شاعری اور انسانی خدو خال

جیلانی کامران

اس بات سے بہت کم اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ ہر زمانہ اپنے ادب سے پہچانا جاتا ہے۔ اپنے گزرتے ہوئے روز و شب کے دوران جن کے مجموعے سے کسی نسل کا زمانہ پیدا ہوتا ہے ، اُس دور کی نسلیں صرف اپنا عکس اپنے ماحول ہی میں دیکھنے کی قدرت رکھتی ہیں اور انہیں صرف اپنا آپ ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح مختلف چہروں کے باہمی رشتے سے وہ سب کچھ ظاہر ہوتا ہے جسے انسان کی پریشانی اور تشویش کہا جاتا ہے۔ اور پھر نہ وہ نسل رہتی ہے، نہ اس کے ارادے باقی رہتے ہیں ، اور نہ وہ باتیں رہ جاتی ہیں جن پر کسی دور کی نسل اپنا عکس ثبت کرنے کی آرزو مند ہوتی ہے ۔ صرف لکھا ہوا لفظ باقی رہ جاتا ہے۔ ادب باقی رہ جاتا ہے جو اس نسل کے گناہوں کی روداد آنے والی نسلوں کو سنانے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ کسی زمانے کی انسانی آبادی جس سے اُس زمانے کی نمائندہ نسل مرتب ہوتی ہے اپنے بارے میں اچھی سے اچھی رائے رکھنے کا بخوبی حق رکھتی ہے . اور اپنے آپ کو کسی بھی اخلاقی مرتبے اور مقام سے پکار سکتی ہے۔ مگر لکھنے والوں کے لئے ایسی آسانی کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔ اور خاص طور پر ان کے لئے جو اپنے تخلیقی کردار کو شاعری سے نسبت دیتے ہیں وہ خود کو اچھے ناموں سے پکار نہیں سکتے۔ کسی دور کے اجتماعی گناہ کا کڑا حملہ شاعر کی شخصی نفسیات پر ہوتا ہے۔ اردو ادب اس حملے سے کسی طرح بچ نہیں سکتا ۔ ادب اور شاعری گناہ کی کہانی مرتب کرتے ہیں اور اُسی زمانے کی نسل اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتی ہے، اور اس طرح ادب اور شاعری ، اور زمانہ اور اس کی نمائندہ نسل دونوں الگ الگ محاورے میں گفتگو کرتے ہیں۔ اس کیفیت کو تنقید کی زبان میں کئی نام دیئے گئے ہیں۔ مگر یہ امر بخوبی واضح ہے کہ اس کیفیت سے گناہ اور کارناموں کی دوئی ظاہر ہوئی ہے ۔ ہر زمانہ دوئی کے اس بنیادی سانچے سے دو چار رہا ہے، اور شاید اسی سانحے سے وہ صورت بھی پیدا ہوئی ہے جو کسی عہد کو دور تشویش کا نام دیتی ہے۔

کہا گیا ہے کہ انسان گم ہو چکا ہے اور لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ جو اہل نظر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اُن کا خیال ہے کہ انسان نام کی کوئی بھی شئے موجود نہیں ہے ۔ صرف لوگ ہی انسانی اکائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس دنیا سے ہمارا اس زمانے میں سابقہ ہے وہ ان دونوں کیفیتوں کے مابین بٹی ہوئی ہے ۔یہ دنیا لوگوں کو معروضی سچائی کے طور پر تسلیم کرتی ہے مگر انسان کی تلاش کرتی ہے ۔ غالباً اسی لئے زمین پر انسان کی تلاش ادب اور شاعری کا نمایاں موضوع بن چکا ہے۔ اور اگر ادب کے ذریعے کسی تہذیب کے مافی الضمیر کا علم ممکن ہے تو جو امر واضح ہوا ہے یہ ہے کہ ہماری تہذیب کلاسیکی تصوف کی کائنات سے باہر آ چکی ہے تاہم یہ الگ بات ہے کہ اب تصوف کا عروج سفر زمین پر جاری ہے اور اس کا محور انسان بن چکا ہے۔ ہماری فکری دنیا کا یہ نقشہ سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔

انسان کی تلاش میں جو کوئی معاشرے کا (اور ہماری دنیا کا سفر اختیار کرتا ہے اُسے ہر دوسرے قدم پر دلدل دکھائی دیتی ہے مگر یہ دلدل صرف تلاش انسان کے مسافر کو اپنی جانب بلاتی ہے۔ تاہم اپنے سفر سے واپسی پر جب یہ مسافر اپنی دریافتوں کی تفصیل سے آگاہ کرتا ہے اور جن سے ہمارا ادب پیدا ہوتا ہے تو انسان کے بارے میں اس قسم کی معلومات حاصل ہوتی ہیں کہ

انسان ایک نہیں انسان دو قسم کے ہیں جن کو حاکم اور محکوم انسان کہا جاتا ہے۔

انسان کی یہ دونوں قسمیں شکست و ریخت سے دوچار ہیں۔ اور شکست وریخت کے نتیجے میں انسان زخمی ہو چکا ہے.

