معاف کرنے کی فضیلت از روئے قرآن؟

معاف کرنا بڑا اہم اور باعزت کاموں میں سے ایک ہے،یہ ہر کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے،اللہ نے اسے بہت شان والا اور پختہ کام کہا ہے،بڑے کاموں کیلئے بڑے لوگ ہوتے ہیں،اللہ کی رضا وخوشی کیلئے دل سے معاف کرنا بھی بڑا کام ہے اور اس کو کرنے والے بڑے عظیم اور باعزت لوگ ہیں،اللہ  تعالیٰ  کا فرمان مبارک ہے:

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَالِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(الشوریٰ:43)

اور جو شخص صبر کر لے اور معاف کردے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے (ایک کام)ہے۔

عزت اور ذلت اللہ کی طرف سے ہے،اللہ جسے عزت دے اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتاہے،اور جسے اللہ ذلیل کردے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا ہے،معاف کرنے سے عزت میں اضافہ ہی ہوتا ہے،معاف کردینے سے کمزوری،  اہانت و تذلیل کا احساس شیطانی وسوسہ ہے،وہ چاہتا ہے کہ انسان معاف کرنے کے اجروثواب  اور بدلے سے محروم رہے۔

معاف کردینے سے  اللہ رب العالمین کے  فرمان کی تعمیل ہوتی ہے: معاف کردینا،درگذر کرنا حکم الہٰی ہے،اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا :

خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(الاعراف:۱۹۹)

اے حبیب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔

ایک اور مقام پر فرمایا:فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِين(المائدۃ: 13)

پس توانہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا رہ، بیشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں :اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے :

اَلَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران: 134)

جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔

وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(النور:۲۲)

اور چاہئے کہ مُعاف کریں اور دَرگُزر یں  کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ(النحل:90)

اللہ تعالی عدل وانصاف کرنے کا اور احسان کرنےکا حکم دیتا ہے۔

معاف کرنا از روئے حدیث

بدلہ لینےسے معاف کرنے والا بڑا ہوتاہے :

أبي هريرة عن رسول الله ﷺ قال ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله(صحیح مسلم:حدیث نمبر 2091 )

سیدنا ابوہریرہ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔

عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيَّ يَقُولُ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَتْ لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ (ترمذی: حدیث نمبر2016)

 ابوعبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ ﷞ سے رسول اللہ کے اخلاق کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: آپ فحش گو، بدکلامی کرنے والے اوربازارمیں چیخنے والے نہیں تھے ، آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے ، بلکہ عفوودرگزرفرمادیتے تھے۔

 اچھا انسان وہی ہے جو معاف کرنا جانتا ہے

انسان، انسان کو ایسے معاف کرے جیسے اللہ تعالی سے اُمید رکھتا ہے کہ وہ ہمیں معاف کر دے

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے میں آپ حق پر ہیں اور آپ کا مسلمان بھائی غلطی پر ہے پھر بھی اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دیں رسول اللہ ﷺنے ایسے شخص کو جنت میں گھر کی ضمانت دی ہے۔

عن أبي أمامة قال قال رسول الله ﷺأنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترک المرا وإن کان محقا وببيت في وسط الجنة لمن ترک الکذب وإن کان مازحا وببيت في أعلی الجنة لمن حسن خلقه۔

سیدنا ابوامامہ﷜فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے  (یعنی معاف کردے)اور اس شخص کے لیے جو مذاق ومزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔ جنت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں، اور اس شخص کے لیے جو اعلی اخلاق کا مالک ہو اعلی جنت میں ایک مکان کا ضامن ہوں۔( سنن ابوداؤد: حدیث نمبر 1396 )

غصہ کو پی جانا بہادری ہے

رسول اللہ ﷺنے فرمایا : عن سهل بن معاذ عن أبيه أن رسول الله ﷺ قال من کظم غيظا وهو قادر علی أن ينفذه دعاه الله عز وجل علی روس الخلاق يوم القيامة حتی يخيره الله من الحور العين (سنن ابوداؤد:حدیث نمبر 1374 )

