حکایت: بیان کیا گیا ہے کہ حجاج بن یوسف (ظالم وسخت مزاج گورنر) ایک دن سیرکے لئے  اپنے محل سے باہر آیا۔ جب وہ اپنی سیروتفریح سے فارغ ہو کرمحل کی جانب واپس لوٹ رہا تھا  تووہ  اپنے مصاحبوں سے الگ ہوگیا اورتنہا رہ گیا ۔راستے میں اس کی  اچانک ایک بوڑھے شخص سے ملاقات ہوگئی۔

حجاج نے اس سے کہا شیخ کہاں سے آرہے ہیں اس نے کہا کہ میں اس گاؤں(قریبی گاؤں کی طرف اشارہ کیا) سے آیا ہوں۔

 حجاج نے کہا کہ تم اپنے گورنر( حجاج)  کے بارے میں کیسی رائے رکھتے ہو۔ اس نے کہا کہ دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ ظالم و بدترہے۔ وہ لوگوں پر ظلم کرتا اور ان کا مال و دولت  ناحق غصب کرتا ہے ۔ اس سے زیادہ شریر وشیطان کوئی حاکم نہیں ہوا۔ خدا اس کو رسوا کرے اور اس کا برا کرے  جس نے اسے حاکم بنایا۔

 حجاج نے کہا تو مجھے جانتا ہے کہ میں کون ہوں ۔ بوڑھے نے کہا نہیں۔ حجاج بولا میں ہی  حجاج بن یوسف ہوں۔

 بوڑھے نے فوراًکہا آپ مجھے پہچانتے ہیں کہ میں کون ہوں۔ حجاج نے کہا کہ نہیں بوڑھے نے کہا میں اپنے قبیلہ کا دیوانہ (پاگل) شخص ہوں۔ مجھے روزانہ دو مرتبہ مرگی کا دورہ پڑتاہے۔ حجاج  اس کے اس انداز سے محظوظ ہوا اور اس کے واسطے معقول انعام کا حکم دیا۔


حکایت:

حجاج بن یوسف بہت ظالم اور سخت مزاج حکمران تھا۔ بنوامیہ کے تمام گورنروں میں بہت زیادہ خود سر اور من مانی کرنے والا تھا۔جسے چاہتا معمولی سی بات پر قتل کروادیتا۔بیان کیا گیاہے کہ  ایک دفعہ اس نے ایک شخص کی گردن مارنے کا حکم دیا۔ اس شخص نے حجاج  سے کہا اس سے قبل کہ وہ مجھے قتل کرے  میری یہ خواہش ہے کہ  میں امیر المؤمنین  سے بات کروں۔ اس نے حجاج سے اپنی خواہش بیان کی۔ اس نے کہا میری خواہش صرف بات  کرنے کی نہیں  بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ  محل میں آپ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلوں اور اس میں آپ کا کوئی حرج نہیں اور آپ میری طرف سے کسی قسم کا اندیشہ نہ کریں۔ تو حجاج  اس کے ساتھ محل میں چلنے لگا۔ جب حجاج اخیرمحل پر پہنچا تو اس نے کہا کہ اے امیر المومنین، کر یم اورسخی شخص تھوڑی دیر ساتھ رہنے کا  بھی خیال کرتا ہے اور میں امیر کے ساتھ اس  چلنے  میں ساتھ رہا ہوں اور اس کے لیے زیادہ لائق اور مناسب ہے کہ وہ ساتھ رہنے کے حق کی رعایت کرتے ہوئے جان بخشی کردے اور خطا سے درگزر کرے۔ یہ سن کر حجاج ہنستا ہے اور اسے معاف کردیتاہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post