فلسفہ صحت/صحت کی بنیاد
شہید حکیم محمد سعید
بہت
سے فلسفے ہیں ۔ ایک فلسفہ اخلاق وکردار ہے، ایک فلسفہ سیاسی سائنس کا ہے۔ مذہب کا
ایک فلسفہ ہے اور اسی طرح اور بہت سے فلسفے ہیں ، لیکن بہت کم لوگ اس بات پر غور
کرتے ہیں کہ ایک فلسفۂ صحت بھی ہے اور اگر
یہ فلسفہ لوگوں کے ذہن میں نہیں ہے، تو ہونا چاہیے۔ بڑی حیرت اور افسوس کی بات یہ
ہے کہ مروجہ طب جدید کے دماغوں میں بھی صحت کا کوئی فلسفہ نہیں ہے اور اگر کچھ ہے
بھی تو وہ اس پر عامل نہیں ۔ ان کی ساری فکر جراثیم، ڈرگس اور سرجری کے گرد گھومتی
ہے، جو کسی فلسفے کے تحت نہیں ہے۔ اس کو کسی طرح صحت کا فلسفہ نہیں کہا جا سکتا ۔
طب مشرق کے متعلق اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ نِرا
فلسفہ ہے، لیکن یہ ایک جامع ، ہمہ گیر اور مبنی بر حقیقت فلسفہ ہے۔ یہ پہلے جتنا
مبنی برحقیقت تھا ، آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ یہ ایک ایسی سیدھی اور صاف راہ
ہے، جو ہر قسم کے خطرات سے پاک و صاف ہے ۔ صرف ایک کلیہ یا مفروضہ نہیں، بلکہ
حقیقتِ ثابتہ ہے۔ یہ طب مشرق کا فلسفہ قانون قدرت اور آئین فطرت پر مبنی ایک نا
قابل تغییر و ترمیم دستور صحت ہے۔ اس فلسفے کو مغرب میں قدرتی علاج کے عاملین از
سر نو رائج کرنے کے لیے مخلصانہ کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ امراض جن کو طب مغرب میں لا
علاج قرار دیا جاچکا ہے، قدرتی علاج سے جو طب مشرق کے طریقہ علاج کے سوا کچھ نہیں
ہے، صحت یاب ہو رہے ہیں اور قدرتی علاج کی مقبولیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ طب
مغرب کے عاقبت نا اندیش عاملین اور مفاد پرست سرمایہ کارو تاجر اُن کی راہ کو اسی
طرح روکنے کے درپے ہیں، جس طرح ہمارے ملک میں طب مشرق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی
جاتی ہیں ۔
طب جدید کی سائنس صرف مرض کی سائنس ہے، صحت سے کوئی
واسطہ نہیں ۔ اس کا علم حفظ صحت بھی مرض ہی کے گرد گھومتا ہے۔ بے راہ روی، نفس
پرستی اور ناہموار عادات و اطوار کا اصول وضابطے سے کوئی واسطہ قدر تا نہیں ہوتا ۔
صحت بازار میں نہیں بکتی۔ دولت بسا اوقات حصولِ صحت میں معاون ہونے کے بجائے مضر
ثابت ہوتی ہے۔ دولت مند انسانوں میں سے آپ شاذ و نادر ہی کسی شخص کو صحت مند و
توانا پائیں گے۔ امریکا، دیگر مغربی ممالک اور خود ہمارے ملک کے دولت مندوں کی صحت
اس کی شاہد ہے۔
جیسا
کہ ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں ۔ طب مغرب صحت کے بجائے مرض سے بحث کرتی ہے۔ مرض اس
کے نظریے کے مطابق جراثیم اور وائرس سے پیدا ہوتا ہے اور دوائیں مرض کی علامات سے
دست وگریباں ہو کر ان کو دفع کر دیتی ہیں۔ دواؤں کا بھی ایک مقام ہے، لیکن ان کا
تعلق مرض سے ہے، صحت سے نہیں ۔ صحت کا حقیقی فلسفہ زندگی کے قانون اور آئین فطرت
پر مبنی ہے۔ صحت ایک قدرتی حالت اور فطری چیز ہے، جو قوانین فطرت پر عمل کرنے سے
ہی برقرار رہ سکتی ہے۔ اصول فطرت پر عمل ضبط نفس یعنی اپنی ذات پر کنٹرول کے بغیر
ممکن نہیں ۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، تو اس کے یہ معنی
نہیں کہ یہ امن وسلامتی کا کوئی ایسا راستہ ہے، جس پر انسان بے روک ٹوک اور خود
بخود چلتا رہ سکتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نظام قدرت کے عین مطابق ہے
اور امن وسلامتی اور صحت و عافیت کا مدار قانون قدرت کے مطابق عمل کرنے میں ہے اور
