حکیم محمد اجمل خان
حکیم اجمل
خاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ حکیم اجمل
خان نے قرآن حفظ کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے بڑے بھائی
حکیم محمد واصل خاں سے علم طب حاصل کیااورطبیب حاذق بنے کہ ملک کے طول و عرض میں مشہور
ہو گئے۔ 1908ء میں حکومت ہند نے حاذق الملک کا خطاب دیا۔ قوم نے آپ کو مسیح الملک کا
خطاب دیا تھا اور آپ دہلی کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔ آپ نے علم طب پر کئی کتابیں
تصنیف کیں۔
تقسیم ہند
کے وقت حکیم محمد نبی خان، جو حکیم محمد اجمل خان کے پوتے تھے نے پاکستان نقل مکانی
کی اور پاکستان آکر انہوں نے ایک دواخانے کی بنیاد رکھی۔ دواخانہ حکیم اجمل خان کے
نام سے منسوب مشہور اجمل دواخانہ ہے۔ اس دواخانے کی سو سے زائد شاخیں پاکستان کے مختلف
شہروں میں ہیں۔
آپ کی
زندگی کے چند واقعات
برسات
کی رات تھی ۔ گھٹاٹوپ اندھیرا تھا، موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ۔ رام پار سے دہلی
جانے والی ریل جنگل میں پوری رفتار سے جارہی تھی ۔ ایک پل زور دار بارش سے کم زور
ہو چکا تھا۔ جوں ہی ریل اس پر گئی ، پل ٹوٹ گیا۔ پہلے انجن مذی میں گرا۔ پھر اس کے
پیچھے کے سات ڈبے گرے۔ بس یہ سمجھو، قیامت آگئی ۔ کچھ مسافر تو ندی میں گرے اور
کچھ زخمی ہوئے ۔ جو بچے وہ بھی خطرے میں تھے۔ زخمیوں کے شور سے آٹھویں ڈبے کا ایک
مسافر اُٹھ بیٹھا، اس کے نوکر نے بتایا کہ ٹوٹے ہوئے پل پر سے انجن اور کئی ڈبے
ندی میں گر چکے ہیں ۔ مسافر ننگے سر ننگے پاؤں دوسرے مسافروں کے ساتھ ڈوبنے والوں
کو بچانے لگا۔ جتنے آدمی بچ سکتے تھے، بچا لیے گئے۔ اس مسافر کا نام حکیم اجمل خان
تھا۔ دنیا میں ہزاروں حکیم اور ڈاکٹر ہوئے لیکن حکیم اجمل خان کا نام جس عزت اور
محبت سے لیا جاتا ہے شاید ہی کسی کا لیا جاتا ہو۔ اس کی وجہ صاف ہے۔ وہ صرف ایک
حکیم ہی نہیں تھے بلکہ ایک بڑے ہمدرد انسان بھی تھے۔ اوپر کا واقعہ ان کی زندگی کے
ایسے ہی سیکڑوں واقعات میں سے ایک ہے۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور حکیم تھے۔ بڑے بڑے
نواب اور راجا مہا راجا ان سے علاج کراتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صرف امیروں
ہی کا علاج کرتے تھے ۔ غریبوں کا علاج مفت کرتے ، انھیں دوائیں بھی مفت دیتے اور
اپنی جیب سے ان کے پر ہیزی کھانے کا بھی انتظام کرتے تھے۔ ملک کو انگریزی حکومت سے
آزاد کرانے میں بھی حکیم صاحب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی کوشش سے دہلی کے طبیہ
کالج نے بڑی ترقی کی۔ اس کو چلانے کے لیے انھوں نے اپنا دوا خانہ وقف کر دیا تھا
جس سے دولاکھ روپے سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔ انھوں نے 1912ء میں طبیہ کالج قائم کیا
اور 1920ء میں جامعہ ملیہ کے منتظم اعلٰی مقرر ہوئے۔ جامعہ ملیہ کالج آج
بھی قائم ہے اور جس میں پہلی جماعت سے اعلیٰ درجے تک کی تعلیم کا انتظام ہے۔
سردی
ہو یا گرمی حکیم صاحب صبح 4 بجے نکل آتے اور ہزاروں مریضوں کو دیکھتے ۔ امیر ہو یا
غریب،سب کا حال غور سے سنتے اور نسخہ لکھواتے تھے جھوٹ اور بناوٹ سے اُنھیں سخت
نفرت تھی نوکروں سے ایسا سلوک تھا، جیسے وہ اُنھی کے گھر کا ایک فرد ہو۔ اخلاق کی
وجہ ہی سے ہندو اور مسلمان دونوں اُن کا بہت ادب کرتے تھے ۔۶۳
سال کی عمر میں ۱۹۲۷ء میں
حکیم صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ان پر اللہ کی رحمت ہو۔
ھوالشافی
ایک
انتہائی بیمار ،مدقوق اور لاعلاج شخص حکیم صاحب کی خدمت میں حاضرہوا۔وہ برسوں سے
