دل کی سختی کے اسباب اور ممکنہ نقصانات؟

دل کی سختی کا قرآن میں ذکر

اَلَمْ يَاْنِ لِلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُـهُـمْ لِـذِكْرِ اللّـٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ وَلَا يَكُـوْنُـوْا كَالَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْـهِـمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُـهُـمْ ۖ وَكَثِيْـرٌ مِّنْـهُـمْ فَاسِقُوْنَ (الحدید:16)

کیا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت اور جو دین حق نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں، اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب (آسمانی) ملی تھی پھر ان پر مدت لمبی ہو گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے، اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةًؕ-وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُ جُ مِنْهُ الْمَآءُؕ-وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(البقرۃ:۷۴)

پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ کَرّے(سخت) اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلتا ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارےبُرے کاموں سے بے خبر نہیں۔

فَبِمَا نَقۡضِهِم مِّيثَٰقَهُمۡ لَعَنَّٰهُمۡ وَجَعَلۡنَا قُلُوبَهُمۡ قَٰسِيَةٗۖ يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦ وَنَسُواْ حَظّٗا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِۦۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَآئِنَةٖ مِّنۡهُمۡ إِلَّا قَلِيلٗا مِّنۡهُمۡۖ فَٱعۡفُ عَنۡهُمۡ وَٱصۡفَحۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ(مائدۃ:13)

 پھر ان کی اپنی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی، اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کر دیا ( وہ ہدایت سے محروم ہوگئے، چنانچہ) وہ لوگ (کتابِ الٰہی کے) کلمات کو ان کے (صحیح) مقامات سے بدل دیتے ہیں اور اس (رہنمائی) کا ایک (بڑا) حصہ بھول گئے ہیں جس کی انہیں نصیحت کی گئی تھی، اور آپ ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہیں گے سوائے ان میں سے چند ایک کے (جو ایمان لا چکے ہیں) سو آپ انہیں معاف فرما دیجئے اور درگزر فرمائیے، بیشک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےo

دل کی نرمی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:

فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ(آل عمران: 159)

تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتےتو وہ ضرور تمہارے گِرد (آس پاس)سے پریشان ہو جاتے۔

 دل کی سختی بہت بڑی آفت ہے کیونکہ دل کی سختی کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس میں وعظ و نصیحت اثر نہیں کرتا، انسان کبھی اپنے سابقہ گناہوں کو یاد کر کے نہیں روتا اور اللہ تعالیٰ کی آیات میں غور و فکر نہیں کرتا دل کی سختی کے مختلف اَسباب اور علامات میں سے چند یہ ہیں:

·        ذکرالٰہی سے غفلت برتنا

·        تلاوت  قرآن پاک نہ کرنا

·        موت کو یاد نہ کرنا

·        لغو  باتیں   کرنا

·        فحش گوئی کرنا

اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت برتنا

حضرت عبد اللہ بن عمر﷠ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد  فرمایا:

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَا تُكْثِرُوا الْكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الْكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْ اللَّهِ الْقَلْبُ الْقَاسِي ۔ترمذی: حدیث نمبر 2411

ترجمہ : عبداللہ بن عمر ﷠ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنادیتاہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والاہوگا۔

اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر زیادہ باتیں (یعنی بیکار باتیں) نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں دل کی سختی ہے اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والا ہے۔

 حضرت عبد اللہ بن عمر ﷠سے روایت ہے، حضورِ انور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ عرض کی گئی:  یا رسولَ اللہ! ﷺ، ان دلوں  کی صفائی کس چیز سے ہو گی؟ ارشاد فرمایا:

موت کو زیادہ یاد کرنے سے اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے سے۔ (شعب الایمان،حدیث:2014)

 لو فارق ذکر الموت قلبي خشیت أن یفسد علي قلبي۔(إمام أحمد بن حنبل في الزهد : 514)

حضرت سعید بن جبیر ﷜نے فرمایا : اگر موت کا ذکر میرے دل سے جدا ہو جائے تو مجھے خوف ہے کہ میرا دل فساد کا شکار ہو گا۔

الْحَيَاءُ مِنْ الْإِيمَانِ وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَالْبَذَاءُ مِنْ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ۔(ترمذی: حدیث نمبر 2009)

 ابوہریرہ ﷜کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:' حیا ایمان کا ایک جزء ہے اورایمان والے جنت میں جائیں گے اوربے حیائی کا تعلق ظلم (سخت دلی)سے ہے اورظالم(سخت دل) جہنم میں جائیں گے۔

دل کی سختی کے ممکنہ نقصانات:

·        سخت دل لوگ کل بروزِ قیامت غضب اِلٰہی کا شکار ہوسکتےہیں۔

·        سخت دل لوگ اللہ  رب العزت اور اس کے حبیب کریم ﷺکو ناپسند ہیں۔

·        دل کی سختی نیک اعمال  عمل کو ضائع کرسکتی ہے ۔

·        سخت دلی سے بے رحمی (ظلم) کا اندیشہ ہے۔

·        سخت دل لوگوں کی صحبت بری صحبت کہلاتی ہے۔

·        سخت دلوں کا حساب کتاب بھی سخت ہوسکتاہے ۔

·        سخت دلی اللہ رب العزت  کے قہروغضب کی علامت ہے، اس صورت میں انہیں جہنم کا عذاب کا بھی ہوسکتاہے۔

