ایثار سے کیا مراد ہے جذبہ ایثار قرآن کی روشنی میں؟

ایثار:عربی زبان کا مصدر ہے، جس کامعنیٰ ہے ترجیح دینا۔  یعنی خود پر دوسروں کو ترجیح دینا ، خود کو بھوک لگی ہے ؛ مگر خود نہیں کھاتا دوسروں کو کھلاتا ہے ، خود پیاسا ہے ؛ مگر دوسروں کو پلاتا ہے ۔

سیرت نبوی ﷺ  کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ایثاروقربانی کی بلند ترین مثال تھی ۔ رحمت عالم ﷺپوری انسانیت کے لیے ہمہ وقت بے قراررہتے تھے۔ان کی نجات کی فکر آپ ﷺ کو بے قراررکھتی تھی یہاں تک کہ  قرآن مجید آپ کی اس صفت کے بیان میں کہتاہے :

‏ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿٦﴾

اچھا ، تو اے نبیﷺ! شاید آپﷺ  ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہیں اگر یہ اس تعلیم ﴿قرآن﴾ پر ایمان نہ لائیں۔‘‘﴿کہف:۶

آپﷺ  اصحاب کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ بیت المال میں کچھ آتاتو آپ تقسیم کردیتے تھے ،اگرکچھ نہ ہوتاپھربھی سائل کوواپس نہیں کرتے آپ فرماتے،جوکوئی اس کی مددکرے گا میں اس کا قرض داررہوںگا۔ایک موقع پر آپ ﷺ نے یہ اعلان فرمایا:

انا اولی بکل مؤمن من نفسہ، من ترک مالا فلاہلہ، ومن ترک دینا او ضیا عا فالی وعلی۔ ﴿مسلم﴾

جوکوئی مال واسباب چھوڑکر مرے گاوہ اس کے وارث کا حق ہوگا مگرجوکوئی قرض چھوڑکرمرے گا اسے میں اداکروںگا ۔‘‘

یہاں ٹھہرکر غورکرنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں ایسے کتنے ہی مقروض ہیں جو قرض سے پریشان ہیں۔ ان کے پاس اتناپیسہ نہیں ہوتا کہ اپناقرض اداکرسکیں ، ساتھ ہی دنیا میں ایسے بے شمارمال دارلوگ ہیں جواگرتھوڑی توجہ دیں توایسے لوگوں کا مسئلہ حل ہوجائے۔یاکوئی بیت المال کا مؤثرنظم ہے تواس قرض کی ادائیگی ہوجائے۔نبی کریم ﷺ کے بارے میں روایات میں آتاہے کہ اکثر فاقہ کشی کی نوبت آجاتی اور ایسا نہیں ہوتاکہ آپ نے تین روزتک مسلسل آسودہ ہوکرکھاناکھایاہو۔

حضرت عائشہ ؓ  فرماتی ہیں:

 ما شبع رسول اللہ ﷺ ثلاثۃ ایام متوالیۃ حتی فارق الدنیا، ولو شئنا لشبعنا، ولکنا کنا نؤثر علی انفسنا. ﴿بیہقی شعب الایمان﴾

نبی کریم ﷺتادم حیات کبھی مسلسل تین روز پیٹ بھرکرکھانانہیں کھایا،اگرہم چاہتے توخوب شکم سیر ہوسکتے تھے، لیکن ہم اپنے اوپر دوسروںکو ترجیح دیتے تھے۔‘‘

متعددروایات میں ہے کہ کوئی شخص آپ سے اپنی ضرورت کی کوئی چیز مانگ لیتا تواسے خودپر ترجیح دیتے ہوئے وہ چیزاسے عنایت فرمادیتے تھے:

حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بنی ہوئی چادرلے کر آئی اورکہنے لگی ، اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بناہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے قبول فرمالیا، پھرآپﷺ اسے تہ بند کے طورپر باندھ کرہمارے درمیان تشریف لائے توایک صحابیؓ نے کہا: یہ آپﷺ مجھے پہنادیں کس قدرخوبصورت ہے یہ چادر! آپﷺ  نے فرمایا: اچھا۔پھرنبی کریم ﷺ  مجلس میں بیٹھ گئے ،پھرواپس گئے اورا س چادرکواتارکرلپیٹااور اس کو اس آدمی کے پاس بھیج دیا۔ پس لوگوں نے اس سے کہا:نبی ﷺ  نے چادراپنی ضرورت سمجھ کر پہنی تھی ،لیکن تم نے اسے آپ ﷺ سے یہ مانگ لیا اورتمھیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کوواپس نہیں کرتے۔ اس نے کہا ، اللہ کی قسم! میں نے یہ پہننے کے لیے نہیں مانگی ،میں نے تویہ اس لیے مانگی ہے تاکہ ﴿آپ ﷺ  کے جسم مبارک سے لگی ہوئی بابرکت چادر﴾میرا کفن بن جائے۔راوی فرماتے ہیں کہ یہ چادراس کے کفن کے ہی کام آئی۔‘‘﴿بخاری﴾

یہی احوال  حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہ کا بھی تھا کہ وہ محض سخی نہیں تھے ؛ بلکہ ایثار کرتے تھے ؛ اسی لیے قرآن نے ان کی تعریف میں فرمایا :

 وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ  ( الحشر : ۹ )

 وہ حضرات اپنے پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ، اگرچہ خود ان کو تنگی ہو ۔ یعنی خود کو بھوک وپیاس وغیرہ کی پریشانی ہے ؛ مگر اس کے باوجود وہ حضرات دوسروں کو دیتے ہیں اور خود صبر کر لیتے ہیں۔

دوسروں کے دکھ دردکواپنا دکھ دردسمجھنااور اپنی تکلیف کوبھول کردوسروں کی پریشانی دورکرنے کے لیے بے قرارہوجانا ہی ایثارہے،اس جذبہ کو ابھارنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:

لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ        ﴿متفق علیہ﴾

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن﴿کامل﴾ نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔‘‘﴿متفق علیہ﴾

ایک حدیث مبارکہ ہے کہ

قال رسول اللہ ﷺ : ما زال  جبرئیل یوصینی  بالجار حتی ظننت انہ یورثہ ۔

ام المؤمنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حضرت جبرئیل  مجھ سے پڑوسی کے حق بیان کرتے رہےیہاں تک کہ مجھے گمان ہوا  کہ اسے ترکہ  کا وارث بنا دیں گے۔        

حدیث مبارکہ میں مہمان کی خاطر بیوی بچوں کو بھوکا سلانے کا واقعہ

عن ابي هريرة رضي الله عنه: ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم فبعث إلى نسائه، فقلن: ما معنا إلا الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من يضم او يضيف هذا"، فقال: رجل من الانصار انا فانطلق به إلى امراته، فقال: اكرمي ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: ما عندنا إلا قوت صبياني، فقال: هيئي طعامك واصبحي سراجك ونومي صبيانك إذا ارادوا عشاء , فهيات طعامها واصبحت سراجها ونومت صبيانها، ثم قامت كانها تصلح سراجها فاطفاته , فجعلا يريانه انهما ياكلان فباتا طاويين , فلما اصبح غدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ضحك الله الليلة او عجب من فعالكما" , فانزل الله: ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فاولئك هم المفلحون سورة الحشر آية 9.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک صاحب (خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں) رسول اللہﷺکی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا۔ (تاکہ ان کو کھانا کھلا دیں) ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلا دو۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور اپنے بچوں کو (بھوکا) سلا دیا، پھر وہ دکھا تو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں، لیکن ان دونوں نے (اپنے بچوں سمیت رات) فاقہ سے گزار دی، صبح کے وقت جب وہ صحابی آپ ﷺکی خدمت میں آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا (یہ فرمایا کہ اسے) پسند کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون‏» ”اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر (دوسرے غریب صحابہ کو) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“

