حیض ، نفاس اور استحاضہ کا بیان

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :۔

’’وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ‘‘ ( البقرۃ : 222 )

’’ اور تم سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم آپ فرماؤ وہ ناپاکی ہے ، تو عورتوں سے الگ رہو حیض کے دنوں اور ان سے نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہوجائیں پھر جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے ‘‘ ۔

یہود ایامِ حیض میں عورت سے بالکل قطع تعلق کرلیا کرتے تھے ۔ ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا ترک کردیتے تھے یہاں تک کہ عورت کے ساتھ کھانا پینا ترک کردیتے تھے اور اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بھی ناپاک خیال کیا کرتے تھے اور مشرکین عرب کا رویہ بھی تقریباً ایسا ہی تھا ۔ جبکہ نصاریٰ ان دنوں میں کسی قسم کا پرہیز نہیں کیا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ ہمبستری سے بھی باز نہیں آتے تھے ۔

جب سرکار ﷺ سے حیض کے متعلق دریافت کیا گیا تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔

اس آیتِ مبارکہ سے جو حکم واضح ہوتا ہے اس میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط ہے بلکہ اسلام کی روایتی میانہ روی اور اعتداک کا جلوہ ہے ۔

حیض کی حالت میں صحبت سے منع کردیا گیا ہے کیونکہ مرد وعورت کا فائدہ  اسی میں ہے ، کیونکہ عورت کی طبعیت ان دِنوں نڈھال ہوتی ہے ۔یہ عمل اس کیلئے بھی ناگوارِ خاطر ہوتا ہے ۔ خون بہر وحال نجس وغلیظ ہوتا ہے ایسی حالت میں مقاربت کو طبی لحاظ سے بھی انسان پسند نہیں کرتا بلکہ ایسا کرنے میں بعض اوقات نفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔ لیکن ساتھ اُٹھنےبیٹھنے ، کھانے پینے کو اِسلام نے جائز رکھا ہے ۔

( تفسیر ضیاء القرآن ، جلد اول   )

حیض کی تعریف :۔

’’فالحيض: دم ينفضه رحم بالغة لا داء بها ولا حبل ولم تبلغ سن الإياس ‘‘.

’’ حیض وہ خون ہے جسے ایسی بالغ عورت کا رحم پھینکتا ہے جو بیمار اور حاملہ نہ ہو  اور نہ ہی نا امیدی کی عمر کو پہنچ چکی ہو‘‘۔

(نور الإيضاح ، كتاب الطهارة ، ج : ۱ ، ص : 38 ، فصل: باب الحيض والنفاس والاستحاضة، الناشر: المكتبة العصرية )

’’ الْحَيْضُ فِي اللُّغَةِ عِبَارَةٌ عَنْ السَّيَلَان ‘‘

’’ لغت میں حیض کا معنیٰ سیلان ( بہنا ) ہے چنانچہ کہا جاتا ہے : حَاضَ السَّيْلُ وَالْوَادِي ’’ جب اس میں پانی بہنے لگے ‘‘ اور کہا جاتا  ہے وَحَاضَتْ الشَّجَرَةُ إذَا سَالَ مِنْهَا الصَّمْغُ الْأَحْمَر جب درخت سے اس کا سرخ لعاب بہنے لگے ‘‘ ۔

’’ هُوَ دَمٌ يَنْفُضُهُ رَحِمُ امْرَأَةٍ سَلِيمَةٍ عَنْ دَاءٍ وَصِغَر ‘‘

’’ حیض وہ خون ہے جس کو ایسی عورت کا رحم پھینکے جو بیماری اور کم سنی سے سلامت ہو ‘‘۔

(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ ، كِتَابُ الطَّهَارَةِ ،بَابُ الْحَيْضِ، ج : 1 ، ص : 54 ،الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة )

حیض کے رنگ :

زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هہ) لکھتے ہیں کہ :۔

حیض کے چھ رنگ ہوتے ہیں :۔

(1)  سرخ (2 )   زرد  (3) سبز  ( 4 )  سیاح ( 5 )  گدلا  (6 ) مٹیالا

مسئلہ : ’’حائضہ عورت ایام حیض میں ان چھ رنگوں میں سے جس رنگ کا بھی خون خود سے خارج ہوتا دیکھے سب حیض شمار ہوگایہاں تک کہ خالص سفید رطوبت نظر آنے لگے ‘‘۔

