سوچ کا سفر۔۔۔۔۔۔
محمد وجیہ نصرت اشرفی
نماز کی چوتھی رکعت تھی۔۔۔ اور دھیان ۔۔ حسبِ عادت ، زندگی کی مشکلات میں الجھا ہوا تھا۔۔۔۔ سلام پھیرا۔۔۔اور کجھ دیر قعدہ کی حالت میں خود کو محوِ استغراق کیا۔۔۔ آنکھیں بند کرتے ہی سوچ کی اک لا متناہی دنیا کا سفر شروع ہوا۔۔ جسے صوفی اصطلاح میں مراقبہ کہا جاسکتا ہے۔۔۔
سوچ کے سفر کا پہلا پڑاؤ یہ سوال بنا کہ انسان جب بہت پریشانی میں ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے۔۔؟؟؟
اب چونکہ معراج کا اک مقصد سوالوں کے جواب عطا کرنا ہوتا ہے تو اس سفر میں بھی اس مشاہدے سے ہمکنار ہوے کہ۔۔
جواب ملا ۔۔۔ پریشانی میں گھرے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔۔
اک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے دین سے مناسب دوری بنائ ہوتی ہے۔۔ جو بوقتِ مشکل اور پریشانی، خود کو تنہائ میں قید کرلیتے ہیں۔۔
(یہاں قید کا لفظ قصداً استعمال کیا کیونکہ اس مزاج کے لوگ تنہاء ہو کر بھی انہی مشکالات کو سوچ کر خود کو ہلکان کیے ہوتے ہیں۔۔ اور علاوہ ازیں، زھنی سکوں کے لیے خود کو کسی نہ کسی نشے کا عادی بنا دیتے ہیں۔۔۔گویا ان کی تنہائ بھی مثل قید ہی کہلائ۔۔۔جب کہ اک بندۂ خدا کی نزدیک تنہائ کا مطلب خود اور خدا کے درمیان حائل ہونے والی ہر مادی شے کو ہٹا کر ، اس قید سے نکل کر اک لا متناہی کیفیت کا سفر اختیار۔کرنا ہے)
اسی ضمن میں دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو مشکل اور آزمائش کے ان لمحوں کو کچھ اس طرح گزارتے ہیں کہ دین اور اللہ کے احکامات سے قربت کے سبب خود کو بے سود تنہائ کے بجائے خود کو اللہ کے رازوں کے سپرد کردیتے ہیں۔
۔۔۔طلب پوری نہ ہوئ۔۔۔۔۔ تشفی نہ ہوئ۔۔۔۔
تو اس سوچ کا مزید احتساب کیا کہ یہ جانا کہ اس سوچ اور اس مزاج سے تعلق رکھنے والا ایسے وقت میں یہ جاننے کی جستجو کرنے لگتا ہے کہ اللہ نے اس وقت کے لیے کوئ نہ کوئ حکم ، کوئ نہ کوئ ھدایت یا یوں کہیں کہ کوئ نہ کوئ راز ایسا ضرور رکھا ہوگا جس سے (میرے لیے) پردہ اٹھنا باقی ہے۔۔ تو وہ شخص اس کی فکر اور اس راز سے تعلق قائم کرنے میں جُٹ جاتا ہے جس کی حکمت ابھی تک اس پر ظاہر نہ ہوئ تھی۔۔
سوچ نے مزید سفر کیا تو کچھ ہی فاصلے پر اک اور سوال سے ملاقات ہوئ ۔۔۔۔کہ اس قسم سے تعلق رکھنے والے ۔۔۔ کس کا تصور کرتے ہیں یا کن کا تصور ان کے مراقبے کو قوت بخشتا ہے؟؟
۔۔۔ تو جواب ملا۔۔۔
دینی اعتبار سے جن سے شفقت، رحمت اور ھدایت ملی ہو ، جسے طریقت کی اصطلاح میں مرشد کہا جاتا ہے یعنی جس کے آگے رشد و ہدایت کے لئے سر تسلیم خم کر دیا جائے۔۔۔
اور ضروری نہیں ہے کہ محض مرشد کے خیال سے ہی روحانیت کو تازگی ملے بلکہ بعض اوقات کچھ ایسے اللہ والوں کا خیال بھی ہماری روح کو تازہ کرتا ہے جن کے ہاتھ پر بیعت تو نہ کی گئی ہو لیکن اس اللہ والے کی حقیقت اور معرفت سے اور اس کے علم سے چند چھینٹے آپ پر بھی گرے ہوں۔۔۔
۔۔سوچ کے سفر کے اس پڑاؤ کا جواب مکمل ہوا۔۔۔
سوچ نے مزید سفر کیا ۔۔ تو اگلا پڑاؤ ایک اور سوال پر ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ یہ کہ جو لوگ اس روحانی دنیا سے واقفیت نہ رکھتے ہوں تو مادی دنیا کے اعتبار سے انہیں کیسے سمجھایا جائے کہ مرشد کون ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے یا مرشد کیوں ضروری ہے مرشد کا کردار کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟.
