والد محترم ڈاکٹر حافظ محمد رمضان علیہ الرحمہ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے؛
والد محترم کی سوانح حیات کا مختصر خاکہ کچھ یوں ہے۔ آپ کا نام" محمد رمضان "تھا۔ جب کہ شاعری میں آپ اپنا تخلص "سہیل" یا "علی" کے نام سے فرماتے تھے۔
آپ 10 نومبر 1937 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تمام عمر انتہائی دکھ ،پریشانی،تنگی،بیماری عسرت،صعوبت، مشقت اور بہت سی تکالیف میں گزری۔ ابھی آپ محض دو ڈھائی برس ہی کے ہوں گے کہ آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ پھرصغر سنی ہی میں ایک حادثہ کے نتیجے میں آپ کی دائیں آنکھ ضائع ہوگئی۔ جس سے آپ کی مشکلات اورپریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔اس پر مستزاد جوانی ہی میں آپ امراض شدیدہ کا شکار ہوگئے جو کسی نہ کسی شکل و صورت میں عمر بھرآپ کے لئے تکالیف کا سبب بنتے رہے۔حتی کہ آپ کے معالج حضرات جب آپ کی بیماری نہ سمجھ سکے تو وہ  اور دیگر عزیز و اقارب آپ  کے علاج  بلکہ زندگی سے ہی مایوس ہوگئے ۔بلکہ بعض اطبا و ڈاکٹرز نے تو برملا کہہ دیا کہ مرض لاعلاج ہے ،علاج کی سعی بے کار ہے، اس سبب مزید زندگی دشوارہے۔  لیکن والد محترم میں جینے کی لگن تھی ۔آپ ڈاکٹروں کے مایوس کن کلمات کے باوجود رب العزت کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوئےاور اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں  ماانزل اللہ داءالا انزل لہ شفاء " (الصحیح البخاری)اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی جس کی شفاء نہ نازل کی ہو۔آپ  علاج کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔ آپ نے خود علم العلاج (ہومیوپیتھی اورطب) کا مطالعہ کیا اورایک ہومیوپیتھ بن کراپنا علاج کیا ۔ جس سے آپ بہت حد تک بہتر ہوگئے۔ اور دوبارہ تقریبا صحتمند ہوگئے۔ اور صحتمندی کی تعریف آپ(والد مرحوم) کے نزدیک "ہر وہ شخص صحت مند قرار پائے گا جو اپنی روزمرہ زندگی کے فرائض و معمولات باحسن طریق انجام دے سکتا ہے"۔ کیونکہ یوں تو آج کے دور میں ہر شخص کسی نہ کسی طور پر کسی نہ کسی عارضہ کا شکار ہے۔"یوں اپنے اس قول کے بموجب آپ مکمل صحت مند ہوگئے۔ اس طرح آپ نے ڈاکٹروں کے مایوس کن کلمات کو جھٹلایا ۔موت وحیات کی  اس کشمکش کے انمٹ نقوش آپ  کی بقیہ زندگی پر مرتب ہوئے۔ اس سے آپ کا ایمان مزید پختہ ہوگیا کہ زندگی اور موت رب کے قبضہ قدرت میں ہے۔دنیاوی قوتوں ،طاقتوں سے ڈرنے ،اس فانی دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے اور عارضی و سستی شہرت کے  پیچھے بھاگنے کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔
جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا کہ آپ تمام عمر بیماریوں کا شکاراوران سے نبردآزما رہے ان تمام مصائب و شدائد کے باوجود آپ ہمیشہ پرسکون ، باوقار،اوردلجمعی سے اپنے فرائض منصبی بصورت تدریس و دیگر انجام دیتے رہے۔آپ خود فرماتے تھے کہ  شدیدبیماری کی وجہ سے میرے دل میں اکثر چھٹی کرنے کی خواہش  پیدا ہوتی لیکن پھرمیں  اسے کل پر ٹال دیتا اس طرح سالہا سال گزرجاتے لیکن وہ کل نہ آتی اور آپ کا ریکارڈ سوفیصد رہتا۔یوں آپ مکمل صحتمند افراد سے بھی زیادہ اچھے ریکارڈ (کارکردگی اور حاضری) کے حامل تھے۔
اس مثال سے ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ والد محترم اپنی خواہشات پر قابو پاچکے تھے۔ آپ کسی بھی طور ان مشاغل میں مصروف نہیں ہوتے  جن کا  کا کوئی منفعت  بخش وتعمیری  پہلو نہ ہوتااور محض تسکینِ نفس کی خاطر ہوتی ۔خواہ ان اعمال کا تعلق زیب و زینت سے ہو، شہرت سے ہو یا پھر تفریح سے ہو۔ آپ اس کام پر غور فرماتے اوراگر آپ کو اس عمل میں کوئی تعمیری  فائدہ محسوس ہوتاتو آپ اسے ادا کرتے ورنہ کسی معاشرتی یا خانگی دباؤ  کوخاطر میں نہ لاتے۔بالفاظ دیگر آپ کسی بھی کام کا عزم اپنی فکر و سوچ کے نتیجے میں کرتے تھے اور لوگ کیا کہیں گے ؟ اس سے بے نیازرہتے تھے۔
