بھول جانے  کی عادت کا شافی علاج

Zafar Iqbal Muhammad

 نیورو سائنس کا کہنا ہے کہ 4 عادات آپ کی یادداشت اور دماغی افعال میں زبردست بہتری لا سکتی ہیں اور اگر آپ یہ عادات  باقاعدگی سے اپنا لیں تو یادداشت کم ہونے کے بجائے بڑھ سکتی ہے۔

باقاعدگی سے ورزش کرنا:  جسمانی سرگرمی آپ کے دماغ اور دماغی صحت کو بہتر بنا سکتی ہے۔

صحت مند غذا کا استعمال: آپ کے دماغ کے تیز، چاق و چوبند رہنے اور بہترین کارکردگی کے لیے اس کا براہِ راست غذا سے تعلق ہے۔

اپنے دماغ کو متحرک کریں: دماغی مشقوں کے ساتھ ساتھ اپنے دماغ کو چیلنج کرنا یادداشت اور علمی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔

اپنے ذہنی تناؤ کو قابو کرنا سیکھیں:دائمی ذہنی تناؤ اور اضطراب، یادداشت اور عملی کام کو کمزور کر سکتا ہے، تناؤ کے انتظام کی تکنیکوں کو استعمال کرنا جیسے کہ مراقبہ، گہری سانس لینے کی مشقیں، ذہن سازی، اور آرام دہ سرگرمیوں میں مشغول ہونا یادداشت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔

بھول جانے کا تعلق ذہانت کی کمّی سے نہیں، بلکہ چیزوں کو نظر انداز کرنے سے ہے-

 یہ"رینڈم میموری لاس" کے وہ مسائل ہیں جو کسی بھی شخص کسی بھی عمر میں درپیش ہو سکتے ہیں- لوگ کہتے ہیں بادام کھایا کرو میں کہتا ہوں رینڈم میموری کو بہتر کرنے کےلیے بادام سے زیادہ مینیجمنٹ کی ضرورت ہے-

آپ نے "گھجنی" فلم دیکھی ہو گی- اس کا ہیرو سر پہ چوٹ لگنے کی وجہ سے "شارٹ ٹرم میموری لاس" کا شکار ہو چکا ہے- ان حالات میں وہ کیسے اپنی لائف مینیج کرتا ہے؟ یہ دیکھنے کی چیز ہے-

اس نے گھر میں مختلف دراز پہ Tallies لگا رکھی ہیں کہ بٹوہ اس خانے میں رکھنا ہے، ڈائری یہاں رکھنی ہے، کیمرہ یہاں اور پستول یہاں-

گھر آتے ہی وہ بیگ میں رکھی تمام اشیاء مختلف خانوں میں رکھ دیتا ہے-

اسی طرح وہ ڈائری بھی لکھتا ہے اور گزشتہ کسی واقعے کو یاد کرنے کی بجائے اپنی ڈائری سے کنسلٹ کرتا ہے-

میں نے اس فلم سے بہت کچھ سیکھا اور اپنی رینڈم میموری کو بہتر کیا ورنہ اس معاملے میں میری حالت بھی آپ سے کچھ مختلف نہ تھی-

ہم چیزیں کیوں بھول جاتے ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم شعوری دنیا سے رفتہ رفتہ دور ہورہے ہیں اور خیالی دنیا میں زیادہ رہنے لگے ہیں-

 ہر وقت کچھ نہ کچھ ہمارے ذہن میں پکتا رہتا ہے- اس کی سب سے بڑی وجہ "سکرین" ہے- بھلے وہ موبائل کی سکرین ہو ، ٹیب ہو یا ٹی وی ، خیالی دنیا میں رہنا اب ہمارا وطیرہ بن چکا ہے-

اس لاشعوری دنیا نے ہمارے دماغ کا "ایونٹ ریکارڈنگ سسٹم" بری طرح متاثر کیا ہے- دماغ کا وہ CCTV کیمرہ جو ہر ایونٹ پہ نظر رکھتا تھا اور اسے ہماری میموری میں سیو کرتا تھا بری طرح متاثر ہوا ہے-

ان حالات میں بھلے آپ ایونٹس کو نظروں سے دیکھتے رہیں، وہ سیو نہیں ہوں گے- چابیاں بیگ میں ڈالی ہیں کہ نہیں؟ کچھ یاد نہیں- آفس پہنچ کے یاد آیا کہ پرس تو گھر میں ہی رہ گیا- گھر آ کر یاد آیا کہ موبائل تو آفس میں ہی رہ گیا- ہر وقت خود کو کوستے رہنا اور انا لِلّه کا ورد کرتے ہوئے گم شدہ چیزوں کو ڈھونڈتے رہنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے-

اب حل کیا ہے؟

ہم کیمرہ تو درست کرنے سے رہے کہ سکرین چھوڑنا گوارا نہیں تو ظاہر ہے مینجمنٹ کرنا پڑے گی- بعینہ اسی طرح جیسے گھجنی فلم کا ہیرو کرتا ہے-

میں نے یہی کیا اور فائدہ مند پایا- اب میں بھلکڑ پن سے 99 فیصد نکل آیا ہوں- کیسے؟

پہلا اصول:" ریکنگ"

گھر ہو یا دفتر دونوں جگہ آپ کے پاس ایک جگہ سامان رکھنے کی مخصوص ہونی چاہیے- بھلے الماری ہو یا صندوق، ریکنگ ضروری ہے- یعنی الگ الگ خانے- بڑی دراز ہے تو اس میں چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی ٹوکریاں رکھ لیں ، لیکن ہر آئٹم اپنی درست جگہ پہ رکھنا پہلا اصول ہونا چاہے-

دوسرا اصول:"لسٹ بناؤ ..."

