اسلام اور
مغربی تہذیب
مصنف: ڈاکٹر محمدفضل الرحمٰن انصاری القادری ؒ
ترجمہ:ڈاکٹر حبیب الرحمٰن
فہرست
اسلام اور مغربی تہذیب
مغربی تہذیب کا المیہ
(کمیونزم براستہ سیکولرازم)
عیسائیت کی ‘‘کرم نوازی’’
اسلام کے اثرات (مغرب
پر)
کلیسا بمقابلہ روشن
خیالی
سیکولرازم بطور عقیدہ
لادینیت کے زہریلے
اثرات
کمیونزم کا ظہور
نئی الحادی تثلیث
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مغربی تہذیب کی صفات
رذیلہ کا کمیونزم میں عروج و ارتقاء
اسلامی نظریہ حیات
(اقدار و تصورات)
اسلامی تہذیب کی دس
بنیادی خصوصیات
اختتامیہ
اسلام اور
مغربی تہذیب
عالم اسلام
آج جس ہمہ جہتی بحران سے دوچار ہے، اُمت کی سابقہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی،
اس بحران کا (حقیقی) سبب وہ اثرات ہیں جو مغربی تہذیب نے عالم اسلام پر مرتب کیے ہیں،
اس بحران کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب ایک طرف مسلمانوں کو سیاسی طور پر محکوم بنانے
کے بعد مغربی استعماری طاقتوں نے منظّم طریقے سے مسلمانوں کی تہذیبی اور ثقافتی خودمختاری
کی روح کو کچلنے کا منصوبہ بنایا، جبکہ دوسری طرف مسلمانوں پر ایسا نظام تعلیم مسلط
کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی، جو ذہنی طور پر مسلمانوں کو ان استعماری طاقتوں کا زرخرید
غلام بنا سکے۔
انگریزوں
اور مغرب کی یہ منصوبہ بندی کس قدر مسلمان (اور اسلام) دشمنی پر مبنی تھی، اس کا اندازہ
‘‘میکاولے’’ کی برطانوی استعمار کے مقبوضات کے لیے مرتب کردہ تعلیمی رپورٹ، فرانسیسی
استعمار کی افریقہ میں اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے قوانین کی تدوین اور
ولندیزیوں کی انڈونیشیا میں اختیار کی ہوئی ‘‘ظالمانہ پالیسیوں’’ سے لگایا جاسکتا ہے۔
مغربی استعماری
طاقتوں نے اپے منصوبوں کے نفاذ میں پوری قوت سے ظلم و جبر کا سہارا لیا جبکہ اس کے
مقابلے میں مسلمانوں کی پالیسیاں بہرصورت نہایت مایوسانہ (غیرمنظم) اور ناکافی ثابت
ہوئیں، اس پورے تاریخی واقعات کے تسلسل کے نتیجے میں اگرچہ کہ مسلمان ممالک نے اپنی
سیاسی آزادی دوبارہ حاصل کرلی، مگر خود اسلام آج تک اپنے لیے آزادی حاصل نہیں کرپایا۔
اسلام آج
تک اپنی اسی حالت اور شکل و صورت میں ہے، جس
طرح کی صورت گری اس کی مغربی استعماری طاقتوں نے کی تھی، یعنی اسلام لوگوں کا ذاتی
معاملہ بن کر رہ گیا ہے جبکہ مسلمانوں کے تمام اجتماعی معاملات آج بھی مغرب کے تابع
مہمل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب زدگی کا عمل پورے عالم اسلام میں آج بھی پورے
زور و شور سے جاری ہے، بلکہ سیاسی غلامی سے نجات کے بعد مغرب زدگی کا عمل پہلے کے مقابلے
میں کئی مسلمان ممالک میں مزید زور پکڑ گیا ہے۔
مغرب ایک
طرح سے اسلام کا طفیلیہ ہے لیکن اب مغرب وہ بے وفا اور باغی بچہ ہے جس کی مادی ترقی
کی سمت اسلامی طرز زندگی سے یکسر مختلف (بلکہ بالکلیہ عکس) ہوگئی ہے، ماسوائے اس کی
ٹیکنالوجی کی سمت کے۔ آنے والی گفتگو سے یہ بات آپ پر مزید واضح ہوجائے گی۔
روشن خیالی
یا تحریک تنویر (Renaissance) کے تین مراحل ہیں جس سے یہ تہذیب گزری ہے وہ
(۱)سیکولرازم (۲)مادیت
اور (۳)کمیونزم ہے۔ اس کے نتیجے میں اس سنسنی خیز تہذیب
کی روح حیات اپنی اور خالق کائنات کے انکار پر منتج ہوئی ہے، لہٰذا جب بھی مغربی تہذیب
کی روح اور خون ‘‘حیات اسلام’’ کے پاک سیاسی وجود میں داخل ہوگا تو وہ ‘‘شفاء’’ کے
بجائے زہر ہی ثابت ہوگا۔
مغربی تہذیب
کا المیہ (کمیونزم براستہ سیکولرازم)
سیکولرازم،
مادیت پرستی اور کمیونزم آپس میں باہم مربوط اور جڑے ہوئے ہیں، زندگی کی مادی تعبیر
و تشریح کے تناظر میں، مغربی (بظاہر) تہذیب یافتہ ممالک نے زندگی کا پہلا مرحلہ جو
طے کیا، وہ سیکولرازم تھا یعنی ریاست اور چرچ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور علم کی مختلف
شاخوں کو اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان کے عقیدے سے علیحدہ کردیا گیا۔
اس طرح
پہلا مرحلہ، جو مغربی تہذیب نے طے کیا وہ (جس فساد) پر منتج ہوا، وہ یہ تھا کہ مادیت
پرستی کے لیے سارے دروازے چوپٹ کھول دیے گئے، مادیت پرستی کا مطلب یہ ہے کہ تمام حقائق
صرف اور صرف مادی جہت ہی رکھتے ہیں، مادیت کی اس فلسفیانہ تعبیر نے مغرب کے تمام گوشہ
ہائے حیات کو بری طور پر متاثر کیا اور کارل مارکس کے ہاتھوں سائنس مادیت میں بدل گئی،
جس نے (بالآخر) انیسویں صدی عیسوی میں پہلی مرتبہ انسانی تاریخ میں مکمل اور جامع لیکن
انتہائی جارحانہ و فلسفیانہ مادیت کے نظریہ کو پیش کیا۔
عیسائیت
کی ‘‘کرم نوازی’’:
سیکولرازم
اپنے وجود نامسعود کے لیے دو عناصر کا مرہون منت ہے، ایک عیسائیت جو چند صدیاں قبل
مغرب کا تن تنہا مذہب بن گیا اور یہ عیسائیت ہی تھی جس نے اس اُصول کی بنیاد رکھی کہ
‘‘جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو، اور جو بادشاہ کا ہے وہ بادشاہ کو دو’’ اس قانون کے تحت
عیسائیت نے انسان کی زندگی کو دو مستقل خانوں میں تقسیم کردیا۔ ایک روحانی زندگی کا
تصور (یا زندگی کا روحانی پہلو) جس پر سایہ خداوندی ہے اور وہ پہلو زندگی کا براہ راست
ارادہ خداوندی کے ماتحت ہے، جبکہ دوسرا پہلو انسانی زندگی کا وہ تصور جس کے تحت انسانی
زندگی خود انسان کی عقل و فکر کے تابع فرمان بن گئی (یعنی وحی کے مقابلے میں عقل کے
غلبہ اور فوقیت کا تصور)۔
اس طرح
عیسائیت نے خود اپنے ہاتھوں سے سیکولرازم کے یورپ کے منظرنامے پر فروغ اور غلبہ کے
لیے راہ ہموار کی اور مذکورہ بالا عیسائی اُصولِ حیات کو اس کے آخری منطقی انجام تک
پہنچا کر چھوڑا (اگرچہ کہ سیکولرازم کے فروغ میں) بغیر کسی شک و شبہہ کے پس پردہ وجہ
اور محرک چرچ دشمنی تھی، جس کے نتائج و عواقب نہایت خطرناک اور افسوسناک شکل میں انسانیت
کو بھگتنے پڑے۔ اس پورے معاملے میں فساد کی جڑ وہ جنگ تھی جو یورپ میں تحریک نشاۃِ
ثانیہ کے بعد عیسائیت اور روشن خیالی کی قوتوں کے درمیان برپا ہوئی۔
اسلام کے
اثرات (مغرب پر)
جس طرح
تاریخ کے تمام طلباء جانتے ہیں کہ عیسائیت کو فروغ اس خطے میں حاصل ہوا جہاں یونانی
و رومی علم و تہذیب کی شمع ٹمٹمارہی تھی، لیکن بجائے اس کے کہ عیسائیت اس بجھتی ہوئی
