برصغیر پاک وہند میں عموماً یہ سمجھا جاتاہے کہ سزا و جزا کا عمل  ہی بچوں میں اچھی عادات پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔یعنی بچوں کو کبھی  سزا کے خوف سے یا پھرجزا کا لالچ دے کر کردار سازی کے لئے ان سے مطلوبہ اہداف حاصل کئے جائیں۔ لیکن انسانی  نفسیات پر غوروخوض کیا جائےاور ماضی کی روایات و حکایات کو پیش نظر   رکھا جائے توحقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ صرف  سزا و جزا کے ذریعے بچوں میں اخلاق حسنہ پروان چڑھانا اور ان سے اخلاق حسنہ پر استقامت و ثابت قدمی کا مطالبہ کرنا  نہ صرف ناانصافی ہوگا بلکہ یہ استقلال وثابت قدمی کا مظاہرہ بغیر احساس ذمہ داری پیداکئے بغیر  کسی بھی طور پر ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ حیاتِ  دنیاوی میں جزا کے طور پرنہ تو جنت جیسی نعمت دی جاسکتی ہے جو نہ ختم ہونے والی نعمتوں،راحتوں،آسائشوں اور آرائشوں سے مزین  ہو۔جس سے نہ تو کوئی  کبھی  اکتائے گا  ،نہ بیزار ہوگا، اورنہ ہی اس کی دلچسپیاں اوررنگینیاں کم ہوں گی ۔اسی طرح نہ ہی سزا کے طور پر جہنم جیسا بدترین ٹھکانہ دے سکتے ہیں جو ابدا الآباد کے لئے ہو اور اس میں نہ ختم ہونے والے عذاب و عقاب جس عذاب کی کوئی انتہاء نہ ہو۔یوں سزا اور جزا کےبھنور اورگرداب  میں مربی ومعلم ایساالجھتاہے  کہ نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، ایسی مشکلات کا شکار ہوجاتاہے جوکبھی آساں نہیں ہوتیں،ایسے معمے میں پھنس جاتا جس کا  کبھی حل نہیں نکلتا۔  بقول احمد فراز
کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتی
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
بالخصوص سزاؤں کے سلسلے میں پہلا عیب یہ ہے کہ سزا دینے میں اصلاح احوال کے بجائے انتقام کا جذبہ کارفرما ہوسکتا ہے ۔اورجہاں انتقام ہوگا  یا کم از کم انتقام کا شائبہ ہوگا وہاں اصلاح  ہو ہی نہیں سکتی۔ دوسرا عیب یہ ہے کہ  اگر خالصتاً اصلاح ہی کے سبب ہو تودنیا میں جوسزائیں یا جزائیں دی جاسکتی ہیں  وہ  وقتی ، عارضی اور محدود ہونگی ۔ایسی صورت میں  جب سزا و جزا کا  عمل، اس کا احساس یا نفع و نقصان کا ڈر ختم ہوجائے گا  اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اخلاقہ حسنہ بھی لامحالہ مفقود ہوجائیں گے۔ یوں سزا و جزا مستقل مثبت تبدیلی، نظم وضبط واحساس ذمہ داری  پیدا کرنے میں موثر نہیں ہیں۔ یہ صرف پین کلر کا کام  کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ یعنی وقتی طور پر درد میں عارضی  ریلیف کا باعث ہیں جس کے وقتی فوائد کے ساتھ ساتھ بچے کی زندگی پر دور رس مضر اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے ۔  جیسا کہ پین کلر  ادویات کے بارے میں معالجین کی ہدایات ہیں کہ بعض اوقات وقتی شدیداذیت و  تکلیف سے نکلنے کے لئے ان کا استعمال کیا جاسکتاہے۔اوراسی حد تک ان کا استعمال کیا جانا چاہئے۔پھر ایک وقت آتاہے کہ نہ تو آپ کی سزا میں کوئی خوف رہتا ہے اور نہ ہی آپ کی طرف سے دی گئی جزا میں کوئی لالچ یا طمع بچتا ہے۔بالفاظ دیگر اس ہتھیار کو صرف ہنگامی بنیادوں پر ایمرجنسی کی صورت میں ہی استعمال کیاجاناچاہئے ۔مستقل بنیادوں پر اس کا استعمال خاطر خواہ نتائج نہیں دے گا۔ آپ جس قسم کی سزا و جزا کو آزمائیں گے وہ جلد غیر موثر ہوجائیں گی۔