📝 خلاصہ قرآن مجید📝

پہلےپارے کا خلاصہ

 

اس پارے میں پانچ باتیں ہیں:

1۔ اقسام انسان

2۔ اعجاز قرآن

3۔ قصۂ تخلیقِ حضرت آدم علیہ السلام

4۔ احوال بنی اسرائیل

5۔ قصۂ حضرت ابراہیم علیہ السلام

 

(1)۔ اقسام انسان تین ہیں:

مومنین ، منافقین اور کافرین۔

 

مومنین کی پانچ صفات مذکور ہیں:

۱۔ ایمان بالغیب

۲۔ اقامت صلوۃ

۳۔ انفاق

۴۔ ایمان بالکتب

۵۔ یقین بالآخرۃ

 

منافقین کی کئی خصلتیں مذکور ہیں:

جھوٹ، دھوکا، عدم شعور، قلبی بیماریاں، سفاہت، احکام الٰہی کا استہزائ، فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب۔

اور کفار کے بارے میں بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ ہے۔

 

(2)۔ اعجاز قرآن:

جن سورتوں میں قرآن کی عظمت بیان ہوئی ان کے شروع میں حروف مقطعات ہیں یہ بتانے کے لیے کہ انھی حروف سے تمہارا کلام بھی بنتا ہے اور اللّٰه تعالیٰ کا بھی، مگر تم لوگ اللّٰه تعالیٰ کے کلام جیسا کلام بنانے سے عاجز ہو۔

 

(3)۔ قصۂ حضرت آدم علیہ السلام

اللّٰه تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانا،

فرشتوں کا انسان کو فسادی کہنا،

اللّٰه تعالیٰ کا آدم علیہ السالم کو علم دینا،

فرشتوں کا اقرارِ عدم علم کرنا،

فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کروانا،

شیطان کا انکار کرنا پھر مردود ہوجانا،

جنت میں آدم وحواء علیہما السلام کو شیطان کا بہکانا

اور پھر انسان کو خلافتِ ارض عطا ہونا۔

 

(4)۔ احوال بنی اسرئیل:

ان کا کفران نعمت اور اللّٰه تعالیٰ کا ان پر لعنت نازل کرنا۔

 

(5)۔ قصہّ حضرت ابراہیم علیہ السلام:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کرنا

اور پھر اللّٰه تعالیٰ سے اسے قبول کروانا

اور پھر توبہ و استغفار کرنا۔


 

دوسرے پارے کا خلاصہ

 

اس پارے میں چار باتیں ہیں:

1۔ تحویل قبلہ

2۔ آیت بر اور ابوابِ بر

3۔ قصۂ طاعون

4۔ قصۂ طالوت

 

1۔ تحویل قبلہ:

ہجرت مدینہ کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس قبلہ رہا ، آپ ﷺ کی چاہت تھی کہ خانہ کعبہ قبلہ ہو، اللّٰه تعالیٰ نے آرزو پوری کی اور قبلہ تبدیل ہوگیا۔

 

2۔ آیتِ بر اور ابوابِ بر:

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ ۔۔۔ (البقرۃ:۱۷۷)

یہ آیتِ بر کہلاتی ہے، اس میں تمام احکامات عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق اجمالی طور پر مذکور ہیں، آگے ابواب البر میں تفصیلی طور پر ہیں:

۱۔ صفا مروہ کی سعی

۲۔ مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جو غیر اللّٰه تعالیٰ کے نامزد ہو ان کی حرمت

۳۔ قصاص

۴۔ وصیت

۵۔ روزے

۶۔ اعتکاف

۷۔ حرام کمائی

۸۔ قمری تاریخ

۹۔ جہاد

۱۰۔ حج

۱۱۔ انفاق فی سبیل اللہ تعالیٰ

۱۲۔ ہجرت

۱۳۔ شراب اور جوا

۱۴۔ مشرکین سے نکاح

۱۵۔ حیض میں جماع

۱۶۔ ایلاء

۱۷۔ طلاق

۱۸۔ عدت

۱۹۔ رضاعت

۲۰۔ مہر

۲۱۔ حلالہ

۲۲۔ معتدہ سے پیغامِ نکاح۔

 