حکایت: اسی آیت کے ذیل میں امام نسفی رحمہ اللہ نے تفسیر مدارک التنزیل میں ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ابو زید کہتے ہیں مجھے اہل بلخ کے ایک نوجوان نے پوچھا کہ آپ کے زُہد  کیا ہے؟ تو میں نے جواب دیا کہ اذا وجدنا اکلنا جب مل جاتا ہے تو کھا لیتے ہیں واذا فقدنا صبرنا اور جب نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں ۔ تو وہ مجھے کہنے لگا کہ یہ تو ہمارے ہاں بلخ کے کتوں میں بھی پایا جاتا ہے پھر اس نے کہا کہ زہد یہ ہے کہ اذا فقدنا صبرنا جب ہمیں نہیں ملتا تو ہم صبر کرتے ہیں واذا وجدنا اثارنا اور جب ہمیں ملتا ہے تو ہم ایثار کرتے ہیں ۔

ایثار و ہمدری کی ضرورت و اہمیت؟

مصائب و مشکلات کے اس دور میں،ایثار و ہمدردی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دور حاضر میں ہر ایک جلد باز ہے اور ہر ایک بہت سی غلطیاں کرتا ہے۔ اس صورت میں آپ ایثار و ہمدودی کا رویہ اپناتے ہوئے دوسروں کو ترجیح دیں گے، تو معاملات بہت ہی آسان ہوجائیں گے۔ ان بے صبری کے اوقات میں، پیار و محبت کا رویہ اپنائیں گے، تو ہر ایک کے گرویدہ ہوجائیں گے۔ ہم میں سے ہر ایک اس کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اس صفت کو بآسانی اپنا سکتا ہے۔اس طرح ایثار و ہمدردی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم ایک مثالی اورپر امن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

ایک حدیث شریف میں حضور ﷺ نے مخلوق کو اللہ کی عیال قراردیاہے:

عن انس وعبد اﷲ قالا قال رسول ﷲﷺ الخلق عیال ﷲ فاحب الخلق الی ﷲ من احسن الیٰ عیالہ۔(مشکوٰۃ شریف ص 425)

حضرت انس اور حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے (یعنی سب مخلوق کی روزی اور اُن کی ضروریات حیات کا حقیقۃً اللہ تعالیٰ ہی کفیل ہے، جس طرح کہ کوئی آدمی اپنے اہل و عیال کی روزی اور اُن کی ضروریات کا مجازاً کفیل ہوتاہے) پس اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت اُن بندوں سے ہے جو اس کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان کریں۔

اب جتنا کوئی احسان کرے گا بلکہ ایثار کرے گا وہ اتنا ہی رب کے قریب ہوگا۔ رب کی بارگاہ میں محبوب ہوگا۔ ہماری اس دنیا کا دستور بھی یہی ہے کہ جو کوئی کسی کے اہل و عیال کے ساتھ احسان کرے اُس کے لیے دل میں خاص جگہ ہو جاتی ہے۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جو کوئی اُن کی مخلوق کے ساتھ احسان کابرتاؤ کرے  وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو جاتا ہے۔

ایک حدیث میں ہے:خیر الناس من ینفع الناس(کنزل العمال) بہتر انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے ۔

ایک جگہ رسول اللہ ﷺنے رشاد فرمایا:اماطہ الاذی عن الطریق صدقۃ( صحیح مسلم،حدیث نمبر:۱۶۶۸۔سنن ابوداؤد،حدیث نمبر:۱۲۸۵) اگر کوئی شخص راستہ سے تکلیف دینے والی چیز ہٹادے تویہ بھی صدقہ ہے۔

