حاتم طائی
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ملک یمن میں طے نامی ایک قبیلہ رہتا
تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی اپنی سخاوت اور خدمت خلق کے
باعث بہت مشہور تھا۔ اُس کی سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں
عرب کا حکمران نوفل تھا۔ نوفل نے جب دیکھا کہ ہر طرف حاتم حاتم طائی کے ہی چرچے ہیں۔
ہر کوئی اس کی نیکی اور اچھائی کے گن گاتا ہے۔ ہر ضرورت مند مدد کے لیے حاتم کے پاس
ہی جاتا ہے تو بادشاہ حاتم کا دشمن بن گیا۔ وہ حاتم سے جلتا تھا کہ بادشاہ ہوتے ہوئے
بھی حاتم کی شہرت اس سے زیادہ تھی۔
بادشاہ نے حاتم کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا۔ اُس نے اپنی افواج
کے ساتھ حاتم کے علاقے پر حملہ کر دیا۔ حاتم کو جب یہ معلوم ہوا کہ بادشاہ نے ایک بڑی
فوج کے ساتھ اُس کے علاقے پر حملہ کر دیا ہے تو حاتم نے یہ سوچ کر کہ صرف اُس کی وجہ
سے خون خرابہ ہو گا ۔ بے شمار بے گناہ لوگ مارے جائیں گے۔ اُس نے اپنا شہر چھوڑنے کا
فیصلہ کیا۔ حاتم اپنا شہر چھوڑ کر پہاڑوں میں جا کر روپوش ہو گیا۔ بادشاہ اپنی فوج
کے ساتھ جب شہر میں داخل ہوا تو کسی نے اس کی فوج کا مقابلہ نہ کیا کیونکہ حاتم طائی
شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بادشاہ نے حاتم کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے ساتھ
ہی بادشاہ نے یہ اعلان کر دیا کہ جو کوئی حاتم کو ڈھونڈ کر لائے گا اُس کو بہت بڑا
انعام دیا جائے گا۔
حاتم نے اپنا شہر چھوڑ کر پہاڑ کی ایک کھوہ میں پناہ لے رکھی
تھی۔ ایک روز اُسی کھوہ کے قریب ایک بوڑھا لکڑ ہارا اور اُس کی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے
تھے۔ وہ نہایت غریب تھے ۔ مشکل سے زندگی بسر کرتے تھے ۔ روز روز آ کر جنگل سے لکڑیاں
کاٹ کر شہر لے جانا ان کے لیے کافی مشکل تھا۔ لیکن کیا کرتے اس کے بغیر کوئی چارہ بھی
نہ تھا۔ روز روز کی محنت و مشقت سے تنگ آئی ہوئی لکڑ ہارے کی بیوی نہایت حسرت ناک لہجے
میں بولی۔
" کاش حاتم ہمارے ہاتھ لگ
جائے تو ہم اسے بادشاہ کے حوالے کر کے انعام پائیں اور روز روز کی اس مصیبت سے نجات
پائیں ۔" بیوی کی بات سن کر بوڑھا لکڑ ہارا بولا ۔ فضول کی باتیں مت سوچ۔ ہماری
ایسی قسمت کہاں کہ حاتم ہمارے ہاتھ لگ جائے ۔ ہمارے نصیب میں تو یہی لکھا ہے کہ ہم
جنگل سے لکڑیاں کاٹیں، سر پر رکھ کر شہر لے جائیں اور ان کو فروخت کر کے اپنا پیٹ بھریں۔
اس لیے ایسا سوچنا چھوڑ دو، جلدی کرو کہ گرمی زیادہ ہونے سے پہلے ہم لکڑیاں کاٹ کر
واپس لوٹ جائیں۔"
حاتم طائی کھوہ کے اندر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔ یہ باتیں
سن کر حاتم دل میں خوش ہوا کہ چلو میں اس بے سرو سامانی کی حالت میں کسی کے کام آسکتا
ہوں ۔ چناں چہ وہ کھوہ سے باہر آیا اور بولا: " میں ہی حاتم ہوں ۔ مجھے بادشاہ
کے پاس لے چلو۔ مجھے بادشاہ کے حوالے کر کے انعام حاصل کرو۔ جلدی کرو اگر کسی اور نے
مجھے دیکھ لیاتو پھر تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گئے"۔