3۔ قصۂ طاعون:

کچھ لوگوں پر طاعون کی بیماری آئی، وہ موت کے خوف سے دوسرے شہر چلے گئے، اللّٰه تعالیٰ نے (دو فرشتوں کو بھیج کر) انھیں موت دی (تاکہ انسانوں کو پتا چل جائے کہ کوئی موت سے بھاگ نہیں سکتا) کچھ عرصے بعد اللّٰه نے (ایک نبی کے دعا مانگنے پر) انھیں دوبارہ زندگی دے دی۔

 

4۔ قصۂ طالوت:

طالوت کے لشکر نے جالوت کے لشکر کو باوجود کم ہونے کے اللّٰه تعالیٰ کے حکم سے شکست دے دی۔

 

السلام علیکم ورحمت اللّٰه وبرکاتہ💐

 


 

 تیسرے پارے  کا خلاصہ

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

1۔بقیہ سورۂ بقرہ

2۔ابتدائے سورۂ آل عمران

 

(پہلا حصہ) سورۂ بقرہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:

۱۔دو بڑی آیتیں

۲۔دو نبیوں کا ذکر

۳۔صدقہ اور سود

 

۱۔ دو بڑی آیتیں:

ایک ”آیت الکرسی“ ہے جو فضیلت میں سب سے بڑی ہے، اس میں سترہ مرتبہ اللّٰه تعالیٰ کا ذکر ہے۔

دوسری ”آیتِ مداینہ“ جو مقدار میں سب سے بڑی ہے اس میں تجارت اور قرض مذکور ہے۔

 

۲۔ دو نبیوں کا ذکر:

ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مباحثہ اور احیائے موتٰی کے مشاہدے کی دعاء۔

دوسرے عزیر علیہ السلام جنہیں اللّٰه تعالیٰ نے سوسال تک موت دے کر پھر زندہ کیا۔

 

۳۔ صدقہ اور سود:

بظاہر صدقے سے مال کم ہوتا ہے اور سود سے بڑھتا ہے، مگر در حقیقت صدقے سے بڑھتا ہے اور سود سے گھٹتا ہے۔

 

(دوسرا حصہ) سورۂ آل عمران کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:

1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت

2۔ اللّٰه تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے

3۔اہل کتاب سے مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ

4۔ انبیائے سابقین سے عہد

 

1۔ سورۂ بقرہ سے مناسبت

مناسبت یہ ہے کہ دونو سورتوں میں قرآن کی حقانیت اور اہل کتاب سے خطاب ہے۔ سورۂ بقرہ میں اکثر خطاب یہود سے ہے جبکہ آل عمران میں اکثر روئے سخن نصاری کی طرف ہے۔

 

2۔ اللّٰه تعالیٰ کی قدرت کے چار قصے:

پہلا قصہ جنگ بدر کا ہے، تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو شکست دے دی۔

دوسرا قصہ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس بے موسم پھل کے پائے جانے کا ہے۔

تیسرا قصہ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہونے کا ہے۔

چوتھا قصہ حضرت عیسی علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونے، بچپن میں بولنے اور زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا ہے۔

 

3۔ مناظرہ ، مباہلہ اور مفاہمہ:

اہل کتاب سے مناظرہ ہوا، پھر مباہلہ ہوا کہ تم اپنے اہل و عیال کو لاؤ، میں اپنے اہل و عیال کو لاتا ہوں، پھر مل کر خشوع و خضوع سے اللّٰه تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر خدا کہ لعنت ہو، وہ تیار نہ ہوئے تو پھر مفاہمہ ہوا، یعنی ایسی بات کی دعوت دی گئی جو سب کو تسلیم ہو اور وہ ہے کلمۂ ”لا الٰہ الا اللّٰه “۔

