📝 خلاصہ قرآن مجید📝
گیارہویں پارے کا خلاصہ
۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ یونس مکمل
(۱) سورۂ توبہ
کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ منافقین کی مذمت
۲۔ مومنین کی نو صفات
۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص
صحابہ
۱۔ منافقین کی مذمت:
اللّٰه
تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے
نبی کو خبر دے دی، نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی،
اللّٰه تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے
اس مسجد کو جلا دیا گیا۔
۲۔ مومنین کی نو صفات:
(۱) توبہ کرنے
والے
(۲) عبادت کرنے
والے
(۳) حمد کرنے
والے
(۴) روزہ رکھنے
والے
(۵) رکوع کرنے
والے
(۶) سجدہ کرنے
والے
(۷) نیک کاموں
کا حکم کرنے والے
(۸) بری باتوں
سے منع کرنے والے
(۹) اللّٰه
کی حدود کی حفاظت کرنے والے.
۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص
صحابہ:
(۱) حضرت کعب
بن مالک رضی اللّٰه عنہ
(۲) حضرت ہلال
بن امیہ رضی اللّٰه عنہ
(۳) حضرت مرارہ
بن ربیع رضی اللّٰه عنہ
ان تینوں
سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا
گیا۔
(۲) سورۂ یونس
میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید
(رازق ،
مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللّٰه ہی ہے۔ آیت:۳۱)
۲۔ رسالت
(اور اس
کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے
مذکور ہیں)
۳۔ قیامت
(روز قیامت
سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار
کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱)
۴۔ قرآن کی عظمت
(یہ بڑی
دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱)
حضرت نوح
علیہ السلام کا قصہ:
حضرت نوح
علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے،
اللّٰه تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی
سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔
حضرت موسیٰ
اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ
اور ہارون علیہما السلام کو اللّٰه تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے
سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام
کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ
علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللّٰه تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام
کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز
ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق
ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللّٰه نے سمندر میں راستے بنادیے۔
حضرت یونس
علیہ السلام:
انھی کے
نام پر اس سورت کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن
میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً یونس آیا ہے اور دو جگہ(سورۂ
یونس اور سورۂ قلم میں) اللّٰه نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی
صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔
حضرت یونس
علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں:
ایک ان
کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔
دوسرا ان
کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔
قصہ:
حضرت یونس
علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللّٰه کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر
”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو
سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ
لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللّٰه نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل
صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ
ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری
اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللّٰه
کا عذاب ان سے ٹل گیا۔
بارہویں پارے کا خلاصہ
۱۔ سورۂ ہود مکمل (اس کی ابتدائی پانچ آیات گیارھویں پارے
میں ہیں)
۱۔ قرآنِ کریم کی عظمت
۱۔ قرآن کی عظمت:
(۱) قرآن اپنی
آیات، معانی اور مضامین کے اعتبار سے محکم کتاب ہے اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد
اور خلل نہیں آسکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض یا تناقض پایا جاتا ہے، اس کے محکم ہونے
کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تفصیل اور تشریح اس ذات نے کی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر
بھی ہے، اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہے اور اسے انسان کے ماضی ، حال ، مستقبل
، اس کی نفسیات ، کمزوریوں اور ضروریات کا بخوبی علم ہے۔
(۲) منکرین
قرآن کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں
بناکر لے آؤ۔
۲۔ توحید اور دلائل توحید:
ساری مخلوق
کو رزق دینے والا اللّٰه ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات ، چوپائے ہوں یا پرندے،
پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، آسمان اور زمین
کو اللّٰه ہی نے پیدا کیا ہے۔
۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم
السلام کے واقعات:
(۱) حضرت نوح
علیہ السلام۔۔ ان کی قوم ایمان نہیں لائی سوائے چند، انہوں نے اللّٰه کے حکم سے کشتی
بنائی، ایمان والے محفوظ رہے، باقی سب غرق ہوگئے۔
(۲) حضرت ہود
علیہ السلام۔۔ ان کی قوم میں سے جو ایمان لے آئے وہ کامیاب ہوئے باقی سب پر (باد صرصر
کی صورت میں) اللّٰه کا عذاب آیا۔
(۳) حضرت صالح
علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کی فرمائش پر اللّٰه تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، مگر
قوم نے اسے مار ڈالا، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔
(۴) حضرت ابراہیم
علیہ السلام۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اللّٰه نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا
اسحاق عطا فرمایا پھر ان کے بیٹے یعقوب ہوئے۔
(۵) حضرت لوط
علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے
تھے، کچھ فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے، ان کی
قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں
سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللّٰه کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا
کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔
(۶) حضرت شعیب
علیہ السلام۔۔ ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی
بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔
(۷) حضرت موسی
علیہ السلام۔۔ فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللّٰه نے اسے اور اس کے ماننے والوں
کو ناکام کردیا۔
ان واقعات
میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں
اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت
قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم
دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے، بلکہ
انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ
ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللّٰه نے
حکم دیا ہے۔
۴۔ قیامت کا تذکرہ:
روزِ قیامت
انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی:
(۱) بد بخت
لوگ
(۲) نیک بخت
لوگ
بدبختوں
کے لیے ہولناک عذاب ہوگا جب تک اللّٰه چاہیں گے۔(حالتِ کفر پر مرنے والے ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے جہنم میں رہیں گے۔)
نیک بختوں
کے لیے اللّٰه نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔
(۲) سورۂ یوسف
میں قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام بالتفصیل ہے:
تمہید:
تمام انبیائے
کرام کے قصے قرآن میں بکھرے ہوئے ہیں، مگر حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ پورا کا پورا
صرف اسی سورت میں ہے، دوسری سورتوں میں ان کا نام تو آیا ہے، مگر قصہ تھوڑا سا بھی
کسی اور سورت میں مذکور نہیں ہے۔
حضررت یوسف
علیہ السلام کا قصہ ہمارے نبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے بہت زیادہ مشابہ
ہے، آپ علیہ السلام کے بھی قریشی بھائیوں نے آپ سے حسد کیا، آپ کو مکہ چھوڑ کر جانا
پڑا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں رہے آپ علیہ السلام غار ثور میں۔ وہ مصر گئے
آپ مدینہ گئے۔ وہ وزیر بنے آپ پہلی اسلامی مملکت کے حاکم بنے۔ بعد میں بھائی ان کے
شرمندہ ہوکر آئے، آپ کے سامنے بھی فتح مکہ کے موقع پر سب نے گردن جھکالی۔ انھوں نے
کہا: “لاتثریب علیكم الیوم“(آج کے دن سے تم پر کچھ عتاب (و ملامت) نہیں ہے) آپ علیہ
السلام نے بھی فرمایا: ”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں
سے کہا تھا۔
قصۂ حضرت
یوسف علیہ السلام:
حضرت یعقوب
علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیرمعمولی طور پر حسین
تھے، ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام
ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے
والدِ گرامی کو اپنا خواب سنایا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے
ہیں، ان کے والد نے انھیں منع کیا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا، باپ کی
بیٹے سے اس محبت کی وجہ سے بھائی حسد میں مبتلا ہوگئے، وہ اپنے والد کو تفریح کا کہہ
کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، وہاں سے
ایک قافلہ گزرا، انھوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے آپ نکل
آئے، قافلے والوں نے مصر جاکر بیچ دیا، عزیزِ مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا،
جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی، اس نے برائی کی دعوت دی، آپ نے
اس کی دعوت ٹھکرادی، عزیزِ مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا، قیدخانے
میں بھی آپ نے دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے،
بادشاہِ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر اور تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں جچ
گئے، اس نے آپ کو خزانے، تجارت اور مملکت کا خود مختار وزیر بنادیا، مصر اور گردوپیش
میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر آئے، ایک دو ملاقاتوں کے بعد
آپ نے انھیں بتایا کہ میں تمھارا بھائی یوسف ہوں، پھر آپ کے والدین بھی مصر آگئے اور
سب یہیں آکر آباد ہوگئے۔صائر و عبر از قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:
(۱) مصہبت کے
بعد راحت ہے۔
(۲) حسد خوفناک
بیماری ہے۔
(۳) اچھے اخلاق
ہر جگہ کام آتے ہیں۔
(۴) پاکدامنی
تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔
(۵) نامحرم
مرد اور عورت کا اختلاط تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے۔
(۶) ایمان کی
برکت سے مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔
(۷) معصیت پر
مصیبت کو ترجیح دینی چاہیے۔
(۸) داعی جیل
میں بھی دعوت دیتا ہے۔ (۹)موضع تہمت سے بچنا
چاہیے۔
(۱۰) جو حق پر
تھا اس کی سب نے شہادت دی: اللہ تعالیٰ نے، خود حضرت یوسف علیہ السلام نے، عزیز مصر
کی بیوی نے، عورتوں نے، عزیزِ مصر کے خاندان کے ایک فرد نے۔
تیرہویں پارے کا خلاصہ