شمع کو دوبارہ ازسرنو روشن کرتی، عیسائیت نے فلسفیانہ (معقولات) اور سائنسی علوم کے
خلاف ایسی خوفناک جنگ چھیڑی جو مدتوں تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں مغرب میں عیسائیت
کی ابتداء سے لے کر مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کے آغاز تک کے درمیانی عرصے کو مغربی مؤرخین
بالاتفاق قرون مظلمہ (Dark Ages) یا تاریک اَدوار سے
موسوم کرتے ہیں۔
مغرب کے
اس دور ظلمت کی تاریکی کے چھٹنے کا آغاز اس وقت ہوا، جب اسلام کا نیّرِ تاباں فاراں
کی وادی سے چمکا اور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے جدید سائنسی دور کا آغاز فرمایا
(بعد کے ادوار میں) یہ مسلمان علماء ہی تھے، جنہوں نے بڑی تلاش و جستجو سے علم کے پوشیدہ
دفینوں کو روم و یونان، بابل و ایران اور چین و ہندوستان کی تباہ شدہ تہذیبوں کے ملبے
سے برآمد کیا۔
مسلمان
(اہل علم) نے نہ صرف ان خزینوں کی بازیافت کی بلکہ ان کی تہذیب و تنقیح کرکے اُن کی
باقاعدہ ترویج و اشاعت اور پھر بغداد، قاہرہ اور اُندلس کی جامعات و دانش گاہوں کے
ذریعے اسے مزید ترقی دے کر یورپ تک پہنچایا۔ اس طرح یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے حقیقی معمار
مسلمان اساتذہ اور اسلام علوم ہیں، جس کی تعلیم و تدریس کی بدولت راجر بیکن، یوپ سیلوسٹر
دوئم اور اسی طرح کے دوسرے ممتاز اہل علم حضرات مغرب کے علمی اُفق پر جلوہ گر ہوئے۔
کلیسا بمقابلہ
روشن خیالی:
تحریک نشاۃِ
ثانیہ درحقیقت عیسائیت کے لیے ایک شدید دھچکہ تھا، اس لیے عیسائیت کو جیسے ہی سیاسی
قوت و اقتدار کا موقع ملا (اہل کلیسا) نے پوری قوت کے ساتھ اس تحریک کے خلاف اپنے بغض
و کینہ کا اظہار کیا۔ روشن خیالی یا تحریک نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے قائدین کو (اہل
کلیساء) نے اس درجہ تشدد و تعذیب کا نشانہ بنایا کہ ان میں سے بعض کو تو زندہ جلا دیا
گیا۔ اہل علم شخصیات کو اس بات پر بالجبر مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے سائنسی، علمی اور
مشاہداتی تجربات و نظریات سے توبہ تائب ہوں۔
چنانچہ
جن حضرات نے اپنے خیالات سے رجوع کرنے سے انکار کیا، انہیں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
باقاعدہ ایک محکمہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذمہ غیرمعروف (یعنی غیرعیسائیانہ)
افکار و نظریات کی بیخ کنی کے لیے رسوائے زمانہ عدالتی چارہ جوئی اور تحقیقات کی ذمہ
داری تھی۔ اس تشدد و بربریت اور درندگی و تعذیب کا بالآخر انجام یہ ہوا (جوکہ ہونا
تھا) کہ نشاۃِ ثانیہ کی تحریک کے قائدین عیسائی کلیساء کے شدید دشمن بن گئے، عیسائی
کلیساء کے ساتھ دشمنی جلد ہی عیسائیت کے ساتھ دشمنی میں بدل گئی اور بالآخر اس کا نقطہ
عروج تمام مذاہب و ادیان کے خلاف مخاصمت کی صورت میں ظاہر ہوا اور بالآخر یہ تحریک
خود خدا کے خلاف انکار پر منتج ہوئی۔
سیکولرازم
بطور عقیدہ:
مغربی فکر
سیکولرازم کی بنیاد فراہم کرنے والا پہلا بڑا مفکر ‘‘چارلس ڈارون’’ ہے۔ اپنی کتاب
(Origin of the Species) میں اس نے حیاتیاتی مظہر کو میکانکی علت و معلول
پر قیاس کرتے ہوئے وجودِ خداوندی کو غیرضروری قرار دے کر ترک کردیا (یعنی حیاتیاتی
بقاء و دوام اور حیات و ممات کا سلسلہ قادر مطلق کی قدرتِ صناعت کا شاہکار ہونے کے
بجائے صرف ظاہری اسباب اور قانون علت و معلول کو ہی وجہ بقا و فنائے حیات قرار دیا)
ڈارون کے حیاتیاتی افکار کو علم عمرانیات (Sociology) پر منطبق کرنے والے
ہکسلے اور ہربرٹ اسپنسر ہیں، جبکہ مابعدالطبیعیات پر اس کا اطلاق ہیوم اور علم قانون،
اخلاقیات اور سیاسات پر انطباق بنیتہم، مل کر اور ہوبس نے کیا۔ یہ فکری کرہ (اپنے دائرہ)
میں اس وقت سے لے کر اب تک مستقل زیرگردش ہے جس کے نتیجے میں مغربی فکر مستقل مادیت
زدہ سے مادیت تر اور لادینیت سے لادینیت تر ہوتی جارہی ہے۔ اس عمل کا گہرا اثر مغرب
کے مفکرین کے دل و دماغ اور فکر و نظر پہ اس طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ لادینیت پر
ان کا ایمان ہر گزرتے دن کے ساتھ پختہ سے پختہ تر ہوتا جارہا ہے۔
مثال کے
طور پر مارشل جیسا اعتدال پسند اور قدامت پرست مفکر، معاشیات کے معاملے میں اسی ملحدانہ
اور خدا بے زار فکر کا حامل ہے۔ اس کے بقول علم معاشیات میں ہم معاشی حقائق سے متعلق
غور و فکر کرتے ہیں کسی اخلاقی اصول و ضابطہ سے ہمارا کوئی تعرض نہیں ہوتا۔
(باالفاظ
دیگر معاشیات کا علم صرف دولت کے حصول اور بڑھوتری کی منصوبہ بندی کا علم ہے، اس کے
انفاق کے جملہ پہلوؤں اور اس پر مرتب ہونے والے دنیاوی روحانی و اخلاقی اثرات و برکات
اور اخروی اجر و ثواب سے اس علم کی کوئی غرض نہیں ہے)۔
لادینیت
کے زہریلے اثرات:
انسان کے
کاموں کی مختلف خانوں میں مستقل تقسیم جس بیماری کے پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، علم
نفسیات کے ماہرین اسے ‘‘سماجی انتشار’’ سے تعبیر کرتے ہیں، جو ایک بے زار اور (مایوس)
قسم کی شخصیت کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ حالانکہ سماجی افتراق و انتشار کی کیفیت
میں انسان ہمیشہ اتحاد کا خواہشمند ہوتا ہے۔ جس جگہ بھی اور جہاں بھی زندگی کا جامع
اور مکمل تصور معدوم ہوگا، اور جہاں کہیں بھی اعلیٰ روحانی اقدار مفقود ہوں گی جیساکہ
مغرب کی موجودہ صورت حال ہے تو زندگی کا مادی پہلو ہی مقصود زندگی بن جاتا ہے اور زندگی
کے تمام افعال و اعمال اسی مادی تحرک کے نتیجے میں حقیقی مطمع نظر اور غایت زندگی بن
جاتا ہے۔ مغرب میں علم کی (دینی و دنیاوی تقسیم) اور زندگی کے مختلف خانوں میں بٹ جانے
کے نتیجے نے پہلے لادینیت کو غالب کیا، پھر اس لادینیت کا نتیجہ مادیت کی شکل میں ظاہر
ہوا اور بالآخر مادی فلسفہ حیات نے مغرب کے نظام زندگی کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔
علم نفسیات
(Psychology) کے
مطابق بحیثیت فرد انسان کی شخصیات میں انتشار اس کے کاموں اور روزمرہ زندگی میں پراگندگی
کا سبب بنتا ہے اور پھر کارہائے حیات میں اس عدم مطابقت کے نتیجے میں اعصابی کمزوری
