یہ جو زمیں کے خدا ہیں اسی کو بھولے ہیں 

جو ہر عروج کو اک دن  زوال دیتاہے 

(ذکیہ غزل)


سوچتا ہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے

لوگ رخصت ہوئے اور لوگ بھی کیسے کیسے


طوفاں ہیں کہ ٹوٹے پڑتے ہیں کشتی ہے کہ ڈوبی جاتی ہے

محروم عمل ملاحوںمیں طاقت ہے نہ بل ہمت ہے نہ دم

 

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں

 (جگر مراد آبادی)

 

رومیں تنکے کی طرح بہنا تو کچھ مشکل نہیں

بات تو جب ہے کہ طوفانوں کے رخ موڑدے

 

 

ہے عمل لازم تکمیل تمنا کے لئے

ورنہ رنگین خیالات سے کیاہوتاہے

 

آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو

پیکرِ عمل بن کر غیب کی صدا ہوجا

 

تیرے بیاں سے کُھل گئیں تیرے عمل سے حل ہوئیں

منطقیوں     کی     اُلجھنیں    ،   فلسفیوں     کی     مشکلات

(نواب بہادر یار جنگ )

 

یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری

جہاں بازوسمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے

(اصغرگونڈوی)

 

 

اعمال سے میں اپنے بہت بے خبر چلا

آیاتھا کس لئے اورکیامیں کرچلا(سودا)


تونے جو مشعل شب تاب ہمیں بخشی تھی

اپنا خوں دے کے بھی وہ ہم نے جلائے رکھی

آندھیاں آئیں ، بپھرتے ہوئے طوفاں آئے

ہم نے لَو اس کی بہرحال بچائے رکھی


 

پڑھیئے حیات طیبہ اورکیجئے عمل

کام آئے گا یہ علم و عمل آج اور کل

ابوعلی محمد رمضان:

 

روز حساب  پیش ہوجب مرادفترعمل

آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

 

والد ماجد

ذوق عمل نہیں ہے توتیری دعائیں کیا

پیدانہیں دعامیں اثر کا سوال تک

کسی کواپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیادیتے

(منیر نیازی)

 

یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

 

مؤمن کے جہاں کی حد نہیں

مؤمن کا مقام ہر کہیں ہے

 

نصف صدی کا قصہ ہے

دوچار برس کی بات نہیں

 

 

بدن سانچے میں ڈھالا ہے جہاں صناع قدرت نے

تری باتیں بھی ڈھالی ہیں ترے فقرے بھی ڈھالے ہیں

 

انہی کے آکے قدم چومتی ہے خود منزل

وہ راہبر جوطبیعت بھی سادہ رکھتے ہیں

 

افقہ ومجتہد و ہادی و عابد و زاہد

کیا ہی عالِم طرف عالَمِ امکاں آیا

 

 

زندگی پھول بھی ہے رنگ بھی ہے

نور تنویر بھی ہے موجۂ انوار بھی ہے

 

شادمانی میں گزرتے اپنے آپے سے نہیں

غم میں رہتے ہیں شگفتہ شادمانوں کی طرح

 

 

جو محرم اسرار حیات ابدی ہیں

دامن کو وہ آلودہ دنیا نہیں کرتے

 

 

دل بینا بھی کرخدا سے طلب

آ نکھ کانور دل کا نور نہیں

(علامہ اقبال)

 

مری نگاہ تو امکاں تلاش کرتی ہے

جو گل کِھلا نہیں وہ بھی مری بیاض میں ہے

(سلیم احمد)

 

 

جنھیں حاصل ہوا قرب تیرا

وہ ذرے ماہ کامل بن گئے

(منشاء الرحمن منشاء)

 

 

 

 

 

جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتانہ تھا

تم نے خرید کر ہمیں انمول کردیا

 

حوادث میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے

مجھے دشواریوں میں اشک برسانا نہیں آتا

 

 

 

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

 

ہورہی ہے عمرمثل برف کم

چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم

 

 

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمریونہی تمام ہوتی ہے

 

 

چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر

آج جو کچھ ہے سوکہاں کل ہے

 