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ، كِتَابُ الطَّهَارَةِ ، كَيْفِيَّة الْحَيْض ، ج : 1 ، ص : 202 ، الناشر: دار الكتاب الإسلامي )

حیض کی مدت :۔

حضرت ابی امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :۔

«أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلَاثٌ، وَأَكْثَرُهُ عَشْرٌ»

’’ حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے ‘‘

(المعجم الكبير ، ج : 8 ، ص : 129 ، رقم الحدیث : 7586 ،دار النشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة )

ضروری وضاحت :۔

حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور تین راتیں ہیں یعنی  پورے 72 گھنٹے ہیں اگر ایک منٹ بھی کم ہے تو حیض نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں ۔

حیض کے احکامات :

حیض ونفاس سے آٹھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں :۔

(۱)نماز (۲)  روزہ (۳) قرآن پاک پڑھنا  (۴) قرآن پاک کو چھونا  (۵) مسجد میں داخل ہونا  (۶) جماع کرنا  (۷) طواف کرنا  (۸) ناف سے لیکر گھٹنوں تک نفع اٹھانا۔

(نور الإيضاح ونجاة الأرواح في الفقه الحنفي ،کتاب الطھارۃ ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ ،  ص ۳۸ ، الناشر: المكتبة العصرية )

حیض میں حرام ہونے والی چیزوں کی وضاحت :۔

(1)  حائضہ سے جماع کرنا حرام ہے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :۔

«اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا النِّكَاحَ»

’’ جماع کے علاوہ سب کچھ کرو ‘‘ ۔

( صحیح مسلم ، کتاب الحیض ، بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِيلِهِ وَطَهَارَةِ سُؤْرِهَا وَالَاتِّكَاءِ فِي حِجْرِهَا وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِيهِ ، ج : 1 ، ص : 246 ، ، رقم الحدیث : 302  الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت )

(2)  حائضہ عورت اپنی مدت حیض میں نماز اور روزہ چھوڑ دے گی ، ان کی ادائیگی اس پر حرام ہے اور نہ ہی یہ عمل اس سے صحیح ثابت ہونگے ۔ کیونکہ نبی کریم  ﷺ نے فرمایا :۔

أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ»

’’ کیا ایسا نہیں ، جب عورت حائضہ ہوجاتی ہے وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے‘‘۔

(صحيح البخاري ، کتاب الحیض ، بَابُ تَرْكِ الحَائِضِ الصَّوْمَ ، ج : 1 ، ص : 68 ،  رقم الحدیث : 304 ، الناشر: دار طوق النجاة )

(3)  حائضہ جب حیض سے پاک ہوجائے تو روزہ کی قضا کرے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں کرے گی ، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے :۔

’’أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصِّيَامَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ ‘‘

’’ حائضہ روزوں کی قضا کرے گی اور نماز کی قضا نہیں کرے گی ‘‘۔

(سنن الترمذي ، بَابُ مَا جَاءَ فِي قَضَاءِ الحَائِضِ الصِّيَامَ دُونَ الصَّلَاةِ ،ج : 3 ، ص : 145 ، رقم الحدیث:787 ، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

نماز اور روزے میں فرق اس لئے ہے کہ نماز مکرر ہے جس کی قضا میں تنگی اور مشقت ہے اس لئے اس کی قضا کا حکم نہیں دیا گیا ۔

(4)  حائضہ پر بلا پردہ مصحف پکڑنا حرام ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :۔

’’ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ‘‘        (سورة الواقعة : 79 )

’’ جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ‘‘ ۔

(5)  حائضہ پر بیت کا طواف کرنا حرام ہے : کیونکہ جب حضرت عائشہ ؓ حائضہ ہوگئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا :۔

’’ فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي‘‘

’’ پس حاجیوں کے تمام اعمال کر ، سوائے بیت اللہ کے طواف کے یہاں تک کہ تو پاک ہو جائے ‘‘ ۔

(صحيح البخاري ، کتاب الحیض ، بَابٌ: تَقْضِي الحَائِضُ المَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، ج : 1 ، ص : 68 ،  رقم الحدیث : 305 ، الناشر: دار طوق النجاة )

 