انسان بیمار ہے۔ اور اُسے اپنے عارضے کا علم نہیں ہے۔

انسان کی صحت یابی کے لئے جو طریقے اختیار کئے گئے ہیں انہوں نے انسان کو اور زیادہ بیمار کر دیا ہے۔

انسانی کیفیت سائیکو پیتھک صورت اختیار کر چکی ہے۔

انسان کی تلاش ہی کے سلسلے میں ایک معروف اہل نظر کا کہنا ہے :- کئی برس قبل مجھے دریائے ستلج کے کنارے سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ بارشوں کا موسم کچھ روز پہلے ختم ہوا تھا۔ اور دریا کے کنارے نرم زمین پر دلد لیں بن چکی تھیں۔ میں اس راستے سے پیدل گزر رہا تھا ۔ دفعتاً میں نے دیکھا کہ ایک اونٹ دلدل میں گھرا ہوا ہے ، شاید کوئی قافلہ اپنے اونٹوں کے ساتھ اِس طرف سے گزرا تھا اور یہ اونٹ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا تھا ۔ اس اونٹ کا نچلا دھڑ دلدان میں دھنس چکا ہے، اور صرف اس کی لمبی گردن اور کوہان باہر تھے ..... دلدل کی مہلک کی کشش اُس کی دلدوز آواز..... میں بخوبی آشکار تھی. مگر اس کی آواز میں بھی وہ شدت نہ تھی جو پختہ زمین پر چلنے والے اونٹوں میں محسوس ہوتی ہے. انسان کے ساتھ بھی کچھ ایسا بھی سانحہ رونما ہوا ہے۔

اسی ضمن میں تلاش انسان کے اُن اہل فکر اصحاب کی رائے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جوادیبوں کے درمیان اہل باطن کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی رائے کچھ اس نوع کی ہے کہ انسان کے باطن میں ایک خاص قسم کا سرکٹ ہے جو کام کرتا ہے تو انسان ، انسان بنتا ہے ، لیکن یہ سرکٹ ایک مخصوص دروازے کے کھلنے سے اپنی توانائی حاصل کرتا ہے اور اس دروازے کا نام باب العلم ہے .... مگر ہمارے عہد سے اس دروازے کی چابی (کلید) گم ہو چکی ہے۔ اس لئے نہ تو دروازہ کھلتا ہے اور نہ سرکٹ نہ ہی توانائی حاصل کر سکتا ہے اور انسان اپنی پہچان کے لئے چارہ چرنے والے جانداروں میں شامل ہو گیا ہے۔

فلسفے سے تعلق رکھنے والے انسان کو چناؤ کا مجموعہ قرار دیتے ہیں ۔ اور بتاتے ہیں کہ ہر شخص اصولی طور پر محض  ایک شخص ہے ۔ لیکن جب وہ اپنے لائحہ عمل کے لئے چناؤ کرتا ہے تو وہ انسان کی نمائندگی کرتا ہے اور اس طرح شخص کے مرتبے سے گزر کر انسان کے مقام پر ظاہر ہوتا ہے اور انسان بنتا ہے ۔ قوموں کی تاریخ میں اس طریق کار کی مدد سے جمہوریت، انسانیت میں بدلتی ہے، اور چونکہ چناؤ انسان کا مقدر ہے اس لئے صرف اس ایک حق اور قوت کے ذریعے انسان اپنے ماحول، اپنے زمانے اور کائنات کی تسخیر کر سکتا ہے۔ اس سچائی کی گواہی دے سکتا ہے کہ زمین پر انسان الہی مشیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔ تاہم جہاں ماحول انسان پر غالب آ جاتا ہے آجاتا وہاں انسان اس شخصی قوت (اختیار / چناؤ) سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور تمدنی طور پر اس منزل میں اتر  جاتا ہے جہاں انسان اور چو پایے کے مابین کوئی فرق باقی نہیں رہتا ..... تلاش انسان کے سفر میں غالباً اسی لئے کئی ایک افسانہ نگاروں کی چوپایوں سے آشنائی ہوئی ہے. متلاشی انسان کے موضوع کے ساتھ اگر ادب کے بطن میں موجود کیفیات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات سے بہت کم اختلاف ہوگا کہ ہمارے ادب کے بطن میں غیر معمولی توانائی برابر موجود رہی ہے اور برابر موجود ہے۔

