مہمان نوازی انبیاء کی صفت ہے

مہمان نوازی نہ صرف  حضورﷺ کی سُنّت ِمُبارکہ ہے بلکہ  دیگر انبیائے کِرام علیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی ہےچنانچہ ابوالضَّیفان  ابوالانبیاء حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ عليه السَّلام بہت ہی مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔

سورہ ھود، آیات :69_70،سورہ حجر، آیات :51_53 اور سورہ الذاريات، آیات :24_28میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا بہت دل کش بیان ہے۔ _ اجنبی انسانوں کے بھیس میں آنے والے فرشتوں کو حضرت ابراہیم کا ‘مہمان (ضیف) کہا گیا ہے ، اس لیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے ساتھ مہمانوں جیسا برتاؤ کیا تھا۔ ساتھ ہی ان کی صفت ‘مُکْرَمِین (معزّز) بیان کی گئی ہے۔ _ اس سے اشارہ اس آؤ بھگت ، خیر مقدم ، تواضع اور ضیافت کی طرف ہے جس کا اہتمام حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے کیا تھا۔ _ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے مہمانوں (خواہ وہ ان کے لیے اجنبی ہوں) کی کس قدر تواضع اور ان کے لیے کتنا اہتمام کرتے تھے ۔

مہمان کے آنے پر سلام دعا کے بعد سب سے پہلے اس کی خیریت معلوم کریں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہمان کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم نے جواب میں سلام کیا۔‘‘

حضرت فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جو موٹا تازہ بچھڑا ان کے اپس تھا اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔

تو جلدی سے گھر میں جا کر ایک موٹا تازہ بچھڑا لائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘

فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍۙ(۲۶)فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ٘(۲۷)فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةًؕ-قَالُوْا لَا تَخَفْؕ-وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(الذاریات:28)

پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا پھر اُسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں تو اپنے جی میں اُن سے ڈرنے لگا وہ بولے ڈرئیے نہیں اور اُسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی۔

اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کرتے ہیں۔ مہمان کو زحمت نہیں، رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ گھر میں مہمان آنے سے عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔

حضرت لوط علیہ السلام کا اپنے مہمانوں کی عزت و آبرو کاخیال  رکھنا

میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھا جائے۔ آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے تو اس کو اپنی غیرت و حمیت کے خلاف چیلنج سمجھیئے۔

جب حضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں پر بستی کے لوگ بدنیتی کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو وہ مدافعت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا۔

قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِۙ

قَالَ : اس نے کہا اِنَّ : کہ هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ ضَيْفِيْ : میرے مہمان فَلَا تَفْضَحُوْنِ : پس مجھے رسوا نہ کرو۔

یعنی "یہ میرے مہمان ہیں  اور مہمان کا اکرام لازم ہوتا ہے تم اُن کی بے حرمتی کا قصد کرکے  مجھے شرمندہ نہ کرو کہ مہمان کی رسوائی میزبان کے لئے خَجالت اور شرمندگی کا سبب ہوتی ہے۔" (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۵۸۵، ملتقطاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ جیسے مہمان کے احترام میں  میزبان کی عزت ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ،اس لئے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں  کوئی مہمان آیا ہو تو دوسرے مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی ا س کے مہمان کا احترام کرے تاکہ اس کی عزت و وقار قائم رہے اور مہمان کی بے عزتی کرنے یا کوئی ایسا کام کرنے سے بچے جس سے مہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے تاکہ یہ چیز میزبان کے لئے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہ بنے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام  کی مہمان نوازی

یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ (سورہ سبا :13)

جو کچھ سلیمان چاہتے وہ جنات تیار کر دیتے مثلا قلعے اور اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں اے آل داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو ، میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں ۔

