قرآن کا عورت کو اعزاز: بقاء اور فراق دونوں میں

انسانی تعلقات میں سب سے زیادہ نازک اور حساس رشتہ میاں بیوی کا ہے۔ اس رشتے کی بنیاد محبت، اعتماد اور باہمی احترام پر پڑتی ہے۔ مگر زندگی ہمیشہ ایک ہی ڈگر پر نہیں چلتی؛ کبھی ساتھ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی جدائی ناگزیر ہو جاتی ہے۔

ایسے موقعوں پر قرآنِ کریم نے ایسا جامع اور بلند اخلاقی اصول دیا ہے جس کی مثال کسی انسانی قانون میں نہیں ملتی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"فإمساكٌ بمعروفٍ أو تسريحٌ بإحسان"

یعنی: یا تو بھلے طریقے سے ساتھ رکھو، یا پھر بہترین انداز میں رخصت کرو۔

معروف––ساتھ رکھنے کا معیارِ زندگی

’’معروف‘‘ سے مراد وہ بھلائی، انصاف، توجہ اور حسنِ سلوک ہے جس پر ایک خوشگوار ازدواجی زندگی قائم ہوتی ہے۔

یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ عورت کو وہ تمام حقوق دے جن سے اس کی عزت، سکون اور اعتماد قائم رہے۔ یہی معیار زندگی کو قابلِ برداشت نہیں، بلکہ قابلِ محبت بناتا ہے۔

احسان––جدائی کی اعلیٰ ترین اخلاقیات

لیکن جب راستے الگ کرنا پڑیں، جب دلوں میں ہم آہنگی باقی نہ رہے، تب قرآن ایک حیرت انگیز مطالبہ کرتا ہے:

صرف انصاف نہیں، صرف حقوق نہیں… بلکہ احسان۔

احسان وہ درجہ ہے جو عام انسانوں کے لیے نہیں، بلکہ اُن تعلقات کے لیے مخصوص ہے جنہیں اللہ نے خاص حرمت دی ہے۔
اپنی عظمت میں یہ وہی درجہ ہے جو والدین کے لیے مقرر کیا گیا:

"وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا"

گویا جدائی کے وقت عورت کے ساتھ نرمی، عزت اور احترام کا وہی بلند معیار مطلوب ہے جس کا حکم اللہ نے والدین کے بارے میں دیا۔
یہ صرف قانون نہیں، یہ اخلاق کا اوجِ کمال ہے۔

عورت کا حقیقی مقام

قرآن عورت کو دوہرا اعزاز دیتا ہے:

  • ساتھ رکھو تو حق کے ساتھ۔
  • رخصت کرو تو فضل و کرم کے ساتھ۔

یہ تعلیم بتاتی ہے کہ عورت کی عزت حالات کی تابع نہیں ہے۔ وہ چاہے گھر میں رہے یا رخصت کر دی جائے، اس کی حرمت ہر صورت قائم رہتی ہے۔

فراق—اصل اخلاق کا امتحان

اصل آزمائش یہی لمحہ ہے۔


کیونکہ جدائی وہ موقع ہوتا ہے جب انسان کا اصل باطن سامنے آتا ہے۔

سالوں کی رفاقت انسان کو اتنا نہیں پرکھتی جتنا ایک لمحے کی جدائی پرکھتی ہے۔

مرد کی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ کب تک ساتھ رہا… بلکہ یہ ہے کہ جدا ہوتے وقت اس نے عورت کے دل میں کیا نقش چھوڑا؟
کیا اس نے زخم دیا یا عزت؟

کیا تلخی چھوڑی یا نرمی؟

کیونکہ وداع اخلاق کا آئینہ ہوتا ہے۔

قرآن کی حکمت

یہ ایک آیت دراصل ساری ازدواجی زندگی کا اخلاقی منشور ہے۔

یہ عورت کے ہاتھ کو تھامتی ہے اگر وہ گھر میں رہے،

اور اس کے دل کو سہارا دیتی ہے اگر وہ رخصت ہو۔

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ عورت کی حرمت لمحوں، جذبات یا حالات کی مرہونِ منت نہ ہو،

بلکہ ہر حال میں محفوظ، معزز اور بلند ہو۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post