۱۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ رعد مکمل
۳۔ سورۂ ابراہیم مکمل
(۱) سورۂ یوسف
کا بقیہ حصہ:
اس کی تفصیل
پچھلے پارے میں مذکور ہوچکی ہے۔
(۲) سورۂ رعد
میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ قرآن کی حقانیت
۲۔ توحید
۳۔ قیامت
۴۔ رسالت
۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات
۱۔ قرآن کی حقانیت:
یہ نکتہ
قابل غور ہے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان کی ابتدا میں عام طور
پر قرآن کا ذکر ہوتا ہے، ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللّٰه
انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔
۲۔ توحید:
آسمانوں
اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں،
ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے اور موت اور زندگی ، نفع اور
نقصان اس اکیلے کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے
ہیں۔
۳۔ قیامت:
مشرکوں
کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت
باعثِ تعجب بعث بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا باعث تعجب ہے۔
۴۔ رسالت:
ہر قوم
کے لیے کوئی نہ کوئی رہنما اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔
۵۔ متقین کی آٹھ صفات
متقین کی
آٹھ صفات:
(۱) وفاداری
(۲) صلہ رحمی
(۳) خوف خدا
(۴) خوف آخرت
(۵) صبر
(۶) نماز کی
پابندی
(۷) صدقہ
(۸) برائی کا
بدلہ اچھائی سے
اشقیاء
کی تین علامات:
(۱) وعدہ خلافی
(۲) قطع رحمی
(۳) فساد فی
الارض
(۳) سورۂ ابراہیم
میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ قیامت
۴۔ چند اہم باتیں
۵۔ چھ دعائیں
۱۔ توحید:
تمام آسمانوں
اور زمینوں کو اللّٰه نے بنایا ہے، اسی نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر انسانوں کے لیے
زمین سے قسم قسم کے پھل نکالے اور پانی کی سواریوں اور نہروں کو انسانوں کے تابع کردیا
اور سورج اور چاند اور رات اور دن کو انسانوں کے کام میں لگادیا، غرض جو کچھ انسانوں
نے مانگا اللّٰه نے عطا کیا، اس کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی گنتی بھی انسان
کے بس کی بات نہیں۔
۲۔ رسالت:
اس کے ضمن
میں کچھ باتیں یہ ہیں:
۱۔ نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے بتایا گیا
ہے کہ سابقہ انبیاء کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے اعراض و انکار اور عداوت و مخالفت کا
یہی رویہ اختیار کیا تھا، جو آپ کی قوم اختیار کیے ہوئے ہے۔
۲۔ ہر نبی اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا ہے۔
۳۔ پچھلی قوموں کے مکذبین کے کچھ شبہات کا ذکر
کیا گیا ہے:
(۱) اللّٰه
تعالیٰ کے وجود کے بارے میں شک
(۲) بشر رسول
نہیں ہوسکتا
(۳) تقلید آباء۔
ان شبہات کی تردید کی گئی ہے۔
۳۔ قیامت:
کافروں
کے لیے جہنم اور مومنین کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں
کا ذکر ہے۔ روزِ قیامت حساب کتاب ہوچکنے کے بعد شیطان گمراہوں سے کہے گا کہ جو وعدہ
خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا اور اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا
تھا ، میں نے تم پر زبردستی نہیں کی تھی، تم خود میرے بہکاوے میں آگئے تھے، اب مجھے
ملامت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔
۴۔ چند اہم باتیں:
(۱) شکر سے
نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکروں کے لیے اللّٰه تعالٰی کا سخت عذاب ہے۔
(۲) کافروں
کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ تیز ہوا آئے اور سب اڑا لے جائے۔
(۳) حق اور
ایمان کا کلمہ پاکیزہ درخت کی مانند ہے ، اس کی جڑ بڑی مضبوط اور اس کا پھل بڑا شیریں
ہوتا ہے اور باطل اور ضلالت کا کلمہ ناپاک درخت کی مانند ہے ، اس کے لیے قرار بھی نہیں
ہوتا اور وہ ہوتا بھی بے ثمر ہے۔
(۴) اللّٰه
تعالیٰ ظالموں کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔
۵۔چھ دعائیں:
حضرت ابرہیم
علیہ السلام کی اپنے رب سے چھ دعاؤں کا ذکر ہے:
(۱) امن
(۲) بت پرستی
سے حفاظت
(۳) اقامتِ
صلاۃ
(۴) دلوں کا
میلان
(۵) رزق
(۶) مغفرت کی درخواست
چودھویں پارے کا خلاصہ
اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ حجر مکمل
۲۔ سورۂ نحل مکمل
(۱) سورۂ حجر
میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ کفار کی آرزو (آخرت میں جب کفار مسلمانوں
کو مزے میں اور خود کو عذاب میں دیکھیں گے تو تمنا کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوجاتے)
۲۔ قرآن کی حفاظت (اللّٰه تعالیٰ نے قیامت تک
کے لیے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے)
۳۔ انسان کی تخلیق (اللّٰه تعالیٰ نے انسان کو
منی سے بنایا، فرشتوں کا مسجود بنایا، شیطان مردود ہوا، اس نے قیامت تک انسانوں کو
گمراہ کرنے کی قسم کھالی)
۴۔ تین قصے
پہلا قصہ:
حضرت ابراہیم
علیہ السلام کو فرشتوں نے آکر بیٹے کی خوشخبری دی، اس وقت ان کی اہلیہ بہت بوڑھی تھیں،
بظاہر یہ ولادت کی عمر نہ تھی، اس لیے آپ کو بیٹے کی خوش خبری سن کر خوشی بھی ہوئی
اور تعجب بھی ہوا، فرشتوں نے کہا ہم آپ کو سچی خوشخبری سنا رہے ہیں آپ مایوس نہ ہوں،
آپ نے فرمایا کہ اللّٰه کی رحمت سے مایوس ہونا تو صرف گمراہوں کا کام ہے۔
دوسرا قصہ:
فرشتے حضرت
ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری سنا کر حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے
اور ان سے درخواست کی کہ آپ اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر رات ہی کو اس بستی سے نکل
جائیے، کیونکہ آپ کی بستی والے گناہوں کی سرکشی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اللّٰه