جنم لیتی ہے اور آخرکار یہ اعصابی کمزوری جرائم بشمول خودکشی (Suicide) کا باعث بنتی ہے۔ مغرب
میں ان نتائج کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے، جہاں نوجوانوں کی بھاری اکثریت اعصابی امراض
کا شکار ہوگئی ہے، ذہنی امراض کا شکار، مجانین و دیوانے اور مجرمین کی تعداد مغرب کے
سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ ہے اور یہ صورتحال (بہتر ہونے کے بجائے)
مزید خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے، اس خرابی کے سبب کو تلاش کرنے کے لیے دُور
جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب انسانی شخصیت کو مختلف حصوں اور خانوں میں بانٹ دیا
جائے اور ہر حصے کو علیحدہ علیحدہ برتا جائے، تو فطری طور پر انسانی وجود کا جسمانی
پہلو انسان کی محبت کا مرکز و محور قرار پاتا ہے، کیونکہ انسان کے ذات کا جسمانی پہلو
اس کے (روزمرہ) تجربے اور مشاہدے کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب ہے اور جب انسانی شخصیت
کا جسمانی و طبعی پہلو اس کی تمام محبتوں اور چاہتوں کا مرکز بن جائے، تو انسان کی
زندگی کا نصب العین اپنی حسی، جسمانی اور شہوانی خواہشات کی تکمیل بن جاتا ہے۔
زندگی کا
یہ مقصد (لذتوں کا حصول) اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک انسانی شخصیت کے دوسرے
پہلوؤں پر کاری ضرب نہ پڑے اور جب تک دوسروں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے، مغرب میں
وہ لوگ جن کے لیے زندگی بے لطف و بے مقصد ہوگئی ہے، ان میں خودکشی اور جرائم کی رفتار
میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔
چنانچہ
آج مغرب لادینیت کی وجہ سے جس المیہ کا شکار ہے وہ ‘‘نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن’’
(Between the devil and deep sea) کا مصداق بن گیا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس
کی طرف مغرب کے مفکرین شدت کے ساتھ دہائی دے رہے ہیں، بالخصوص علم التاریخ کے دور جدید
کے فلسفی آرنلڈ ٹوائن بی اور ان کے عظیم پیشرو ‘‘اسپنگلر’’ (اپنی قوم کی توجہ مبذول
کروانا چاہتے ہیں)۔
کمیونزم
کا ظہور: جب ہم لادینیت کے تصور کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہمیں امکانی طور پر دو مکتبہ
ہائے فکر نظر آتے ہیں۔
(1) ہوسکتا ہے کوئی قوم
خدا اور مذہب پر اعتقاد رکھتی ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے دنیاوی معاملات کو
مذہب سے جدا کردیا ہو۔
(2) مکتبہ فکر اس نظریہ
کا حامل گروہ ہوسکتا ہے جو اللہ اور مذہب پر بالکل ایمان نہ رکھتا ہو اور نتیجتاً تمام
اُمور کے بارے میں، ان کا نقطہ نظر مکمل طور پر بے خدا اور مادہ پرستانہ ہو۔
پہلے قسم
کی مثال مغربی جمہوریتیں اور ان جمہوریتوں کے نقال (مشرق و مغرب میں)۔ جبکہ دوسری قسم
کی مثال سوویت، روس اور دوسرے کمیونسٹ ممالک ہیں۔ خدا کے اعتقاد اور تصور پر مبنی سیکولرازم
محض ایک ڈھونگ اور ابتدائی قدم ہے جس کی انتہا بے خدا سیکولرازم پر ہوتی ہے۔ تاریخ
نے اس حقیقت کو بہت عمدگی سے محفوظ رکھا ہے۔ مثلاً عیسائیت جب یورپ میں داخل ہوئی،
تو عیسائی شہنشاہیت اور ریاست جو اس کے نتیجے میں قائم ہوئی، وہ اپنی صفات کے لحاظ
سے لادین نہیں تھی بلکہ یہ ہر اعتبار سے ایک دینی و مذہبی ریاست تھی پھر وہ وقت آیا
جب ریاست اور چرچ (دین) میں جدائی ہوگئی اور (سابقہ) عیسائی ریاستیں مکمل طور پر لادین
ہوگئیں، لامذہبیت کے اس طوفان نے آہستہ آہستہ مذہبی و اخلاقی قوتوں کو کمزور کرنا شروع
کردیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، اسی اثناء میں سیکولرازم کا فطری وارث کمیونزم
(Communism) کی
شکل میں سامنے آیا اور پھر خدا کے تصور کے حامل سیکولرازم کو خدا بے زار سیکولرازم
نے قیادت کے منصب سے ہٹا کر خود اس کی جگہ لے لی۔
کمیونزم
کے بانی (Karl Marx) کارل مارکس مذکورہ بالا دو ااقسام کی سیکولرازم
کے درمیان کسی بھی مصالحت کا روادار نہ تھا، اس نے بے خدا سیکولرازم کو جیسے تیسے کرکے
بام عروج تک پہنچا کر اسے مسند اقتدار پر فائز کردیا، اسی الحادی کمیونزم کو اس نے
آگے چل کر غلط طور پر ‘‘سائنسی الحاد’’ سے تعبیر کیا۔
کمیونزم
بظاہر اقتصادی و معاشی نظریہ نظر آتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے
کہ یہ پورا نظام زندگی اور فلسفہ حیات ہے۔ کارل مارکس نے نہایت جزم و احتیاط سے اس
بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس کی کتاب ‘‘سرمایہ’’ معاشی و اقتصادی مسائل شروع نہ ہو
بلکہ اس نے اس کتاب کا آغاز فلسفیانہ عقائد سے کیا ہے۔
اپنی بحث
کو مارکس نے جدلیاتی مادیت (Dialectic Materialism) سے شروع
کیا ہے پھر وہ اپنے جدلیاتی مادیت کے فلسفہ کے اطلاق و انطباق کو معاشرتی حالات پر
بایں طور کرتا ہے کہ مادیت ہی غایت حیات اور مقصد اعلیٰ قرار پاتا ہے۔ کارل مارکس اپنی
کتاب میں خدا سے نفرت، مذہب کے ساتھ استہزاء اور اعلیٰ انسانی اقدار و نصب العین سے
نفرت سکھاتا ہے اور انسانی اقدار کے نظریے پر چیں بجیں ہوتا ہے۔ اس کے لیے حقائق زندگی
صرف بھوک اور جنس ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام معاملات کے استخراج و استنباط
اسی پیمانہ پر کرتا ہے۔ یہی کارل مارکس کا مذہب ہے اور یہی ہر بااصول کمیونسٹ کا دین
و ایمان ہے۔
مذکورہ
بالا تفصیل سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ سیکولرازم، الحاد اور کمیونزم میں فطری اور
منطقی تعلق ہے۔
نئی الحادی
تثلیث:
ہم مذکورۃ
الصدر گفتگو میں اس بات کا جائزہ لے چکے ہیں کہ جدید مغربی لادین تہذیب اپنے عملی مقاصد
اور مطمع نظر کے اعتبار سے ایک بے خدا تہذیب ہے جس میں اگرچہ خدا کا بظاہر تصور پایا
جاتا ہے بھی، تو وہ ایک بے جوڑ فوگری کے سوا کچھ نہیں ہے (ریشم کے کپڑے میں ٹاٹ کا
پیوند)۔
مغربی ممالک
طویل عرصے سے تثلیث (Trinity) کے پیروکار ہیں لیکن
(عیسائیت کے ساتھ تعلق میں کمزوری کی وجہ سے) انہوں نے عیسائی تثلیث کے تصور (باپ،
بیٹا اور روح القدوس) کو لادینی تثلیث عورت، دولت اور شراب (Wealth, Wine and Women) سے بدل
دیا ہے، اب یہ وہ نئے خدا ہیں جن کی مغربی تہذیب آج پوجا کررہی ہے۔