اور  طبقات  میں انسان  بکھر  جائیں  گے

مشورے روز ہواکرتے ہیں زرداروں میں

صبا

 

 

 

عروج اہل کرم کے لئے ہے دنیامیں

کس آبرو سے ہواپر سحاب ہوتاہے

 

تحریر میں سمٹے ہیں کہاں دلوں کے درد

بہلارہے ہیں خود کو ذرا کاغذوں کے ساتھ

 

 

روٹی اپنے حصے کی دے کے اپنے بچوں کو

صبر کی ردا اوڑھے بھوکی سورہی ہے ماں

 (عارف شفیق)

 

اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے

قید کا سامان کیا اور اس کو گھر کہنے لگے

( شبنم رومانی)

 

کوئی عادت مرے بچوں میں نہیں مری

میرے اندر ہی دھری رہ گئی دانائی مری

احمد امتیاز

 

 

جب بھی سچ بولتے بچوں پہ نظرجاتی ہے

یاد  آجاتا  ہے  بے ساختہ  بچپن  اپنا

 

 

اپنے کردار کو موسموں سے بچارکھنا

لوٹ کر آتی نہیں خوشبو پھولوں میں

 

کچھ  لوگ  بچھا کر کانٹے پھولوں  کی  توقع  رکھتے  ہیں

شعلوں کوہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں

 

کل شب تھا میں دودشمنوں کے درمیان

اک سانپ راستے میں اک آستین میں تھا

 

 

شانوں پہ گناہوں کا بار ،دامن نیکیوں سے خالی

ندامت ہے ،ندامت ہے، ندامت ہی ندامت ہے

 

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیمان ہونا

اسداللہ خاں غالب

 

 

شکوۂ ظلمتِ شب سے توکہیں بہترتھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

 

اپنے کردار کو موسموں سے بچاکررکھنا

کہ لوٹ کر آتی نہیں خوشبو پھولوں میں

 

 

 

 

چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

(علامہ اقبال)

 

گندگی ذہن کی کتابوں میں خوب کیچڑاچھالتے ہیں قلم

پہلے لکھنے کے کام آتے تھے اب کمربند ڈالتے ہیں قلم

(ساغرخیامی)

 

 

ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لازوال

ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو

 

نہیں صحت کے برابر کوئی نعمت ہرگز

ہونہ صحت تومیسرنہ ہوراحت ہرگز

 

 

خدا کی دین ہے صحت عزیزو

نہ ہوصحت تو جینے کا مزا کیا

(اسحاق جلالپوری)

 

 

 

 

فرش مخمل پر مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں

کیلا کھانے سے میرے دانت ہلے جاتے ہیں

 

 

سست لڑکے نہیں ہوتے ہیں تواناہرگز

اپنی صحت کو نہ سستی میں گنوانا ہرگز

 

 

زباں اپنی حد میں ہے بیشک زباں

بڑھے ایک نکتہ تو یہ ہے زیاں

بقول جگرمراد آبادی

 

اسی تلاش وتجسس میں کھوگیا ہوں میں

اگرنہیں ہوں توکیونکر،جوہوں توکیاہوں میں

 

 

سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر

کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

 

 

سیکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں

پرکہاں پائیے لبِ اظہار

 

حسن ہر شے پہ توجہ کی نظر کاہے نام

بارہاکانٹوں کی رعنائی نے چونکایامجھ کو

 

اس دور میں یہ سب سے بڑا ظلم ہوا ہے

بچوں میں وہ پہلی سی شرارت نہیں ملتی

 

 

نہ تفریط بہتر نہ افراط اچھی

توسط کے درجہ میں ہر بات اچھی

 

 

؎ کم نہیں ملک کی تسخیر سے تسخیر قلوب

 

 

ظلم بڑھنے کا ایک سبب یہ ہے

جرم ڈرتا نہیں سزاؤں سے

ایک اور شاعر کے بقول

تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب

بڑھتا ہے اورذوق گنہ یاں سزا کے بعد

 

احساس جرم ہوگا نہ تذلیل کیجئے

قلب خود اعتماد نہ تبدیل کیجئے

 