خود قانون قدرت یہ ہے کہ انسان کی فلاح اپنے مالک کی مرضی کے مطابق زندہ رہنے اور
اس کا بندہ بنے رہنے میں ہے اور آزادی، خودرائی، خود بینی ، خودآرائی اور خود
پرستی میں نہیں ہے۔
بڑی
جھجک کے بعد یہ بات عرض کر رہا ہوں ، کیوں کہ میرا تجربہ ہے کہ عہد حاضر کی طبائع
اس بات کو قبول کرنے کی طرف مائل نہیں ہیں ، بلکہ اس بات کو سننا بھی گوارا نہیں
کرتے کہ قانونِ قدرت تن آسانی پر مبنی نہیں، بلکہ دشوار طلب ہے۔ تکلیف کا نتیجہ
راحت ہے۔ فلاح قانونِ قدرت سے آزادی میں نہیں، بلکہ گرفتاری میں ہے۔ لذت اندوزی کا
نتیجہ ہمیشہ اذیت و کوفت کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس کے بر عکس جدید سائنس کی فکر صرف
تن آسانی و تن پروری یا دشمن کو فنا کر کے اسباب کی فراہمی کے محور کے گرد گھومتی
ہے۔ جسم کے اندر جراثیم کو ہلاک کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔
مذہب
اسلام میں صحت وصفائی کے جو اصول سکھائے گئے ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر
اسلام ﷺ اسباب مرض اور جراثیم کے عمل سے پورے طور پر واقف تھے ۔ اسلام میں اسی لیے
کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا ضروری ہے، خواہ تھوڑی دیر پہلے ہی وضو کیا گیا ہو اور
کھانے کے لیے ہاتھ دھونے کے بعد کپڑے سے ہاتھ پو نچھنے کو منع کیا گیا ہے ، مگر
آنحضرت نے اس کو جنون کی طرح انسانوں پر مسلط نہیں کیا اور ہر بات کو حداوسط پر
رکھا ہے اور جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔
صحت کے قیام کے لیے زندگی کے قدرتی اصولوں کو
سیکھنا اور اُن پر عمل کرنا لازمی ہے ۔ یہ جاننا لازمی ہے کہ صفائی کے اصول کیا
ہیں، ہمیں کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔ کس طرح کھانا چاہیے اور کب
کھانا چاہیے ۔ پچھلے زمانے میں انسان کو جینے کے لیے لازماً جسمانی محنت کرنی پڑتی
تھی۔ معدودے چند ( قلیل تعداد افراد کے سوا کسی کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ آرام
سے بیٹھا یا لیٹارہے)۔ سفر ہوائی جہاز کے بجائے گھوڑے یا اونٹ کی پشت پر یا پیدل
کیا جاتا تھا۔ اُس وقت کے امیر بھی شہسواری کے فن میں ماہر ہوتے تھے ۔ اُن کی
زندگی بیش تر فطری اور سپاہیانہ تھی اور ان کی صحت مشینوں کی قربان گاہ کے بھینٹ
نہیں چڑھی تھی ۔
میں
اکثر سوچتا ہوں اور دیر تک سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آخر اس جدید تہذیب کے ہنگامے کا
ماحصل کیا ہے؟ انسان کیوں ان بے ثبات اور منفی قدروں پر جان نثار کر رہا ہے۔ وہ
سوچتا کیوں نہیں یا کیوں نہیں سوچ سکتا ؟ کیا واقعی اس جدید سائنسی تہذیب نے انسان
کو صحت و عافیت یا دل و دماغ کے سکون و راحت سے ہم کنار کر رکھا ہے؟ حالات کا
جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ دنیا جس طرح آج کرب و
الم اور بے یقینی کی حالت میں مبتلا ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ پھر بھی انسان اسی حالت
پر اپنی جان فدا کیے ہوئے ہے اور اس سے باہر نہیں آنا چاہتا، بلکہ ہر پہلو سے اس
میں اضافے کے در پے ہے۔ جب تک وہ اپنے نظریے کو نہیں بدلے گا اور آئین قدرت کی
پابندی نہیں کرے گا ، موجودہ روش اس کو صحت سے دور تر کرتی چلی جائے گی اور اس
سیلاب بلا کو روکنے میں کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوگی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سبب