حضرت سہل بن معاذ ﷜اپنے والد سیدنا معاذ ﷜سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے غصہ کو پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا تو اللہ تعالیٰ روز قیامت ساری مخلوقات کے سامنے اسے بلائیں گے اور اسے اختیار دیں گے جو حور تو چاہے پسند کرلے ۔

عن أبي أيوب الأنصاري أن رسول الله ﷺ قال لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام(صحیح مسلم:حدیث نمبر 2031 )

سیدنا ابوایوب انصاری﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کسی ( مسلمان) کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرے دونوں آپس میں ملیں تو یہ اس سے منہ موڑے اور وہ اس سے منہ موڑے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ آدمی ہے کہ جو سلام کرنے میں ابتداء کرے۔

ایک مسلمان کیسا ہوتا ہے :

المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه من کان في حاجة أخيه کان الله في حاجته ومن فرج عن مسلم کربة فرج الله عنه بها کربة من کرب يوم القيامة ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2077 )

حضرت سالم ﷜اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرمائے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی سے کوئی مصیبت دور کرے گا تو قیامت کے دن اللہ عزوجل اس کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔


اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لینے اور دوسروں کی معاف کردینے کے اثرات و ثواب؟

خود کو اونچا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا یہ مومن مسلمانوں کا کام نہیں۔انسان غلطیوں کا پُتلا ہے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کر بیٹھتا ہے۔ وہ فرشتہ نہیں  خطاؤں سے مبرا اور پاک ہو ۔آج  کوئی اور غلطی کرتا ہے تو کل وہی غلطی خود سے بھی ہو سکتی ہے۔انسان کو اس صورتحال سے نکلنے کے لئے معاف کرنے اور معافی مانگ لینے کے عمل سے ہی نجات مل سکتی ہے۔ لہذا انسان کو چاہئے جب کسی سے غلطی سرزد ہو اسے معاف کردے  تاکہ  جب کل اس سے بھی کوئی غلطی سرزد ہوجائ تو اس کے ساتھ بھی اچھا اوربہتر سلوک کیا جائے۔

 جن معاشروں میں معافی مانگنا اور معاف کردینا نہ ہو وہاں انتشار ،بد امنی، خوف کا راج ہوتا ہے۔ انسان خود بھی مصیبت میں مبتلا رہتا ہے اور اس کے اردگرد بھی لوگ مصیبت  اور ذہنی انتشار کا شکار رہتے ہیں۔انتقامی جذبات،بدلہ لینے کی سوچ،اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی متکبرانہ سوچ  معاشرے کو زہریلا بنادیتا ہے ۔

خوش حالی،امن وسکون،مضبوط رشتے، بابرکت زندگی، تو عفو درگذر میں ہےَ۔اللہ خود معاف کرنے والا ہے،معاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔معاف کرنے والوں کو جنت اور اجر عظیم کا وعدہ فرماتا ہے،واقعی یہ صفت بہت عظیم اور بابرکت ہے۔

رضائے الٰہی کیلئے معاف کردینا،عفوودرگذرسے کام لینا، اخلاق حسنہ  کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔،کشادہ دلی، نرم خوئی ایمان کی علامت ہے۔صاف وشفاف دل کی پہچان ہے،دوسروں کے دل جیت لینے یہاں تک کہ دشمن جاں کو بھی جگری دوست بنانے والاکام  ہے۔ یہ بہادری اور جواں مردی  کااظہار ہے،عفو ودرگذر بڑا ہی عظیم اور فضیلت والا مبارک کام ہے۔

معافی احادیث مبارکہ کی رو سے

 معاف کرنے  والے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے:

وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔(آل عمران:134)

اور جوغصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔

معاف کرنے سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے:

