من عرف
نفسہ فقد عرف ربہ
محمد وجیہ
نصرت اشرفی
تھکن سے
چور جب حصولِ استراحت کے لیے بیٹھا۔۔۔۔۔ تو حسب عادت نعتیہ والتجایہ کلمات سے زبان
و دل کو تر کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔سکون کی کیفیت کچھ اس طور حصول کا باعث بنی کہ آنکھیں بند ہو گئیں ۔۔۔۔اور سوچ کے دروازے نے
اپنے اندر موجود ابلق گھوڑے کوآزادی کا رستہ مہیا کیا۔۔۔۔
آزاد فضا
میں آتے ہی سوچ کی سرپٹ دوڑ شروع ہوئی۔۔۔۔
کسی بھی
منزل تک پہنچنے سے پہلے اور دوران سفر میں
ہی اس بات کا احساس ہوا کہ اللہ نے سوچ کو
کافی قوت عطا فرمائی ہے اور اس کی رفتار بھی
حیران کن ہے کہ پل بھر میں یہ زمین کی تہہ تک اور آسمان کی بلندیوں تک کی مسافت کو
عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہی نہیں بلکہ جنت اور دوزخ تک کا سفر بھی کر اتی
ہے۔۔۔۔۔
ماضی اور
مستقبل کے تمام تر حالات و معاملات ۔۔۔۔۔۔چہ جائے کہ قیاس آرائی پر ہی مبنی کیوں نہ
ہو۔۔۔۔۔ واقفیت کا ایک سانچہ پیش کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔
اور ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ اس سوچ کا، روح سے کافی گہرا تعلق ہے کیونکہ روح کی پرواز کا سبب
بھی اسی سوچ پر مبنی نظر آتا ہے۔۔۔ اسی دوران نظر سے ایک یونانی فلسفی افلاطون کا قول
گزرا کہ
سوچنا،
اپنی روح سے ہم کلام ہونا ہے
اس قول
سے اپنے مفاد کی حقیقت تو مستحکم ہوئی کہ اس کا یہ قول اس حقیقت کی غمازی کرتا نظر
آتا ہے کہ ظاہر اور باطن۔۔۔۔۔ بلکہ پورا وجود سوچ کے ماتحت ہے۔۔۔۔
سوچ کی
دنیا میں بھی دو کردار ہیں۔۔۔
ایک تو
وہ جو شیطانی ہے اور دوسرا وہ جو رحمانی ہے ۔۔۔۔
اور جیسے
کہ اس کا خاص تعلق روح کے ساتھ ہے تو روح کی بناوٹ اور گراوٹ کا انحصار بھی سوچ کے
کردار پر مبنی ہوا۔۔۔
سوچ کو
مزید اگر خاص کر دیا جائے للہیت کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اس کے
لیے غور و فکر کا مادہ بھی استعمال ہوتا ہے۔۔ اور صوفیا کی اصطلاح میں اسے، توجہ کرنا
بھی کہتے ہیں۔۔۔۔
عبادت و
ریاضت کے بعد جب سوچ پر مکمل گرفت حاصل ہو جائے تو روح کی لطافت کے سفر کی ابتداء ہوتی ہے۔۔ اور نتیجہ۔۔۔۔ روح کی پرواز ہوتا ہے ۔۔۔)
اللہ نے
موقع دیا تو سوچ اور روح کے تعلق کو قلم بند کروں گا
اس سوچ
کا پہلا پڑاؤ اس سوال پر ہوا۔۔ کہ مجھے یا ہمیں اس فانی دنیا میں کیوں بھیجا گیا؟؟؟؟
ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟؟؟ اگر صرف عبادت کرنا ہماری تخلیق کا مقصد تھا تو کیا
فرشتے اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے؟؟؟؟؟ کیا فرشتے عبادت کے لیے کافی نہیں تھے؟؟؟؟؟؟