لیکن اس توانائی نے بیشتر احتجاج کی صورتیں اختیار کی ہیں ۔ تاہم ان صورتوں کی تخلیق میں ادیب اپنے انسانی مواد سے مناسب فاصلہ روا نہیں رکھتا۔ اس لئے احتجاج فن کی بجائے رپورتاژ بن جاتا ہے ، اور جہاں فاصلے اور انسانی مواد کا تناسب قائم ہوتے دکھائی دیتا ہے وہاں رومان ظاہر ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے ہمارا ادب احتجاج اور رومان کے رویوں کی نشاندہی کرتا ہے اور جہاں توانائی ان دونوں رویوں سے الگ ہوتے ہوئے اپنا اظہار فراہم کرتی ہے وہاں استعاراتی زبان ظاہر ہوتی ہے اور توانائی استعاروں کے جنگل میں بکھر جاتی ہے، اگر ان رویوں کا بغور احساس کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا کہ نہ تو احتجاج کی صورتیں اور نہ رومان کی صورتیں ہی اپنے عہد کی درست تخلیقی پہچان ہیں اور نہ استعاراتی زبان ہی اپنے زمانے کی مناسب زبان ہے ۔ ادب کی تخلیقی توانائی کسی نئی صورت گرمی کی خواہش کرتی ہے ۔ وہ توانائی جو اپنے لئے مناسب صورت حاصل نہیں کر سکتی اپنے نیم پختہ اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کو بھی ہلاک کر دیتی ہے. تاہم انسان کے ساتھ جو کچھ رونما ہوا ہے اور تلاش انسان کے سفر میں جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے ہمارے کلچر کے تاریخ نویس غالباً منفی کامیابیوں کے زمرے میں شمار کریں گے۔ اور اس کی وضاحت کے لئے وجوہات کی کمی بھی نہیں ہے ۔ لکھنے والوں سے جب کبھی پوچھا گیا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ تو وہ بھی وجوہات کی ایک لمبی فہرست کا ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن جب اُن سے کہا جائے کہ وجوہات سے صورتحال متاثر نہیں ہوتی اور نہ محض وجوہات کے بیان کرنے سے کوئی بیجار شفایاب ہو سکتا ہے۔ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارا کام تو صرف وجوہات کے بیان کرتے کا ہے ۔ اسی لئے تو ہم عکاسی کرتے ہیں اور اپنے عہد کا منظر دکھاتے ہیں ۔ ایسے متعدد جوابات انسان کی مدد سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ اور شاید اسی لئے جب انسان ہی کے حوالے سے کہ انسان کہاں ہے / انسان کسی عارضے میں مبتلا ہے ، پوچھا جاتا ہے کہ انسان پر جو کچھ وارد ہوا ہے اور وارد ہو رہا ہے اسے بہتر طور پر کون بدل سکے گا۔ تو جواب ملتا ہے کہ جب معاشرہ بدلے گا ، ماحول بدلے گا تو لوگ بھی بدل جائیں گے ..... اورانسان بھی شفا پائے گا حقیقت یہ ہے کہ لکھنے والوں نے انسان کو نظر انداز کر کے غیر انسان کو اپنا موضوع بنا رکھا ہے ، اور اس طرح وہ اپنے تخلیقی حق کو سوشل سائنس کے سپر د کر کے خود اپنے ہی رسم و سلوک سے دستبردار ہو چکے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے کلچر ہیں ۔ رویّے کی ایسی تبدیلی سے جو سانحہ ظاہر ہوا ہے یہ ہے کہ ہمارا عہد شاعری سے کلیتاً محروم ہو چکا ہے نظموں اور غزلوں کی تعداد میں بے دریغ اضافہ ہوا ہے۔ اور نثر نے اس خالی میدان پر اپنا تسلط جما لیا ہے۔ اگر بغیر کسی تعصب کے اس سارے منظر کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوگا کہ ہمارا ادب اور ہماری شاعری دونوں سوشل سائنس کے بنائے ہوئے لائحہ عمل کو اختیار کرتے ہوئے ماحولیات کا محض پیرا فریس کرتے ہیں۔ اور ہم اپنی بدقسمتی میں اس  کو تخلیقی ادب کا نام دیتے ہوئے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