تعالیٰ نے ان کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان لوگوں کی جڑ
صبح صبح ہوتے ہوتے کاٹ دی جائے گی۔
تیسرا قصہ:
اصحاب الحجر
، ان سے مراد قوم ثمود ہے، یہ لوگ بھی ظلم اور زیادتی کی راہ پر چل نکلے تھے اور بار
بار سمجھانے کے باوجود بت پرستی کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہورہے تھے، انھیں مختلف
معجزات دکھائے گئے بالخصوص پہاڑی چٹان سے اونٹنی کی ولادت کا معجزہ جو کہ حقیقت میں
کئی معجزوں کا مجموعہ تھا، اونٹنی کا چٹان سے برآمد ہونا، نکلتے ہی اس کی ولادت کا
قریب ہونا، اس کی جسامت کا غیر معمولی بڑا ہونا، اس سے بہت زیادہ دودھ کا حاصل ہونا،
لیکن ان بدبختوں نے اس معجزے کی کوئی قدر نہ کی، بجائے اس کے کہ وہ اسے دیکھ کر ایمان
قبول کرلیتے انھوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا، چنانچہ وادی حجر والے بھی عذاب کی لپیٹ
میں آکر رہے۔
(۲) سورۂ نحل
میں پانچ باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید
۲۔ رسالت
۳۔ شہد کی مکھی
۴۔ جامع آیت
۵۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تعریف
۱۔ توحید:
اللّٰه
تعالیٰ نے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا، انسان کو نطفے سے پیدا کیا، چوپائے
پیدا کیے، جن میں مختلف منافع بھی ہیں اور وہ اپنے مالک کے لیے فخر و جمال کا باعث
بھی ہوتے ہیں، گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے جو باربرداری کے کام آتے ہیں اور ان میں
رونق اور زینت بھی ہوتی ہے۔ بارش وہی برساتا ہے، پھر اس بارش سے زیتون، کھجور، انگور
اور دوسرے بہت سارے میوہ جات اور غلے وہی پیدا کرتا ہے۔ رات اور دن، سورج اور چاند
کو اسی نے انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ دریاؤں سے تازہ گوشت اور زیور وہی مہیا کرتا
ہے۔ سمندر میں جہاز اور کشتیاں اسی کے حکم سے رواں دواں ہیں۔ اگر اللّٰه کی نعمتوں
کو شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کرسکتے۔
۲۔ رسالت:
نبی علیہ
السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اللّٰه کی طرف
بلائیں اور اس کی راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں۔ نیز آپ کو صبر کرنے اور
تنگدل نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔
۳۔ شہد کی مکھی:
شہد کی
مکھی کا نظام بہت عجیب ہوتا ہے، یہ اللّٰه کے حکم سے پہاڑوں اور درختوں میں اپنا چھتہ
بناتی ہے، یہ مختلف قسم کے پھلوں کا رس چوستی ہے، پھر ان سے اللّٰه تعالیٰ شہد نکالتے
ہیں، جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اس شہد میں اللّٰه نے انسانوں کی بیماریوں کے لیے
شفا رکھی ہے۔
۴۔ جامع آیت:
اس سورت
کی آیت نمبر ۹۰ میں تین باتوں کا حکم
دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے: عبادات اور معاملات میں عدل ، ہر ایک
کے ساتھ اچھا سلوک اور قرابت داروں کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور واضح
برائی ، منع کردہ کاموں اور ظلم کرنے سے روکا گیا ہے۔
۵۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی تعریف:
حضرت ابراہیم
علیہ السلام زندگی بھر توحیدِ خالص پر جمےرہے، حضور اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کو
ان کی ملت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔
پندرہویں پارے کا خلاصہ
اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ بنی اسرائیل مکمل
۲۔ سورۂ کہف کا زیادہ تر حصہ
(۱) سورۂ بنی
اسرائیل میں چار باتیں یہ ہیں:
۱۔ واقعہ معراج
۲۔ بنی اسرائیل کا فتنہ وفساد
۳۔ اسلامی آداب و اخلاق
۴۔ دیگر مضامین
۱۔ واقعہ معراج:
معراج جسمانی
ہوئی اور جاگنے کی حالت میں۔ ہمارے آقا صلی اللّٰه علیہ وسلم کو رات کے وقت مسجدِ
حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا تھا۔
۲۔ بنی اسرائیل کا فتنہ و فساد:
بنی اسرائیل
کو پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ تم لوگ دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے، چنانچہ ایک دفعہ
حضرت شعیب علیہ السلام کو ایذا پہنچائی تو بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا گیا، دوسری
بار حضرت زکریا اور یحیٰ علیہما السلام کو شہید کردیا تو بابل کا بادشاہ ان پر مسلط
ہوگیا۔
۳۔ اسلامی آداب و اخلاق: (آیات: ۲۳ تا ۳۹)
اللّٰه
کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، رشتہ داروں ، مسکینوں
اور مسافروں کو ان کا حق دو، مال کو فضول خرچی میں نہ اڑاؤ، نہ بخل کرو، نہ ہاتھ اتنا
کشادہ رکھو کہ کل کو پچھتانا پڑے، اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، کسی جاندار
کو ناحق قتل نہ کرو، یتیم کے مال میں ناجائز تصرف نہ کرو، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو،
ناپ تول پورا پورا کیا کرو، جس چیز کے بارے میں تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، زمین
پر اکڑ کر نہ چلو، اللّٰه کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
۴۔ دیگر مضامین:
قرآن کریم
کی عظمت ، اس کے نزول کے مقاصد، اس کا معجزہ ہونا، اللّٰه کی طرف سے انسان کو تکریم
دیا جانا ، اسے روح اور زندگی جیسی نعمت کا عطا ہونا، نبی علیہ السلام کو نمازِ تہجد
کا حکم، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ ، قرآن کریم کے تھوڑا تھوڑا نازل
ہونے کی حکمت، اللّٰه تعالیٰ کا شریک اور اولاد سے پاک ہونا اور اسمائے حسنی کے ساتھ
متصف ہونا۔
(۲) سورۂ کہف
کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ دو قصے
۲۔ دو مثالیں
۱۔ دو قصے:
پہلا قصہ
اصحاب کہف کا: یہ وہ چند صاحب ایمان نوجوان تھے جنہیں دقیانوس نامی بادشاہ بت پرستی