·        سخت دل لوگ دنیا وآخرت کی کثیر بھلائیوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔

·        خدا کی طرف سے کچھ سزائیں ایسی ہیں جو دلوں اور جسموں کو ملتی ہیں، چنانچہ معیشت میں تنگی، عبادت میں کمزوری بھی سزائیں ہیں، لیکن بندے کو دل کے سخت ہونے کی جو سزا ملتی ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور سزا نہیں ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں دل کی سختی سے محفوظ فرمائے اور دل کی نرمی عطا فرمائے۔ آمین


دل کی سختی کو کیسے روکا جائے؟

جس شخص کو نرم دلی ملی اسے بھلائی میں سے حصہ ملا

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أُعْطِيَ حَظَّهُ مِنْ الرِّفْقِ فَقَدْ أُعْطِيَ حَظَّهُ مِنْ الْخَيْرِ وَمَنْ حُرِمَ حَظَّهُ مِنْ الرِّفْقِ فَقَدْ حُرِمَ حَظَّهُ مِنْ الْخَيْرِ (ترمذی:حدیث نمبر2013)

 ابوالدرداء ﷜ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:' جس شخص کو نرم برتاؤ کاحصہ مل گیا، اسے اس کی بھلائی کاحصہ بھی مل گیا اورجوشخص نرم برتاؤ کے حصہ سے محروم رہا وہ بھلائی سے بھی محروم رہا۔

اس حدیث کی روسے ہر مسلما ن  خواہ وہ کسی شئون حیات سے وابستہ ہو اسے نرم دلی اپنانی چاہئے۔ اس کے حصول کے لئے اُ ن اعمال کو اختیار کیا جانا ضروری  ہےجن کے ذریعہ اس کا دل نرم پڑے اور دلوں میں خشیت الٰہی پیدا ہو۔رقیقہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو دل میں نرمی پیدا کرنے والی ہو۔امام راغب کہتے ہیں۔"رقت و نرمی کا مقام دل ہے" اور اس کا متضاد سختی ہے اس لیے کہا جاتا ہے نرم دل اور سخت دل۔آج دلوں کی سختی عام ہو چکی ہے۔اس لیے وہ چیز کہ جو دلوں کی سختی کو دور کرے اورانہیں ابلیس کے دھوکہ سے محفوظ کرے اس کی لوگوں کوشدید حاجت ہے۔

دل کی سختی کے سد باب کے لئے مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:

 گناہوں سے بچنا:

گناہو ں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انسان کا دل سخت ہوتا اور گناہوں  سے بچنے کی وجہ سے انسان کی دل میں نرمی پیدا ہوتا ہے۔ اور اس میں  اطاعت الٰہی کی قوت پیدا ہوتی ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت اس وقت ممکن ہے جب دل اس کی محبت سے معمور او ر اس کے خوف سے لرزاں ہو۔رقائق مومن کے دل کو وہ قوت عطاء کرتے ہیں جو احکامات الٰہی کو بجالانے اور ممنوعات سے رک جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔اسی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن کریم میں احکامات کو بیان کرنے سے پہلے رقائق کا ذکر فرماتا ہے۔تاکہ دل کی سختی دور ہو جائے اور وہ اللہ کی اطاعت پر آمادہ ہو جائے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اکثر اپنی صفات اور اپنے افعال کا ذکر کرتا ہے۔اسی طرح وہ اپنی عظیم الشان مخلوقات کا ذکر کرتا ہے جنہیں دیکھ کر انسا ن کے دل میں ان کے خالق کی عظمت و ہیبت بیٹھتی ہے۔اسی طرح کبھی وہ جنت و جہنم کا ذکر کرتا ہے۔

رقت قلب کا سبب بننے والے امور درج ذیل ہیں:

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی معرفت:

اللہ جلَّ جلالٰہ کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کی معرفت کے ذریعہ اللہ کی پہچان حاصل کر نا۔ کیونکہ اللہ کو جا ن لینے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اللہ کی نافرمانی کرے ؟ جب بندہ یہ جانتا ہے کہ اُسے اللہ کی طرف ہی لوٹنا ہے اور اُسے اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑا ہونا ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجما ن نہ ہو گا تو یقینا بندہ اللہ کی معصیت سے باز آجاتا ہے۔یہ معصیت تبھی ممکن ہے کہ جب اللہ کی معرفت میں کمزوری واقع ہو۔ مثلًا بندہ جب اللہ کے سمیع و بصیر ہونے پر ایمان لاتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اُس کا رب اُسے ہر حال میں دیکھ رہا ہے اور اُس کا کوئی عمل رب تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں تب وہ اپنی زبان اور اعضاء حتیٰ کہ دل کے خیالات تک کی حفاظت کرتاہے کہیں ان سے اللہ کی نافرمانی سرزد نہ ہو جائے۔اسی طرح دیگر اسما الٰہی کی معرفت ہے کہ بندہ جب اللہ کے رحمن و رحیم، غفور و کریم، رئوف و وَدود ہونے کی معرفت حاصل کرتا ہے تو پھر وہ اللہ سے شدید محبت کرنے لگتا ہے اور ہر اُس چیز سے محبت کرتا ہے جس سے اللہ محبت کرتا ہے۔یاد رہے اللہ کے اسماء و صفات کی معرفت انسان کو گناہوں سے روکنے والی ہے ۔

