حکیم اجمل خاں – ایک نادر روزگار طبیب
ضیاءالدین
برنی
حکیم صاحب
کی طبیعت میں ظرافت بہت تھی ۔ ایک دن کیا فرمانے لگے کہ نواب صاحب دو جانہ اس بڑے کمرے
کو جو موصوف نے اپنے محل میں تعمیر کرایا ہے " ٹاؤن ہال" کہا کرتے ہیں اور
انفلوئنزا کو جو ان کے منھ سے صحیح نہیں نکلتا انفور ائنزا کہتے ہیں ۔ چناں چہ وعدہ
کیا گیا کہ نواب صاحب سے ہم سب کی ملاقات ہوگی تو اس وقت ان کے منھ سے یہ الفاظ سننے
کا شرف ہم کو بھی دیا جائے گا۔
ایک دن
باتوں باتوں میں حکیم صاحب نے انفلوئنزا کے تباہ کن اثرات کا ذکر کیا اور پوچھا کہ آپ کی ریاست
میں کیا حال رہا؟ نواب صاحب نے فرمایا حکیم صاحب ” انفور ائنز نے غضب ہی ڈھا دیا۔ ہماری
ریاست میں روزانہ بیسیوں موتیں ہو جاتی تھیں وغیرہ گئے وغیرہ۔ اس قسم کی باتوں سے حکیم
صاحب جب حد سے زیادہ لطف اندوز ہوتے تو اپنی دلی مسرت کا اظہار ہلکے تقسیم سے ظاہر
فرما دیا کرتے تھے ۔ یہ جا۔ تبسم ان کی ایک ممتاز خصوصیت تھی، جو در حقیقت مختلف جذبات
کی کو ترجمان ہوا کرتی تھی ۔
ریاست سے
چلتے وقت مجھ سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس اسپیچ ( تقریر ) کا انگریزی ترجمہ بھی تم کر دو
۔ میں نے عرض کیا کہ بعد اگر آپ ترجمے میں وہی شان قائم رکھنا چاہتے ہیں، جو اردو ایڈریس
میں موجود ہے تو یہ خدمت آپ بیرسٹر آصف علی صاحب کے سپرد کر دیجیے ، جو انگریزی علم
و ادب کا نہایت پاکیزہ مذاق رکھتے ہیں ۔ حکیم صاحب نے اتفاق فرمایا اور ترجمے کی خدمت مجھ سے لے لی گئی
۔
میں اوپر
ذکر کر چکا ہوں کہ کوئی نہ کوئی سند یافتہ حکیم ہمیشہ تھا۔
۔ ایک دن
حکیم صاحب کی معیت میں رہا کرتے تھے، ان بے شمار خطوط کا جواب وصوف نے دینے کے لیے
جو باہر کی دنیا ان کی خدمت میں طبی مشورے اور علاج کی فلوئنزا کو جو غرض سے بھیجا
کرتی تھی ۔ قیام دو جانہ کے دوران اس خدمت پر حکیم ذکی صاحب مامور تھے۔ ان کا کام یہ
تھا کہ روزانہ خطوط کا مطالعہ کرتے تان کے اور مریضوں کی شکایتیں سیدھی سادی ہوتیں
تو خود نسخہ لکھ کر جواب بھیج دیتے لیکن اگر ذرا بھی پیچیدگی ہوتی تو اسے فوراً حکیم
صاحب کے علم میں لاتے اور ان سے نسخہ معلوم کر کے اپنے ہاتھ سے لکھ بھیج دیتے ۔
ایک دن
حکیم ذکی احمد ایک مریض کے حالات پر غور کر رہے اور جب بے حد غور وفکر کے بعد انھیں
کوئی دوا سمجھ میں نہ آئی تو کہنے لگے کہ مرض بہت پیچیدہ ہے، اگر یہ دوا تجویز کرتا
ہوں تو اس سے نئی پیچیدگی پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔ اگر فلاں دوا لکھتا ہوں تو مرض
بڑھ جانے کا امکان ہے۔ الغرض وہ بہت دیر تک شش و پنج میں رہے اور جب بات کی کوئی دوا
کا فیصلہ نہ کر سکے تو انھوں نے حکیم صاحب سے رجوع کیا ۔ حکیم صاحب نے پورے خط کو غور
سے سنا اور فی الفور دوا تجویز کر دی ۔ میں نے دیکھا کہ صحیح دوا کا نام سنتے ہی ذکی