پر مجبور کرتا تھا، وہ ہر ایسے شخص کو قتل کردیتا تھا جو اس کی شرکیہ دعوت کو قبول
نہیں کرتا تھا، ان نوجوانوں کو ایک طرف مال و دولت کے انبار ، اونچے عہدوں پر تقرر
اور معیارِ زندگی کی بلندی جیسی ترغیبات دی گئیں اور دوسری طرف ڈرایا دھمکایا گیا اور
جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں، ان نوجوانوں نے ایمان کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم
جانا اور اسے بچانے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے، چلتے چلتے شہر سے بہت دور ایک پہاڑ کے غار
تک پہنچ گئے، راستے میں ایک کتا بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا، انھوں نے اس غار میں پناہ
لینے کا ارادہ کیا، وہ جب غار میں داخل ہوگئے تو اللّٰه نے انھیں گہری نیند سلادیا،
یہاں وہ تین سو نو سال تک سوتے ہرے، جب نیند سے بیدار ہوئے تو کھانے کی فکر ہوئی، انمیں
سے ایک کھانا خریدنے کے لیے شہر آیا، وہاں اسے پہچان لیا گیا، تین صدیوں میں حالات
بدل چکے تھے، اہلِ شرک کی حکومت کب کی ختم ہوچکی تھی اور اب موحد برسر اقتدار تھے،
ایمان کی خاطر گھربار چھوڑنے والے یہ نوجوان ان کی نظر میں قومی ہیروز کی حیثیت اختیار
کرگئے۔
دوسرا قصہ
حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کا:
اس کا ذکر اگلے پارے
کے شروع میں ہوگا۔
۲۔ دو مثالیں:
پہلی مثال:
دو شخص تھے، ایک کے باغات تھے اور دوسرا غریب تھا، باغات والا اکڑتا تھا، غریب نے کہا
اکڑ نہیں ماشااللّٰه کہا کر، وہ نہ مانا اللّٰه کا عذاب آیا اور اس کے باغات جل گئے
وہ شرمندہ ہوگیا۔
دوسری مثال:
دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے پانی برسا، زمین سرسبز ہوگئی، کچھ عرصے
بعد سب کچھ سوکھ کر چورا چورا ہوگیا۔
سولہویں پارے کا خلاصہ
۱۔ سورۂ کہف کا بقیہ حصہ
۲۔ سورۂ مریم مکمل
۳۔ سورۂ طٰہٰ مکمل
(۱) سورۂ کہف کے بقیہ حصے میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام
کا قصہ (جو پندرھویں پارے کے آخر میں شروع ہوکر سولھویں پارے کے شروع میں ختم ہورہا
ہے)
*۲۔) ذوالقرنین کا قصہ
۱۔ حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام
کا قصہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ کی طرف سے یہ اطلاع ہوئی
کہ سمندر کے کنارے ایک ایسے صاحب رہتے ہیں جن کے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں
تو آپ ان کی تلاش میں چل پڑے، چلتے چلتے آپ سمندر کے کنارے پہنچ گئے، یہاں آپ کی ملاقات
حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی اور آپ نے ان سے ساتھ رہنے کی اجازت مانگی، انھوں نے
اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ کوئی سوال نہیں کریں گے، پھر تین عجیب واقعات پیش آئے،
پہلے واقعے میں حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کے تختے کو توڑ ڈالا جس کے مالکان
نے انھیں کرایہ لیے بغیر بٹھالیا تھا، دوسرے واقعے میں ایک معصوم بچے کو قتل کردیا،
تیسرے واقعے میں ایک ایسے گاؤں میں گرتی ہوئی بوسیدہ دیوار کی تعمیر شروع کردی جس گاؤں
والوں نے انھیں کھانا تک کھلانے سے انکار کردیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تینوں
مواقع پر خاموش نہ رہ سکے اور پوچھ بیٹھے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تیسرے سوال کے بعد
حضرت خضر علیہ السلام نے جدائی کا اعلان کردیا کہ اب آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتے، البتہ
تینوں واقعات کی اصل حقیقت انھوں نے آپ کے سامنے بیان کردی، فرمایا کشتی کا تختہ اس
لیے توڑا تھا کیونکہ آگے ایک ظالم بادشاہ کے کارندے کھڑے تھے جو ہر سالم اور نئی کشتی
زبردستی چھین رہے تھے، جب میں نے اسے عیب دار کردیا تو یہ اس ظالم کے قبضے میں جانے
سے بچ گئی، یوں ان غریبوں کا ذریعۂ معاش محفوظ رہا۔ بچے کو اس لیے قتل کیا کیونکہ
یہ بڑا ہوکر والدین کے لیے بہت بڑا فتنہ بن سکتا تھا ، جس کی وجہ سے ممکن تھا وہ انھیں
کفر کی نجاست میں مبتلا کردیتا، اس لیے اللّٰه نے اسے مارنے کا اور اس کے بدلے انھیں
باکردار اور محبت و اطاعت کرنے والی اولاد دینے کا فیصلہ فرمایا۔ گرتی ہوئی دیوار اس
لیے تعمیر کی کیونکہ وہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی، ان کے والد اللّٰه کے نیک بندے
تھے، دیوار کے نیچے خزانہ پوشیدہ تھا، اگر وہ دیوار گر جاتی تو لوگ خزانہ لوٹ لیتے
اور نیک باپ کے یہ دو یتیم بچے اس سے محروم ہوجاتے، ہم نے اس دیوار کو تعمیر کردیا
تاکہ جوان ہونے کے بعد وہ اس خزانے کو نکال کر اپنے کام میں لاسکیں۔
۲۔ ذوالقرنین کا قصہ:
یہ بڑا زبردست وسائل والا بادشاہ تھا، اس کا گزر ایک قوم پر
ہو جو ایک دوسری وحشی قوم کے ظلم کا نشانہ بنی ہوئی تھی، جسے قرآن نے ”یاجوج“ اور
”ماجوج“ کا نام دیا ہے۔ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج پر دیوار چن دی، اب وہ قربِ قیامت
میں ہی ظاہر ہوں گے۔
(۲) سورۂ مریم میں تقریبا گیارہ انبیائے کرام علیہم السلام کا تذکرہ ہے:
تین انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر قدرے تفصیلی ہے:
۱۔ حضرت یحی علیہ السلام کی ولادت (اللّٰه
تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام اور ان کی اہلیہ کو بڑھاپے میں بیٹا عطا فرمایا جسے نبوت
سے بھی سرفراز فرمایا)
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت
(اللّٰه تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انھیں بچپن
میں ہی گویائی عطا فرمادی)
۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے
والد کو دعوت (شرک نہ کریں، اللّٰه نے مجھے علم دیا ہے میری بات مان لیں، شیطان کی