معاف کرنا کمزوری یاذلت کی علامت نہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انتقام لینا  بہادری ہے ،درحقیقت معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی،اللہ کے نبی نے فرمایا:

وَمَا زَادَ اللّٰهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا(صحیح مسلم:2588)

اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے۔

لوگوں سے درگزر کرنے والے کا حساب کتاب آسان ہوگا

حضور ﷺ نےفرمایا:تین  امور جس شخص میں ہوں گی ، اللہ  رب العزت (بروزقِیامت)اُس کا حساب بَہُت آسان طریقے سے لے گا اور اُس کو اپنی رَحمت سے جنّت میں داخِل فرمائے گا۔صحابَۂ کِرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عَرْض کی:یَارَسُولَ اللہ ﷺ!وہ کون سی باتیں ہیں؟

فرمایا:جو تمہیں مَحروم کرے تم اُسے عطا کرو،

جو تم سے تَعَلُّق توڑےتم اُس سے تَعَلُّق جوڑو اور

جو تم پر ظُلْم کرے تم اُس کو مُعاف کردو۔ (معجم اوسط: حدیث :۵۰۶۴)

حضور ﷺ نےفرمایا:قِیامت کے روز اِعلان کیا جائے گا:جس کا اَجر اللہ  پاک کے ذِمّہ کرم پر ہے، وہ اُٹھے اورجنَّت میں داخِل ہو جائے۔پوچھا جائے گا:کس کے لیے اَجر ہے؟اِعلان کرنے والا کہے گا:اُن لوگوں کے لیے جو مُعاف کرنے والے ہیں۔تو ہزاروں آدَمی کھڑے ہوں گے اور بِلا حساب جنَّت میں داخِل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط : حدیث:۱۹۹۸)

اللہ رب العزت بروز قیامت درگزر کرنے والے کی غلطی  کو فرمائے گا:

ایک اور مقام پر آپ ﷺنے فرمایا:جو کسی مسلمان کی غَلَطی کو مُعاف کرے گاقِیامت کے دن اللہ پاک اُس کی غَلَطی کو مُعاف فرمائے گا۔(ابن ماجہ، حديث:2199)

ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوااور عَرْض کی:یارَسُولَ اللہ ﷺ!ہم خادِم کو کتنی بارمُعاف کریں؟آپ ﷺ خاموش رہے۔اُس نے دوبارہ وہی سُوال دُہرایا،آپ ﷺ پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسُوال کیا تو اِرْشاد فرمایا: روزانہ ستّر(70) بار۔(ترمذی، حدیث:1956)

عَرَبی میں 70 کا لَفْظ بیانِ زِیادَتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اُسے بہت دفعہ مُعافی دو ۔(مرآۃ المناجیح،جلد 5 ص 170)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ رَجُلًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ (ترمذی: 2029)

 ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:' صدقہ مال کو کم نہیں کرتا ، اور عفوودرگزر کرنے سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے، اورجوشخص اللہ کے لیے تواضع وانکساری اختیارکرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرمادیتاہے۔

 لوگوں کو مُعاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس  کی دُنیا میں تو بَرَکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی اِنْ شَآءَ اللہ اِس کی بَرَکت سے جنّت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی ضِد(انا) کا مَسْئَلَہ نہیں بناتے بلکہ مُعاف کرکے ثواب دارین پاتے ہیں۔

سیدہ عائشہ ﷞فرماتی ہیں،رسولِ اکرم ﷺ نہ تو بُری باتیں کرتے تھے اورنہ تَکَلُّفاً،نہ بازاروں میں شورکرنے والے تھے اورنہ ہی بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دیتے تھے بلکہ آپ ﷺمُعاف کرتے اور دَرگُزر فرمایا کرتے تھے۔( تِرمِذی،حدیث:2033)

فتحِ مکّہ کے دن عام مُعافی کا اِعلان(سیرت طیبہ سے)

جس کی شاندار مثال فتحِ مکّہ کا واقعہ ہے۔چنانچہ آپ ﷺ نے جان کے دُشمن خون کے پیاسوں کو بھی شہرِ مکّہ میں عام مُعافی کا اعلان فرمایا۔

معاف کرنا قدرت کے بعد ہی ہوتا ہے!