دیگیں، راسیات جمی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیگیں پہاڑوں کو تراش کر بنائی جاتی تھیں جنہیں ظاہر ہے اٹھا کر ادھر ادھر نہیں لے جایا جاسکتا تھا اس میں بیک وقت ہزاروں افراد کا کھانا پک جاتا تھا یہ سارے کام جنات کرتے تھے۔

بڑی دیوہیکل  دیگوں  کی تیاری یا تو لشکر کے طعام کے لئے استعما ل ہوتی تھی یا بڑی ضیافت کے لئے۔جیسا کہ  روایات میں ملتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ خواہش تھی کہ تمام مخلوقات کی دعوت کریں اور اس سلسلے میں ایک مشہور واقعہ بھی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

بڑی بڑی دیگیں اجمیر شریف (انڈیا) میں حضرت معین الدین اجمیریؒ کے مزار پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

آپ ﷺ کی مہمان نوازی

آپ ﷺ کی بارگاہ میں جو بھی وفود آتے تھے ان کی خوب مہمان نوازی فرماتے تھے۔ احادیث کی کتب میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں جو وفود آتے آپ ﷺ ان کی خاطر داری اور مہمان نوازی کا فرض صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سپرد فرماتے۔ایک دفعہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد آپ ﷺ کی خدمت  میں حاضرہوا۔ تو آپ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا چنانچہ انصار ان مہمانوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میزبانوں نے تمہاری خاطر مدارت کیسی کی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔

فرمانِ مصطفےٰ ﷺہے:جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث: 3356)

ایک واقعہ جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ حضورﷺ کا عام معمول تھا کہ کوئی مسافر مہمان آ جاتا تو ازواج مطہراتؓ کے حجروں میں پیغام بھیجتے کہ کوئی چیز کھانے کو ہے؟ اگر ستو، کھجوریں، دودھ وغیرہ ہوتا تو وہ بھیج دیتے۔ ایک دفعہ کوئی مہمان آیا آپؐ نے پیغام بھیجا لیکن نو حجروں میں سے کسی گھر سے بھی مہمان کا کھانا نہیں نکلا۔ حضورؐ نے لوگوں سے کہا، میرا مہمان ہے کوئی اسے کھانا کھلا دے گا؟ ابوطلحہ انصاریؓ اٹھے اور کہا میں گھر چکر لگا کر آتا ہوں، ذرا دیکھ آؤں گھر میں کیا کچھ ہے۔ گھر تشریف لے گئے، اہلیہ محترمہ ام سُلیم سے کہا حضورؐ کا ایک مہمان ہے، گھر میں کوئی چیز کھانے کو ہے؟ اس نے کہا صرف ایک آدمی کا کھانا ہے، یا تم کھا لو، یا میں کھا لوں، یا بچوں کو کھلا دیں، یا مہمان کو کھلا دیں۔ اتنا کھانا ہے کہ ایک آدمی کا گزارا ہو جائے گا۔ ابوطلحہؒ نے کہا، حضورؐ کا مہمان ہے اس لیے بچوں کو تو بہلا پھسلا کر سلا دو۔ کھانا دستر خوان پر رکھ دینا۔ عرب مہمان نوازی کے اصولوں کے مطابق میزبان نے ساتھ بیٹھ کر کھانا ہوتا ہے، مہمان اکیلے کھانا نہیں کھاتا۔ تو اس میں مسئلہ یہ تھا کہ اگر ابوطلحہ کھانا کھاتے تو مہمان کیا کھاتا۔ اس کا حل یہ نکالا کہ کہا، میں مہمان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ جاؤں گا، ایک آدھ لقمہ لوں گا تم چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے چراغ بجھا دینا۔ میں اندھیرے میں منہ ہلاتا رہوں گا، مہمان تسلی سے کھانا کھا لے گا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا اور مہمان کو اس طریقے سے کھانا کھلایا۔ اللہ رب العزت کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قرآن مجید میں انصارِ مدینہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ’’یؤثرون علٰی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ‘‘ (سورہ الحشر ۹) دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود بھوک سے ہوں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post