تقابل ادیان کے بنیادی اصول

مقصود حسین 


پہلا دور:یورپی مؤرخین عام طور پر تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ جن میں رومی شہنشائیت (Roman Empire) کے سقوط سے قبل کے دور کو تاریخ کا اولین دور قرار دیاجاتاہے۔ رومی شہنشائیت (Roman Empire) کو قدیم دور کی عظیم سلطنت میں شمار کیاجاتاہے۔ اس کے علاوہ رومی شہنشائیت نے قدیم دور کی غالب تہذیب جس کی بنیاد محض توہم پرستی (Superstition) اور جبر کے اصولوں پر رکھی گئی تھی ، کو جنم دیاتھا۔ تاریخ کے اس اولین دور کا اختتام ساتویں صدی میں عربوں کے ہاتھوں ہوا جس سے نہ صرف وقت کی غالب سیاسی قوت کا نظم بکھرگیا بلکہ ساتھ ساتھ اس کی تہذیبی و ثقافتی غلبہ (Cultural domination) کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

دوسرا دور:رومی سلطنت اور تہذیب کے خاتمہ سے لے کر پندرھویں صدی کے آخر تک کے عرصے کو تاریخ کا دوسرا دورقراردیاجاتاہے جو قرون وسطیٰ (Middle Age) کہلاتاہے۔یہ و ہ درمیانی دور جس کے آغاز کے ساتھ مغربی دنیا قدیم دورسے نکل کر جدید دور میں داخل ہوئی۔

تیسرادور:تاریخ کے تیسرے دور کی ابتداء سولہویں صدی کے آغاز سے ہوئی۔ تاریخ کا یہ دور Modern Age یعنی دورجدید کہلاتاہے۔ یہی وہ دور ہے جس کے آغاز سے مغربی دنیا میں ہمہ گیر سیاسی، جمہوری، صنعتی، سائنسی اورعلمی وفکری انقلاب برپا ہوا اور اس طرح تمام مغربی اقوام نے غیر سائنسی دور سے نکل کر بھرپور سائنسی فکری انقلاب کے دورمیں قدم رکھا۔

دورجدید (Modern Age) کے آغاز سے مغربی دنیا میں برپاہونے والی ہمہ گیر سائنسی وفکری انقلاب نے آتے ساتھ ہی مغرب میں مذہبی طبقہ کی طویل سماجی و معاشرتی اجارہ داری Monopoly ختم کردی ۔ یہاں تک کہ خود مذہب کے وجود کے لئے بھی خطرہ کی گھنٹی بجادی۔ کئی ایک سائنسدانوں نے مذہبی (عیسوی) عقائد و نظریات اور افکار کو اپنی سائنسی تحقیق (Scientific Research) كا موضوع بنایا اورمجموعی طور پر مذہب کی علمی و فکری حیثیت کو باقاعدہ سائنسی اصولوں (Scientific Laws) کی روشنی میں چیلنج کیاگیا۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب مذہب (عیسائیت) بھرپور سائنسی تحقیقات (Scientific Research)کے نتیجہ میں دریافت شدہ حقائق وانکشافات کا سامنا نہ کرسکا۔ اس طرح مذہبی (عیسوی ) نظریات وافکار اوردریافت شدہ سائنسی حقائق وانکشافات کے مابین تعارض و تناقض مذہبی (عیسوی) اورسائنسی فکر کے درمیان تاریخی تصادم و ٹکراؤ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس طرح دونوں طبقہ ہاءے فکر میں باہمی تاریخی طبقہ نے سائنسدانوں کو مذہب سے خارج قرار دے کر تختہ دار پر لٹکاکر کیا جب کہ سائنسی طبقہ فکر نے رد عمل کے طور پر مذہبی (عیسوی) تصورات کے یکسر مخالف نظریات (Theories) كو سائنسی انداز(Scientific Method) میں ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