تعریف میں جو ان کی کریں آپ گفتگو

اوروں کی خوبیوں کی انہیں ہوگی جستجو

 

 

 

مضطر خیرآبادی

لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو

ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو

 

 

چمن میں بھی ہو آئے صحرامیں بھی

کہیں بھی نہ تفریح حاصل ہوئی

 

مصلحت کاہے تقاضااحتیاط

دل یہ کہتا ہے کہ دیکھاکیجئے

 

 

 

 

انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہاء نہیں

دوگز زمیں بھی چاہئے دوگز کفن کے بعد

کیفی اعظمی

 

 

 

گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں

وہ طفل کیاگرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے گا

 

موت سے جوڈرجاؤزندگی نہیں ملتی

جب بھی جیتنا چاہو کشتیاں جلادینا

منظربھوپالی

 

کپڑوں پر پیوند لگے ہیں تلواریں بھی ٹوٹی ہیں

پھربھی دشمن کانپ رہے ہیں آخرلشکرکس کا ہے

 

کتنے معصوم ہیں انساں کہ جل جاتے ہیں

اپنی کوتاہی کودے کر غم وآلام کانام

 

نہ ہو مضمحل میرے ہم سفر ،تجھے شاید نہیں اس کی خبر

ان ہی ظلمتوں کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے

 

عمربھرجلنے کااتناتوصلہ پائیں گے ہم

بجھتے بجھتے چند شمعیں توجلاجائیں گے ہم

 

جب سوچ کو فکروں کی قَبادیتاہوں

الفاظ کو آنکھوں سے دکھادیتاہوں

جوش ملیح آبادی

 

 

اس دور میں یہ سب سے بڑا ظلم ہوا ہے

بچوں میں وہ پہلی سی شرارت نہیں ملتی

 

بشیر بدر

جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے

آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

 

معین احسن جذبی

اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں

منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا

 

 

ایک منزل ہے مگر راہ کئی ہیں اظہرؔ

سوچنا یہ ہے کہ جاؤ گے کدھر سے پہلے

اظہر لکھنوی

 

یہاں وہاں کی بلندی میں شان تھوڑی ہے

پہاڑ کچھ بھی سہی آسمان تھوڑی ہے

شجاع خاور

 

صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں

منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈھتی رہی

عبد الحمید عدم

 

 

میں اگر راہ پر نہیں آتا
کوئی الزام سر نہیں آتا

 

ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا

میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا

فریاد آزر

 

اسے گماں ہے کہ میری اڑان کچھ کم ہے

مجھے یقیں ہے کہ یہ آسمان کچھ کم ہے

نفس انبالوی

 

ماضیٔ مرحوم کی ناکامیوں کا ذکر چھوڑ

زندگی کی فرصتِ باقی سے کوئی کام لے

 

کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتی

کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے

احمد فراز

 

 

 

 

بڑا آساں تھا سنگ گراں کو موم کردینا

بشر سینے میں عشق و کیف و مستی کی حرارت تھی

بشر پسروری

 

 

اے روح کیابدن میں پڑی ہے بدن کو چھوڑ

میلا بہت ہوا ہے اب اس پیرہن کوچھوڑ

 

بھاتا ہے یہ بھوک پیاس سب کچھ سہنا

اورروزوں میں انتظار مغرب رہنا

آپس میں سحر گہی کی چہلیں اورپھر                

بالصوم غدا نویت سب کا کہنا

(انشائ)

 

اس کو جس سانچے میں ڈھالو ڈھل جائیگی

زندگی اپنی جگہ حقیقت نہ مجاز

 

کیاہماری نماز کیا روزہ

بخش دینے کے سوبہانے ہیں

 

ایک سجدہ ہواگر روح کی گہرائی سے

دامنِ دل کے سبھی داغ ہی دھل جاتے ہیں

 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

 

کیوں نہ مقبول ہودعائے خلوص

کہ اثرخود ہے خاکپائے خلوص

 

وہ کہتے ہیں کہ اے اکبر یہ روزہ ایک قیامت ہے

بجا ارشاد ہوتا ہے مگر افطار جنت ہے

اکبر الہ آبادی

 

