انسان کی تخلیق کے
ساتھ ایک قرین بھی پیدا کیا جاتا ہے
اسلامی تعلیمات کے
مطابق، جب ایک انسان پیدا ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ ایک قرین یعنی شیطان کا ساتھی بھی
پیدا ہوتا ہے، جو انسان کو برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے:قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِن
كَانَ فِي ضَلَالٍۢ بَعِيدٍ(سورۃ ق: 27)
"اس کا ساتھی (قرین) کہے گا: اے ہمارے رب!
میں نے اسے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود دور کی گمراہی میں تھا۔"
یہ آیت بتاتی ہے
کہ ہر انسان کے ساتھ ایک قرین موجود ہوتا ہے، جو قیامت کے دن جواب دہ ہوگا، اور
کہے گا کہ میں نے صرف وسوسے ڈالے، فیصلہ تو انسان کا اپنا تھا۔
تفسیر ابن
کثیر میں اس آیت کےضمن میں علامہ ابن کثیر
فرماتے ہیں:"ہر انسان کے ساتھ ایک قرین (شیطان) مقرر
ہوتا ہے جو اسے برائی کی دعوت دیتا ہے، اور ایک فرشتہ بھی ہوتا ہے جو خیر کی طرف
بلاتا ہے۔"(تفسیر ابن کثیر، سورۃ ق، آیت 27)
علامہ ابن کثیر
کی عبارت کی تائید اس حدیث
مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:
حضرت عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إن للشيطان لَمّةً
بابن آدم، وللملك لَمّةً، فأما لمة الشيطان فإيعاد بالشر وتكذيب بالحق، وأما لمة
الملك فإيعاد بالخير وتصديق بالحق. (مسند أحمد، حدیث نمبر: 5391)
بے شک شیطان کی
طرف سے ابنِ آدم کے دل میں ایک وسوسہ (لمّہ) آتا ہے، اور فرشتے کی طرف سے بھی۔
شیطان کی لمّہ
برائی کا وعدہ کرتی ہے اور حق کو جھٹلاتی ہے، اور فرشتے کی لمّہ خیر کی ترغیب دیتی
ہے اور حق کی تصدیق کرتی ہے۔
نیز ایک اور حدیث میں
بھی قرین کا ذکر موجود ہے۔
حضرت عبد اللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْكُمْ مِنْ
أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ۔ قَالُوا: وَإِيَّاكَ
يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:وَإِيَّايَ، إِلَّا أَنَّ اللَّهَ
أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ، فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ. (صحيح مسلم، كتاب صفات المنافقين، حديث نمبر 2814)
ہر ایک تم میں سے
ایک شیطان اس کا قرین ہے۔صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ کے ساتھ بھی؟
آپ
ﷺ نے فرمایا:ہاں، لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی، چنانچہ وہ
مسلمان ہو گیا، اب وہ صرف نیکی کا حکم دیتا ہے۔
یہ
حدیث واضح کرتی ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان (قرین) ہوتا ہے، حتیٰ کہ نبی ﷺ
کے ساتھ بھی، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے قرین کو تابع فرما دیا۔
قرین کی تخلیق کا
مادہ:
قرین چونکہ جنّات
میں سے ہوتا ہے، اور جنّات کی تخلیق کا مادہ قرآن مجید میں واضح طور پر بیان کیا
گیا ہے:
"وَخَلَقَ
الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ"(سورۃ الرحمن: 15)
"اور
اُس نے جنّات کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔"
یہ وہ لطیف اور
غیر مرئی مخلوق ہے جو انسان کے دل و دماغ پر اثر انداز ہو سکتی ہے، لیکن جسمانی
شکل میں نظر نہیں آتی۔
قرین کا کردار:
دنیا میں انسان کو
آزمائش کے لئے بھیجا گیا۔ اوریہاں انسان کی آزمائش کے لئے قرین کی تخلیق کی گئی
ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:"الَّذِي خَلَقَ
الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا"
(سورۃ
الملک: 2)
"وہی ہے جس نے موت
اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔"
جب اللہ تعالیٰ نے
انسان کو اس دنیا میں بھیجا، تو آزمائش کے توازن کے لیے اسے دو طرفہ کششوں میں
رکھا۔ایک جانب عقل، فطرتِ سلیم، علم، وحی، نیک لوگ، فرشتے، دعا، ذکر اور دوسری
جانب نفس، خواہشات، دنیا کی چمک، اور قرین
(شیطان ساتھی)۔
قرین کا کام یہ ہے
کہ وہ ہر وقت انسان کو برائی کی طرف مائل کرے، وسوسے ڈالے، اللہ سے غافل کرے، تاکہ
انسان کے اندر کشمکش پیدا ہو — اور یہی کشمکش دراصل آزمائش ہے۔
1.
وسوسہ ڈالنا:
قرین
کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کے دل میں برے خیالات اور وسوسے ڈالے، جیسا کہ سورۃ
الناس میں ذکر ہے:
الَّذِي يُوَسْوِسُ
فِي صُدُورِ النَّاسِ
جو
لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔
2.
گناہوں کی ترغیب:
وہ
انسان کو برائی کی طرف مائل کرتا ہے، نافرمانی پر آمادہ کرتا ہے، اور اچھے کاموں
سے روکتا ہے۔
3.
