انتہائی افسوناک خبر
نبیرہ صدر الشریعہ،
شہزادہ محدث کبیر، شیخ الحدیث حضرت علامہ مفتی عطاء المصطفیٰ اعظمی مکہ مکرمہ میں
ایک حادثہ میں شہید ہو گئے ہیں۔
استاد محترم مفتی
عطاء المصطفی صاحب علیہ الرحمہ کی تدفین
جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہو گی آپ گذشتہ دن طائف میں
روڈ حادثے میں جامِ شہادت نوش فرماگئے تھے ۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
استاذ العلماءصدر الشریعہ مفتی عطاء المصطفی اعظمی علیہ الرحمہ
مفتی عبدالرحمن قادری(ملاوی افریقہ)
ان کی وہ خصوصیات
جو آپ کو زمانے میں بہت کم یا بالکل نہیں ملیں گی۔
علم و عمل کا حسین
امتزاج، ہر وقت محنتی اور مصروف رہنے والے مدرس ، عالم، مفتی، شیخ الحدیث، پیر ، عامل ، امام اور کئی خوبیوں کا گلدستہ
تھے۔
باعمل اور متقی:
سب سے انفرادی خصوصیت آپ بہت ہی باعمل شخص تھے۔
حرام تو کجا ، جس چیز میں شبہ ہوتا ہے اس سے بھی لازما اجتناب کرتے۔
انبیاء کے وارث وہ
علماء کرام ہوتے ہیں جو اپنے علم پر عمل بھی کرتے ہوں ،اگر کوئی عالم دین اپنے علم
کے مطابق عمل نہ کرے ،بلکہ اپنے نفس کی خواہشات پر عمل کرے تو وہ انبیاء کے وارثین میں شامل نہیں ہوگا ۔میرے
بھائی کی شادی کی تقریب میں ہم نے حضرت کو کھانے کے بعد چائے کا کہا تو حضرت نے
منع فرمایا کہ میں نے ڈبے والا دودھ کبھی استعمال نہیں کیا کیونکہ اس کے کچھ کیمیکلز
سے میں مطمئن نہیں۔
زمانہ طالب علمی میں
حضرت نے ہمیں خود بتایا کہ ان کی بیٹی کی طبعیت بہت ناساز تھی۔ڈاکٹروں نے خون
چڑھانے کا کہا ۔حضرت نے فرمایا کہ اپنے اکابر کے فتووں کے مطابق "میں اس کو
حرام سمجھتا ہوں لہذا رہنے دیں۔ بیٹی کی جان سے زیادہ مجھے اللہ کا خوف ہے ، میں
حرام کا ارتکاب نہیں کرسکتا" بحمد اللہ،
قدرتی طور پر بچی شفایاب ہوگئ اور بقید حیات ہے آج اس بات کو 20 سال سے
زائد ہوگئے۔تصویر کشی پر حرام کا فتوی تھا تو زندگی بھر کوئ گروپ فوٹو ، ویڈیو ہر طرح کی تصویر سے بچتے رپے۔ مجھ سمیت کئی لوگ
ان موقف سے اختلاف کریں گے لیکن یہی حضرت کا وطیرہ تھا کہ جس پر وہ حرام کا فتوی دیتے
اور مانتے اس کے قریب بھی مت جاتے۔
مخلص:
متقی پرہیزگار
ہونے کی وجہ سے آپ کے تعویذات میں بہت اثر تھا۔ سینکڑوں لوگ روزانہ آپ سے استفادہ
کرتے ، کبھی بھی آپ نے اپنے تعویذات کی اجرت یا ذاتی فائدہ حاصل نہیں کیا۔
امامت:
بڑے عالم عموما مصروفیت کی وجہ سے امامت نہیں
کرتے یا کم نمازوں کی ذمہ داری لیتے ہیں مگر آپ کا شوق اور جذبہ تھا , ہمیشہ پنج
وقت نماز کی امامت فرمائ اور اس کو اپنے لئے سعادت اور سرمایہ سمجھتے تھے۔ ایک سال
دارالعلوم امجدیہ میں مجھے تراویح پڑھانے کی سعادت آپ کے توسل ہی سے ملی۔
مسند تدریس اور
فتوی نویسی:
ایسا لگتا ہے آپ تدریس ہی کیلئے پیدا ہوئے۔ صبح
شام تدریس کرنا۔ زمانہ طالب علمی میں، میں
نے حضرت سے فن میراث میں سراجی پڑھی، فرضی سوال بنا کر جوابات لکھے بنام
"العطایا الرضویہ فی الفتاوی الرحمانیہ" ۔ حضرت روزانہ کلاس کے دوران ہی