 

لاتا ہے بلندی سے شکم سب کو بہ پستی

طائر کو بھی ہوتے نہ سنا سیر ہواپر

 

طبع آزاد پر قید رمضان بھاری ہے

تم ہی کہہ دو ،یہی آئین وفاداری ہے؟

(علامہ اقبال)

 

روزوں خوروں کوڈنر دینے میں سرگرم ہیں

وہ گھرمیں وہ ولولہ روزہ کشائی نہ رہا

(اکبر الہ آبادی)

 

صدحیف کے ماہ رمضان ختم ہوا

آج پھر رات کو عالم ہے وہی بے خبری کا

 

 

 

حیراں ہے عقل دیکھ کے زلفِ سیاہ کو
آغوش میں لیے ہے شبِ قدر ماہ کو

میر انیس

 

 

عبادت ہے اک بے خودی سے عبارت

حرم کو مے مشک بو سے بسا دیں

اخترشیرانی

 

 

اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا

غالب

 

 

رات افضل ہو کیوں نہ راتوں پر

جس میں معجز نما کتاب آئے

میرے حصے میں بھی ثواب آئے

ہے شب ِ قدر ، بے حساب آئے

ذوالفقار نقوی

 

 

 

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

 

اس کدورت کوہم سمجھتے ہیں        

 ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے

میر

 

بہادر شاہ ظفر

کم نہیں ہوتی اس دنیا کی الفت بڑھتی جاتی ہے

جوں جوں عمر ہے گھٹتی جاتی غفلت بڑھتی جاتی ہے

 

 

 

اقبال عظیم

ہم نے حق مغفرت کواپناورثہ جان کر

یہ تصور کرلیا قہر خدا خاموش ہے

 

احمدہمدانی

حیات دہر کوکہتے رہے ہیں لوگ فانی بھی

حیات دہر نے بخشے بھی لمحے جاوداں کیاکیا

 

مولانا رومی اللہ تعالیٰ مومن کی پکار کو دوست اور عزیز رکھتا ہے:

نالۂ مومن ہمید اریم دوست           گوتضرع کن ایں اعزاز اوست

 

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

غالب

 

دل مایوس میں کچھ شورشیں برپانہیں ہوتیں

امیدیں اس قدر ٹوٹیں کہ اب پیدانہیں ہوتیں

 

اکبرالہ آبادی

 

گزرکی جب نہ ہو صورت گزرجانا ہی بہترہے

ہوئی جب زندگی دشوار مرجانا ہی بہتر ہے

اکبرالہ آبادی

 

 

ابراہیم ذوق

اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ  مرجائیں گے

مرکے بھی چین نہ پایا توکدھرجائیں گے

 

شانوں پہ گناہوں کا بار ،دامن نیکیوں سے خالی

ندامت ہے ،ندامت ہے، ندامت ہی ندامت ہے

 

 

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم ہائے سیاہ کو ترے عفوِ بندہ نواز میں

اقبال

 

ذوق عمل نہیں ہے توتیری دعائیں کیا

پیدانہیں دعامیں اثر کا سوال تک

ابوعلی محمدرمضان

 

دعا بھی صرف عزائم کا ساتھ دیتی ہے

دوائے درد بھی ڈھونڈو فقط دعا نہ کرو

اقبال عظیم

 

مولانا روم

ہرکجا اشک رواں رحمت بود         ہرکجاآب رواں خضرت بود

 

فرماگئے ہیں بات یہ اللہ کے رسول(ﷺ)

ہوگی  نہ  ایسے  شخص  کی  کوئی  دعا  قبول

جس کا ہو خورد نوش  لباس اور غذا  حرام

بچتے رہیں حرام  سے لازم ہے خاص و عام

ابوعلی محمدرمضان

 

اقبال

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پرنہیں طاقت پرواز مگررکھتی ہے

 

کیوں نہ مقبول ہودعائے خلوص

کہ اثرخود ہے خاکپائے خلوص

 

اسداللہ خاں غالب

کوئی  امید  بر  نہیں  آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

 