اللہ رب العزت نے آپ کو بہت ہی بہترین ذہن عطا فرمایا تھا۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتہائی نامساعد حالات ،شدید بیماری اور معاشی تنگی کے باوجود والد محترم نے نہ صرف حافظ قرآن وعالم دین بننے کی سعادت حاصل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے  ایم اے اسلامیات،فاضل (عربی، فارسی، اردو)، ڈی ایچ ایم ایس، اور طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔
آپ خود فرماتے ہیں کہ انگریزی ،اورحساب میں میرا باقاعدہ کوئی استاد نہیں ۔ بلکہ میں نے ایک ایک لفظ ڈکشنری اورکتابوں کی مدد سے پڑھا اور ایسا پڑھا کہ میٹرک کے طلباء کو انگریزی و ریاضی کی ٹیوشن دی۔ریاضی و الجبرا کے بڑے  بڑے سوالات آپ زبانی حل کرلیتے۔ بلکہ یہ تو ہمارا مشاہدہ ہے کہ فارغ اوقات میں قران مجید کی تلاوت کرتے یا پھر ریاضی و الجبرے کے سوالات  حل کرتے رہتے۔
جہاں تک آپ کی تدرس کا تعلق ہے تو آپ نے  صرف روایتی انداز سے تدریس نہیں کی۔ آپ کو درس و تدریس سے گہرا شغف تھا۔آپ کو اگر Born Teacher کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ بچے کی ذہنی سطح پر اتر کر اسے انتہائی محبت ،جانفشانی اور وضاحت سے سمجھایا کرتے ۔ اور اس سلسلے میں آپ تماثیل، حکایات، قصص اور دیگر تمام معاون اشیاء،اظہاریات وغیرہ سے اپنی درس وتدریس کو انتہائی دلچسپ اور موثر بناتے ۔ 
اس کے علاوہ آپ کا ذاتی مطالعہ بہت اچھا تھا۔ آپ نے مختلف لائبریریاں کھنگال ڈالیں اورفلسفہ، نفسیات، علم النجوم،پامسٹری ، سیاست پر بہت گہرا مطالعہ کیا۔ ملکی سیاسی صورتحال پر بڑی دور رس نگاہ کے حامل تھے۔آپ سے مکالمہ کرنے والے اکثر آپ کو صائب الرائے قراردیتے۔
آپ عموما گفتگو میں مناظرہ کے انداز سے احتراز کرتے ۔آپ خود فرماتے ہیں کہ اگر کسی سے مجھے 99 اختلاف ہوں اور صرف ایک بات پر اتفاق پایاجاتا ہو تو میں اپنی گفتگوکا آغاز نقطہ اتفاق سے کروں گا۔آپ مسلکی، گروہی اورنسلی تعصبات سے یکسر پاک تھے۔ہر ایک کی رائے کا احترام کرتے۔
اسی ضمن میں  آپ نے اپنا ایک واقعہ سنایاتھا کہ ایک دفعہ لڑکپن میں ایک بڑی عمر کے شخص سے کسی بات پر اختلاف تھا۔ آپ اپنی بات دلیل سے کررہے تھے۔ بزرگ نے بات کرتے کرتے سات آٹھ نکات ایک ہی ساتھ بیان کئے تو والد صاحب نے انہیں درمیان میں رکنے کا کہا اور کہا مجھے بھی دلائل دینے دیں۔ بزرگ نے کہا پہلے میرے تمام نکات سنو اور ایک ساتھ ان کے جواب دینا۔ والد محترم نے عرض کیا کہ قبلہ یوں تو میرے نکات میرے ذہن سے نکل جائیں گے۔ بزرگ نے فوراً کہا تو پھر مناظرہ کیوں کررہے ہو۔ پہلے اپنا ظرف بڑا کرو۔ والد محترم فرماتے ہیں کہ اس دن کے بعد ایک میں نے اپنی سماعت کو مضبوط کیا کہ اگر کوئی آٹھ دس نکات بھی بیان کرے تو میں ان تمام کے جوابات مع الدلائل ایک ساتھ دے سکوں۔ دوسرا جو زیادہ بڑی تبدیلی مجھ میں رونما ہوئی میں نے دلائل ہونے کے باوجود دوسروں سے مناظرانہ روش چھوڑ دی۔ اپنی بات دلائل  کے ذریعے  ذہن میں اتارنے کے بجائے میں نے شیریں لہجہ اور نرم گفتار کے ساتھ اس کے دل میں اتارنے کی کوشش کرنے لگا اور اس میں مجھے پہلے سے زیادہ کامیابی ملی۔