اگلی بار ان سے بدتر سزا یا  بہتر جزا  لانی پڑے گی  پھر وہ بھی غیر موثر ہوجائے گی۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ یہ عمل بچوں کے رویہ میں مستقل و دیر پا تبدیلی نہیں برپا کرے گا۔یہاں تک کہ سزا بڑھاتے بڑھاتے سزائے موت دے  کر اس شخص کو ختم کردیا جائے ۔ ڈیل کارنیگی  کا ایک قول ہے:" برے کو برا کہئے ،خواہ اسے پھانسی پر لٹکادیجئے اس کی اصلاح نہ ہوگی لیکن برے کو اچھا کہئے اور دیکھئے کیا ہوتا ہے۔"ممکن ہے اس کے بعد وہ واقعی  ان خوبیوں کوتلاش کرے اوراچھا  بننے کی کوشش کرے۔بقول والد محترم حافظ محمد رمضان صاحبؒ۔
تعریف میں جوان کی کریں آپ گفتگو
اوروں کی خوبیوں کی انہیں ہوگی جستجو
مستقل تبدیلی تعلیم و تربیت اور محبت سے ہی پیداکی جاسکتی ہے۔جس کے لئے  ضروری ہے کہ والدین مستقل صبر و بہترعادات کا عملی مظاہرہ  کریں۔مشاہدہ میں آتا ہے کہ والدین و اساتذہ بعض اوقات صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور وقتی اشتعال یا غصے کے باعث جذباتی انداز میں بیجا سختی  یا تشدد پر اترآتے ہیں، اسی طرح بعض اوقات محبت و پیار کے اظہار میں بھی جذباتی انداز سے بلا موقع محل لاڈ پیاراورناز نخرے اٹھاتے ہیں ۔یہ دونوں صورتیں ان کی طویل جدوجہد کے لئے بہت نقصان دہ  ثابت ہوتی ہیں۔تربیت کے مراحل میں آپ اپنی بیزاری ،ناگواری،مشکلات  وتکالیف کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمیشہ حکمت و مصلحت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھیں۔
یہاں راقم اس نکتہ  کی وضاحت ضروری سمجھتا ہے کہ مطلقاً سزا و جزا کی نفی نہیں کی جارہی ۔ سزا وجزا کابرمحل نفاذ تعلیم وتربیت میں مفید و معاون ہوسکتا ہے۔جیسا کہ بالا سطور میں پین کلر کی مثال دی گئی ہے۔بہرکیف سزا و جزاسے مدد بھی لی جاسکتی ہے  ۔لیکن سزا کے معاملے زیادہ احتیاط ضروری ہے جہاں اس کی اشد ضرورت ہو وہاں حکمت و مصلحت سے اس کے جواز کی صورت نکل سکتی ہے ۔اور سزا دیتے وقت مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے:
سزا دینے میں جلدی نہ کریں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر سزا نہ دیں ۔ سزا ایسی نہ ہو کہ بچہ کو شدید چوٹ آئے ۔ اورسزاکاعمل مستقل اور بار بار نہ ہو۔کسی نقصان یا ذاتی اور وقتی غصہ کی وجہ سے ہرگز سزا نہ دیں ۔ بچے کوواضح طور پر معلوم ہو کہ کس غلط کام کی اسے سزا ملی ہے ۔ والدین بچوں پر اپنارعب اور وقارضرور قائم رکھیں لیکن انہیں مستقل ڈراکر نہ رکھیں۔ وغیرہ۔کیونکہ زبردستی بالاکراہ کرائے گئے اعمال انسان میں Ethical Attitude پیدا نہیں کرسکتے بلکہ اس کا رویہ Disciplinary  ہوگا۔  جب کہ اللہ رب العزت نے انسان کو آزادی وخودمختاری دے کر بھیجا یعنی اس کا منشاء و مرضی یہ ہے کہ کہ آزادی دے کر انسان کی آزمائش کی جائے  کہ آزادی  کے باوجود کون شخص اس کے احکامات بجالاتا ہے اورکون سرکشی کرتا ہے۔
اب ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ Ethical Attitude اور Disciplinary Attitude میں کیا فرق ہے؟