فتح مکہ کے اسی واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود مکمل قدرت کے آپ ﷺ نے رحم کا معاملہ فرمایا اور ان خون کے پیاسوں ،ہر طرح کی اذیت دینے والوں کو معاف کردیا۔

آج ہمارے دلوں سے ایک دوسرے کو مُعاف کرنے کا جذبہ تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے،حالانکہ ہم بھی تو دن بھر میں کتنی غَلَطیاں کرتے ہوں گے،مسلمانوں کے حُقوق ضائع کرتے ہوں گے،اُن کا دل دکھاتے ہوں گے،اُن کو یا اُن سے تَعَلُّق رکھنے والی چیزوں کو نقصان پہنچاتے ہوں گے، لیکن افسوس!ہم نے تو مسلمانوں کی غَلَطیوں کو مُعاف کرنا اپنی زندگی کی لغت سے گویا کسی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا ہے،جبکہ اللہ رب العزت کے نیک بندوں کے عَفْوو دَرگُزر کا یہ عالَم ہوتا ہے کہ وہ حضرات گالی دینے والے کی بھی مَعْذِرَت قَبول کرکے اُسے مُعافی سے نواز دیا کرتےہیں،چنانچہ حضرت سَیّدُنا امام حَسَن مجتبیٰ ﷜ کاایک قول ہے:

لَوْاَنَّ رَجُلًا شَتَمَنِیْ فِیْ اُذُنِی ھٰذِہٖ، وَاعْتَذَرَ اِلَیَّ فِی اُذُنِی الْاُخْرٰی لَقَبِلْتُ عُذْرَہُ ۔

 اگر کوئی میرے ایک کان میں گالی دے اور دوسرے کان میں معافی مانگ لے تو میں ضَرور اُس کی مَعْذِرَت قَبول کروں گا۔(بہجۃ المجالس وانس المجالس لابن عبدالبر (جلد 2 ،صفحہ 486)

مرنے سے پہلےحقوق العباد دنیا ہی میں معاف کرا لینے چاہئیں:

عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله ﷺ:" رحم الله عبدا كانت لاخيه عنده مظلمة في عرض او مال فجاءه فاستحله قبل ان يؤخذ، وليس ثم دينار ولا درهم فإن كانت له حسنات اخذ من حسناته، وإن لم تكن له حسنات حملوا عليه من سيئاتهم ۔

ابوہریرہ ﷜کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایسے بندے پر رحم کرے جس کے پاس اس کے بھائی کا عزت یا مال میں کوئی بدلہ ہو، پھر وہ مرنے سے پہلے ہی اس کے پاس آ کے دنیا ہی میں اس سے معاف کرا لے کیونکہ قیامت کے روز نہ تو اس کے پاس دینار ہو گا اور نہ ہی درہم، پھر اگر ظالم کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیوں سے بدلہ لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوں گی تو مظلوموں کے گناہ ظالم کے سر پر ڈال دیئے جائیں گے۔

غَلَطیوں کو مُعا ف کرنے میں پیش آمدہ رکاوٹیں

تکبر

مُعاف کرنے میں بڑی رُکاوٹوں میں سے سب سے بڑی رُکاوٹ غُرور و تَکَبُّر بھی ہے۔ تَکَبُّرکی تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے اَفضل سمجھے۔(المُفرَدات للرّاغب ص697) تَکَبُّر میں مُبْتَلا انسان لوگوں کو مُعاف کرنے کو اپنی بے عزّتی تَصَوُّر کرتا ہے،وہ سمجھتا ہے کہ  مُعاف کرنا میرے وَقارکے خلاف ہے،اِس طرح تومیری شان گھٹ جائے گی،لوگ کیا کہیں گے وغیرہ۔یاد رکھئے! مُعاف کرنے سے ہرگز  عزّت میں کمی نہیں آتی بلکہ پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے،چنانچہ مُعاف کرنے سے عزّت بڑھتی ہے نبیِّ کریمﷺکا فرمانِ رَحمت نشان ہے:صَدَقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کاقُصُور مُعاف کرے تو اللہ  پاک اُس(مُعاف کرنے والے )کی عزّت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ  کریم کے لیے تواضُع(عاجِزی)کرے،اللہ  پاک  اسے بُلندی عطا فرمائے گا۔(صحیح مسلم)