(6)  حائضہ کے لئے مسجد میں ٹھرنا حرام ہے ، کیونکہ نبی کریم نے فرمایا :۔

’’ إِنَّ الْمَسْجِدَ لَا يَحِلُّ لِجُنُبٍ، وَلَا لِحَائِض ‘‘

’’ بے شک مسجد حائضہ اور جنبی کے لئے حلال نہیں ہے ‘‘ ۔

(سنن ابن ماجه ، كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا، بَابٌ فِي مَا جَاءَ فِي اجْتِنَابِ الْحَائِضِ الْمَسْجِدَ ، ج : 1 ، ص : 212 ،  رقم الحدیث : 645 ، الناشر: دار إحياء الكتب العربية )

مسئلہ :۔

حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ دس دن اور دس راتیں ہیں ۔ اگر کسی عورت کو تین دن اور تین راتوں سے کم خون آیا تو وہ حیض نہیں ہے بلکہ بیماری ہے ۔ کبھی کبھی بیماری کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے  کہ  دس دن اور دس راتوں سے زیادہ خون آتا ہے تو بھی بیماری ہے ۔

مسئلہ :۔

اگر تین دن تو پورے ہوئے ، مگر تین راتیں نہیں گذری ہوں جیساکہ جمع کے دن صبح سے خون ( حیض ) آیا اور اتوار کی شام مغرب کے بعد بند ہوا تو وہ حیض نہیں ہے بلکہ بیماری ہے، اگر تین راتوں اور تین دن سے زرہ بھی کم ہوا تو وہ حیض نہیں ہے ، جیساکہ جمع کے دن سورج طلوع ہوتے وقت خون آیا اور پیر کے دن سورج طلوع ہونے سےتھوڑا سا  پہلے بند ہوا تو وہ بھی حیض نہیں ہے بلکہ بیماری ہے ۔

مسئلہ :۔

حیض کی مدت کے اندر سرخ ، پیلے ، زرد ،  مٹیلا ، سیاہ رنگ کے حیض ہیں ۔ عورت خون نکلنے والی جگہ روئی رکھ دے   جب تک وہ روئی بالکل صاف نظر نہیں آئے تب تک وہ عورت حیض سے پاک سمجھی نہیں جائے گی اور جب روئی صاف نظر آئے جیسے پہلے دن رکھی تھی تو وہ حیض سے پاک ہوجائے گی ۔

مسئلہ :۔

عام طور پر نو برس سے پہلے اور پچپن سال کے بعد کسی بھی عورت کو حیض نہیں آتا اور اگر کسی نو برس سے کم عمر لڑکی کو خون آیا تو وہ حیض نہیں ہے ( آج کل  کچھ نو برس سے کم عمر لڑکیوں کو حیض آتا ہے تو انکو کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھائیں اور وہ جو رائے دیں اس پر عمل کریں ۔ یعنی اگر وہ کہیں تو حیض ہے تو اسکو حیض تسلیم کرلیا جائے اور اگر بیماری کہیں تو اسکو بیماری سمجھا جائے اور اگر پچپن سالوں کے بعد کچھ نکلے تو اگر خون بالکل سرخ یا کالا ہو تو وہ حیض ہے ، اگر زرد  ، سبز یا مٹیالے رنگ کا خون آئے تو وہ حیض نہیں ہے بلکہ کوئی بیماری ہے   اور اگر اس عمر ( پچپن سال )  سے پہلے ان رنگوں کا خون آئے تو وہ حیض شمار ہوگا ۔

مسئلہ :۔

دس رات دن سے کچھ بھی زیادہ خون آیا تو اگر یہ حیض پہلی مرتبہ اس آیا ہے تو دس دن تک حیض ہے بعد کا استحاضہ ہے اور اگر  پہلے اُسے حیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی تو عادت سے جتنا زیادہ ہو استحاضہ ہے ۔ اسے یوں سمجھو کہ اسکو پانچ دن کی عادت تھی اب آیا دس دن تو کل حیض ہے اور بارہ دن آیا تو پانچ دن حیض کے باقی سات دن استحاضہ کے اور ایک حالت مقرر نہ تھی بالکل کبھی چار دن  کبھی پانچ دن تو پچھلی بار جتنے دن تھے وہی اب بھی حیض کی ہے  باقی استحاضہ ہے ۔

(الفتاوى الهندية ، کتاب الطھارۃ ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي الْحَيْضِ ، ج : 1 ، ص : 37 ، الناشر: دار الفكر )

مسئلہ :۔

یہ ضروری نہیں کہ مدت میں ہر وقت خون جاری رہے جب ہی حیض ہو بلکہ اگر بعض بعض وقت بھی آئے جب بھی حیض ہے ۔  (بہار شریعت،  جلد دوم ، ص : 374 )