مغربی تہذیب
کی بنیادیں:
مذکورہ
صورتحال آپ کو مغرب کی عملی زندگی میں واضح نظر آتی ہے، جبکہ نظریاتی طور پر مغربی
تہذیب کے فلسفہ زندگانی کا تجزیہ اس حقیقت کا غماض ہے کہ مغربی تہذیب درج ذیل بنیادوں
پر قائم ہے۔
(1) مابعدالطبیعیاتی نقطہ
نظر کے حوالے سے الحاد پر۔
(2) نفسیاتی نقطہ نظر سے
ہیجان انگیزی و سنسنی خیزی پر، مغرب کا آرٹ اور فیشن بڑی وضاحت کے ساتھ اس دعویٰ کے
دلیل کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔
(3) اخلاقی لحاظ سے مصلحت
(Expediency) اور
نفسانی خواہشات و لذات کے حصول پر۔
(4) معاشی نقطہ نظر سے،
ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے معاشی استحصال پر۔ سرمایہ داری اور کمیونزم دونوں استحصالی
نظام ہیں کیونکہ دونوں انسانوں کو غلام بناتے ہیں۔
(5) سیاسی حوالے سے رنگ
و نسل کی منافرت و امتیاز پر۔
مغربی تہذیب
کی صفات رذیلہ کا کمیونزم میں عروج و ارتقاء:
اگر ہم
مطالعہ کریں، تو ہم بخوبی اس حقیقت پر مطلع ہوسکتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی جملہ صفات
و مظاہر کمیونزم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اپنی شناعت و قباحت میں سو فیصد (100%) بڑھ
گئی ہیں۔ برائی کے لحاظ سے سرمایہ داریت کی حیثیت ایک ‘‘بونے’’ کی سی ہے جبکہ کمیونزم
اس کے مقابلے میں ایک بڑی عفریت کی مانند ہے۔ (لیکن اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے)
دونوں ایک ہی جنس و نسل سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اگر مغرب کی لادین تہذیب نہ ہوتی،
تو کمیونزم کی پیدائش بھی وقوع پذیر نہ ہوتی۔
اسلامی
نظریہ حیات (اقدار و تصورات)
٭انسانی
شعور خود اپنا اظہار پانچ مختلف صورتوں میں کرتا ہے۔
(1) تجرباتی یا وجودی شعور
کے طور پر (2) نظریاتی
یا مبنی برعقل شعور کے طور پر
(3) اخلاقی شعور کے طور
پر (4) جمالیاتی
شعور کے طور پر
(5) روحانی شعور کے طور
پر
٭اس کی
وجہ یہ ہے کہ انسانی شخصیت کے مختلف اُمور کو برتنے کی پانچ مختلف سطحیں ہیں۔
(1) جسمانی (2) ذہنی و عقلی (3) اخلاقی
(4) جمالیاتی (5) روحانی
٭کام کرنے
کی یہ پانچ مختلف سطحیں پانچ مختلف انسانی اوصاف کی طرف منسوب ہیں۔
(1) جسمانی یا طبعی وصف (2) عقلی و
شعوری وصف (3) اخلاقی
وصف
(4) جمالیاتی وصف (5) روحانی
وصف
انسانی
نظریات میں اختلافات، انسانی تہذیبوں میں فرق و امتیاز کی دائمی بنیادیں اس اصول پر
قائم ہیں، جو اُن تہذیبوں میں مختلف اقدار کی اہمیت پر دی جاتی ہیں۔
ماضی کے
انسانی نظریات پر تنقیدی نگاہ سے جو حقیقت آشکارا ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان نظریات و
فلسفہ ہائے حیات نے انسانی اقدار و اوصاف کے مختلف پہلوؤں پر مختلف سطحوں میں زور دیا
ہے، چنانچہ بعض تہذیبوں کا سارا زور جسمانی یا مادی پہلو پر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ
نکلا کہ ایسی تہذیبیں مادیت پرستانہ طرز کی ہوگئیں جبکہ بعض نظریہ ہائے حیات کا سارا
زور اس کے روحانی پہلو پر ہی رہا ہے، جہاں تک دوسرے یعنی روحانی پہلو کا تعلق ہے، اس
زور و اہمیت کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ ایک راہبانہ روحانیت جس کی بنیاد پُراسراریت اور
دنیا سے فرار کے تصور پر قائم ہے، جبکہ روحانیت کی دوسری قسم عقلی روحانیت ہے جس کا
مقصد انسانی معاملات کے رخ کو بدل کر اس کو روحانی تناظر میں دیکھنا تاکہ انسانی شخصیت
کی تعمیر و تکمیل روحانی بنیاد پر کی جاسکے۔ تاہم یہ کوئی ایک ہی خاص پہلو نہیں ہے
جس کو کوئی تہذیب مقدم رکھتی ہو۔
زیادہ تر
صورتوں میں اقدار کا مجموعہ اور وہ اقدار ایک متعین درجہ بندی کے نظام کے تحت پیش کیے
جاتے ہیں، جس میں ایک قدر کو بنیادی قید کے طور پر اہمیت دی جاتی ہے اور دیگر اقدار
کو ان کے اوصاف کے مطابق درجہ بندی کے تحت پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قدیم ‘‘ہندوانہ
نظریہ تہذیب’’ راہبانہ عقل و دانش پر مبنی نظریہ تھا جس میں راہبانہ پہلو غالب تھا،
جبکہ عقلی و ذہنی پہلو قدرے مغلوب تھے۔
جسمانی
و طبعی خوبی ‘‘ہندوانہ تہذیب’’ میں لازمی برائی سمجھی جاتی ہیں، جبکہ اخلاقی قدر کی
اہمیت غیرمتوقع زوائد کی سی ہوتی ہے۔ اس نظریے اور سوچ نے راہبانہ و درویشانہ تجربات
اور فلسفیانہ موشگافیوں کا ایک بڑا سرمایہ تخلیق کیا ہے لیکن تجرباتی سانس کے میدان
میں ہندو تہذیب کسی بڑے کردار کے ادا کرنے سے تہی دامن ہے۔
‘‘یونانی
تہذیب’’ عقلی و تجرباتی تھی، نتیجتاً اہل یونان راہبانہ تجربات و مشاہدات اور پیچیدہ
فلسفیانہ موشفافیوں میں وہ کردار ادا نہیں کرسکے جو ہندوؤں نے کیا تھا کیونکہ یونانی
نقطہ نظر مبنی برعقل اور حقیقت پسندانہ تھا (اگرچہ اس تمام تر تعقل پسندی کے باوجود
بھی) ان کے بڑے بڑے فلسفی بھی خرافات و توہمات کی جکڑبندیوں سے آزاد ہونے میں ناکام
نظر آتے ہیں۔
جدید مغربی
تہذیب کا نظریہ حیات تجرباتی و جمالیاتی مبنی برعقل فلسفہ زندگی ہے۔ اس طرززندگی میں
جسمانی و مادی جہت ایک بنیادی قدر اور وصف ہے جبکہ عقلی اور جمالیاتی پہلو بطور تابع
فرماں ضمیمہ کے اس تہذیب کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں جبکہ اخلاقی قدر صرف افادیت پسندی
اور منفعت بخشی کے مبنی برمصلحت نقطہ نظر کے طور پر ہی قبول کیا جاتا ہے۔
اسلامی
تہذیب کی دس بنیادی خصوصیات:
عقل پر
مبنی روحانیت:
جہاں تک
اسلامی تہذیب اور نظریہ حیات کا تعلق ہے، اس کی پہلی اور بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ
روحانی قدر بمعنی عقل پر مبنی روحانیت کو اپنے لیے سب سے زیادہ اہم بنیاد سمجھتا ہے۔
کیونکہ یہی وہ اساس ہے جو دین اسلام کے پورے وجود اور اس کے تمام حصوں میں حیات نو
کی بنیاد ہے۔ اسلام انسانی اوصاف کے مذکورہ بالا پانچ جہتوں اور ان کے متوازن اور مساوی
امتزاجی حیثیت کو بہت اہمیت دیتا ہے، ہر انسانی وصف کو اس کے صحیح، فطری اور جائز مقام
پر رکھ کر برتنا ضروری ہے اور کسی وصف کو اس کے جائز حق کے اظہار سے محروم نہیں کرنا
چاہیے۔ روحانی وصف یقینی طور پر ان خمس جہتی ادارتی ہیئت کذائیہ کی روح رواں اور قوت
نافذہ ہونی چاہیے۔ روحانی وصف کو باقی تمام اقدار کی بنیاد قرار دینے کا مقصد یہ ہے