اس سلسلے میں چارلس ڈارون(Charles Darwin) کے نظریئے ارتقاء کو بطور مثال پیش کیاجاسکتا ہے جس کے مطابق انسان اپنی موجودہ شکل و صورت تک مختلف ارتقائی مراحل(Evolutionary Stages) سے گزر کر پہنچا ہے نیز انسان، مذہبی تصور کے برخلاف ،بندر کی اعلیٰ ارتقائی صورت ہے۔

ظاہر ہے کہ چارلس ڈارون(Charles Darwin) کا نظریہ ارتقاء (Theory of Evolutionary) کوئی ٹھوس سائنسی وتحقیقی حقائق پر مبنی نظریہ نہ تھا بلکہ محض مذہبی تھیوری تصور تخلیق انسان جس کے مطابق خدا نے انسان کو اپنے پر تو کے مطابق تخلیق کیا ہے۔

God has created man in his own image.

 کے خلاف تاریخٰ نفرت و عداوت کا اظہار تھا جس کا بیج خود عیسائی چرچ (Church) نے بویاتھا۔ اس طرح مغربی دنیا میں مذہبی اور سائنسی فکر کے مابین ہونے والا یہ تاریخی تصادم و ٹکراؤ مغربی معاشرے اور مذہب کے مکمل خاتمے پر منتج ہوا یہاں تک کہ سائنسی اصول و ضوابط (Scientific Rules & Regulations) بالاتفاق تمام روایتی و مذہبی نظریات کو پرکھنے کے لیے معیار ومیزان قرار پائے۔ نتیجۃً مذہب (عیسائیت) کے انسان، کائنات اور خدا سے متعلق مذہبی تصورات کو بہت بڑا دھچکا لگا حتی کہ مذہبی علماء کو دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے مذہب کی ایک نئی تعبیرو تشریح اس نعرہ سے کرنی پڑی۔

It’s a divine mystery, believe it , you will be saved.

تقابل ادیان و مذاہب کی اصولی بنیادیں ذکر کرنے سے پہلے ہم نے مذہب اورسائنس کے باہمی تاریخی پس منظرکوتمہید کے طور پر ذکرکرنا ضروری سمجھا ہے کیونکہ جب ہم مذہب کو دورجدید و قدیم کی تاریخ کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو تقابل ادیان ومذہب کے اصول و قوانین متعین کرنے کے سلسلہ میں انسانی طبیعت کے دوبنیادی عناصر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جن کی تائید و توثیق قرآن حکیم اس آیت کریمہ میں بھی کرتا ہے۔فرمایا

انہ کان ظلوما جھولا۔ بے شک انسان ظالم اور جاہل ہے۔(القرآن)

پیش نظر آیت کریمہ حق کو قبول کرنے کے متعلق انسانی طبیعت کے دو بنیادی یعنی ظلم (Unjust) اور جہالت (Ignorance) اور مختلف تاریخی ادوار میں ان کے اظہار کے متعلق تاریخی جامعیت و مانعیت کا درجہ رکھتی ہے۔

مذکورہ دو عناصر یا کمزوریاں نقائص انسانی روییے اس کی انتہائی خلقت (Creation) میں موروثی (Inherent) یا طبعی (Natural) ہیں۔جب انسان ان دونوں رویوں یا دونوں میں سے ایک روییے کے طبعی تقاضے ، جو کہ ظلم کی صورت میں عدل (Justice) اور جہالت کی صورت میں علم (Knowledge) ہے ۔ تشفی نہیں کرتا تو نتیجۃً اس کا مجموعی رویہ و طرز عمل حقیقی (Reality)سائنسی (Scientific) اپروچ اختیار کرنے کے بجائے جذباتیت (Emotionalism) ردعمل كی نفسیات پر قائم ہوجاتا ہے ۔مختلف افکار و نظریات اورادیان ومذاہب کے تقابل و موازنہ کے لیے ان دوطبعی تقاضوں کی آبیاری کرنا شروط اول حیثیت رکھتا ہے۔