بات نہ مانیں، وہ اللّٰه کا نافرمان ہے ، اس کے مانیں گے تو اللّٰه کا عذاب آئے گا۔)
باقی آٹھ انبیائے کرام علیہم السلام کا یا تو بہت مختصر ذکر
ہے یا صرف نام آیا ہے:
۴۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ۵۔حضرت ہارون علیہ السلام ۶۔حضرت اسماعیل علیہ السلام ۷۔حضرت اسحاق علیہ السلام ۸۔حضرت یعقوب علیہ السلام ۹۔حضرت ادریس علیہ السلام ۱۰۔حضرت آدم علیہ السلام
۱۱۔حضرت نوح علیہ السلام
(۳) سورۂ طٰہٰ میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ تسلی رسول
۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ
۳۔ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ
۱۔ تسلی رسول:
حضور اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم قرآن کی تلاوت اور دعوت دونوں
میں بے پناہ مشقت اٹھاتے تھے، راتوں کو نماز میں اتنی طویل قراءت فرماتے کہ پاؤں مبارک
میں ورم آجاتا اور پھر انسانوں تک قرآن کے ابلاغ اور دعوت میں بھی اپنی جان جوکھوں
میں ڈالتے تھے اور جب کوئی اس دعوت پر کان نہ دھرتا تو آپ کو بے پناہ غم ہوتا ، اسی
لیے رب کریم نے کئی مقامات پر آپ کو تسلی دی ہے، یہاں بھی یہی سمجھایا گیا کہ آپ اپنے
آپ کو زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں، اس قرآن سے ہر کسی کا دل متاثر نہیں ہوسکتا ، یہ تو
صرف اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو دل میں اللّٰه کا خوف رکھتا ہو۔
۲۔ حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جو حالات اس سورت میں بیان کیے گئے
ہیں ان کو ذہن نشین کرنے کے لیے چند عنوانات قائم کیے جاسکتے ہیں، یعنی باری تعالیٰ
کے ساتھ شرفِ ہم کلامی ، دریا میں ڈالا جانا، تابوت کا فرعون کو ملنا، پوری عزت اور
احترام کے ساتھ رضاعت کے لیے لیے حقیقی والدہ کی طرف آپ کو لوٹا دینا، آپ سے ایک قبطی
کا قتل ہونا لیکن اللّٰه کا آپ کو قصاص سے نجات دلانا، آپ کا کئی سال مدین میں رہنا،
اللّٰه کی طرف سے آپ کو اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کے پاس
جانے کا حکم، فرعون کے ساتھ موعظہ حسنہ کے اصول کے تحت مباحثہ، اس کا مقابلے کے لیے
جادوگروں کو جمع کرنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح، ساحروں کا قبولِ ایمان، راتوں
رات بنی اسرائیل کا اللّٰه کے نبی کی قیادت میں مصر سے خروج، فرعون کا مع لاؤ لشکر
تعاقب اور ہلاکت ، اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں بنی اسرائیل کا ناشکراپن ، سامری کا
بچھڑا بنانا اور اسرائیلیوں کی ضلالت، تورات لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طور سے
واپسی اور اپنے بھائی پر غصے کا اظہار ، حضرت ہارون علیہ السلام کا وضاحت کرنا وغیرہ۔
۳۔ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ:
اللّٰه تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرماکر مسجودِ
ملائک بنایا ، سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، اللّٰه
تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا اب یہ تمھارا اور تمھاری بیوی کا دشمن ہے
، جنت میں رہو یہاں آرام ہی آرام ہے نہ تم بھوکے ہوتے ہو نہ ننگے ، نہ پیاسے ہوتے ہو
نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاتے ہو بس فلاں درخت کے قریب نہ جانا، مگر شیطان نے وسوسہ پیدا
کیا ، حضرت آدم و حواء علیہما السلام نے شجرِ ممنوع میں سے کچھ کھالیا ، اللّٰه نے
انہیں جنت میں سے نکال دیا، انہوں نے اللّٰه تعالیٰ سے معافی مانگی اللّٰه نے انہیں
معاف فرمایا دیا۔
سترہویں پارے کا خلاصہ
اس پارے میں دو حصے ہیں:
۱۔ سورۂ انبیاء
۲۔ سورۂ حج
(۱) سورۂ انبیاء میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ قیامت
۲۔ رسالت
۳۔ توحید
۱۔ قیامت:
بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقوع اور حساب کا وقت بہت قریب آگیا
ہے، لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔(۱)
نیز قربِ قیامت میں یاجوج اور ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور
وہ رہ بلندی سے اتر رہے ہوں گے۔(۹۶)
نیز مشرکین اور ان کے اصنام قیامت کے دن دوزخ کا ایندھن بنیں
گے۔(۹۸)
۲۔ رسالت:
رسالت کے ضمن میں سترہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر ہے:
(۱)حضرت موسیٰ علیہ السلام ،
(۲)حضرت ہارون علیہ السلام
(۳)حضرت ابراہیم علیہ السلام ،
(۴)حضرت لوط علیہ السلام،
(۵)حضرت اسحاق علیہ السلام ،
(۶)حضرت یعقوب علیہ السلام ،
(۷)حضرت نوح علیہ السلام ،
(۸)حضرت داؤد علیہ السلام ،
(۹)حضرت سلیمان علیہ السلام ،
(۱۰)حضرت ایوب علیہ السلام ،
(۱۱)حضرت اسماعیل علیہ السلام ،
(۱۲)حضرت ادریس علیہ السلام ،
(۱۳)حضرت ذی الکفل علیہ السلام ،
(۱۴) حضرت یونس علیہ السلام ،
(۱۵)حضرت زکریا علیہ السلام ،
(۱۶)حضرت یحیٰ علیہ السلام اور
(۱۷)حضرت عیسیٰ علیہ السلام
ان سترہ میں سے کچھ انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے قدرے تفصیل
سے بیان کیے گئے ہیں اور باقیوں کا اجمالی ذکر ہے۔
انبیائے سابقہ کے قصے بیان کرنے کے بعد بتایا گیا کہ محمد رسول
اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم دین اور دنیا میں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں، آپ نے
اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچا دیا، مگر جب ہر قسم کے دلائل پیش کرنے کے بعد بھی لوگ
نہ سمجھے تو آپ نے اللّٰه سے دعا کی ، اسی دعا پر یہ سورت ختم ہوتی ہے ، دعا یہ ہے:
”رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ
ۗ وَرَبُّنَا الرَّحْمَ۔ٰنُ الْمُسْتَعَانُ
عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ“
”اے میرے پروردگار!
