اسوہ نبی اکرم ﷺ


اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ  ﷺ کو حسن سیرت کے جملہ اوصاف  حمیدہ و اخلاق عالیہ کے ساتھ ساتھ لاثانی صورت سے بھی مزین فرما کر  اپنے بے مثل شاہکار کودنیا میں مبعوث فرمایا ہے ۔ بایں طور یا تاریخی اعتبار سے اگر حضور ﷺ کی سیرت طیبہ  کو تقسیم کیا جائے تو یہ بنیادی طور پر دو  عظیم موضوعات میں منقسم قرار پائے  گی۔

1۔ حسن صورت(آپ ﷺ کے حسن و جمال  و کمال کابیان)

2۔ حسن سیرت(آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ یعنی اخلاق حسنہ و اوصاف حمیدہ وافعال مبارکہ)

رسول اللہ ﷺ کا حسن صورت ایک ایساموضوع ہے جس پر ضخیم مجلدات کا انسائیکلوپیڈیا بھی ترتیب دیاجائے تو آپ ﷺکے حسن  وجمال کابیان ختم نہ ہو ۔خالق ارض وسماء نے اپنے پیارے حبیب کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو ایسا حسن و جمال عطاکیا جو اس سے پہلے  کسی کے حصہ میں نہ آیا تھا اور نہ بعد میں کبھی کوئی  اسے پاسکتا ہے۔ آپﷺ سب سے اجمل، سب سے اکمل، سب سے افضل، سب سے اشرف، سب سے اتقیٰ، سب سے اعلیٰ،سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے اعلم، سب سے اعظم،سب سے احسب، سب سے انسب، سب سے اجود،سب سے احسن تھے ،ہیں اور رہیں گے۔یہ تمام کلمات آپ ﷺ کی بلندی،رفعت،شان،عظمت، کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس وہ ان الفاظ کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا ہے۔جس کے بارے میں خوداللہ عزوجل کا ارشاد مبارک ہے۔" ورفعنا لک ذکرک"۔اے حبیبﷺ ہم نے آپ کے ذکر کو بلندکیا۔ اس ذکر کی رفعت  اور کیا شان ہوگی جسے خود اللہ رب العزت  کچھ اس انداز سے بلند فرما رہا ہے " وللآخرۃ خیر لک من الاولیٰ "اے محبوب آپ کا ہر آنے والا لمحہ سابقہ لمحے سے بہتر اور افضل ہو گا۔بہرحال کم علمی  اورذخیرہ الفاظ کے تنگ دامنی کے باعث راقم آپ  ﷺ کی حسن صورت کے موضوع پر ان ہی الفاظ پر اکتفا کرتا  ہے۔

اب آتے ہیں آپ ﷺکی  حسن سیرت کی جانب،  جسے آج ہمارا معاشرہ  فراموش کرچکا ہے۔ یہ دوسراموضوع آج کے دورمیں پہلے عنوان سے زیادہ اہم اورموجودہ دور کی ضرورت ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت کا ہر ہر پہلو ایک الگ وسیع اورعظیم الشان  موضوع  ہے۔ اورہمہ پہلو(آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ،تعلیم وتربیت کا نظام،اقتصادی و معاشی نظام، طبی طریقہ علاج،وغیرہ وغیرہ) ہزاروں عشاق مصنفین ان پر کتب سیرت تصنیف  بھی کرچکے ہیں ،کرتے آرہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

  حضور اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ میں ہر معاشرے،ہرزمانے، ہرقوم کے ہر فرد کے لئے اسوہ حسنہ موجودہے یعنی آپ ﷺکی حیات طیبہ میں حاکم و رعایا ،شاہ و گدا ،سپہ سالار و عام سپاہی ،امیر و غریب ،مرد و عورت ،بوڑھے و  بچے ،آقا و غلام ،عربی و عجمی ،شہری و دیہاتی ،بڑے وچھوٹے  الغرض سب ہی کے لئے آپ کی حیات طیبہ مکمل نمونہ نظرآتی ہے۔اس  سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والا ہرشخص یہ سمجھتا ہے کہ حضوراکرم  ﷺ نے زندگی گزارنے  کا یہ طریقہ  صرف میرے لئے ہی ترتیب دیا ہے۔آپ ﷺکی حیات طیبہ ہر ایک کی ہر ضرورت کوکفایت کرتی ہے ۔ ہر ایک کے لئے نہ صرف یہ کہ سازگار ہے بلکہ دنیا و آخرت کی تمام تر کامیابیوں کی ضمانت اور سند ہے۔

آج چودہ صدیوں سے زائد عرصہ گزرنے اور ہزاروںتغیر وتبدل کے باوجود جب بھی کوئی اہل علم خواہ اس کاتعلق کسی بھی شعبہ سے ہو ،اپنے تعصب اورمفادات کے دائرے سے باہر آکر آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کامطالعہ کرے گا تو وہ ضروریہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ آپ کا اسوہ حسنہ ہرزمانے میں اصلاح معاشرہ کا سب سے بہترین طریقہ ہے اورآپ  ﷺ انسانیت کے نجات دہندہ  اورتمام زمانوں کے لئے مثالی شخصیت ہیں ۔ ایسا کیوں نہ ہو جب کہ خود آپ ﷺنے کردار اوراخلاق  کا بے مثل و بے مثال نمونہ پیش فرمایاہے۔

بحیثیت مسلمان یہ تو ہمارا ایمان ہے " لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ"۔لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اوصاف حمیدہ ہم اپنی زندگیوں میں لانے کی کوشش کریں۔ ہماری بقا،ترقی اورکامیابی کا راز ان اوصاف عالیہ  کی کامل اتباع واطاعت میں ہے۔جب ہم صورتاًوسیرتاً ،ظاہراً و باطناً آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کریں گے۔ اپنے کردار کو آپ ﷺ کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں گے۔جو احکامات آپ ﷺ نے اس امت کو دیئے ان احکامات کو جاننے اوران پر عمل کرنے کی سعی کریں گے۔ تو ہماری دنیا بھی بقعہ نور بن جائے گی اور آخرت بھی  (انشاء اللہ العزیز)۔

 

 

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post