ہارون
الرشید اور ایک اعرابی
ہارون الرشید
ایک مرتبہ حرم مکہ میں آیا تو عوام کو طواف کرنے سے روک دیا تا کہ وہ خود تنہا طواف
کر سکے اور جب وہ طواف کرنے لگا تو جھٹ ایک اعرابی نے سبقت کر کے اس کے ساتھ طواف کرنا
شروع کر دیا ۔ ہارون الرشید کو یہ بات ناگوار گزری اور اپنے حاجب کی طرف دیکھا۔حاجب
نے اپنے بادشاہ کی مرضی پا کر اعرابی سے کہا میاں اعرابی ! یہاں سے ہٹ جاؤ تا کہ امیرالمومنین
طواف کر سکیں۔ اعرابی نے جواب دیا خدا کے نزدیک اس مقام میں چھوٹے ، بڑے ادنیٰ و اعلیٰ
، امیر و غریب اور راعی ورعایا سب برابر میں یہاں کون چھوٹا اور کون بڑا ہے جاؤ میں
نے ہٹتا ۔ ہارون الرشید نے اس کی یہ گفتگو سنی تو حاجب سے کہا اسے رہنے دو ۔ اس کے
بعد ہارون الرشید حجر اسود کو چومنے کے لئے آگے بڑھا تو اعرابی نے سبقت کر کر کے حجر
اسود کو پہلے چوم لیا۔ ہارون الرشید جب مقام ابراہیم میں نماز پڑھنے کو بڑھا تو اعرابی
نے سبقت کر کے وہاں پہلے نماز پڑھنا شروع کر دی ۔ ہارون الرشید جب طواف و نماز سے فارغ
ہوا تو حاجب سے کہا اس اعرابی کو میرے پاس بلا لاؤ۔ چنانچہ حاجب گیا اور اعرابی سے کہنے لگا۔ چلو تمہیں امیرالمومنین
بلاتے ہیں۔ اعرابی کہا مجھے ان سے کوئی حاجت نہیں ہے ۔ پھر میں کیوں جاؤں۔ ہاں اگر
انہیں مجھ سے کوئی کام ہے تو وہ خود میرے پاس کیوں نہیں آتے؟ حاجب یہ سنکر غصہ میں
آکر واپس ہوا اور اس کا جواب ہارون الرشید کو سنا دیا ۔ ہارون الرشید نے سن کر کہا
، ٹھیک ہے دو ٹھیک کہتا ہے ۔ مجھے خود اس کے پاس چلنا چاہیئے چنانچہ ہارون الرشید خود
اس اعرابی کے پاس پہنچا اور اس کے سامنے کھڑا ہو کر السلام علیکم کا کہا جس کا جواب
و علیکم السلام کہہ کر اعرابی نے دیا ۔ ہارون الرشید نے کہا کیوں بھئی! اجازت ہے بیٹھ
جاؤں۔ اعرابی نے جواب دیا ۔ یہ گھر نہ آپ کا ہے نہ میرا ۔ پھر مجھ سے اجازت کیسی ؟
اور میں اجازت دینے والا کون ؟ یہاں ہم سب برابر ہیں آپ چاہیں تو بیٹھ جائیں چاہیں
تو واپس چلے جائیں ہارون الرشید اس قسم کی جرات آمیز گفتگو سن کر حیران رہ گیا اسے
گمان تک نہ تھا کہ ایسی گفتگو بھی کوئی اس سے کر سکتا ہے۔ پھر وہ اعرابی کے پہلو میں
بیٹھ گیا اور کہنے لگا ۔ میاں اعرابی ! میں تم سے تمہار سے فرض کے متعلق پوچھتا ہوں
کیا تم بتا سکو گے ؟ اگر تم اپنے فرض پر روشنی ڈال سکو تو میں تمہارا قائل ہو جاؤں
گا۔ اعرابی نے جواب دیا آپ کا یہ سوال معلم بن کر ہے یا متعلم بن کر ؟ ہارون الرشید
نے کہا متعلم بن کر۔ اعرابی نے کہا تو پھر طالب علموں کی طرح سامنے مؤدب ہو کر بیٹھو
۔ اور پھر پوچھو ! چنانچہ ہارون الرشید مؤدبانہ طریقے سے سامنے بیٹھ گیا اور پھر فرض
کے متعلق پوچھا۔ اعرابی نے جواب دیا کہ ایک فرض بتاؤں یا پانچ ، سترہ فرض بتاؤں، چونتیس