Ethical Attitude :وہ رویہ جب  انسان بغیر کسی خوف ،ڈر،لالچ یا دباؤ کے کوئی فعل انجام دے۔ Ethical معاشرہ  قائم  کرنے کے لئے سختی ،زورزبردستی  سے کام نہیں لیاجاسکتا۔بلکہ معاشرہ میں احساس ذمہ داری پیدا کی جاتی ہے۔اگرکوئی  معاشرہ ان بنیادوں پر استوار ہوجائے تو پھر خواہ ان پر کوئی نگران ہو یا نہ ہو وہ کبھی بھی  اپنی اقدار کے خلاف عمل نہیں کریں گے۔ جب کہ اس کے برعکس Disciplinary Attitude ہے ۔جب کوئی شخص  ڈر ،خوف ،لالچ  دباؤ  یاانجام سے ڈرکر کسی امر پر مجبورہوجائے۔ایسا شخص جب موقع ملے گا تو اس ایکٹ کے خلاف کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے اندر احساس جرم نہیں ہوگا بلکہ ایک احساس تفاخر ہوگا۔ یعنی جب کبھی اسے موقع ملے گا وہ اس کی خلاف ورزی میں خوشی محسوس کرےگاکہ آج اس نے اس معاشرتی دباؤ ،جبر،آئین کہن کو شکست دی ہے۔یہ صرف اس وقت تک موثر ہے جب تک نظم قائم کرنے والا طاقت میں ہے۔ جہاں اس کی طاقت کمزور ہوگی وہیں اس ایکٹ کی خلاف ورزی کی جائے گی۔
نظم وضبط و احساس ذمہ داری پیداکرنے والے عوامل:
بچوں میں نظم وضبط اوراحساس ذمہ داری کسی ایک جادوئی نسخے یا عمل سے  پیدا نہیں ہو گی۔اس کے لئے موقع محل کی مناسبت سے  مختلف تراکیب آزمانی ہوں گی۔یہاں چند ایک امور پیش خدمت ہیں جو اس رویہ کے حصول میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔
1۔مضبوط تعلق و اظہار محبت:
اخلاق حسنہ ،عادات کریمہ ،احساس ذمہ داری ،نظم وضبط اوردیگرخصائل کے حصول کا بہترین طریقہ اولاد سے مضبوط تعلق پیدا  کرنے میں ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ تعلق  کسی بھی طرح سے دوسرے رشتوں اور تعلقات سے مختلف نہیں ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جتنا آپ کا تعلق مضبوط و بہتر ہوگا اسی قدر بچہ آپ کی بات کو سنے گا اور مثبت رد عمل دے گا۔ آپ اس کی مثال یوں فرض کرسکتے ہیں کہ آپ اپنے دوست سے جتنا اچھا ئی،ملنساری ، اخوت، محبت کا تعلق اپنائیں گے نتیجۃً دوسری جانب سے ویسا ہی مثبت ردعمل سامنے آئے گا ۔آپ دونوں کا باہمی تعلق مضبوط اور خوشگوار ہوگا۔الفاظ دیگراں  صرف محبت نہیں بلکہ اظہار محبت وہ بھی قرینہ اور سلیقہ سے ضروری ہے۔ایک حدیث مبارکہ ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ۔جب کوئی شخص اپنے بھائی سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔'' (سنن ابی داؤد:5124)
محبت کا اظہار ظاہری الفاظ(مقال) سے بھی بتایاجاسکتاہے لیکن فی الحقیقت احوال و قرائن سے جب یہ ثابت ہو تو یہ زیادہ بہتر اورموثرہوتاہے۔
2۔عملی مظاہرہ :
جو بات آپ اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں اس کا مستقل تذکرہ ،وعظ،پند ونصائح یا پھر احکامات جاری کرنے کے بجائے ان کے سامنے وہ کرداراپنائیں۔ مثلاً آپ اپنے بچوں کو مطالعہ کا عادی بنانا چاہتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ بھی ان کے سامنے کتب بینی کریں۔ جب وہ عملی طور پر آپ کو ایسا کرتے دیکھیں گے وہ بھی آپ کے سامنے کتب لے کر بیٹھیں گے۔
3۔ مطلوبہ اہداف کا واضح اورممکن الحصول ہونا:
اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین مبہم ،غیر واضح انداز میں بچوں کو احکامات جاری کرتے ہیں جو کہ ان کی سطح کے مطابق تو درست ہوتا ہے لیکن بچے کی ذہنی سطح کے مطابق وہ انتہائی مبہم اور غیر واضح ہوتا ہے یا اس کام کی مکمل تفصیل سے بچوں کو آگاہ نہیں کیاجاتا مثلاً یہ چیز یہاں سے اٹھالو؟یہ ایک غیر واضح اور مبہم حکم ہے کہ اب اس چیز کو کہاں لے جانا ہے اور اس کا  مزید کیا کرنا ہے۔اس کی بھی وضاحت ضروری ہے۔ پھر جب بچہ غیر واضح حکم کی تعمیل کے لئے اس کام کو کرنے جاتا ہے تو اس سے غلطیاں ہوتی ہیں جو والدین کو مزید برانگیختہ کردیتی ہیں ۔ جب وہ برہمی کا اظہار کرتے ہیں تو بچہ خود کو ناکام تصور کرنے لگتا ہے۔اس میں احساس ندامت و شکست پیدا ہوجاتاہے کہ شاید میں کچھ کرنے کا بھی اہل نہیں ۔ یوں وہ ذہنی طور پر شکست خوردہ شخص کی مانند ہوجاتا ہے جو  میدان میں اترنے  سے قبل ہی بازی ر ہارچکا ہوتاہے۔