اگر اس امر سے ہمارا اتفاق ہے کہ انسان کسی انتہا کا شکار ہے اور اُسے اس اس بلا سے نجات دلانا ضروری ہے تو محض وجوہات اور ماحولیاتی مناظر کی عکاسی اور جذبات کے پیرا فریس سے ایسا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ جارہا اور جس نوع کا ادب لکھا جا رہا ہے اس کی مدد سے رائے عامہ کو بھی منظم نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر یہ باتیں کسی طرح درست ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اس کی ابتداء سے بچانے کے لئے اور تلاش انسان کے موضوع کے لئے رکہ انسان کہاں ہے ؟ آدم کجاست ) ادب کو کسی اصول کی بنیادی طور پر ضرورت ہے ؟ مگر اس اصول کی نشاندہی سے قبل یہ امر تسلیم کرنا لازمی ہے کہ انسان کے بچائے جانے کے لئے صرف ادب ہی کا رول ایسا کا ناگہانی انتہاء سے بچا سکتا ہے۔ ہے جو اس بڑے مقصد کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے اور صرف ادب ہی اس زمانے میں انسان کو اسکی ہماری دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں دو کیفیتوں کا مجموعہ ہے جنہیں تصوف کی زبان میں نزولی اور عروجی کیفیا کا نام دیا گیا ہے ۔ ہماری زندگی کا سفر بالعموم نزولی نوعیت کا ہے اور دنوں، ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے بسر ہوتا ہے۔ اس سفر سے معاشرتی علوم، ٹیکنا لوجی اور علم سیاسیات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اور نسلوں کی رفت و آمد کا سلسلہ بھی ترتیب پاتا ہے۔ اس سفر کے دوران دن طلوع ہوتے ہیں ، دن ڈوبتے ہیں نقش ابھرتے ہیں ، نقش مٹتے ہیں، بچے پیدا ہوتے ہیں اور بوڑھے ہوتے ہیں اور زندگی اپنے اثاثے کو موت کے سپرد کرتی چلی جاتی ہے۔ اور چونکہ نزولی سفر کے ہر موڑ پر نیستی برابر موجود رہتی ہے اور بہت اس سفر کے دوران برابر کمزور سے کمزور تر ہوتا ہے، اس لئے نزولی سفر لوگوں کو بے چین رکھتا ہے ۔ قومی قیادتوں کو بے چین رکھتا ہے، اور قوموں کو بے چین رکھتا ہے ، نزولی سفر کی حقانیت پر یقین رکھنے والے فلاسفر بے چینی ، کو اثباتی اصول قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس بےچینی کے بغیر تاریخ اپنی نقل و حرکت کو قائم نہیں رکھ سکتی۔ اس لئے یہ اصول (بے چینی) انسان کی جبری اور ازلی کیفیت کا لازمی عنصر ہے ۔ تاہم جب کبھی اس نزولی سلسلے کے دوران تاریخ ساز مقام ظاہر ہوئے ہیں تو وہاں صرف عروجی کیفیت ہی کی کارفرمائی دکھائی دی ہے۔ خواہ خواب دیکھنے کام مشرق میں ہوں یا مغرب میں ہمیشہ بہتر دنیا کا خواب ہی نزولی سلسلے میں عروجی کیفیت کو نمایاں کرتا رہا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ مشین خواب نہیں دیکھ سکتی ۔ سوشل سائنس خواب کا استعمال نہیں کر سکتی ۔ اور نہ رپورتاژ ہی اس نعمت سے آشنا ہے۔ صرف شاعری خواب دیکھ سکتی ہے۔ شاعر کشف حقیقت کا سائل بن سکتا ہے اور جہاں خواب کسی شخص یا کچھ کی زندگی میں داخل ہوتے ہیں وہاں عروجی کیفیت اور فرد کے عروجی سفر کی ابتدا ہوتی ہے۔