کیا فرشتے ہم سے کم درجہ عبادت کرتے ہیں ؟؟ نہیں تو۔ ایسا تو نہیں۔۔۔بلکہ ہم سے زیادہ
بہتر درجے و طریقے سے عبادت کرتے ہیں۔۔۔۔ خلوص و یکسوئی کے ساتھ۔۔۔ بلکہ ان کی تو تخلیق
کا مقصد ہی اللہ کی تسبیح و تحلیل بیان کرتے رہنا ہے۔۔۔۔
ان سوالوں
کے آتے ہی ایک جملہ گردشِ سوچ کا حصہ بنا کہ تفسیر الکبیر میں امام رازی کا قول ہے
۔۔۔
من عرفہ
نفسہٗ فقد عرفہ ربہ
یعنی۔۔۔
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔۔۔۔۔ اس قول سے بہرحال یہ
بات تو جڑتی محسوس ہوئی کہ اس دنیا میں آنے کا ایک مقصد۔۔۔۔ رب کی پہچان و معرفت حاصل
کرنا ہے۔۔۔۔ اب یہ کیسے ممکن ہو ۔۔؟؟؟ تو اس کا جواب بھی اسی میں ملا کہ اپنے آپ کو
پہچان لینا۔۔۔۔۔ رب کی پہچان کا سبب ہے۔۔۔۔
اب یہاں
تک کچھ بات تو سمجھ آ گئی
لیکن ساتھ
ساتھ مزید کچھ کڑیاں الجھتی ہوئی بھی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ رب کی پہچان یا
معرفت ۔۔۔۔۔۔!!! جو کہ اس حیاتی کا مقصد ہے ۔۔۔۔ جس کی غرض سے اس کائنات کو بچھایا
گیا سجایا گیا۔۔۔۔۔۔ اور اس پوری کائنات میں میری ایک ذرہ کی سی حیثیت۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! اور معرفت حاصل کرنے کے لیے مجھے خود کی پہچان کرنی
ہو گی۔۔۔!!؟؟ یعنی گویا مجھے خود کو پہچاننا
ہوگا۔۔۔۔۔؟؟؟؟
حیراں ہوں
کہ اس دل میں سمائے ہو کس طرح
حالانکہ
دو جہاں میں بھی سمائے نہیں ہو تم
اب چونکہ
کہ میں ایک مخلوق ہوں تو مجھے اک ایسی مثال کی ضرورت تھی کہ جس کی تخلیق ، جس کی حیاتی
میرے لیے تمام تر سوالات اور اس کے جوابات کے دروازے کھول دے۔۔۔۔۔
تو دل نے
ندا دی کہ یہ تو کوئی اور نہیں ۔۔۔۔ بلکہ جان کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہے۔۔۔
دل بے قرار۔۔۔۔ روح اضطراب
کی کیفیت سے گزرنے لگی۔۔۔۔ کہ اب جواب، درِ رسول سے ہی میسر ہوگا۔۔
دلوں کا
کاسا بنا کے مانگو،
حضور دیں
گے ، ضرور دیں گے،
تم اپنا
بچھا کے مانگو،
حضور دیں
گے ، ضرور دیں گے،
درِ رسول
پہ دلِ مضطرب پیش کیا ، تو رحمتِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثِ قدسی عطا فرمائی۔۔
جو کہ تفسیر روح البیان میں محفوظ ہے کہ اللہ نے حضرت داؤد سے فرمایا۔۔
کنت
کنزا مخفیا، فاجببت ان اعرف فخلقت الخلق۔۔
کہ میں
ایک مخفی خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو خلق کیا
اس حدیث
مبارکہ سے اس جواب کو تقویت ملی کہ رب کی پہچان اور اس کی معرفت ہی مقصد زندگی ہے۔۔۔
اس قول
کا ایک حصہ تو معلوم ہو گیا کہ رب کی پہچان مقصد ہے لیکن یہ سوال ابھی تک سوال ہی تھا
کہ من عرف نفسہ یعنی اپنی پہچان سے رب کی پہچان کیسے حاصل ہوگی یا اس طرح کہہ لیں کہ
انسان کو رب کی پہچان کیسے حاصل ہو؟؟
