مساوات سے کیا مراد ہے دین اسلام میں مساوات کی اہمیت کو بیان فرمائیں؟

مساوات کا معنی یکساں اور برابری کے ہیں بالخصوص حقوق، مراتب اور مواقع میں یکساں ہونا۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہر فرد کو برابری کی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع میسر ہونے چاہئیں،اور سب وسائل تک برابر رسائی حاصل ہو۔ بحیثت انسان اسلام کی نظر میں مساوی عزت و اکرام تمام اولادآدم (علیہ السلام) کے لیے ۔تمام انسان برابر ہیں، سبھی عزت واحترام کے مساوی حقدار ہیں۔ انسان کو تمام مخلوقات میں برتر بناکر خود اللہ نے عزت کا مقام بخشا ہے۔ اور انسانوں میں عزت و تکریم صرف ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے:

" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚإِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ"(سورۃ الحجرات۔49:13)

اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں کنبوں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا، اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، ، اللہ تعالٰی کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ تعالی دانا اور باخبر ہے۔

مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:

اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہی ہے اور تمہارا باپ ایک ہی ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصِل نہیں، فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔

 اسلام میں معاشرتی سطح پر مساوات کے متعلق کیا احکامات ملتے ہیں؟

اسلام معاشرے کی تمام اکائیوں کو مساوات کا حق دیتا ہے ۔اور اس امر کا اعلان حضور اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر کیا تھا۔ جہاں انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمہ کا تاریخی اعلان کیا گیا۔

اسلامی معاشرے میں  توحید و رسالت کا اقرار کرنے والا خواہ کسی بھی مُلک و زَبان، نسل ، صنف  سے تعلّق رکھتا ہو اسے بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح برابر کے معاشرتی حقوق حاصل ہوں گے۔ اسلام دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ ساتھ آخِرت میں بھی دَرَجات کی بلندی، فلاح و کامیابی اور قُربِِ اِلٰہی کے حصول کو کسی جنس یا طبقے سے خاص نہیں کرتا بلکہ مساوات کے اصول کے مطابق مرد اور عورت، حاکم و محکوم، بادشاہ و رعایا سب کے لئے عام قرار دیتا ہے۔ ہر مسلمان اعمال میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت بجالاکر دوسروں سے بڑھ کرقربِ خدا حاصل کرسکتاہے۔

 فرمانِ باری تعالیٰ  ہے: (وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا(النساء:۱۲۴)

اور جو کچھ بھلے کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو وہ جنت میں داخل کئے جائیں گے اور انہیں تِل بھر نقصان نہ دیا جائے گا۔

 خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے جو درس مساوات دیا اس پر روشنی ڈالیں؟

خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ نے مساوات اورانسانی حقوق سے ایک ایسا منشور عطا کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس قدر متوازن اور قابل عمل جہاں معاشرے کے ہر فرد کودنیا و آخرت کے حصول کے لئے مساویانہ مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔خطبہ حجۃ الوداع سے  متعلق چند ارشادات نبوی ﷺ:

1.     خبردار!ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ومحترم ہے۔

2.     اور ہر مومن دوسرے مومن پر حرام ومحترم ہے۔جس طرح آج کے دن کی حرمت ہے:

3.     اس کا جان اس پر حرام ہے۔

4.     اور اس کی عزت وآبرو اس پر حرام ہے۔

5.     اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر تمانچے لگائے جائیں۔

6.      ایذا رسانی حرام ہے کہ اسے تکلیف پہنچائی جائے۔

7.     ڈرانا دھمکانا حرام ہے ۔

8.     کسی مسلان کے لئے مال مسلم جائز نہیں سوائے جووہ اپنی خوشی سے دے۔

9.     حضور اکرم ﷺ کا فرمان :"کیا میں تمہیں بتاوٴں کہ مسلمان درحقیقت ہے کون؟"

مسلمان وہی ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھے۔ اور مومن درحقیقت وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان ومال امن وعافیت میں رہے۔

معاشرے میں مساوات کے فوائد و ثمرات 

معاشرے میں مساوات کے فوائد و ثمرات اس ہی وقت نظر آسکتے ہیں جب مساوات قائم کی جائے گی۔درحقیقت مساوات انسانی کے اصول ہی اسلام اور انسانیت کی بنیادہیں جن پر حضور اکرم ﷺ نے عادلانہ انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی۔حضور اکرم ﷺ نے تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی طرح یکساں قرار دیا ہے۔ رنگ ونسل ،عمر ،قومیت مال و دولت،  جاہ و اقتدار اورصنفی امتیاز  کی بناء پر انسانوں کو ایک دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔جس معاشرے میں مساوات قائم کی جائے گی  وہ معاشرہ عدل وانصاف کا گہوارہ اورپرامن معاشرہ ہوگا۔

صدافسوس! کہ اسلام میں مساوات کی تعلیم دی گئی ہے مگر اس کے باوجودآج مسلم معاشرہ اسلام کی تعلیم مساوات کا مظہر نہیں ہے۔  اس لئے مساوات کے ثمرات سے ہمارا معاشرہ محروم اور ظلم و جبر سے معمور نظرآتاہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post