ہر مسئلہ کو بغور دیکھتے اور تصحیح و تصدیق فرماتے۔
بریک/ وقفہ کے
دوران ٹائم مانگا تو وہ بھی مل گیا اور حضرت سے ہدایہ کتاب الحج پڑھنے کی سعادت
حاصل کی ، مزید حضرت نے ہمیں کلاس میں اصول حدیث پر کتاب نخبۃ الفکر پڑھائی۔
ظہر تک پڑھاتے
رہتے اور ظہر پڑھانے کے بعد عصر تک آپ اور آپ کی اہلیہ خواتین کو عالم کورس
پڑھاتے۔
عصر سے عشاء تک آپ
لوگوں سے ملاقات کرتے، تعویذات بناتے، فتاوی لکھتے، عشاء سے لیکر دیر رات تک اپنے
قائم کردہ ادارے دارالعلوم صادق الاسلام میں تصدیق فرماتے۔
ام المدارس
دارالعلوم امجدیہ میں *مسند افتاء* پر مفتی
اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین علیہ الرحمہ کے بعد جس کا نام اور پہچان بنی وہ
بلاشبہ آپ اور مفتی عبدالعزیز حنفی صاحب ہیں۔
آپ کو فتوی نویسی
کرتے ہوئے 40 سال گزرگئے۔ اور آپ کے ہزاروں فتاوی جات 1989 سے 2000 تک تحریر کردہ
وہ ہیں جو آپ خود اپنے قلم سے بہت خوبصورت انداز میں لکھتے صفحات میں اگر سطر بھی
نہ ہو، اگر دیکھنے والا عربی رسم الخط اور اردو خوشخطی کو دیکھے تو سمجھے کے کوئ
بہت بڑا خطاط ۔موتیوں کی طرح نہایت ہی خوبصورت اور دیدہ زیب تحریر۔
آپ کے والد پوری دنیا
میں دین کی تبلیغ کے لیے سفر کرتے ہیں۔ مگر آپ اپنی تدریسی شوق اور خدمت میں اتنے
مصروف رہتے کہ باہر ممالک خاص کر برطانیہ، امریکا اور افریقی ممالک کے سفر نہیں کیے۔
حق گوئی آپ کا شیوہ:
اللہ کے شیروں کو
آتی نہیں روباہی کا مظہر اتم۔ زندگی بھر
چاپلوسی، مصلحت پسندی، سے دور رہے، جو آپ
کا موقف ہوتا اس میں کسی سیٹھ یا کسی دنیاوی طور پر صاحب اثر سے کبھی نہ ڈرے ۔ حدیث
پاک قل الحق وان کان مرا حق کہو اگرچہ
کڑوا ہو پر آپ کاربند تھے۔
عقائد میں تصلب
اور اتباع اسلاف:
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی تعلیمات آپ کا
اوڑھنا بچھونا تھیں۔۔بدعقیدہ تو بہت دور جس سنی شخص یا عالم کو دیکھا کہ وہ رافضی
اور بدعقیدہ کی تعریف کرتا ہے ، یا ان کے جنازے اور غم میں شریک ہوتا ہے اس سے قطع
تعلق فرمالیتے۔ آپ بزرگوں کی تعلیمات اور فتاوی سے ہٹ کر کسی آسانی ، عیش پرستی،
نفس پرستی ، شہرت ، حب جاہ اور دنیاوی ملمع کاری اور اغراض سے دور رہے۔۔
خانقاہ صدر الشریعہ
کے وہ پھول اور پیر طریقت تھے ، جس نے اپنی پہچان خود بنائی۔ اپنے نام کے ساتھ
احقر العباد یا عاجزی والے کلمات لکھتے۔ استاذ العلماء، عالم باعمل، ولی کامل ایسے الفاظ سے اپنے مریدین کو سختی
سے منع فرماتے۔
مجھ جیسے ایک نہیں
ہزاروں میدان عمل میں مصروف و معروف علماء کے استاذ تھے۔ صحت ، عاجزی اور عمل ایسا
تھا کہ اگر عمامہ شریف نہ پہنیں تو
شاگردوں کے ساتھ وہ ان کے دوست یا ہم سبق ہم عمر محسوس ہوں۔
مقدس خاندان کا
مقدس شخص مقدس سرزمین اور مقدس سفر کے دوران مقدس ، زندگی گذار کر رخصت ہوا۔ اللہ
تعالٰی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے ، بلندی درجات نصیب فرمائے اور ہم گناہگاروں کے
لئے شفاعت کا ذریعہ بنادے۔ آمین

Post a Comment