مسئلہ :۔

نو برس کی عمر سے پیشتر جو خون آئے استحاضہ ہے ۔ یوہیں پچپن سال کی عمر کے بعد جو خون آئے۔ہاں پچھلی صورت میں اگر خالص خون آئے جیسا پہلے آتا تھا اسی رنگ کا آیا تو حیض ہے ۔

مسئلہ :۔

دو حیضوں کے درمیاں کم سے کم پورے پندرہ دن کا فاصلہ ضرور ہے  ۔ یوہیں نفاس وحیض کے درمیاں بھی پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے تو اگر نفاس ختم ہونے کے بعد پندرہ دن پورے نہ ہوئے تھے کہ خون آیا تو یہ استحاضہ ہے ۔

 

مسئلہ :۔

حیض اس وقت سے شمار کیا جائے کہ خون فرج خارج میں آگیا تو اگر کوئی کپڑا رکھ لیا جائے جس کی وجہ سے فرج خارج میں نہیں آیا داخل ہی میں رکا ہوا ہے تو جب تک کپڑا نہ نکالے گی حیض والی نہ ہوگی ۔ نمازیں پڑھے گی ، روزہ بھی رکھے گی ۔

(الفتاوى الهندية ، کتاب الطھارۃ ،الْبَابُ السَّادِسُ فِي الدِّمَاءِ الْمُخْتَصَّةِ بِالنِّسَاءِ ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي الْحَيْضِ ، ج : 1 ، ص : 36 ، الناشر: دار الفكر )

مسئلہ :۔

دس دن کے اندر رطوبت میں ذرا بھی میلا پن ہے تو وہ حیض ہے اور دس دن رات کے بعد بھی میلا پن باقی ہے تو عادت والی کے لیے جو دن عادت کے ہیں حیض ہے اور عادت کے بعد والے استحاضہ  اور اگر کچھ عادت نہیں تو دس دن رات تک حیض باقی استحاضہ ۔

(الفتاوى الهندية ، کتاب الطھارۃ ،الْبَابُ السَّادِسُ فِي الدِّمَاءِ الْمُخْتَصَّةِ بِالنِّسَاءِ ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي الْحَيْضِ ، ج : 1 ، ص : 37 ، الناشر: دار الفكر )

نفاس کی تعریف

’’النفاس: هو الدم الخارج عقب الولادة ‘‘.

’’ نفاس وہ خون ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد نکلتا ہو ‘‘۔

’’وأكثره أربعون يوما ولا حد لأقله‘‘.

’’نفاس کی کم سے کم کوئی مدت نہیں اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے‘‘ ۔

نفاس کے احکام

1)                 اگر عورت نے بچے کو جنا اور اس نے خون نہیں دیکھا اور یہ بہت کم ہوتا ہے تو وہ وضو کرے اور نماز پڑھے اور اس پر غسل نہیں ہے۔

2)                 اگر خون 40 دن سے زیادہ جاری رہا اور اس کی عادت بھی 40 دن کے بعد خون کے رکنے کی تھی اور خون کے رکنے کی نشانیاں بھی ظاہر ہو گئیں تو وہ انتظار کرے یہاں تک کہ خون رک جائے اور اگرخون جاری رہا تو وہ مستحاضہ ہے اور اس کے لیے مستحاضہ کے احکام ہیں۔

3)                 اور اگر اس کا خون 40 دن سے پہلے رک گیا تو وہ غسل کرے نماز پڑھے اور روزے رکھے اور خاوند کے ساتھ ہم بستری بھی کرسکتی ہے۔

4)                 اگر اس کا خون 40 دن سے پہلے رک گیا اور 40 دن پورے ہونے سے پہلے دوبارہ خون جاری ہو گیا۔ اگر اسے پتہ چلا کہ یہ نفاس کا خون ہے تو وہ نفاس کا ہی خون شمار ہو گا۔

5)                 اور اگر اسے پتہ چلا کہ یہ نفاس کا خون نہیں ہے تو پھر وہ طاہرہ یعنی پاک عورت کے حکم میں ہو گی۔

6)                 نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو انسان ایسی چیز جس میں انسانی خلقت کے آثار واضح ہوں کے سقوط اور وضع کے بعد نظر آتا ہے۔ اگر عورت کے پیٹ سے کوئی ایسی چیز گری جس میں انسانی خلقت کے آثار واضح نہیں تھے تو اس کی تین حالتیں ہیں۔

