پرانے وقتوں کی بات ہے کسی شہر میں رشوت خور اور ظالم قاضی رہتا تھا۔ وہ
نہایت ذہین و عیارتھا لیکن وہ یہ
ذہانت عوام الناس کی فلاح کے بجائے اپنی منفعت(رشوت خوری و ظلم) کے لئے استعمال
کرتا۔ وہ نت نئے طریق اور علمی موشگافیوں سے مقدمہ دائر کرنے والوں کو خاموش
کرادیتا۔بلکہ بسا اوقات مقدمہ دائر کرنے والا
حق پر ہونے کے باوجود بھی اس کی عدالت سے سزا پاکراور جرمانہ اداکرکے نکلتا
۔اور جس پرمقدمہ دائر کیاگیا ہو وہ رشوت دینے کے سبب مجرم ہونے کے باوجودآٹے میں سے بال کی طرح بچ کرنکل
جاتاہے۔ ایسا ہی ایک قصہ یہاں منقول ہے ۔اس قصے کو دورحاضر پر منطبق کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
ایک شخص ذبح کی
ہوئی مرغی کٹوانے اور صاف کرانے کے لئے چکن
شاپ پر لایا۔
چکن شاپ کے مالک
نے ا سے 30 منٹ کا وقت لیا اور کہا جب واپس آؤ گے تمہیں چکن تیار ملے گا۔
مرغی کا مالک
چلاگیا ۔
اسی اثنا میں شہر کا قاضی چکن شاپ پر آیا اور مرغی طلب کی ۔
مرغی کے مالک نے
کہا: معاف کیجیے جناب، میرے پاس صرف یہ ایک ہی مرغی ہے، اور یہ کسی کی امانت ہے ۔
قاضی نے کہا: مجھے
دے دو۔
چکن والا: یہ کیسے
ممکن ہے جب کہ اس کا مالک آتا ہی ہوگا۔میں اسے کیا جواب دوں گا۔
قاضی: اگر اس کا
مالک آئے تو اسے بتا دینا کہ مرغی اڑ گئی ہے۔
چکن والا: ایسا کرنا ناممکن ہے، جناب؟ وہ اسے ذبح کر کے لایا
تھا۔اب میں اسے کیسے بتاؤں کہ مرغی اڑ گئی
؟
قاضی : میں جو
کہتا ہوں ویسا ہی کرو۔پریشان نہ ہوں، اگر
وہ آپ کی شکایت کرنا چاہتا ہے تو پرواہ نہ
کرو۔
چکن والا: ٹھیک ہے جناب ۔
قاضی کے مرغی لے جانے کے بعد مرغی کا مالک واپس آگیا اور اپنی مرغی کا مطالبہ کرنے لگا ؟
چکن والا: تمہاری
مرغی اڑ گئی ہے۔
مرغی کا مالک: کیا
تم پاگل ہوگئے میں اسے ذبح کر کے لایاتھا۔اس کے بعد ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔
مرغی کا مالک: میرے
ساتھ قاضی کے پاس چلو تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے اور وہاں حقیقت سامنے آجائے
گی۔
چنانچہ وہ اسے لے
کر قاضی کے پاس لے جانے لگا ۔
راستے میں دو آدمی
آپس میں لڑرہے تھے۔
چکن والے نے لڑائی
روکنے کی غرض سے ان کو الگ کرنا چاہا لیکن
اس دوران اس کی انگلی ایک غلام کی آنکھ میں گھس گئی اوراس سے غلام کی
آنکھ ضائع ہوگئی ۔
لوگ اکٹھے ہو گئے
اور چکن والے کو پکڑلیا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ یہ پہلے ہی ایک مقدمہ کے سلسلے میں
قاضی کے پاس لے جایاجارہاہے تووہ بھی اس کے ساتھ جج کے پاس جانے کے لئے ساتھ ہولئے ۔
جوں جوں عدالت قریب آرہی تھی چکن والے کی پریشانی بڑھ
