اخوت و بھائی چارگی سے کیا مراد ہے؟ اور دین اسلام نے اس کی اہمیت کو کیسے بیان کیا ہے؟

لفظ اخوّت '' اخ'' سے مشتق ہے،  اس کے معنی بھائی کے ہیں اور اخوّت کے معنی بھائی چارے کے ہیں۔ اخوّتِ اسلامی سے مراد امتِ مسلمہ کے افراد کا باہمی بھائی چارہ ہے۔یعنی عالم کے تمام مسلمانوں کا وہ باہمی تعلق جس کی بنیاد للہیت، محبت اور خیر خواہی پرقائم ہو۔ قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے:

’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔‘‘ (الحجرات:۱۰ )

’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘

نبی اکرم ﷺ نے اخوتِ اسلامیہ اور اُس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا:

الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسلِمِ، لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ، وَلَا یَحْقِرُہٗ۔ اَلتَّقْوٰی ھَاہُنَا وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ  بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ  الْمُسلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُہٗ، وَمَالُہٗ، وَعِرْضُہٗ۔(صحیح مسلم، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ)

’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپ ﷺ  نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘

گویا کہ اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے، یعنی سب کا ایک رب، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ہے جو کہ دینِ اسلام ہے۔  

باہمی اخوت اور بھائی چارے کوفروغ دینے کے لئے کن اقدار اوررویوں کا اختیار کرنا ضروری ہے؟

اُمت مسلمہ میں باہمی اُخوتِ اور بھائی چارے کوفروغ دینے کے لیے تقویٰ ،محبت،وحدت اور خیر خواہی وغیرہ  جیسی صفات لازمی ہیں۔

پہلی صفت تقویٰ ہے: ایمان و تقویٰ ہی فضیلت کی بنیاد ہے اور رنگ و نسل اور قوم و قبیلہ کا کوئی  اعتبار نہیں۔ قوم و قبیلے صرف تعارف اور جان پہچان کے لیے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (الحجرات: ۱۳)

اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف شاخیں اور مختلف قبیلے بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اُس کے نزدیک تو تم میں سب سے بڑا عزت والا وہ ہے جو تم سب میں بڑا پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کو جانتا ہے اور سب کے حال سے باخبر ہے۔

ایک اوراہم صفت محبت ہے  جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی نعمت شمار ہوتی ہیں۔ قرآن مجید نے اس صفت کو بطور نعمت ذکر فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْکُنْتُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ إِخْوَانًا۔   (آلِ عمران: ۱۰۳)

اور اس کے اس احسان کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا ہے جب کہ تم آپس میں ایک دُوسرے کے سخت دُشمن تھے، پھر اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی، تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔

ایک اہم صفت خیرخواہی ہے۔یعنی ایک مسلمان دُوسرے مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہو، جو بھلائی وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے، وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرے اور جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، وہ اپنے بھائی کے لیے بھی ناپسند کرے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’لایؤمن أحدُکم حتی یحب لأخیہ مایحب لنفسہٖ۔‘‘ (صحیح البخاری)

تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

ایک صفت وحدت ہے ۔نبی کریم ﷺ نے ایمان والوں کے آپس کے تعلقات اور اُخوت و محبت کو ایک جسم کے مختلف اعضاء سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

مثل المؤمنین فی توادھم و تراحمہم و تعاطفہم کمثل الجسد إذا اشتکی عضوا تداعی لہٗ سائر جسدہٖ بالسہر والحمٰی۔ (صحیح البخاری، ،باب رحمۃ الناس والبہائم )

ایمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور شفقت کی مثال ایک انسانی جسم جیسی ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورا جسم متأثر ہوتا ہے، پورا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

مواخات مدینہ سے ہمیں کیا سبق ملتاہے؟

تاریخ کے سیاہ ترین دور، سخت ترین وقت میں حضوراکرم ﷺ کاخلوص،للہیت،بے غرضی   پر  قائم کیاگیا مواخات کا عملی قدم بہت کامیاب رہا۔ انصار و مہاجرین کے اس قریبی تعلق و باہمی اخوت اور محبت اور تعاون سے ایک نئی تہذیب اور نیا تمدن وجود میں آیا، وہ تہذیب و تمدن جس کی بنیاد اسلامی عقائد، اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ پر تھی ۔ یہ ایمان کی قوت اور جذبہ عمل ہی تھا جس نے انصار کے دلوں میں اپنے مہاجرین بھائیوں کے لیے بے پناہ قربانیوں کا جذبہ پیدا کیا۔

اس مواخات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انتشار ،تفریق،تعصب اورتفاخر کسی بھی بہترین قوم کو بھی ذلت و رسوائی کے عمیق گڑھے میں گرادیتی ہے ۔

افسوس صد افسوس آج بھی امت مسلمہ ان ہی ناپسندیدہ امورمیں مبتلا ہوکر مشکلات ومصائب کا شکار  ہے۔ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے اور مواخات کے ادارے کا احیاء کرنا چاہیے۔ رسول اللہﷺ کا اسوہ حسنہ ہر دور اور ہر زمانہ میں واجب العمل  اور نجات و کامیابی ضامن ہے۔


 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post