ہم سب اپنے اپنے خوابوں سے بخوبی آشنا ہیں، لیکن وہ خواب جو الف بے اور جیم دیکھتے ہیں اُن خوابوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ جو ادب کے اہل نظر دیکھتے ہیں۔ ادب کے ذریعے قوموں کی تاریخ خواب دیکھتی ہے اور یہ خواب عام آدمی کے خواب سے مختلف ہوتا ہے اور اس کا مختلف ہونا ہر اعتبار سے ضروری ہے۔ خواہ بہتر دنیا کا خواب ہماری زندگی میں پورا ہو یا کبھی پورا نہ ہو۔ ادب کے لئے اس خواب کی گفتگو لازمی ہے۔ اور یہ گفتگو صرف شاعری کر سکتی ہے۔ کیونکہ شاعری(  اور شاعری سے نظم گوئی یا غزل گوئی مراد نہیں ہے) جس تخلیقی سرشت کے ماتحت کام کرتی ہے وہ اشیاء کے باطن میں اُترتی ہے اور اس مسلسل ظہور سے آشنا ہوتی ہے جو حیات ابدی کی خبر دیتا ہے، جہاں انسان کبھی نہیں مرتا اور جہاں صرف ز ندگی ہی نظرآتی ہے۔

زمین پر انسان کو بچانے کی صورت صرف مستقبل ہے ۔ ماضی اور زمانہ حال محض مستقبل کے لئے تیاری کے ایام کی کئی منزلیں ہیں ۔ ہمارے ادب نے انسان کے بچانے کی فکری ذمہ داری کو شاید اس لئے پورا نہیں کیا کہ ہمارے لکھنے والے عصر حاضر کے فلسفہ عکاسی کے محتاج ہیں۔ غالباً اسی لئے لکھنے والوں کیلئے عصر حاضر سے رہائی لازمی ہے ۔ اور اگر اس رہائی کے بعد صرف ماضی ہی دکھائی دے تو ایسا رویہ انسان کی بہتری کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں بعض اہل فکر کا کہنا ہے کہ ادب کا کام معاشرے کو اور دنیا کو بدلنے کا ہے ۔ مگر بدلے ہوئے انسان کے بغیر نہ تو معاشرہ بدل سکتا ہے اور نہ دنیا ہی بدل سکتی ہے۔ ادب میں اب تک جتنی بھی تحریکیں اُٹھی ہیں انہوں نے فکری عقائد کے ذریعے انسان کو بدلنے اور اس طرح دنیا کو بدلنے کی روایت قائم کی ہے ، مگر فکری عقائد کے ذریعے صرف ایک قسم کا انسان ظاہر ہوا ہے اور تہذیب کے مختلف مدارج پرایسے تجربوں سے خاطر خواہ نتائج بھی پیدا نہیں ہوئے تاہم جس انسان کا تذکرہ ہو رہا ہے اس کے بچنے کی صورت تشویش پیدا کرتی ہے۔ اور ایسے انسان سے معاشرے اور دنیا کے بدلنے کا کام بھی ممکن نہیں ہو سکتا ۔ شاعری کے بغیر اس انسان کو نہ تو بچایا جاسکتا ہے اور نہ ایسے انسان کی تلاش ہی کی جا سکتی ہے ۔ انسان کو اُس کی ابتلا سے بچانے کی ذمہ داری شاعری پر عائد ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں یہ کہنا مناسب ہے کہ انسان کو ادب ہی اس کی ابتداء سے بچا سکتا ہے، مگر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے ؟ اور اس کیلئے خاطر خواہ طریق کار کون سا ہے ؟ یہ سوال ہر لکھنے والے کے اپنے سوال ہیں۔ اور اس سوال کے تابع ہیں کہ لکھنے والا کہاں تک شعری سرشت کے قریب ہے اور کہاں تک اُس کیلئے مستقبل ایک سچائی ہے۔ مستقبل کے ساتھ مکالمہ اور ہمکلامی صرف شاعری ہی کے ذریعےممکن ہے۔ اگر لیلیٰ ماضی میں ظاہر ہو سکتی ہے اور پھر عصر حاضر میں ہمسفر بن سکتی ہے خواہ اس لیلیٰ کے محمل میں کوئی بھی دنیا موجود ہو ۔ تو لیلیٰ مستقبل کی منزلوں پر بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔ اورقیس اس لیلیٰ کے لئے خواب در خواب سفر بھی کر سکتا ہے۔ اور زندگی سے کبھی دستبردار بھی نہیں ہو سکتا ۔ جب تک مستقبل لیلیٰ کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ انسان کے بچنے کی امید واضح نہیں ہو سکتی، اور نہ ادب ہی اپنے کلچر کا محرم بن سکتا ہے ......

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post