جنت اور جہنم کا تذکرہ:

جب انسان جنت اور جہنم کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے دل میں نرمی اور خشیت ومحبت پیدا ہوتی ہے، جب وہ جنت کی لذتوں اورعیش وعشرت کو یاد کرتا ہے کہ اس میں جو داخل ہوگیا اُسے کبھی نکلنا نہیں، موت، بڑھاپا، مرض، تکلیف نہیں، حور و غلمان کا ساتھ اور سب سے بڑھ کر رب تعالیٰ کا دیدار، تو اس کے دل میں جنت کی طلب پیدا ہوتی ہے، اسی طرح جب وہ جہنم کے عذاب و آلام کا تصور کرتا ہے کہ جس میں گرنے والا ایک بڑا پتھر ٧٠ سال بعد اُس کی تہہ میں پہنچتا ہے، عذاب ہی عذاب، ، موت کی تمنا کرو بھی تو موت نہیں، دکھ ایسے جو کبھی سوچے نہ ہوں، تو اُس کے دل میں آخرت کا خوف اور جنت کی طلب پیدا ہوتی ہے۔

موت اور قبر کو یاد کرنا:

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے '' لذتوں کو توڑ دینے والی (یعنی موت )کو کثرت سے یاد کیا کرو۔(ترمذی :2284)

اس مقصد کے لیے آپ ﷺ نے قبرستان جانے کی نصیحت فرمائی ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں

''قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گی اور دنیا میں زہد کا سبب بنیں گی۔

اسی طرح برے خاتمہ کو یاد کرنا اور اس سے پناہ مانگنا بھی نیکیوں کی طرف جانے کا سبب ہے۔

قرآن کریم کی تلاوت اور اس میں غور و تدبر:

قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اس کے مطالب سیکھنے سے انسان کے دل میں ایمان کی حلاوت اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے:

اللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذَلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَشَائُ وَمَن یُضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (الزمر:23)

اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے جسم اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوتے ہیں یہی اللہ کی ہدایت ہے، وہ جسے چاہتا ہے قرآن کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدیت دینے والا نہیں۔

دنیا کی حقیقت کو یاد رکھنا:

دنیا کی زندگی سوائے کھیل کود، متاعِ غرور کے اور کچھ نہیں، چار دن کی اس زندگی کےبعد آخرت کی زندگی کا سامنا کرنا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے۔اس حقیقت کو جو بھی یاد رکھے گا وہ دنیا کی کثافتوں اور دل کی سختی سے  خود کو بچا لے گا۔اس لیے رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا کی بے ثباتی کا کثرت سے تذکرہ کیا ہے۔

تکوینی امورمیں تفکر کرنا:

عصر حاضر میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار ایسی آیات اور نشانیاں انسان پر ظاہر ہوئی ہیں جنہیں شاید پچھلے ادوار میں انسان نہیں جانتا تھا۔اللہ کی مخلوقات میں غور و تدبر سے انسان کے دل میں خالق کی ہیبت اور عظمت بیٹھتی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنی ان نشانیوں کے ذریعے لوگوں پر حق واضح کرتا ہے۔ارشاد ربانی ہے

سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ اَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ  (فصلت:53)

عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یقینا یہی حق ہے ۔

نیکوکاروں کی مصاحبت اختیار کرنا:

جن میں سب سے پہلے اہل علم کی مجالس آتی ہیں، جہاں اللہ کی رحمت اترتی ہے اور دین و دنیا کی بھلائی حاصل ہوتی ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ اہل سنت کے علماء سے علم حاصل کرے اوراہل بدعت کے ساتھ بیٹھنے سے بچے۔آخرت کو یاد کرنے والے، دیندار لوگوں کے ساتھ دوستی رکھنا آخرت کو یاد رکھنے کا اہم سبب ہے۔اسی طرح بے دینوں کی دوستی آخرت کو بھلانے کا سبب ہے۔

سابقہ گناہوں کو یاد کرنا:

انسان کا پنے گناہوں کو نہ بھولنا اور انہیں یاد کر کے اللہ سے معافی کا طلب کرتے رہنا بھی دلوں کو نرم کرتا ہے۔

اللہ سے دعا اور استغفار کرنا:

اللہ سے تعلق کی اہم ترین بنیاد اُس سے دعا کرنا ہے۔اس عمل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ  حضور ﷺ نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس بندے سے خوش ہوتا ہے جو اللہ کو پکارتا ہے اور اُس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور اُس پر غضب ناک ہوتا ہے جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اور تکبر کرتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post