میت کو دفن کرنے
کے بعد قبر پر کئے جانے والے اعمال، اذکار، تلاوت قرآن اور دعا کا جامع بیان
تدفین کے بعد قرآن
کریم کی تلاوت
تدفین کے بعد میت
کی قبر پر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات (یعنی المٓ تا مفلحون) اور آخری آیات (یعنی
آمن الرسول بما انزل الیہ... الی آخرہ) کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔ یہ عمل سرًا
(آہستہ آواز سے) یا جہرًا (بلند آواز سے) دونوں طریقوں سے جائز ہے۔
حضرت لجلاج رضی
اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو وصیت فرمائی:
يا بني، إذا
أنا مت فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي، فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن
علي الثرى سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله صلى
الله عليه وسلم يقول ذلك.((المعجم الكبير للطبراني 19/221،
رقم: 512)
حضرت لجلاج رضی
اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن بن علاء رحمہ اللہ کو وصیت کی تھی کہ جب
میراانتقال ہوجائے اور میرے لیے قبر تیار کردو تو مجھے قبر میں ڈالتے وقت "بسم
الله وعلى ملة رسول الله" پڑھو، میری قبر پر
مٹی ڈالو اور پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اور اختتامی آیتیں پڑھو،
کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے۔
ایک اور روایت
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
إذا مات أحدكم
فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب، وعند رجليه
بخاتمة البقرة.( المعجم الكبير للطبراني 12/44)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے
روکے مت رکھو، بلکہ جلد از جلد قبر تک پہنچاؤ، اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی
آیات اور پائنتی کی جانب سورہ بقرہ کی اختتامی آیات پڑھی جائیں۔
حدیث معقل بن یسار
رضی اللہ عنہ:
عَنْ مَعْقِلِ
بْنِ يَسَارٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم:اقْرَءُوا
يٰس عَلَى مَوْتَاكُمْ.(رواه أبو داود (رقم:
3121)
حضرت معقل بن یسار
رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"اپنے فوت شدگان پر
سورۃ یٰسین پڑھا کرو۔"
نبی کریم ﷺ نے
وفات یافتہ افراد پر سورہ یسین کی تلاوت کی ترغیب دی ہے، تاکہ انہیں راحت حاصل ہو۔
حدیث ابن عمر رضی
اللہ عنہما:
عَنِ ابْنِ
عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم
يَقُولُ: إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ
فَلَا تَحْبِسُوهُ وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ، وَلْيُقْرَأ عِندَ رَأْسِهِ
بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَعِندَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ.(رواه
الطبراني (المعجم الكبير، رقم: 31613)، البيهقي شعب الإيمان، رقم: 9294).
حضرت ابن عمر رضی
اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:"جب تم
میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اس کو روکے نہ رکھو اور جلدی سے اسے قبر تک پہنچاؤ،اور
اس کے سرہانے سورۃ الفاتحہ اور پاؤں کی جانب سورۃ البقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں۔"
دفن کے بعد قبر پر
سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت بھی سنت سے ثابت ہے۔
علامہ ابن عابدین
شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فقد ثبت أنه
عليه الصلاة والسلام قرأ أول سورة البقرة عند رأس ميت وآخرها عند رجليه.(رد
المحتار، باب الجنائز 2/242)
علامہ شامی فرماتے
ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے میت کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی
اور پیروں کی جانب اختتامی آیات پڑھیں۔
سورہ بقرہ کی
ابتدائی اور آخری آیات قبر پر پڑھنا مستحب عمل ہے، چاہے آہستہ ہو یا بلند آواز
میں۔
فتاوی ہندیہ میں
ذکر ہے:
وحكي عن الشيخ
الإمام الجليل أبي بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى أن قراءة القرآن في المقابر