اکبرالہ آبادی

دل مایوس میں کچھ شورشیں برپانہیں ہوتیں

امیدیں اس قدر ٹوٹیں کہ اب پیدانہیں ہوتیں

 

اکبرالہ آبادی

گزرکی جب نہ ہو صورت گزرجانا ہی بہترہے

ہوئی جب زندگی دشوار مرجانا ہی بہتر ہے

 

ابراہیم ذوق

اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ  مرجائیں گے

مرکے بھی چین نہ پایا توکدھرجائیں گے

 

 

دعا بھی صرف عزائم کا ساتھ دیتی ہے

دوائے درد بھی ڈھونڈو فقط دعا نہ کرو

اقبال عظیم

 

فرماگئے ہیں بات یہ اللہ کے رسول(ﷺ)

ہوگی  نہ  ایسے  شخص  کی  کوئی  دعا  قبول

جس کا ہو خورد نوش  لباس اور غذا  حرام

بچتے رہیں حرام  سے لازم ہے خاص و عام

ابوعلی محمدرمضان

 

علامہ محمداقبال

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پرنہیں طاقت پرواز مگررکھتی ہے

 

کیوں نہ مقبول ہودعائے خلوص

کہ اثرخود ہے خاکپائے خلوص

 

اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات

جو فقر سے ہے مَیّسر، تونگری سے نہیں

علامہ اقبال

 

 

خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو

     ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا

اسماعیلؔ میرٹھی

 

 

سید محمد حسین( قمرجلالوی)

دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام

ذرا  سی  دیر  میں  کیا  ہو گیا  زمانے  کو

 

کیفی اعظمی

انسان کی  خواہشوں  کی  کوئی  انتہا   نہیں

دو گز زمیں بھی چاہیے دو گز کفن کے بعد

 

مولانا عبدالرحمن خان حماد عمری

آتشِ  سوزاں  جہنم  کی  بجھاتی  ہے زکاة

جنت الفردوس میں گھر بھی بناتی ہے زکاة

 

آئے  گردابِ  حوادث  میں  اگر  کوئی  سماج

امن کے ساحل سے پھر اس کو لگاتی ہے زکوٰۃ

 

جذبہ انفاق کو پروان چڑھاتی ہے زکاۃ

حرص دنیا اور لالچ کو مٹاتی ہے زکاۃ

 

؎               محبت بھلے چنگے کو دیوانہ بنادیتی ہے

 

 

شاخ گل کو جیسے چھیڑے ہے نسیم جان فزا

یوں دل منعم کو چھو کر گدگداتی ہے زکوٰۃ

 

 

روٹھنے والوں کو آپس میں ملاتی ہے زکاة

بغض ونفرت سے بنی دیوار ڈھاتی ہے زکاة

 

 

جو بھی دولت خرچ ہوتی ہے خدا کی راہ میں

وہ کبھی گھٹتی نہیں اس کو بڑھاتی ہے زکاة

 

 

حفظ مال وجان و ایمان کا سبب بنتی ہے وہ

ہر بلائے ناگہانی سے بچاتی ہے زکوٰۃ

 

 

نفس امارہ کا ہوجاتاہے اس سے تزکیہ

دل کو اک شفاف آئینہ بناتی ہے زکوٰۃ

 

 

آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام

اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

(سراج لکھنوی)

 

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

(بہزاد لکھنوی)

 

محنت سے ہے عظمت کہ زمانے میں نگیں کو

بے کاوش سینہ نہ کبھی ناموری دی

(بہادر شاہ ظفر)

 

 

 

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

 

ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا

ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

(صوفی تبسم)

 

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

(خالد شریف)

 

اب نہیں لوٹ کے آنے والا

گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا

(اختر نظمی)

 

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

(جگر مراد آبادی)

 

 

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

ہر شاخ پر الوبیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا

(اکبر الہ آبادی)

 

 

 

 

تجاہل،تغافل،تساہل کیا

ہواکام مشکل توکل کیا

(میر)

 

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

(مولانا ظفر علی خان)

 

کتنے معصوم ہیں انساں کہ جل جاتے ہیں

اپنی کوتاہی کودے کر غم وآلام کانام

 