4۔اہداف کے تعاقب میں شیڈول  کی تیاری میں معاونت:
ان کی مدد کریں کہ وہ کس طرح  شیڈول بناسکتے ہیں۔وہ آپ کے مقرر کردہ اہداف کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ان اہداف کو چھوٹے چھوٹے یونٹ (ٹکڑیوں) میں بانٹ دیں۔ایسا کرتے ہوئے کوشش کریں کہ آپ بچے کے لئے جو روڈ میپ تشکیل دے رہے ہیں۔ بچہ اسے صرف آمرانہ حکم  نہ سمجھے بلکہ اسے محسوس ہو کہ یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔کیونکہ بچوں کو محض احکامات جاری کرنے کے بجائے ان کے سامنے چوائس رکھی جائے جس میں بہتر انداز سے کچھ بہتر چیزیں منتخب کرنے میں ان کی مدد کی جائے ۔ جب وہ اسے خود اختیار کریں گے اپناانتخاب سمجھ کر اس کے لئے دل و جان سے محنت کریں گے ۔ نتیجۃ انہیں کامیابی ملے گی۔
یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ بچے کی زندگی کے ابتدائی  سات سال تک انتخاب کا اختیار نہ بچے کی طلب ہوتی ہے نہ اس کی ضرورت۔ اس کی ضرورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچہ عمر  بڑھنے کے ساتھ ساتھ اچھائی وبرائی میں امتیازکرنے کے قابل ہوجاتا  ہے۔
5۔محبت و نرمی:
بچے کلی اور پھول کی مانند نرم و نازک ہوتے ہیں ۔ ان سے نرمی ،محبت اورشفقت کا رویہ اپنائیں کیونکہ محبت فاتح عالم ہے۔ پیار و محبت ان کا حق ہے اور اس کے ذریعے ان کے قلوب فتح کئے جائیں۔اردو میں ایک محاورہ ہے "زباں شیریں ملک گیریں"۔ اسی قول کو ایک شاعر نے کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے:
؎ کم نہیں ملک کی تسخیر سے تسخیر قلوب
کوئی مانے یا نہ مانے لگاؤ،انسیت، محبت، احترام دینا یہ سب وہ عوامل ہیں جو بچہ کے اندر اچھی صفات پیدا کرنے میں بہت معاون ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف کسی بھی انداز و قسم کے ذہنی  یا جسمانی ٹارچر،ہر وقت ان کی مذمت کرنا وقتی طور پر مربی و معلم کو سکون تو مہیا کرسکتا ہے لیکن یہ یاد رہے یہ  سکون   وہ ہے جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔اورجب خاموشی کا دورانیہ گزرجائے گا تو طاقت و جوانی کا طوفان برپا ہوگا  اوروہ بچہ باغی ہوجائے گا۔لہذا نرمی اورمحبت ہی کو اپنی عادت بنانا چاہئے۔ اسی نرمی کو اللہ رب العزت نے سورہ آل عمران میں  اپنی رحمت قراردیا  ہے۔فرمان الٰہی ہے:
فَبِمَا رَحْـمَةٍ مِّنَ اللّـٰهِ لِنْتَ لَـهُـمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ (آل عمران: 159)
"پھر اللہ کی رحمت کے سبب سے آپ (ﷺ)ان کے لیے نرم ہیں ، اور اگرآپ (ﷺ) تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ (ﷺ) کے گرد سے دورہوجاتے۔"
حضور ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ: فإن الرفق لم يكن في شيء قط إلا زانه، ولا نزع من شيء قط إلا شانه  ’’ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے، اسے زینت دیتی ہے اور جس چیز سے  یہ نکل جاتی ہے، اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ (سنن ابی داؤد:4808)
نرمی اور محبت کی اہمیت پر مختصر حکایات