احمد بہت ہشاش بشاش ہو گئے اور بعد میں مجھ سے کہا کہ ایسی دوا ہی کی ضرورت تھی ، جو
تمام شکایات کم کر دے اور ساتھ ہی پیچیدگی پیدا نہ ہونے دے۔ میں نے اپنے آٹھ دن کے قیام میں بار بار دیکھا کہ
حکیم صاحب مریضوں کے خطوط کی جانب بہت متوجہ رہتے تھے۔ اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا
ہے کہ حکیم صاحب کو خدمت الناس کا کس قدر شغف تھا۔ اس سلسلے میں ایک اور واقعہ بھی
بیان کرنا چاہتا ہوں جو اگر چہ دو جانہ کے قیام سے متعلق نہیں ، تاہم وہ قریب قریب
اسی زمانے کا ہے اور اس کا سے حکیم صاحب کے جذبہ خدمت الناس پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
میری اہلیہ
بیان کرتی ہیں کہ شادی سے قبل میں اکثر بیمار رہا کرتی تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ
مجھے مرض دق ہو گیا ہے، چناں چہ میں نے حکیم صاحب سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس
خیال سے آگرے سے دہلی آگئی۔ دہلی میں اپنی ہمشیرہ کے یہاں قیام پذیر رہی۔ وہاں سے میں
نے بغیر کسی سے مشورہ کیے، ایک خط حکیم صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔ چند دن کے بعد کیا
دیکھتی ہوں کہ حکیم صاحب اپنی گاڑی میں تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ میں اس مریضہ
کو دیکھنے آیا ہوں ، جس نے مجھ کو خط لکھا تھا۔ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ حکیم صاحب
محض ایک خط کے لکھنے پر تشریف لے آئیں گے ۔ خیر ہم نے انھیں اندر بٹھایا اور نہایت
اطمینان سے سارا حال سنایا۔ حکیم صاحب نے مجھے اچھی طرح سے دیکھا اور فرمایا کہ دق
کا خیال ایک وہم سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا اور میرا ہر طرح سے اطمینان کر دیا ۔
دہلی کے
لوگ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ حکیم صاحب نیز شریفی خاندان کے دیگر ارکان کی
ہمیشہ سے ایک نمایاں خصوصیت یہ رہی کہ وہ باہر سے آنے والے مریضوں کو اپنا مہمان رکھتےر
ہےہیں۔ خود ان کے گھروں پر باقاعدہ تشریف لے جاتے ہیں اور کوئی فیس یہاں تک کہ گاڑی
کا کرایہ تک نہیں لیتے ۔
حکیم صاحب
کے لیٹر پیڈ پر " افضل الاشغال خدمت الناس کا مشہور قول نقش تھا ۔ کیا کوئی کہہ
سکتا ہے کہ ان کی زندگی جو دراصل ایثار اور
قربانی کی زندگی تھی ، ہمیشہ اسی بلند مطمع نظر کے مطابق بسرنہیں ہوئی؟
دو جانہ
کے قیام کے بعد میں متعدد بار حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، آخری مرتبہ میں نے انھیں
اس وقت دیکھا، جب وہ شاہ امان اللہ خاں کو ایڈریس دینے کے لیے ممبئی تشریف لائے تھے
۔ اس وقت بھی وہ بہت نحیف تھے ، لیکن یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ وہ چند دن کے بعد
ہم سے جدا ہو جائیں گے۔ بہر حال یہ خطبہ خوانی غالباً مرحوم کی آخری خدمت تھی ، جو
باری تعالیٰ نے ان سے لی ۔

Post a Comment