احادیث مبارکہ سے بہترانسان بننے کا یہ معیار معلوم ہواکہ ایک انسان کاوجود بحیثیت انسان دوسروں کے لئے فائدہ مند اورنفع بخش ہو،ایک اور حدیث میں ہے :قیامت کے دن اللہ تعالی انسان سے کہے گا اے ابن آدم میں بیمارپڑارہا لیکن تونے میری عیادت نہیں کی انسان عرض کرے گا اے میرے رب تو سارے جہاں کا پروردگار توکب بیمارتھا ؟اورمیں تیری عیادت کیسے کرتا؟اللہ تعالی فرمائے گا کیاتجھے نہیں معلوم تھا کہ میرافلاں بندہ بیمارہے لیکن اس کے باوجود تواس کی مزاج پرسی کے لئے نہیں گیااگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا،پھر خداتعالی فرمائے گا ائے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانامانگا لیکن تو نے مجھے کھانانہیں دیاانسان عرض کرگا ائے رب العالمین توکب بھوکاتھا ؟اورمیں تجھے کیسے کھاناکھلاتا؟اللہ تعالی فرمائے گا کیاتجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھاناطلب کیاتھا لیکن تو نے اسے کھانانہیں کھلایا،اگر تو نے اس کا سوال پوراکیاہوتاتوآج اس کا ثواب یہاں پاتا،اسی طرح اللہ تعالی فرمائیں گے اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تونے نہیں پلایا،انسان عرض کرے گا اے دونوں جہاں کے پروردگا ر توکب پیاساتھا؟اورمیں تجھے پانی کیسے پلاتا؟اللہ تعالی فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیاتھا لیکن تونے اس کی پیاس بجھا نے سے انکار کردیاتھا اگر تونے اس کی پیاس بھجائی ہوتی توآجہ اس کاثواب یہاں پاتا۔(صحیح مسلم ،حدیث نمبر:۶۵۵۶

الغرض اس زندگی میں اگر ہم ہر مقام پر دوسروں کو ترجیح دیں، ایثار و قربانی سے کام لیں ،اپنے اوپر دوسروں کو فوقیت دیں، تو یہ جہاں ہمارے لیے باعث سکون و اطمینان ہے۔ وہیں ایک مثالی معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں بھی انتہائی مؤثر اور مددگار ہوگا۔

کسی بزرگ کا قول ہے۔‏المومن الصادق لایطلب شیئ من الناس بل یوثر علی نفسہ  

سچا مومن کبھی بھی دوسروں سے کسی شے کا طالب نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتا ہے۔یعنی وہ دوسروں کی جیب کی جانب نہیں دیکھتا بلکہ اس کی نظرمحتاجوں اورناداروں پر پڑتی ہے کس طرح ان کی داد رسی کرسکے۔ اب جس معاشرے کی اساس اس ایثار و ہمدردی کے اصول پر ہوگی اس میں کوئی بدامنی ، بے راہ روی، رشوت ستانی، چوری ، ڈاکہ زنی جیسے مجرمانہ افعال کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

جس معاشرے میں      ایثار و ہمدردی کافقدان ہوجائے   تواس سوسائٹی پر کیا نقصانات  ظاہر ہوتے ہیں؟

ایثار و ہمدری کا فقدان یعنی خودغرضی کا دور دورہ جس معاشرے میں ہوجائے اس معاشرے کو تباہی  سے کوئی نہیں بچا سکتا۔جیسا کہ  آج کی کارپوریٹ  دنیا کو دیکھ لیجئے۔ یہاں پرمادیت کا غلبہ ہے۔ خواہش نفس کی پیروی نے نیکی اوربدی کی پہچان کو بھی بدل دیاہے۔خودغرضی نے انسانیت کی قدریں مٹادی ہیں۔معیارزندگی بلندکرنے کی ہوس نے لوگوں کوبدعنوانی کے جال میں پھنسا رکھاہے۔ انس و محبت کے خمیرسے پیداکیاگیاانسان درندہ صفت حیوان بن گیاہے ۔وہ ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے بے قرارہے۔امیرغریبوں،بے بسوں اورلاچاروں کے خون پسینے کا کاروبارکرنے لگا ہے اوراسی سے اپنی زندگی کی عالیشان عمارت تو کھڑی کرلیتاہے۔لیکن معاشرہ بدامنی اور خوف کی آماجگاہ بن جاتاہے۔ پھر ہر ایک دوسرے کو شک و خوف کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ شاہراہ پر چلنے والے دواجنبی دونوں ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ یہ پستی خودغرضی اورانانیت کے باعث ہے۔

