سوال نمبر1:رحمت کیا ہے ؟

رحمت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ارادے کو کہتے ہیں ، جب اللہ کسی نیک بندے کوثواب اور جزاء دینے کا اِرادہ کرتا ہے تو اُسے رحمت کہتے ہیں  اس کا ارادہ اس کی صفتِ قدیمہ ہے۔اللہ کا اپنی مخلوق پر کرم ہے  کہ اس نے اپنے آپ پر رحمت فرض کر لی ، ( كتب ربكم على نفسه الرحمة ) [ الأنعام : 54 ]

تمہارے رب نے اپنے ذمہ رحمت لازم کی ہے

 اور خود اپنی ہی مشیئت اور ارداے سے کر لی ،یہ کسی جبر یا کسی اور باعث نہیں ہے ، یہ سب اللہ کی عظیم تر بزرگی ربوبیت ہے اور اس کا اپنی مخلوق پر رحم و شفقت ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کے ساتھ اپنے رویے کے لیے یہ قانون بنا لیا کہ وہ اُس کے ساتھ رحم والا معاملہ ہی فرمائے گا ، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔

ققُلْ لِّمَنْ مَّا فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۖ قُلْ لِّلّـٰهِ ۚ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْـمَةَ ۚ لَيَجْـمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۚ اَلَّـذِيْنَ خَسِرُوٓا اَنْفُسَهُـمْ فَهُـمْ لَا يُؤْمِنُـوْنَ۔( سورۃ الأنعام:آیت 12)

ان سے پوچھو آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے، کہہ دو سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے اپنے اوپر رحم لازم کر لیا ہے، وہ قیامت کے دن تم سب کو ضرور اکھٹا کرے گا جس میں کچھ شک نہیں، جو لوگ اپنی جانوں کو نقصان میں ڈال چکے وہ ایمان نہیں لاتے۔

لہذا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی اصل بنیاد ہے ، بنیادی قانون ہے جس کے مطابق وہ اپنی مخلوق کے معاملات نمٹاتا ہے ، حتیٰ کہ جب وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو کسی مُصیبت ، کسی پریشانی ، کسی غم ، کسی بیماری وغیرہ میں مبتلا کرتا ہے تو وہ بھی اس کی رحمت ہی ہوتی ہے۔ اس دکھ ،درد یا بیماری  و دیگر آزمائشوں سے صبر و استقامت سے گزرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دُنیا اور آخرت کی عزت اور بلندی عطاء فرماتا ہے ،

ایک دفعہ رسول اللہﷺ کے سامنے کچھ قیدی لائے گئے ۔ ان میں ایک ایسی عورت بھی تھی ( جو اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے بے تاب تھی اور وہ قیدیوں میں (اپنا) بچہ ڈھونڈھ رہی تھی جو اسے مل گیا تو اس نے فوراً اس کو پکڑ کر اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا اور اسے دودھ پلانے لگی (یہ منظر دیکھ کر ) رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا  أَتُرَونَ هَذهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا في النَّارِ

 کیا تُم لوگ یہ خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟  ہم سب نے عرض کیا  لَا وَهِيَ تَقدِرُ على أَن لَا تَطرَحَهُ

 جی نہیں باوجود اس کے کہ یہ عورت ایسا کرنے کی طاقت رکھتی ہے ( یہ عورت ایسا نہیں کرے گی ) تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا  لَلَّهُ أَرحَمُ بِعِبَادِهِ من هذه بِوَلَدِهَا  یہ عورت اپنے بچے پر جس قدر رحم کرتی ہے اللہ تو اپنے بندوں کے ساتھ اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ( متفقٌ علیہ)

حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا  جَعَلَ الله الرَّحمَةَ مِائَةَ جُزءٍ فَأَمسَكَ عِندَهُ تِسعَةً وَتِسعِينَ وَأَنزَلَ في الأرض جُزءًا وَاحِدًا فَمِن ذلك الجُزءِ تَتَرَاحَمُ الخَلَائِقُ حتى تَرفَعَ الفُرسُ حَافِرَهَا عن وَلَدِهَا خَشيَةَ أَن تُصِيبَهُ

 اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس روک لیے اور زمین میں ایک حصہ نازل فرمایا پس اسی ایک حصے میں سے تمام تر مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک ایک گھوڑی اپنے ناخن تک اپنے بچے سے دور رکھتی ہے کہ کہیں وہ ناخن اس بچے کو تکلیف نہ دیں ( متفقٌ علیہ)