کو روکا جائے ۔ علامات کے تدراک سے ہرگز کام نہیں چلے گا اور سبب ہے آئینِ فطرت سے
بغاوت ! جس کے صاف معنی ہیں خدا سے بغاوت ۔ سبب، پر فکر آخر میں مسبب الاسباب
تک لے جاتی ہے اور اس کو تسلیم کر لینے سے جینے کا مزا کر کر ا ہو جاتا ہے اور
ساری شیخی دھری رہ جاتی ہے۔ جب تک نفس پرستی ، لذت کوشی اور تن آسانی کو چھوڑ
کر خدا پرستی کو اختیار نہیں کیا جائے گا ، انسان کے مسائل میں سے کوئی مسئلہ حل
نہیں ہوگا ، جن میں سے ایک مسئلہ انسان کی جسمانی صحت کا بھی ہے۔ جب تک خدا
پرستی کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا، انسانی زندگی کے مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر
ہوتے چلے جائیں گے۔ خدا کو مانے بغیر بھی آئین فطرت پر جو کہ قانون خدا وندی ہے
عمل ممکن ہے۔ صحت کے متعلق خدا کے قانون پر عمل کرنے سے جسمانی صحت تو مل جائے گی
لیکن خدا کو تسلیم کیے بغیر روح علیل رہے گی اور کسی قوم کے اندر ایسی صحت ایک
قلیل مدت کی بہار ہوگی ۔ روح کا مرض بال آخر اس کو پچھاڑ دے گا اور وہ قوانین صحت
پر بھی زیادہ دن تک کار بند نہیں رہ سکے گی۔ قوت حیات یعنی زندہ رہنے کی استعداد
جو جسم کو خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے اور اسی کی طرف سے مقرر ہے جب کم ہو
جاتی ہے تو اس میں مرض کو قبول کرنے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
ہر مرض کا بنیادی اور اولین سبب قوت حیات کا ضعف ہے اور مرض کو دور کرنے کا منطقی
طریقہ صرف یہ ہے کہ قوت حیات کو تو انا کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ بات صرف پر
ہیز گاری اور ضبط نفس ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ ہم صرف قوانین قدرت پر عمل کر کے مرض
سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں، خاص طور پر مزمن امراض پر یہ بات صادق آتی ہے۔
محض دوا سے کسی مزمن مرض کا استیصال ( قلع و قمع ) ممکن نہیں ۔ صحت کی بحالی کی )
سمت پہلا قدم یہ ہے کہ ہر قسم کی بد پرہیزی یعنی اُن تمام بُری عادات کو ترک کیا
جائے ، جو صحت اور قوت حیات کو تباہ کرنے والی ہیں ۔ بُری عادات نفسیاتی بھی ہو
سکتی ہیں اور جسمانی بھی۔ ان دونوں اقسام کی بُری عادات ترک کر کے ہی ہم صحت
بحال کر سکتے ہیں ۔ صحت بحال کرنے کا دوسرا کوئی اور طریقہ اس عالم میں نہیں پایا
جاتا اور نہ عقلاً ممکن ہے۔ کسی چیز کی تخریب کے ساتھ اس کی تعمیر قطعاً خلاف عقل
ہے، ایک وقت میں تخریب و تعمیر کو جمع نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر آپ در حقیقت صحت کے
طالب ہیں، تو آپ کو لازماً ایسی عادات اختیار کرنا ہوں گی، جو صحت بخش ہوں ۔ اگر
آپ ان پر باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ عمل کرنا شروع کر دیں اور مسلسل عمل کرتے
رہیں، یہاں تک کہ وہ آپ کی زندگی کا لازمی و مستقل جزو بن جائیں ، تو آپ صحت کی
نعمتوں سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ ابتدا ءًہر کام کی مشکل ہوتی ہے۔ مشکل سے مشکل کام
مشق و مزاولت سے آسان ہو جاتا ہے اور بالآخر بلا مزاحمت خود بخود ہونے لگتا ہے اور
آپ اس کو غیر شعوری طور پر بلا قصد وارادہ کرنے لگتے ہیں۔
صحت
جسم کی طبعی حالت ہے۔ کیا یہ بتانے کی بات ہے کہ صحت سے بڑی اہم اور آرام وہ
کوئی دولت و راحت نہیں صحت کے بغیر بادشاہت بھی بے کار ہے۔
اکتوبر ۲۰۲۴ء
Post a Comment