اپنی پہچان
کرانے کے لیے اس نے ادم کی تخلیق کی اور انہیں اپنی صورت میں تخلیق کیا جیسا کہ بخاری
کی حدیث ہے۔۔۔
خلق
اللہ آدم علی صورتہ
من عرف
نفسہ فقد عرفہ ربہ
یہ قول
ایک ورد کی طرح ذہن میں گردش کرتا رہا....... کہ رب کا ایک اور فرمان ملا بلکہ جابجا
رب تعالی اس بات کا اعلان کر رہا فکر دے رہا
، کہ میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں،
خود میں غور کرو ، تدبر کرو
اور مزید
یہ کہ قلب مومن رب کا عرش ہے
قلب مومن
عرش اللہ تعالی
چھپے ہوئے
خزانے سے لے کر آدم کی تخلیق تک۔۔۔۔۔۔ مقصد صرف ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ہے اپنی پہچان۔۔۔۔۔۔
اللہ اللہ
اللہ ۔۔۔
کیا ہی
خوبصورت اور وجد کی کیفیت پیدا کرنے والے میرے رب کے الفاظ ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
کہ میں
نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔۔۔۔۔ اور پہچان کس طرح ممکن ہو؟؟؟؟
اور وہ
صورت ہی کس کی ہو گی۔۔۔؟؟؟ میرے پیارے آقا
کی۔۔!!
کہ جان
کائنات خود فرمارہے ہیں کہ
من رانی
فقد رای الحق
جس نے مجھے
دیکھ لیا اس نےالحق (اللہ) کو دیکھ لیا۔
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ ایک بار مدینہ کی گلیوں میں صدا لگا رہے تھے کہ میں نے مدینے کی گلیوں
میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا ہے ۔۔تو جب حضرت عمر نے یہ سنا تو انہیں پکڑ کر رسول اللہ
کی بارگاہ میں لے گئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ ۔۔۔!!!
ابوہریرہ
دیوانہ ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ یہ کہتا ہے کہ میں نے مدینے کی گلیوں میں رب کو چلتے پھرتے دیکھا
ہے۔۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سچ کہتا ہے۔۔۔۔ حضرت عمر نے
عرض کی کہ یا رسول اللہ۔۔۔ وہ کیسے ؟؟ آپ نے فرمایا من رانی فقد رای
الحق۔۔۔
الغرض کے
رب کی ذات کی پہچان خود کو پہچاننے میں ہے ۔۔۔کیونکہ اللہ نے خود کی پہچان ،انسان کے
اندر مخفی رکھی ہے ۔۔۔۔ بس ضرورت اس امر کی ہے
کہ ہم خود کو کتنا پہچان پاتے ہیں۔۔۔ اور زندگی کا مقصد اور حضرت انسان کو اس
زمین پر بھیجے جانے کا اصل مقصد اور حقیقت بھی یہی ہے
عشاء کی
آذان کی آواز سے سوچ کی اس لامتناہی عالم سے
واپسی ہوئی۔۔۔۔
کہ ظاہری
آنکھیں بند ہوں نا۔۔۔۔ تو دل و دماغ و روح اور سوچ و فکر کے تمام راستے اور دروازے
کھل جاتے ہیں ۔۔۔ اور ضروری نہیں کہ اُس عالم کے سارے سوالوں کے جواب مل جائیں
کیونکہ یہی تو راز و نیاز کی باتیں ہوتی ہیں کہ
گویا تشنگی رہے گی۔۔۔ تو چنگاری بھی جلتی رہے گی۔۔ جو کہ دوبارہ آگ بھڑکانے
کے کام آئے گی۔۔۔۔۔
#اشرفی_خیال
Post a Comment