ا۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ پہلے چالیس دن سے پہلے ساقط ہو تو اس صورت میں نکلنے والا خون استحاضہ کا خون ہے، پس وہ غسل کرے ، نماز پڑھے اور روزے رکھے۔

ب۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس چیز کا سقوط 80 دنوں کے بعد ہو تو اس صورت میں یہ نفاس کا خون ہے۔

ج۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اس چیز کا سقوط 40 سے 80 دنوں کے درمیان ہو تو اس صورت میں دیکھا جائے گا اگر اس میں خلقت کے آثار واضح ہیں تو پھر نفاس کا خون شمار کیا جائے گا اور اگر واضح نہیں ہیں تو پھر استحاضہ کا خون شمار کیا جائے گا۔

مسئلہ:۔

بچہ پیدا ہونے کے بعد آگے کی راہ سے جو خون آتا ہے اس کو نفاس کہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نفاس کے چالیس دن ہیں اور کم کی کوئی حد نہیں۔ اگر کسی کو ایک آدھ گھڑی آ کر خون بند ہو جائے تو وہ بھی نفاس ہے۔

مسئلہ:۔

اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد بالکل خون نہ آئے تب بھی جننے کے بعد نہانا واجب ہے۔

مسئلہ:۔

آدھے سے زیادہ بچہ نکل آیا لیکن ابھی پورا نہیں نکلا۔ اس وقت جو خون آئے وہ بھی نفاس ہے اور اگر آدھے سے کم نکلا تھا اس وقت خون آیا تو وہ استحاضہ ہے اگر ہوش و حواس باقی ہوں تو اس وقت بھی نماز پڑھے نہیں گنہگار ہو گی نہ ہو سکے تو اشارہ ہی سے پڑھے قضا نہ کرے۔ لیکن اگر نماز پڑھنے سے بچہ کا ضائع ہو جانے کا ڈر ہو تو نماز نہ پڑھے۔

مسئلہ:۔

کسی کا حمل گر گیا تو اگر بچہ کا ایک آدھ عضو بن گیا ہو تو گرنے کے بعد خون آئے گا وہ بھی نفاس ہے اور اگر بالکل نہیں بنا بس گوشت ہی گوشت ہے تو یہ نفاس نہیں پس اگر وہ خون حیض بن سکے تو حیض ہے اور اگر حیض بھی نہ بن سکے مثلاً تین دن سے کم آئے یا پاکی کا زمانہ ابھی پورے پندرہ دن نہیں ہوا تو وہ استحاضہ ہے۔

مسئلہ:۔

اگر خون چالیس دن سے بڑھ گیا تو اگر پہلے پہل یہی بچہ ہوا تو چالیس دن نفاس کے ہیں اور جتنا زیادہ آیا ہے وہ استحاضہ ہے پس چالیس دن کے بعد نہا لے اور نماز پڑھنا شروع کرے خون بند ہونے کا انتظار نہ کرے اور اگر یہ پہلا بچہ نہیں بلکہ اس سے پہلے جن چکی ہے اور اس کی عادت معلوم ہے کہ اتنے دن نفاس آتا ہے تو جتنے دن نفاس کی عادت ہو اتنے دن نفاس کے ہیں اور جو اس سے زیادہ ہے وہ استحاضہ ہے۔

مسئلہ:۔

کسی کی عادت تیس دن نفاس آنے کی ہے لیکن تیس دن گزر گئے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی نہ نہائے۔ اگر پورے چالیس دن پر خون بند ہو گیا تو یہ سب نفاس ہے اور اگر چالیس دن سے زیادہ ہو جائے تو فقط تیس دن نفاس کے ہیں اور باقی سب استحاضہ ہے اس لیے اب فورا غسل کر ڈالے اور دس دن کی نمازیں قضا پڑھے۔

 

 

مسئلہ:۔

اگر چالیس دن سے پہلے خون نفاس کا بند ہو جائے تو فورا غسل کر کے نماز پڑھنا شروع کرے اور اگر غسل نقصان کرے تو تیمم کر کے نماز شروع کرے ہرگز کوئی نماز قضا نہ ہونے دے۔

مسئلہ:۔

نفاس میں بھی نماز بالکل معاف ہے اور روزہ معاف نہیں بلکہ اس کی قضا رکھنا چاہیے اور روزہ نماز اور صحبت کرنے کے یہاں بھی وہی مسئلے ہیں جو اوپر بیان ہو چکے ہیں۔