آپ کا پرس ، چابیاں، شناختی کارڈ، موبائل ، واچ، ماسک سمیت ہر وہ چیز جو آپ کے ساتھ گھر سے دفتر، اور دفتر سے گھر تک روزانہ سفر کرتی ہے، اس کی ایک لسٹ بنا کر اپنی الماری اور باہر والے دروازے کے پیچھے چپکا دیں-

 اسی طرح دفتر میں بھی ایک آئٹم لسٹ آپ کی میز یا کبرڈ پہ لگی ہونی چاہیے- گھر یا دفتر سے نکلتے وقت ایک نظر اس لسٹ پہ ضرور ڈالیں- رفتہ رفتہ یہ لسٹ آپ کے شعور میں بیٹھ جائے گی اور پھر دیکھنے کی ضرورت بھی نہ رہے گی-

تیسرا اصول: " اپ لوڈ آل"

گھر سے نکلتے وقت آپ نے لسٹ کے مطابق تمام آئٹمز بیگ میں ڈالنے ہیں- میں زیادہ خانوں والا بیگ ہی استعمال کرتا ہوں اور ہر چیز الگ الگ خانے میں رکھتا ہوں - اسی طرح دفتر سے نکلتے وقت بھی تمام آئٹمز لسٹ کے مطابق بیگ میں ڈالنے ہیں-

چوتھا اصول "چھوڑیں مت"

 کوئی بھی آئٹم چھوڑیں مت- میز پہ نہ رکھیں، بیڈ پہ نہ پھیکیں نہ ہی دوکان کے کاؤنٹر پہ رکھیں- آئٹم  یا تو آپ کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، یا بیگ کے مخصوص خانے میں یا الماری کے مخصوص ریک میں- کسی بھی آئٹم کو کسی بھی صورت ان تین مقامات کے علاوہ کہیں نہ رکھیں بھلے آپ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں-

دوکان سے سامان لیتے وقت پہلے سامان اٹھائیں- پھر پرس نکالیں اور جب تک بقایا نہ ملے پرس آپ کے ہاتھ میں ہی رہے- اکثر دوکان دار آپ کے بھلکڑپن سے فائدہ اٹھاتے ہیں-

پانچواں اصول "ڈاؤن لوڈ آل"

گھر آ کر سب سے پہلے اپنی چابیاں بیگ پرس وغیرہ الماری یا صندوق کے مخصوص ریکس/خانوں میں مخصوص ٹوکری کے اندر رکھیں اس کے بعد کوئی اور کام کریں- ٹیبل یا بیڈ پہ پھینک دینا آسانی کا باعث ہے لیکن بعد میں ہمیشہ پریشانی کا باعث بنتا ہے-

چھٹا اصول:"ڈائری لکھیں"

میرے گھر میں ڈائریوں کا ایک ڈھیر جمع ہو چکا ہے- یہ ہسٹری ریکارڈنگ کےلیے بہترین ہے- میں نے گاؤں کا سفر کب کیا؟ کیوں کیا؟ کس ٹرین سے کیا؟ رستے میں کتنا خرچہ ہوا؟ وہاں کس کس دن کیا ہوا اس کی مختصر  روداد میری ڈائری سے مل جائے گی- والد صاحب کب فوت ہوئے؟ اماں کب فوت ہوئیں، بیٹا کب فوت ہوا؟ یہ سب وہاں لکھا ہے-

 پانچ سال میں نے ڈائری لکھی مگر اب چھوڑ دی ہے- کیونکہ اب میں فیملی کے ساتھ رہتا ہوں اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا- اگر کچھ ضروری چیز لکھنی بھی ہو تو موبائل ایپ میں لکھ لیتا ہوں-

ساتواں اصول:" سفری بیگ لسٹ"

ایک طویل لسٹ میں نے ان اشیاء کی بھی بنا رکھی ہے جو سفری بیگ میں موجود ہونی چاہیں- پہلے ان کی تعداد 50 تھی اب 70 کے قریب ہے- یہ لسٹ موبائل میں سیو ہے اور لمبے سفر پہ جاتے وقت ضرور کنسلٹ کی جاتی ہے-

ان اصولوں کو اپنانے میں اگرچہ دماغی فٹیک ہوتی ہے مگر آپ کی یاداشت ایسی تیز ہو جائے گی کہ لوگ داد دیں گے-


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post