سبھی مجرم ہیں یہاں آپ بھی،میں بھی،وہ بھی

سارے الزام مگرایک کے سرجائیں گے

(نظمی)

 

قصور کس کا ہے اپنے ضمیر سے پوچھو

خدا کے واسطے تقدیر کا گلہ نہ کرو

(اقبال عظیم)

 

اوروں پر الزام تراشی فطرت ہے ہم لوگوں کی

سچ پوچھو تو پال رکھے ہیں ہم نے خود زہریلے ناگ

(شو رتن لال برق پونچھوی)

 

شکوۂ ظلمتِ شب سے توکہیں بہترتھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

(احمدفراز)

 

 

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل

ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

(جگر مراد آبادی)

 

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

(سید صادق حسین)

 

لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں

میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے

(امیر قزلباش)

 

مجھے حادثوں نے سجا سجاکے بہت حسین بنادیا

مرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا

(بشیر بدر)

 

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

(مرزا غالب)

 

 

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 

 

لاتا ہے بلندی سے شکم سب کو بہ پستی

طائر کو بھی ہوتے نہ سنا سیر ہواپر

 

فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی

کون سانپ رکھتا  ہے اس کے آشیانے میں

(بشیر بدر)

 

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

(ابو المجاہد زاہد)

 

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

(امیر مینائی)

 

 

ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے

زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارہ کر کے!

(ہاشم رضا جلالپوری)

 

پھر بجٹ اس نے گرایا ہے ہتھوڑے کی طرح

وہ حکومت کو بھی لوہے کی دکاں سمجھا تھا

(خالد عرفان)

 

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

(مرزا غالب)

 

وہ سرتاپا گلابوں کا شجر لگتا ہے

باوضو چھوتے ہوئے بھی ڈر لگتاہے

(بشیر بدر)

 

یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا

(اسماعیل میرٹھی)

 

 

دیکھنے والے کو باہر سے گماں ہوتا نہیں

آگ کچھ ایسے لگائی ہے دھواں ہوتا نہیں

(حامد جیلانی)

 

حرکتیں اس کی سب دلیروں کی

کام کا شیر نام کا چوہا

(صوفی تبسم)

 

انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ

اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو

(نظام رامپوری)

 

سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم

ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے

(الطاف حسین حالی )

 

بے ہنروں میں ہیں قابلیت کے نشاں

پوشیدہ ہیں وحشیوں میں اکثرانساں

عاری ہیں لباس تربیت سے ورنہ

ہیں طوسی ورازی انہیں شکلوں میں نہاں

(الطاف حسین حالی )

 

سعی سے اکتاتے اورمحنت سے کنیاتے نہیں

جھیلتے ہیں سختیوں کو سخت جانوں کی طرح

(الطاف حسین حالی )

 

اے ماؤں! بہنوں! بیٹیوں!دنیا کی زینت تم سے ہے

ملکوں کی بستی ہو تمہیں، قوموں کی عزت تم سے ہے

(الطاف حسین حالی )

 

بلند ایک ہوتاتھا واں شرارا

تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا

(الطاف حسین حالی )

 

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ

ہر ایک لوٹ اورمار میں تھا یگانہ

فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ

نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے

درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے

(الطاف حسین حالی )

 

پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے

تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے

ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے

ہوئی صبح اورخواب راحت وہی ہے

نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ

نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ

(الطاف حسین حالی )

 

وہ دیں جس نے اعداء کواخواں

بنایا وحوش اوربہائم کو انساں بنایا

درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا

گدڑیوں کو عالم کا سلطان بنایا

وہ خطہ جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ

گراں کردیا اس کا عالم سے پلہ

(الطاف حسین حالی )

 

 

 

 

یہ خوب کیا ہے، یہ زِشت کیا ہے جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے

بڑا  مزا   ہو  تمام   چہرے   اگر کوئی   بے نقاب   کردے    (حفیظ)

 

 

 

 

جس دن اس دنیا میں اذاں کی صدا نہیں آئے گی

رات ہی رہ جائے گی اس دن صبح نہیں آئے گی

 