مسئلہ:۔

اگر چھ مہینے کے اندر اندر آگے پیچھے دو بچے ہوں تو نفاس کی مدت پہلے بچہ سے لی جائے گی۔ اگر دوسرا بچہ دس بیس دن یا دو ایک مہینے کے بعد ہوا تو دوسرے بچہ سے نفاس کا حساب نہ کریں گے۔

استحاضہ

استحاضہ کے لغوی معنیٰ :۔

’’ ان یستمر الدم بعد العادۃ ‘‘

’’ وہ خون جو عادت کے بعد جاری رہے ۔

( مجمع البحار الأنوار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، ج : 1 ، ص : 591 ، الناشر : دار الکتب بیروت )

’’استحاضہ اس خون کو کہتے ہیں جو عورت کو آتا ہو ، مگر حیض ونفاس کا خون نہیں ہوتا بلکہ ایک رگ سے آتا ہے جسے عاذل کہتے ہیں   ‘‘ ۔

اقسام استحاضہ :۔

ü     اکثر مدت حیض ونفاس کے بعد جو خون کم سے کم مدت طہر کے درمیان آئے وہ استحاضہ ہے ۔

ü     کم سے کم مدت حیض سے پہلے جو خون بند ہوجائے وہ استحاضہ ہے ۔

ü     نابالغہ کے آگے کے مقام سے جو خون آئے وہ استحاضہ ہے جبکہ بہت چھوٹی ہو ۔

ü     پچپن سال یا اس سے زائد عمر کی عورت کو جو خون آئے وہ استحاضہ ہے ۔

ü     حاملہ عورت کو ولادت سے قبل جو خون آئے وہ استحاضہ ہے ۔

ü     ایام حمل میں آنے والا خون بھی استحاضہ ہے ۔

ü     پردہ بکارت زائل ہونے کے بعد آنے والا خون بھی استحاضہ ہے ۔

استحاضہ کے احکام

1)     استحاضہ کے احکام مثل معذور شرعی ہیں اور اس میں تمام کام جائز ہیں جو حالت حیض ونفاس میں حرام  ہیں مثلاً نماز ، روزہ ، طواف ، تلاوت قرآن، جماع کرنا وغیرہ ۔

2)     استحاضہ میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے لیکن ہر نماز کے لئے الگ وضو کرے گی۔

نفاس اور حیض وغیرہ کے احکامات

مسئلہ :۔

اگر کوئی عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور اس کے اوپر غسل کرنا واجب ہو تو اسکو مسجد میں جانا ، کعبۃ اللہ کا طواف کرنا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور قرآن کریم کو چھونا جائز نہیں ۔

مسئلہ :۔

جس شخص کا وضو نہ ہو  تو اُس حالت میں قرآن پاک کو چھونا جائز نہیں مگر زبانی پڑھ سکتا ہے ۔

مسئلہ :۔

حیض کے ایام میں مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کرکے کسی پاک جگہ پر بیٹھ کر اللہ اللہ کرے تاکہ نماز کی عادت نہ چھوٹ جائے ۔

مسئلہ :۔

کسی عورت کو غسل کرنے کی ضرورت تھی ، ابھی غسل ہی نہیں کیا تھا تو حیض آگیا ، اب اس کے اوپر غسل کرنا واجب نہیں ، بلکہ جب حیض سے پاک ہوجائے تب غسل کرے ، ایک غسل دونوں باتوں کے لئے کافی ہوگا ۔

 

مسئلہ :۔

حیض والی عورت کو تلاوت کی نیت سے قرآن پاک پڑھنا جائز نہیں ۔ البتہ دعا کی نیت سے سورۃ الفاتحۃ یا دوسری قرآنی آیات پڑھ سکتی ہے ۔ جیسے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ یا  رَبَّنَا لَا تُؤاخِذْنَا وغیرہ اس طرح کلمہ شریف ، درود شریف پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کا پاک نام لینا ، استغفار پڑھنا بھی جائز ہے ۔

مسئلہ :۔

اگر کوئی بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی ہو تو حیض کی حالت میں بچوں کو ہجے کرکے پڑھائے اور رواں پڑھاتے وقت ایک سانس میں پوری آیت نہ پڑھے ۔ مگر ایک ایک یا دو دو لفظوں کے بعد سانس لے آیت رواں پڑھائے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post