کہ پوری زندگی کی عمارت کو ایمان و ایقان کی اساس پر استوار کیا جائے۔ واضح رہے کہ
اسلام کے بنیادی عقائد تین ستونوں پر استوار ہیں۔
(1) ایک اللہ تعالیٰ پر
ایمان
(2) اس کے اولوالعزم پیغمبروں
پر ایمان
(3) حیات بعدالموت پر ایمان
اسلام کی
تعلیم یہ ہے کہ ایمان ہی تمام اچھے کاموں کا سرچشمہ اور حقیقی محرک ہے، جس کے ذریعے
زندگی کی حرکت اندر سے باہر کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔ عقائد و ایمان وہ جڑ ہے جس سے
انسانی جدوجہد کا وہ پودا نمودار ہوتا ہے جس کی شاخیں اخلاق و کردار، سیاست و معیشت
(کی اصلاح کی شکل) میں نمودار ہوتی ہیں۔ ظاہر اور باطن کو ایک دوسرے کے لیے ناگزیر
سمجھتے ہوئے اسلام جس طرح جڑ کا خیال رکھتا ہے، اسی طرح اس سے نکلنے والی شاخوں کا
بھی خیال رکھتا ہے۔ لیکن اسلام زیادہ زور جڑ کی پختگی پر دیتا ہے کیونکہ ایک مرتبہ
جب بنیادی مضبوط اور صحت مند ہوجائے اور اللہ کی محبت حقیقی طور پر اس شکل میں حاصل
ہوجائے کہ اللہ کے ساتھ وفاداری ناقابل تقسیم ہوجائے اور آخرت میں محاسبہ کا خوف انسان
کے دل و دماغ پر غالب ہوجائے، تو انسان کے افعال و اعمال اور کاوشیں اور کوششیں فطری
طور پر مثبت رخ اختیار کرلیتی ہیں جس کا نتیجہ دین و دنیا کی کامیابی ہوتا ہے۔
(عربوں کی
تاریخ بعثت محمدیﷺ کے وقت اس بات پر شاہد ہے کہ) جب عرب کے لوگوں نے حضورﷺ کی دعوت
پر لبیک کہا اور وہ تمام شخصیات جنہوں نے جناب رسالت مآبﷺ کے دست اقدس پر اسلام قبول
کیا ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگیا۔ ان شخصیات (صحابہ کرام) کے ارادے، نیتیں اور
کام پاکیزگی کی وہ عظمت، رفعت اور بلندی حاصل ہوئی جو نہ تو اس سے پہلے اور نہ ہی بعد
میں کبھی کسی معاشرہ یا انسانی گروہ کو حاصل ہوسکے۔ ان کی تاریخ مکمل طور پر بدل گئی
جس نے بالآخر پوری تاریخ انسانیت کے دھارے کو بدل دیا۔
مادی پہلو
پر زور کے حوالے سے اسلام، کمیونزم سے مختلف ہے کیونکہ کمیونزم دوسرے مذاہب کی طرح
جب جب مادی پہلو کو اہمیت دیتا ہے، تو اس کے نتیجے میں دوسرے تمام انسانی خصائص پر
یا تو غلط انداز سے زور دیتا ہے، یا اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر نہایت غیرمربوط اور
محدود ہوتا ہے۔
اسلام کی
جامعیت:
اسلام کے
مطابق ہدایت کا سرچشمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اسی لیے تمام انسانوں
کے لیے اسلام ایک جامع ترین ہدایت اور رہنمائی ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو اسلام کے دوسرے
وصف کی تشکیل کرتی ہے کیونکہ اسلام صرف مذہب نہیں جس کی بنیاد چند رسوم و رواج، چند
جنتر منتر اور کشف و کرامات پر ہو۔ یہ ‘‘الدین’’ ہے یعنی جامع ترین دین ہدایت ہے جو
انسانی زندگی کے ہر قابل تصور شعبہ میں رہنمائی فراہم کرتا ہے اگرچہ کہ اسلام بنیادی
طور پر ایک دین ہے لیکن یہ اپنی ایک بالکل الگ ثقافت اور جداگانہ تہذیب رکھتا ہے جس
کا مقصد انسان کی دنیوی و اُخروی سعادت و کامرانی ہے۔
اُصول وحدت:
اقدار کی
وحدت کا تصور ہمیں اسلام کی تیسری خصوصیت کی تعلیم دیتا ہے اور یہ ‘‘اصول وحدت’’ ہے۔
باالفاظ دیگر اسلام دین توحید ہے اور یہ عقیدہ توحید اسلام کے پورے وجود میں رواں دواں
ہے۔ اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات دونوں میں وحدہ
لاشریک ہے اسی طرح نہ تو کوئی اس کے کاموں میں اس کا مددگار ہے اور نہ ہی کوئی اس کا
ہمسر۔ تصور توحید کے تناظر میں اسلام عیسائیت، ہندومت اور دوسرے مشرکانہ مذاہب اور
ان کے مشرکانہ تعلیمات کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ اسلام کا تصورِ توحید غیرتجرباتنی
اور انسانی احساسات سے ماورائی حقیقت ہے۔
اسلام کا
‘‘تصور توحید’’ یہودی تصور الوہیت کی انسانی تشبیہہ و توجیہہ کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام
کا تصور توحید اللہ تعالیٰ کی ذات کا تصور ہے اور یہ تصور بدھ مت
(Budhism) اور
جین مت (Jainism) کے تصور خدا جو فہم و سمجھ سے ماوراء ہے، سے
بالکل مختلف بلکہ ضد ہے۔ تمام مذاہب عالم میں یقینی طور پر اسلام کا عقیدہ توحید سب
سے زیادہ خالص اور رفیع الشان ہے۔ یہ عقیدہ انسانی عقل سے کلیتاً مطابقت رکھتا ہے اور
اسی لیے سائنسی فلسفہ میں موجودہ ترقیات کا رخ بھی اسلام کے تصور توحید سے مطابقت رکھتے
ہوئے اسلام کے ساتھ یک رخی سمت کی طرف رواں دواں ہے۔
اصولِ وحدانیت
کے اظہار کی دوسری سطح خود اس کائنات کی فطرت ہے۔ اسلام پورے تکوینی نظام کو ایک وحدت
سمجھتا ہے کیونکہ اس نظام کو وجود میں لانے والی ہستی ایک خدا ہے جس نے اس کائنات کو
ایک منظّم وحدت میں پرو رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کے مختلف اجزاء اور
متفرق حصے آپس میں باہم مربوط ہیں اور یہ سب ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے مصروف ہیں۔
مقصد کی یہ یکسانیت دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق عطا کرتی ہیں۔
اصول وحدانیت
کے اظہار کا تیسرا درجہ خود انسانیت کی سطح پر۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق تمام انسان
خواہ وہ رنگ کے اعتبار سے سفید ہوں یا کالے، لال ہو یا پیلے، یورپی ہو یا افریقی، مغربی
ہو یا مشرقی اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خاندان اور کنبہ ہیں۔ اسی اصول اور عالمی
برادری کے تصور پر اسلام انسانی حقوق کی بنیاد رکھتا ہے جو سماجی تعلقات کے دائرے میں
اسلام کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ یہاں ہم اسلام کے جملہ انسانیت کے بارے میں عالمگیر
تصور کے نقیض کے طور پر، عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کے قومی و نسلی تفاخر اور احساس
برتری (Superiority Complex) کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتے
ہیں۔
اصول وحدانیت
کے اظہار کی چوتھی سطح علم کا میدان ہے۔ جس طرح دنیا کے مختلف حصے اور مختلف چیزیں
باہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اسی طرح علم کے مخٹلف شعبہ جات (بظاہر مختلف
و متضاد نظر آنے کے) آپس میں باہم مربوط ہیں۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق انسان کو حقیقی
