حضرت ریحانہ بنت شمعون﷞: نبی کریم ﷺ کے ساتھ تعلق

رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو وحی الٰہی کے تابع تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ۝ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى(سورہ النجم: 3-4)

اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے۔ وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔

یہ آیت مبارکہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اقوال، افعال اور فیصلے محض ذاتی رائے یا انسانی خواہش کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور حکمت کارفرما ہوتی ہے۔

حضرت ریحانہ بنت شمعون﷞ کے ساتھ نبی ﷺ کا جوتعلق تھا — خواہ ان سے حضورﷺ نے نکاح کیا ہو یا انہیں بغیر نکاح  کے بطورباندی رکھا۔ یہ سب اسی وحی کے تحت تھا جس کے مطابق رسول اللہ ﷺ ہر قدم اٹھاتے تھے۔ اس لیے نبی ﷺ کا کوئی بھی فیصلہ یا عمل، خواہ وہ ہمارے فہم سے ماورا  ہی کیوں نہ ہو، وہ سراسر حکمت، عدل، اور عین شریعت ہوتا ہے،  اس عمل یا فیصلے کوکسی منفی زاویے سے دیکھنا،علمی ناپختگی  اور مقامِ نبوت کی عظمت سے  ناواقفیت کی علامت ہے۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ شریعتِ محمدیہ ﷺ میں کسی مرد کے لیے عورت سے ازدواجی تعلق صرف دو صورتوں میں جائز و حلال ہے: پہلی صورت نکاح کے ذریعے اور دوسری صورت وہ ہے جب وہ عورت شرعاً اُس شخص کی مِلک یمین (باندی) ہو۔ ان دونوں ہی صورتوں کی حلت قرآن مجید کی صریح آیات سے ثابت ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان  ہے:وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ۝ إِلَّا عَلٰى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ(المؤمنون: 5-6)

اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا اپنی کنیزوں سے تو بیشک ان پر کچھ ملامت نہیں ۔

ریحانہ﷞ بنت شمعون کا مختصر تعارف

حضرت ریحانہ﷞ بنت شمعون کا تعلق قبیلہ بنو قریظہ سے تھا۔ ان کے والد حضرت شمعون بن زید تھے۔غزوۂ بنو قریظہ کے بعد حضرت ریحانہ﷞ اسیر ہوئیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، ابتدا میں انہوں نے انکار کیا، جس سے حضور ﷺ کو رنج ہوا۔ بعد میں حضرت ثعلبہؓ کے ذریعے ان کے قبول اسلام کی خبر ملی، جس پر نبی ﷺ بہت خوش ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے خود کہا: "میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اختیار کرتی ہوں ۔آپ ﷞کی وفات نبی کریم ﷺ کی زندگی میں،’’سن 9 ہجری‘‘ میں ہوئی، اور آپ کو ’’جنت البقیع‘‘میں دفن کیا گیا۔

حضور ﷺ سے نکاح :

جہاں تک حضور ﷺ کا حضرت ریحانہ بنت شمعون﷞  سے نکاح کا تعلق ہے ،  تاریخِ اسلام میں اُن کے ساتھ نکاح کے مسئلے پرمحدثین و  اہلِ  سیر حضرات  کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔

 قول اول (زیادہ مشہور):

رسول اللہ ﷺ نے حضرت ریحانہ کو آزاد نہیں کیا اور نہ ان سے نکاح فرمایا، بلکہ وہ آپ ﷺ کے گھر میں بطور باندی رہیں۔

یہی قول جمہور محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں کا ہے، جن میں درج ذیل شخصیات شامل ہیں:

  • امام ابن سعدؒ :طبقات الکبریٰ 8/130
  • حافظ ابن حجرؒ :الإصابة في تمييز الصحابة، 7/723
  • امام ابن قیمؒ :زاد المعاد، 1/114
  • امام نوویؒ :شرح صحیح مسلم

یعنی ان حضرات کے مطابق، حضرت ریحانہ﷞ اسلام قبول کرنے کے بعد نبی ﷺ کی باندی کے طور پر رہیں، اور آپ ﷺ نے ان سے نکاح نہیں فرمایا۔ اگرچہ آپ ﷞ ازواجِ مطہرات میں شامل نہیں تھیں، مگر نبی کریم ﷺ آپ سے محبت اور حسنِ سلوک فرماتے تھے  ۔

 قول دوم (بعض اہلِ علم کی رائے):

نبی کریم ﷺ نے حضرت ریحانہ﷞ کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرمایا۔

یہ قول بعض متأخرین اور چند سیرت نگاروں کا ہے، جیسے:

  • ابن عبدالبرؒ :الاستیعاب
  • امام سیوطیؒ :الخصائص الکبریٰ
  • سیرت نگار صفی الرحمٰن مبارکپوریؒ :الرحیق المختوم

ان کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے حضرت ریحانہ﷞ کو عزت دی، آزاد کیا اور نکاح فرمایا۔

 ترجیحی رائے:

اہلِ علم کی اکثریت، جیسا کہ امام ابن سعدؒ، حافظ ابن حجرؒ، اور دیگر، پہلے قول کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں کہ حضرت ریحانہ﷞ نبی ﷺ کی باندی تھیں، آزاد نہیں ہوئیں اور نکاح نہیں ہوا۔تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ انتہائی عزت، شفقت اور محبت کا برتاؤ فرمایا اور انہیں معمولی حیثیت نہ دی۔

 

I HAVE A QUESTION, regarding Rehana Bint Shamun - the Jewish woman who was taken captive at the time of the Prophet ()

There are some accounts that say that the prophet () freed and then married her but other accounts say they were never married but she still lived as a member of the household like his other wives did.

I have a hard time believing he () would not have married her - right?

Do you know if they were married?

This question has been raised، clarify from authentic sources. Thanks

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post