رہی تھی ۔اس نے سوچا قاضی نے تو ایک مقدمہ میں جان بچانے کا وعدہ کیا ہے دوسرے میں
کیا ہوگا۔ اس تذبذ ب و پریشانی میں وہ
وہاں سے بھاگ نکلا۔سب اس کے پیچھے
بھاگے ۔ وہ ایک دیوار پھاند کر دوسری جانب کود گیا۔دوسری جانب دیوار کے سائے میں ایک بوڑھاشخص لیٹا ہواتھا۔ چکن والا اس پر گرا،
جس کے نتیجے میں بوڑھا ہلاک ہوگیا۔اس کے بیٹے نے اپنے باپ کو دیکھا مر گیا، چنانچہ
وہ بھی اپنامقدمہ لے کر چکن والے کے ساتھ
قاضی کی جانب رواں دواں ہوگیا۔
وہ عدالت میں قاضی کے سامنے پیش ہوئے اورہرشخص نے اپنا مقدمہ بیان کیا۔ اس طرح چکن
والے پر تین مقدمے دائرہوئے:
مرغی چوری کرنا
غلام کی آنکھ
نکالنا
بوڑھے آدمی کو مار
ڈالنا
قاضی کو جب تین
مقدمہ کا معلوم ہوا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ
گیا ۔لیکن اس نے کہا کہ چلو ایک ایک کر کے کیسز لے لیتے ہیں۔
قاضی نے پہلے مرغی
کے مالک کو بلایا۔
قاضی: آپ چکن والے
کے خلاف اپنے مقدمے میں کیا کہتے ہیں؟
مرغی والا: قاضی صاحب
اس نے میری مرغی چوری کی۔ میں نے اسے ذبح کی
ہوئی مرغی دی اوریہ کہتا ہے کہ مرغی اڑگئی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
قاضی : کیا تم خدا
کو مانتے ہو؟
مرغی والا: ہاں، میں
اللہ پر ایمان رکھتا ہوں۔
قاضی : وہ ہڈیوں
کو زندہ کرتا ہے جبکہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوتی ہیں۔کیا ایسانہیں ہے؟
مرغی والا: ایسا
ہی ہے۔
قاضی: اٹھو چلے
جاؤ، تمہارےمقدمے میں جان نہیں ۔
مرغی والا چلا گیا۔
پھرقاضی نےدوسرا
مدعی بلایا ۔
غلام احاطہ عدالت میں داخل ہوا اور اس نے کہا، قاضی
صاحب ، چکن والے نے میری آنکھ ضائع کردی
ہے، اور میں اس کی آنکھ بھی نکالنا چاہتا ہوں جیسا کہ میرے ساتھ ہوا۔
قاضی: غلام کی دیت
آدھی ہے ، یعنی چکن والاتمہاری دوسری آنکھ بھی نکالے گا پھر اس کی ایک آنکھ تم
ضائع کردینا ۔
غلام:نہیں نہیں،
ٹھیک ہے، میں اب اس سے کچھ نہیں چاہتا۔
قاضی : تیسرا مقدمہ پیش کیاجائے!
مرنے والے بوڑھے کا بیٹا آیا اور کہنے لگا:قاضی صاحب، اس
شخص نے میرے باپ پر چھلانگ لگا کر اسے مار ڈالا۔
قاضی: ٹھیک ہے اس
کی سزا ضرور اسے ملے گی۔ اب تم اس دیوار
پرچڑھ کر چکن والے پرچھلانگ لگاؤ اور اسے ماردو۔
لڑکا: اگر وہ دائیں
یا بائیں حرکت کرے گا تو میں مر جاؤں گا۔
قاضی : یہ میرا
مسئلہ نہیں ہے، تمہارے والد نے دائیں بائیں کیوں ایسا نہیں کی؟
لڑکا: اچھا قاضی
صاحب میں اپنا مقدمہ واپس لیتا ہوں۔
آپ کتنے ہی بڑے مجرم کیوں نہ ہوں کوئی آپ کا بال بیکا بھی نہیں کرسکتا اگر آپ کے پاس جج کو دینے کے لیے۔۔۔
ہے؟
Post a Comment