بتاؤں یا چر انویں ۔ چالیس میں سے ایک فرض کا بیان کروں یا عمر بھر میں ایک فرض کا
؟ یہ تفصیل سن کر ہارون الرشید نے طنز ا ہنس کر کہا۔ میں نے تو تم سے ایک فرض کا پوچھا
ہے اور تم دنیا بھر کا حساب لے بیٹھے ہو ۔ اعرابی نے کہا ہارون ! اگر دین میں حساب
نہ ہوتا تو قیامت کے روز خالق مخلوق سے کبھی حساب نہ لیتا خدا کا ارشاد کیا یاد نہیں
۔
وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ
اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(الانبیاء
:47)
اور ہم
قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز
رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی
ہیں ۔
بارون رشید نے جب یہ سنا کہ اعرابی نے اس کا نام
لے کرا سے مخاطب کیا ہے۔ اور اسے امیر المومنین نہیں کہا تو غصے میں آگیا اور جب غصہ
فرو ہوا تو کہنے لگا۔
قسم بخدا
اگر تم نے میرے سوال کا جواب نہ دیا تو میں تجھے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان
مروا دوں گا حاجب نے کہا امیر المومنین جانے دیجئے۔ اس حرم شریف کی طفیل اس کی جان
بخشی فرما دیجئے ۔ اعرابی یہ سن کر کھکھلا
کر خوب ہنسا ۔ ہارون الرشید اور بھی زیادہ حیران ہوا ۔ اور پوچھا اس قدر ہنسے کیوں
؟ اعرابی نے جواب دیا تم دونوں کی مضحکہ خیز گفتگو سن کر کہ ایک تم دونوں میں سے ایسی
موت لے آنے کا مدعی ہے جو آئی نہیں اور دوسرا
ایسی موت کو ہٹارہا ہے جو آچکی ۔ بھلا ایسی
نا معقول باتیں دانا تسلیم کر سکتا ہے، ہارون رشید یہ سن کر بے حد نادم ہوا اور منت
سے کہنے لگا۔ بھئی! اب تو مجھے تمہارے جواب کا بے حد شوق ہے۔ برائے خدا میرے سوال کا
جواب ضرور دو - اعرابی نے کہا تو لو سنو۔ تمہارا سوال اس فرض سے متعلق ہے۔ جو خدا نے
مجھ پر کیا ہے۔ تو خدا کے مجھ پر بہت سے فرائض میں میں نے جو تم سے ایک فرض کا کہا
تھا وہ تو دین اسلام ہے اور جو پانچ فرض کہے تھے۔ وہ پانچ نمازیں ہیں اور جو سترہ فرض
ہیں وہ دن رات کی سترہ رکعات ہیں۔ اور چونتیس فرض ؟ دن رات کے سجدے ہیں اور چرا نویں فرض ؟ وہ
ان سب رکعات کی تکبیرات ہیں اور جو میں نے چالیس میں سے ایک فرض کہا تھا۔ وہ چالیس
دینار میں سے ایک دینار کی زکوۃ ہے اور ساری عمر میں سے ایک فرض ؟ وہ حج ہے ہارون الرشید
اعرابی کے حسن بیاں اور تشریح مسائل کو سن کر بیحدمسرور ہوا اور اس کے دل میں اس کی بیحد قدر پیدا ہو گئی ۔
اس کے بعد
اعرابی نے کہا کہ آپ کے سوال کا جواب تو میں نے دے دیا۔ اب میرے بھی سوال کا جواب کیا
آپ دیں گے ؟ ہارون شید نے کہا ہاں پو چھیے اعرابی نے کہا۔ کیا فرماتے ہیں ۔ امیر المومنین
اس شخص کے لئے جس نے صبح ایک عورت کو دیکھا تو وہ عورت اس پر حرام تھی۔ ظہر کا وقت