قیامت کے دن براءت:
قیامت کے دن وہ
کہے گا کہ میں نے صرف بہکایا تھا ، اختیار انسان کا اپنا تھا۔
"وَقَالَ
الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ
وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْۚ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ
إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا
أَنفُسَكُم " (سورۃ ابراہیم: 22)
"اور جب
فیصلہ ہو چکے گا، تو شیطان کہے گا: بیشک اللہ کا وعدہ سچا تھا، اور میں نے جو تم
سے وعدے کیے تھے، وہ جھوٹے تھے۔ میرا تم پر کوئی زور (جبر) نہیں تھا، سوائے اس کے
کہ میں نے تمہیں بلایا، تو تم نے میری بات مان لی۔ پس مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ
اپنے آپ کو ملامت کرو۔"
جیسا کہ اس آیت
قرآنی سے ثابت ہے کہ قرین کی موجودگی کسی جبر کی شکل میں نہیں، بلکہ آزمائش کی شکل
میں ہے۔وہ برائی کا مشورہ دیتا ہے، مگر
انسان کو اختیار دیا گیا ہے:
"إِنَّا
هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا"(سورۃ الدہر: 3)
"ہم نے
اسے راستہ دکھا دیا، اب چاہے شکر گزار بنے یا ناشکرا۔"
انسان اپنا تحفظ
کیسے کرے؟
اسلام انسان کو یہ
سکھاتا ہے کہ قرین اور شیطان کے وساوس سے بچنے کے لئے انسان مندرجہ ذیل امور کا
خیال رکھے :
·
اللہ کی پناہ
مانگے:
"أَعُوذُ
بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ" کہنا ایک ہتھیار
ہے۔
·
ذکر اور نماز کا
اہتمام:
کثرتِ
ذکر اور نماز شیطان سے حفاظت کرتی ہے۔ درحقیقت جب انسان غفلت کا شکار ہوتا ہے تو
وہی لمحہ قرین کے حملہ کا بہترین وقت ہوتاہے جیسا کہ قرآن مجید فرقان حمید میں ہے:
وَمَن
يَعْشُ عَن ذِكْرِ ٱلرَّحْمَـٰنِ نُقَيِّضْ لَهُۥ شَيْطَـٰنًۭا فَهُوَ لَهُۥ
قَرِينٌ(الزخرف: 36)
اور جو
شخص رحمٰن کی یاد سے غافل ہوتا ہے، ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں، جو
اس کا ساتھی (قرین) بن جاتا ہے۔
یہ آیت واضح کرتی
ہے کہ غفلت کی حالت میں انسان کو شیطان کا ساتھی (قرین) بنا دیا جاتا ہے، جو پھر
اسے گمراہ کرتا ہے۔
·
علم و شعور (علم
نافع):
علم کا نور شیطانی
وسوسوں کے خلاف ڈھال ہے:
جب انسان دین کا
صحیح علم حاصل کرتا ہے — جیسے قرآن، سنت، عقائد، حلال و حرام کا فہم — تو وہ باطل
اور گمراہی کو پہچاننے لگتا ہے۔ یہی شعور انسان کو قرین (شیطان) کی چالوں سے محفوظ
رکھتا ہے۔
"إِنَّمَا يَخْشَى
اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ" (سورۃ فاطر: 28)
"اللہ سے سب سے زیادہ
ڈرنے والے اس کے وہ بندے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔"
وسوسوں کو پہچاننے
کی صلاحیت:
علم انسان کو یہ
شعور دیتا ہے کہ وہ دل میں آنے والے خیالات کو پرکھ سکے — کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں
یا شیطان کی طرف سے؟
·
نیک لوگوں کی صحبت
(صالحین کی رفاقت):
نیکی کی ترغیب:
نیک لوگ ہمیشہ خیر
کی طرف بلاتے ہیں، اور ان کی موجودگی میں انسان کو برائی سے شرم آتی ہے۔ یوں قرین
کے وسوسے کمزور پڑ جاتے ہیں۔
"المرءُ على دينِ
خليلِه، فلينظُرْ أحدُكم مَن يُخاللُ"(سنن أبي داؤد، حدیث: 4833)
"آدمی اپنے دوست کے
دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص دیکھے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔"
ماحول کا اثر:
اگر انسان نیک
مجالس میں جائے،صالحین کی صحبت اختیار کرے، علما کی مجلس میں بیٹھے، تو اس کا دل
صاف ہوتا ہے اور شیطان کی راہیں بند ہونے لگتی ہیں۔
·
قرین کی طاقت و
کمزوری کا راز:
قرین (شیطان) اس
وقت زیادہ طاقتور ہوتا ہے جب انسان:
غفلت میں ہو،جہالت
میں ہو،تنہائی اور گناہ میں پڑا ہو،بُری صحبت میں ہو
اور وہ اس وقت
کمزور ہوتا ہے جب انسان:
ذکر کرنے والا ہو،علم
والا ہو،نیک دوست رکھتا ہو،باقاعدہ عبادت گزار ہو
خلاصہ کلام :
قرین کا وجود ایک
روحانی حقیقت ہے جوقرآن و سنت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل، وحی، اور
نبیوں کی رہنمائی عطا کی ہے تاکہ وہ قرین کی وسوسہ اندازی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو
سکے۔ شیطان کی موجودگی آزمائش ضرور ہے، مگر اس کے خلاف جدوجہد انسان کو بلند مقام
عطا کرتی ہے۔
Post a Comment