اگر کسی مسلمان  کا انتقال ہوجائے ، توانتقال کے بعد میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے ، قریبی اعزاء کے لئے کچھ دیر تو انتظار کی گنجائش ہے؛ لیکن بہت زیادہ تاخیر کرنا منع اور خلافِ سنت ہے ۔ یعنی شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ بغیر کسی شرعی یا معقول عذر کے میت کو دفن کرنے میں تاخیر نہ کی جائے، بلکہ وفات کے بعد فوراً غسل، کفن اور دفن جیسے تمام مراحل کو جلد مکمل کیا جائے۔

مشکوٰۃ شریف میں روایت ہے:   

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَ صلى الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَا تَحْبِسُوهُ وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ، وَلْيُقْرَأ عِندَ رَأْسِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَعِندَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ.(رواه الطبراني (المعجم الكبير، رقم: 31613)، البيهقي شعب الإيمان، رقم: 9294).

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:"جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اس کو روکے نہ رکھو اور جلدی سے اسے قبر تک پہنچاؤ،اور اس کے سرہانے سورۃ الفاتحہ اور پاؤں کی جانب سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔"

قال الملا علي القاري تحتہ: أي لا تؤخروا دفنہ من غیر عذر، قال ابن الہمام: یستحب الإسراع بتجہیزہ کلہ من حین یموت۔ (مرقاة المفاتیح / باب دفن المیت ۴/۱۷۲بیروت)

ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس (حدیث) کے تحت فرمایا:"یعنی بغیر کسی عذر کے میت کی تدفین میں تاخیر نہ کرو۔"

اور ابن ہمام رحمہ اللہ نے فرمایا:"میت کے فوت ہوتے ہی اس کے مکمل تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا مستحب ہے۔"

وکرہ تاخیر صلوتہ ودفنہ لیصلي علیہ جمع عظیم۔ (درمختار مع الشامي ۳/۱۳۶) ۔

"نمازِ جنازہ اور دفن میں تاخیر کو مکروہ قرار دیا گیا ہے (اس نیت سے) کہ زیادہ بڑی جماعت (لوگوں کی کثیر تعداد) اس پر نمازِ جنازہ پڑھے۔"

دفن سے قبل قرآن خوانی کی گنجائش:

تجہیز و تکفین میں بسا اوقات کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس صورت میں کہ تجہیز و تکفین کی تیاری کی جاتی رہے اور اس دوران اگر کچھ افراد میت کے قریب بیٹھ کر قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو اس کی شرعی گنجائش موجود ہے ۔ یقیناً میت کو غسل دینے کے بعد تدفین سے پہلے، اس کے نزدیک بیٹھ کر قرآن کریم کی کسی بھی جگہ سے تلاوت کر کے، میت کو اس کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے، لیکن سورۃ البقرۃ کی تلاوت یا کوئی خاص سورت  یا تعداد لازم  نہیں ۔

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ نے میت کے قریب تلاوتِ قرآن مجید کے متعلق فرمایا:

"میت کے پاس تلاوتِ قرآن مجید جائز ہے، جبکہ اس کا تمام بدن کپڑے سے چھپا ہو اور تسبیح و دیگر اذکار میں مطلقاً حرج نہیں۔"(بہارِ شریعت جلد 1، حصہ 4، صفحہ 809، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

 میت   کو غسل دینے سے پہلے اس کے قریب  قرآنِ  مجید کی تلاوت کرنے میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر  میت کو مکمل کپڑے سے ڈھانک دیا جائے تو اس کے پاس قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے میں   کوئی حرج نہیں ہے خواہ قرآنِ مجید اٹھا کر تلاوت کی جائے یا بغیر اٹھائے  زبانی تلاوت کی جائے، اور اگر میت کو کپڑے سے ڈھانکا نہ گیا ہو تو پھر غسل دینے سے پہلے میت کے قریب تلاوت کرنا مکروہ ہے، البتہ تسبیح وغیرہ پڑھی جاسکتی ہے۔

 اور میت کو غسل  دینے کے بعد خواہ میت کے قریب تلاوت کی جائے یا دور ، بہرصورت جائز ہے ۔

میت کو غسل دینے سے پہلے اُس کے پاس تیز آواز سے قرآن کریم کا پڑھنا مکروہ ہے، ہاں آہستہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔ تکرہ القرا ء ة عندہ حتی یغسل ۔ قال ابن عابدین:وکذا ینبغي تقیید الکراہة بما اذا قرأ جہراً۔ ( شامی: ۳/۸۴، ۸۵، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة ،)

"میت کے پاس قرآن کی تلاوت مکروہ ہے، یہاں تک کہ اسے غسل دیا جائے۔"اور ابن عابدین رحمہ اللہ نے فرمایا:"اسی طرح (یہ) کراہت اس صورت کے ساتھ مقید ہونی چاہیے جب قرآن بلند آواز سے پڑھا جائے۔"میت کے پاس قرآن پڑھنے کو بعض فقہاء نے اس وقت تک مکروہ کہا ہے جب تک اسے غسل نہ دیا جائے، کیونکہ وہ حالتِ نجاست میں ہوتی ہے۔

