آٹھ سنہری باتیں
ايك طالب علم کی حاصل کردہ آٹھ باتیں جو آج بھی ہمارے مقصد تعلیم کے تعین کا ذریعہ اور مشعل راہ بن سکتی ہیں۔
ایک بزرگ
اپنے مدرسے میں اپنے مریدوں اور طالب علموں کو دین کی تعلیم دیا کرتے تھے، علم کے پیاسے
خالی ہاتھ ان کے پاس آتے اور علم کے خزانے بھر کر اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ۔ ان بزرگ
کا ایک ہونہار طالب علم کافی عرصے تک ان سے
تعلیم حاصل کرتا رہا۔ وہ بزرگ بھی اپنے اس طالب علم کا بہت خیال
رکھتے تھے اور بڑے شوق سے پڑھاتے تھے۔نیک،باادب طالب علم تو یہ چاہتا تھا کہ ساری زندگی استاد محترم کی خدمت میں ہی حاضر رہے
اور علم حاصل کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہے، لیکن وہ وقت بھی آ گیا جب بزرگ نے اس طالبعلم سے کہا کہ تم اب تک جتنی تعلیم حاصل کر چکے
ہو، وہ کافی ہے۔ اب اپنے علم اور اچھے کاموں سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچاؤ۔ طالب
علم کو اپنے مرشد اور استاد کا حکم ماننا پڑا، لہذا اس نے گھر جانے کی تیاری شروع
کر دی۔ جب وہ مدر سے سے رخصت ہونے لگا تو اس بزرگ نے پوچھا:
بیٹا کافی
عرصہ ہمارے پاس رہے ہو، یہ تو بتاؤ تم نے یہاں رہ کر کیا کیا کچھ حاصل کیا؟ بزرگ نے
یہ سوال اپنے طالب علم کا علمی مرتبہ معلوم
کرنے کے لئے کیا تھا۔ وہ یہ اطمینان کرنا چاہتے تھے کہ خدا کے فضل سے وہ بہت بڑا عالم
دین بن کر اپنے گھر جارہا ہے لیکن طالب علم نے ان کی امید کے خلاف جواب دیا۔ اس نے کہا: حضرت
میں نے آپ کی خدمت میں حاضر رہ کر صرف آٹھ باتیں سیکھی ہیں۔
صرف آٹھ
باتیں؟ بزرگ نے حیران ہو کر پوچھا۔ عمر کا اتنا بڑا حصہ میرے پاس گزارا اور وہ بھی
صرف آٹھ باتیں سیکھی ہیں۔
طالب
علم نے کہا: ”جی ہاں صرف آٹھ باتیں۔
استاد:
اچھا چلو وہ آٹھ باتیں مجھے بھی بتاؤ:
طالب
علم : ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ انسان کو نہ دولت سے محبت کرنی چاہئے ، نہ اونچے
عہدے اور شان و شوکت سے۔ اسے نیکی کرنے کو
اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنانا چاہئے"۔
طالب
علم کی بات سن کر بزرگ بہت خوش ہوئے ، فرمایا:
" بے شک تم نے یہ بہت اچھی بات سیکھی
ہے، اچھا بتاؤ تم نے دوسری کون سی بات سیکھی ہے؟"
طالب
علم بولا: " جناب دوسری بات یہ سیکھی
ہے کہ انسان کو ہر وقت اور ہر حال میں اللہ پاک سے ڈرنا چاہئے ، ایسا کرنے سے وہ ہر
قسم کی برائیوں اور ظلم سے بچا رہے گا۔ دراصل آدمی گناہ اس وقت کرتا ہے جب وہ اللہ
رب العزت کو بھول جاتا ہے۔
شاباش!
تم نے یہ بات بھی بہت کام کی سیکھی ہے ۔ بزرگ
نے خوش ہوتے ہوئے کہا
میں نے
تیسری بات یہ سیکھی ہے کہ آدمی کو لالچ اور کنجوسی سے بچنا چاہئے ۔ عام آدمیوں کا یہ
حال ہے کہ وہ ساری زندگی اچھی اچھی چیزیں اکٹھی کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ خزانے جمع کر
لیتے ہیں، لیکن خزانے ان کے کسی کام نہیں آتے ۔ جب موت آتی ہے تو ان پر دوسروں کا قبضہ
ہو جاتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ اللہ کریم انسان کو جو اچھی چیز دے، اسے
اس کے راستے میں خرچ کر دینا چاہئے۔ ایسا کرنے سے اسے ثواب حاصل ہوگا جو مرنے کے بعد
انسان کے کام آئے گا“۔ بزرگ نے اس بات کو بھی اچھا سمجھا۔
طالب علم بولا : ” جناب میں نے چوتھی بات یہ سیکھی ہے کہ
نیک نامی عزت اور اونچا درجہ صرف اچھے کام کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ خدا کی نزدیک
وہی بڑا ہے جو اچھا راستہ اختیار کر کے بھلائی
کے کام کرتا ہے۔ بالکل ٹھیک ۔“ بزرگ خوش ہو کر بولے ۔ اب بتاؤ، پانچویں بات کون سی
ہے؟“
طالب
علم بولا: " جناب دوسروں کو اچھی حالت
میں دیکھ کر جلنا اور حسد کرنا بہت بری بات
ہے ، انسان کو یہ ایمان رکھنا چاہئے کہ سب نعمتوں اور سے خزانوں کا مالک اللہ تبارک
و تعالیٰ ہے۔ اس کے آگے دامن پھیلانا چاہئے، کسی کی کوئی چیز چھین لینے کا خیال دل
میں نہیں لانا چاہئے ۔“
" بے شک تمہاری
یہ بات بھی بہت اچھی ہے۔ چھٹی بات کون سی ہے جو تم نے سیکھی ہے؟"
جناب! عام
آدمیوں کی حالت یہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ
انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ شیطان کے
فریب سے بچنے کے لئے ہمیں ہر وقت کوشش کرنی چاہئے اور اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنا
چاہئے۔ "مرحبا! تم نے سچائی کو پالیا" بزرگ خوش ہو کر بولے۔ طالب علم نے کہا:
جناب عالی!
ساتویں بات میں نے یہ سیکھی ہے کہ سب کو روزی دینے والا اور پالنے والا اللہ رب العالمین
ہے۔ اپنی روزی کے بارے میں پکا ایمان رکھنا چاہئے کہ وہ ضرور ملے گی ۔"
" تم نے یہ
بات بھی کام کی سیکھی ہے۔ بزرگ نے خوش ہو کر کہا اور پھر آٹھویں بات کے بارے میں دریافت کیا۔ طالب
علم بولا: " جناب عالی! میں نے آٹھویں
بات یہ سیکھی ہے کہ انسان کا اصلی اور حقیقی مددگار اور حفاظت کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ
ہی ہے جو خالق کائنات ہے۔ اس کے سوا کسی پر
بھروسا نہیں کرنا چاہئے“۔
بزرگ بولے:
"اے خوش نصیب! تو نے یہ بات بھی بہت اچھی سیکھی ہے۔ میں تجھے مبارک باردیتا ہوں
کہ تو نے صرف یہ آٹھ باتیں سیکھ کرپورا علم سیکھ لیا ہے۔
(ماخوذ
از بچوں کا اسلام)
Post a Comment