وہم: حقیقت یا تخیل
ایک دفعہ ایک کسان
حکیم سے ملنے اس کے گھر گیا، کھانے کے وقت حکیم نے اپنے مہمان سے اصرار کیا کہ وہ
اس کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھے۔ڈائننگ روم میں مدھم روشنی کا انتظام تھا۔کسان کا کھانا جب ختم ہونے والا
تھا اس کی نظر پلیٹ پر پڑی تو اسے سوپ کی پلیٹ میں ایک چھوٹا سا سانپ نظر آیا ۔کسان
پہلو بدلنے لگا اور بے چین ہوگیا۔لیکن اس نے اس خیال کا اظہار حکیم سے نہ کیااورخاموش
رہا ۔پھروہاں سے اٹھااور الوداع کہہ کر آگیا۔ اس تمام عرصہ میں میں کسان کے ذہن میں وہم
بڑھتا گیا کہ کھانے میں سانپ گرا ہواتھا!
جب وہ اپنے گھر واپس آیا، اس وقت تک اس کے پیٹ میں
انتہائی تیز دردہورہاتھا ۔اس وجہ سے اسے رات بھر نیندبھی نہیں آئی۔اس نے دل میں سوچا یہ زہر کا اثر ہے۔اس طرح سوچ سوچ کر اس کی طبیعت
مزیدبگڑنے لگی۔
صبح جب درد برداشت
سے باہر ہوگیا وہ دوبارہ حکیم کے پاس آیا تاکہ وہ اس کی بیماری کا علاج کرے۔اس نے
رات کا ماجرہ اور اپنا شبہ بھی بیان کیا۔ جب حکیم نے اس کی بات سنی وہ ہنسا اور اس
سے کہا کہ تھالی میں کوئی سانپ نہیں بلکہ سانپ کا عکس ہے۔ وہ اسے کھانے کے کمرے میں
لے گیا جہاں چھت پر ایک ڈرائنگ بنی ہوئی
ہے جس کا عکس پلیٹ پرپڑتا تھا وہ ایک
حقیقی سانپ کی مانند نظرآتاتھا ۔ حکیم نے پلیٹ ڈرائنگ کے نیچے سے ہٹا کررکھی اور
کسان سے کہا : غور سے دیکھو، کیا کوئی سانپ ہے؟
کسان نے کہا: نہیں۔
اس کے بعدحکیم نے
پلیٹ کوڈائننگ ٹیبل پر رکھا جہاں چھت پر ڈرائنگ بنی ہوئی ، اور اس میں سانپ کی تصویر
جھلکنے لگی، پھر اس نے کہا: سانپ صرف تمہارا وہم ہے!
حیرت انگیز جب کسان کو حقیقت کا علم ہوااس کا پیٹ کا درد ختم ہو گیا!
ابن سینا کا قول
ہے : وہم آدھی بیماری ہے، یقین آدھا علاج ہے اور صبر(پرہیز) صحت یابی کی پہلی سیڑھی ہے۔
Post a Comment