 

4۔ انبیائے سابقین سے عہد:

انبیائے سابقین سے عہد لیا گیا کہ جب آخری نبی آئے تو تم اس کی بات مانو گے، اس پر ایمان لاؤ گے اور اگر تمھارے بعد آئے تو تمہاری امتیں اس پر ایمان لائیں۔


 

 

چوتھے پارے  کا خلاصہ

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ بقیہ سورۂ آل عمران

۲۔ ابتدائے سورۂ نساء

 

(پہلا حصہ) سورۂ آل عمران کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں ہیں:

 

1۔ خانہ کعبہ کے فضائل

2۔ باہمی جوڑ

3۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

4۔ تین غزوے

5۔ کامیابی کے چار اصول

 

1۔ خانہ کعبہ کے فضائل:

یہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے اور اس میں واضح نشانیاں ہیں جیسے: مقام ابراہیم۔ جو حرم میں داخل ہوجائے اسے امن حاصل ہوجاتا ہے۔

 

2۔ باہمی جوڑ:

اللّٰه تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔

 

3۔ امر بالمعروف اور نہی عن النکر:

یہ بہترین امت ہے کہ لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالی گئی ہے، بھلائی کا حکم کرتی ہے، برائی سے روکتی ہے اور اللّٰه پر ایمان رکھتی ہے۔

 

4۔ تین غزوے:

۱۔غزوۂ بدر ۲۔غزوۂ حد ۳۔غزوۂ حمراء الاسد

 

5۔ کامیابی کے چار اصول:

۱۔صبر ۲۔مصابرہ ۳۔مرابطہ ۴۔تقوی

 

(دوسرا حصہ) سورۂ نساء کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں چار باتیں ہیں:

 

1۔ یتیموں کا حق:

(ان کو ان کا مال حوالے کردیا جائے۔)

2۔ تعدد ازواج:

 (ایک مرد بیک وقت چار نکاح کرسکتے ہیں بشرط ادائیگیٔ حقوق۔)

3۔ میراث:

(اولاد ، ماں باپ ، بیوی ، کلالہ کے حصے بیان ہوئے اس قید کے ساتھ کہ پہلی وصیت ادا کردی جائے۔)

4۔ محرم عورتیں:

 (مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، رضاعی مائیں، رضاعی بہنیں، ساس، سوتیلی بیٹیاں، بہویں۔)

 

پانچویں پارے  کا خلاصہ

 

اس پارے میں آٹھ باتیں ہیں:

۱۔ خانہ داری کی تدابیر

۲۔ عدل اور احسان

۳۔ جہاد کی ترغیب

۴۔ منافقین کی مذمت

۵۔ قتل کی سزائیں

۶۔ ہجرت اور صلاۃ الخوف

۷۔ ایک قصہ

۸۔ سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب

 

۱۔ خانہ داری کی تدابیر:

پہلی ہدایت تو یہ دی گئی کہ مرد سربراہ ہے عورت کا پھر نافرمان بیوی سے متعلق مرد کو تین تدبیریں بتائی گئیں: ایک یہ کہ اس کو وعظ و نصیحت کرے، نہ مانے تو بستر الگ کردے، اگر پھر بھی نہ مانے تو انتہائی اقدام کے طور پر حد میں رہتے ہوئے اس کی پٹائی بھی کرسکتا ہے۔

 

۲۔ عدل واحسان:

عدل و احسان کا حکم دیا گیا تاکہ اجتماعی زندگی بھی درست ہوجائے۔

 

۳۔ جہاد کی ترغیب:

جہاد کی ترغیب دی کہ موت سے نہ ڈرو وہ تو گھر بیٹھے بھی آسکتی ہے، نہ جہاد میں نکلنا موت کو یقینی بناتا ہے، نہ گھر میں رہنا زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے۔