ماقبل میں ذکر کیے گئے مذہب (عیسائیت) اورسائنس کے مابین واقع ہونے والا تاریخی تصادم و تعارض کا انتہائی سبب بھی دونوں طبقہ ہائے فکر میں فطرتاً موجود حیوانی یا بست عناصر Lower Yearning ہی ہیں جس کی وجہ سے ہر دو طبقہ فکر نے انصاف وا عتزال کے طریق کو ترک کرتے ہوئے ظلم و تشدد (injustice and violation) کے راستہ کو اپناکر دونوں اپنے آپ کو حق کی ابدی سعادتوں و برکتوں سے محروم رکھا۔

مذہبی طبقہ نے اپنی طویل سماجی و معاشرتی اجارہ داری کے تحفظ کے لیے جہالت کو اپنا ہتھیار بنایا اور علم کے حصول اورحق کی تلاش کو اپنے من پسند افکار ونظریات کے لیے واضح خطرہ تصورکیا۔ اس تاریخی حقیقت کو مشہور مورخ Marmaduke Picthall ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

Learning was for them a devils snare beloved for pagans.

جب کہ دوسری طرف سائنسی طبقہ فکر نے ظلم (unjust) کے طریق کو اختیار کرتے ہوئے کائنات کے سربستہ رازوں کی دریافت کے بجائے اپنی تمام تر تحقیقات کا سارا زور مذہبی (عیسوی) افکار وتصورات کو باطل ثابت کرنے پر لگادیا۔ڈارون کا نظریہ ارتقاء اس حوالے سے مثال کے طور پر پیش کیاجاچکا ہے۔

یوں دونوں طبقہ ہائے فکر نے باہم متصام و متعارض فکری شدت کو فروغ دینے میں بنیادی کردار اداکیا۔

موضوع کی طرف آتے ہوئے بیان کیاگیا تاریخی پس منظر اس بات پر شاہد ہے کہ تقابل افکار و نظریات اورادیان ومذاہب ایک نہایت کٹھن اور سخت مشکل کام ہے کیونکہ انسان بلاتحقیق و تنبیہ اکثر اوقات اپنی طبعی وفطری کمزوریوں کے باعث تعصب وتنگ نظری کا شکار ہوکر اپنے عقیدے اور رائے کو حق قراردیتا ہے اور اس کے برعکس افکار وآراء کو شعوری یا لاشعوری طور پر مبنی بر باطل تصور کرتاہے۔

راقم تقابل ادیان و مذاہب کی اہمیت اورمضمون کی دقت واضح ہونے پر اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اس شعبہ کے متبدی متعلمین کی راہنمائی کے لیے ایک مختصر کتابچہ تصنیف کرے لیکن نامساعد حالات کے پیش نظر اپنا تحقیقی کام مختصر مضمون کی صورت میں شائع کررہا ہے تاکہ اس کام کی طرف پہلا قدم ممکن ہوسکے۔اس سلسلے میں ہم تقابل ادیان کوچار بنیادی اصولوں کو مناسب اصطلاحات دے کر ذکر کریں گے تاکہ علمی و تحقیقی معیار پر پورااترسکیں۔

تقابل ادیان:

تعریف:مختلف ادیان و مذاہب کا باہمی تحقیق و تنقیدی جائزہ ، ان کے تصورات کا غیر متعصبانہ و غیر جانبدارانہ موازنہ اور ان کی تعلیمات کا عادلانہ ومنصفانہ مطالعہ و تحقیق تقابل ادیان کہلاتاہے۔

تقابل ادیان کے بنیادی اصول:

Truth an existing reality

حق ایک موجود حقیقت ہے

بلاشبہ کائنات کے نظام میں سنجیدہ غورو فکر ہمیں جس حقیقت کے تسلیم کرنے پر مجبور کرتا وہ یہ ہے کہ کائنات میں موجود ہر نظام اپنے مخصوص دائرہ کار میں خاص حکمت و منصوبہ بندی کے اصول کے تحت عمل کررہاہے۔ اور حکمت ومنصوبہ بندی کا یہ اصول ناقابل یقین حد تک اس تمام ترنظام کائنات میں حیرت انگیز اعتدال وتوازن قائم کیے ہوئے ہیں حتی کہ اگر ایک لمحہ بھر کے لئے یہ توازن واعتدال بگڑجائے تو یقینی طور پر یہ سارا آفاقی نظام چند لمحوں کے اندر تباہ (Crash) ہوجائے گا۔ منصوبہ بندی و حکمت کائنات کے آفاقی نظام اعتدال و توازن کا ایک خالق (Creator) اورمربی ہے جو اس پورے آفاقی انتظام وانصرام کا چلانے والاہے۔ اورجب یہ ظاہر ہوا کہ کائنات کے پورے آفاقی نظام میں خدائی حکمت و منصوبہ بندی Divine Design and plan programme کا اصول کارفرماہے تو پھر انسان کے متعلق خدائی منصوبہ Divine plan كيا ہے؟

 اس سوال کا جواب ہمیں مختلف مذہبی کتب میں ملتا ہے جن کا دعویٰ ہے انسان کے متعلق خدائی منصوبہ Divine plan ان میں موجود ہے۔ یہ وہ نقطہ آغاز ہے جو حق یعنی انسان کے متعلق خدائی منصوبہ Divine plan کے ہمیشہ موجود ہونے پر مختلف دلائل پر شواہد مہیا کرتاہے۔ اورانسان اس کی تلاش و جستجو انسان پر لازم کرتاہے۔یہ حقیقت تقابل ادیان ومذاہب کا پہلا اصول ہے۔

حق ایک وحدت

Truth an .. reality

نظام کائنات میں غوروتدبر کرنے سے جو دوسرا نقطہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے حق ہمشیہ ایک وحدت رہا ہے کیونکہ ایک وقت میں کوئی چیز مختلف مادی خصوصیات (Physical Properties) کی حامل نہیں ہوسکتی۔ مثال کے طور پر اگر تین مختلف اشخاص ایک وقت میں یہ دعویٰ کریں کہ کسی خاص چیز کا رنگ ہر ایک کے مطابق بالترتیب سفید،سیاہ اورسرخ ہے تو اس چیز کے متعلق تینوں اشخاص طرز عمل بھی مختلف ہوگا جو کہ بیان کئے گئے اصول کی روشنی میں غلط ہوگا۔ اسی لیے امام فخرالدین رازی ؒ نے فرمایا الحق لایکون الا واحدا وماعداہ یکون جھلا و ضلالا۔ بالکل اسی طرح انسان کے بارے میں ان کی ابدی منصوبہ بندی ) یعنی حق ہمیشہ ایک ہوگا اس میں وحدت (Unity) ہوگی کہ دوہست (Duality)

اس طرح وحدت حق تقابل ادیان و مذاہب کا دوسرا بنیادی اصول بن کر سامنے آتاہے کہ انسان اپنے نظریات وافکار کا ۔۔تحقیقی وتنقیدی جائزہ لے کر اپنی ابدی فلاح و کامیابی کے لیے اپنادوسروں کے لیے اس کی حق و صداقت کو روش واضح کرے۔

Truth a universal reality.

حق ایک آفاقی حقیقت:

حق (انسان کے متعلق خدائی منصوبہ) ایک آفاقی حقیقت (۱) یہ کسی قوم کسی قبیلے یا کسی خاندان کے ساتھ نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر وآفاقی قدر ہے۔ مذہب انسانی تاریخ میں ہر نئی تہذیب وثقافت کے ہر مرحلہ پر ایک ہم جس ثقافتی ۔۔کے طور پر شمارکیاگیا ہے۔ اس تاریخی حقیقت کو مغرب کے مایہ ناز مورخ آرنلڈ ۔۔بی نے ان الفاظ میں بیان کیا۔