آپ اولوالعزمی ،ثابت قدمی، جرات مندی و بہادری   کا عملی نمونہ تھے۔ ایک بار آپ کی ٹانگ دو تین مقام سے ٹوٹ گئی  اورآپ کے بدن سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا۔ اس کے باوجود آپ نے انتہائی خاموشی اورصبر سے کام لیا اور اس شکستہ ٹانگ کے علاج میں مصروف ہوگئے۔ یہ صورتحال ہمارے لئے انتہائی حیرت انگیز تھی جو ہلکی سی خراش آجانے پر آسمان سرپر اٹھالیتے ہیں۔ حالانکہ والد محترم اس واقعہ سے قبل اپنے بچپن کا ایک واقعہ ہمیں سناچکے تھے کہ  جب بچپن میں ان کاہاتھ ٹوٹ کر لٹک گیا تو آپ دوسرے ہاتھ سے اس ہاتھ کو تھامے اس حالت میں گھر تشریف لائے کہ زبان خاموش تھی اور چہرہ پر انتہائی کرب کی کیفیت تھی۔یہ واقعہ سنا تو تھا لیکن جب اس کا عملی نمونہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا  آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم چیخ چلا رہے تھے اورجو تکلیف میں مبتلا تھے وہ صبر و سکون سے دفع تکلیف میں مصروف تھے۔
آپ کی زندگی کا مقصد اسلام کی سربلندی تھا۔ جس کے لئے آپ نے درس وتدریس کے مقدس پیشہ کو اختیار کیا۔ آپ نے نصف صدی سے زائد عرصہ درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ آپ ایک بہترین استاد تھے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آپ پیدائشی معلم (Born Teacher)تھے تو اس میں بالکل بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ آپ کی ایک بہت بڑی خوبی طالب کے ذہنی معیار کے مطابق پڑھانا تھا۔ آپ کا تعلیم وتعلم سے شغف کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنی تمام تکالیف کو پس پشت ڈال کر اس عمل میں مصروف ہوجاتے۔ آپ سے پڑھنے والے طلباء اس  امر کی تصدیق کریں گے جب کبھی والد محترم کو گردوں میں درد ہوتا (جو بہت ہی شدید اور کرب ناک تھا) تو آپ انتہائی کرب وسختی کے عالم کے باوجود تدریس سے ناغہ نہ کرتے بلکہ کھڑے ہوکر ، ایک پہلو یا کبھی دوسرے پہلو جھکنے کے باوجود بھی تدریس جاری رکھتے۔
آپ کا شاعری کا ذوق بہت بلند تھا۔ آپ کوعربی فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار یاد تھے جنہیں آپ موقع محل کے مطابق پڑھا  کرتے تھے۔اللہ رب العزت نے آپ کو شعر گوئی کی صلاحیت سے بھی نوازا تھا۔  آپ نے اس عنایت خداوندی کا شکراداکرتے ہوئے اسے بامقصد انداز میں استعمال کیا۔ آپ نے جتنی بھی شاعری کی اس کا مقصدتحمید،تمحیدِ  (مدحت ِرسول ﷺ)، اصلاح  احوال اور حضور ﷺ کی احادیث مبارکہ کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر عام فہم اورآسان انداز میں عوام الناس کے لئے پیش کرنا تھا  جس کے ذریعے مسلمان قرآن و سنہ کی جانب رجو ع کریں اوران کی کردار سازی  ہوسکے۔
شعر گوئی کے ساتھ ساتھ آپ ایک اچھے  لیکن گمنام ادیب تھے۔آپ کی نثر بھی بہت بہترین تھی۔۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میٹرک و انٹر کے اردو کے پرچے کے لئے آپ نے مجھے شعرا و ادیبوں پر مضامین لکھ کر دیئے تھے جو بہت ہی شاندار عام فہم اور آسان زبان میں تھے۔ اسی طرح آپ جو مختلف احبا ب و اقارب کو خطوط لکھواتے ان سے بھی آپ کی بہترین نثرنگاری کی جھلک نظرآتی تھی۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اپنی نالائقی کے باعث ہم اس قلمی سرمایہ کو  سنبھال نہ سکے۔
آپ 2نومبر 2019 بمطابق 5 ربیع الاول 1441ھ  اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ اللہ رب العزت  آپ کے ساتھ عافیت کا معاملہ فرمائے، اگلی منزلیں آسان فرمائے، قبر مبارک پر اپنی رحمتیں برکتیں نازل فرمائے ،اسے ٹھنڈا،ہوادار،کشادہ،روشن،پرنور  اور جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنائے۔ انہیں حضور ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید الامین الکریم (ﷺ)

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post