 

۴۔ منافقین کی مذمت:

منافقین کی مذمت کرکے مسلمانوں کو ان سے چوکنا کیا ہے کہ خبردار! یہ لوگ تمھیں بھی اپنی طرح کافر بنانا چاہتے ہیں۔

 

۵۔ قتل کی سزائیں:

قتل کی سزائیں بیان کرتے ہوئے بڑا سخت لہجہ استعمال ہوا کہ مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلے گا، مراد اس سے جائز سمجھ کر قتل کرنے والا ہے۔

 

۶۔ ہجرت اور صلاۃ الخوف:

جہاد کی ترغیب دی تھی، اس میں ہجرت بھی کرنی پرتی ہے اور جہاد ار ہجرت میں نماز پڑھتے وقت دشمن کا خوف ہوتا ہے، اس لیے صلاۃ الخوف بیان ہوئی۔

 

۷۔ ایک قصہ:

ایک شخص جو بظاہر مسلمان مگر در حقیقت منافق تھا اس نے چوری کی اور الزام ایک یہودی پر لگادیا، نبی علیہ السلام تک یہ واقعہ پہنچا، آپ صلی اللّٰه‌ علیہ وسلم یہودی کے خلاف فیصلہ دینے ہی والے تھے کہ آیت نازل ہوئی اور اللّٰه تعالیٰ نے بتا دیا کہ چور وہ مسلمان نما منافق ہے، چنانچہ وہ چور مکہ بھاگا اور کھلا کافر بن گیا۔

 

۸۔ سیدھے راستے پر چلنے کی ترغیب:

شیطان کی اطاعت سے بچو، وہ گمراہ کن ہے، ابو الانبیاء ابرہیم علیہ السلام کی اتباع کرو، عورتوں کے حقوق ادا کرو، منافقین کے لیے سخت عذاب ہے۔

 

چھٹے پارے  کا خلاصہ

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ نساء کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ مائدہ کا ابتدائی حصہ

 

(پہلا حصہ)

 سورۂ نساء کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:

۱۔ یہود کی مذمت

۲۔ نصاری کی مذمت

۳۔ میراث

 

۱۔ یہود کی مذمت:

انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش کی، مگر اللّٰه تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔

 

۲۔ نصاری کی مذمت:

یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں غلو کا شکار کر عقیدۂ تثلیث کے حامل ہوگئے۔

 

۳۔ میراث:

عینی اور علاتی بہنوں کے حصے مذکور ہوئے کہ ایک بیٹی کو نصف ، ایک سے زیادہ کو دو ثلث اور اگر بھائی بھی ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دوگنا ملے گا۔

 

(دوسرا حصہ)

سورۂ مائدہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:

۱۔ اوفوا بالعقود

 (ہر جائز عہد اور عقد جو تمھارے اور رب کے درمیان ہو یا تمھارے اور انسانوں کے درمیان ہو اسے پورا کرو)

۲۔ حرام چیزیں

(بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور جسے غیر اللّٰه کے نام پر ذبح کیا گیا ہو)

۳۔ طہارت

(وضو ، تیمم اور غسل کے مسائل)

۴۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ

(قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تھا، قتل اور چوری کے احکامات)

۵۔ یہود و نصاری کی مذمت

(یہ لوگ خود کو اللّٰه تعالیٰ کا بیٹا کہتے ہیں، حالانکہ ان پر اللّٰه تعالیٰ کا عذاب بھی آتا ہے، نبی علیہ السلام کو انکی طرف سے جو سرکشیاں ہوئی ہیں ان پر تسلی دی گئی، مسلمانوں کو ان سے دوستی کرنے سے منع فرمایا گیا اور حضرت داؤد اور عیسٰی علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنتِ خداوندی مذکور ہوئی، پھر آخر میں بتایا کہ یہ تمھارے خطرناک دشمن ہیں)