مذہب انسانی تاریخ کے درمیان کھڑا نظرآتاہے۔ قرآن حکیم نے بھی اس تاریخی حقیقت یہ سورہ رعد مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ (لکل قوم ھاد) (الرعد :۷) خالق کائنات نے ہر قوم کے باعث حق کا تشخص باقی نہ رہا۔لہذا یہ کہنا کہ حق صرف اورصرف ایک مذہب میں مقید ہے بالکل غلط ہوگا کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حق و صداقت کی روشنی کم وبیش ہر جگہ اورہر زمانہ میں موجود تھی جس کا اظہار مختلف تاریخی ادوار میں ہوتا رہا ہے۔ البتہ جب مختلف ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ اورتحقیقی وتنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا مقصد ومطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ حق جو ایک آفاقی حقیقت کے مظہر کو مکمل تحقیق و تنقید کے مرحلے سے قبل یہ فرض نہ کرلینا چاہئے کہ اس کا کا اختیار کردہ مذہب حق کا مظہر اتم ہے اور اس کے برعکس باقی تمام مذاہب حق کی روشنی سے خالی ہیں بلکہ اسے یہ تصور کرنا چاہئے کہ حق باطل باہم خلط ملط (inter) ہیں اس کا کام حق کی روشنی کو باطل کی تاریکی سے علیحدہ کرنا اور دونوں کو خلط ملط ہونے سے بچاناہے۔

حق ایک کلی حقیقت ہے

Truth a total reality

حق (خالق کائنات کا انسان کے متعلق ابدی منصوبہ) اپنے وجود کے اعتبار سے ایک کلی حقیقت ہے ۔ہر دور میں اس کلی حقیقت کا منبع و سرچشمہ و حدت حق کے اصول کے مطابق واحد رہا ہے۔ حق کی اس کلی حقیقت کا زمان و مکان کی تبدیلی کی بناء پر انکار نہیں کیاجاسکتا۔ حق کے پیروکار جہاں کہیں بھی ہوں وہ اس کلی حقیقت کے جزء کے طورپر شمار کئے جائیں گے۔ اس لئے تقابل ادیان ومذاہب کے متعلم کو اس بات کابطورخاص خیال رکھنا چاہئے کہ حال و مثال کی تبدیلی سے حق کی اصلیت و حقیقت نہیں بدلتی۔ جو حق آپ کے اختیار کردہ مذہب میں موجود ہے وہی حق دوسری جگہ بھی موجود ہوسکتا ہے۔ اورحق کا ایک سے زیادہ جگہ پایاجانا ان دونوں مذاہب میں کسی ایک مذہب کے نقص کی دلیل نہیں بلکہ دراصل یہ تو اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں مذاہب وحدت حق کے اصول کے تحت ایک مشترک سرچشمہ حق کے ماخوذ ہیں۔

اکثر اوقات دیکھا گیاہے کہ جب ایک مذہب کے پیروکاراپنے مذہب کو دوسرے مذہب کے بالمقابل تقابلی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو وہ جہالت ، ظلم اور تعصب کا شکار ہو کر اپنے مذہب کے روشن پہلوؤں کا جب کہ دوسرے مذہب کے تاریک پہلوؤں کا باہم موازنہ کرکے اپنے مذہب کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل تقابل ادیان کے طلباء کے شایان شان نہیں لہذا اسے چاہئے کہ اپنی تحقیق و تنقید کو احقاق حق اورابطال باطل کے مقصد کے لیے استعمال کرے۔ اس کے علاوہ ابتدائی تحقیق کے دوران اس بات کا بطور خاص اہتمام کرناچاہئے کہ مخالف مذہب کے مخالفین اورمتبعین دونوں کی تصنیفات کے مطالعہ سے گریز کیاجائے اورحتی الامکان اس مذہب کے ماخذ اصلیہ کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ لے کر کسی رائے یا نتیجہ تک پہنچا جائے۔

آخر میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجاء ہے کہ وہ ذات حق ہمیں احقاق حق اورابطال باطل کا مقدس فریضہ عمدگی کے ساتھ انجام دینے کی ہمت وتوفیق عطافرمائے۔ان ناقص سطور کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہوئے راقم کے والدین کے لیے ابدی صدقہ جاریہ بنائے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علی النبی الامی وعلی آلہ واصحابہ اجمعین الی یوم الدین

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post