حضور نبی اکرم ﷺ کا حسن و جمال

علامہ محمدسرفراز صابری(پرنسپل علیمیہ اسلامک ڈگری کالج)

 

جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تورات کی تاریکی چھٹ رہی تھی صبح کا اجالا نمودار ہونے کوتھا۔یعنی وقت ولادت ہی خود گواہی دے رہاتھا کہ اب اس دنیا سے تمام قسم کی تاریکیاں ،ظلمتیں،اندھیرے ختم ہونے کو ہیں۔ یہ اس بات کے آثار تھے کہ اب دنیا سے جہالت کااندھیرا، اعمالِ قبیحہ کی سیاہی چھٹنے کو ہے، علم اوراچھے اعمال کی روشنی جلوہ گر ہونے کو ہے۔اور یہ اندھیرے ،ظلمتیں کیوں نہ چھٹتی جب کہ نورمجسم افضل ترین بشر بن کردنیا میں تشریف لارہے تھے۔

 خالق کائنات نے اپنے پیارے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسا بنایا ہے کہ نہ آپﷺ سے پہلے کوئی آپ ﷺ جیسا آیا نہ کبھی آسکتاہے۔آپ ﷺکی مدح وتعریف ہم کیاکرسکتے ہیں جب کہ  خوداللہ عزوجل کا ارشاد مبارک ہے۔ ورفعنا لک ذکرک۔اے حبیبﷺ ہم نے آپ کے ذکر کو بلندکیا۔بس ہم اللہ رب العزت کی سنت پر عمل کررہے ہیں۔

اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو حسن سیرت کے جملہ اوصاف کے ساتھ ساتھ لازوال حسن صورت سے بھی متصف فرما کر دنیا میں بھیجا۔عاشقان مصطفیٰ ﷺ نےآپ ﷺکے باطنی خصائل و خصائص کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن و جمال کو بھی موضوعِ سخن بنایا۔جس طرح آقائے دو جہاں ﷺ کاحسن سیرت سراپا معجزہ ہے اسی طرح آپ کا حسن و جمال بھی آپ کا عظیم معجزہ ہےکیونکہ سیرت اور صورت دونوں کا حسن و جمال آپ ﷺ پر منتہی ہوچکاہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتےہیں : رسول اللہ ﷺ کی ذات ِ مبارکہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے حسن و جمال پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یعنی تکمیل ایمان کے لیے یہ بات بھی شرط ہے کہ ہم اس بات کا اقرار کریں کہ رب کائنات نے حضور ﷺ کا وجودِ اقدس حسن و جمال میں بے نظیر و بے مثال بنایا۔ (الجامع الصغیر)

یہاں میں سرکار مدینہ ﷺ کے حسن وجمال کی سحرانگیز بیانی حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان کرتاچلوں۔آپ رضی اللہ عنہا عرب کی ایک بدوی خاتون ہیں۔آپ رضی اللہ عنہا نے بے مثال انداز سے نبی ﷺ کے حلیہ مبارک اور سراپا کی تصویر کشی کی ہے ، کیا حسن کلام ہے، کیا فصاحت و بلاغت ہے!

"پاکیزہ ونفیس ترین شخص، کشادہ وروشن چہرہ،تخلیق میں ایساحسن جس میں نہ موٹاپے کا عیب، نہ دبلاپے کا نقص، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں کھنک و بھاری پن، بلندصراحی دار گردن، داڑھی گھنی،  سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ (کمان دار)ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، دور سے دیکھو تو حسین تر، قریب سے نہایت شیریں تر و کمال حسین، نہ زیادہ باتیں کریں اور نہ ضروررت کے وقت خاموش رہیں، گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی ۔  شیریں کلام، واضح الفاظ، میانہ قد ،قدروقیمت میں سب سے بہتر نظرآئیں، ان کے کچھ جانثار بھی ساتھ تھےجو انہیں گھیرے ہوئے تھے، وہ بولتے تو سب خاموش ہوجاتے، کوئی حکم دیتے تو اس کی تعمیل کےلیے جھپٹتے ہیں،سب کے مخدوم سب کے مطاع ۔"

ایک اورصحابی حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے حلیہ مبارکہ کوان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

حضور اقدس ﷺ میانہ قد تھے، آپ کا سینہ مبارک وسیع تھا، آپﷺ کے بال گھنے تھے ،جن کی درازی کان کی لو تک تھی، آپ ﷺ نے سرخ دھاری دار کپڑا زیب تن کیا ہوا تھا، میں نے آپ سے زیادہ حسین کبھی کوئی چیزنہیں دیکھی۔‘‘

؎               نگاہوں نے نہ دیکھا ہے نہ ہرگز دیکھ پائیں گی

قارئین کرام!براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ شاعرِ رسول ﷺنے ان الفاظ میں بیان کیا:

وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني

وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ

خُلِقتَ    مبرأً   مِنْ  كلِّ   عيبٍ

كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ

’’آپﷺ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی دیکھا نہیں اورآپﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی ماں نے جنا نہیں،آپﷺ کو ہر عیب سے بری پیدا کیاگیا، گویاآپﷺ کی تخلیق آپ کی مرضی اور چاہت کے عین مطابق کی گئی یعنی آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو۔"

حقیقت تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ظاہر ہی نہیں کیا گیا، اگر حضور نبی اکرم ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ظاہر کردیا جاتا تو کوئی آنکھ آپ کے رخِ زیبا کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل نہ رہتی۔

 امام زرقانی علیہ الرحمہ امام قرطبی کا بیان نقل فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر آقائے کائنات ﷺ کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کردیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کے جلووں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔ (شمائل مصطفیﷺ )

علامہ قرطبیؒ  فرماتے ہیںاللہ تبارک و تعالیٰ نےحضور ﷺ کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا ساظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اُس کو برداشت نہ کرسکتیں۔

اسی طرح حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ حسن و جمال مصطفی ﷺ کے بیان میں لکھتے ہیں: اگر آپ ﷺ کا حسن و جمال بشر کے لباس میں چھپاہوا نہیں ہوتا تو روئے منور کی طرف دیکھنا ناممکن ہو جاتا۔ ( مدارج النبوۃ)

 آپ کا حسن و جمال بے مثال تھا، جسم اطہر کی رنگت نور کی کرنوں کی برسات اور شفق کی جاذبِ نظر سرخی کا حسین امتزاج تھی۔ آپ ﷺ کے حسن و جمال کو کائنات کی کسی مخلوق سے بھی تشبیہ نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی الفاظ میں جلوۂ محبوب ﷺ کا نقشہ کھینچا جاسکتا ہے۔ (شمائل مصطفیﷺ) امام قسطلانیؒ  لکھتے ہیں کہ اسلاف نے حضورﷺ کے اوصاف کا جو تذکرہ کیا ہے یہ بطور تمثیل ہے ورنہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس اور مقام بہت اعلیٰ وارفع ہے۔ (شمائل مصطفیﷺ )

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post