حق کا فیصلہ کردیجیے اور ہمارا پروردگار بڑی رحمت والا ہے ، اور جو باتیں تم بناتے
ہو ان کے مقابلے میں اسی کی مدد درکار ہے۔“
۳۔ توحید:
توحید پر چھ دلائل ذکر کیے گئے ہیں:
01- آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے،
ہم نے دونوں کو جدا جدا کردیا۔
02- ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا
ہے۔
03- ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے، تاکہ لوگوں
کے بوجھ سے زمین ہلنے نہ لگے۔
04- ہم نے زمین میں کشادہ راستے بنائے،
تاکہ لوگ ان پر چلیں۔
05- ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔
06- رات دن ، سورج اور چاند کا نظام بنایا،
ہر ایک اپنے اپنے مدار میں انتہائی تیز رفتاری سے گھوم رہا ہے، نہ ان میں ٹکراؤ ہوتا
ہے اور نہ ہی وہ خلط ملط ہوتے ہیں۔
(۲) سورۂ حج میں چھ باتیں یہ ہیں:
۱۔ قیامت:
(قیامت کی ہولناکیوں کے دل دہلانے والی منظر کشی کی گئی ہے۔)
۲۔ تخلیق انسان کے سات مراحل:
(۱)مٹی
(۲)منی
(۳)خون کا لوتھڑا
(۴)بوٹی
(۵)بچہ
(۶)جوان
(۷)بوڑھا
۳۔ ملل اور مذاہب کے لحاظ سے چھ گروہ:
مسلمان ، یہودی ، صابی(ستارہ پرست) ، عیسائی ، مجوسی (سورج ،
چاند اور آگ کا پجاری) ، مشرک(بت پرست)
۴۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعلان
حج:
(حضرت ابرہیم علیہ السلام نے جبل ابی قیس پر کھڑے ہوکر حج کا اعلان
کیا تھا ، یہ اعلان اللّٰه تعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین و آسمان میں رہنے والوں تک
پہنچادیا تھا۔)
۵۔ مؤمنوں کی چار علامات:
(۱) اللّٰه کا خوف ،
(۲)مصائب پر صبر ،
(۳)نماز کی پابندی ،
(۴)نیک مصارف میں خرچ کرنا
۶۔ دیگر احکامات:
مثلا مناسک حج ، اقامتِ صلوۃ ، ادائیگیٔ زکوۃ ، جانوروں کی قربانی
اور جہاد وغیرہ۔
اٹھارہویں پارے کا خلاصہ
۱۔ سورۂ مؤمنون (مکمل)
۲۔ سورۂ نور (مکمل)
۳۔ سورۂ فرقان (ابتدائی حصہ)
(۱) سورۂ مؤمنون
میں سات باتیں یہ ہیں:
۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات
۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل
۳۔ توحید
۴۔ انبیاء کے قصے
۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات
۶۔ نہ ماننے والوں کے انکار کی اصل وجہ
۷۔ قیامت
۱۔ استحقاقِ جنت کی سات صفات:
(۱) ایمان ،
(۲) نماز میں
خشوع ،
(۳) اعراض عن
اللغو ،
(۴) زکوۃ ،
(۵) پاکدامنی
،
(۶) امانت داری
،
(۷) نمازوں
کی حفاظت۔
۲۔ تخلیقِ انسان کے نو مراحل:
(۱) مٹی
(۲) منی
(۳) جما ہوا
خون
(۴) لوتھڑا
(۵) ہڈی
(۶) گوشت کا
لباس
(۷) انسان
(۸) موت
(۹) دوبارہ
زندگی
۳۔ توحید:
آغازِ سورت
میں توحید کے تین دلائل ہیں:
(۱) آسمانوں
کی تخلیق ،
(۲) بارش اور
غلہ جات ،
(۳) چوپائے
اور ان کے منافع۔
۴۔ انبیائے کرام کے قصے:
(۱) حضرت نوح
علیہ السلام اور ان کی کشتی کا ذکر۔
(۲) حضرت موسیٰ
اور ہارون علیہما السلام کا ذکر۔
(۳) حضرت عیسیٰ
علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کا تذکرہ۔
۵۔ نیک لوگوں کی چار صفات:
(۱) اللّٰه
سے ڈرتے ہیں ،
(۲) اللّٰه
پر ایمان رکھتے ہیں ،
(۳) شرک اور
ریا نہیں کرتے ،
(۴) نیکیوں
کے باوصف دل ہی دل میں ڈرتے ہیں کہ انھیں اللّٰه کے پاس جانا ہے۔
۶۔ نہ ماننے والوں کے انکار کی اصل وجہ:
ان کے انکار
کرنے اور جھٹلانے کی نہ یہ وجہ ہے کہ آپ کوئی ایسی نئی بات لے کر آئے ہیں جو پچھلے
انبیائے کرام لے کر نہ آئے ہوں ، نہ آپ کے اعلیٰ اخلاق ان لوگوں سے پوشیدہ ہیں ، اور
نہ یہ سچ مچ آپ کو (معاذاللّٰه) مجنون سمجھتے ہیں اور نہ ان کے انکار کی یہ وجہ ہے
آپ ان سے معاوضہ مانگ رہے ہیں۔ اصل وجہ اس کے برعکس یہ ہے کہ حق کی جو بات آپ لے کر
آئے ہیں، وہ ان کی خواہشات کے خلاف ہے ، اس لیے اسے جھٹلانے کے مختلف بہانے بناتے رہتے
ہیں۔
۷۔ قیامت:
روزِ قیامت
جس کے اعمال کا ترازو وزنی ہوگا وہ کامیاب ہے اور جس کے اعمال کا ترازو ہلکا ہوگا وہ
ناکام ہے۔
(۲) سورۂ نور
میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ سولہ احکام و آداب
۲۔ اہل حق اور اہل باطل کی تین مثالیں
۱۔ سولہ احکام و آداب:
زانی اور
زانیہ کی سزا سو کوڑے ہیں۔ (احادیث سے ثابت ہے کہ یہ حکم غیرشادی شدہ کے لیے ہے)
بدکار مرد
یا عورت کو نکاح کے لیے پسند کرنا مسلمانوں پر حرام ہے۔
عاقل ،
بالغ ، پاکدامن مرد یا عورت پر بغیر گواہوں کے زنا کی تہمت لگانے والے کی سزا اسی کوڑے
ہیں۔
میاں بیوی
کے لیے بجائے گواہوں کے لعان کا حکم ہے۔
جب سیدہ
عائشہ رضی اللّٰه عنہا پر بعض منافقین نے بہتان لگایا جو کہ بہت بڑا بہتان تھا ، مسلمانوں
کی روحانی ماں پر لگایا گیا تھا، اللّٰه تعالیٰ نے دس آیات میں اس واقعے کا ذکر فرمایا
ہے ، ان آیات میں منافقین کی مذمت ہے اور مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ آئندہ کبھی اس قسم
کی بہتان تراشی میں حصے دار نہ بنیں اور حرمِ نبوت کی عفت و عصمت کا اعلان فرمایا گیا۔
کسی کے
گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کریں ، اجازت سے پہلے سلام بھی کرلینا چاہیے۔
آنکھوں
اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
نکاح کی
ترغیب۔
جو غلام
