پڑھ لکھ
کے بن گیا میں اگر آدمی تو پھر
ايک اصطبل ميں بہت سے گدھے رہتے تھے ،وہاں ان کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا انتہائی اعلیٰ انتظام تھا۔ تمام گدھے بہت خوش و خرم تھے۔ ان کی صحت بھی بہت اچھی تھی۔ لیکن ایک دفعہ ايک نوجوان گدھے نےاچانک كھانا پينا چھوڑ ديا، بھوک اور فاقوں سے اسكا جسم لاغر و كمزور ہونے لگا ۔یہاں تک کہ كمزوری سے بيچارے كے كان بھی لٹک كر رہ گئے۔ گدھے كا باپ اپنے بيٹے كی روز بروز گرتی ہوئی صحت كو ديكھ رہا تھا۔اس سے رہا نہ گيا ۔ايک دن اس نے اپنے بيٹے سے اسكی گرتی صحت اور ذہنی و نفسياتی پريشانيوں كا سبب جاننے كيلئے تنہائی ميں بلا كر پوچھا، بيٹا كيا بات ہے، ہمارے اصطبل ميں تو اعلٰی قسم كی اشیاء كھانے پینے كيلئے دستياب ہيں،گرمی سردی کا معقول انتظام ہے۔ مگر تم ہو كہ فاقوں پر ہی آمادہ ہو، تمہيں ايسا كونسا روگ لگ گيا ہے، آخر مجھے بھی تو كچھ تو بتاؤ، کسی نے تمہارا دل دكھایا ہے يا كوئی تكليف پہنچائی ہے؟
نوجوان گدھے نے اپنا
سر اُٹھایا اور ڈبڈباتی آنكھوں سے اپنے باپ
كو ديكھتے ہوئے كہا ، ہاں اے والدِ محترم، ان انسانوں نے تو ميرا دل ہی توڑ كر ركھ
ديا ہے!
كيوں! ايسا كيا كيا ہے ان انسانوں نے تيرے ساتھ؟
يہ انسان ہم گدھوں كا تمسخر اڑاتے ہيں۔
“وہ كيسے؟” باپ
نے حيرت سے پوچھا۔
بیٹے نے جواب ديا: كيا آپ نہيں ديكھتے كس طرح بلا سبب ہم پرتشدد کرتے ہيں، اور جب خود انہیں ميں سے كوئی جاہلانہ حركت كرے تو اسے گدھا كہہ كر مخاطب كرتے ہيں۔اور جب ان كی اولاد ميں سے كوئی گٹھيا حركت كرے تو اسے بھی گدھے سے تشبيہ ديتے ہيں۔اپنے انسانوں ميں سے جاہل ترين لوگوں كو گدھا شمار كرتے ہيں، اے والد محترم كيا ہم ايسے ہيں؟
ہرگزنہیں،ہم ہيں كہ بغير سستی اور كاہلی كے ان كيلئے كام كرتے ہيں، ہم
ان سب باتوں كو خوب سمجھتے اور جانتے ہيں، ہمارے بھی كچھ احساسات ہيں آخر!
باپ خاموشی سے اپنے
بیٹے كی جذباتی اور تلخ حقائق پر مبنی باتوں
كو سنتا رہا، اس سے كوئی جواب نہيں بن پا رہا تھا، وہ جانتا تھا كہ اسكا بيٹا اس كم
عمری ميں كيسی اذيت ناک سوچوں سے گزر رہا ہے، اسے يہ بھی علم تھا كہ صرف كھڑے كھڑے
كانوں كو دائيں بائيں ہلاتے رہنے سے بات نہيں بنے گی، بيٹے كو اس ذہنی دباؤ اور پريشانی
سے نكالنے كيلئے كچھ نہ كچھ جواب تو دينا ہی پڑے گا۔
باپ نے لمبی سی اک آہ بھری اور كہنا شروع
كيا كہ اے ميرے بيٹے سن:
يہ وہ انسان ہيں جنہیں اللہ رب العزت نے پيدا فرما كر ساری مخلوقات
پر فوقيت دى اوراشرف المخلوقات بنایا، ليكن انہوں نے ناشكری كی، انہوں نے اپنے ہی بنی نوع انسانوں پر جو ظلم
و ستم ڈھائے ہيں وہ ہم گدھوں پر ڈھائے جانے والےظلم و ستم سے ہزار ہا گنا زياده بدتر ہيں۔مثال
كے طور پر يہ ديكھو:
كبھی تم نے ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ
كوئی گدھا اپنے بھائی كا مال و متاع چُراتا ہو؟
كسی گدھے نے اپنے ہمسائے پر شبخون مارا ہو؟
كوئی گدھا اپنے ہم جنس كی پيٹھ پيچھے غيبت يا برائياں كرتا ہو؟
كوئی گدھا اپنے بھائی
يا اُسكے كسی بچے سے گالم گلوچ كر رہا ہو؟
بیٹے
نے جواب دیا :یقیناً ایسا نہیں۔آپ نے صحیح فرمایا یہ رویہ توبدترین مخلوق کا ہے۔ تو یہ جو تعلیم وغیرہ حاصل کرتے ہیں یہ سب بے کار
ہے۔ ان انسانوں سے تو ہم گدھے اچھے ہیں۔ اب اگر
کوئی انسان ہم سے کہے وہ ہماری تعلیم کا انتظام کرنے کو تیار تاکہ ہم پڑھ لکھ کران کی طرح معزز شہری بن جائیں تومیں
کبھی بھی اس بات کو نہ مانوں۔ بلکہ اس انسان کو یہ جواب دوں گا:
میں نے
کہا گدھے سے میاں کچھ پڑھو لکھو
بولا جناب
ہو گئی بے عزتی تو پھر
بے عزتی
بھی ٹھیک ہے لیکن جناب من
پڑھ لکھ
کے بن گیا میں اگر آدمی تو پھر
عاصم پیر زادہ
یہ کہہ کر نوجوان گدھا پرسکون ہوگیا اور اس نے کھانا پینا
پھر شروع کردیا۔
Post a Comment