إذا أخفى ولم يجهر لا تكره ولا بأس بها، إنما يكره قراءة القرآن في المقبرة جهراً،
أما المخافتة فلا بأس بها وإن ختم، وكان الصدر أبو إسحاق الحافظ يحكي عن أستاذه
أبي بكر محمد بن إبراهيم رحمه الله تعالى لا بأس أن يقرأ على المقابر سورة الملك
سواء أخفى أو جهر، وأما غيرها فإنه لا يقرأ في المقابر، ولم يفرق بين الجهر
والخفية، كذا في الذخيرة في فصل قراءة القرآن، وإن قرأ القرآن عند القبور إن نوى
بذلك أن يؤنسه صوت القرآن فإنه يقرأ، وإن لم يقصد ذلك فالله تعالى يسمع قراءة
القرآن حيث كانت، كذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية، الباب
السادس 4/377 ط: رشيديه)
شیخ امام جلیل
القدر ابو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص قبروں
کے پاس آہستہ آواز (یعنی خفیہ طور پر) قرآنِ کریم پڑھے اور بلند آواز سے نہ پڑھے
تو یہ مکروہ نہیں، بلکہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ قبروں پر بلند آواز سے قرآن
پڑھنا مکروہ ہے، اور آہستہ آواز سے پڑھنا جائز ہے، چاہے وہ قرآن ختم ہی کیوں نہ
کرے۔
اور صدر ابو اسحاق
الحافظ اپنے استاد ابو بکر محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ سورۂ ملک
کو قبروں پر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، خواہ آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے، لیکن اس
کے علاوہ قرآن کی دیگر سورتوں کے بارے میں فرمایا کہ انہیں قبروں پر نہیں پڑھنا
چاہئے۔ اور انہوں نے جہر (بلند آواز) اور اخفاء (آہستہ آواز) کے درمیان فرق بھی
نہیں کیا۔
ایسا ہی
"الذخیرہ" میں بابِ تلاوتِ قرآن کے تحت بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اور اگر کوئی شخص
قبروں کے پاس قرآن اس نیت سے پڑھے کہ میت قرآن کی آواز سے مانوس ہو جائے تو ایسا
کرنا درست ہے۔ اور اگر نیت نہ بھی کرے تو بھی اللہ تعالیٰ ہر جگہ قرآن کی تلاوت کو
سنتا ہے۔
اگر قبر پر قرآن
پڑھنے کا مقصد میت کو آواز سے مانوس کرنا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۔(الفتاوى
الهندية 4/377)
فتاوی شامی میں ہے:
(قوله ويقرأ
يس) لما ورد«من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من
فيها حسنات» بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول
البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة
التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل
ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له."
(کتاب
الصلوۃ،باب صلوۃ الجنازۃ جلد 2 ص: 242,243 ط: دارالفکر
(قولہ: "ويُقْرَأ يس") — یعنی
"سورۃ یٰسین پڑھی جائے"اس کی دلیل یہ ہے
کہ روایت میں آیا ہے:"جو شخص قبروں میں
داخل ہو اور سورۃ یٰسین کی تلاوت کرے، اللہ تعالیٰ اس دن ان (قبروں والوں) پر
تخفیف فرماتا ہے، اور اس کے لیے ان (قبرستان والوں) کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھی
جاتی ہیں۔"(یہ روایت
بحرالرائق میں مذکور ہےاور شرح اللباب میں ہے:قبر پر قرآن مجید سے جو کچھ میسر
ہو، پڑھنا مستحب ہے، جیسے:
- سورۃ فاتحہ
- سورۃ بقرہ کی
ابتدائی آیات: "الم" سے "أُوْلَئِكَ هُمُ
الْمُفْلِحُونَ" تک
- آیۃ الکرسی
- "آمَنَ
الرَّسُولُ..." (یعنی سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات)
- سورۃ یٰسین
- سورۃ
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ
- سورۃ التکاثر
- سورۃ الاخلاص
— اسے بارہ بار، یا گیارہ بار، یا سات بار، یا تین
بار پڑھا جائے
اس کے بعد یہ دعا
کرے:"اللّٰهُمَّ
أَوْصِلْ ثَوَابَ مَا قَرَأْنَاهُ إِلَى فُلَانٍ أَوْ إِلَيْهِمْ"
"اے اللہ! جو کچھ
ہم نے پڑھا ہے، اس کا ثواب فلاں (مرنے والے) یا ان (تمام اموات) کو پہنچا
دے"۔
تدفین کے بعد دعا
کا مسنون طریقہ
تدفین مکمل ہونے
کے بعد دعا کرنا سنت ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ:
- قبلہ رخ
ہوکر،
- ہاتھ اٹھاکر،
- اللہ سے میت
کی مغفرت اور ثابت قدمی کی دعا کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے
عبد الله ذو البجادین رضی اللہ عنہ کے دفن کے بعد دعا کی:
استقبل القبلة
رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه.(مرقاة المفاتيح 5/452)
دعا کا انفرادی یا
اجتماعی ہونا
دعا انفرادی طور
پر بھی کی جاسکتی ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ دونوں جائز ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی
روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا جہراً (بلند آواز سے) فرمائی تھی:
وكان ذلك
ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه. (مرقاة المفاتيح 5/452)
اجتماعی دعا کا ثبوت بھی عملِ نبوی ﷺ اور
صحابہ کرام سے ملتا ہے۔
"عن ابن مسعود
قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين
وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده،
ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه
يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني
ولوددت أني مكانه." (كتاب الجنائز، باب دفن الميت، ج:3، ص:1222، رقم
الحديث:1706، ط:دار الفكر، بيروت-لبنان) مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ۔
حضرت ابن مسعود
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خدا کی قسم! گویا
میں رسول اللہ ﷺ کو غزوۂ تبوک کے موقع پر دیکھ رہا ہوں، جب آپ ﷺ حضرت عبداللہ ذی
البجادین کی قبر میں تھے، اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما
بھی موجود تھے۔آپ ﷺ فرما رہے تھے: ’’اپنے بھائی کو میرے قریب کرو۔‘‘پس آپ
ﷺ نے انہیں قبلہ کی جانب سے پکڑا اور لحد (قبر کی کھودی گئی جانب) میں انہیں ٹیک
لگاکر رکھ دیا۔پھر رسول اللہ ﷺ قبر سے باہر تشریف لائے اور دفن کا کام ابوبکر اور
عمر رضی اللہ عنہما کے سپرد کر دیا۔جب وہ دفن سے فارغ ہو گئے تو آپ ﷺ قبلہ رُخ ہو
کر کھڑے ہوئے، اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور دعا کی:’’اے اللہ! میں آج
کی شام اس سے راضی ہوں، تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘اور یہ رات کا وقت تھا۔
فتاوی ہندیہ میں ذکر ہے کہ:
اجتماعی دعا تدفین
کے بعد جائز ہے، بشرطیکہ یہ اجتماع دفن کی غرض سے ہو، دعا کے لیے قصدی اجتماع نہ
ہو۔(الفتاوى الهندية 4/377)
حضرت ابن مسعود
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم! میں نے تو یہ حال دیکھا کہ دل میں تمنا کی
کہ کاش میں اس کی جگہ ہوتا۔
تدفین کے بعد
استغفار اور دعا
عَنْ
عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله
وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:
اسْتَغْفِرُوا
لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ.(رواه
أبو داود في السنن (كتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت
الانصراف، رقم: 3221)
حضرت عثمان بن
عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہوتے،
تو قبر پر کھڑے ہوکر فرماتے:
"اپنے
بھائی کے لیے بخشش طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے
سوال کیا جا رہا ہے۔"
اس حدیثِ مبارکہ
سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ تدفین کے بعد قبر پر کھڑے ہوکر میت کے لیے استغفار
اور دعا کا حکم دیتے تھے، کیونکہ وہ اس وقت سوالِ قبر (مُنکر نکیر کے سوالات) کا
سامنا کر رہا ہوتا ہے۔
اس سے قبر پر دعا
کرنا اور استغفار کرنا مشروع (ثابت شدہ) عمل ہے۔
قبر پر تلقین کا
حکم
قبر پر میت کو
تلقین دینا یعنی کلمہ شہادت یا ایمان کی یاددہانی کرانا بھی ثابت ہے۔
ایک حدیث میں ہے:
لقنوا موتاكم
لا إله إلا الله.(سنن أبي داود، رقم: 3116)
تلقین
میت کے دفن سے پہلے یا بعد میں کی جاسکتی ہے۔دفن کے بعد دعا مقدم ہے اور تلقین بھی
کی جاسکتی ہے۔
آثارِ صحابہ اور
تابعین:
امام جلال الدین
سیوطی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وَأَخْرَجَ
سَعِيْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ وَضَمْرَةَ بْنِ حَبِيْبٍ
وَحَكِيمِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالُوا: إِذَا سُوِّيَ عَلَى
الْمَيِّتِ قَبْرُهُ وَانْصَرَفَ النَّاسُ عَنْهُ، كَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقَالَ
لِلْمَيِّتِ عِندَ قَبْرِهِ:يَا فُلَانُ! قُلْ: لَا إِلٰهَ
إِلَّا اللّٰهُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، يَا فُلَانُ! قُلْ: رَبِّيَ اللّٰهُ وَدِينِيَ
الْإِسْلَامُ وَنَبِيِّيَ مُحَمَّدٌ.(الدر المنثور (تفسير سورة إبراهيم: 27)
سعید بن منصور نے
راشد بن سعد، ضمرہ بن حبیب اور حکیم بن عمیر سے روایت کیا کہ وہ کہتے تھے:"جب میت
پر قبر برابر کر دی جاتی اور لوگ واپس چلے جاتے تو مستحب ہوتا کہ قبر پر میت سے
کہا جائے:اے فلاں! کہو: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، (تین بار)،
پھر کہا جائے: میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے، اور میرے نبی محمد ﷺ ہیں۔"
دفن کے بعد قبر پر
تلقین کرنا مستحب عمل ہے، تاکہ میت کو سوالاتِ قبر کے وقت ثبات اور پختگی نصیب ہو۔
روایت حضرت ابو
امامہ رضی اللہ عنہ سے:
وَأَخْرَجَ
ابْنُ مَنْدَهْ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ:إِذَا مُتُّ فَدَفَنْتُمُونِي،
فَلْيَقُمْ إِنْسَانٌ عِنْدَ رَأْسِي فَلْيَقُلْ:
يَا
صَدِي بْنَ عَجْلَانَ، اذْكُرْ مَا كُنْتَ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا: شَهَادَةِ
أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ(الدر
المنثور (تفسير سورة إبراهيم: 27)
ابن مندہ نے حضرت
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا:"جب میں مر جاؤں
اور تم لوگ مجھے دفنا دو، تو کوئی شخص میرے سرہانے کھڑا ہو کر کہے:اے صدی
بن عجلان! اس بات کو یاد کرو جس پر تم دنیا میں تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔"
حضرت ابو امامہ
رضی اللہ عنہ کی وصیت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ دفن کے بعد قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر
میت کو ایمان و عقیدہ کی یاد دہانی کرائی جائے۔
آثارِ تابعین: میت
کو تلقین کا عملی ثبوت
حافظ ابن رجب
حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حَدَّثَنِي
بَعْضُ إِخْوَانِي أَنَّ غَانِمًا جَاءَ الْمُعَافَى بْنَ عِمْرَانَ بَعْدَ مَا
دُفِنَ،فَسَمِعَهُ وَهُوَ يُلَقَّنُ فِي قَبْرِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: لَا إِلٰهَ
إِلَّا اللّٰهُ، فَيَقُولُ الْمُعَافَى: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ.(ابن
رجب، أهوال القبور وأحوال أهلها إلى النشور (ص: 50)
میرے ایک بھائی نے
مجھے خبر دی کہ غانم نے معافٰی بن عمران کے دفن کے بعد سنا کہ وہ قبر میں تلقین
کیے جا رہے ہیں، اور وہ جواب میں کہہ رہے تھے: "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں"،تو
معافٰی بھی کہنے لگے: "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔"
اس اثر سے معلوم
ہوتا ہے کہ زندہ انسان میت کو تلقین کر رہا تھا اور میت نے جواب میں "لا إله
إلا الله" کہا۔
فقہائے کرام کا
موقف
علامہ ابن عابدین
شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَدْ رُوِيَ
عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ أَمَرَ بِالتَّلْقِينِ بَعْدَ
الدَّفْنِ،فَيَقُولُ: يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ! اذْكُرْ دِينَكَ الَّذِي كُنْتَ
عَلَيْهِ
لَا نَهْيَ
عَنِ التَّلْقِينِ بَعْدَ الدَّفْنِ لِأَنَّهُ لَا ضَرَرَ فِيهِ، بَلْ فِيهِ
نَفْعٌ، فَإِنَّ الْمَيِّتَ يَسْتَأنِسُ بِالذِّكْرِ عَلَى مَا وَرَدَ فِيهِ
الْآثَارُ.(ابن عابدين، رد المحتار (2/191)
نبی کریم ﷺ سے
روایت ہے کہ آپ نے دفن کے بعد تلقین کا حکم دیا تھا کہ کہا جائے: اے فلاں بن فلاں!
اپنے دین کو یاد رکھو جس پر تم دنیا میں تھے...
اور
کوئی ممانعت نہیں کہ دفن کے بعد تلقین کی جائے، کیونکہ اس میں کوئی نقصان نہیں
بلکہ فائدہ ہے،کیونکہ میت ذکر سن کر انس حاصل کرتی ہے، جیسا کہ آثار میں وارد ہوا
ہے۔تفصیلی تلقین کے کلمات ذکر فرمائے،پھر لکھتے ہیں:
ابن عابدین رحمہ
اللہ نے واضح طور پر لکھا کہ تدفین کے بعد تلقین جائز اور مفید ہے کیونکہ میت ذکر
سے مانوس ہوتی ہے۔
Post a Comment