 

 

ساتویں پارے  کا خلاصہ

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

 

۱۔ سورۂ مائدہ کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ انعام ابتدائی حصہ

 

(پہلا حصہ)

 سورۂ مائدہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں ہیں:

۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف

۲۔ حلال و حرام کے چند مسائل

۳۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

 

۱۔ حبشہ کے نصاری کی تعریف:

جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اسے سن کر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔

۲۔ حلال وحرام کے چند مسائل:

۔۔۔ہر چیز خود سے حلال یا حرام نہ بناؤ۔

۔۔۔لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں، البتہ یمین غموس پر کفارہ ہے، یعنی دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا انھیں پہننے کے لیے کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور ان تینوں کے نہ کرسکنے کی صورت میں تین دن روزے رکھنا۔

۔۔۔شراب، جوا، بت اور پانسہ حرام ہیں۔

۔۔۔حالتِ احرام میں محرم تری کا شکار کرسکتا ہے، خشکی کا نہیں۔

۔۔۔حرم میں داخل ہونے والے کے لیے امن ہے۔

۔۔۔چار قسم کے جانور مشرکین نے حرام کر رکھے تھے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔

۳۔ قیامت اور تذکرۂ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

قیامت کے دن حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے پوچھا جائے گا کہ جب تم نے ہمارا پیغام پہنچایا تو تمھیں کیا جواب دیا گیا؟ اسی سوال و جواب کے تناظر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اللّٰه تعالیٰ اپنے احسانات گنوائیں گے، ان احسانات میں مائدہ والا قصہ بھی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اللّٰه تعالیٰ سے کہو ہم پر ایسا دسترخوان اتارے جس میں کھانے پینے کی آسمانی نعمتیں ہوں، چناچہ دسترخوان اتارا گیا، ان احسانات کو گنواکر اللّٰه تعالیٰ پوچھیں گے اے عیسیٰ! کیا تم نے ان سے کہا تھا کہ تجھے اور تیری ماں کو معبود مانیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام عرض کریں گے تو پاک ہے، میں نے تو ان سے تیری عبادت کا کہا تھا الی آخرہ۔

 

(دوسرا حصہ)

 سورۂ انعام کا جو ابتدائی حصہ اس میں ہے اس میں تین باتیں ہیں:

۱۔ توحید

۲۔ رسالت

۳۔ قیامت

 

۱۔ توحید:

اس سورت میں اللّٰه تعالیٰ کی حمد و ثنا اور عظمت وکبریائی خوب بیان ہوئی ہے۔

۲۔ رسالت:

نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے اللّٰه تعالیٰ نے اٹھارہ انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ہے:

(۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام ،

(۲) حضرت اسحاق علیہ السلام ،

(۳) حضرت یعقوب علیہ السلام ،

(٤) حضرت نوح علیہ السلام ،

(۵) حضرت داؤد علیہ السلام ،

(٦) حضرت سلیمان علیہ السلام ،

(۷) حضرت ایوب علیہ السلام ،

(۸) حضرت یوسف علیہ السلام ،

(۹) حضرت موسٰی علیہ السلام ،

(۱۰) حضرت ہارون علیہ السلام ،

(۱۱) حضرت زکریا علیہ السلام ،

(۱۲) حضرت یحیٰ علیہ السلام ،

(۱۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام ،

(١٤) حضرت الیاس علیہ السلام ،

(۱۵) حضرت اسماعیل علیہ السلام ،

(۱٦) حضرت یسع علیہ السلام ،

(۱۷) حضرت یونس علیہ السلام ،

(۱۸) حضرت لوط۔

 

۳۔ قیامت:

۔۔۔ قیامت کے روز اللّٰه تمام انسانوں کا جمع کرے گا۔ (آیت:۱۲)