غصہ

ایک رکاوٹ غُصّہ بھی ہے۔غُصّہ ایک ایسا مُوذِی مَرَض ہےجو انسان کو مُعاف کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہونے دیتا،غُصیلا شخص اپنی ضِد(انا) پر  اَڑا رہتا ہے۔غصے میں انسان سوچ وفکر سے عاری ہوجاتاہے۔ وہ اپنے اچھے یا برے میں تمیز نہیں کرسکتا۔اسی لئے حضور ﷺ نے غصہ کی حالت میں کوئی کام کرنے سے منع فرمایا ہے۔ غصہ میں آکر انسان بساأوقات ایسے کام کرجاتا یاایسی باتیں کہہ جاتا ہے جس پر اسے بعد میں ندامت ہوتی اور بسا اوقات بڑانقصان اٹھانا پڑتاہے ۔

عن أبی ھریرة رضی اللہ عنہ أن رجلا قال للنبی صلی اللہ علیہ وسلم : أوصنی قال : لا تغضب ، فردد مرارا قال : لا تغضب ۔( صحیح بخاری : 6116)

 حضرت أبو ہریرہ ﷜ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا : آپ مجھے کوئی وصیت کیجئے ، آپ نے فرمایا : غصہ مت کرو ، اس نے کئی باریہی سوال دہرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار یہی جواب دیتے رہے : غصہ مت کرو ۔

عِلْمِ دِین کی کمی اور اچّھی صحبت سے دوری

جو بندہ عِلْمِ دین کی دَولت اور اچّھی صحبت کی بَرَکتوں سے محروم ہوتا ہے عموماًایسے شخص کو مُعاف کرنے کی سعادت سے محروم کردینا شیطان کے لئے آسان ہوجاتا ہے۔

آخر میں معافی پر کچھ اشعار

خطا اس کی معافی سے بڑی ہے

میں کیا کرتا سزا دینی پڑی ہے

سردار آصف

 

بس ایک معافی ، ہماری توبہ کبھی جو ایسے ستائیں تم کو

لو ہاتھ جوڑے ، لو کان پکڑے ، اب اور کیسے منائیں تم کو

محمد بلال اعظم

 

کسی شے کی نہیں کوئی تلافی ،بس معافی

صدائے اشک و خُوں ہے ، بس معافی، بس معافی!

ہماری ہی شعُوری غفلتیں مُہلک ہوئی ہیں

بگاڑے خود یہ باد و آبِ شافی، بس معافی!

جوازِ انتشار و سرکشی کچھ بھی نہیں ہے

دلائل اور حیلے ہیں اضافی، بس معافی!

حمیدہ شاہین


 

بے اختیار تھا ، ناقابلِ معافی تھا

مگر یہ ہجر ترے عشق کی تلافی تھا

زبیر قیصر

 

یہی نہیں تجھے بس معاف کرنا پڑا

تری طرف سے مجھے دل بھی صاف کرنا پڑا

رانا سعید دوشی

 

توڑ کے دل معافی کا تقاضہ کرتے ہیں

گنہگار کرتے ہیں جب یہ تقاضا کرتے ہیں

رعنا کنول

 

پھر نہ تم بخشنا کبھی مجھ کو

پہلی تقصیر ہو ضرور معاف

ہاتھ بھی جوڑے پاؤ ں پر بھی گرا

اب تو کہہ دو کیا قصور معاف

نوح ناروی


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post