علم اور اس کے صحیح فوائد صرف اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب وہ علم کو مختلف شاخوں میں
تقسیم کرنے سے گریز کرے۔ کیونکہ یہی وہ غلطی ہے جو مغربی تہذیب نے کی ہے۔ اسلام علم
کی تقسیم کے بجائے اس کی تمام شاخوں کو ایک وحدت میں سمو کر اس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا
ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اسلام نے ایک عظیم اصول تطبیق انسانوں کو عطا کیا ہے۔
اصول وحدت
کے اظہار کی پانچویں سطح خود انسان کی اپنی ذات اور شخصیت ہے۔ اسلام ان تمام مختلف
پہلوؤں اور جہتوں کو بڑی قدر اور اہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو اس کی شخصیت کے مختلف
اجزاء کی تکمیل، تزئین و آرائش کرتے ہیں، لیکن اسلام کی نظر میں پورا وجود انسانی اپنی
حقیقت کے اعتبار سے ایک وحدت ہی گردانتا ہے۔ انسان ایک عضویاتی کل
(Organic Whole) ہے اور اس کی صحیح نشوونما اس وقت ہی ممکن ہے، جب انسان
کی شخصیت کا ہر پہلو صحیح توجہ حاصل کر پائے، نہ کے انسان کی شخصیت کو مختلف خانوں
میں اس طور پر تقسیم کی جائے کہ زندگی کا ہر پہلو ایک علیحدہ اور مستقل حقیقت بن جائے۔
اسلام کی نظر میں دینی و دنیاوی کی تقسیم اجنبی ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کا انسانی شخصیات
کے بارے میں نقطہ نظر دوسرے مذاہب کے پیش کردہ انسانی شخصیت کے جزوی تصورات کی مکمل
ضد ہے اور دوسری طرف یہ مغرب کے تصور انسان کی بھی نفی ہے۔
اسلامی
نظریہ حیات کی بنیاد وحی ہے:
اسلامی
نظریہ حیات کی چوتھی خصوصیت اس کا اس بات پر اصرار ہے کہ انسانی رہنمائی اور ہدایت
کے لیے بنیادی ذریعہ وحی خداوندی ہے۔ اسلام اس حقیقت کی تعلیم دیتا ہے کہ جب اللہ سبحانہ
وتعالیٰ نے پہلے انسان ‘‘آدم ’’ کو پیدا فرمایا تو ان پر ‘‘تمام اشیاء’’ کی معرفت کو
آشکارا فرمایا۔ آپ کو رب تعالیٰ نے اپنی نعمت عظمیٰ بصورت نبوت عطا فرمائی اور آپ کا
اپنا نبی مکرم بنایا۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اقوام عالم کی ہدایت کے لیے
انبیاء و رسل کے سلسلۃ الذہب (Golden Chain) کو جاری فرمایا۔ انسان
کے رشد و ہدایت کا یہ آسمانی سلسلہ نبی آخرالزماں جناب محمد الرسول اللہﷺ کی بعثت مبارکہ
تک جاری و ساری ہے۔ سرکار ختمی المرتبﷺ کی آمد مبارک کے بعد وحدی کے اس دروازے کو ہمیشہ
کے لیے سربمہر کردیا گیا۔ چنانچہ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق یہ وحی خداوندی ہی کا
سرچشمہ ہے جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں از اول تا آخر تا بعثتِ محمدیﷺ انسانی تہذیب
کے سوتوں اور جڑوں کو سرسبز و شاداب رکھا ہے۔
چنانچہ
یہ وحدی خداوندی ہے جس کے ذریعہ سے پوری تاریخ میں انسانی فکر و نظر اور عقل دانش کو
جلا ملی اور پھر بعثت محمدیﷺ کے ذریعے انسان عقلی بلوغ تک پہنچا۔ چنانچہ اب محمدﷺ کے
بعد اسے کسی اور الہامی رہنمائی کی ضرورت باقی نہ رہی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آخری وحدی
اور ہدایت قرآن کریم اپنی خالص اور اصلی شکل میں آج تک باقی ہے اور (انشاءاللہ) یہ
کتاب ہدایت انسان کے پاس قیامت تک اسی طرح اپنی اصلی شکل میں موجود رہے گی۔
مذکورہ
صراحت سے جو اصول مترشح ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت کی نجات اور کامیابی ہمیشہ سے
وحی الٰہی پر موقوف رہی ہے اور یہ وحی خداوندی ہے جو آئندہ بھی انسانیت کے فلاح و نجات
کے لیے اساس اور بنیاد کے طور پر کام دے گی۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسلام
انسانی عقل کو اس کے جائز مقام اور منصب سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ بغیر کسی شک و شبہ
کے اسلام انسانی معاملات اور احوال میں عقل کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور اس کے ساتھ
ساتھ عقل کی اس صلاحیت کو مختلف شاخوں کی ترقی کے لیے ضروری سمجھتا ہے لیکن اس کے ساتھ
ساتھ وہ انسانی عقل کی حدبندیوں کے تعین پر بھی زور دیتا ہے، مثلاً اسلام کے مطابق
انسانی عقل اس صلاحیت سے قطعی طور پر محروم ہے کہ وہ انسانی کے بنیادی اور حقیقی مسائل
کو حل کرسکے۔ سماجی معاملات کے دائرے میں اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر انسان کو
وحی سے محروم کرکے اسے اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو انسان
کو بڑی بڑی ٹھوکریں لگنی شروع ہوجائیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل انسانی کی موجودہ
استعداد و صلاحیت دراصل تاریخ کے گذشتہ ادوار میں وحی خداوندی اور ہدایت سماوی کی تہذیب
و تربیت کے بدولت ہی ممکن ہوسکی ہے۔
انسان کے
خلیفہ اللہ ہونے کا تصور:
اسلامی
نظریہ حیات کی پانچویں بنیادی خوبی انسان اور اس کے دنیا کے ساتھ صحتمند تعلق پر مبنی
ہے۔ اسلام زمین پر انسان کے شرف و تکریم کے لیے اس کے خلیفۃ اللہ ہونے کا اعلان کرتا
ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اعلان کی اہمیت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان
اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے زندگی کے جملہ معاملات کے برتنے میں اپنی ذمہ
داری کا احساس کرتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے ہو یا دوسروں کے معاملات
سے، معاملہ کو نوعیت اخلاقی ہو یا معاشی، سیاسی ہو یا زندگی کا کوئی دوسرا گوشہ۔ یہی
وہ مہتمم بالشان تصور ہے جو انسان کے لیے متحرک اور ہمہ جہت روحانیت
(Spirituality) کے دروازوں کو کھول دیتا ہے اور قافلہ انسانیت کو حقیقی
معنی میں ایک صحتمند اور توانا تہذہب کی تعمیر کی شاہراہ پر گامزن کردیتا ہے۔
جبکہ دوسرے
مرحلے میں خلیفۃ اللہ کا منصب، دراصل اس حقیقت کا متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان
کو جو صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں ان کے ذریعے انسان کی کائناتی قوتوں کو مغلوب اور مسخر
کرکے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ اس کا یہ عمل انسان کو اس کے رب کی صفت تخلیق کا
عکس اور مظہراتم بنادیتا ہے۔
