشہ ﷝فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’ میرے پاس حضرت جبرئیل ؑ آئے اور کہا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اور اللہ تعالیٰ اس رات بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے ‘لیکن اللہ تعالیٰ اس رات مشرک اور کینہ پرور کی طرف نظر کرم نہیں فرماتا اور نہ ہی قطع رحمی کرنے والے کی طرف اور نہ ہی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے کی طرف اور نہ ہی والدین کے نافرمان کی طرف اور نہ ہی ہمیشہ شراب نوشی کرنے والے کی طرف۔

اس حدیث کے تناظر میں شعبان کا مہینہ معاشرتی اصلاح کے لئے انتہائی اہمیت کاحامل ہے، کیونکہ معاشرہ میں بگاڑ کا سب سے بڑاسبب کینہ ، عداوت،کدورت،نفرت اورانتقام کے جذبات ہیں۔ ان تمام منفی جذبات کا حامل شخص  اپنی ذات کو بھی نقصان پہنچاتاہے اورمعاشرہ کو بھی۔وہ کبھی اپنے بھائی کے لئے بھلائی،خیراورکامیابی کاطالب نہیں ہوسکتا جودین اسلام کا حسن اورپہچان ہے۔دلوں میں بغض اورکدورت بہت سی برائیوں، اخلاقی اور روحانی بیماریوں کوجنم دیتی ہے اور اشرف المخلوقات (انسان)کو عرش سے فرش پرمارتے ہوئے اسے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیتی ہیں۔  بقول میر

اس کدورت کوہم سمجھتے ہیں                        

ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے

یَطَّلِعُ اللّٰہُ اِلٰی جَمِیْعِ خَلْقِہٖ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہٖ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ اَوْ لِشَاحِنٍ (سنن ابن ماجه :1390 )

آپﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس اللہ تعا لیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔

”مشاحن“ کی ایک تفسیر اس شخص سے بھی کی گئی ہے جو مسلمانوں کی جماعت سے الگ راہ اپنائے (حاشیہ ابن ماجہ ص۹۹)

حضرت عائشہ صدیقہ ﷝کی ایک روایت میں ”رشتہ داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا ، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“ بھی آیا ہے اور بعض روایات میں ساحر، کاہن اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے ۔ احادیث مبارکہ کی تعلیم سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (14) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی ؛ (1) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (2) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (3) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (4) زانی وزانیہ (5) رشتے داری توڑنے والا (6) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا (7) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (8) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (9) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل (10) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (11) جادوگر (12) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا (13) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا (14) طبلہ اور باجا بجانے والا۔ (مراۃ شرح مشکوٰۃ)


اَللّٰهُمَّ یَا ذَا الْمَنِّ، وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکرَامِ، یَا ذَا الطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ، لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ، ظَهْرُ الَّاجِیْنَ، وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ، وَاَمَانُ الْخَائِفِیْنَ، اَللّٰهُمَّ، إِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِي عِنْدَکَ فِيٓ أُمِّ الْکِتَابِ شَقِیًّااَوْمَحْرُوْمًااَوْ مَطْرُوْداً اَوْ مُقَتَّرًا عَلَيَّ فی الرِّزْقِ، فَامْحُ، اَللّٰهُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَ رِزْقِیْ، وَاَثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیٓ اُمِّ الْکِتَابِ سَعِیْداً مَّرْزُوْقاً لِّلْخَیْرَاتِ، فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ،فِیْ کتَابِکَ الْمُنْزَلِ، عَلیٰ لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ،یَمْحُواللہُ مَایَشَآءُوَیُثْبِتُ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ. اِلٰھِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ، فِی لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَھْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ، اَلَّتِی یُفْرَقُ فِیْھَا کُلُّ اَمْرٍحَکِیْمٍ وَّیُبْرَمُ، اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَآءِ وَالْبَلْوَآءِ مَانَعْلَمُ وَمَالَانَعْلَمُ وَاَنْتَ بِہٖٓ اَعْلَمُ، اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمْ، وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ،وَّعَلیٰ اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ، وَالْـحَمْدُلِلہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post