اُس کی باتیں سن کر لکڑ ہارا ہوں ۔ تمھارا بہت شکریہ ابے شک
ہم غربت کے ستائے ہوئے ہیں مگر اتنے ظالم نہیں کہ تمھیں بادشاہ کے حوالے کر کے انعام
حاصل کریں ہم اسی طرح محنت مزدوری کر کے زندگی کے دن کاٹ لیں گے۔ اپنے آرام کی خاطر
یہ ظلم نہیں کریں گے ۔" لکڑ ہارے کی باتیں سن کر حاتم نے کہا۔ "ارے بھائی
! یہ ظلم نہیں ۔ تم مجھے زبر دستی پکڑ کر تو نہیں لے جارہے ہو۔ میں تو اپنی خوشی سے
تمھارے ساتھ جانے کو تیار ہوں۔ تمھارا یہ احسان ہوگا کہ تم مجھے نیکی اور خدمت کا موقع
دو گے۔" حاتم نے ان کو آمادہ کرنے کی کافی کوشش کی لیکن لکڑ ہارا کسی صورت تیار
نہ ہوا تو حاتم نے اُس سے کہا کہ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میں خود بادشاہ کے
پاس جاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ بوڑھے نے مجھے چھپایا ہوا تھا۔ پھر خود بادشاہ تمھیں
سزا دے گا۔
لکڑ ہارا اور حاتم اس بحث میں مصروف تھے کہ کچھ اور لوگ حاتم
کو تلاش کرتے ہوئے ادھر آ نکلے۔ اُنھوں نے حاتم کو پہچان لیا اور پکڑ کر بادشاہ کے
پاس لے گئے ۔ بوڑھا اور اُس کی بیوی بھی ان لوگوں کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ بادشاہ کے
دربار میں پہنچ کر ہر شخص یہ دعوی کرتا تھا۔ کہ حاتم کو اُس نے پکڑا ہے۔ وہی انعام
کا مستحق ہے۔ بہت سارے دعوے داروں کی وجہ سے بادشاہ کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا
تھا کہ حاتم کو پکڑنے والا کون ہے؟ بالآخر بادشاہ نے حاتم سے کہا کہ تم ہی بتاؤ کہ
تمھیں پکڑ کر لانے والا کون ہے؟ تاکہ اُسے انعام کی رقم دی جائے۔ بادشاہ کی بات سُن
کر حاتم بولا۔ " حضور والا! سچ تو یہ ہے کہ مجھے پکڑنے والا وہ بوڑھا لکڑ ہارا
ہے جو چپ چاپ پیچھے کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ باقی یہ سب لوگ جھوٹے ہیں اور انعام
کے لالچ میں جھوٹ بول رہے ہیں۔"
حاتم کا جواب سن کر لکڑ ہارا بولا۔ " حضور والا! سچ تو
یہ ہے کہ میں بھی حاتم کو پکڑ کر نہیں لا یا بلکہ یہ خود آیا ہے۔" پھر لکڑ ہارے
نے بادشاہ سلامت کو ساری تفصیل بتائی کہ کس طرح لکڑیاں کاٹتے وقت اُس کی بیوی نے کہہ
دیا تھا کہ اگر حاتم ان کو مل جائے تو وہ اسے بادشاہ کے حوالے کر کے انعام پائیں اور
مصیبت کی زندگی سے نجات پائیں ۔ حاتم ہماری باتیں سن کر پہاڑ کی کھوہ سے باہر نکل آیا
اور اصرار کرنے لگا کہ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں اور انعام پائیں۔ ہم کسی طرح
بھی حاتم کو لانے پر تیار نہ ہوئے تو وہ خود ہی آپ کے پاس آنے کے لیے چل پڑا۔ دوسرے
لوگ تو ویسے ہی ساتھ چل پڑے۔ اب یہ سب انعام کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں۔
بادشاہ کو جب حقیقت معلوم ہوئی تو اُس نے حاتم سے کہا میں ویسے
ہی تمھاری شہرت سے تمھارا دشمن بن گیا تھا۔ مجھے اپنے کیے کا افسوس ہے۔ تم واقعی عظیم
انسان ہو جو ہر حال میں دوسروں کی مدداور خدمت کے لیے تیار رہتے ہو۔
اس کے بعد بادشاہ نے لکڑ ہارے کو انعام دیا اور جھوٹے دعویداروں
کو سزادی۔ اور حاتم کا سارا علاقہ اُسے واپس کرنے کا اعلان کیا۔
Post a Comment