یا باندی کچھ روپیہ پیسہ ادا کرکے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہوں ان کے ساتھ یہ معاہدہ
کرلیا کریں۔
باندیوں
کو اجرت کے بدلے زنا پر مجبور نہ کریں۔
چھوٹے بچوں
اور گھر میں رہنے والے غلاموں اور باندیوں کو حکم ہے کہ اگر وہ نماز فجر سے پہلے ،
دوپہر کے قیلولے کے وقت اور نماز عشاء کے بعد تمھارے خلوت والے کمرے میں داخل ہوں تو
اجازت لے کر داخل ہوں ، کیونکہ ان تین اوقات میں عام طور پر عمومی استعمال کا لباس
اتار کر نیند کا لباس پہن لیا جاتا ہے۔
بچے جب
بالغ ہوجائیں تو دوسرے بالغ افراد کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ وہ جب بھی گھر میں آئیں
تو اجازت لے کر یا کسی بھی طریقے سے اپنی آمد کی اطلاع دے کر آئیں۔
وہ عورتیں
جو بہت بوڑھی ہوجائیں اور نکاح کی عمر سے گزر جائیں اگر وہ پردے کے ظاہری کپڑے اتار
دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
گھر میں
داخل ہوکر گھر والوں کو سلام کریں۔
اجازت کے
بغیر اجتماعی مجلس سے نہ اٹھیں۔
اللّٰه
کے رسول کو ایسے نہ پکاریں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔
۲۔ اہل حق اور اہل باطل کی تین مثالیں:
پہلی مثال
میں مومن کے دل کے نور کو اس چراغ کے نور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو صاف شفاف شیشے
سے بنی ہوئی کسی قندیل میں ہو اور اس قندیل کو کسی طاقچے میں رکھ دیا جائے تاکہ اس
کا نور معین جہت ہی میں رہے جہاں اس کی ضرورت ہے، اس چراغ میں جو تیل استعمال ہوا ہے
وہ تیل زیتون کے مخصوص درخت سے حاصل شدہ ہے ، اس تیل میں ایسی چمک ہے کہ بغیر آگ دکھائے
ہی …
انیسویں پارے کا خلاصہ
اس پارے
میں تین حصے ہیں:
۱۔ سورۂ فرقان (بقیہ حصہ)
۲۔ سورۂ شعراء (مکمل)
۳۔ سورۂ نمل (ابتدائی حصہ)
(۱) سورۂ فرقان
کے بقیہ حصے میں چار باتیں یہ ہیں:
1۔
قیامت
2۔
توحید (آسمان ، زمین اور رات دن کا خالق اللّٰه ہی ہے۔)
3۔
رسالت (نبی کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔)
4۔
عباد الرحمٰن کی صفات (عاجزی سے چلنا ، جاہلوں سے اعراض ، راتوں کو عبادت ، جہنم کے
عذاب سے پناہ مانگنا ، خرچ کرنے میں اعتدال ، نہ فضول خرچی نہ بخل ، شرک سے اجتناب
، قتل ناحق سے بچنا ، زنا اور بدکاری سے پرہیز ، جھوٹی گواہی سے احتراز ، بری مجالس
سے پہلوتہی ، کتاب اللّٰه سے متاثر ہونا ، نیک بیوی بچوں کی دعا اور یہ دعا کہ ہمیں
ہادی اور مہتدی بنا)
(۲) سورۂ شعراء
میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ سات انبیائے کرام کے قصے
(حضرت موسیٰ علیہ السلام ،
حضرت ابراہیم
علیہ السلام ،
حضرت نوح
علیہ السلام ،
حضرت ہود
علیہ السلام ،
حضرت صالح
علیہ السلام ،
حضرت لوط
علیہ السلام ،
حضرت شعیب
علیہ السلام)
۲۔ قرآن کی حقانیت:
(اسے رب العالمین نے اتارا ہے ، روح امین حضرت
جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے ، نبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کے قلب پر ، لوگوں کو
ڈرانے اور متنبہ کرنے کے لیے ، واضح عربی زبان میں۔)
۳۔ شعراء کی مذمت:
کہ ان کے
پیچھے تو بے راہ لوگ چلتے ہیں ، یہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ،ایسی باتیں کہتے
ہیں جو کرتے نہیں ہیں ، البتہ وہ لوگ مستثنی ہیں جو ایمان لائے اور نیک اعمال اختیار
کیے اور اللّٰه کو کثرت سے یاد کیا۔
(۳) سورۂ نمل
کے ابتدائی حصے میں دو باتیں یہ ہیں:
(۱) قرآن کی
عظمت
(۲) پانچ انبیائے
کرام کا ذکر:
(حضرت موسیٰ
علیہ السلام ،
حضرت داؤد
علیہ السلام ،
حضرت سلیمان
علیہ السلام ،
حضرت صالح
علیہ السلام ،
حضرت لوط
علیہ السلام۔
بالخصوص
واقعۂ
نمل،
واقعۂ
ہدہد
اور واقعۂ
ملکہ سبا)
بیسویں پارے کا خلاصہ
اس پارے
میں تین حصے ہیں:
۱۔ سورۂ نمل (بقیہ حصہ)
۲۔ سورۂ قصص (مکمل)
۳۔ سورۂ عنکبوت (ابتدائی حصہ)
(۱) سورۂ نمل
کے بقیہ حصے میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید کے پانچ دلائل
(1)
آسمان
، زمین ، بارش اور کھیتیوں کا خالق وہی ہے۔
(2)
زمین
، نہریں ، پہاڑ اور سمندروں کا نظام وہی چلاتا ہے۔
(3)
مجبور
، بے بس اور بیمار کی پکار اس کے علاوہ کوئی نہیں سنتا۔
(4)
بحری
اور بری تاریکیوں میں راستہ وہی دکھاتا ہے ، اسی نے ہواؤں کا نظام چلایا۔
(5)
پہلی
بار بھی اسی نے پیدا کیا ، دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا ، رازق بھی وہی ہے۔
۲۔ قیامت
(صور پھونکا
جانا ، پہاڑوں کا کا بادلوں کی طرح ہواؤں میں اڑنا ، روز قیامت سب کا جمع ہونا ، نیک
لوگوں کو ان کی اچھائیوں کا انعام اور برے لوگوں کو ان کے کیے کی سزا کا ملنا)
(۲) سورۂ قصص
میں دو باتیں یہ ہیں:
۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا تفصیلی
قصہ
۲۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قارون کا قصہ
(۳) سورۂ عنکبوت
کے ابتدائی حصے میں تین باتیں یہ ہیں:
۱۔ توحید
(مشرکین
کے بُت مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔)
۲۔ رسالت (آزمائش من جانب اللّٰه ضرور آتی ہے
، اس ضمن میں چند انبیائے کرام کے قصے مذکور ہیں۔)
۳۔ قیامت کا تذکرہ.
Post a Comment