۔۔۔ روزِ قیامت کسی انسان سے عذاب کا ٹلنا اس پر اللّٰه کی بڑی مہربانی ہوگی۔ (آیت: ۱۶)

۔۔۔ روزِ قیامت مشرکین سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کہاں ہیں تمھارے شرکاء؟ (آیت: ۲۲)

۔۔۔ اس روز جہنمی تمنا کریں گے کہ کاش! انھیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تاکہ وہ اللّٰه رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والے بن جائیں۔ (آیت: ۲۷)

۔۔۔ دنیا کی زندگی تو کھیل اور مشغلہ ہے ، آخرت کی زندگی بدرجہا بہتر ہے۔ (آیت: ۳۲)

 

آٹھویں پارے  کا خلاصہ

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انعام کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ اعراف کا ابتدائی حصہ

 

(پہلا حصہ)

سورۂ انعام کے بقیہ حصے میں چار باتیں ہیں:

۱۔ تسلی رسول

۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں

۳۔ اللّٰه تعالیٰ کی دو نعمتیں

۴۔ دس وصیتیں

 

۱۔ تسلی رسول:

اس سورت میں رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ یہ لوگ ضدی ہیں، معجزات کا بے جا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، اگر مردے بھی ان سے باتیں کریں تو یہ پھر بھی ایمان نہ لائیں گے، قرآن کا معجزہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔

 

۲۔ مشرکین کی چار حماقتیں:

۱۔ یہ لوگ چوپایوں میں اللّٰه تعالیٰ کا حصہ اور شرکاء کا حصہ الگ الگ کر دیتے، شرکاء کے حصے کو اللّٰه تعالیٰ کے حصے میں خلط نہ ہونے دیتے، لیکن اگر اللّٰه تعالیٰ کا حصہ شرکاء کے حصے میں مل جاتا تو اسے برا نہ سمجھتے۔ (آیت: ۱۳۵)

۲۔ فقر یا عار کے خوف سے بیٹیوں کو قتل کر دیتے۔ (آیت: ۱۳۶)

۳۔ چوپایوں کی تین قسمیں کر رکھی تھیں: ایک جو ان کے پیشواؤں کے لیے مخصوص، دوسرے وہ جن پر سوار ہونا ممنوع، تیسرے وہ جنھیں غیر اللہ کے نام سے ذبح کرتے تھے۔

(آیت: ۱۳۸)

۴۔ چوپائے کے بچے کو عورتوں پر حرام سمجھتے اور اگر وہ بچہ مردہ ہوتا تو عورت اور مرد دونوں کے لیے حلال سمجھتے۔ (آیت: ۱۳۹)

 

۳۔ اللّٰه تعالیٰ کی دو نعمتیں:

(۱) کھیتیاں

(۲) چوپائے

 

۴۔ دس وصیتیں:

(۱)اللّٰه تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (آیت: ۱۵۱)

(۲)ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ (آیت: ۱۵۱)

(۳)اولاد کو قتل نہ کیا جائے۔ (آیت: ۱۵۱)

(۴)برائیوں سے اجتناب کیا جائے۔

(آیت:۱۵۱)

(۵)ناحق قتل نہ کیا جائے۔ (آیت: ۱۵۱)

(۶)یتیموں کا مال نہ کھایا جائے۔ (آیت: ۱۵۲)

(۷)ناپ تول پورا کیا جائے۔ (آیت: ۱۵۲)

(۸)بات کرتے وقت انصاف کو مد نظر رکھا جائے۔ (آیت: ۱۵۲)

(۹)اللّٰه تعالیٰ کے عہد کو پورا کیا جائے۔

(آیت: ۱۵۲)

(۱۰)صراط مستقیم ہی کی اتباع کی جائے۔

(آیت: ۱۵۳)

 

(دوسرا حصہ)

 سورۂ اعراف کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں پانچ باتیں ہیں:

۱۔ اللّٰه تعالیٰ کی نعمتیں

۲۔ چار ندائیں

۳۔ جنتی اور جہنمیوں کا مکالمہ

۴۔ اللّٰه تعالیٰ کی قدرت کے دلائل

۵۔ پاتچ قوموں کے قصے

 

۱۔ اللّٰه تعالیٰ کی نعمتیں:

(۱) قرآن کریم

(۲) تمکین فی الارض

(۳) انسانوں کی تخلیق

(۴) انسان کو مسجود ملائکہ بنایا۔

 

۲۔ چار ندائیں:

صرف اس سورت میں اللّٰه تعالیٰ نے انسان کو چار مرتبہ يَا بَنِي آدَمَ کہہ کر پکارا ہے۔

پہلی تین نداؤں میں لباس کا ذکر ہے، اس کے ضمن میں اللّٰه تعالیٰ نے مشرکین پر رد کردیا کہ تمہیں ننگے ہوکر طواف کرنے کو اللّٰه تعالیٰ نے نہیں کہا جیسا کہ ان کا دعوی تھا۔

چوتھی ندا میں اللّٰه تعالیٰ نے اتباع رسول کی ترغیب دی ہے۔

 

۳۔ جنتیوں اور جہنمیوں کا مکالمہ:

جنتی کہیں گے:

کیا تمہیں اللّٰه تعالیٰ کے وعدوں کا یقین آگیا؟“، جہنمی اقرار کریں گے، جہنمی کھانا پینا مانگیں گے، مگر جنتی ان سے کہیں گے:

اللّٰه تعالیٰ نے کافروں پر اپنی نعمتیں حرام کر دی ہیں۔

 

۴۔ اللّٰه تعالیٰ کی قدرت کے دلائل:

(۱) بلند وبالا آسمان

(۲) وسیع وعریض عرش

(۳) رات اور دن کا نظام

(۴) چمکتے شمس و قمر اور ستارے

(۵) ہوائیں اور بادل

(۶) زمین سے نکلنے والی نباتات

 

۵۔ پانچ قوموں کے قصے:

(۱) قوم نوح

(۲) قوم عاد

(۳) قوم ثمود

(۴) قوم لوط اور

(۵) قوم شعیب

 

ان قصوں کی حکمتیں:

(۱) تسلی رسول

(۲) اچھوں اور بروں کے انجام بتانا

(۳) اللّٰه تعالیٰ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں

(۴) رسالت کی دلیل کہ امی ہونے کے باوجود پچھلی قوموں کے قصے بتا رہے ہیں

(۵) انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت

 

 

نویں پارے  کا خلاصہ

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ اعراف کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ انفال کا ابتدائی حصہ

 

(۱) سورۂ اعراف کے بقیہ حصے میں چھ باتیں یہ ہیں:

۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی قصہ

۲۔ عہد الست کا ذکر

۳۔ بلعم بن باعوراء کا قصہ

۴۔ تمام کفار چوپائے کی طرح ہیں

۵۔ قیامت کا علم کسی کو نہیں

۶۔ قرآن کی عظمت

 

بلعم بن باعوراء کا قصہ:

فتح مصر کے بعد جب بنی اسرئیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو جبارین ڈرگئے اور بلعم بن باعوراء کے پاس آئے کہ کچھ کرو، بلعم کے پاس اسم اعظم تھا، اس نے پہلے تو اس کی مدد سے منع کیا، مگر جب انھوں نے رشوت دی تو یہ بہک گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرئیل کے خلاف بد دعائیہ کلمات کہنے شروع کیے، مگر اللّٰه تعالیٰ کی قدرت کہ وہ کلمات خود اس کے اور قوم جبارین کے خلاف نکلے، اللّٰه تعالیٰ نے اس کی زبان نکال کر اس کو کتے کی طرح کردیا۔ فمثله كمثل الكلب

 

(۲) سورۂ انفال کا جو ابتدائی حصہ

اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں یہ ہیں:

۱۔ غزوہ بدر اور مال غنیمت کا حکم

۲۔ مومنین کی پانچ صفات

۳۔ چھ بار مومنین سے خطاب

 

مومنین کی پانچ صفات یہ ہیں:

(۱) خشیت

(۲) تلاوت

(۳) توکل

(۴) نماز

(۵) سخاوت (آیت: ۲و۳)

 

چھ بار مومنین سے خطاب:

 

(۱) آیت:١٤

(اے ایمان والو! میدان جنگ میں کفار کے مقابلے سے پیٹھ نہ پھیرنا)

 

(۲) آیت: ۲۰

(اے ایمان والو! اللّٰه اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)

 

(۳) آیت: ۲۴

(اے ایمان والو! اللّٰه اور رسول جب کسی کام کے لیے بلائیں تو ان کا حکم قبول کرو)

 

(٤) آیت: ۲۷

(اے ایمان والو! نہ اللّٰه اور رسول سے خیانت کرو نہ اپنی امانتوں میں)

 

(۵) آیت: ۲۹

(اے ایمان والو! تم اللّٰه سے ڈرو گے تو وہ تمھیں ممتاز کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا)

 

(٦) آیت: ۴۵

(اے ایمان والو! دشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللّٰه کو یاد کرو)

 

 

دسویں پارے  کا خلاصہ

 

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انفال کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ توبہ کا ابتدائی حصہ

 

(۱) سورۂ انفال کے بقیہ حصے میں پانچ باتیں یہ ہیں:

۱۔ مال غنیمت کا حکم

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات

۳۔ اللّٰه تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب

۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات

۵۔ ہجرت اور نصرے کے فضائل

 

۱۔ مال غنیمت کا حکم:

مال غنیمت کا حکم یہ بیان ہوا کہ خمس نبی علیہ السلام آپ کے اقرباء یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور باقی چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔

 

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات:

(۱) کفار مسلمانوں کو اور مسلمان کفار کو تعداد میں کم سمجھے اور ایسا اس لیے ہوا کہ اس جنگ کا ہونا اللّٰه کے ہاں طے ہوچکا تھا۔

(۲) شیطان مشرکین کے سامنے ان کے اعمال کو مزین کرکے پیش کرتا رہا دوسری طرف مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے۔

(۳) قریش غزوۂ بدر میں ذلیل و خوار ہوئے۔

 

۳۔ اللّٰه تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب:

(۱) میدان جنگ میں ثابت قدمی۔

(۲) اللّٰه تعالیٰ کا ذکر کثرت سے۔

(۳) اختلاف اور لڑائی سے بچ کر رہنا۔

(٤) مقابلے میں نا موافق امور پر صبر۔

 

۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات:

(۱) دشمنوں سے مقابلے کے لیے مادی، عسکری اور روحانی تینوں اعتبار سے تیاری مکمل رکھیں۔

(۲) اگر کافر صلح کی طرف مائل ہوں تو صلح کرلو۔

 

۵۔ ہجرت اور نصرت کے فضائل:

(۱) مہاجرین و انصار سچے مومنین ہیں

(۲) گناہوں کی مغفرت

(۳) رزق کریم کا وعدہ

 

(۲) سورۂ توبہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں دو باتیں یہ ہیں:

 

۱۔ مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد

مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براءت کا اعلان ہے، مشرکین کو حج بیت اللّٰه سے منع کردیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ قتال کی اجازت دی گئی۔

 

۲۔ مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز

منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز غزوۂ تبوک بنی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے سپر پاور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر پھل پکے ہوئے تھے، مسلمان سوائے چند کے سب چلے گئے، جبکہ منافقین نے بہانے تراشنے شروع کردیے، پارے کے آخر تک منافقین کی مذمت ہے، یہاں تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللّٰه تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی عذر کی وجہ سے اس غزوے میں نہ جاسکے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post