انسان کے
بارے میں یہ اسلام کا وہ انقلابی تصور ہے جس کو اسلام نے پہلی مرتبہ انسانی فکر کے
کارواں میں متعارف کروایا۔ یہی وہ انقلابی فکر و نظریہ ہے جس کے ذریعے قرآن کریم نے
ایک طرف انسان کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے دروازوں کو کھول دیا اور دوسری
طرف مظاہر فطرت کی عبادت کے تصور کو تہہ و بالا کردیا، جس نے دنیا کے مشرکانہ مذاہب
کے حلیہ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
اسلام حقیقی
اور مکمل جمہوریت ہے:
اسلامی
نظریہ حیات کی چھٹی سیاسی خصوصیت اس کا مکمل طور پر جمہوریت پر مبنی ہونا ہے۔ اسلام
جس معاشرہ کی تعمیر کرتا ہے وہ بیک وقت روحانی جمہوریت، سوشل (سماجی و معاشرتی) جمہوریت
اور سیاسی جمہوریت کے تصور پر مبنی معاشرہ ہے۔ اسلام میں مذہبی پیشوائیت کوئی مستقل
ادارہ نہیں ہے یعنی مسلمانوں میں دین کے نام پر کوئی مراعات یافتہ طبقہ
(Privileged Class) نہیں پایا جاتا اور نہ ہی مذہبی پیشوائیت کا ایسا کوئی سلسلہ
ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرے۔ جبکہ دوسرے تمام مذاہب
عالم مذہبی پیشوائیت کو قائم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بالآخر چند افراد پر مشتمل ایک
مذہبی اور روحانی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔ اسلام اس پہلو سے ایک ایسی سماجی و معاشرتی
جمہوریت قائم کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں درجہ بندی سے پاک ایسا معاشرہ قائم ہو
جہاں معیار فضیلت قبیلہ، خاندان، نسل، دولت نہ ہو بلکہ کسی شخص کی صرف انتظامی و تنظیمی
قابلیت اور رہنمائی کی صلاحیت بھی اس کو شرف و فضیلت عطا نہیں کرتی بلکہ اسلام کی نظر
میں کردار ہی تمام اوصاف پر فوقیت اور فضیلت رکھتا ہے۔
اسلام،
انسانی معاشرہ میں سیاسی جمہوریت کا حامی ہے کیونکہ اس معاشرہ کی اساس جس بنیاد پر
قائم ہوتی ہے وہ یہ ہے ‘‘خدا کی حکومت لوگوں کے لیے، لوگوں کے ذریعے’’۔ اسلام جب اللہ
تعالیٰ کی حاکمیت پر زور دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی انسان کو یہ حق نہیں
کہ وہ دوسرے انسانوں پر حاکم ہو۔ ریاست کا حاکم یا سربراہ، اس کی کابینہ اور اس کی
پارلیمنٹ، یہ تمام وہ ادارے اور نمائندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت انسانوں
کے منتخب کردہ ہیں لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ان نمائندوں کا انتخاب خدائی اختیار
کو انتظامی معاملات کے بروئے کار لانے کے لیے عامۃ الناس خلیفہ اور عوامی نمائندوں
کی حیثیت سے روبہ عمل لایا جاتا ہے۔ اسلامی تصور سیاست و ریاست میں اہمیت صرف قانون
کی ہے۔ اسلام تمام لوگوں کو قانون کی نگاہ میں برابر سمجھتا ہے۔ اس طرح اسلام نے ایک
طرف بادشاہوں کے ‘‘خدائی حق’’ کے قدیم تصور کو کچل کر رکھ دیا اور دوسری طرف اس جدید
تصور حکمرانی کو بھی ختم کردیا جس کے تحت ریاست کے سربراہ کو تمام لوگوں کے مقابلے
میں خصوصی اختیارات و مراعات حاصل ہوتے ہیں۔
یہاں اس
بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جدید (لادینی) جمہوریت جس تصور کے تحت قائم ہوتی ہے وہ
‘‘عوام کی حکومت’’ کا تصور ہے۔ جو کبھی بھی حقیقت پسندانہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ نظریہ
پارٹی سسٹم پر مبنی ہے جبکہ اسلامی جمہوریت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت (نہ کہ عوام کی حاکمیت)
اور غیرجماعتی اصول پر مبنی ہے اور یہ اس لیے ہے کہ جدید جمہوریت میں قانون سازی کا
حق عوام کے پاس ہے۔ جس کا مطلب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اکثریت (کی رائے ہی قابل قبول و
نفاذ ہے) جبکہ اسلام میں قانون سازی کا حق صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے۔ یعنی اسلامی
ریاست کا ہر ہر باشندہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اظہار اپنے ارادہ کے ذریعے کرتا ہے۔
اصول توازن:
اسلامی
نظریہ حیات کی ساتویں خصوصیت اس کا اصول توازن ہے۔ اسلام نے اپنے عمومی اسلوب میں ہمیں
اپنے نقطہ نظر اور اعمال میں درمیانی راہ کو اختیار کرنے کا قانون وضع کیا ہے۔ اس اصول
کا اظہار مختلف سطحوں پر ہوتا ہے۔ مثلاً
غیراسلامی
مذاہب اور نظریات کی بڑی خامی یہ ہے کہ وہ یک رخی اور یک طرفہ ہیں۔ وہ یا تو اس دنیاوی
زندگی کو قربان کرنے کی تعلیم دیتی ہے یا آخرت سے صرف نظر کی۔ جبکہ اسلام دنیاوی نظاموں
اور اخروی ضروریات کے درمیان ایک خوشگوار توازن قائم کرتا ہے اور یہی وہ متوازن نظریہ
ہے جو سچی اور حقیقی کامیابی کو یقینی بناتا ہے۔
چنانچہ
اسلام نہ ‘‘ڈھیلا ڈھالا’’ نظام ہے اور نہ ہی ‘‘سخت گیر’’ بلکہ اسلام ایک طرف ‘‘مستقل’’
اور ‘‘بدلتی’’ ہوئی قدروں کے درمیان قرآن و سنت کی صورت میں اٹل، ابدی اور غیرمتبدل
قوانین عطا فرماتا ہے جبکہ دوسری طرف بدلتے حالات و رجحانات میں انسانی مشکلات و مسائل
کی رعائیت رکھتے ہوئے قابل عمل تطبیق و توافق پیدا کرنے کے لیے اجتہاد کے ادارے کے
قیام کی صورت میں انسانوں کا نگہبان ہے۔ اسلام جن غیرمبتدل احکامات و قوانین پر اصرار
کرتا ہے یہ ہر زمانے کے لیے ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت کے اصولوں پر مبنی ہیں اور انسانی
فطرت غیرمبتدل ہے جبکہ انسانی مسائل کی نوعیت ایک گروہ سے دوسرے گروہ میں بدلتی رہتی
ہے اسی لیے اسلام ‘‘اصول لچک’’ کی اجازت دی ہے(تاکہ انسانی معاشرہ جمود اور تعطل کا
شکار نہ ہو)۔
معاشرے
کے عمومی مزاج و نظریہ کے مطابق اسلام نہ تو فرد کے مفادات کو قربان کرتا ہے اور نہ
ہی معاشرے کے مطالبات کو بلکہ دونوں کو اس کا جائز حق دیتا ہے۔ سیاست کے دائرہ میں
اسلام ریاست اور عوام کے حقوق کے مابین نہایت صحتمند توازن قائم کرتا ہے تاکہ معاشرے
سے مطلق العانیت اور انارکی کا خاتمہ ہو؟ جبکہ معاشیات کے دائرے میں اسلام سرمایہ اور
مزدور کے مابین، دونوں کے اصل حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے توازن قائم کرتا ہے اور اس
طرح سرمایہ داریت (Capitalism) اور کمیونزم (Communism) کے مابین راہ اعتدال
اختیار کرتا ہے۔
مکمل نظریہ
حیات اور جامع نظام زندگی:
اسلامی