اس کے برعکس جب معاشرہ ایثار کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو معاشرے کا ہر ہر رکن بے خوف  اور پر امن ہوجاتاہے ۔ جس سے وہ معاشرہ سکھ، چین، سکون، خوشحالی کی شاہراہ پر رواں دواں ہوجاتاہے۔  ایثار کسی ایک شعبہ و ایک جہت میں نہیں ہوتا کیونکہ   ایثار کا مطلب صرف یہ نہیں کہ دوسروں کو صرف کھانے پینے اور لباس پوشاک میں اپنے اوپر ترجیح (Priority) دی جائے بلکہ موقع محل اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے دوسروں کو خود پر ترجیح دینا ایثار کہلائے گا کیونکہ یہ ایسی صفت ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کا تعلّق نظر آتا ہے، غور و فکر کرنے کی صورت میں اس کی کئی صورتیں سامنے آسکتی ہیں۔ مثلاً سڑک پار کرتے افراد کو دیکھ کر گاڑی روک لینا اور انہیں گزرنے دینا، ٹرین کے ٹکٹ خریدتے  ہوئے قطار میں بوڑھوں/بیماروں کو خود پر ترجیح دینا، بھری بس/ٹرین میں کسی بوڑھے یا سامان سے لدے مسافر کو دیکھ کر اپنی سیٹ چھوڑ دینا، کسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوں تو بوٹی یا کھانے کا اچّھا حصّہ دوسروں کو پیش کرنا وغیرہ یہ سب ایثار ہی کی صورتیں ہیں۔ الغرض! روز مَرَّہ کے کئی امور ایسے ہیں جو ایثار کے زُمرے میں آتے ہیں۔ اگر ہم ان معاملات میں تھوڑی سی توجّہ اور تحمل سے کام لیں گے تو ایثار کا اَجَر حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو ایک فلاحی معاشرہ بنانے  میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ 

خودغرضی سے کیا مراد ہے ، ماہرین اس کی کیا تعریف کرتے ہیں؟

خودغرضی ایسا رویہ جس میں انسان اپنا حد سے زیادہ خیال رکھتا ہے ، انفرادی مفاد کو دوسروں کی ضروریات ، آراء ، ذوق یا مفادات کو دیکھے بغیر ، صرف اپنے مفاد کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔خود غرضی کی وجہ سے دوسروں سے تعلق رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ، کیوں کہ خود غرض انسان دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے جیسے وہ موجود نہیں ہے ، یا گویا ان کے خدشات یا نظریات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ لہذا ، اس کا موازنہ بھی انفرادیت سے کیا جاتا ہے ۔اس لحاظ سے ، خودغرضی عداوت کا نقطہ آغاز ہے ، جو انسانی بقائے باہمی کے لئے یکجہتی  کے یکسر خلاف ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا کہ حد سے زیادہ ایک شخص  کا اپنے ذاتی مفاد ،بہتری، تفریح، اور سکون پر توجہ دینا،خواہ دوسروں کو اس کے عمل سے شدید نقصان ہی کیوں نہ پہنچ رہا ہو خود غرضی  کہلاتاہے۔یہ ایثار یا بے لوثی کی ضد ہے اورایک منفی قدر ہے ۔ دوسروں لفظوں میں  اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص زیادہ سے زیادہ اپنے مفاد کا خیال رکھے بلکہ اپنی ذرا سی خواہش کی تسکین کے لئے دوسروں کے جانی و مالی نقصان کی پرواہ تک نہ کرے۔

خودغرضی چونکہ ایک شیطانی خصلت ہے اِس لیے کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اِس میں گرفتار  شخص بھی شیطان ہی کی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ یعنی اللہ کی لعنت کا سزاوار ہوگا اور  راندہ درگاہ ہوجائے گا۔