سوال نمبر3: کیا رحمت خداوندی کی کوئی حد ہے؟

اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ اس کی رحمت کی وسعت  کو بیان کرنا کسی انسان کے بس کا کام ہی نہیں ، کیونکہ وہ سب کچھ کسی انسان کے بیان میں آ ہی نہیں سکتا ،اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں انسانوں کے خالق کی وحی کا ذریعہ ہی اپنانا ہو گا کیونکہ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں خود مخلوق سے زیادہ جانتا ہے۔

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ(الاعراف:156)

اور میری رحمت سب چیزوں سے وسیع ہے،

س2:حضور ﷺ سراپا رحمت ہیں اس پر روشنی ڈالیں

اللہ کا صفاتی نام، رحمان رحمت عالم کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو دوست و دشمن ، مومن و کافر، نیک و بد ، غرض سب کے لئے ہے۔ کیونکہ اس کی بے حساب رحمت کی بارش سب کو پہنچتی ہے ۔جس کی وجہ سے اس دنیا میں کافر کو بھی رزق و دیگر اسباب مہیا ہیں۔ یہ وہی رحمت عمومی ہے جس نے عالم ہستی کا احاطہ کر رکھا ہے اور سب کے سب اس دریائے رحمت میں غوطہ زن ہیں۔

اللہ کا صفاتی نام رحیم  رب کی رحمت خاص کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو اس کے مطیع، صالح، اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ مخصوص ہے۔اسی لئے آخرت صرف مومنین کے لئے خاص ہے اور کافرین و مشرکین کا وہاں کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ وہ مستحق عذاب ہیں۔

ایک چیز جو ممکن ہے اسی مطلب کی طرف اشارہ ہو یہ ہے کہ لفظ ”رحمان“ قرآن میں ہر جگہ مطلق آیا ہے جو عمومیت کی نشانی ہے جب کہ رحیم کبھی مقید ذکر ہوا ہے مثلا وکان بالمومنین رحیما (خدا، مومنین کے لئے رحیم ہے) ۔ (احزاب ۴۳)۔ اور کبھی مطلق جیسے کہ سورہ حمد میں ہے ۔


 

حضور ﷺ نفسِ رحمت ہیں۔ اس کی تائید قرآن مجید سے ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ (الأنفال، 8: 33)اور  اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب نازل کرے درآنحالیکہ  آپ بھی ان میں  ہوں۔

اگر رحمت ہو تو وہاں عذاب نہیں ہو گا۔ اورحضور ﷺ سراپا رحمت ہیں تو آپ ﷺ کے ان میں ہوتے ہوئے اس قوم پر عذاب  نہیں ہوگا ۔

آپ سراپا رحمت ہیں اور رحمت کے ساتھ ہی مبعوث ہوئے اور آپ ﷺ کی پوری شریعت کے تمام احکام ، وہ عقائد سے متعلق ہوں یا عبادات کے  ہوں یا انسانوں کے ساتھ معاملات کے ، وہ سراسر رحمت ہی رحمت ہیں ۔شریعت پر عمل کی لذت جو عمل کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہے  وہ  دنیا کی دیگر نعمتوں ، کھانے پینے، پہننے، رہنے سہنے، کی تمام لذات سے اعلیٰ ہوتی ہے اور سب کا اصل منبع ومصدر اور سرچشمہ حضرت رحمت للعالمین کی لائی ہوئی شریعت ہے جو تمام بنی بشر کے لئے رحمتِ عامہ ہے۔


رحمت پر کچھ اشعار

فقط امید ہے بخشش کی تیری رحمت سے

وگرنہ عفو کے قابل مرے گناہ نہیں

آباد لکھنوی


سو بار بھی توبہ کو اگر توڑ چکا ہے

رحمت مری کہتی ہے کہ سو بار چلا آ

(ارشاد عرشی ملک)

 

ناامید اہل خرابات نہیں رحمت سے

بخش دے گا وہ کریم اپنے گناہ گاروں کو

مردان علی خاں رانا

 

یا رب تری رحمت کا طلب گار ہے یہ بھی

تھوڑی سی مرے شہر کو بھی آب و ہوا دے

وزیر آغا

 


ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

الطاف حسین حالی


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post