بیمار تھا اور اپنی شفا یابی سے مایوس
ہوچکا تھا۔اس نے حکیم صاحب کو اپنی کیفیت اور بیماری کی تفصیلات بتائیں۔
حکیم صاحب نے اس کے لئے ایک نسخہ تشخیص کیا۔جب دیہاتی نے وہ نسخہ دیکھا ، تو بہت مایوس ہوا اور حکیم صاحب سے کہنے لگا حکیم صاحب! میں اتنے میلوں کا سفر کر کے آیا ہوں۔ سوچا تھا کہ آپ کوئی اچھا نسخہ تجویز کریں گے لیکن آپ نے وہی نسخہ لکھا ہے، جو میں پہلے ہی استعمال کرچکا ہوں۔
میں
معذرت چاہتا ہوں لیکن اس طویل بیماری کا میں نے ہرطرح کا علاج کرنے کی کوشش کی
لیکن کبھی کامیابی نہ حاصل ہوئی۔ ابھی دیکھ لیں جو نسخہ آپ نے دیا ہے بعینہ یہی
نسخہ ایک اورحکیم صاحب پہلے ہی مجھے دے چکے ہیں لیکن اس سے مجھے کچھ فائدہ نہ
ہوا۔۔
حکیم
صاحب نے جب نسخہ دیکھا تو واقعتاً اس میں اجزاء تو اجزاء ان کی مقدار میں بھی رتی
برابر فرق نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود حکیم صاحب نے کہا کہ حکیم میں ہوں یا تم ۔اگر
مجھ سے علاج کروانا ہے تو یہی نسخہ ہے۔ جاؤ یقینا اللہ رب العزت شفا عطافرمائے گا۔
اورپھر
وہی ہوا یعنی حکیم صاحب کے الفاظ پورے ہوئے اور اس شخص کو شفاء حاصل ہوگئی۔
اس نے حکیم صاحب سے دریافت کیا ایسا کیا ہوا کہ پہلے حکیم کی دوا نے فائدہ نہ دیا اور یہی دوا آپ کے ہاتھوں کارگرثابت ہوئی۔آخرحکیم کے لکھنے میں ایسا کیا فرق تھا ۔ حکیم صاحب نے جواب دیا جب میں نے اس کا نسخہ دیکھا، تو اُس پرھوالشافی (شفا دینے والی اللہ کی ذات ہے ) نہیں لکھا تھا۔ پھر جتنی دیر میں تمھاری نبض اور تمھارا معائنہ کرتا رہا میں درود شریف کا ورد کرتا رہا۔ یعنی میں نے اپنے نسخہ کا علاج ھو الشافی سے کیا ہے اور اس شخص نے ایسا نہ کیاتھا۔ نیز کسی دوا کے فائدہ کے لئے صحیح وقت بھی ضروری ہوتاہے جو کہ تمہاری کیفیات کے مطابق اب یہ دوا تیر بہدف تھی۔اورشفاء دینے والی ذات بہرحال اللہ رب العزت کی ہے ۔
ایک اورلاعلاج مریض کا واقعہ
ایک اور مریض کے بارے میں کہا جاتاہے کہ جب وہ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر تو آپ نے اس سے کہا جوتمہاری خواہش ہے تم پوری کرلو جہاں تک تمہارے علاج کا معاملہ ہے اب یہ مرض لاعلاج ہوچکا ہے۔اس سے شفاء کی کوئی امید نہیں۔
وہ شخص مایوسی کے عالم میں باہر نکلتا ہے ۔ باہر گنے کا کھیت نظر آتاہے۔ وہ گنا چوسنے کی خواہش کا اظہار کرتاہے۔ ساتھی اسے گنا لاکے دیتے ہیں۔ وہ جس قدرگنا چوستا ہے اس قدر اس کی خواہش میں اضافہ ہوتا نتیجۃ وہ بہت سے گنے چوس لیتاہے۔ پھر وہاں سے چلاجاتاہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا مرض ختم ہونا شروع ہوجاتاہے اور کچھ ہی عرصہ میں وہ بالکل تندرست ہوجاتاہے۔
پھر وہ حکیم صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضرہوتاہے۔ اور اپنی کیفیات اورحکیم صاحب کی پیشین گوئی کے متعلق بتاتا ہے۔ حکیم صاحب اس سے سوال کرتے ہیں ۔ اس نے کیاعلاج کیا۔ وہ کہتا ہے کچھ نہیں۔
لیکن حکیم صاحب کہتے ہیں تم نے گنا چوساتھا۔ اسے یاد آتاہے ہاں۔
حکیم صاحب کہتے ہیں تمہارے مرض کا علاج ایسا گنا تھا جہاں زہریلاسانپ دفن کیا گیا ہو اوراس جگہ گنااگایا جائے ۔وہ گنا تمہارا علاج تھا۔ لیکن اس کے لئے چارچھ مہینے درکار تھے ۔ اور تمہارے پاس اتنا وقت نہیں تھا۔ لیکن اگر تمہیں یہ مل جاتا تو تم شفایاب ہوجاتے جیسا کہ ہوگئے ہو۔اب جاؤ کسان سے معلوم کرو اس نے اس کھیت میں کوئی سانپ دفن کیاتھا۔
وہ شخص معلوم کرتاہے اور جواب ہاں میں ملتا ہے۔
سبحان اللہ کیا حکمت اور کیا دانائی تھی۔

Post a Comment