خودغرضی کی بہت سی قسمیں ہیں ۔مثلاَ وہ جس کا منبع علم ہوتا ہے‘ وہ جو دولت اور اقتدار پر مبنی ہوتی ہے‘ وہ جو عقل اور حسن و جمال کے بل بوتے پراکڑتی اور بڑھتی رہتی ہے‘کہیں یہ اقتدار کی چوکھٹ سے چمٹنے کا نام ہے، کہیں یہ اپنے شخصی وقار کی تسکین کے لئے ہوتی ہے اورکہیں یہ بخل کی شکل میں ہوتی ہے۔ بہرحال اس کی مختلف حالتیں ہیں۔ اِن صفات میں سے ایک کا بھی پایا جانا مالکِ حقیقی کی طرف سے آنے والے عذاب کا باعث بن سکتاہے۔

خودغرضی کے توڑ کے لئے اللہ رب العزت رشتہ داروں اور مسکینوں اور اس کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کا حکم دیتاہے۔

وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُـوٓا اُولِى الْقُرْبٰى وَالْمَسَاكِيْنَ وَالْمُهَاجِرِيْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۖ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۗ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّـٰهُ لَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (النور22)

اور تم میں سے بزرگی اور کشائش والے اس بات پر قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیا کریں گے، اور انہیں معاف کرنا اور درگذر کرنا چاہیے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

بخل کرنے کی مذمت

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّـذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتَاهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْـرًا لَّـهُـم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّـهُـمْ ۖ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلّـٰهِ مِيْـرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۗ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ (180 آل عمران)

ترجمہ: اور جولوگ اس مال کو جو خدانے اپنی مہربانی سے ان کو دیا ہے روکے رکھتے ہیں، وہ اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں؛ بلکہ وہ ان کے حق میں بدتر ہیں، جس مال کو بچانے کے لیے وہ بخل کے شکار ہیں، وہ ان کے گلے میں طوق بناکر لٹکادیا جائے گا۔

ذاتی مفاد وخواہشات کی خاطر فحاشی پھیلانے والوں کے دردناک انجام

اِنَّ الَّـذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِى الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور:19)

بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمانداروں میں بدکاری کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

خود غرض افراد کس طرح لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں؟ اور خود غرضی اور مفاد پرستی کس طرح معاشرے  اور overall

پوری سوسائٹی کو تباہ کرتی ہے۔

جو لوگ خودغرضی میں اس حد تک ڈوب چکے ہیں کہ ان کو خدا اور رسول کی شرم نہیں وہ اس کی مخلوق سے کیا حیا کریں گے اور ملک اور قوم کا کیا بھلا چاہیں گے؟ وہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے  کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ آج ہماری حالت کیا ہے ! مارکیٹ سے لے کر مسجد تک، گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے بس اسٹاپ پر سے،دکان پر کھڑے اشیائے خورونوش خریدنے تک، تندور کے سامنے لگی قطار سے ٹریفک کے رش تک، ہر جگہ ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے،یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔

الغرض آج کا دور خود غرضی کا ہے۔ضرورت پڑنے پر خون کے رشتے بھی نظریں چرانے لگتے ہیں۔ لوگ تو اتنے خود غرض ہوتے ہیں کہ انہیں صرف اپنی ہی فکر ہوتی ہے اوروں کی زندگی برباد کرتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے۔اپنے مفاد کے لئے کسی کو بھلا برا کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔

خود غرض اور مفاد پرست انسان سانپ کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ جس قدر بھی نیکی کی جائے  وہ ڈسنے سے باز نہیں آتے ۔ اسی بے حسی اور خود غرضی نے ہمارے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔  انا، غرور، خود پسندی، خود غرضی، جھوٹ  تیزی سے ہلاک کرنے والے زہر ہیں خودغرضی اور ذاتی مفادات کی خاطر کئی گھر اور لوگ بربادی کا شکار ہو رہے ہیں۔اورقوم  تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔

ایک طرف آج  کے خود غرض انسان اور دوسری طرف ہمارے اسلاف اور ان کی تعلیمات ایثار و پیکر افراد کی  حیات سے سنہری مثالیں دیں۔

آج کے دور میں کیا امیر اور کیا غریب کیا بوڑھے اور کیا جوان، کیا مرد اور کیا خواتین جو ہے وہ بے حسی اور خود غرضی سے  آلودہ  نظر آتا ہے۔ اس کی ایک مثال کہ ہمارے شہر کے تمام ندی  و نالے کوڑے (اور کچرے) سے لَبا لَب بھرے ہوئے ہیں !اب کوئی کہے کہ نالیوں اور نالوں کی صفائی نہ ہونے کا مسلمانوں سے اور وہ بھی اُن کی بے حسی اور خود غرضی سے کیا تعلق؟ اپنی تھوڑی سی راحت،سستی و آرام طلبی کی خاطر یعنی کوڑے کو جہاں ہے وہیں پھینک دینا  اگرچہ اس سے پورے معاشرے کو اور بالآخر خود ان کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا لیکن وقتی راحت کی خاطر وہ اتنے بڑے نقصان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ ایک ادنی سی مثال ہے اس پر مزید قیاس کرلیں۔

جب کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’خدا کی قسم وہ صاحب ایمان ہی نہیں، جوخود غرضی اور اپنی شکم پروری کا ایسا غلام بن چکا ہو، جسے بھوکے پڑوسی سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔‘‘

اسلام کی پوری کی پوری عمارت ایثار یا بے غرضی پر قائم ہے۔ پہلے مسلمان سے لے کر ریاست مدینہ کے قیام و استحکام تک ہمیں جو عوامل کارفرما نظرآتے ہیں ان میں سب سے اہم مسلمانوں کا ایثار اوربے غرضی ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا غلاموں کو آزاد کروانا ، ریاست مدینہ میں جاتے ہی مواخات کے وقت انصارکا مہاجرین کے لئے ایثار کرنا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔

ایثار اور ہمدردی کی جو مثالیں آپ ﷺنے قائم فرمائیں،ان کی  مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ آپ ﷺکے اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جب بھی آپ ﷺ کی مجلس میں کوئی پھل، دودوھ یا کوئی کھانے کی چیز پیش کی جاتی توآپﷺ مجلس میں موجود صحابۂ کرامؓ کو دیتے اور آخر میں خود تناول فرماتے۔

یہاں تاریخ سے ایثار کی لازوال رقم کی گئی تاریخ  پیش خدمت ہے:

حضرت ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہیں انہوں نے کہا جنگِ یرموک میں میرے چچا زاد بھائی کو تلاش کرنے نکلا اور ساتھ میں ایک پانی کا مشکیزہ لے لیا ؛ تاکہ اگر وہ مل جائیں اورپانی کی ضرورت پڑے تو پریشانی نہ ہو ۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو ایک جگہ پالیا ، وہ نزع کی حالت میں زخمی پڑے ہوئے تھے ، میں نے ان سے کہا کہ کیا میں تمھیں پانی پلاؤں ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں ! اتنے میں ان کے قریب ایک اور شخص زخمی حالت میں پڑے ہوئے تھے ، انھوں نے آہ کی ، میرے چچازادبھائی نے کہا کہ پہلے ان کو پانی پلاؤ ، دیکھا تو وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بھائی ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ تھے ، میں ان کے پاس پہنچا اور کہا کہ کیا پانی پلاؤں ؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں ! اتنے میں ایک اور شخص کے کراہنے کی آواز آئی ، تو ہشام کہنے لگے کہ اس کو پہلے پلادو ، حضرت ابو جہم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس کے پاس پہنچا ، تو ان کا انتقال ہو چکا تھا ؛ لہٰذا میں ہشام کے پاس آیا ، دیکھا تو ان کا بھی انتقال ہو گیا ہے ، یہ دیکھ کر میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس آیا کہ ان کوپانی پلادوں ؛ مگر جب ان کے پاس پہنچا ، توان کا بھی وصال ہوچکا تھا ۔ ( مختصر تاریخ دمشق : ۸ ؍ ۱۴۲ )