ترا دشمن ہوا سارا جہاں ہے

مسلماں آج تیرا امتحاں ہے

(ابوعلی محمد رمضان)

 

 

 

بڑی دلکش ہے یہ روشن خیالی

اسی پردے میں اک دام نہاں ہے

(ابوعلی محمد رمضان)

 

 

تازہ جہاں میں سنت آقا کریں گے ہم

جیسا کیا حضور نے ویسا کریں گے ہم

آقا ترا پیام جہاں کو سنائیں گے

تیری حدیث پاک کا چرچا کریں گے ہم

ہر دم حصول علم اس امت پر فرض ہے

پیدا یہ شوق دل میں دوبارہ کریں گے ہم

گر سجدہ ریز ہوکے دعائیں کیا کریں

دنیا میں پھر بلند سر اپنا کریں گے ہم

جو تھا بہ فیض پیروی سنت رسول

عظمت کا دور اس کی تمنا کریں گے ہم

تیرا کرم ہے مرتبہ خیر امت

بحرِوفا جہاں میں اجالا کریں گے ہم

(ابوعلی محمد رمضان)

 

ایمان معتبر نہیں محبوب گرنہیں

ترجیح اگر رسول ﷺ کو ہر ایک پر نہیں

ہے بعدمیں رسول کے والد ہو یا ولد

کچھ بھی نہیں رسول ( ﷺ ) جو محبوب تر نہیں

(ابوعلی محمد رمضان)

 

اے صاحبان عقل جو ہیں آپ ہوشمند

کیجئے وہی پسند نبی ( ﷺ ) کو جو ہوپسند

(ابوعلی محمد رمضان)

 

 

کہئے زبان سے آپ موذن سے جوسنیں

بعد ازاذاں درود بھی مجھ پرسداپڑھیں

جس نے پڑھا درود فقط مجھ پر ایک بار

دس رحمتیں کرے گا خداوندکردگار

پھرمانگئے خدا سے وسیلہ مرے نام

لاریب یہ وسیلہ ہے جنت میں ایک مقام

صرف ایک بندگانِ خدامیں سے پائے گا

میراخیال ہے کہ میرا نام آئے گا

جس نے میرے لئے یہ وسیلہ طلب کیا

اس کے لئے جواز شفاعت کاہوگیا

سنیئے اذاں بغور دعاکیجئے اے دوست

یہ نیک کام آپ سداکیجئے اے دوست

(ابوعلی محمد رمضان)

 

یہ طرز بے حیائی نہیں خوب میرے دوست
بن جاحیا پسند حیا اختیار کر
سچے نبی (ﷺ) کا قول ہے سچاہے بالیقیں
دیکھو حیامیں خیر ہی خیرآئے گا نظر

(ابو علی محمد رمضان)


تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مؤمن فقط احکام الٰہی کاہے پابند

 

یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

 

کافر ہے توشمشیر پہ کرتاہے بھروسہ

مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی

 

فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مؤمن

قدم اٹھا !یہ مقام انتہائے راہ نہیں

اقبال

 

وضع  میں  تم  ہو  نصاریٰ  تمدن  میں  ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

 

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زوربازو کا

نگاہ مرد مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

 

نہ توزمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

جہاں ہے تیرے لئے ، تونہیں جہاں کے لئے

 

نگاہ فقرمیں شان سکندری کیاہے

خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے!

 

تورازکُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پہ عیاں ہوجا

خودی کارازداں ہوجاخداکاترجماں ہوجا

 

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جوپیرہن اس کاہے وہ مذہب کا کفن ہے

 

نہیں تیرانشیمن قصر سلطانی کے گنبدپر

توشاہیں ہے بسیراکرپہاڑوں کی چٹانوں پر

 

خرد کی گتھیاں سلجھاچکا میں

میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

 

 

اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک

نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ

 

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرانم ہو تویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

 

اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے

رومی فناہوا ،حبشی کو دوام ہے

 

 

 

 