نظریہ حیات کی آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ صرف نظری نہیں بلکہ عملی نظام زندگی بھی ہے۔
حضورﷺ نے اپنے آپ کو صرف وعظ و نصیحت اور اخلاقی اصولوں کو بیان کرنے تک محدود نہیں
رکھا بلکہ جو کچھ آپ نے دوسروں کو سکھایا اور پڑھایا، پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوئے۔
جیساکہ آپ کی تعلیم زندگی کے ہر ہر پہلو کو محیط ہے ویسے ہی آپ کی عملی زندگی، حیات
انسانی کے تمام پہلوؤں کے لیے بطور جامع اور کامل نمونہ کے موجود ہے۔ اسلام نے انسان
کو صرف عقائد و کردار کا درس نہیں دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مکمل نمونہ
(Role-Model) بھی
فراہم کیا۔ چنانچہ اسلام کی یہ خوبی معلوم انسانی تاریخ میں منفرد و یکتا ہے۔
سادگی:
اسلامی
نظریہ حیات کی نویں خوبی اس کی سادگی ہے۔ اسلام کا عقیدہ ‘‘لاالہ الااللہ محمد رسول
اللہ’’ نہایت سادہ اور واضح ترین عقیدہ ہے۔ اسلام نہ تو کسی پراسرار عقیدہ کی تعلیم
دیتا ہے اور نہ ہی کسی خاص رسوم و رواج کی (بلکہ اسلام میں عقیدہ، اخلاق، کردار، سیرت
سازی، اخروی نجات و عذاب) جیسے جملہ معاملات ایک سادہ ترین عقیدہ سے جڑے ہوئے ہیں اور
وہ ہے ‘‘لیس الانسان الا ماسعی’’ یعنی انسان کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ محنت
کرتا ہے۔
اسلام اور
عقل صالح حلیف ہیں:
اسلامی
نظریہ حیات کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ عقل صالح کی حلیف ہے۔ اسلام، عیسائی عقیدہ
کے برخلاف کسی اندھے ایمان کا تقاضا ان الفاظ میں نہیں کرتا ‘‘کہ تم بغیر سمجھ کے ایمان
لے آؤ تم محفوظ ہوجاؤ گے’’۔ قرآن کریم ہر ہر صفحہ پر (انسانوں) سے پرجوش اپیل کرتا
ہے کہ وہ حق اور سچ کے سمجھ، اور قرآن کریم کی تعلیم کے حسن اور عظمت کی تفہیم کے لیے
عقل و خرد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ یہ بات دنیا کے کسی اور مذہب کے بارے میں
نہیں کی جاسکتی۔
انسانی
مسائل کے دائرہ میں اسلام نے انسانی عقل کے کردار اور وحی کی روشنی کے مابین توازن
قائم کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام طبعی علوم کے فروغ پر بھی خصوصی زور دیتا ہے
کیونکہ اسلام کے مطابق ان علوم کا حصول ایک مقدس فریضہ ہے قرآن کریم کا اپنے ہر ہر
صفحہ پر انسان سے پرجوش اور متاثرکن اپیل کرتا ہے کہ وہ حق و سچ کی تفہیم اور قرآن
کریم کی تعلیم کی خوبصورتی و عظمت کے لیے اپنی عقل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔
یہ بات دنیا کے کسی اور مذہب کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی ہے (یعنی کہ وہ عقل انسانی
کی فکری صلاحیت کو مذاہب کی تعلیمات کے فہم و اداراک کے لیے اس قدر آزادی دینے کا تصور
بھی کرسکے)۔
اسلام نے
نہ صرف یہ کہ انسانی مسائل کے دائرہ میں عقل انسانی اور وحی خداوندی کے مابین توازن
قائم کیا ہے بلکہ وہ طبعی سائنسی علوم کے فروغ و حصول پر خصوصی زور دیتا ہے۔ قرآن اس
پورے سلسلہ فروغ و حصول علوم (سائنسی و غیرسائنسی) کو ایک مقدس فریضہ گردانتا ہے۔ اسی
لیے قرآن اپنے ہر ہر صفحہ پر نہایت پرجوش اور متاثر کن طریقے سے اپیل کرتا ہے کہ مختلف
فطری مظاہر کی بحث و تفتیش ہوتا کہ کلمۃ اللہ کے جلوؤں کا دیار ‘‘خلق اللہ’’ میں کیا
جاسکے (اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا) کہ فطری قوتیں انسانی تقدیر کے ‘‘خلیفہ اللہ’’
کے منصب کے شعور میں پختگی و اضافہ کا باعث بن سکیں۔ تاہم اسلام میں سائنسی بحث و تحقیق
روحانی تناظر میں ہوگی نہ کہ الحاد و مادیت کے فروغ کے لیے جیساکہ بڑی بدقسمتی سے آج
مغرب میں ہورہا ہے۔
اختتامیہ:
ہم نے مختصراً
مغربی تہذیب کی نوعیت اور اسلامی نظریہ حیات کی بنیادی خصوصیات کا مذکورہ بالا سطور
میں جائزہ لیا ہے اور جس نتیجہ پر ہم پہنچ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب
کا نقطہ نظر مادیت زدہ اور لذت پرستانہ ہے جو اسلامی نقطہ نگاہ اور (نظریہ حیات) سے
بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اسلام نہ تو تنگ نظر ہے اور
نہ ہی رجعت پسند بلکہ اسلام تو ہر خیر کے کام میں دست تعاون کو دراز کرنے کا علمبردار
ہے اور یہ اسلام ہی جو تمام معاملات میں اصلی اور حقیقی ترقی کو قبول کرنے کے لیے ہمہ
وقت تیار ہے۔ کیونکہ قرآن کریم ہر اچھائی اور بھلائی کے فروغ اور اس معاملے میں تعاون
کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
وتعاونوا
علی البر والتقوی
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں پر
ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔
جبکہ اسلام
کی وسعت نظری کے حوالے سے فرمان رسول اللہﷺ ہے:
’’الحکمۃ
ضالۃ المومن من حدیث وجدھا ھوا حق بھا‘‘
ترجمہ: حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔
واضح رہے
کہ مغرب جس دانش و حکمت کو ہمیں دے سکتا ہے وہ صرف مغرب کی ٹیکنالوجی کے میدان کی کامیابیاں
ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو اس دانش کے حصول سے روکنے کے لیے کوئی روڑا نہیں اٹکاتا (لیکن
اس میں کوئی شک نہیں کہ) مغرب کی لذت و شہوت پر مبنی ثقافت اپنے جملہ پہلوؤں میں زہرہلاہل
ہے اور اس تہذیب و ثقافت کو اختیار کرنے کا معیٰ سوائے اسلام کو تباہ کرنے کے کوئی
دوسرا نہیں ہے۔
اسلام کی
خود اپنی مستقل تہذیب و ثقافت ہے اس لیے وہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ
ان بنیادوں کو بدل دے اور اس کے ثقافتی و تہذیبی اصولوں کو اجنبی خیالات، افکار اور
مثالیوں (Ideals) سے متغیر کردے۔
یہ وہ حقیقت
ہے جو پوری مسلم دنیا کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیے قبل اس
کے کہ بہت دیر ہوجائے اور اس حقیقت کو قبول کرنے کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ موجودہ
افراتفری کی کیفیت کو مکمل طور پر ختم کرکے اسلام کے سماجی فلسفہ اور اسلام کے نظام
تعلیم کی طرف رجوع کیا جائے جو اس امر کو یقینی بنادے گا کہ اہل دانش کی صفوں میں ہمہ
جہت اسلامی شخصیات کی تعداد میں اضافہ ہو۔
الحمدللہ
رب العالمین
تمام تعریفیں
اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
Post a Comment