جذبہ ایثار اسلامی معاشرے کی ممتاز خصوصیت تھی ۔صحابہ کرامؓ  نے ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد اورضروریات کومحسوس کرتے ہوئے ،انھیں خود پر ترجیح دی ۔اس بنا پر قرآن نے انھیں رحماء بینہم کا اعزازبخشاہے۔ چندواقعات درج ذیل ہیں:

﴿الف﴾ ایک مرتبہ حضرت عمربن الخطاب ؓ نے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا:

ایک شخص نے ایک بکری کا سرہدیہ کے طور پر کسی کے گھربھجوایا۔جس کو دیا گیا اس نے کہا کہ اسے میرے فلاں بھائی کودے دو کہ وہ مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہے ،جس شخص کے پاس اسے بھجوایاگیا۔ اس نے اسے دوسرے کے گھربھجوادیا۔ اس طرح وہ مسلسل سات گھروںسے منتقل ہوتا ہوا دوبارہ اس پہلے شخص کے پاس پہنچ گیا۔﴿بیہقی شعب الایمان ،فصل:ایثار﴾

﴿ب﴾  ایک مرتبہ حضرت عمرؓ  نے چارسودینار سے بھری ہوئی تھیلی،اپنے غلام کودیتے ہوئے فرمایاکہ اسے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ؓ  کے پاس لے جاؤ،پھروہیں کچھ دیررکے رہوتاکہ تم دیکھ سکو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ؓ نے پہلے تودعادی پھر تھیلی لی اور اپنی باندی کو بلاکرکہا کہ اس تھیلی سے سات دینا رفلاں کو دے آ، پانچ فلاں کو،حتی کہ سارامال تقسیم کردیا ، اپنے لیے کچھ نہ رکھا۔اسی مقدارکے دینار حضرت عمرؓ  نے حضرت معاذ بن جبل ؓ  کو بھی روانہ کیے۔انھوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے کیا تھا۔ حضرت معاذ ؓ  کی بیوی نے ان سے کہا کہ بخدا ہم بھی مسکین ہیں۔ کچھ تو روک لیجئے، اس وقت تھیلی میں صرف دودیناربچے تھے سو ان کو دے دیے۔ غلام نے حکم کے مطابق آکر واقعہ کی تفصیلی خبردی تو حضرت عمرؓ  اس سے بے انتہا خوش ہوئے ۔‘‘

﴿ج﴾       انسان کسی کو کوئی قرض دیتا ہے توپھر وہ اس کا حق ہے کہ وہ ایک وقت متعینہ پر اسے وصول کرلے ، اگرمقروض مجبوری یاتنگ دستی کی وجہ سے ادانہیں کرپارہاہے تو اسے مہلت دی جانی چاہیے ۔ بہر صورت قرض ایک حق ہے، جسے دینے والا وصول کرسکتاہے ۔اگر معاف کردے تویہ ایثار کی ایک بڑی مثال ہوگی۔

ایسا ہی ایک واقعہ حضرت قیس بن سعدبن عبادۃ کا ہے،جو فیاضی میں کافی مشہور تھے:

 جب آپ ؓ  بیمار ہوئے تو لوگوں کی ایک بڑی جماعت آپ کی عیادت کو نہیں آئی ، وجہ معلوم کی گئی توپتہ چلاکہ وہ آپ سے لیے گئے قرض کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث شرمندگی کے سبب نہ آسکے ۔توحضرت قیسؓ  نے فرمایاکہ اللہ کی رسوائی ہوایسے مال پر جو لوگوں کوملاقات سے روک دے۔ پھرآپ نے یہ اعلان کروادیاکہ جن لوگوں پر ان کا قرض ہے وہ سب معاف ہے۔  ﴿مدارج السالکین﴾


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post