کوئی ایسی مثال جو ان کو تشفی دے ۔۔۔۔۔
یکدم ایک لمحے کی خاموشی چھا گئی گویا جواب آس پاس دیکھائی نہ دیا ۔۔۔۔ سفر رک گیا۔۔۔۔
اور کسی سفر کے پڑاؤ میں تحریک نہ ہو تو وہ پڑاؤ بےزارگی بے دلی اور سستی پیدا کر دیتا ہے گویا سفر کی کشش ختم ہونے لگتی ہے۔۔۔۔۔
ابھی اسی کیفیت اور کشمکش سے سوچ گزر رہی تھی کہ اک اللہ والے کا مسکراتا چہرہ سامنے آیا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو میاں۔۔۔۔؟؟ ہم کس لیے ہیں؟؟؟ ہمت کر کے سفر کئے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔پشت پناہی کی فکر تمہاری نہیں۔۔۔۔ یہ کام ہمارا ہے۔۔۔۔۔
یہ تسلی ملتے ہی یکدم ایک آسان سی مثال ملی کہ جس طرح چھپرا /چھاؤنی۔۔۔ جس کی چھت مضبوط ہوتی ہے۔۔۔۔۔ وہ اپنے اندر یا اپنے نیچے آنے والوں کو مختلف موسم کے نقصانات سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کے نیچے موجود لوگ موسم کا مشاہدہ باآسانی اور اطمینان سے کر لیتے ہیں اور موسم سے ہونے والے کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتے ہیں گویا ان کو کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
جس طرح اگر ہم یہ مان لیں کہ کوئی چھاؤنی موجود نہیں اور سخت دھوپ بھی ہو رہی ہو۔۔۔۔۔۔ تو شاید کچھ وقت کے لئے وہ دھوپ ہمارے لیے باعث تسکین تو بنے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ رحمت ، زحمت میں بدلتی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کا نتیجہ اس طرح آئے گا کہ ہر بندہ اپنی اپنی ہمت اور استطاعت کے حساب سے ایک محدود مدت تک اس دھوپ کو برداشت کر پائے گا لیکن اس کے بعد اس کی طبیعت نڈھال ھوتی چلی جائے گی یعنی قدرت سے جڑنا فی الوقت تو وجۂ سکون ہوگا لیکن ناقص قوت کے سبب جلد یہ سکون ۔۔، مشکل میں بدل جائے گا۔۔۔۔۔
اسی طرح موسموں میں سے ایک موسم ۔۔۔۔۔۔بارش یا برف باری لیں۔۔۔۔۔کہ ایک لمحے کے لیے یہ تصور کیا جائے کہ چھاونی میسر نہیں اور بارش سے براہ راست ٹکراؤ۔۔۔۔ کچھ وقت تو سرور کی کیفیت ملے گی لیکن کچھ وقت بعد ہی یہ کیفیت ٹھنڈ اور زکام کی زحمت سے دوچار ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔
لیکن اسی کے برعکس اگر چھاؤنی کے نیچے آجائیں تو اس ماحول سے کافی دیر تک محظوظ ہو سکیں گے چاہے ماحول اور فضا کچھ بھی ہو اور کیسی بھی ہو۔۔۔۔
تو اس مثال سے یہ بات سمجھ آئی کہ اگر مادی اور دنیا دار طبقے کو مرشد کامل اور اللہ والوں کی ضرورت اور اہمیت سمجھائی جائے تو اس مثال سے بآسانی سمجھای جاسکتی ہے کہ گویا مرشد یا اللہ والے چھاؤنی کی مانند ہوتے ہیں کہ گویا کائنات کے ہر گوشے میں اللہ کے مشاہدات کے موتی پھیلے ہوئے ہیں اور گویا اس کے مشاہدوں کی کہیں دھوپ نکلی ہوئی ہے تو کہیں بارش اور کہیں طوفان تو کہیں برف باری اور زالہ باری۔۔۔۔۔
براہ راست اس سے ضم ہوئے تو وقتی وجد و سرور تو حاصل ہوجائے لیکن اپنی محدود ہمت اور استطاعت اور ناقص روحانیت کے سبب اپنے لئے مشکل کھڑی کر لیں گے لیکن اگر کسی مرشد کامل یا اللہ والے کے دامن شفقت و رحمت کے سائے میں خود کو چھپا لیا تو قدرت کے مشاہدے بواسیلۂ مرشد انتہائی دوام سرور بخشے گی۔۔۔۔۔۔
مشکل اور ذہن کو اذیت دیتی یہ سوچ سے خلاصی ہوئی ۔۔۔
سوچ کا سفر مکمل ہوا ۔۔۔۔
اور یکدم دنیا میں واپسی ہوئی۔۔۔۔
آنکھیں کھلیں۔۔۔ تو محسوس ہوا کہ وقت نے گویا اپنے آپ کو روک لیا تھا کہ وقت کے گھوڑے پر سوار ہونے والا کوئی موجود نہیں تھا تو وہ گزرتا کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچ کو معراج ہوئی تھی ۔۔۔۔
واپسی ہوئی اور وقت کے گھوڑے پر بیٹھ کر دوبارہ زندگی کے سفر کے تسلسل کو ایڑھ لگائی اور رختِ سفر ہو لیے۔۔۔
#اشرفی_خیال
Post a Comment