ہوا تو حلال ہو گئی ۔ عشاء کا وقت آیا تو پھر" حرام ہو گئی۔ صبح ہوئی تو حلال
ہو گئی اس کے بعد پھر ظہر کا وقت آیا تو حرام ہوگئی عصر کا وقت آیا تو حلال ہو گئی
۔ مغرب کا وقت ہوا تو حرام ہوگئی ۔ عشاء کا وقت آیا تو پھر حلال ہو گئی ۔ ہارون الرشید
یہ سن کر کہنے لگا کہ تم نے مجھے ایک ایسے دریا میں ڈال دیا ہے جس سے بجز تمہارے دوسرا
کوئی نہ نکال سکے گا تم خود ہی اس کا جواب دو ۔ اعرابی نے کہا امیر المومنین! آپ تو
بہت بڑے صاحب اختیار حاکم ہیں۔ میرے ایک معمولی سے مسئلہ کے سامنے عاجز کیوں آگئے ؟
ہارون الرشید نے کہا واقعہ یہ ہے کہ خدا نے تمہارا درجہ علم مجھ سے بلند کیا ہے ۔ میری
درخواست ہے کہ اس حرم شریف کی خاطر تم ہی جواب دو۔ا عرابی نے کہا بہت اچھا تو سنیئے
وہ ایک ایسا شخص ہے جس نے صبح کسی دوسرے کی لونڈی کو دیکھا جو اس پر حرام تھی ۔ ظہر
کا وقت آیا تو وہ لونڈی اس نے خرید لی ۔ اب وہ اس پر حلال ہو گئی ۔ عصر کے وقت اس نے
اسے آزاد کر دیا تو وہ پھر اس پر حرام ہو گئی ۔ مغرب کے وقت اس نے اس سے نکاح کر لیا
تو پھر حلال ہوگئی ۔ عشاء کے وقت اس نے طلاق دے دی تو وہ پھر حرام ہو گئی۔ صبح اس نے
رجوع کر لیا تو پھر حلال ہو گئی ظہر کا وقت آیا تو وہ شخص مرتد ہو گیا ۔ وہ پھر اس پر حرام ہو گئی ۔ عصر
کے وقت وہ شخص پھر مسلمان ہو گیا تو اس کی عورت پھر اس پر حلال ہو گئی۔ مغرب کے وقت
وہ عورت مرتد ہوگئی پھر وہ حرام ہو گئی عشاء کا وقت آیا تو پھر وہ مسلمان ہوگئی ۔ لہذا
پھر حلال ہو گئی ۔
ہارون الرشید
یہ تفصیل سن کر حیران و ششدر رہ گیا اور اس اعرابی کو دس ہزار دینار دینے کا حکم دیا
۔ جب یہ دنیا را اعرابی کے پیش کئے گئے تو اس نے کہا کہ یہ درہم ان کے اہل کو دے دو
۔ مجھے ضرورت نہیں۔ ہارون الرشید نے کہا کیا میں تمہارے نام کوئی جاگیر کر دوں جو عمر
بھر تمہارے لئے کافی ہو ؟ اعرابی نے کہا جس نے تمہارے نام ملک کر رکھا ہے وہ چاہے گا
تو میرے نام بھی کوئی جاگیر کردیگا تمہارے واسطے کی ضرورت نہیں ۔ ہارون الرشید وہاں
سے لوٹا اور اس اعرابی کے متعلق دریافت کیا تولوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت امام جعفر
صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبز ادے موسی
رضا ہیں ۔ جنہوں نے زاہدانہ زندگی اختیار فرما رکھی ہے۔ ہارون الرشید یہ حقیقت سنکر
الٹے پاؤں دوڑا اور حضرت موسیٰ رضا بن جعفر صادق بن محمد بن علی بن ابی طالب رضی اللہ
تعالٰی عنہ کی پیشانی کو چوم لیا ۔
الروض الفائق
ص58 تا59
سبق : اہل
بیت عظام منبع العلوم تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے بادشاہ بھی علم دوست اور بزرگان
دین کے قدر شناس تھے۔
Post a Comment