حاصل کریں گے جو انہیں ماحول دیجئے
احساس جرم ہوگا نہ تذلیل کیجئے
قلبِ خوداعتماد نہ تبدیل کیجئے
تعریف میں جوان کی کریں آپ گفتگو
اوروں کی خوبیوں کی انہیں ہوگی جستجو
ان پر نگاہ ِ لطف ہے ان کے لئے بڑی
محسوس کرسکیں اسی دنیا میں دلکشی
ہردم ہو ان کی حوصلہ افزائی کاخیال
پُراعتماد ہوں گے یقینا یہ نونہال
علم اور معرفت کی کریں آپ ان سے بات
حاصل ہو ان کو معرفتِ مقصدِ حیات
گرخوف کی فضا میں رہیں گے وہ ارجمند
ہوجائیں گے اداس رہیں گے وہ فکرمند
ماحول دوستانہ ملے ان کو ہوخبر
دنیامقام خوب ہے راحت کا ہے نگر
کیا نونہال آپ کے ہیں شاد و کامراں
کیاتربیت ہے ان کی اصولوں پہ مہرباں

 

اہل حاجت کودیتے ہیں جوزکوٰۃ
اُن سے راضی ہے قاضی الحاجات
کیامولیٰ نے فرض بندوں پر
حصہ چالیسواں کریں خیرات
ایک دیں سات سوکاپائیں ثواب
ایک سے سات سوملیں درجات
ہائے مونہہ موڑوایسے محسن سے
اے بخیلانِ تارکانِ زکات
موت آئے جب ان بخیلوں کو
ہاتھ مل مل کے یہ کہیں ہیہات
ہائے کیوں ہم نے خرچ کرنہ لیا
اب چلے چھوڑ کر یہ سب ترکات
دل پر اس دم ہوحسرتوں کی مار
جان پر ہووے موت کی سکرات
ہو وہ حالت کہ بس خدا نہ دکھائے
وہ قلق وہ تڑپ وہ تکلیفات
لپٹے محشر میں ان کوبن کر سانپ
ان کا مال و متاع وفخرونات
کہے وہ سانپ میں وہی ہوں مال
جان دیتے تھے جس پہ تم دن رات
کرکے گرم ان کا سب زروزیور
داغ دیں جسم پربصدصدمات

حضرت بیدلؔ رحمۃ اللہ علیہ(بحوالہ ذکرحبیب)

 

روزہ

روزہ کیا چیز ہے بتائیں تمہیں

حرص کی قید نفس کی تہدید

تیس دن بھوک پیاس کوروکو

یہ ریاضت ہے آدمی کومفید

سب کوبھولو کروخداکو یاد

سب کوچھوڑو ،بجزخدائے وحید

دوجہاں میں اسی کا جلوہ ہے

ہے وہی مثل آفتاب پدید

دل کی آنکھوں سے دیکھئے لیکن

کہ خدارا بچشم نتواں دید

وحدہ لاالہ الا ھو

کچھ نہیں ہے سوائے رب مجید

تابہ مقدور کیجئے تہلیل

تابہ امکان چاہئے تمجید

معتکف خانۂ خدا میں بنو

کچھ تو سیکھو طریقۂ تجرید

رمضاں مہینہ یوں گزرا

ختم روزے ہوئے توآئی عید

مولانااسمٰعیل میرٹھی

 

آخرمیں ایک مصرعہ جو پسند آیا

 

؎               کہ تیرافکررسا، دل صفا، دماغ اولیٰ

 

 

؎               تیرے کلام میں ہے بلاغت بھری ہوئی

 

؎               آگیا زخم کھاکرمسکراناآگیا

 

چلیں ہیں کعبہ پکڑے ہوئے ہیں چین کاروٹ

 

 

؎               سنگ ریزہ ہوا، بوند بوندآب سے

 

لمحوں کی خطاصدیوں کی سزا

(رحمان فارس)

 

اک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا

خاطر غزنوی

 

تجھ سا تو خوش فکر وگفتار دیکھا ہی نہیں

 

؎ جاوداں پیہم رواں ہردم جواں ہے زندگی

 

نزاکت کا یہ عالم ہے کہ گل توڑےتو بل کھائے

 

؎ کم نہیں ملک کی تسخیر سے تسخیر قلوب


 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post