حاضر جواب بیوی
میاں بیوی
سونے کے لیے بستر پر دراز ہوئے تو شوہر نے بیگم سے پوچھا : تمہیں پتہ ہے خالد بن ولید
ؓ نے کتنی شادیاں کیں تھیں؟
مطلب ان
کی بیویوں کی تعداد جانتی ہو کتنی تھی؟ "
بیوی نے
جواب دیا : بس بس..... پہلے أن کے جتنی جنگیں لڑ کر دکھاؤ پھر اتنی شادیاں بھی کر لینا،
بلکہ میں خود تمہارے لیے رشتے تلاش کروں گی۔"
یہ کہہ
کر بیگم نے منہ موڑا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر گویا ہوئی:
خالد بن
ولید ؓ بہادری و دلیری میں سو سو آدمیوں کی طاقت رکھتے تھے، اور تم؟
تم اور
تمہارے بیٹے دونوں سے مل کر بھی حمام کا دروازہ تک نہیں کھلتا اگر وہ بند ہو جائے تو۔"
شوہر بیچارے
نے کمبل اوڑھا، منہ موڑا اور بیگم کی طرف پیٹھ کر کے یہ الفاظ دہرانے لگا:
اے أم لسان
( زبان دراز) تمہاری باتوں سے تو اللہ ہی بچائے۔"
جبکہ بیگم آنکھیں دکھاتے ہوئے اسے کہنے لگی:
خالد بن
ولید ؓ صحرا میں بھی ساری ساری رات نوافل میں گزار دیتے تھے، اور اکثر اللہ کے خوف
سے ان پر بے ہوشی طاری ہو جاتی تھی،
اور تم
پر تو خیر سے زندگی میں ایک ہی دن غشی طاری ہوئی تھی، جس دن کچن میں چوہا دیکھ کر دوڑ
پڑے تھے۔
اب مجھے خاموش ہی رہنے دو تو اچھا ہے۔
)اس کے بعد
شوہر کے پاس مزید کچھ کہنے کو بھلا کیا بچتا تھا (
عربی سے ترجمہ شدہ۔"
قصص و عبر
مِن قدیم زمان
اہل عرب جب شادی بیاہ کرتے تھے تو قدیم رواج کے مطابق دعوت کی تقریب میں شامل مہمانوں کی تواضع کے لیے بھنے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو روٹی کے اندر لپیٹ کر پیش کرتے تھے ۔
ایسا ہی ایک بار غریب شخص کے ہاں شادی کی تقریب تھی جس میں اس شخص نے دعوت کے دن احتیاطاً بغیر گوشت کے روٹی کے اندر روٹی لپیٹ کر اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور متعدد قریبی قابلِ بھروسہ دوستوں کو کھانے میں پیش کی،،، تاکہ اجنبیوں کو کھانے میں روٹی کے ساتھ گوشت مل سکے اور کسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچا جاسکے۔
(رحمت کا)دروازہ
فضیل بن
عیاض نے کہا:
میں نے ایک بچے سے صبر سیکھا۔ میں ایک دفعہ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے بچے کو گھر کے اندرمار رہی ہے، وہ چیخ رہا تھا،آخر وہ بچہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔اس کی ماں نے اس پر دروازہ بند کر دیا۔
فضیل
فرماتے ہیں میں یہ منظر دیکھتا رہا بچہ وہیں دروازے پر کھڑا رہا یہاں تک کہ سو
گیا۔ ، جب ماں نے دیکھا بچہ یوں ہی گلی
میں سوگیا ہے تو ماں کا دل بھرآیا اور اس کے غصہ پر
پیار غالب آگیا تو اس نے بچےکے لیے
دروازہ کھول دیا۔اور پیار سے اسے لے کر اندر چلی گئی۔
قاضی
فضیل یہ دیکھ کر روتے رہے ۔ یہاں تک کہ ان
کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی اور آپ نے کہا: خدا کی قسم! خدا کی ذات پاک ہے اگر بندہ خدا
کے دروازے پر صبر کرتا ہے - اس کی طرف رجوع
کرتا ہے خدا اس کے لئے (رحمت کا)دروازہ کھول دیتاہے!!
"ابو
الدادا رضی اللہ عنہ نے کہا:" دل سے دعا مانگو، کیونکہ یہ ان میں سے ایک ہے جس
میں بہت زیادہ دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہے، اور یہ اس کے لیے کھلنے والا ہے۔"
بہت اچھا چناؤ کیا گیا ہے۔ شکریہ۔
ReplyDeletePost a Comment