حکایات میں ملتا ہے کہ جب ایک شخص نے  حجاج بن یوسف کو سخت انداز میں تنبیہ کی تو حجاج نے جوابا کہا کہ تو موسیٰ(علیہ السلام) سے بہتر نہیں اور میں فرعون سے بدتر نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تھا تو ان کو نرمی کی حکم دیا ۔"فَقُوْلَا لَـهٝ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّـعَلَّـهٝ يَتَذَكَّـرُ اَوْ يَخْشٰى (طہ: 44)پس اس(فرعون) سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔"یہ کہہ کر حجاج اس شخص سے کہتا ہے کہ  لہذا تو  مجھ سے نرمی سے بات کر۔
ایک بار ہوا اور سورج میں مکالمہ ہوا کہ دونوں میں زیادہ طاقت ور کون ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی خوبیاں بیان کیں ۔سورج نے کہا : میرے دم سے روشنی ہوتی ہے جس میں لوگ کام کرتے ہیں۔ میرے اندر حرارت ہے جو میں لوگوں تک پہنچاتا ہوں اگر وہ نہ ہو تو پھر لوگ کچھ نہ کرسکیں۔ میں فصلیں پکاتا ہوں جس سے  ان میں توانائی کا خزانہ بھرجاتاہے ۔ میں پودوں اوردرختوں کو غذاکے حصول میں مدد کرتا ہوں۔سولر توانائی سے بجلی بنائی جاتی ہے۔وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح  وہ اپنی خوبیاں بیان کرتا رہا۔
ہوا نے کہا میں بھی کم نہیں ۔میری قوت و طاقت بہت زیادہ ہے۔ میں درخت اکھاڑ کر پھینک سکتی ہوں۔میری قوت سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ اور بہت سے دیگر فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔بہرحال اس طرح ان کی بحث طول پکڑتی گئی اور اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آرہا تھا۔یہ دیکھ کر ہوا نے کہا پرانی باتیں چھوڑو "ہاتھ کنکن کو آرسی کیا"۔ یہ دیکھو میدانی علاقے میں جو ایک شخص جارہا ہے اس کے بدن پر ایک چادر لپٹی ہوئی ہے۔ دیکھتے ہیں ہم دونوں میں سے کون اس کی چادر اتارنے میں کامیاب ہوتا ہے۔جو ایسا کرے گا وہ زیادہ طاقت ور تصور کیاجائے گا۔سورج رضامند ہوجاتاہے اور" ہوا"کو پہلے طبع آزمانے کا کہتاہے۔
اب "ہوا" زور سے چلنا شروع کردیتی ہے۔ اس شخص کو ہوا کے تند و تیز تھپیڑے جب لگتے ہیں وہ اپنی چادر کو اوراچھی طرح لپیٹ لیتا ہے۔ یہ دیکھ کر ہوا اور زیادہ طوفانی انداز سے چلتی ہے۔ اتنی تیز ہوجاتی ہے کہ وہ شخص مجبور ہو کر چادر اپنے اوپر اچھی طرح لپیٹ کر الٹا ہو کر لیٹ جاتاہے۔ اور ہوا کا کوئی بھی حربہ کارگر نہیں ہوتا۔ آخر کار ہوا ناکام ہوکر رک جاتی ہے۔
پھر اس کے بعد سورج کی باری آتی ہے۔ وہ نرمی اورمحبت کے ساتھ  اپنی حرارت بڑھانا شروع کرتاہے۔ اول تو ہوا کے رکنے سے اور پھر سورج کی گرمی سے وہ شخص خوشی خوشی کھڑا ہوجاتاہے اور کچھ ہی دیر میں اپنے بدن سے وہ چادر اتار لیتا ہے۔اس طرح جو کام ہواکے تھپیڑے نہ کرسکے وہ سور ج کی حرار ت نے بہت جلد بغیر کسی خاص مشقت کے کردیا۔پھر سورج " ہوا" سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ تیزی اور شدت سے پہاڑ توتوڑا جاسکتا ہے لیکن سخت دل کو موم  نہیں کیا جاسکتا۔ایساکرنے کے لئے عشق وکیف کی حرارت درکار ہے۔  جب یہ حرارت عشق و کیف کی ہوگی تو سنگ گراں کو موم بنانا بھی کچھ مشکل نہ ہوگا۔بقول بشر پسروری
بڑا آساں تھا سنگ گراں کو موم کردینا
                بشر سینے میں عشق و کیف و مستی کی حرارت تھی
خلاصہ کلام:
اس تمام بحث  سے میری مراد اور مقصود  یہ ہے کہ جو کام سختی،تشدد اور مار نہ کرسکے وہ کام محبت کی حرارت بآسانی کرسکتی ہے۔ بچوں کی تربیت محبت سے  کریں نہ کے سختی ودرشتگی سےتاکہ ان کے برتاؤ میں ایک مستقل مثبت تبدیلی رونما ہوجائے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post