فقہِ حنفی کی معروف کتاب "رد المحتار علی الدر المختار" (المعروف: فتاویٰ شامی) میں ہے:

ويقرأ عنده القرآن إلى أن يرفع إلى الغسل، كما في القهستاني معزياً للنتف... وعبارة الزيلعي وغيره: تكره القراءة عنده حتى يغسل... وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريباً منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة... والظاهر أن هذا أيضاً إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه..."(رد المحتار، 2/193، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة)

 میت کے پاس قرآن پڑھنا جائز ہے جب تک کہ اسے غسل کے لیے اٹھایا نہ جائے، بشرطیکہ میت کو مکمل کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا ہو۔ اگر کپڑے سے ڈھانپا نہ گیا ہو، تو قرآن پڑھنا مکروہ ہے۔ البتہ کچھ فاصلہ سے پڑھنے یا زبانی تلاوت کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔

غسل دینے کے بعد مطلقا قرآن کریم پڑھ کر میت کو ایصال ثواب کرسکتے ہیں، تدفین سے پہلے صرف سورۃ البقرۃ کی تخصیص کاشرعا کوئی ثبوت نہیں۔ ہاں البتہ میت کی تدفین کے بعد قبر کے سرہانے اور پیروں کی جانب سورہ بقرہ کے اول اخیر آیات پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:"جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسے روک کر نہ رکھو، بلکہ جلدی اس کو اس کی قبر کی طرف لے جاؤ، اور اس کے سرہانے سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات پڑھی جائیں، اور پاؤں کی طرف اس کا اختتام (یعنی آخری آیات) پڑھی جائیں۔"

اور اس کے قریب سورۂ یاسین کی تلاوت کی جائے۔

سنن أبي داود میں ہے:

"عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا يٰس عَلَى مَوْتَاكُمْ». وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْعَلَاءِ".(باب القراءة عند الميت، کتاب الجنائز، جلد5 ص:39، ط:دار الرسالۃ العلمیۃ)

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اپنے مُردوں پر سورۂ یٰسین پڑھا کرو۔

1.      "موتاکم" سے مراد جو قریب المرگ ہو، ہے، تاکہ اس پر سورہ یٰسین کی برکت سے سکون و آسانی ہو۔

2.      بعض علماء نے اسے دفن کے بعد یا میت کے پاس پڑھنے پر بھی محمول کیا ہے

وکان ابن عمر یستحب أن یقرأ علی البقر بعد الدفن أول سورۃ البقر وخاتمتہا۔ (رد المحتار: جلد ۳، صفحہ ۱۴۳)

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ یہ پسند فرمایا کرتے تھے کہ دفن کے بعد میت پر سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات اور اس کا اختتام پڑھا جائے۔

میت کو چارپائی پہ رکھتے وقت اور میت کی چارپائی کو اٹھاتے وقت  بِسْمِ اللّٰهِ  پڑھے  یعنی اللہ کے نام سے(الحصن الحصین، 287، مصر)

میت کے پاس جو لوگ ہوں وہ یہ دعا پڑھیں (اور فلاں کی جگہ مرنے والے کا نام لیا جائے)

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِفُلَانٍ وَّارْفَعْ دَرَجَتَهٗ فِي الْمَهْدِيِّيْنَ وَاخْلُفْهُ فِيْ عَقِبِهٖ فِي الْغَابِرِيْنَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهٗ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ اَللّٰهُمَّ ‌افْسَحْ ‌لَهٗ ‌فِيْ ‌قَبْرِهٖ وَنَوِّرْ لَهٗ فِيْهِ

اے اللہ! فلاں شخص کو (یہاں پر مرنے والے کا نام لے) بخش دے اور ہدایت یافتہ ( جنتی لوگوں میں) اس کا درجہ بلند فرما، ااس کے پسماندگان میں تو اس کا قائم مقام بن جا، ہماری، اس کی اور سب کی مغفرت فرمادے، اے رب العالمین! اور اس کی قبر کوکشادہ کردے اور قبر میں اس کو نور عطا فرمادے یعنی قبر روشن کر دے،(سنن أبي داود، 5/37، الرسالۃ)

خلاصہ کلام:

1.      میت کو دفن کرنے میں تاخیر سے بچنا چاہئے۔

2.      دفن سے قبل اگر وقت ہو تو میت کے قریب قرآن خوانی کی اجازت ہے بشرطیکہ آداب کا خیال رکھا جائے۔

3.      غسل سے قبل بغیر ڈھانپے میت کے قریب قرآن پڑھنا مکروہ ہے، لیکن ڈھانپنے کی صورت میں جائز ہے۔

4.      قرآن مجید کہیں سے بھی تلاوت کی جاسکتی ہےاور  سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات اور سورہ یس  بھی پڑھی جاسکتی ہیں

5.      شریعت نے کسی مخصوص سورت یا تعداد کو لازم قرار نہیں دیا۔

6.       میت کے پاس بیٹھ کر ذکر  و اذکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت دونوں کے  پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

 


 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post